تحریک اسلامی ایک ایسی تحریک ہے جس نے اشاعت دین، اسلام کی تبلیغ وترویج، اظہار دین، اقامت دین، غلبۂ دین، اسلامی معاشرے کے قیام، خدمت خلق، تعلیم کے فروغ کے لئے جدوجہد کا عہد کیا ہے۔ تحریک کو اپنا کام ایک ایسے سماج میں انجام دینا ہے جو بگاڑ کی طرف تیزی سے بھاگ رہا ہے ۔ جدید ٹیکنالوجی نے بگاڑ کی رفتار کو بڑھانے کا کام انجام دیا ہے۔ بگاڑ پر لگام لگانے اور اس پر بند باندھنے کے سلسلے میں عوام الناس تو کیا خواص بھی مایوس نظر آتے ہیں۔ سماجی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی بحران سے انسانیت پریشان ہے۔ ہر فرد چاہتا ہے کہ یہ خرابیاں ختم ہوں۔ اہم سوال یہ ہے کہ یہ خرابیاں کیسے ختم ہوں گی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کے حل کا نسخہ موجود ہے مگر اس کو اپنانے کے لئے لوگ آمادہ نظر نہیں آتے۔ وہ نسخہ یہ ہے کہ افراد اصلاح کرنے کے لئے سنجیدگی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں اور سب سے پہلے اپنے کو تبدیل کرنے کے لئے کمربستہ ہوجائیں۔ اس کے لئے صلاحیتوں کے استعمال کی ضروری استعداد اور یکسوئی کی ضرورت ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیشتر لوگوں کے اندر اس سلسلے میں سنجیدگی نہیں پائی جاتی ہے۔
اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں ایک جماعت موجود ہے جس نے اس کام کےلئے اپنے کو یکسو کیا ہے۔ جسے آپ جماعت اسلامی ہند کے نام سے جانتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے کارکن فارم بھرتے وقت عہد کرتے ہیں کہ اقامت دین اُن کی زندگی کا نصب العین ہے۔ اس نصب العین کے حصول کے لئے وہ جماعت اسلامی ہند میں شریک ہونا چاہتے ہیں ۔ اس اقدام کا محرک رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کے حصول کے سوا اور کچھ نہیں، دستور جماعت کی اور اس کے مطابق نظم جماعت کی پابندی کا عہد بھی یہ کارکن کرتے ہیں۔
اس جماعت کے قائدین ذمےد ارانہ مقام رکھتے ہیں۔ دستوری لحاظ سے امیر جماعت اسلامی ہند اور امیر مقامی ہی نظم جماعت کو چلنے ، اس کو درست رکھنے اور اس کی توسیع و استحکام کا اہتمام کرنے کے ذمے دار ہیں۔ اِن متنوع ذمے داریوں کے تقاضے بڑے اہم ہیں۔ رکنیت کا خود ایک عہد بڑی ذمے داری عائد کرتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اُس سے اُس کی رعیت کےبارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔ اِس ارشاد کے بموجب ہر شخص ذمے دار ہے ۔ اس ذمے داری کا احساس ہمہ وقت رہنا چاہئے ۔ قیامت کے دن اِس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ہر شخص سے بیوی، بچوں، اعزہ و اقرباء کے بارے میں پوچھا جائے گا وہیں رفقاءِ جماعت سے تربیت، نظم جماعت کی پابندی اور اقامت دین کے لئے سعی وجہد کے متعلق بھی پوچھا جائے گا۔ ایک واقعے سے ا س نکتے کی وضاحت ہوتی ہے۔
حضرت عمر بن الخطابؓ نے ایک انصاری کو زکوٰۃ کی تحصیل پر مقرر فرمایا۔ کچھ روز کے بعد دیکھا وہ مدینہ ہی میں مقیم ہیں اپنے فرض کی بجا آوری کے لئے نہیں گئے۔ پوچھا ’’آپ اپنے کارمنصبی پر کیوںنہیں گئے؟ کیا یہ خبر نہیں کہ آپ کو وہی اجر ملے گا جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کو ملتا ہے‘‘؟ وہ بولے ’’نہیں‘‘ حضرت عمرؓ نے کہا ’’وہ کیسے‘‘؟ بولے: ’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی پہنچا ہے کہ جس شخص کو لوگوں کے معاملات کا ذمے دار بنایا گیا اسے قیامت کے روز لایاجائے گا اور آگ کے ایک پل پر کھڑا کردیاجائے گا۔ اس کے کھڑے ہوتے ہی پل لرزنے لگے گا اور اس کاایک ایک عضو، جوڑ بند ہل جائے گا۔ بعد ازاں اسے اپنی اصلی حالت پر لوٹاکر اس کا محاسبہ کیاجائے گا ۔ اگر وہ محسن ثابت ہوا تو اپنے احسان کی بدولت نجات پائے گا اور اگر خطاکار نکلا تو پل اسے اپنی آغوش میں لئے ہوئے ستر برس کی مسافت کی گہرائیوں میں گر پڑے گا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے ان سے کہا: ’’آپ نے یہ روایت کس سے سنی‘‘؟ انھوں نے کہا: ’’حضرت ابوذرؓ اور حضرت سلمانؓ سے ‘‘۔ حضرت عمر ؓ نے ان دونوں کو بلوایا اور دریافت کیا۔ انھوں نے کہا: ’’ہاں ہم نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سناہے‘‘۔ حضرت عمر ؓ بولے ’’افسوس ہے عمرؓ پر اس انجام کے ہوتے ہوئے اس ذمے داری کو کون اٹھاسکتا ہے‘‘؟حضرت ابوذرؓ نے فرمایا: ’’صرف وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی ناک رگڑی اور اپنے رخسار زمین کے ساتھ چمٹالیے‘‘۔ یہ ہے ذمے داری کے احساس کی ایک جھلک۔
خیر خواہی
امیر کی بنیادی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے مامورین کا بہی خواہ و خیرخواہ ہو ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دین خیرخواہی کا نام ہے‘‘۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’جس بندے کو بھی اللہ کی رعیت کی نگہبانی سپر د کرے اور وہ خیرخواہی کے ساتھ نگہبانی نہ کرے تو لازماً وہ جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا‘‘۔
ایک امیر کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں سے اسی طرح کا برتائو کرے جیسا وہ اپنے گھر والوں اور اقارب سے کرتا ہے۔ جس طرح ان کے ساتھ نرمی برتتا ہے، ان کی خیرخواہی چاہتا ہے ۔ ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتا اور انہیں پورا کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح اپنے ماتحتوں کے ساتھ معاملہ کرے۔ اس امر سے غفلت کا انجام نہایت بھیانک ہے۔
ارشاد نبوی ہے: ’’میری امت میں سے جو شخص بھی مسلمانوں کے کسی معاملے کا ذمے دار بنا پھر اس نے اس طرح سے ان کی حفاظت نہیں کی جس طرح وہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتا ہے۔ تو لازماً وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گا‘‘۔
چنانچہ امیر کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں سے ہمدردانہ رویہ اختیار کرے اور ایسا ماحول پروان چڑھائے جس میں خیرخواہی کی فضا نشوونما پاسکے ۔ تاکہ رفقاء ایک دوسرے کے خیرخواہ اور ہمدرد ہوں۔ خیرخواہی کے تقاضے بہت سے ہیں۔ مامورین کو درست و صحیح بات بتائی جائے، ان کے معاملات کو درست رکھنے کی سعی ہو، ان کے گھریلو مسائل میں رہنمائی وتعاون کیا جائے۔ ان کے عیوب کی نشاندہی ہو۔ مگر موقع محل کی مناسبت سے اُن کی پردہ پوشی کی جائے۔ اگر کوئی ان پر زیادتی کررہا ہو تو مظلوم کی حمایت ونصرت کی جائے، ان کی ضرورتوں کو پورا کیاجائے۔ سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی زندگیوں کو دین کے مطابق سنو اراجائے۔
محبت و الفت
امیر کے مطلوبہ اوصاف میں یہ وصف شامل ہے کہ وہ رفقاء سے محبت کرنے والا ہو، اور جماعتی ماحول میں محبت کی فضا کو پروان چڑھانے والا ہو۔ تاکہ رفقاء ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں۔ محبت واخلاص ہی وہ خوبی ہے جس سے لوگوں کو قریب کیا جاسکتا ہے اور اُن کے دلوں میں جگہ بنائی جاسکتی ہے۔ محبت کے ذریعے اُن کو نتیجہ خیز سرگرمیوں کے لئے خوش دلی سے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔
محبت کی بنیاد پر ایک اچھی ومضبوط اجتماعیت قائم ہوتی ہے۔ گویا ایک عمارت کو مضبوط و مستحکم رکھنے میں جو کام سیمنٹ کرتا ہے وہی کام اجتماعیت کو برقرار رکھنے میں محبت کرتی ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے بہتر ذمے دار وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت رکھیں۔ تم ان کے لئے دعا کرو اور وہ تمہارے لیے دعا گو ہوں اور تمہارے ذمے داروں میں سے بدتر ذمے دار وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں ۔ تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں‘‘۔
محبت کے جذبات کو فروغ دینے کے لیے اِن امور کا اہتمام ضروری ہے:
lجب ملاقات ہوتو سلام میں پہل کریں اور خیریت دریافت کریں ۔ lگھروں پر جاکر ملاقاتیں کریں۔ صرف ہفت روزہ پروگرام یا رہ گزر مسجد کی علیک سلیک کو کافی نہ سمجھیں lرفقاء کی ضروریات کا خیال رکھیںlان کی نفسیات کو سمجھیں اور اس کے مطابق اُن سے معاملہ کریںl ان کی صلاحیتوں کا ادراک کریں۔ ان کی نشوونما پر توجہ بھی دیں اور مواقع بھی فراہم کریں lرفقاء کی غلطیوں کو عام طور پرنظرانداز کریں ۔ البتہ مناسب موقع ومحل پر توجہ دلائیں l غلطیوں کو معاف کرنے کا مطلب محض یہ نہیں کہ آپ پر غلطی کی معافی کی صراحت کریں بلکہ کسی فرد کے سامنے اُن کے عیوب کا اظہار نہ کیاجائے۔
شورائیت
امیر کی ذمے داری ہے کہ جماعت میں شورائیت کا ماحول پیدا کرے اور اس کو قائم رکھے۔ اجتماعیت کے استحکام کے لئے بہرحال یہ ناگزیر ہے کہ جماعت کے کارکنوں کے درمیان فکری ہم آہنگی ہو اور اتحاد واتفاق ہو یہ کیفیت باہمی مشورے کی فضا میں ہی نشوونما پاتی ہے۔ باہمی مشورے کے دوران مسئلے کے مختلف پہلوئوں پر غوروفکر کیاجاتا ہے جس کے نتیجے میں فیصلے میں غلطی کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ رفقاء کو اطمینان بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے رفقاء فیصلے کے نفاذ میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ارشاد نبوی ؐ ہے: ’’جب تمہارے قائد وہ لوگ ہوں جو تم میں بہترین لوگ ہیں، تمہارے دولت مند لوگ فیاض ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورے سے انجام پاتے ہوں تو اس وقت زمین کی سطح تمہارے لئے اس کے پیٹ سے بہتر ہوگی‘‘۔
نظم وضبط
امیر کی ذمے داری ہے کہ وہ رفقاء کے اندر تنظیمی شعور کو بیدار کرے تاکہ رفقاء نظم جماعت کے تقاضوں کو سمجھیں اور اُن کو پورا کرنے لگیں، اگر امیر تنظیمی شعور اپنے رفقاء کے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو ہر شخص بروقت اپنی ذمے داری کو بحسن وخوبی انجام دینے لگتا ہے۔ اس فضا میں سارے معاملات کی بنیاد اخلاقی اصولوں پر ہوتی ہے۔ چنانچہ جماعت میں تعاون واشتراک اور اعتماد وخلوص کی فضا پر وان چڑھتی ہے۔ وصف تنظیم کے استحکام کے لئے لازمی ہے۔ اس لئے کہ تنظیمی شعور سے محروم جماعت فی الواقع ایک بے جان جماعت ہوتی ہے وہاں امیر کو بار بار قانون کا سہارا لیناپڑتا ہے اور کارکن بے دلی سے سرگرمیوں کو انجام دیتے ہیں۔ بے دلی سے انجام پانے والی سرگرمیوں سے نہ مطلوبہ نتائج برآمد ہوتے ہیں نہ افراد کے اندر ارتقاء ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ خلوص کے بجائے محض قانونی گرفت سے بچنے کا خیال، اُن کے عمل کا محرک ہوتا ہے۔
نظم جماعت کی پابندی پر آمادہ کرنا امیر کی ذمے داریوں میں سے ایک اہم ذمے داری ہے۔ اگر وہ اس سے غافل رہے یا تساہلی برتے تو مرکز جماعت اور حلقے کے پیش نظر جو پروگرام ہیں وہ محض کاغذ کی زینت بن کر رہ جائیں گے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مقامی نظم ہی وہ سطح ہے جہاں جماعت کا زمینی وجود ہوتا ہے۔ یہیں توسیع واستحکام کا عمل انجام پاتا ہے ۔ عوام، ائمہ، علماء، اساتذہ، خواتین اور نوجوانوں میں نفوذ نہیں ہوسکتا ہے۔ مقامی سطح پر افراد سازی ہوتی ہے، رفقاء کے تزکیہ کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں اور اُن کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایاجاتا ہے۔ عوام وخواص میں تحریک کا تعارف وسیع ہوتو جماعت کے استحکام کی توقع کی جاسکتی ہے۔ خدمت خلق اسلامی معاشرے کی تعمیر اور دعوت سے متعلق سرگرمیاں مقامی جماعتیں ہی انجام دیتی ہیں ۔ چنانچہ ضروری ہے کہ امیر نظم جماعت کی اہمیت کو خود سمجھے اور مطلوبہ معیار کے حصول کے لئے رفقاء کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرے۔
مثالی سیرت و کردار
امیر کی اپنی دعوت وپیغام کا خود عملی نمونہ ہونا چاہئے ۔ مطلوب یہ ہے کہ وہ اپنی سیرت اخلاق، معاملات اور معاشرت ہر پہلو میں رفقاء کے لئے اچھا نمونہ ہو۔ اس کا کردار اپنے رفقاء سے اعلیٰ ہو۔ اس کی شبیہ محض ایک کارکن کی نہیں بلکہ ذمے دار کی ہوتی ہے ۔ چنانچہ رفقاء اُس سے حسن ظن رکھتے ہیں۔ وہ توقع کرتے ہیں کہ ان کا امیر ان سے اچھے اخلاق سے پیش آئے گا اور اُن کے ساتھ بہترین سلوک کرے گا۔ رفقاء کے علاوہ عام افراد بھی اس کو دینی جماعت کا ذمے دار سمجھتے ہیں اور اسی اعتبار سے اُس سے توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ امیر کو چاہئے کہ لوگوں کے حسن ظن کو ٹھیس نہ پہنچائے۔ دینی جماعت کے امیر کو معاملہ فہم، ہمدرد خلائق ، خیرخواہ ِ انسانیت اور کریم النفس ہونا چاہئے۔ وہ قناعت پسند ، منکسرالمزاج اور شیریں کلام ہو، اُسے ایثار وقربانی جیسی صفات کا حامل ہونا چاہیے۔ دوسری جانب اُسے خود پسندی، بغض وحسد اور عیوب سے یکسر پاک ہونا چاہیے۔
مقصد زندگی کے لیے سرگرمی
ایک امیر کے لیے یہ کافی نہیں کہ وہ ایک اچھا انسان ہو، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عمل وحرکت کا پیکر ہو۔ اُسے شعور ہوناچاہیے کہ اس کی زندگی کا مقصد اقامت دین ہے۔ اسلام کو مکمل طورپر اپنے اوپر قائم کرنے کی جدوجہد کرنا اُس کا بنیادی کام ہے۔ دنیا کے سارے کاموں پر اقامت دین کو وہ ترجیح دے۔ اس مقصد عظیم کے لئے وقت، مال، صلاحیتیں اور قوتیں سب کچھ کھپا دے۔ اس کا جینا مرنا سب حق کے لیے ہو۔ جب ایک امیر کی زندگی میں حرکت و حرارت ہوگی تب دوسرے رفقاء میں بھی زندگی پیدا ہوسکے گی۔ جب امیر سرگرم ہوگا اور راہِ حق میں پیش پیش ہوگا۔ تب رفقاء بھی اس کے قدم بہ قدم رواں دواں ہوں گے۔ جماعت کی یہی کیفیت حقیقی انقلاب کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
ایک امیر کو اس آیت کے بموجب ،یکسو ہونا چاہیے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَلَا شَرِيْكَ لَہٗ۰ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِـمِيْنَ(انعام:۱۶۴)
(اے نبیؐ!) کہو میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم ملا ہے اور میں آگے بڑھ کر اسلام لاتا ہوں (اطاعت قبول کرتا ہوں)
مشمولہ: شمارہ اپریل 2015