حیران کن سوال
کامیابی کیا ہے؟ اس سوال کی وجہ سے مجھے اندرونی کشمکش سے گزرنا پڑا۔ اس نے میرے ذہن کو گھُلا کر رکھ دیا۔’’ اکثر لوگ کامیابی کی جستجو میں غلط راستے اختیار کرتے رہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ موتیوں کی تلاش میں صحرا کی خاک چھاننے والے کی طرح ناکامی و نامرادی، اور جسمانی و ذہنی اذیت کے سوا ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا‘‘ ۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں لوگوں کے نزدیک کامیابی کا جو تصور تھا اور آج کامیابی کے سلسلے میں لوگوں کا جو نظریہ ہے ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ اور اس فرق کی وجہ سے ایک غیر معمولی کشمکش برپا ہوئی۔ بہت سی چیزوں کے معانی و مفہوم بدل گئے اور کامیابی کی جستجو کا طریقہ بھی بدلتا گیا۔
کامیابی دولت کی فراوانی میں!
کیا بھاری بینک بیلنس کا نام کامیابی ہے؟ کیا اونچی اونچی بلڈنگوںکی تعمیر میں مقابلہ اور ان پر فخر ومباہات کامیابی ہے؟ کیا یہی کامیابی ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اِن کے مال و دولت اور ان کی کثرت اولاد کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھاؤ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اِنہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے اور یہ جان بھی دیں تو انکار حق ہی کی حالت میں دیں‘‘ (التوبہ: 55)۔ ایک دوسری جگہ فرمایا:’’وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال ہمیشہ اُس کے پاس رہے گا‘‘ (الھمزۃ: 3) ۔ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ہلاک ہوجائے درہم و دینار کا بندہ‘‘ (بخاری 2887) ۔ ہاں جو صرف مال سیمیٹنے کے لیے جیتا ہے ،اس کے حصے میں ہلاکت اور بدبختی کے سوا اور کیا آسکتا ہے۔ درہم و دینار کے بندوں کی بھاگ دوڑ اور ان کی بد بختی کا نقشہ یوں کھینچا گیا:’’جس کا مقصود دنیا ہو اللہ تعالیٰ اس کی نگاہوں کے سامنے فقر رکھ دیتا ہے اور اسے پراگندہ وپریشان کردیتا ہے اور دنیا اسے اتنی ہی ملتی ہے جو اس کے لیے مقدر ہے‘‘ (ترمذی: 2465) بے شک بہت سے اچھے مقاصد کے لیے بھی مال جمع کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ زندگی کا مقصود اور ایک عمر کا حاصل بن جائے تو یہ صرف اور صرف بدبختی ہے۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو اربوں کی دولت کے مالک ہیں لیکن خوف اور بے چینی کی زندگی جیتے ہیں۔ کتنے ہی مالدار ایسے ہیں جن کی زندگی میں بربادی کے سوا کچھ نہیں!! ہرگزقابل رشک نہیں ہے اس کی زندگی!! کتنے دنوں تک جیے گا وہ؟ مال جمع کرنے کے علاوہ اس کے پاس اور کتنا وقت ہے؟
کتنے ہی مالدار ایسے ہیں کہ مال کی فراوانی کی وجہ سے بہت سی حلال چیزوں سے محروم رہتے ہیں، وہ آزادی کے ساتھ گھوم پھر نہیں سکتے۔ اپنی مرضی کی نیند سو نہیں سکتے۔ کتنے ہی ایسے ہیں کہ آخر عمر میں ان کی ساری جمع پونجی لٹ جاتی ہے۔ اور پھر وہ اور ان کی حسرت بھری زندگی!! کیا ہم اسے کامیابی کا نام دے سکتے ہیں؟
کامیابی شہرت و نمود میں!
انسانی سماج کے اندر نہ جانے کتنے ہیں جو اونچے منصب والے ہیں۔ لوگ اپنی مجلسوں میں ان کے تذکرے کرتے ہیں اور دوسروں کے سامنے ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہرت پانے والے کتنے ہی لوگ بد بختی کی زندگی جی رہے ہیں۔ نہ جانے کتنے ہی ایسے ہیں کہ شہرت کی بلندیوں پر ہونے کے باوجود ان کی بس یہ تمنا ہوتی ہے کہ عام لوگوں کے درمیان وقت گزاریں، جہاں جھوٹی تعریفیں کرنے والا کوئی نہ ہو۔ کتنے ہی ایسے انسان ہیں جو لوگوں کے سامنے میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں ، ان کے ہونٹوں پر ہنسی کھیل رہی ہوتی ہے، پر جب کبھی تنہائی میں ہوتے ہیں، تو ان کا دل بجھا بجھا سا رہتا ہے، وہ اپنی حالت پر جلتے اور کڑھتے ہیں۔ کیا ایسے لوگ نہیں دیکھے ہم نے جو جاہ و منصب کے مالک ہیں لیکن ان کا گھر تباہ ہو چکا ہے، ان کی اولاد بگڑ چکی ہے اور خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ہے۔ کیا ایسی شہرت کامیابی ہے؟
لامحدود کامیابی
کامیابی وہ لفظ ہے کہ اکیسویں صدی کا ہر انسان اس کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ مال بعض صورتوں میں مطلوب ہونے کے باوجود اصل کامیابی نہیں۔ کامیابی نہ شہرت کا نام ہے اور نہ اولاد اور جھوٹی تعریفوں کا، بلکہ لامحدود کامیابی کا راز تو انسان کے اندورن میں پنہاں ہے۔ کامیابی ’’ایسی معنوی چیز ہے جسے نہ آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے، نہ ترازو سے تولا جا سکتا ہے، نہ خزانے میں پوشیدہ ہے اور نہ اسے مال سے خریدا جا سکتا ہے‘‘ زندگی کا سب سے بڑا معرکہ وہ ہے جو نفسِ انسانی کے اندرون میں برپا ہوتا ہے۔ہماری موجودہ صدی کشمکش اور تیز رفتار تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ ہماری زندگی میں پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں، کبھی روزگار کی پریشانی تو کبھی اہل و عیال کی پریشانی۔ اور صرف اتنا ہی نہیں کبھی تو تفریحات بھی ہمارے لیے اذیت ناک بن جاتی ہیں۔ اس تھکن اور الجھن بھری زندگی کے درمیان رات کی تاریکی چھٹنے لگتی ہے اور آپ اس حقیقت کو پا لیتے ہیں کہ لامحدود کامیابی کا راز تو اندرون میں برپا معرکہ میں کامیابی اور اندر کی دنیا کو بدلنے میں پوشیدہ ہے۔
چھوٹی کامیابیوں پر کیا ریجھنا !
یقینا بہت سی وہ چیزیں جنہیں ہم کامیابی سمجھتے ہیں وقتی اور ناپائیدار ہوتی ہیں۔ یہ کامیابی کی وہ عمارت ہے جو کہ اندررونی فریب اور ظاہری دکھاوے پر کھڑی ہوتی ہے۔ انسان کے اندر کی دنیا اور بیرونی مظاہر کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہونے کی وجہ سے اس کا بیرون اس کے اندرون کی مخالف سمت اختیار کرلیتا ہے۔ اوراس طرح دونوں کے درمیان ایک جنگ اور ایک کشمکش برپا ہوتی ہے اور کوئی ایک اس معرکے کو سر کر لیتا ہے۔ اگر بیرونی مظاہر نے معرکہ جیت لیا تو انسان ظاہری، وقتی اور وہمی چیزوں کو ہی کامیابی سمجھ کر دوسروں کے سامنے اس کی نمائش کرتا پھرتا ہے۔ لیکن اس کشمکش میں اگر اندرون جیت جائے تو یہ سمجھو کہ یہی لامحدودکامیابی ہے۔ آپ اللہ کے رسولﷺ کی اس حدیث پر غور کریں جس میں ان تین لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہیں جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ (مسلم: 1905) ان میں سے ایک قاریِ قرآن بھی ہوگا جس نے قرآن اس لیے سیکھا تھا کہ اسے قاری کہا جائے سو (دنیا میں ہی) اسے کہا جا چکا۔ دنیا کی نظر میں یہ کامیابی اور شخصیت کا زیور ہے ، لیکن اندر کی دنیا تو بن ہی نہ سکی۔ حتمی نتیجہ تو اندرون کی دنیا میں جو کچھ بن سکا ہے اسی کے مطابق سامنے آئے گا۔
پھر دیر کیسی؟
کامیابی صرف دعویٰ کرنے کی چیز نہیں بلکہ محسوس کی جانے والی ایک ایسی حقیقت ہے جس کی جڑیں کامیاب انسانوں کے دلوں میں پیوست ہوتی ہیں۔ اپنے اندر اسی لامحدود کامیابی کا پودا لگاؤ۔ مت بھاگو ظاہری اور سطحی کامیابیوں کے پیچھے۔ فریب نہ کھاؤ کہ تم تو ایک طاقت ور انسان ہو ’’طاقت ور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن کے مقابلے میں بہتر اور بے حد محبوب ہوتا ہے‘‘ (مسلم :2664)۔ یہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے جو تبدیلی کے لیے قدم اٹھانے پر ابھار رہاہے۔ ارسطو نے کہا تھا ’’جن چیزوں کا سیکھنا ضروری ہے انہیں ہم اس وقت تک صحیح طریقے سے نہیں سیکھ سکتے جب تک کہ کہ ہم انہیں کر نہ گزریں‘‘ اور آغاز کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تمہارے اندر سے ایک صدا ابھرے! وہ صدا جو تمہیں تم سے روبرو کردے۔
میں کون ہوں؟
ماضی سے ہی انسانوں نے چہرے اور لباس میں نظر آنے والی کامیابی کے بجائے اندرون کی دنیا کو روشن کرنے والی کامیابی کو اپنا مقصود بنایا ہے۔ اور اس کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان اپنے اندرون کی آواز کو نہ سنے اور اپنی خودی کی تلاش میں اندر کی دنیا میں جاری کشمکش کی طرف توجہ نہ دے: میں کون ہوں؟ اس زندگی میں مجھے کیا کرنا ہے؟ میرا کردار کیسا ہو؟ میں کن لوگوں کو دوست بناوں۔ ’’جب ہم خود سے جھوٹ بولتے ہیں تو ہماری آواز بہت بلند ہو جاتی ہے اور اس کی بازگشت بڑی اذیت ناک اور تکلیف دہ ہوتی ہے‘‘ہمارے اندر باہم برسرِ پیکار متعدد آوازیں ہمیں جواب ڈھونڈنے پر مجبور کرتی ہیں اور پھر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اندر ون میں سکون قائم ہو جائے۔ ان سب کے نتیجے میں انسان کے اندر بہت زیادہ نفسیاتی دباؤ پیدا ہوتا ہے، اور اندرون میں ایک زبردست نفسیاتی کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ یہ کشمکش تمہیں خود شناسی کا جوہر سکھاتی ہے اورتم اپنے اندر کی آواز کو سننے لگتے ہو۔ یہی تمہاری جیت ہے۔ حکیم سمنون نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو اپنے معاملے میں فراست کامظاہرہ کرے اور خود شناس ہو جائے تو اس کی فراست دوسروں کے معاملے میں بھی درست ہوگی اور وہ دانا کہلائے گا۔
فراست وہ کرن ہے جو تمہارے اندر سے پھوٹتی ہے اور ان سارے سوالوں کے جوابوںپر روشنی ڈالتی ہے جن کے جوابات تمہیں نہیں مل سکے تھے۔ پھر تمہارے اندر اپنی دریافت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور دوسرے بھی اسے محسوس کرتے ہیں۔ فراست عجیب و غریب قوت ہے۔ ولیم جارج جارڈن کے الفاظ میں: ’’ہر شخص کے ہاتھوں میں اچھائی اور برائی کی ایک حیرت انگیز قوت دے دی گئی ہے۔ یہ اس شخص کی زندگی کو ایک خاموش، غیر شعوری اور ان دیکھی اثر پذیری بخشتی ہے۔ در اصل اسی سے انسان خود کو دریافت کرتاہے نہ کہ ان کوششوں سے جو وہ اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لیے کرتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو ایلیا ابو ماضی جیسے لوگوں سے پوشیدہ رہی۔ قصیدۃ الطلاسم میں وہ کہتا ہے:میں نہیں جانتا کہ میں کہاں سے آیا، بس آگیا ہوں۔ سامنے راستہ نظر آیا اور میں چل پڑا۔ میں چاہوں یا نہ چاہوں چلتا رہوں گا۔ میں آیا کیسے؟ میں نے راستہ دیکھا کیسے؟ میں نہیں جانتا‘‘۔
واقعہ یہ ہے کہ ضمیر کی آواز کو انسان سن لے تو اپنی خودی کا راز پالیتا ہے۔ اس کے بعد پھر تم تم ہوگے کوئی غیر نہیں۔ یہ اندرونی کشمکش کا حتمی نتیجہ ہے۔ فلسفی شاعر پال والیری کہتا ہے: ’’تم تم بن جاؤ، یہ بڑا ہی مشقت بھرا کام ہے‘‘۔ خود کو پالینے کے بعد تم یہ جان سکوگے کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔تمہارے اصول کیا ہیں، تمہاری قدریں کیا ہیں اور کسے دوست بنانا ہے۔ تمہارے دل میں فراست کا نور جگمگائے گا اور دل کی تاریکی چھٹتی جائے گی۔ اس روشنی میں تم دوپیمانے اور شامل کر لو۔
پہلا پیمانہ: اللہ تعالیٰ کا خوف۔ یہ پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سے مستقل تعلق اور اس احساس کے نتیجے میں کہ ایک پروردگار ہے جو تمہارے سارے کام دیکھ رہا ہے۔ انسانوں کو تم کتنا بھی دھوکہ دے لو، ان کے سامنے خود کو کتنا ہی اچھا ظاہر کر لو اور ان کی نگاہوں میں دھول جھونکنے میں کتنی بار کامیاب ہو جاؤ، انسانوں کے رب کو تم دھوکہ نہیں دے سکتے اور جو تمہیں ہر وقت دیکھ رہا ہے اس کے مقابلے میں تمہاری کوئی چال کامیاب نہیں ہو سکتی۔
دوسراپیمانہ: انبیاء کرام کا راستہ۔ صاف و شفاف راستہ۔ قر آن کی عملی چلتی پھرتی تصویر ہے یہی راستہ، سارے انسانوں کے لیے حقیقی علم کے دریچوں کو کھولنے والاراستہ۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ماضی کے دریچوں میں جھانک کر حال کی تعمیر کیسے کی جا سکتی ہے۔
اگر یہ ہوگیا تو تم پر انکشاف ہوجائے گا کہ تم کون ہو۔ تمہاری حقیقت کیا ہے ۔ اور پھرتم اپنی شخصیت کی طرف متوجہ ہو سکوگے اور اس کی تعمیر میںلگ جاؤگے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2019