یاد دہانی

(مولانا محمد یوسف اصلاحی رحمة اللہ علیہ ۲۱؍ دسمبر ۲۰۲۱کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ بڑے عالم، اثر آفریں خطیب اور شگفتہ بیاں مصنف تھے۔ انھوں نے تندرستی اور توانائی کے ساتھ لمبی عمر پائی اور اپنے پیچھے علم و فکر کا بیش بہا ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ آنے والی بے شمار نسلوں کو اس سے فیض یاب کرے گا۔’آدابِ زندگی ‘ان کی شہرہ آفاق کتاب ہے۔ اس کے علاوہ ’قرآنی تعلیمات،‘ ’آسان فقہ‘، ’روشن ستارے ‘اور ان جیسی بہت سی کتابیں امت میں رشد وہدایت کو عام کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ مرحوم کی ادارت میں نکلنے والا ماہ نامہ ذکریٰ بھی اپنی شان دار تاریخ رکھتا ہے۔مولانا اصلاحیؒ نے اسلامی تحریک کو بطور خاص مغربی ممالک میں اپنی توانائیوں سے خوب خوب سیراب کیا۔ زیرنظر مضمون ماہ نامہ زندگی، دسمبر ۱۹۶۵ میں شائع ہوا تھا۔ معمولی حذف واختصار کے ساتھ نذرِقاری ہے۔)

خدا کے احسانات میں سب سے بڑا احسان خدا کی وہ کتاب ہے جو انسان کو آغاز و انجام پر غو رو فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے، جو زندگی کی حقیقتوں کو تلاش کرنے اور انھیں پا لینے کی قوت پیدا کرتی ہے، جو انسان کے اندرون کو جگا کر خالق کائنات کی معرفت بخشتی ہے، جو کتاب کائنات کے صفحے صفحے سے نصیحت حاصل کرنے اور سبق لینے کی تلقین کرتی ہے، فکر و نظر، عقیدہ و عمل اور سیرت و کردار کی تعمیر کے لیے انتہائی متوازن اور اٹل اصول دیتی ہے اور انسانیت کو اپنی منزل سے ہم کنار کرنے کے لیے نہ صرف ایک واضح شاہراہ کا پتا دیتی ہے بلکہ اس پر چلنے اور چلتے رہنے کے لیے داخلی قوت و جذبہ بھی پیدا کرتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر روئے زمین سے سورج کی روشنی سلب کرلی جائے تو ممکن ہے کہ انسانیت تباہ نہ ہو لیکن کتاب اللہ کی روشنی سے اگر انسان محروم کردیا جائے تو پھر کوئی طاقت اسے تباہی سے نہیں بچا سکتی۔

ŸŸŸ

قرآن اپنی تعلیمات کو ذکر، ذکریٰ اور تذکرہ جیسے معنی خیز ناموں سے یاد کرتا ہے۔ اپنے پیش کرنے والے کو مذکِّر اور اس عمل کو تذکیر کا نام دیتا ہے۔ یہ نام ایک طرف تو قرآنی تعلیمات کی واقعی حقیقت کو واضح کرتے ہیں اور دوسری طرف ان میں یہ نفسیاتی کشش بھی ہے کہ یہ تعلیمات ان حقائق کے چہرے سے نقاب اٹھاتی ہیں جو انسانی فطرت کا عین تقاضا اور انسان کا اصل سرمایہ ہیں۔ اور جن کی بربادی دراصل انسان کی اپنی بربادی ہے۔ ان حقائق کو پانا انسان کا حقیقی مقصود اور ان کے تقاضوں کی تکمیل انسانیت کا ارتقا ہے۔ قرآن کی ان تعلیمات کو ہم اردو کے مختصر لفظ ’’یاد دہانی‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

قرآن حکیم نے جگہ جگہ اپنی تعلیمات کی اس حقیقی حیثیت کو واضح کیا ہے اور انسان کو بار بار جھنجھوڑا ہے کہ وہ اپنی فطرت کی طرف پلٹے، اپنے اندرون کو ٹٹولے، اندر کی آواز پر آسمانی کتاب کی رہ نمائی میں آگے بڑھے اور کامرانی کی منزل سے ہم کنار ہو۔

ŸŸŸ

دراصل قرآن کی تمام تعلیمات کی بنیاد وہ ازلی عہد ہے جو آدم کی ساری ذریت نے یک زبان ہوکر خدا سے کیا تھا۔ بلاشبہ اس ازلی عہد کی کوئی متعین یاد تو ہمارے حافظہ میں محفوظ نہیں ہے۔ لیکن قرآن بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دیکھو تمھارا یہ حسین و جمیل وجود ہے، جو بے شمار قوتوں، صلاحیتوں اور طاقتوں کا منبع ہے۔ تمھارے اردگرد یہ پھیلی ہوئی زمین ہے جس میں تمھارے لیے رزق و دولت کے بےبہا خزانے ہیں۔ تمھارے اوپر نیلے آسمان کا یہ خوب صورت شامیانہ ہے جس کی فضا میں سورج اورچاند کے کُرے گردش کر رہے ہیں جو تمھاری راحت و سکون کا سامان کرتے ہیں۔ تمھارے غلے پکاتے ہیں اور تمھیں گرمی پہنچا کر تمھاری زندگی کو برقرار رکھتے ہیں۔ یہ ہوا، یہ بادل، یہ دریا، یہ پہاڑ یہ لہلہاتے کھیت اور یہ پھلوں سے لدے ہوئے باغات ان میں سے ایک ایک چیز تقاضا کرتی ہے کہ تم آنکھیں کھولو۔ انھیں بصیرت کی آنکھوں سے دیکھو اور ایک ایک چیز پر رک رک کر غور کرو۔ کیا سب اس بات کی نشانیاں نہیں ہیں کہ ان سب کا خالق تمھارا محسن ہے، وہی تمھارا واحد خدا ہے۔ خود بخود فطرتاً اس کا تم پر یہ حق قائم ہے کہ تم اسی کو اپنا معبود مانو۔ تمھاری فطرت، تمھارا ضمیر، تمھارا وجدان ایک ایک چیز پکار کر کہہ رہی ہے کہ تم صرف اسی کو اپنا رب مانو۔ اس کی خدائی میں کسی کو شریک نہ کرو۔ صرف اسی کی بندگی کرو اور اسی کے بندے بن کر رہو۔

لیکن خدا کے اس حق کو وہی لوگ پہچان سکتے ہیں اور اس سے کیے ہوئے عہد کو وہی پورا کرسکتے ہیں، جن کی عقل و بصیرت کورانہ تقلید، آبا پرستی اور جاہلی تعصبات سے پاک ہو اور جن کے لطیف جذبات اور فطری ذوق کو مادی کثافتوں نے برباد نہ کردیا ہو، جن کی دور رس نگاہیں مادی نشانیوں کے پیچھے دور تک حقیقت کو تلاش کرسکتی ہوں اور جنھیں کائنات کا ہر تغیر، قدرت کی ہر نشانی اور کائنات کا ہر پلٹا سوچنے پر مجبور کرسکتا ہو ؎

برگِ درختانِ سبز در نظرِ ہوشیار

ہر ورقے دفتریست معرفتِ کردگار

ŸŸŸ

کائنات کے اس وسیع و عریض بساط پر روزانہ کیسی کیسی ایمان افروز تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ کیسے کیسے لرزا دینے والے حادثے پیش آتے ہیں اور رات دن کے صفحات پر قدرت کی کتنی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں جو ہر وقت دعوتِ فکر دیتی ہیں اور مومن سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ ان سے غفلت کے ساتھ نہ گزر جائے۔ رات دن کی یہ آمد و شد اپنے اندر تذکیر و عبرت کا کتنا سامان رکھتی ہے۔ روشن دن کے چہرے پر سیاہی کی دبیز چادر ڈالتی ہوئی کالی ڈراونی رات کس طرح زمین پر اپنا تسلط جماتی ہے۔ لیکن کچھ ہی گھنٹوں کے بعد صبح پھر کس شان و جلال کے ساتھ نمودار ہوتی ہے اور رات کا سیاہ دامن چاک کرتی ہوئی چند لمحوں میں اس کی حکم رانی کا سارا فسوں توڑ دیتی ہے اور روئے زمین کو اپنی روشن کرنوں سے جگمگا دیتی ہے۔ یہ آمد و شد مطالبہ کرتی ہے کہ ہم سوچیں اور ان نشانیوں سے سبق لیں۔ زندگی کی صبح کس آب و تاب سے نمودار ہوتی ہے۔ پھر نصف النہار کا سورج کس شباب کے ساتھ چمکتا ہے۔ لیکن یہ شباب چند لمحے سے زیادہ کا نہیں ہوتا۔ جلد ہی موت کی سیاہ شام اپنے تاریک بازو پھیلائے ہوئے آگے بڑھتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کا یہ جگمگاتا سورج موت کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے غروب ہوجاتا ہے۔ پھر کیا پوری کائنات کا بھی یہی انجام نہیں ہے، لیکن کیا واقعی ہم ہر آنے والی صبح اور ہر آنے والی شام پر اس طرح غور کرتے ہیں۔ قدرت نے ہماری یاددہانی کے لیے ہمارے چاروں طرف کتنی ہی نشانیاں پھیلارکھی ہیں لیکن ہم اس طرح گزر جاتے ہیں جیسے آنکھوں میں دیکھنے کی قوت ہی نہ ہو اور ذہن و فکر مفلوج ہوچکے ہوں۔

وَكَأَین مِّنْ آیةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یمُرُّونَ عَلَیهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ (سورہ یوسف: ۱۰۵)

زمین و آسمان میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے ہیں اور ذرا سی توجہ نہیں کرتے۔

کون نہیں دیکھتا کہ سوکھی مردہ زمین پڑی ہوئی ہے، تصور بھی نہیں ہوتا کہ یہاں روئیدگی اور نمو کے کچھ آثار ہوسکتے ہیں کہ یکایک ہوائیں چلتی ہیں اور بارش رحمت سے لبریز بادلوں کو کشاں کشاں اس بلدِ میت تک کھینچ لاتی ہے۔ پھر یہ قطرات زندگی کا پیغام بن کر ٹپکتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پرپٹ مردہ زمین لہلہا اٹھتی ہے۔ ہر طرف سبزہ اور شادابی پھیل جاتی ہے اور چاروں طرف زندگی کی بہار نظر آنے لگتی ہے۔ قرآن یہ منظر پیش کرتے ہوئے ذہن کو موڑتا ہے کہ ٹھیک اسی طرح ایک دن اس زمین سے بوسیدہ ہڈیوں اور گلے سڑے پوست کے یہ مردہ لاشے خدا کا حکم پاکر یکایک اٹھ کھڑے ہوں گے مگر کتنے ہیں جو ہر سال یہ بصیرت افروز منظر دیکھ کر اس اصل حقیقت کو پانے کی کوشش کرتے ہوں:

وَهُوَ الَّذِی یرْسِلُ الرِّیاحَ بُشْرًا بَینَ یدَی رَحْمَتِهِ حَتَّىٰ إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّیتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ كَذَٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (الاعراف: ۵۷)

اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوش خبری لیے ہوئے بھیجتا ہے۔ پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھالیتی ہیں تو انھیں کسی مردہ سرزمین کی طرف ہانک دیتا ہے۔ اور وہاں مینہ برسا کر (اسی مردہ زمین سے) طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے، دیکھو اسی طرح ہم مردہ لاشوں کو (زندگی بخش کر زمین سے) باہر نکالیں گے۔(آیات کی یہ تکرار اس لیے ہے) تاکہ تم اس مشاہدے سے حقیقت کو پانے کی کوشش کرو۔

ŸŸŸ

کائنات میں پھیلی ہوئی یہ ایک دو نہیں بے شمار نشانیاں ہیں جن کی طرف قرآن حکیم بار بار متوجہ کرتا ہے اور آمادہ کرتا ہے کہ ہم اندھے، بہرے اور بےبصیرت جانوروں کی طرح ان نشانیوں سے یوں ہی نہ گزر جائیں، بلکہ ٹھہر ٹھہر کر ان پر غور کریں۔ ان کی تہ میں کارفرما طاقت کی معرفت حاصل کریں، ان سے سبق لیں اور نصیحت پکڑیں۔

ŸŸŸ

بھول اور ذہول، غفلت اور نسیان انسان کی ایک طبعی کم زوری ہے۔ نہ صرف یہ کہ انسان باربار ان پھیلی ہوئی قدرت کی نشانیوں سے غافل ہوجاتا ہے، بلکہ بسا اوقات وہ ان یقینی حقیقتوں کو بھی فراموش کربیٹھتا ہے، جن کا نہ صرف اس کو مجرد علم ہوتا ہے بلکہ ان پر کامل یقین رکھتا ہے اور اس یقین سے وہ اپنی عملی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ درحقیقت تذکیر اور یاددہانی انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور وہ چاہے دوسری چیزوں سے بے نیاز ہو بھی جائے اس سے بےنیاز نہیں ہوسکتا۔ مادی زندگی کے لیے اگر پانی اور ہوا ناگزیر ہیں تو روحانی زندگی کے لیے تذکیر، یاددہانی اور عبرت پذیری کی داخلی صلاحیت ناگزیر ہے اور انسانیت کبھی بھی نظامِ رسالت اور آسمانی ہدایت سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔

خدا کی کتاب اور پیغمبر، انسان کی طبعی کم زوریوں کے زبردست نباض ہوتے ہیں۔ اور وہ ان کے فطری ضعف کو نگاہ میں رکھ کر تذکیر اور یاددہانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ وہ انسان کی اس بنیادی کم زوری سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ یہ باربار بھول جاتا ہے۔ واقعی حقیقتیں بھی اس کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتی ہیں اور بعض اوقات یہ ایسا نادان بن جاتا ہے کہ گویا اس کو اصل حقیقت کا علم ہی نہیں ہے۔

ŸŸŸ

غور کیجیے اس کائنات میں موت سے زیادہ یقینی حقیقت اور کیا ہوگی۔ کتنے ہی افراد کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دم توڑتے ہوئے دیکھتے ہیں، کتنے ہی افراد کی موت کی خبریں روز سنتے ہیں۔ ہزاروں زیر زمین دفن لوگوں کی ٹوٹی قبریں دیکھتے ہیں۔ سینکڑوں کھنڈرات دیکھتے ہیں جو زبان حال سے زندگی کی ناپائداری کا ثبوت دیتے نظر آتے ہیں۔ لیکن ان تمام واقعات کے باوجود کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ ہم اپنی موت سے اکثر غافل ہوتے ہیں، اس کی تیاری سے بے فکر ہوتے ہیں اور دوسرے کو منوں مٹی کے نیچے اپنے ہاتھوں سے دباتے ہوئے کم ہی یہ سوچتے ہیں کہ ہمارا انجام بھی یہی ہے اور اسی طرح منوں مٹی کے نیچے ہم بھی دبائے جائیں گے۔ کیا یہ دعا پڑھتے ہوئے ’’اسی مٹی سے ہم نے تم کو پیدا کیا۔ اسی مٹی میں ہم تمھیں لوٹا رہے ہیں اور اسی مٹی سے ہم تمھیں دوبارہ اٹھائیں گے۔‘‘ ’’دوبارہ اٹھائیں گے‘‘ کے الفاظ ادا کرتے ہوئے کیا واقعی ہم زمین سے اٹھ کر تھوڑی دیر کے لیے تصور کے عالم میں خدا کے حضور پہنچ جاتے ہیں، کیا ہمارے دل کی دھڑکن کچھ تیز ہوجاتی ہے اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں؟ کم ہی ایسا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مربی اعظم ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ موت کو کثرت سے یاد کرو۔ دنیا کی لذتوں میں پھنسنے اور خدا سے غافل ہونے سے بچانے والی چیز یہی موت کی یاد ہے۔

أکثروا ذکر ھاذم اللذات۔ لذتوں کو ملیامیٹ کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔

ŸŸŸ

حقیقت یہ ہے کہ اس دل فریب دنیا میں ہرچار سو غفلت، بے فکری اور بے حسی پیدا کرنے کے سامان پھیلے ہوئے ہیں اور شیطانی ذریت نے جگہ جگہ اولادِ آدم کو ورغلانے اور فریب دینے کے لیے اپنے رنگین اور پرکشش جال بچھا رکھے ہیں۔ ان میں پھنس پھنس کر بار بار انسان زندگی کی ناپائداری سے آنکھیں موند لیتا ہے۔ موت کے تصور کو بھلا بیٹھتا ہے اور موت کے پار کی زندگی سے غافل ہوجاتا ہے۔ اسی لیے قرآن صفحے صفحے پر اس یاد کو تازہ کرتا ہے۔ بار بار آخرت کی یاد دلاتا ہے۔ وہاں کے ہول ناک اور لرزہ خیز مناظر پیش کرتا ہے اور بعض اوقات تو ایسی تصویر کشی کرتا ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے آدمی خود کو اسی عالم میں محسوس کرتا ہے۔ دراصل کش مکش کا یہی وہ موڑ ہے جہاں حق و باطل کی جنگ ہوتی ہے۔ شیطانی فوجیں اہلِ حق اور داعیانِ حق سے نبردآزما ہوتی ہیں۔ شیطانی فوجیں دنیا کی رنگین، دل کش اور نظر فریب تصویریں پیش کرکرکے انسان کو غفلت اور بے حسی کا شکار کرنا چاہتی ہیں۔ اور خدا کی کتاب اور اس کے پیش کرنے والے اپنی تذکیر اور یاددہانی کے عمل سے موت اور آخرت کے تصور کو زندہ رکھنے اور اسی کے مطابق دنیوی زندگی سے فائدہ اٹھانے کی قوت فراہم کرتے رہتے ہیں۔ یہ کش مکش کسی لمحے ختم نہیں ہوتی۔ ہاں اگر کوئی اپنے اندر کے انسان کو سلا دے، اپنے ضمیر کی آواز کو دبا دے، اپنی فطرت کو مسخ کرلے اور عبرت پذیری اور تذکیر کے لطیف احساسات کا گلا گھونٹ کر دل کی دنیا کو اجاڑ لے۔

ŸŸŸ

قرآن کا جو کچھ مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ آدمی ان دنیوی نعمتوں میں پھنس کر اپنے خدا سے غافل نہ ہوجائے اور ان لذتوں میں ڈوب کر اپنے مقصدِ حیات کو فراموش نہ کردے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اس دنیا کو دائمی گھر سمجھ کر جنت میں اپنا ٹھکانا تعمیر کرنے سے بے فکر ہوجائے۔ دراصل یہی سب سے بڑا گھاٹا اور سب سے بڑی تباہی ہے:

یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَمَن یفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (سورہ المنٰفقون: ۹)

مومنو! تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھیں اللہ کے ذکرسے غافل نہ کردے۔ اور جو ایسا کرے گا وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔

ایک دوسرے موقع پر قرآن نے مومنوں کی یہی خوبی بتائی ہے کہ ان کو دنیوی کاروبار اور تجارتی مشغلے خدا کے ذکر سے غافل نہیں کرتے۔ وہ ان میں اس طرح نہیں پھنستے کہ خدا سے کٹ جائیں:

رِجَالٌ لَّا تُلْهِیهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَیعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ (سورہ النور: ۳۷)

وہ لوگ جنھیں تجارت اور کاروبار خدا کی یاد سے غافل نہیں کرتے۔

ŸŸŸ

انسان کی اصل ذمہ داری دراصل یہ ہے کہ وہ دنیا کی ہماہمی اور عیش و عشرت میں پھنس کر غفلت شعار اور بے حس نہ بن جائے۔ وہ حساس دل اور کھلی آنکھوں سے کائنات کا مطالعہ کرے اور اس کشادہ زمین اور وسیع فضا میں پھیلی ہوئی قدرت کی نشانیوں سے سبق لے۔ اس کے اندر اور باہر تذکیر اور یاددہانی کے جو ذرائع پھیلائے گئے ہیں ان سے فائدہ اٹھائے اور کسی وقت بھی اس عہد کو نہ بھلائے جو وہ خدا سے کرچکا ہے۔ شب و روز کی دوڑ دھوپ میں پیش آنے والے سفر کے لیے زادِ راہ فراہم کرے اور اپنے حقیقی گھر کی تعمیر و تزئین سے کسی وقت بھی غافل نہ ہو۔

ŸŸŸ

جائزہ لے کر دیکھیے کیا خدا کی باتیں سن کر، موت کا تذکرہ پڑھ کر اور آخرت کا تصور کرکے آپ کا قلب و ضمیر اسی طرح کی ٹھنڈک اور اطمینان محسوس کرتا ہے۔

ŸŸŸ

خدا کے دین کی طرف بلانے والے اور اس کو قائم کرنے کی دعوت دینے والے آپ سے کوئی نئی بات نہیں کہتے۔ وہی عہد آپ کو یاددلاتے ہیں جو آپ اپنے خدا سے کرکے آئے ہیں اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر ایمان لاکر جس کی آپ نے تجدید کی ہے۔ اگر آپ اس عہد کو نباہنا چاہتے ہیں اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو اس کی صرف ایک ہی شکل ہے کہ آپ خود دین حق پر عمل کریں اور دوسروں کو عمل کرنے پر آمادہ کریں۔ خدا کی بندگی کریں اور خدا کی بندگی کا نظام قائم کریں اور خارج و داخل کی ہر رکاوٹ کو دور کرکے آزادی اور یک سوئی کے ساتھ اپنے ہر معاملے میں اس کی بندگی کا فریضہ ادا کرکے مومنِ صادق اور مسلم حنیف بن کر رہیں۔ یہ ہمارے لیے کوئی نئی اور اجنبی بات نہیں ہے لیکن ہم باربار اس ذمہ داری سے غافل ہوجاتے ہیں اور ہماری زندگی اس کے تقاضوں سے دور جاپڑتی ہے۔ اس لیے ہم اپنی فطرت کے لحاظ سے باربار تذکیر اور یاددہانی کے سخت محتاج ہیں اور مومن کے جذبات ہمیشہ یہی ہوتے ہیں کہ وہ طلب ہدایت کے لیے بے تاب ہوتا ہے اور جہاں کہیں موقع میسر آئے وہ خدا کی خاص نعمت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ دراصل زندگی میں کوئی ایسا موڑ نہیں آتا جہاں پہنچ کر آدمی یہ سمجھ لے کہ میں ہر حیثیت سے کامل ہوچکا ہوں اور بچلنے اور بھٹکنے کے سارے اندیشے ختم ہوچکے ہیں۔ بلکہ ہروقت یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ معلوم نہیں کس حرکت اور کس عمل سے دل پر غفلت کا عکس پڑ جائے۔

ترمذی میں ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’یہ دل اسی طرح زنگ آلود ہوجاتے ہیں جیسا پانی پڑنے سےلوہا زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا : یارسول اللہ پھر ان کا زنگ دور کرنے اور جلا دینے کی کیا صورت ہے؟ آپ نے فرمایا: کثرت سے موت کو یاد کرنا اور قرآن حکیم کی تلاوت کرنا۔‘‘

واقعہ یہ ہے کہ دل کی غفلت اور بے حسی کو دور کرنے کے لیے قرآن کی تلاوت سے زیادہ کارگر کوئی دوسرا نسخہ نہیں ہوسکتا۔

ŸŸŸ

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آدمی اپنی محبوب چیزوں کے تذکرے انتہائی انہماک اور دل چسپی سے سنتا ہے اور کبھی نہیں اکتاتا۔ بلکہ ہر بار ایک نیا لطف لیتا ہے۔ حد یہ ہے کہ بعض اوقات آدمی اپنے پیارے بچے کی دل چسپ باتیں سن کر اور سنا کر لطف اندوز ہوتا ہے اور اگر بار بار اسے یہ دل چسپ معصومانہ باتیں سنائی جائیں اور اس کی بچکانہ حرکتوں کا تذکرہ کیا جائے تو وہ انتہائی دل چسپی لیتا ہے کہ یہ حکایت کچھ اور دراز تر ہوجائے۔

پھر دین اگر ہماری محبوب متاع ہے اور اس سے واقعی ہمیں شغف ہے تو ا س کی باتوں سے ہم کیسے اکتا سکتے ہیں۔ اللہ کی آیتیں تو ہماری روح کی غذا ہیں۔ مومن کی صفت تو یہ بتائی گئی ہے کہ جب اس کے سامنے اللہ کی باتیں آتی ہیں تو اس کا دل لرزنے لگتا ہے اور اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ مومن ایسی مجلسوں میں دل و دماغ حاضر رکھ کر موجود ہوتا ہے، وہ دل کے کانوں سے سنتا اور اثر قبول کرتا ہے

مشمولہ: شمارہ جنوری 2022

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223