شورائیت عظیم اسلامی قدر ہے۔ قرآن مجید میں بطورِ عمل اس کا حکم بھی ہے اور بطورِ صفت اس کی مدح بھی ہے۔ قاضی ابن عطیہ کے بقول[1] : شورائیت شریعت کا قاعدہ اور دین کا اہم ترین حکم ہے۔
لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ اعلی اسلامی قدر مسلم معاشرے کے لیے قدرے اجنبی ہے۔ سماج کے بیشتر ادارے آمریت پر قائم ہیں، بہت سے اداروں میں نظام تو شورائی ہے مگر ضابطے کی حد تک۔ شورائیت بطور ِقدر وہاں موجود نہیں ہے۔
واقعات گواہی دیتے ہیں کہ شورائیت کے بیش بہافائدے حاصل کرنے کے لیے شورائی نظام کو اختیار کرلینا کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے شورائی اقدار وآداب سے آراستہ ہونا بھی لازم ہے۔ ورنہ شورائی عمل بے سود تماشا بن کر رہ جاتا ہے۔
قرآن مجید میں شوری اور مشاورت کا نہ صرف ذکر بلکہ صریح حکم آیا ہے، اس لیے علمائے تفسیر نے اس موضوع پر عمدہ گفتگوئیں کی ہیں، ہم ان کے حوالے سے یہاں کچھ باتیں پیش کریں گے۔
پہلا نکتہ: مشاورت کے فائدے
مشاورت کے فائدے بتائے جائیں گے تو لوگوں کی اس کی طرف رغبت بڑھے گی۔ شیخ عبدالرحمن سعدی (وفات: ۱۹۵۶ء) کہتے ہیں[2] کہ مشاورت میں اس قدر دینی اور دنیوی فائدے ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے چند جملوں میں مشاورت کے بڑے فائدوں کا ذکر کیا ہے۔ ہم ان کے نکات کو قدرے تفصیل کے ساتھ پیش کریں گے:
(الف) مشاورت عبادت ہے، اور عبادت اللہ سے قریب کرتی ہے۔
اللہ تعالی نے صریح الفاظ میں مشاورت کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور باہمی مشاورت کو اہل ایمان کی خاص صفات میں ذکر کیا ہے۔ اس لیے اہل علم نے اسے عبادت شمار کیا ہے۔ عبادت قرار پانے سے مشاورت کا مقام بہت بلند ہوجاتا ہے۔ اسے اختیار کرنے کا محرک صرف دنیوی مصلحت نہیں رہ جاتی ہے بلکہ طاقت ور دینی محرک اس کے حصول کو یقینی بناتا ہے۔
اگر مشاورت کا عمل عبادت ہے تو اس عمل کو عبادت کی طرح انجام دینا چاہیے، یعنی نیت اللہ کو راضی کرنے کی ہو اورنفس کی کسی خواہش یا غرض کی اس میں ملاوٹ نہ ہو۔ اسے نہایت سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ اور بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دیا جائے۔
(ب) مشاورت سے دلوں کی کشادگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
جب لوگ سچے دل سے باہمی مشاورت کے لیے بیٹھتے ہیں، تو ان کے دل ایک دوسرے کے لیے کشادہ ہوجاتے ہیں۔ وہ اس کے لیے آمادہ رہتے ہیں کہ اگر کسی کی رائے ان کی رائے سے بہتر معلوم ہوئی تو فوراً اپنی رائے سے رجوع کرکے اس کی رائے کو دل کی کشادگی کے ساتھ قبول کرلیں گے۔ وہ اس کے لیے بھی تیار ہتے ہیں کہ اگر آخری فیصلہ ان کی رائے کے خلاف ہوا تو اس پر برا نہیں مانیں گے اور اس اجتماعی فیصلے کو اپنا فیصلہ سمجھیں گے۔غرض مشاورت کا عمل دل کی کشادگی مانگتا ہے، اس کے بغیر وہ صحیح سے انجام نہیں پا سکتا ہے، دوسری طرف مشاورت کا عمل دل کو کشادہ بھی کرتا ہے۔ فیصلے کے محرکات کا علم ہوتا ہے، فیصلے میں شرکت کا احساس ہوتا ہے، فیصلے تک پہنچنے کا پورا عمل نظر کے سامنے رہتا ہے، اس کے نتیجے میں فیصلے کے لیے دل کشادہ ہوجاتا ہے۔ اختلاف کے باوجود یہ معلوم رہتا ہے کہ فیصلہ کثرت رائے کی بنا پر ہوا ہے، اس میں کوئی من مانی نہیں ہوئی ہے۔ جب کسی کو مشاورت کے عمل سے الگ کردیا جاتا ہے تو اس کے دل میں اس ادارے یا اجتماعیت کے سلسلے میں تنگی پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن جسے مشاورت کے عمل میں بھرپور شرکت کا موقع دیا جاتا ہے اسے اپنے دل میں فرحت بخش کشادگی کا احساس ہوتا ہے۔ اپنی رائے دینے کا احساس اپنے آپ میں راحت بخش اور دل میں کشادگی کا احساس پیدا کرنے والا ہوتا ہے، خواہ وہ رائے اس وجہ سے قبول نہ کی جائے کہ دوسری رائے کو زیادہ لوگوں کی تائید حاصل ہوئی۔
(ج) مشاورت کے نتیجے میں امیر سے محبت بڑھتی ہے۔
محبت کا تعلق قائم کرنے کی بہت سی ترکیبیں ہیں، ان میں سے ایک ترکیب مشاورت کی بھی ہے۔ کسی بھی اجتماعیت میں جتنی زیادہ مشاورت ہوتی ہے اجتماعیت سے جڑے افراد میں اتنی ہی زیادہ محبت بڑھتی ہے۔ مشاورت کے اندر انسان کا احترام اور اس کی قدر و منزلت کا اعتراف پایا جاتا ہے۔ قائداپنی ٹیم کے افراد سے مشورہ کرتا ہے تو ٹیم کے دل میں قائد سے محبت بڑھتی ہے۔ اجتماعی ادارے میں متعلق افراد سے مشورہ ہوتا ہے تو ان افراد کا اس ادارے سے تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ گھر کی چھوٹی سی اجتماعیت میں بھی شوہر اور بیوی کے درمیان مشاورت ہوتی ہے تو ان کے درمیان محبت میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن اگر بیوی یا شوہر میں سے کوئی من مانی کا راستہ اختیار کرتا ہے، تو گھر تو چلتا رہتا ہے لیکن تعلقات میں وہ گرم جوشی نہیں رہتی ہے۔ یہی حال دوسری اجتماعیتوں کا بھی ہے۔
(د) مشاورت سے قائد کی قدر و منزلت بڑھتی ہے
مشاورت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قائد ذاتی اغراض سے بلند تر اور اجتماعی مقاصد کے لیے فکر مند ہے۔ یہ احساس دلوں میں اس کی قدر و منزلت کو بڑھاتا ہے۔ جب کہ من مانی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قائد اپنی ذات میں قید ہے اور اپنے سوا کسی کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا ہے۔ مشاورت نہ ہو تو نہ سچی محبت حاصل ہوتی ہے اور نہ کامل اطاعت وجود میں آتی ہے۔ اجتماعیت دراصل مشاورت اور اطاعت کا مرکب ہوتی ہے۔ اگر مشاورت کا موقع نہ ہو اور صرف اطاعت کا مطالبہ ہو تو اجتماعیت میں نقص در آتا ہے اور اس کی بنیاد کم زور ہوجاتی ہے۔ مشاورت کی موجودگی میں اختلافات مثبت رخ اختیار کرتے ہیں، استبداد وآمریت کی صورت میں جب گھٹن بڑھنے پر جوالا مکھی پھوٹتا ہے تو سب کچھ تباہ کردیتا ہے۔ ایسا گھر کی چھوٹی اجتماعیت میں بھی ہوتا ہے اور بڑی اجتماعیتوں میں بھی ہوتا ہے۔
(ھ) مشاورت سے فکر ی قوتیں ترقی پاتی ہیں
مشاورت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ امور ومسائل پر لوگ غور وفکر کریں اور اپنا حاصل فکر پیش کریں۔ جب مشورے میں لوگوں کو شریک کیا جاتا ہے تو انھیں غور وفکر کے لیے مہمیز ملتا ہے۔ ان کی دماغی توانائیوں کو مثبت اور تعمیری جگہوں پر استعمال ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اجتماعی عقل وذہانت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس اجتماعیت میں زیادہ لوگ حقیقی مسائل اور موضوعات پر سنجیدہ غور و فکر کریں گے اس اجتماعیت کی ذہنی سطح بلند ہوگی اور جس اجتماعیت میں لوگ صرف احکامات سن کر ان پر عمل کریں گے اس اجتماعیت کی ذہنی سطح بلند نہیں ہوسکے گی خواہ اطاعت کی کیفیت قابلِ قبول محسوس ہو۔
(و) مشاورت درست نتیجے تک پہنچنے کا راستہ ہے۔
اللہ کے فیصلے کے مطابق یہ دنیا طبعی قوانین کے تحت چل رہی ہے۔یہاں دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ زیادہ توانائیاں کم توانائیوں سے زیادہ مؤثر ہوتی ہیں۔ اس لیے اگر فیصلہ محض ایک دماغ کے غور و فکر پر مبنی ہوگا تو غلطی کا امکا ن زیادہ رہے گا۔ کئی دماغ مل کر کام کریں گے تو غلطی کا امکان کم ہوجائے گا اور درست نتیجے تک پہنچنے کا امکان بڑھ جائے گا۔ سروں کو گننے پر کسی کو اعتراض ہوسکتا ہے، لیکن سروں کو تولنے پر تو کوئی اعتراض نہیں کرسکتا ہے۔ مشاورت کا راز یہی ہے کہ زیادہ دماغ کام کریں تاکہ دماغوں کا مجموعی وزن صحیح فیصلے تک پہنچنے میں مددگار ہو۔
(ز) مشاورت ملامت سے محفوظ رکھتی ہے۔
جب فیصلے باہم مشاورت سے ہوتے ہیں اور اجتماعی فیصلے کو سب لوگ اپنا فیصلہ سمجھتے ہیں تو اس کے تئیں ذمے داری بھی محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس کے نفاذ میں گرم جوشی کے ساتھ شریک رہتے ہیں۔ اور اگر نتائج حسب توقع سامنے نہیں آئے تو ایک دوسرے کے سر الزام دھرنے کے بجائے تلافی اور تدارک کے عمل میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں۔اس لیے فیصلہ جس قدر دور رس نتائج کا امکان رکھتا ہو، اس پر مشاورت بھی اتنے ہی بڑے پیمانے پر ہونی چاہیے۔
دوسرا نکتہ: مشاورت کی کام یابی کی شرطیں
ہر اجتماعی کوشش کی طرح مشاورت کے ثمرات کا کوئی انکار نہیں کرسکتا، البتہ اہلِ علم نے اس کی کام یابی کے لیے کچھ خاص شرائط بھی ذکر کی ہیں، مثال کے طور پر ابوجعفر طبری (وفات: ۳۱۰ ھ) نے مشاورت کے لیے درج ذیل شرطوں کا ذکر کیا ہے[3]، وہ کہتے ہیں کہ یہ شرطیں پوری کرلی جائیں تو اللہ صحیح راستہ دکھائے گا اور اس کی توفیق شامل حال رہے گی:
مشاورت کے سلسلے میں اللہ کے رسول ﷺکی سنت پر عمل کرنے کی نیت ہو۔
باہم خلوص کا جذبہ ہو۔
حق کو تلاش کرنے کی نیت ہو۔
صحیح بات تک پہنچنا مشترک مقصد ہو۔
خواہش نفس کی طرف کسی کا جھکاؤ نہیں ہو۔
دل میں ہدایت سے بے زاری نہ ہو۔
ظاہر بات ہے کہ جب مشاورت کی فضا اس قدر پاکیزہ ہو، مشاورت میں شامل لوگوں کے دل پاک وصاف ہوں، سب کا مقصد حق کی جستجو ہو اور کسی کے دل میں میل یا ٹیڑھ نہ ہو، تو ایسی مشاورت اللہ کے یہاں ضرور قابلِ قبول ہوگی اور اسے اللہ کی تائید وتوفیق ضرور حاصل ہوگی۔
ان شرائط میں پہلی شرط اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت کا اس پہلو سے مطالعہ کیا جائے کہ آپ اہم مواقع پر مشاورت کا کس قدر اہتمام کرتے تھے، اور لوگوں کی طرف سے آنے والے مشوروں کو کتنی وقعت دیا کرتے تھے۔
تیسرا نکتہ: محبت اپنی رائے سے نہیں، درست رائے سے ہو
آپ جب غور و فکر کر کے اپنی ایک رائے بناتے ہیں تو وہ رائے اس وجہ سے آپ کی رائے بنتی ہے کہ آپ کی نگاہ میں وہ درست ہوتی ہے۔ اس لیے اس رائے سے آپ کی وابستگی اسی بنا پر ہونی چاہیے اور اسی وقت تک ہونی چاہیے جب تک وہ آپ کو درست معلوم ہو۔ اگر کسی اور کی رائے زیادہ مضبوط دلائل کے ساتھ آپ تک پہنچے اور آپ کو یہ علم ہوجائے کہ یہ دوسری رائے درست ہے یا زیادہ مناسب ہے تو پھر اسی درست اور زیادہ مناسب رائے سے آپ کا رشتہ قائم ہوجائے۔ کیوں کہ رائے سے رشتہ اس کے درست اور بہتر ہونے کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے اس کے علاوہ رائے سے رشتے کی کوئی اور بنیاد نہیں بن سکتی ہے۔
اس سلسلے میں شمس الدین قرطبی (وفات: ۶۷۱ھ) نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے[4] اور وہ یہ کہ مشاورت کی بنا رایوں کے اختلاف پر ہوتی ہے، اگر مشورہ لینے والا ایک فرد ہے تو اس کی ذمے داری ہے کہ وہ ممکنہ حد تک یہ جاننے کی کوشش کرے کہ مختلف رایوں میں کون سی رائے کتاب وسنت سے قریب تر ہے۔ اور اس رائے کو اختیار کرے۔
یہ اس صورت کے بارے میں ہے جب کہ مشورہ لینے والا ایک فرد ہو اور مشورہ دینے والے کئی افرادہوں، اور فیصلہ ایک فرد یعنی امیر کو کرنا ہو۔ لیکن اگر فیصلہ پوری مجلس کو کرنا ہو اور مشاورت بھی مجلس کے افراد کے مابین ہورہی ہو تو ایسی صورت میں ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مشاورتی گفتگو کے دوران اپنی اور دوسروں کی رایوں کا سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ جائزہ لیتا رہے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ کتاب وسنت سے قریب تر کون سی رائے ہے۔ پھر وہ اسے ہی اختیار کرے، خواہ اسے اپنی رائے سے دست بردار ہونا کیوں نہ پڑے۔ اخلاص کے ساتھ یہ عمل انجام پائے گا تو مشاورت کی مجلس مختلف رایوں سے ایک رائے کی طرف فطری طریقے سے بڑھتی جائے گی اور بہت سے مسائل ومعاملات میں نہ صرف امیر بلکہ پوری مجلس ایسی رائے تک پہنچے گی جس پر سب کو شرح صدر اور کامل اطمینان ہوگا۔
چوتھا نکتہ: بہترین کی جستجو سب کا ہدف بن جائے
فخر الدین رازی (وفات: ۶۰۶ھ) نے مشاورت کے سات بڑے فائدے گنائے ہیں، ان میں ایک فائدہ بہت اہم ہے[5]: وہ یہ کہ جب کسی معاملے میں کئی لوگوں کو مشاورت میں شریک کیا جاتا ہے تو ان میں سے ہر ایک اس سلسلے میں بہترین حل نکالنے کی کوشش کرتا ہے، اس طرح بہترین حل تک پہنچنے کے ہدف اور کوشش میں یہ سب روحیں ہم آہنگ اور متفق ہوجاتی ہیں۔ اور جب پاک روحیں کسی چیز کے حصول کے لیے ایک ساتھ کوشاں ہوں تو اس کے حصول میں مدد ملتی ہے۔ فخر الدین رازی اجتماعی مشاورت کو باجماعت نماز سے تشبیہ دیتے ہیں۔
غرض مشاورتی عمل اجتماعی غور وفکر کے ایجابی ماحول کو فروغ دیتا ہے، اور اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پوری اجتماعیت بہتر سے بہتر تک پہنچنے کے لیے عقل وقلب کے ساتھ کوشاں ہوتی ہے۔
پانچواں نکتہ: رایوں سے رائے نکالنے کا کام کریں
مشاورت کے نتیجے میں بہترین فیصلے ہوں گے تو لوگوں کے دلوں میں مشاورت کی قدر بڑھے گی ورنہ اس سے بھی بدگمانی ہوجائے گی۔ محمد طاہر بن عاشور (وفات: ۱۹۷۳ء)نے مشاورت کے ایک اہم پہلو کی طرف متوجہ کیا[6] ، وہ یہ کہ مشاورت کے دوران امیر کی ایک ذمے داری یہ بھی بنتی ہے کہ وہ مختلف رایوں کے درمیان سے نئی اور بہتر رائے کو دریافت کرنے کی کوشش کرے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مشاورت میں شریک افراد دو یا دو سے زائد رایوں کے درمیان منقسم ہوجاتے ہیں، حالاں کہ ان رایوں کے بیچ میں کوئی اور رائے بھی ہوسکتی ہے جو ان سب رایوں کے مجموعے سے جنم لیتی ہو اور ان سب سے بہتر بھی ہو، لیکن اپنی اپنی رائے پر نگاہ مرکوز ہونے کی وجہ سے وہ نظر نہیں آتی ہو، ایسی صورت حال میں قائدانہ صلاحیت کے افراد بلندی پر جاکر سب رایوں پر یکساں نظر ڈالتے ہیں اور ان کے بیچ سے کوئی نئی مگر زیادہ بہتر رائے کو دیکھ لیتے ہیں۔ مختلف رایوں کے مجموعی وجود کے اندر سے ایک بہتر رائے کو نکالنا مشاورت کو بہت زیادہ معنی خیز بنادیتا ہے۔
چھٹا نکتہ: مشاورت کو دائرہ وسیع کریں
ابن خویز منداد (وفات: ۳۹۰ھ)والیانِ ریاست پر یہ ذمے داری عائد کرتے ہیں[7] کہ وہ ریاست کی ہر سطح پر مشاورت کا عمل انجام دیں، دینی امور کے سلسلے میں علمائے دین سے مشورہ کریں، جنگ کے سلسلے میں فوج کے سالاروں سے مشورہ کریں، عمومی مفاد کے بارے میں عوام کے نمائندہ افراد سے مشورہ کریں، ملک کی تعمیر وترقی کے لیے وزرا اور عہدے دارانِ حکومت سے مشورہ کریں۔ غرض مشاورت کا عمل ہر سطح پر انجام پانا چاہیے۔ دورِ جدید میں جمہوری قدروں کے سلسلے میں بھی مثالی بات یہ سمجھی جاتی ہے پورا سماج جمہوری عمل سے مربوط رہے اور جمہوری قدروں کا آئینہ دار بن جائے۔
بہرحال اس پر توجہ دینی چاہیے کہ مشاورت کا عمل سماج کی ہر سطح تک ضرور پہنچے، تاکہ شورائیت نظام سے آگےبڑھ کر کلچر اور اجتماعی مزاج بن جائے۔ یہ درست ہے کہ جدید زمانے میں اداروں اور تنظیموں کی اپنی مشاورتی مجلسیں ہوتی ہیں، لیکن ان اداوں اور تنظیموں تک مشاورتوں کے محدود ر ہنے سے شورائیت کا عام کلچر نہیں بن پاتا ہے۔ شورائیت کو ایک سماجی کلچر بنادینے کے لیے ضروری محسوس ہوتا ہے سماج کی مختلف اکائیوں اور اجتماعیتوں میں عمومی مشاورت کا عمل انجام دیا جائے۔بطور مثال:
تعلیم گاہوں میں طلبا کے درمیان ۔
گھروں میں بچوں کے درمیان۔
مسجدوں میں نمازیوں کے درمیان۔
تحریکوں اور جماعتوں میں عام ارکان بلکہ کارکنان کے درمیان بھی۔
اور محلے کے مختلف مسائل حل کرنے کے لیے محلے کے تمام افراد کے درمیان مشورے کی مجلسیں منعقد کرنا معمول بن جانا چاہیے۔
ساتواں نکتہ: مشاورت کے لیے مطلوبہ اوصاف
مشاورت ایک نازک ذمے داری ہے، اور ہر ذمے داری کچھ اوصاف کا تقاضا کرتی ہے۔ مشاورت کے عمل میں شامل ہونے والوں کو اپنے اندر اس کے لیے مطلوب اوصاف کو ترقی دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
قرطبی نے علما کا یہ قول نقل کیا ہے[8] کہ جس سے دین کے معاملات میں مشورہ لیا جائے اسے عالم اور دین دار ہونا چاہیے۔ اور ایسا فرد عقل مند تو ہوتا ہی ہے۔ حسن بصری کے بقول جسے عقل میں کمال حاصل نہیں اسے دین میں کمال حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔ جب کہ دنیا کے معاملات میں جس سے مشورہ کیا جائے اسے عقل مند، تجربے کار اور مشورہ لینے والے سے محبت ومودت کرنے والا ہونا چاہیے۔
معلوم ہوا کہ اگر مشاورت کی قدر کو عام کرنا ہے تو مشاورت کے لیے مطلوب ان صفات کو عام کرنا بھی ضروری ہوگا۔ دین کے علم کو فروغ دیا جائے۔ دین داری کو پھیلایا جائے۔ ذہانت و دانش مندی کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ تجربات کی قدر کی جائے اور ان کے لیے میدان اور مواقع بہم میسر کیے جائیں نیز محبت ومودت کی فضا بنائی جائے۔ جب ان صفات کا دور دورہ ہوگا تو مشاورت کی قدر کو سماج میں صحت بخش فضا میسر آئے گی اور بہتر طریقے سے پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔n
حوالہ جات:
[1] وَالشُّورَى مِنْ قَوَاعِدِ الشَّرِيعَةِ وَعَزَائِمِ الْأَحْكَامِ (ابن عطیة)
[2] فإن في الاستشارة من الفوائد والمصالح الدينية والدنيوية ما لا يمكن حصره: منها: أن المشاورة من العبادات المتقرب بها إلى الله. ومنها: أن فيها تسميحا لخواطرهم، وإزالة لما يصير في القلوب عند الحوادث، فإن من له الأمر على الناس -إذا جمع أهل الرأي: والفضل وشاورهم في حادثة من الحوادث- اطمأنت نفوسهم وأحبوه، وعلموا أنه ليس بمستبد عليهم، وإنما ينظر إلى المصلحة الكلية العامة للجميع، فبذلوا جهدهم ومقدورهم في طاعته، لعلمهم بسعيه في مصالح العموم، بخلاف من ليس كذلك، فإنهم لا يكادون يحبونه محبة صادقة، ولا يطيعونه وإن أطاعوه فطاعة غير تامة. ومنها: أن في الاستشارة تنور الأفكار، بسبب إعمالها فيما وضعت له، فصار في ذلك زيادة للعقول. ومنها: ما تنتجه الاستشارة من الرأي: المصيب، فإن المشاور لا يكاد يخطئ في فعله، وإن أخطأ أو لم يتم له مطلوب، فليس بملوم (السعدي)
[3] قال أبو جعفر: ۔ ۔۔ وأما أمته، فإنهم إذا تشاوروا مستنِّين بفعله في ذلك، على تصادُقٍ وتأخٍّ للحق، وإرادةِ جميعهم للصواب، من غير ميل إلى هوى، ولا حَيْد عن هدى، فالله مسدِّدهم وموفِّقهم. (الطبري)
[4] وَالشُّورَى مَبْنِيَّةٌ عَلَى اخْتِلَافِ الْآرَاءِ، وَالْمُسْتَشِيرُ يَنْظُرُ فِي ذَلِكَ الْخِلَافِ، وَيَنْظُرُ أَقْرَبَهَا قَوْلًا إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ إِنْ أَمْكَنَهُ، فَإِذَا أَرْشَدَهُ اللَّهُ تَعَالَى إِلَى مَا شَاءَ مِنْهُ عَزَمَ عَلَيْهِ وَأَنْفَذَهُ مُتَوَكِّلًا عَلَيْهِ، إِذْ هَذِهِ غَايَةُ الِاجْتِهَادِ الْمَطْلُوبِ، وَبِهَذَا أَمَرَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ. (القرطبي)
[5] وشاوِرْهم في الأمْرِ لا لِأنَّكَ مُحْتاجٌ إلَيْهِمْ، ولَكِنْ لِأجْلِ أنَّكَ إذا شاوَرْتَهم في الأمْرِ اجْتَهَدَ كُلُّ واحِدٍ مِنهم في اسْتِخْراجِ الوَجْهِ الأصْلَحِ في تِلْكَ الواقِعَةِ، فَتَصِيرُ الأرْواحُ مُتَطابِقَةً مُتَوافِقَةً عَلى تَحْصِيلِ أصْلَحِ الوُجُوهِ فِيها، وتَطابُقُ الأرْواحِ الطّاهِرَةِ عَلى الشَّيْءِ الواحِدِ مِمّا يُعِينُ عَلى حُصُولِهِ، وهَذا هو السِّرُّ عِنْدَ الِاجْتِماعِ في الصَّلَواتِ. وهو السِّرُّ في أنَّ صَلاةَ الجَماعَةِ أفْضَلُ مِن صَلاةِ المُنْفَرِدِ. (الرازی)
[6] وقَدْ ظَهَرَ مِنَ التَّفْرِيعِ أنَّ المُرادَ: فَإذا عَزَمْتَ بَعْدَ الشُّورى أيْ تَبَيَّنَ لَكَ وجْهُ السَّدادِ فِيما يَجِبُ أنْ تَسْلُكَهُ فَعَزَمْتَ عَلى تَنْفِيذِهِ سَواءٌ كانَ عَلى وفْقِ بَعْضِ آراءِ أهْلِ الشُّورى أمْ كانَ رَأْيًا آخَرَ لاحَ لِلرَّسُولِ سَدادُهُ فَقَدْ يَخْرُجُ مِن آراءِ أهْلِ الشُّورى رَأْيٌ، وفي المَثَلِ (ما بَيْنَ الرَّأْيَيْنِ رَأْيٌ) (ابن عاشور)
[7] وَقَالَ ابْنُ خُوَيْزِ مَنْدَادُ: وَاجِبٌ عَلَى الْوُلَاةِ مُشَاوَرَةُ الْعُلَمَاءِ فِيمَا لَا يَعْلَمُونَ، وَفِيمَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ مِنْ أُمُورِ الدِّينِ، وَوُجُوهِ الْجَيْشِ فيما يتعلق بالحرب، وجوه والناس فِيمَا يَتَعَلَّقُ بِالْمَصَالِحِ، وَوُجُوهِ الْكُتَّابِ وَالْوُزَرَاءِ وَالْعُمَّالِ فِيمَا يَتَعَلَّقُ بِمَصَالِحِ الْبِلَادِ وَعِمَارَتِهَا. (القرطبی)
[8] قَالَ الْعُلَمَاءُ: وَصِفَةُ المستشار إن كان في الأحكام أن يَكُونَ عَالِمًا دَيِّنًا، وَقَلَّمَا يَكُونُ ذَلِكَ إِلَّا فِي عَاقِلٍ. قَالَ الْحَسَنُ: مَا كَمُلَ دِينُ امْرِئٍ مَا لَمْ يَكْمُلْ عَقْلُهُ۔ ۔۔ وَصِفَةُ الْمُسْتَشَارِ فِي أُمُورِ الدُّنْيَا أَنْ يَكُونَ عَاقِلًا مُجَرِّبًا وَادًّا فِي الْمُسْتَشِيرِ. (القرطبی)
مشمولہ: شمارہ نومبر 2021