زمین پر چلنے والے کامیاب افراد کی مثال آسمان میں چمکنے والے ان ستاروں کی سی ہے جن سے راہ ڈھونڈنے والے تاریکی میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اگر ستارے بے نور ہو جائیں تو لوگ راہ بھٹک سکتے ہیں۔ کامیاب افراد کا اصل مقام یہ ہے کہ وہ ساری انسانیت کے لیے رہنمائی اور روشنی کا مینار اور ان کی زندگی میں امید کی کرن بن جائیں۔ اگر سورج چھپ جائے تو کائنات تاریک اور دنیا کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ روشنی کے مینار راہ دکھانا بند کر دیں تو ملاح صحیح راستہ نہ پا سکیں اور کشتی غلط سمت میں نکل پڑے گی۔
1۔ میں زندگی بدل سکوں یہ میرے بس میں ہے:
جب لوگ کسی عزیز کے بچھڑنے پر اشکبار ہوں اور اسے دفن کرنے کے لیے قبرستان لے جائیں اس وقت میرے کیا احساسات ہو سکتے ہیں؟ اس وقت کینہ و حسد کے جذبات معدوم ہوتے ہیں، جانے والے کے لیے ہم دردی کے جذبات سے دل معمور ہوتا ہے۔ یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اب اس کے اپنے اعمال اور آخرت کے لیے کی گئی نیکیوں کے سوا کوئی چیز ان کے کام آنے والی نہیں ہے۔ ساتھ ہی حساب و کتاب کے عظیم دن کا خیال بھی آتا ہے۔ اب آپ تصور کریں کہ اس جنازہ کی جگہ آپ بھی ہو سکتے تھے لیکن ابھی آپ زندہ ہیں اور آپ کو یہ موقع حاصل ہے کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کر سکیں۔ آپ کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ آپ اپنی زندگی کیسے گزاریں، یہ آپ کے بس میں ہے۔ آپ پوری آزادی کے ساتھ غور کریں اور تصور کریں کہ پوری سچائی کے ساتھ آپ اپنا مرثیہ لکھ رہے ہیں۔ فلاں نام کا ایک شخص تھا…… اس کے بعد آپ اپنے کارنامے لکھنا شروع کریں۔ آپ انسانیت کے لیے اور اپنے لیے کیا کرنا چاہتے ہیںاسے قلمبند کریں۔ طویل المیعاد مرحلے میں آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔بیس سال کے بعد آپ خود کو کہاں دیکھنا چاہتے ہیں وہ بیان کریں۔
نہایت قیمتی لمحہ
آپ تنہائی اختیار کریں اور اپنے اندر کی وہ آواز سنیں جو آپ کی موجودہ حالت اور مستقبل کی آرزوؤں کو بیان کرتی ہے،اور زندگی میں آپ کے اہداف کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ آپ کی زندگی کا نہایت قیمتی لمحہ ہے، کیونکہ بہت سے لوگ ان سوالات کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ اسی کیفیت میں بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ وقت اور موسم بدل جاتے ہیں اورآخر میں وہ کبھی وقت کو اور کبھی دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
کتنے ہی لوگ ہیں جو موت کو قریب دیکھنےکےبعد تمنا کرتے ہیں کہ کاش انہوں نے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عمل اور عبادت میں صرف کیا ہوتا “میں نے انسانوں اور جنوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے (ذاریات : 56)۔ یہ آیت ایک عظیم ترین حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ روئے زمین پر انسان کی زندگی صحیح ڈگر پر چل ہی نہیں سکتی اگر اسے یہ ادراک نہ ہو کہ زندگی کا راستہ منتخب کرنا خود اس کے ہاتھ میں ہے اور اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی درست نہیں۔ غور کریں درج ذیل میں سے آپ کسے اختیار کریں گے:
کامیاب انسان | عام انسان | |
وہ ایک کامیاب انسان تھا ، وہ 1420 ھ میں پیدا ہوا۔ اس نے تعلیمی میدان میں زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس نے ایک کامیاب خاتون سے شادی کی۔ امت کی خدمت میں 40 سال لگائے۔ کئی کامیاب مراکز میں اس نے خدمت انجام دی۔ فرصت کو غنیمت سمجھتا رہا۔ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا رہا۔ لوگوں کے ساتھ مل کر بہت سے اہم کام انجام دیے۔ اس کا بس یک ہی نعرہ تھا کہ ‘‘ میرے جیتے جی کیا دین کو کم کیاجا سکتا؟ نہیں ہر گز نہیں۔’’ اس نے زندگی کی 70 بہاریں دیکھی۔ اس کی زندگی | وہ ایک عام سا انسان تھا جو 1420 ھ میں پیدا ہوا۔ تعلیمی اعتبار سے بھی وہ قابلِ ذکر نہ تھا۔ اس نے ایک عام سی خاتون سے شادی کی۔ 40 سال تک اس نے مختلف کام کیے پر اس کا کوئی قابلِ ذکر کام نہ تھا۔ اس نے کئی عام سی جگہوں میں کام کیا۔ اسے مہم جوئی سے کوئی دلچسپی نہ تھی ، نہ ہی اس نے حاصل مواقع کا استعمال کیا۔ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے اس نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ وہ انسانیت کے لیے نفع بخش کام کرنے والی کسی ٹیم کا حصہ بھی نہیں بنا۔ وہ ہمیشہ یہی کہتا کہ ‘‘اس میدان | |
کامیابی، کشمکش، عزم اور حوصلے سے بھر پور تھی۔ اس نے کامیاب زندگی گزاری۔ اس دنیا سے رخصت ہوا تو پوری امت سوگوار تھی۔ 1420 ھ میں پیدا ہوا اور 1490ھ میں اس کی وفات ہوئی لیکن اس کی یاد لوگوںکے دلوں میں زندہ ہے ، اسی طرح اس کے کارناموں کی خوشبو بھی۔ | میں میرا کیا کام’’۔ اسے 70 سال کی زندگی ملی لیکن یہ زندگی اس نے کسی ہدف، منصوبہ، اور عزم و ارادہ کے بغیر گزاری۔ عام انسانوں کی طرح وہ اس دنیا سے چلا گیا ، جس کا کسی کو احساس بھی نہیں ہوا۔ وہ 1420 ھ میں پیدا ہوا۔ 1440 ھ میںہی وہ زندہ رہتے ہوئے مر چکا تھا۔ 1490ھ میں اس کی تدفین ہوئی۔ |
قد مات قوم وما ماتت مكارمهم وعاش قوم وهم في الناس أموات
(کچھ لوگ مرکر بھی اپنے کارناموں کی بدولت زندہ رہتے ہیں جب کہ ایسے لوگ بھی یہاں ہیں جو زندہ ہیں لیکن لوگوں کے لیے وہ مردہ ہوتے ہیں)۔
زندگی میں آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟
اگر آپ خود شناس نہ ہوں، آپ کیا کرنا چاہتے ہیں اس کا آپ کوپتہ نہ ہو، تو آپ کی زندگی حالات یا دوسرے افراد کے تابع ہو کر گزرے گی۔ آپ حاصل مواقع کو ضائع کر دیں گے اور آپ کی حالت اس جہاز کی سی ہوگی جو قطب نما کے بغیر ہی سفر کر رہا ہو۔
زندگی کا مقصد متعین کرتے وقت آپ درج ذیل چیزوں کا خیال رکھیں:
آپ کے اصول و اقدار کیا ہیں
زندگی کے مختلف میدانوں کے عمومی اہداف کو بھی شامل کریں
آپ کے اندر سب سے بہترین خوبی کیا ہے
آپ کے اندر کون سی صلاحیتیں ہیں۔ کس میدان میں آپ نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں
مختلف ذمہ داریوں کے درمیان توازن کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے
لوگوں کی پسند سے بے پروا ہو کر ایسا مقصد طئے کریں جسے پورا کرنے کے لیے آپ کے اندر ایک تڑپ اور بے چینی رہے۔ کامیاب افراد کے لیے اونچے خواب ہمیشہ حرکت وعمل پر ابھارنے کا ذریعہ بنتے ہیں جبکہ ناکام افراد ہمیشہ اندیشوں اور توہمات کا شکار رہتے ہیں۔ اپنا مقصدِ زندگی متعین کرنے اور اسے لکھ لینے کے بعد ، اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں، اسے اپنے دل و دماغ پر طاری کر لیں، اس کے آغاز و انجام کے لیے وقت طئے کریں اور فکر کو عملی جامہ پہنانے میں لگ جائیں۔ کامیابی کے سراغ میں نکلنے والوں کے لیے مقصدِ زندگی کی حیثیت وہی ہوتی ہے جوجسم کے لیے روح کی ہوتی ہے۔
دو سوالات:
پہلا سوال : اس وقت آپ کہاں کھڑے ہیں؟ اور کہاں پہنچنا چاہتے ہیں؟ منزل نامعلوم ہو اور صرف کہیں پہنچ جانا مقصد ہو تو اس کے لیے کسی خاص جد و جہد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اگر آپ کسی متعین مقام تک پہنچنا چاہتے ہوں تو یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت آپ کہاں کھڑے ہیں، جانا کہاں ہے اور منزل تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے؟۔ زندگی کو اس کی خوبصورت ترین شکل اور اس کے بہترین مفہوم میں جینے کے لیے ہم اپنے ارد گرد کی دنیا کو سمجھیں اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اس کا راستہ کیا ہو یہ کسی اور کو نہیں بلکہ آپ کو طئے کرنا ہے۔
دوسرا سوال: آپ کے لیے مثالی اوصاف کیا ہیں؟ آپ کیسا بننا چاہتے ہیں؟ یہ مشکل ترین سوال ہے۔ بیشتر لوگوں کے پاس اس سوال کا کوئی تشفی بخش جواب نہیں ہوتا اور وہ یوں ہی وقت گزار رہے ہوتے ہیں۔ ‘‘رہے وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ اُن کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انہیں اُن کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے’’ (سورہ محمد : 17)۔ ہدایت کا راستہ پسند کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ مزید آگے بڑھنے کی توفیق دیتا ہے۔ تو جس نے راہ خدا میں مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا، اور بھلائی کو سچ مانا اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ اور جس نے بخل کیا اور (اپنے خدا سے) بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایااس کو ہم سخت راستے کی سہولت دیں گے (سورہ اللیل : 5 تا 10)۔ انسان یہ طئے کرے کہ اسے کیا بننا ہے۔ آپ اپنی ذمہ داریوں پر غور کریں اورہر ذمہ داری کے تئیں کچھ متعین اہداف طئے کریں۔ خود کو ستم زدہ سمجھنے کے بجائے ہمیشہ نتائج کے حصول کے لیے کام کریں۔ اس کے بعد آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کی زندگی خود آپ کے ہاتھ میں ہے۔
آپ گھر بنانے کا ارادہ کریں تو وہ گھر پہلے آپ کے ذہن میں بنتا ہے ۔ اس کے بعد اس کا حقیقی نقشہ بنتا ہے اور عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ آغاز سے ہی عمارت کی حتمی شکل آپ کے ذہن میں ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنی اولاد سے یہ امید رکھتے ہوں کہ وہ زندگی کی ذمہ داری اٹھا سکیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے، اپنے سلوک اور برتاو سے ان کے اندر احساسِ ذمہ داری پیدا کریں۔ آپ کبھی بھی اپنے رویہ سے ان کے ذمہ دارانہ شعور کو کچلنے والے نہ بنیں۔
2۔ یہ تیری کشتی ہے ، تم ہی نا خدا بھی ہو:
آپ اپنے دوست و احباب، بچوں، اہلِ خانہ اور ملازمین کے ناخدا نہیں بن سکتے۔ ہاں انہیں آپ بہترین ماحول فراہم کر سکتے ہیں،جہاںوہ خود اپنی کشتیٔ جاں کے ملاح ہوں اور اپنے اندر مطلوبہ تبدیلی پیدا کرنے کی ذمہ داری اٹھائیں۔ ایسا ماحول فراہم کرنے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ آپ اپنی کشتی کی ملاحی خود کریں۔ آپ اس بات کے منتظر نہ رہیں کہ آنے والے دنوں میں آپ کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوگا ۔ ‘‘حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیںبدل دیں’’ (سورہ رعد : 11)۔ جب آپ بادِ مخالف کا سامنا کرنا سیکھ لیں تو اپنی زندگی کی کشتی کی ملاحی بھی کریں اور دنیا کی قیادت بھی۔ جو اپنی ذات کا قائد ہوتا ہے وہ دنیا کی بھی قیادت کرتا ہے۔ یاد رکھیں آپ کی شخصیت بے پناہ صلاحیتوں کا مجموعہ ہے۔
غور کریں!
ہمارے تصرفات کا محرک ہمارے فیصلے ہوں نہ کہ ہمارے جذبات۔ ہم اپنے تصرفات کو اصول و اقدار کی روشنی میں بہتر رخ دے سکتے ہیں اور اپنے جذبات اور رویوں پر قابو رکھ سکتے ہیں۔ ہم اپنی کشتیٔ حیات کے ذمہ دار خود ہیں۔ ممکن ہے اندرونی جذبات پر قابو نہ رہے پر اپنے تصرفات کا ذمہ دار میں خود ہوں۔ بہت سی احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے نبیﷺ کو غصہ آتا تھا ، چہرے پر اس کے اثرات ظاہر ہوتے تھے لیکن آپﷺ کا غصہ آپ کے تصرفات پر حاوی نہیں ہوتا تھا۔اس بات کا احساس کہ آپ کے تصرفات آپ کی گرفت میں ہیں آپ کو اپنی کشتیٔ حیات کو آگے لے جانے کی ذمہ داری خود اٹھانے کا شعور پیدا کرتا ہےاور اس کے نتیجے میں شعوری اقدامات اور تصرفات جنم لیتے ہیں۔ آپ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں اور اپنے انتخاب کی آزادی کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔
آپ ان میں سے نہ بنیں جو کسی کام یا مصروفیت میں اپنا وقت لگانے کا فیصلہ اس وجہ سے کرتے ہیں کہ کسی اور نے اس کا مشورہ دیا ہے یا اسے دوسرے کرتے ہیں یا یہ کہ وہ آسان کام ہے یا اس لیے کہ کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ جو لوگ اپنی زندگی کی باگ ڈور کسی اور کے حوالے کرتے ہیں ان کی زندگی بے معنی ہوجاتی ہے۔جو شخص مثبت طرزِ فکر، اقدامی صلاحیت اور حریتِ فکر سے محروم ہو، وہ دوسروں کے فیصلوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتا ہے۔ آپ اگر صاحب عزم ہیں اور کامیابی آپ کی منزل ہےتو اپنے اصول و اقدار کو اپنے تصرفات پر حکمراں بنائیں۔ آپ آزاد ہیں۔ اپنے ہی جیسے کسی انسان کے غلام نہیں ۔ صرف اور صرف اللہ کی غلامی اختیار کیجیے۔ اختیار و تصرف کی آزادی کے بہتر استعمال کی عمدہ مثال بن جائیے۔
اندر کی آواز سنیں:
ہم اپنے اندر کی آواز سن کر اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم کون سی زبان بولتے ہیں۔
غافلوں کی زبان میں ہر وہ ناکام شخص مہارت رکھتا ہے جسے اپنی زندگی سنوارنے کے بجائے صرف اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ دوسروں کے پاس کیا ہے۔ اپنے فیصلے خود کرنے والوںکی زبان اپنے اندر دوسروں کے لیے بھی پیغامِ عمل رکھتی ہے جو اکیسویں صدی کی تمام نسلوں کو سکھائی جانی چاہیے۔
زندگی کی گاڑی اور قوت کے چار عناصر
کشتیٔ حیات کا ماہر ملاح بننے کے لیے قوت کے چار عناصر کا حصول ضروری ہے:
1۔ خاندان، ملازمت، مال اور صحت جیسی وہ چیزیں جو ہمیں مختلف شکلوں میں فکر مند رکھتی ہیں ان سے آگے بڑھ کر اپنے دائرۂ عمل کے اس میدان کو دلچسپی کا مرکز بنائیں جہاں ہم بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیڈر اثباتِ ذات کی اس قوت سے مالامال ہوتا ہے۔
2۔ اٹھ باندھ کمر اور آگےبڑھ: اپنی ذات سے آغاز کریں۔ آپ دوسروں کی ذات کے مالک نہیں ہیں۔ آپ اپنی زندگی سے شروع کریں۔ قوت و استطاعت سے محرومی کے احساس سے باہر نکلیں۔ اور سمجھ لیں کہ آپ بے پناہ قوت کے مالک ہیں۔ یاد رکھیں صلح حدیبیہ کے موقع پر نبیﷺ نے صحابہ کرام سے کہا تھا کہ ‘‘اٹھو، نحر کرو اور اپنےسروں کو منڈوا لو’’ (بخاری) لیکن ان میں سے کسی نےبھی ایسانہیں کیا تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبیﷺ کو مشورہ دیا کہ آپﷺ پہلےخود ایسا کریں۔ اور جب صحابۂ کرام نے نبیﷺ کو ایسا کرتے ہوئےدیکھاتو خود بھی اٹھ کر انہوں نےپیارےنبیﷺ کی پیروی کی۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں، جو ایسے کام کرتے ہیں جسے صحیح سمجھتے ہیں ۔ محض معلومات کا حصول کافی نہیں ، لہذا اقدام کریں۔
3۔ تسلسل کے ساتھ عمل خواہ مقدار میں کم ہو: چھوٹے چھوٹے فیصلے کریں۔ انہیں پورا کریں۔ معمولی ہونےکے باوجود یہ آپ کے لیے مفید ہوں گے۔ خود سے یا دوسروں سےکیےگئے عہد و پیمان کو پورا کرنا زندگی کی قیادت کا لازمی جوہر ہے۔ یہ آپ کے اندر احساسِ حریت بیدار کرتا اور اپنی زندگی کے فیصلوں پر گرفت رکھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔
4۔ 21 دنوں کا امتحان: آپ اکیسویں صدی میں ہیں۔ اکیس دنوں تک اپنی زندگی کی قیادت خود کر کے دیکھیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے والوں کے کردار پر توجہ مرکوز کریں۔ سختی سےاس پر عمل پیرا ہوں۔ رہنما بنیں، قاضی نہ بنیں۔ عملی مثال پیش کریں، ناقد نہ بنیں۔ حل کا حصہ بنیں مشکل کا حصہ نہ بنیں۔ دوسروں کی کم زوریوں کی نشاندہی میں لگنے کے بجائے اپنی غلطیوں پر نظر رکھیں، انہیں تسلیم کریں، انہیں فوری درست کریں اور ان سے سیکھیں۔
زندگی کا سلیقہ خود سیکھے بغیر دوسروں کو سکھانے کی جد و جہد کرنا لاحاصل اور اپنے درد میں اضافہ کی کوشش ہے۔ زندگی آپ کی ہے ۔ اس کی باگ ڈور خود سنبھالیں تاکہ دنیا کو بھی کامیابی کاسراغ دینے والے بن جائیں۔
3۔ گھڑی اور قطب نما:
البرٹ ای این گرے نے کامیاب افراد کی مشترک صفات کی جستجو میں اپنی زندگی صرف کی۔ اس کا کہنا ہے کہ محنتِ شاقہ یا خوش نصیبی، یا انسانی تعلقات جیسی صفات بہت اہم ہونے کے باوجود کامیاب افراد میں جو صفت مشترک طور پر پائی جاتی ہے وہ ہے ترجیحات کی صحیح تعیین اور اس کے مطابق کام۔
گھڑی اور قطب نما: گھڑی سے مراد ہمارے عہد و پیمان ، ذمہ داریاں، نظامِ عمل، اہداف اور سرگرمیاں ہیں یعنی ہم اپنے وقت کو کیسے گزاریں گے۔ قطب نما کا مطلب ہے ہمارا وژن ، ہماری دلچسپی اور ہمارے اصول و اقدار یعنی وہ چیزیں جو ہماری زندگی میں ترجیحی حیثیت کی حامل ہیں۔
جب گھڑی اور قطب نما کے درمیان خلا بڑھ جائے تو ایک کشمکش شروع ہوتی ہے۔ہم بہت سی ایسی سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہیں جن کا ہماری زندگی میں اہم سمجھے جانے والے امور کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اگر زندگی پر گھڑی حاوی ہو جائے تو انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کا اسیر بن چکا ہے۔ ہم بہت سے غیر اہم کام انجام دیتے ہیں، جس کی وجہ سے اپنی زندگی کے اہم ترین کاموں کو وقت نہیں دے پاتے۔ ہم دوسروں کے کام کو پورا کرتے ہوئے اپنی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
آپ بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ اتنے مشغول ہیں کہ ان کے پاس آرام کے لیے بھی کافی وقت نہیں ہے۔ وہ گھنٹوں سخت محنت کرتے ہیں، لوگوں کے سامنے اس کا فخریہ اظہار بھی کرتے ہیں کہ وہ منصوبہ بند طریقے سے اپنے اوقات کا استعمال کرتے ہیں لیکن وقت گزرنے پر انہیں پتہ چلتا ہے کہ ان کی مصروفیت تو بے کار تھی گویا وہ ایک ایسی سیڑھی پر چڑھنے میں محنت صرف کر رہے تھے جو غلط دیوار پر کھڑی تھی‘ یا یہ کہ وہ ایک ایسی راہ کا انتخاب کر چکے تھے جو منزل کی طرف نہیں جاتی۔
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے:
اس خلا کا احساس ہمیں بہت کچھ نقصان کا سامنا کر لینے کے بعد ہوتا ہے۔ میں کیا کروں؟ میری ملازمت چلی گئی۔ بیٹا برباد ہوگیا۔ میری زندگی ضائع ہو گئی۔ افسوس کہ وقت نے مجھےاس کی اجازت نہیں دی کہ ترجیحات کا صحیح تعین کر سکوں۔ لیکن آپ خود سےپوچھیں کہ کیا آپ کی زندگی کی اہم ترین چیز وہی تھی جسےآپ اہم سمجھ کر کرتے رہے۔
4۔ انسانوں سے محبت:
انسانوں سے سچی محبت کامیابی کے دروازے کھولتی ہے۔ ہم خواب دیکھ سکتے ہیں۔ نئے اور اچھوتے افکار کو جنم دے سکتے ہیں اور بہترین منصوبہ بندی کر سکتے ہیں لیکن لوگوں کی مدد کے بغیر ہم خواب کو حقیقت میں نہیں بدل سکتے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا منصوبہ کوئی مقدس چیز ہے اور خواہ لوگ اسے قبول کریں یا نہ کریں، اس منصوبہ کا نفاذ ضروری ہے۔ایسے لوگوں کے نزدیک انسان کی حیثیت محض آلات کی ہوتی ہے۔
انسانوں سے محبت کے ضمن میں دو اصولوں کو سامنےرکھیں:
پہلا اصول: نتائج کی فکر اور تعلقات کے استحکام کی فکر کے درمیان توازن
دوسرا اصول: ان لوگوں سے متعلق ہے جو انسانوں کی تعمیر میں کردار ادا کرتے ہیں مثلا تعلیم سے وابستہ افراد ، اور بیرونی عناصر پر اثر انداز ہونے والے دیگر افراد
افراد کی قسمیں:
سماج کے اندر پانچ طرح کے افراد پائے جاتے ہیں۔
پہلی قسم: میں کامیاب رہوں اور تم ناکام: یہ انانیت سے بھرپور استبدادی اور جابرانہ طریقہ ہے۔ ایسے فرد کا طرزِ عمل یہ کہتا ہے کہ : میں سب سے اہم ہوں۔ مجھے کامیابی چاہیے خواہ اس کے لیے تمہیں نقصان اٹھانا پڑے۔ ایسا شخص جذبۂ تعاون کا قاتل اور باہمی محبت کا دشمن ہوتا ہے۔ یہ وہ اصول ہے جو جبر کا مظہر ہونے کی وجہ سے تعلقات بگاڑتا ہے، اعتماد کا گلا گھونٹتا ہے اور حسد ، کینہ اور اختلافات کو جنم دیتا ہے۔
دوسری قسم: میں ناکام رہوں اور تم کامیاب: اس شخص کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔ یہ ہمیشہ نقصان اٹھانے کے لیے تیار رہتا ہے ، اسے خوش کرنا بہت آسان ہے۔ وہ خود نقصان اٹھاتا ہے اور دوسروں کی کامیابی کی راہ ہم وار کرتا ہے۔ یہ شخص زندگی میں کوئی کارنامہ نہیں انجام دے سکتا کیونکہ اس کا کوئی ہدف نہیں ۔ اس کے جذبات شخصیت کے اندر دفن ہوتے ہیں اور اگر ظاہر ہو جائیں تو دھماکہ خیز صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ بہت بری عادت ہے کہ خود کاہلی اختیار کرو اور دوسروں کی کامیابی میں ان کے مدد گار بنو۔ ایسے فرد کی شخصیت اور عزائم مرجھا جاتےہیں۔
تیسری قسم: میں بھی ناکام رہوں اور تم بھی: یہ انسانوں کی بدترین قسم ہے ۔ وہ نہ تو اپنے اہداف حاصل کرتا ہے اور نہ ہی وہ دوسروں کو آگے بڑھنے دیتا ہے۔ یہ خود محرومی کے احساس میں مبتلا رہتا ہے اور دوسروں کے بارے میں بھی ایسی ہی خواہش رکھتا ہے۔ اس کا جذبہ کسی حد تک انتقامی ہوتا ہے۔
چوتھی قسم: خواہ کچھ بھی ہو میں کامیاب رہوں: تمہاری کامیابی یا ناکامی اہم نہیں، بلکہ اہم یہ ہے کہ مجھے ہر حال میں کامیاب ہونا ہے۔
پانچویں قسم : میں بھی کامیاب رہوں اور تم بھی : یہ طریقہ تمام انسانی معاملات میں سب کے لیے مفید ہوتا ہے۔ مخالف کو راضی کرنے کے لیے انسان کو یہاں اپنے اصولوں سے سمجھوتا نہیں کرنا ہوتا۔ یہ زندگی کا وہ انداز ہے جس میں لوگ تعلقات ، تعاونِ باہمی اور رحمت و شفقت کے مزے لیتے ہیں، اور اعتماد و اخوت کے ساتھ رشتےپائیدار ہوتے جاتے ہیں۔ اس صفت کو سیکھنے کے لیے انسانی تعلقات کے چھ خوبصورت حقائق کو سامنےرکھیں:
الف : انسان بنیں : آپ کے اندر یہ گہرا شعور ہو کہ دوسروں کے اندر بھی جذبات ہیں، ان کے بھی اہداف اور مقاصد ہیں۔ آپ جن سےمعاملہ کر رہےہیں وہ انسان ہیں نہ کہ احساسِ مروت سے عاری آلات۔ جس طرح آپ کو بہتر حل پسند ہےاسی طرح وہ بھی اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔ پیارے نبیﷺ کا ارشاد ہے تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں،اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے زیر دست کیا ہے تو جو کچھ تم خود کھاتے ہو اس میں سے انہیں کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو اس میں سے انہیں پہناؤ اور تم ان پر طاقت سے زیادہ بوجھ مت ڈالو ۔ اگر ان پر زیادہ بوجھ ڈالتے ہو تو تم ان کی مدد کرو (بخاری)۔
ب: صا ف و شفاف دل اور ضمیر والے بنیں: دل کو فریب اور دھوکہ سےپاک کریں۔ ایسے زندہ ضمیر انسان بنیں، جو لوگوں کے معنوی حقوق میں بھی کوتاہی نہ کرے ، جو ان کے ساتھ عدل کا معاملہ کرے، جو اخلاص کے ساتھ مسکرا کر ملنا سکھائے اور لوگوں کو ان کی زندگی کی معنویت سے آگاہ کرے۔
ج: شجا عت اور حکمت میں توازن اختیار کریں: حکیمانہ توازن اختیار کریں۔ کچھ لوگ حکمت کو سطحی نظر سے دیکھتے ہیں، کبھی حکمت اور کبھی شجاعت کےنام پر دوسروں سےقربانی چاہتے ہیں۔ آپ انسان ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر طرح کا علم آپ کے پاس ہو۔ ہو سکتا ہے جو شخص آپ کے سامنے ہےوہ بعض معاملات میں آپ سےزیادہ علم رکھتا ہو۔
د: کامیا بیاں بے شمار ہیں: کامیابی اتنی وافر مقدار میں موجود ہے کہ یہ ہر انسان کے حصہ میں آسکتی ہے۔ دوسروں کےمنہ کا لقمہ چھیننےکی ضرورت نہیں ۔ اس کے لیےاس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ لوگوں کو خوشی اور داخلی رضا سے ہمکنار کرنے والےاسباب کی کمی نہیں ہے۔
ہ: انسانوں کےساتھ مہربانی: لوگوں کے تصرفات اور اس کے اسباب کو سمجھیں۔ ان سےگفتگو کریں۔ اتفاق اور اختلاف کے نکات کو جانیں متفق علیہ امور تلاش کریں۔ معاملات کو حل کرنے کے لیےایسی متبادل شکلیں تلاش کریں جو دلوں کو راضی کر دیں۔
جب دوسرا فرد محبت اور اخلاص کو محسوس کرے گا تو تعلقات میں حیرت انگیز حد تک بہتری پیدا ہوگی۔ یا د رکھیں جو رحم نہیں کرتا وہ رحم کا سزاوار نہیں ہوتا۔
و: شفا فیت: آپ کی شخصیت شفاف اور کھلی کتاب ہو۔ اگر آپ کی شخصیت فریقِ ثانی کے لیے معمہ ہے توتعلقات میں کشیدگی پیداہوگی۔ پیارے رسول ﷺ اعتکاف میں تھے۔ ان سے ملاقات کے لیےرات میں صفیہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں۔ اور جب واپس جانےلگیں تو اس وقت دو انصاری صحابہ وہاں سےگزرے اور جب انہوں نے پیارےنبیﷺ کو دیکھا تو تیز چلنے لگے۔ اس وقت آپ ﷺ نے ان سےفرمایا: ٹھہرو۔ ابھی جو خاتون گئی ہیں وہ صفیہ ہیں۔ اس پر گفتگو کرتے ہوئے مشہور فقیہ ابن دقیق العید کہتے ہیں کہ علماء کے لیےجائز نہیں کہ کوئی ایسا کام کریں جو ان کے سلسلے میں بد گمانی پیدا کر سکتا ہو کیونکہ اس کی وجہ سے ان کے علم سے استفادہ کا دروازہ بند ہوتا ہے۔
جو شخص لوگوں کی خدمت کے میدان سے وابستہ ہو، اس کا طرزِ عمل ‘‘ہر کوئی کامیاب ہوجائے ’’ والاہوتا ہے۔ یہ طریق کہ‘‘ میں بھی کامیاب رہوں اور تم بھی’’،کسی تیسرے ناکام فرد کے بارے میں نہیں سوچتا۔ صرف دو افراد کی کامیابی میرا مقصود نہیں بلکہ میں ہر کسی کو کامیابی کی راہ پر لے جانےوالاحل تلاش کرتا ہوں۔‘‘اور جب تقسیم کے موقع پر رشتہ دار، یتیم اور مسکین موجود ہوں تو انہیں بھی اس (مال) میں سے کچھ دے دو اور ان سے درست اور مناسب طریقہ سے بات کرو۔’’ (سورۃ نساء – 8)۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2020