لغو پسندی کی تباہ کاریاں

تحریکی جدوجہد کے تناظر میں

(لغو پسندی سے آزاد ہوتے ہی آپ محسوس کریں گے کہ زندگی میں بے پناہ برکت آگئی ہے۔ )

لغو پسندی کی بدترین صورت یہ ہے کہ پوری زندگی بے مقصد گزار دی جائے۔ زندگی کی کوئی ایک ساعت بے سود کام میں گزاردینا نقصان کا سودا ہے، پوری زندگی لغو کی نذر کردینا تو بہت بڑے خسارے کی بات ہے۔ افسوس کہ اس وقت کوئی ایک فرد نہیں بلکہ نسلوں کی نسلیں زندگی کے مقصد سے غافل لغو والی زندگی گزار رہی ہیں۔ انھیں ایسی مسیحا صفت تحریک کی فوری ضرورت ہے جو بے مقصدیت کے اندھیرے سے نکال کر زندگی کے حقیقی مقصد سے ہم کنار کرے۔

لیکن اس مضمون میں ہمارے پیش نظر وہ لوگ ہیں جو زندگی کا ایک اعلی مقصد رکھتے ہیں، دین کے انقلابی اور حرکی تصور سے آشنا ہیں، پھر بھی کسی نہ کسی درجے میں لغو پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کی زندگی کے بہت سے قیمتی اوقات بے سود کاموں میں گزر جاتے ہیں۔ زندگی کا اعلی مقصد رکھنے والوں کو تو لغو سے سخت بیر اور اپنی زندگی کے سلسلے میں بہت حساس اور محتاط ہونا چاہیے۔

قرآن مجید نے لغو پسندی کے مسئلے کی طرف اپنے خاص انداز سے متوجہ کیا ہے۔

قرآن مجید میں مومنوں کی ایک خاص صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ لغو سے اپنا پہلو بچاتے رہتے ہیں۔

وَالَّذِینَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [المؤمنون: 3]

(اور وہ لوگ جو لغو سے پہلو بچاتے ہیں)

وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَیكُمْ لَا نَبْتَغِی الْجَاهِلِینَ [القصص: 55]

(اور وہ جب کوئی فضول بات سنتے ہیں تو اس سے روگردانی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے! تم کو سلام! ہم جاہلوں کو پسند نہیں کرتے۔)

وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا [الفرقان: 72]

(اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔)

خاص بات یہ ہے کہ یہ تینوں مقامات مکی سورتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے ساتھی بہت بڑا مشن لے کر اٹھے تھے۔ مکی سورتوں میں اہل ایمان کی شخصیت میں وہ صفات شامل کی گئی ہیں جو انھیں بہت بڑے مشن اور ذمے داری کا اہل بناتی ہیں۔ ان صفات میں ایک اہم صفت لغو سے دور رہنا ہے۔

ایک بڑے مشن کے لیے اٹھنے والی امت اور تحریک لغویات سے خود کو بچائے رکھتی ہے اور ان میں پھنس کر اپنی منزل کھوٹی نہیں کرتی ہے۔مقصد زندگی کے لیے مخلص فرد کی نمایاں پہچان یہ ہے کہ وہ لغو سے بے زار زندگی گزارے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی دعوت پر ایمان لانے اور آپ کے مشن میں شامل ہونے والے مسلمانوں پر اللہ کا خاص فضل تھا کہ وہ لغویات سے بے زار اور اپنے مقصد کے سلسلے میں بے حد حساس تھے۔ اسی لیے وہ عظیم کام یابی کے مستحق قرار پائے۔

سورہ مومنون میں ایمان والوں کی کام یابی کی خبر اور کام یابی کے لیے مطلوب اوصاف کا ذکرہے۔

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۔ الَّذِینَ هُمْ فِی صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ۔ وَالَّذِینَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ۔ وَالَّذِینَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ [المؤمنون: 1–4]

(یقیناً فلاح پائی ہے ایمان والوں نے جو: اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، فضول باتوں سے دور رہتے ہیں، تزکیہ(زکات) کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں)

یہاں پہلی صفت نماز میں خشوع ہے تیسری صفت اپنا تزکیہ اور اس کے لیے زکات کی ادائیگی ہے۔ درمیان میں دوسری صفت لغو سے دور رہنا ہے۔لغوپسندی سے نماز کا خشوع غارت ہوتا ہے۔لغوپسندی کے نتیجے میں انسان اپنے تزکیہ وتربیت سے غافل ہوتا ہے اور اس کا مال بھی زکات میں ادا ہونے کے بجائے غلط راہوں پر خرچ ہوتا ہےاور اس طرح انسان کام یابی سے کوسوں دور ہوتا جاتا ہے۔

ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ قرآن میں کہیں لغو سے بچنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے بلکہ ہر جگہ خبر دی گئی ہے کہ ایمان والے لغو سے دور رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ لغو سے اعراض دراصل ایمان کا فطری نتیجہ ہے۔ جس قدر ایمان ہمارے شعور کو متاثر کرے گا ہمارے اندر لغو سے بے زاری بڑھتی جائے گی۔ایمان ہماری زندگی کو ایک مقصد اور معنی عطا کرتا ہے۔ جس شخص کو اپنی زندگی کا مقصد اور معنی حاصل ہوجائے اس کی لغو سے آشنائی کیسے ہوسکتی ہے۔

قرآن مجید میں کئی جگہ فحش کاموں کے قریب نہ جانے کو کہا گیا جب کہ ہر جگہ لغو سے اعراض کرنے کی بات کہی گئی۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ عام طور سےفحش کام انسان سےقریب نہیں ہوتے ہیں، انسان ان کے قریب جاتا ہے تو ان کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس لیے ان سے دور رہنا ہی ان سےمحفوظ رہنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ جب کہ لغو کام انسان کے بہت قریب ہوتے ہیں، وہ ہر وقت ان کے گھیرے میں رہتا ہے، ہر آن اس پر لغو کاموں کی بارش ہورہی ہوتی ہے، اس لیے ہر وقت اسے لغو کاموں سے خود کو بچاتے رہنا ہوتا ہے۔

اسے ویڈیو گیم کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ بہت سے ویڈیو گیم (جو خود ایک لغو سرگرمی ہے) اس تھیم پر بنتے ہیں کہ ان میں آدمی کو بہت سے مہلک حملوں سے خود کو بچاتے ہوئے اپنا ٹارگٹ پورا کرنا ہوتا ہے۔ لغو سے اعراض کرنے والے کی کیفیت کچھ ایسی ہی ہوتی ہے کہ اس پر لغویات کی بوچھار ہورہی ہوتی ہے اور اسے پہلو بدل بدل کر خود کو بچانا ہوتا ہے تاکہ زندگی کا مقصد فوت نہ ہوجائے۔

غور کرنے پر یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ لغو پسندی ایک بامقصد زندگی کےراستے کی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

جنت کے بارے میں جو کچھ خاص باتیں بتائی گئی ہیں، ان میں ایک بات یہ ہے کہ وہاں لغو باتیں نہیں سنی جائیں گی۔

لَا یسْمَعُونَ فِیهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا [مریم: 62]

(وه لوگ وہاں کوئی لغو بات نہ سنیں گے صرف سلام ہی سلام سنیں گے۔)

لَا یسْمَعُونَ فِیهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِیمًا [الواقعة: 25]

(وه لوگ وہاں کوئی لغو بات نہ سنیں گے اور نہ گناہوں پر اکسانے والی باتیں۔)

لَا یسْمَعُونَ فِیهَا لَغْوًا وَلَا كِذَّابًا [النبأ: 35]

(وه لوگ وہاں کوئی لغو بات نہ سنیں گے اور نہ کوئی جھوٹی بات۔)

لَا تَسْمَعُ فِیهَا لَاغِیةً [الغاشیة: 11]

(وہاں کسی طرح کی لغو بات نہ سنیں گے۔)

خاص بات یہ ہے کہ جنت کی یہ بات صرف مکی سورتوں میں ذکر کی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جنت کے بارے میں یہ بات بار بار اس لیے کہی گئی ہے تاکہ اہل ایمان کے دلوں میں لغو بے زاری اچھی طرح رچ بس جائے۔

اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لغو کوئی مباح چیز نہیں ہے کہ اسے فرصت کے اوقات میں کرنا درست ہو۔ جنت میں جہاں انسان کو کارِ جہاں سے فرصت ہوگی اور تفریح کے بے حد و حساب مواقع ہوں گے، وہاں بھی لغو کے لیے گنجائش نہیں ہوگی۔ کیوں کہ وہاں تفریح اور تسبیح کا ساتھ ہوگا، لغو کا کوئی گزر نہ ہوگا۔

ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے بارے میں تو یہ کہا گیا کہ ایمان والے لغو سے بچتے ہیں اور جنت کے بارے میں کہا گیا کہ وہاں وہ لغو نہیں سنیں گے۔ اس فرق کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا امتحان گاہ ہے، یہاں لغو کا وجود ہے، جس سے بچتے رہنے میں کام یابی ہے، جب کہ جنت میں لغو ہوگا ہی نہیں کہ اس سے بچنے کی نوبت آئے۔ جو لوگ لغو کی خطرناکی سے واقف ہوتے ہیں اور ان کے دل لغو سے متنفر و بے زار ہوتے ہیں وہ جنت کی اس خوبی کی قدر اچھی طرح جان سکتے ہیں۔

جنت کے سلسلے کی درج بالا آیتوں پر نظر ڈالنے سے ایک بات اور سامنے آتی ہے کہ جھوٹ اور گناہوں کی اکساہٹ لغو کے بھائی بند ہیں۔ لغو کا اگلا قدم یا تو دروغ گوئی کی طرف بڑھتا ہے یا گناہوں کی طرف۔ جب کہ لغو سے بچنے والے سلامتی کے راستے پر چلتے ہیں۔

جو بے سود ہے وہ لغو ہے

ماہر تفسیر و لغت علامہ زمخشری لغو کی وضاحت کرتے ہیں کہ لغو ہر وہ چیز ہے جو بے سود اور بے مطلب ہو۔ پھر وہ یہ بتاتے ہیں کہ ایمان والے لغو سے دور کیوں رہتے ہیں، وہ یہ کہ ان کے اوپر جو سنجیدہ دُھن سوار رہتی ہے،اُنھیں فضولیات سے دور رکھتی ہے۔(تفسیر کشاف)

اللہ کے رسول ﷺ نے لغو سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے بڑی معنی خیز تعبیر اختیار کی، فرمایا:

مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا یعْنِیهِ.

کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایسی سب باتیں چھوڑ دے جو اس کے لیے بے مطلب ہوں۔

ایک روحانی بزرگ ذو النون مصری نے اس کے ایک پہلو کی وضاحت اس طرح کی:

’’جو لایعنی باتوں میں خود کو لگائے گاوہ مفید چیزوں سے ہاتھ دھوئے گا۔‘‘

ایک دوسرے بزرگ محمد بن علی نسوی نے اس کا ایک دوسرا پہلو واضح کیا:

’’جو بے سود باتیں کرتا ہے اس کے حصے میں بے سود کام آتے ہیں اور جو بے سود کاموں میں لگتا ہے وہ مقام مطلوب کے درجات سے نیچے گرتا جاتا ہے۔‘‘

مولانا عبدالماجد دریابادی نے لکھا ہے:

’’ زندگی بڑی ہی قیمتی شے اور بڑی سنجیدہ و اہم حقیقت ہے۔ مسلمان کی شان یہ نہیں کہ ایک لمحہ بھی کسی غیر مفید بات کی طرف توجہ کرے۔ سیر و تفریح، مشاغل نشاط، جس حد تک صحت جسم اور انبساط قلب کے لیے ضروری ہیں، ظاہر ہے کہ ان کا شمار لغو میں نہیں۔‘‘ (تفسیر ماجدی)

مولانا محسن علی نجفی لکھتے ہیں:

’’دنیا کی چند روزہ زندگی ابدی زندگی کے لیے تقدیر ساز ہے۔ جس مختصر اور پرآشوب زندگی سے ابدی زندگی سنورتی ہو وہ مومن کے لیے بہت قیمتی ہے۔ جس زندگی کے ہر لمحے سے ابدی زندگی کے اربوں سال کی سعادت کمائی جاسکتی ہے، مومن ان لمحات کو لغویات میں نہیں گزارتا۔ ’’ (الکوثر فی تفسیر البیان)

یہ وضاحت ضروری ہے کہ تفریح اور لغو میں فرق ہے۔ جسم و عقل اور قلب وروح کی صحت کے لیے تفریح ضروری ہے، لیکن لغو وہ فضول کام ہے جس سےمحض وقت گزاری ہوتی ہے اور کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ کھیل اور تفریح کی وہ شکلیں جو زیادہ وقت لیتی اور کم فائدہ دیتی ہیں ان شکلوں کے مقابلے میں لغو شمار ہوں گی جو کم وقت میں زیادہ فائدہ دیتی ہیں۔

لغو پسندی خطرناک بیماری ہے

ایک مسلمان کے لیے حرام پسندی اور فحش پسندی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن وہ لغو پسندی کا آسانی سے شکار ہوسکتا ہے۔ شیطان ایمان والوں کو حرام فعل کی طرف آسانی سے نہیں ڈھکیل سکتا ہے لیکن لغوکاموں میں آسانی سے مصروف کرسکتا ہے۔ خاص طور سے اگر انسان کا شعور ایمان کی لذت سے ہم کنار نہ ہوا ہو تو انسان کو احساس ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ ایمان کے تقاضوں کو چھوڑ کر لغو پسندی کے جال میں گرفتار ہے۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بڑے لوگوں نے اپنی زندگی کو ہر طرح کی لغویات سے پاک رکھا۔

امام زین العابدین ؒنے اپنی مجلسوں کو لغو سے بچانے کا ایک قیمتی اصول دیا، ان کا کہنا تھا:

’’آدمی اس کے پاس بیٹھے جو اس کے لیے دینی فائدے کا سبب بنے یا جس کے لیے وہ دینی فائدے کا سبب بنے۔ (رقائق) گویا جب مجلسوں میں بے فائدہ باتیں ہونے لگیں تو مجلس کو صحیح ڈگر پر لانے کی کوشش کی جائے یا مجلس سے رخصت لے لی جائے۔‘‘

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور خلافت میں ان کے پاس کچھ پرانے دوست آئے اور کہنے لگے، کچھ وقت ہمارے لیے خالی کیجیے۔انھوں نے بے قراری سے کہا، خالی وقت، خالی وقت اب کہاں ہے، خالی وقت تو اللہ کے یہاں جاکر ملے گا۔(رقائق)

لغو پسندی سے منزل کھوٹی ہو سکتی ہے

لغو پسندی کے ساتھ شخصیت کی تعمیر کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا جاسکتا۔ شخصیت کی تعمیر کے لیےبڑا خواب دیکھنا اور اس کے لیے خوب محنت کرنا ضروری ہے۔لغو کاموں میں مصروف رہنے والے نوجوانوں کے پاس نہ کوئی بڑا خواب ہوتا ہے اور نہ اس کے لیے محنت کرنے کا جذبہ۔ آدمی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی شخصیت میں چار چاند لگانے والے کیا کام ہوسکتے ہیں، لیکن لغو کاموں کے ہجوم میں وہ انھیں ٹالتا رہتا ہے یہاں تک کہ زندگی کا سورج زوال پذیر ہوجاتا ہے۔

لغو پسندی انسان کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔انسان اس وقت بڑے کام نہیں کرپاتاجب وہ بے سود مشاغل میں اپنا وقت اور توانائیاں صرف کردیتا ہے۔ زندگی کا ہر بڑا کام یکسوئی چاہتا ہےاور لغو پسندی یکسوئی کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ اچھا عالم، اچھا محقق،اچھا ٹیچر، اچھا تاجر، اچھا صنعت کار، غرض کسی بھی میدان کا ماہر شہ سوار بننے کے لیے لغو پسندی سے دوری پہلی شرط ہے۔ اعلی درجے کا ادبی شہ پارہ وہی تخلیق دے سکتا ہے جو اپنے دماغ کا تیل اس کے لیے نچوڑ ڈالے۔ دنیا کو وہی لوگ تخلیقی افکار سے مالا مال کرتے ہیں جو ہر طرح کی لغویت سے دور رہ کر فکری ریاض میں مصروف رہتے ہیں۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کم سنی میں بڑوں کی توجہ اور ماحول کی سازگاری کے سبب شخصیت کی بہت اچھی تعمیر ہوجاتی ہے۔ لیکن بعد میں کسی طرح کی لغو پسندی کی عادت پڑجاتی ہے اور ترقی کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔ لغو پسندی نے نہ جانے کتنے با کمال لوگوں کو زندہ درگور کردیا۔

بہت سے لوگ وقت کی کمی کا شکوہ کرتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اپنا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان کا زیادہ تر وقت لغویات کی نذر ہوجاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ بہت زیادہ اہم کاموں میں مصروف رہنے کے سبب باقی اہم کام نہیں کرپاتے، بلکہ بہت سے بے سود کاموں میں لگے رہنے کے سبب مفید کام نہیں کرپاتے۔

درحقیقت وقت اور صلاحیتوں کے ضیاع کا سب سے بڑا سبب لغو پسندی ہے۔

لغو پسندی کا اثر ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں پر ہوتا ہے۔

نماز میں خشوع پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ دل پر لغو خیالات کا ہجوم ہوتا ہے۔

تہجد نہیں پڑھ پاتے کیوں کہ رات کا بڑا حصہ لغو میں گزرجاتا ہے۔

اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے کیوں کہ لغو کاموں میں زیادہ خرچ کردیتے ہیں۔

بہترین صلاحیت کے باوجود عمدہ مضمون نہیں لکھتے۔اچھی تقریر نہیں کرتے۔کوئی اچھا تخلیقی و تعمیری پروجیکٹ نہیں کرتے کیوں کہ یہ سب کام وقت اور محنت چاہتے ہیں، جب کہ سارا وقت لغو کاموں میں گزر جاتا ہے۔

بے حد ذہین ہونے کے باوجود قیمتی خیالات ذہن میں نہیں آتے کیوں کہ وہاں لغو خیالات کے بادل گھرے رہتے ہیں۔

بحث و مباحثے کے رسیا توہوتے ہیں، لغو موضوعات پر گھنٹوں بات کرلیتے ہیں۔لیکن سنجیدہ موضوعات پر گفتگو کرنے میں مزا نہیں آتا، جیسی ہی کسی سنجیدہ موضوع پر بحث چھڑتی ہے، اس سے فرار پانے یا اسے سمیٹنے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔

لغوپسندی زندگی کے اہم ترین فرائض سے غافل کردیتی ہے۔اولاد کی تربیت۔والدین کی خدمت۔رشتے داروں کی خبر گیری۔شریک حیات کے ساتھ اچھا وقت۔اپنی شخصیت کی تعمیر۔نئی چیزوں کو سیکھنا۔

ہمیں بار بار یاد کرنا چاہیے کہ زندگی کے لمحات بہت قیمتی ہیں انھیں لغویات کی نذر کردینا بہت بڑی ناسمجھی ہے۔ زیادہ سونے کے نقصانات اتنے زیادہ نہیں ہیں جتنے زیادہ جاگتے ہوئے لغوباتوں اور کاموں میں مصروف رہنے کے ہیں۔ ہمارا بڑا مسئلہ زیادہ سونا نہیں ہے بلکہ جاگنے کی حالت کو فضول اور بے مقصد کاموں میں گزاردیناہے۔

لغو افزائی کے نئے شیطانی حربے

یہ لغویات کو بے انتہا بڑھاوا دینے والا زمانہ ہے۔ اس کے بہت سے مظاہر ہم صبح شام دیکھتے ہیں۔

کم لوگ کھیلتے ہیں اور زیادہ لوگ کھیل دیکھنے، کھیل پر تبصرے کرنے اور اس پر طویل بحثیں کرنے کا کام کرتے ہیں۔

شاپنگ مال زیادہ تر ان لوگوں سے بھرے ہوتے ہیں جو وہاں کسی ضرورت کی تکمیل کے لیے نہیں جاتے۔

ٹی وی چینلوں کا کوئی وقت متعین نہیں ہے۔ وقت ضائع کرنے کی خدمات چوبیس گھنٹے پیش کی جاتی ہیں۔

خبروں سے آگہی لینے کے بجائے انھیں بھی وقت گزاری کا ذریعہ بنالیا گیا ہے۔خبریں جاننے کا سنجیدہ عمل ایک لغو مشغلہ بن کر رہ گیا ہے۔

اچھے ناول پڑھنے سے اچھے ادبی ذوق کی تخلیق ہوسکتی ہےلیکن ناول پڑھنے کی عادت اس طرح لگ جاتی ہے کہ وہ انسان کو بے کار بناکر رکھ دیتی ہے۔

موبائل گیم میں مصروف ہوکر روزانہ کئی کئی گھنٹے اس طرح ضائع ہوتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا۔

ریل، شارٹ، عام ویڈیو، تصویریں اور اس طرح کی بے شمار لغویات نے لوگوں کو کسی سنجیدہ کام کے لائق نہیں چھوڑا ہے۔

موبائل نے تو لغو پسندی کو حد سے بڑھادیا ہے۔ سنجیدہ کاموں کے دوران بھی لوگ موبائل کی لغویات میں مصروف رہتے ہیں۔ جمعہ کے خطبات، اعتکاف، مشاورتی اجتماعات، غرض جس وقت مکمل یکسوئی مطلوب ہوتی ہے اس وقت بھی بعض لوگ موبائل کی لغویات میں کھوئے رہتے ہیں۔

لغو پسندی اور تحریک

اسلامی تحریک جو بہت عظیم مقصد رکھتی ہے، لغو پسندی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ مقصدیت اور لغویت میں کوئی جوڑ ہی نہیں ہے۔ لغو پسندی کے تحریک پر بہت خراب اثرات واقع ہوتے ہیں۔

افراد کی سطح پر بے سود کام ہوں تو بھی لغو اور تحریک کی سطح پر بے سود کام ہوں تو بھی لغو ہوں گے اور ہر لغو سے اعراض مومنوں کی شان ہے۔

تحریک سرگرم رہنے کا نام ہے، لیکن ہر سرگرمی تحریک نہیں ہوتی ہے۔ تحریک اپنے نصب العین کی طرف بڑھنے کا نام ہے نہ کہ محض سرگرمیوں کے اژدحام میں پھنسے رہنے کا۔

اگر کوئی تحریک ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتی ہے جو اس کے نصب العین کے حصول میں بے معنی ہوں تو وہ سرگرمیاں اس تحریک کے لیے لغو قرار پائیں گی، خواہ وہ سرگرمیاں اپنے آپ میں کارِ خیر کیوں نہ شمار ہوتی ہوں۔ جس تحریک کو اپنا نصب العین عزیز ہو وہ بہت سی سرگرمیوں سے صرف اس لیے اپنا پہلو بچالیتی ہے کہ وہ اسے نصب العین سے قریب کرنے والی نہیں ہوتی ہیں۔

کبھی کچھ سرگرمیاں اپنے آپ میں نصب العین کے لیے بے سود ہوتی ہیں اور کبھی انجام دینے کا طریقہ انھیں بے سود بنادیتا ہے۔ دونوں ہی سے اس وقت اور توانائی کا ضیاع ہوتا ہے جسے نصب العین کے حصول میں صرف ہونا چاہیے۔

اسی طرح انفرادی سطح پر اگر تحریک کا کوئی فرد کسی لغو کام میں مصروف نظر آئے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ مقصد کی طرف سے غافل ہوگیا ہے۔

تحریک کونصب العین کی سمت بڑھانے کے بے شمار مواقع ہوتے ہیں لیکن افرادِ تحریک ان مواقع کو استعمال کرتے نظر نہیں آتے، وجہ زیادہ تر یہ ہوتی ہے کہ وہ بہت سے لغو کاموں میں اپنا وقت گزار دیتے ہیں۔

اجتماع میں تاخیر سے اس لیے نہیں پہنچتے کہ کوئی ضروری کام آگیا تھا بلکہ عام طور سے کوئی لغو مصروفیت تاخیر کا سبب ہوتی ہے۔

تیاری کے بغیر اپنا پروگرام پیش کرتے ہیں، اس وجہ سے نہیں کہ تیاری کا وقت نہیں مل سکاتھا، بلکہ اس وجہ سے کہ تیاری کے لیے جو وقت ملا تھا وہ کچھ دوسرے لغو کاموں کی نذر ہوگیا۔

خاموش نتیجہ خیز کاموں کو کرنے کے لیے طبیعت آمادہ نہیں ہوتی، شور شرابے والے بے نتیجہ کاموں میں طبیعت خوب لگتی ہے۔

لوگ خود کام سے بھاگتے ہیں اور کام کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ تنقید کا جذبہ حد سے بڑھ کر ایک کارِ لغو بن جاتا ہے۔ لوگ تنقید کو ہی اپنی سب سے بڑی مصروفیت بنالیتے ہیں۔ کسی بھی کام میں تنقید کا کوئی پہلو نکال لینا ان کے نزدیک بہت بڑا کام ہوتا ہے، جس پر وہ خوب بغلیں بجاتے ہیں۔

لغو پسندی سنجیدہ کاموں کو بھی لغو کاموں میں تبدیل کردیتی ہے۔دیکھا گیا ہے کہ اجتماعی مطالعہ قرآن میں بعض لوگ بحث کرنے کا شوق پورا کرتے ہیں، بعض لوگ اسے اپنی غیر متعلق معلومات کے اظہار کا موقع سمجھتے ہیں، بعض لوگ لایعنی سوالات کرتے ہیں اور اس طرح ایک سنجیدہ مجلس بے مقصدیت کا شکار ہوجاتی ہے۔

کسی سنجیدہ موضوع پر مشاورتی اجلاس بلایا جاتا ہے۔ لوگ اس میں بولنے کا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں۔ مقصد سے ہٹی ہوئی باتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ ذہن پر زور دے کر مفید مطلب باتیں کہنے کا لوگوں میں یارا نہیں ہوتا ہے۔

لٹریچر کے مطالعہ سے فکر وعمل کا ارتقا اور جدوجہد کی تحریک مقصود نہ ہو، مطالعہ کا کوئی مقصد نہ رہے تو اس مطالعہ پر بھی لغو کا گمان ہوتا ہے۔

غرض لغو پسندی کی زیادتی ہوتی ہے تو تحریک جمود کا شکار ہوجاتی ہے۔

بامقصد کاموں کی بے مقصدیت

جب سنجیدہ با مقصد کاموں کو مقصد سے عاری کرکے انجام دیا جائے تو ان کاموں پر بھی لغو کا گمان ہونے لگتا ہے۔

دینی اجتماعات کے عظیم تربیتی واصلاحی مقاصد ہوتے ہیں، لیکن اگر تربیت و اصلاح مقصود نہ رہے اور اجتماعات ہی مقصود بن جائیں، جب مقرر صرف داد وصول کرنے کے لیے تقریر کرے اور سامعین صرف داد دینے کے لیے تقریر سنیں، جب اجتماع کی باتیں اجتماع ہی میں رہ جائیں۔

دینی مہمات کے بھی اعلی اصلاحی و دعوتی مقاصد ہوتے ہیں، لیکن اصلاح و دعوت کی طرف ایک قدم آگے نہ بڑھے اور شور شرابے کے ساتھ ہرمہم اختتام پذیر ہوجائے۔

تعلقات بہت زیادہ ہوں، لیکن ان تعلقات کے ذریعے اسلام کی قولی اور عملی شہادت نہ ہورہی ہو۔

غرض جب نوع بہ نوع سرگرمیاں انجام دی جارہی ہوں لیکن مقصد کی طرف پیش قدمی بالکل نہ ہو تو جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہماری سرگرمیوں میں لغو کا عنصر تو سرایت نہیں کررہا ہے۔

اپنے سنجیدہ کاموں میں سے لغویت کے عنصر کو نکالنا بھی لغو سے اعراض کرنے کی ایک اہم صورت ہے۔

کاموں کو ادھورا نہ چھوڑیں

کاموں کا ادھورا چھوڑ دینے کا مطلب ہوتا ہے بامقصد کاموں کو لغو کاموں میں تبدیل کردینا۔

شہر کی معاشی صورت حال جاننے کے لیے سروے کریں، غریبوں کی فہرست تیار کرلیں اور پھر اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیں کوئی عملی اقدام نہ کریں۔

زکات کا اجتماعی نظام قائم کریں، زکات کی رقم جمع کرلیں، لیکن اسے حقیقی مستحقین تک نہیں پہنچائیں، بھکاریوں میں تقسیم کردیں۔

عوامی لائبریری قائم کریں، بڑے پیمانے پر کتابیں جمع کرلیں، لیکن لائبریری کھلے نہیں بند رہے۔

شہر میں تعلیمی بے داری لانے کے لیے لوگ سر جوڑ کر بیٹھیں، بڑا منصوبہ بنائیں، کچھ دن سرگرمی دکھائیں، پھر سرد مہری کا شکار ہوجائیں۔

کسی مقام پر جائیں، لوگوں کو تحریک سے جڑنے کی دعوت دیں، ان کے ایک دو اجتماعات کریں، پھر انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں اور کوئی فالو اپ نہ کریں۔

ملت کے کسی مسئلے پر ایک دو دھرنے دیں، چند بیانات جاری کریں اور اس مسئلے کے حل کے لیے مستقل جدوجہد کا کوئی پروگرام نہ بنائیں۔

تو یہ سب ایک بامقصد اور مفید کام کو ادھورا چھوڑ کر اسے لغو کام میں تبدیل کرنا ہے۔

لغو کی پوشیدہ صورتیں

لغو میں مصروف ہونے کی کچھ پوشیدہ صورتیں ہوتی ہیں۔ آدمی کو خود اپنے سلسلے میں احساس نہیں ہوپاتا کہ وہ فضول کام میں مصروف ہوگیا۔

ہمارا بہت سا وقت ایسی سرسری باتوں کی نذر ہوجاتا ہے جو دوسرے کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن ہم انھیں سوچتے رہتے ہیں۔ذہن کو الجھانے والی بات کو کہنے میں چند لمحے لگتے ہیں لیکن وہ سننے والے کو کئی کئی دن تک الجھائے رکھتی ہے۔ بعض لوگ سوشل میڈیا پر کوئی پھلجھڑی چھوڑ دیتے ہیں اور کئی کئی دن تک لوگ اس میں پھنسے رہتے ہیں۔ یہ ذہن کی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہوتا ہے۔دیکھنا چاہیے کہ اس کہی ہوئی بات میں ہمارا وقت لگنا چاہیے یا نہیں۔

کسی کی دل کو دکھانے والی بات سن کر عرصہ دراز تک ہم اس کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں بلکہ بار بار یاد کرکے اس تکلیف کو تازہ کرتے رہتے ہیں۔ صحت مند طریقہ یہ ہے کہ جس بات سے دل کی صحت متاثر ہوتی ہو اسے دل سے دور ہی رکھنا چاہیے۔ جس بات سے دل کو تکلیف ہوتی ہو اسے جلد از جلد بھول جانا چاہیے۔ بار بار اسے یاد کرنے اور اس پر بات کرنے سے دل کی صحت متاثر ہوتی ہے، وقت اور توانائی کا ضیاع ہوتا ہے اور زندگی میں لغو جیسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

بعض لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ وہ چند مخصوص مسائل کو پکڑ لیتے ہیں اور ہر مجلس میں ان کا تذکرہ چھیڑ دیتے ہیں۔ شروع میں ایسا تاثر دیتے ہیں کہ وہ حقیقت تک پہنچنا چاہتے ہیں، لیکن تھوڑی دیر بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ موضوع تو ان کے روز مرہ کے مشاغل کا حصہ ہے۔ مختلف طرح کے مسائل کو تھامے رکھنے کی یہ روش بھی لغو پسندی کی ایک شکل ہے۔

فلاں ایسا ہے اور فلاں ایسا ہے، یہ ہماری مجالس کا سب سے بڑا عنصر ہوتا ہے۔ ہر مجلس بہت سے افراد کے بارے میں ہماری معلومات کو تازہ کرتی یا ان میں اضافہ کرتی ہے۔ حقیقی مسائل کے بجائے افراد پر گفتگو کرنا انسانوں کا محبوب ترین اور آسان ترین مشغلہ ہے۔ طنزیہ محاوروں کا بھرپور استعمال کرکے گفتگو کافی مصالحہ دار ہوجاتی ہے۔آخر میں حاصل کچھ نہیں ہوتا ہے۔جب کہ حقیقی مسائل اور ان کے حل پر گفتگو کے لیے ذہن پر زور ڈالنا پڑتا ہے۔

ہر مسئلے میں اپنی رائے دینا بھی لغو پسندی کی ایک شکل ہے۔طبیب نہ ہوکر طبیب کے نسخوں کو نشانہ تنقید بنانا، تعمیراتی انجینئر نہ ہو کر تعمیرات میں ٹانگ اڑانا، عالم نہ ہوکر علمی نکتہ آفرینی کرنا، کچھ خبریں پڑھ کر اپنے آپ کو ماہر سیاست باور کرنا اور دنیا کے ہر واقعہ پر تبصرہ کرنے کا اہل سمجھنا، ظاہر ہے ایسی کسی بھی گفتگوسے کسی کو روکا نہیں جاسکتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ لغو گوئی کی ایک شکل ہے۔ اس سے صرف بولنے کی خواہش پوری ہوتی ہے، بولنے والے کو کوئی فائدہ پہنچتاہے اور نہ سننے والوں کو۔

اعراضِ مسلسل کی ضرورت ہے

لغو سے اعراض ایک مسلسل عمل ہے۔کیوں کہ لغو کاموں اور باتوں سے ہمارا ہر لمحے سامنا ہوتا ہے۔ کبھی کوئی دوسرا ہمیں اپنی لغو باتوں میں الجھادیتا ہے۔ کبھی ہم خود کسی لغو سوچ میں غرق ہوکر اپنے قیمتی لمحات ضائع کرتے ہیں۔ کبھی کسی لغو منظر کے مشاہدے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کبھی ہماری سمجھ میں کوئی مفید کام نہیں آتا ہے تو وقت گزاری کے لیے کسی لغو کام میں لگ جاتے ہیں۔ ستم اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص بڑا کام کرنے کے ارادے سے اٹھے اور نا سمجھی کی بنا پرکسی فضول کام کو بڑا کام سمجھ کر انجام دے۔

لغو پسندی سے بچنے کے لیے مسلسل ریاضت اور شدید حساسیت درکار ہے یہاں تک کہ دل اس سے بے زار ہوجائے۔ذہن کسی سنجیدہ بات کی طرف دیر تک یکسو رہے، یہ بہت مشکل کام ہے۔ ذرا سی دیر میں وہ ادھر ادھر بھٹکنے لگتا ہے۔ اسی طرح یکسوئی سے کوئی سنجیدہ کام دیر تک نہیں ہوپاتا، کوئی نہ کوئی لغو قسم کی حرکت خلل انداز ہوجاتی ہے۔ لغو قسم کی خلل اندازیوں سے بچنے کے لیے اپنے اوپر مکمل قابو پانے کی مشق ضروری ہے۔ اپنے وقت اور توانائی کے سلسلے میں جس قدر حساسیت ہوگی اسی قدر لغو سے بے زاری بھی ہوگی۔

اسلامی تحریک جہدِ مسلسل کا مطالبہ بھی کرتی ہے اور اعراضِ مسلسل کا تقاضا بھی کرتی ہے۔ مقصد کے لیے مسلسل کوشش اور لایعنی کاموں سے مسلسل گریز۔

لغو سے توبہ کریں

ہمیں استغفار کے وقت صرف اپنے گناہوں کو یاد نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سارے لمحات کو بھی یاد کرنا چاہیے جو لغویات میں گزرگئے۔کیوں کہ لغو بھی بڑا گناہ ہے اور نیکیوں کے مواقع ضائع کرنا بھی بڑا گناہ ہے۔ عام طور سے استغفار کے وقت وہ گناہ یاد آتے ہیں جو کبھی سرزد ہوئے اور انسان توبہ و استغفار کرتے ہوئے انھیں دوبارہ نہ کرنے کا عہد کرتا ہے۔لیکن زندگی کے وہ بے شمار شب و روز یاد نہیں آتے جو بے فائدہ گزر گئے۔ انسان اپنی اس روش سے باز آنے کا عہد نہیں کرتا ہے۔ کیوں کہ توبہ و استغفار کے وقت ادھر ذہن ہی نہیں جاتا ہے۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2025

مزید

حالیہ شمارے

اپریل 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223