۔ احساسات کی زبان:
احساسات کی زبان سمجھ کر آپ بہت آسانی سے دوسروں کے قریب ہو سکتے ہیں اور اس کے مطابق اپنے ردِ عمل کا اظہار کرسکتے ہیں۔ بچے کے جذبات نوجوانوں یا خواتین کے احساسات سے مختلف ہوتے ہیں۔ احساسات وجذبات کی زبان میں مہارت کے ذریعہ تعلقات میں خیر وبرکت کے پہلو شامل کیے جاسکتے ہیں۔ جذبات کی دنیا میں جھانک کر ہم ایک دوسرے کو قبول کرتے ہوئے محبت سے بھرپور گہرے تعلقات پروان چڑھا سکتے ہیں۔ انسانی جذبات کی تین منزلوں کا گہرا شعور آپ کو جذبات واحساسات کی زبان کا رازداں بنا سکتا ہے۔ یہ تین منزلیں ہیں:
٭ آپ مخاطب کو سمجھیں تاکہ وہ بھی آپ کو سمجھ سکے
٭ پوری توجہ سے سنیں
٭ موثر گفتگو کریں
میں پہلی اور دوسری منزل کے بارے میں یہاں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ تیسری منزل پر ایک مستقل عنوان کے تحت گفتگو کی جائے گی۔
٭ مخاطب کو سمجھیں:
کامیابی کے لیے ضروری مطلوبہ مہارتوں میں سے ایک رابطے کی مہارت ہے۔ ہمارے اوقات کا بیشتر حصہ کسی نہ کسی شکل میں رابطےکی سرگرمیوں میں صرف ہوتا ہے، لیکن اکثر ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ آپ نے مجھے نہیں سمجھا۔ اکثر لوگ دوسروں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ انھیں سمجھنے کی کوشش کریں گے پر وہ خود اس کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ پہلے وہ خود دوسروں کو سمجھیں۔ یہ ایک بہترین اصول ہے کہ اگر مخاطب سے آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ کو سمجھے تو پہلے خود اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ دوسروں کو سمجھنے کی کوشش آپ کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ان کی گہرائی میں جھانک سکیں اور ان کی اندرونی کیفیات کو محسوس کرتےہوئےیہ جاننے کی کوشش کریں کہ ان کے مختلف رویوں کے پیچھےکون سے اسباب کار فرما ہیں۔ اونچی آواز سے گفتگو کرتے ہوئے ممکن ہے آپ کو یہ احساس ہو کہ آپ نے مخاطب کو زیر کر لیا ہے اور اس کے سامنے حجت تمام کردی ہےلیکن کیا آپ نے اسے سمجھنے کی کوشش کی؟ کیا آپ نے حق تک پہنچنے میں اس کی مدد کی؟ آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ آپ مجھے اہمیت دیتے ہیں اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو پھر آپ مجھے سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟
یگانگت کے احساس کے بغیر آپ مخاطب کو نہیں سمجھ سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو بھیجا تو یہ بتایا کہ وہ تم ہی میں سے ہے’’(ے لوگو!) تمہارے پاس (اللہ کا) ایک ایسا رسول آگیا ہے جو تم ہی میں سے ہے جس پر تمہارا زحمت میں پڑنا شاق ہے تمہاری بھلائی کا حریص ہے اور ایمان والوں کے ساتھ بڑی شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے‘‘(التوبہ 128)۔ منکم نہیں کہا گیا بلکہ من أنفسکم کہا گیا کہ وہ تمہارے وجود کا ایک حصہ ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم مخاطب کے احساسات اور اس کی آرزؤوں سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ہماری اسی نادانی اور بے پروائی کی وجہ سے مخاطب یہ کہتا ہے کہ آپ نے مجھے نہیں سمجھا:
یہ نادانی نہیں تو کیا ہے دانشؔ
سمجھنا تھا جسے سمجھا رہا ہوں
مخاطب کو سمجھنے کے ثمرات و نتائج
٭ •ہم اسے قائل اور مطمئن کرسکیں گے: اگر ہم دوسروں کے دلوں تک پہنچ کر ان کے رویوں کے اسباب کا تجزیہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو انھیں مثبت باتوں کے لیے قائل کرسکیں گے۔ ان کے جذبات کو سمجھ سکیں گے۔ مخاطب کے اندر بھی یہ احساس پیدا ہوگا کہ ہم ان کے مخلص اور ہم درد ہیں۔ ثمامہ بن اثال کا حیرت انگیز واقعہ دیکھیں کہ جب انھیں گرفتار کرکے مدینہ لایا گیا اور مسجدِ نبویﷺ کے ایک ستون میں باندھ دیا گیا تو ہمارے نبیﷺ نے ان کے اندرونی احساسات کو سمجھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے اسلام قبول کرتے ہوئے یہ زوردار الفاظ کہے: اے محمدﷺ اللہ کی قسم میرے نزدیک اس روئے زمین پر آپ کے چہرے سے زیادہ ناپسندیدہ کوئی اور چہرہ نہ تھا لیکن اب آپ کا چہرہ میرے نزدیک محبوب ترین چہرہ ہے۔
٭ •ہم اس کے احساسات کو سمجھ سکیں گے: مخاطب کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے اس کے احساسات کو سمجھنا ضروری ہے، یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم بشر اور ابنِ آدم سے مخاطب ہیں، جہاں ہر چیز اعداد وشمار اور نتائج کے زاویہ سے نہیں دیکھی جاسکتی ہے، بلکہ دلوں اور جذبات کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے اندر وہ احساس پیدا ہونا چاہیے جو قحط کے سال میں حضرت عمر کا تھا، لوگوں کی فکر سے آپ کا چہرہ سیاہی مائل اور جسم کم زور ہوگیا تھا، لوگ آپ کی صحت کو لے کر خدشات میں مبتلا ہونے لگے تھے۔ لوگوں کے احساسات کو سمجھنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم انھیں اہمیت دیں اور ان سے احترام کے ساتھ پیش آئیں۔
٭ •ہم خندہ پیشانی سےملیں گے: انگریزی زبان کے مشہور مصنف جوزیف ایڈیسن نے کہا ہے کہ انسانوں کے لیے مسکراہٹ کی اہمیت ویسی ہی ہے جیسی پھولوں کے لیے سورج کی کرنوں کی ہے۔ ہونٹوں کو تبسم سے سجانا ایک معمولی سا کام ہے، لیکن اگر انسان کی کتابِ زندگی کا ہر صفحہ تبسم سے سجا ہو تو وہ ناقابلِ تصور، زبردست، اور پاکیزہ اثرات چھوڑ جاتا ہے۔ ایک تبسم مخاطب کے اندرون کو متاثر کر سکتا ہے، اس کے اندر خوشی کا احساس پیدا کرکے اس کےحوصلوں کو بلند کرسکتا ہے۔ گو کہ ریڈیو کی نشریات میں میزبان کو سامعین نہیں دیکھ سکتے، لیکن اسے اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ ہاتھ میں مائیکروفون ہو تو بھی مسکرا کر بات کرے، کیونکہ گفتگو کے وقت انسان کے ہونٹوں پہ تبسم کھیل رہا ہو تو آواز میں محبت وحرارت گھل جاتی ہے۔
لمحوں کی مسکراہٹ تا عمر ایک یاد چھوڑ جاتی ہے۔ جھوٹی مسکان آپ پیسوں سے خرید سکتے ہیں پر درونِ دل سے نکلنے والا تبسم آپ نہیں خرید سکتے۔ جب دوسروں کو سمجھنے اور ان کے تئیں محبت بھرے احساسات کے نتیجہ میں دل سے تبسم کے سوتے پھوٹتے ہیں تو یہ دلوں کو فتح کر لیتے ہیں۔ پرفریب رویہ تاثیر سے محروم ہوتا ہے، لوگوں کی سچی فکر اور ان سے محبت ہی اپنا اثر چھوڑ سکتی ہے۔ پیارے نبیﷺ کے اس قول کے مصداق بن جائیں: کسی بھی نیکی کو حقیر نہ سمجھو خواہ وہ نیکی یہی کیوں نہ ہو کہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو۔
٭ •ہم انھیں اپنی بات رکھنے اور تناؤ کم کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں:
مخاطب کی بہتر سمجھ اسے اس بات کا موقع فراہم کرتی ہے کہ اپنی الجھنوں کو بیان کرے اور نفسیاتی دباؤ سے راحت حاصل کرے۔ اس سے درمیانی دیوار گرجاتی ہے، اور دو روحیں ہم کلام ہوتی ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے انسان کی بقاکو سہارا دینے کے لیے اسے سمجھنا اور اس کے ساتھ احترام سے بھر پور برتاؤ کرنا ضروری ہے۔ یہ ایک عام بات ہے کہ لوگ مختلف نفسیاتی کیفیات سے گزر رہے ہوتے ہیں اور اس بات کے ضرورت مند ہوتے ہیں کہ کوئی ان کی طرف توجہ دے اور ان کی باتیں سنے۔ پیارے نبیﷺ نے پوچھا کہ خالد بن ولید کہاں ہیں؟ خالد جیسے لوگ اسلام سے دور نہیں رہ سکتے۔ یہ سوال گھٹن سے نکل کر کشادہ فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کرنے والا تھا۔ وہ کفر سے نکل کر اسلام کی آغوش میں آگئے۔
علاج سے پہلے تشخیص
فرض کریں کہ آپ کی نظر کم زور ہے۔ آپ آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنی تکلیف بیان کرتے ہیں۔ وہ فوراً اپنا چشمہ نکال کر آپ کو پہنا دیتا ہے کہ میں نے برسوں یہ چشمہ استعمال کیا ہے۔ یہ بہت اچھا ہے، میرے پاس ایک اور چشمہ ہے، میں وہ استعمال کر لوں گا۔ چشمہ لگانے کے بعد آپ محسوس کرتے ہیں کہ پریشانی تو اور بڑھ گئی ہے۔ آپ تکلیف سے چیخ پڑتے ہیں۔ ڈاکٹر تعجب سے کہتا ہے کیا خرابی ہے اس میں، اس سے مجھے تو آرام ملتا ہے۔ ایک بار پھر پہن کر دیکھو، آپ کہتے ہیں مجھے یہ نہیں چاہیے۔ ڈاکٹر غصہ سے کہتا ہے کہ اے ناشکرے! میں تو تمہاری مدد کر رہا ہوں۔ اب آپ بتائیے کیا اس ڈاکٹر کے پاس آپ دوبارہ جائیں گے؟
ہم اکثر لوگوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی مضحکہ خیز رویہ اختیار کرتے ہیں جو اوپر بیان کیا گیا۔ آپ مخاطب کو سمجھے بغیر مرض کی تشخیص اور علاج تجویز نہیں کرسکتے۔ کامیابی کی صنعت سے آشنا چارہ گر ہر مریض کے لیے اس کے مناسبِ حال نسخہ تجویز کرسکتا ہے۔
مرض کی تشخیص سے پہلے نسخہ تجویز کرنے اور مخاطب کے درد کو سمجھے بغیر اس پر اپنی بات تھوپنے میں کیا فرق ہے؟ دیکھیں کہ حضرت عمر ؓافراد کو کس طرح سمجھتے تھے۔ حضرت عمرو ؓبن عاص کو دیکھ کر ایک بار انھوں نے فرمایا: ابو عبداللہ کو زمین پر امیر ہی کی طرح چلنا چاہیے۔
ہم مخاطب کو کیسے سمجھیں
٭ •احترامِ آدمیت کا شعور پیدا کریں: ہم اس کے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ وہ انسان ہے، اور اصول واقدار سے عبارت ہے۔ وہ احساسِ مروت سے محروم محض ایک مشین نہیں ہے۔ تکریمِ انسانیت سے بے پروائی ایک ایسی ناقابلِ معافی غلطی ہے، جو آپ کو اور دوسروں کو نفسیاتی الجھنوں میں جھونک دیتی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا تھا: ’’تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنالیا ہے، جبکہ ان کی ماؤوں نے انھیں آزاد جنا تھا۔‘‘
آپ ان کے حقوق دیں، انھیں ان کے فرائض یاد دلائیں، ان کا اعتماد بحال کریں، انھیں استحصال کا شکار ہونے سے بچائیں۔ آپ سے جو کسی اعتبار سے چھوٹے ہیں ان سے بھی احترام وادب سے پیش آئیں۔ پیارے نبیﷺ کا حسنِ سلوک یاد رکھیں۔ انسؓ فرماتے ہیں: ’’میں نے نبیﷺ کی خدمت میں دس سال گزارے۔ آپﷺ نے کبھی بھی مجھ سے اف تک نہ کہا۔ میں نے کوئی کام کیا تو یہ نہیں کہا کہ کیوں کیا اور اگر کچھ نہیں کیا تو یہ بھی نہیں کہا کہ یہ کام تم نے کیوں چھوڑ دیا‘‘۔
لوگوں کے دلوں میں تکریمِ انسانیت کا احساس بٹھانا ہو تو ان کی خبر گیری کریں، ان کے حالات دریافت کریں اور کبھی بھی انھیں حاشیے پر نہ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: بے شک ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت وبزرگی دی ہے اور ہم نے انھیں خشکی اور تری میں سوار کیا (سواریاں دیں) پاک و پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور انھیں اپنی مخلوقات پر (جو بہت ہیں) فضیلت دی (الاسراء 70)۔
خود کو اس کی جگہ پر رکھ کر دیکھیں
آپ اپنی نئی کار چلاتے ہوئے جا رہے ہیں۔ اچانک دوسری کار آپ کی کار سے آ ٹکراتی ہے۔ جب آپ سامنے والے فرد سے بات کرنے کے لیے گاڑی سے نکلتے ہیں، تو فوراً وہ معذرت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں ابھی ابھی اپنے والد کے انتقال کی خبر سن کر ہاسپٹل سے آ رہا ہوں۔ یہ سن کر آپ کے احساسات کیا ہوں گے؟ آپ کے جذبات اچانک کیسے یکسر بدل گئے؟ وجہ یہ ہے کہ آپ نے خود کو اس کی جگہ رکھ کر اس کی کیفیت کو محسوس کیا۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے، جب آپ اپنی ذات کے قلعے سے باہر نکل کر لوگوں سے گھلیں ملیں اور ان کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ابن حزمؒ کہتے ہیں: جو انصاف چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ خود کو مقابل فریق کی جگہ پر رکھ کر سوچے، اس وقت اسے اپنے رویہ کی شدت کا اندازہ ہو جائے گا۔
ہمارا ایک اہم کردار یہ ہے کہ انسانی فطرت کے مطابق کام کرنا سیکھیں نہ کہ اس کے برعکس۔ چینی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ تم اپنے فریقِ ثانی کو اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک اس کا جوتا پہن کر ہزار قدم نہ چل لو۔ دنیا کے پچہتر فی صد مسائل اور غلط فہمیاں ختم ہوجائیں، اگر ہم میں سے ہر شخص خود کو اس شخص کی جگہ رکھ کر دیکھے، جس سے اسے اختلاف ہے۔ یہی ماضی کے کامیاب افراد کا طریقہ رہا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: بیشک تمہاری اس امت کی عافیت ابتدائی حصہ میں ہے اور اس کا آخر ایسی مصیبتوں اور امور میں مبتلا ہوگا جسے تم ناپسند کرتے ہو، تو جس کو یہ بات پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو چاہیے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ ویسا سلوک کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (مسلم) چیزیں ہمیشہ اس شکل میں نہیں ہوتی ہیں جو ہمیں نظر آتی ہیں۔
انکساری
ہم سے وہ انکساری مطلوب ہے جو غرور وتکبر ختم کردے۔ ہم دوسروں کے خیالات، ان کی ذات، اور ان کے منصوبوں کا احترام کرنا سیکھیں۔ جو ہم نہ کرسکے اور دوسروں نے کر دکھایا اس کی قدر کریں اور جو ہمیں نہیں معلوم ہے وہ ہم پورے اخلاص کے ساتھ ان سے سیکھیں۔ تب آپ دیکھیں گے کہ ’’جو کوئی بھی اللہ کے لیے انکساری اختیار کرتا ہے، اللہ اسے بلندی سے سرفراز کرتا ہے۔‘‘ (مسلم)۔
- مخاطب کو سمجھنے کے لیے ذہنی صلاحیت کا استعمال، اور معاملات کا درست تجزیہ ضروری ہے۔
- ہم پوری بہادری کے ساتھ کہہ سکیں کہ ’’میں معذرت چاہتا ہوں‘‘، عموماً یہ الفاظ ہماری لغت سے ناپید ہوتے ہیں۔
٭ پوری توجہ سے سنیں:
جسے بات کرنے کا سلیقہ نہ ہو اسے سننے کا سلیقہ بھی نہیں آتا اور وہ دوسروں کو نہیں سمجھ سکتا۔ بہت سے لوگ طبیب کو اس لیے نہیں بلاتے ہیں کہ وہ ان کا معاینہ کرے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ ان کی بات سنے۔
اکثر لوگوں کے اندر توجہ سے سننے کا ملکہ موجود ہوتا ہے۔ تربیت کے ذریعہ اس خوبی کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
جب آپ توجہ سے سنتے ہیں تو:
٭ •آپ کو پوری اور صحیح صورتِ حال معلوم ہوتی ہے۔ آپ اپنی پسند کے مطابق فوری نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے مخاطب کے ذہن ودل کو سمجھ کر رائے قائم کرتے ہیں۔
٭ •طبعیت مطمئن ہوتی ہے: خاص طور پر اس وقت جب آپ کو یہ لگتا ہو کہ آپ کی رائے بہتر ہے اس وقت توجہ سے سن کر رائے تبدیل کریں تو دل کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ ہم یہ اصول سیکھتے ہیں: (سلیمان علیہ السلام) نے کہا ہم ابھی دیکھتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے (النمل 27)۔
٭ •فطری تقاضے کی تکمیل ہوتی ہے: ابو درداءؓ کی نصیحت ہے کہ منہ کے مقابلے میں کانوں کو ان کا حق دو۔ تمہیں دو کان اور ایک منہ اس لیے دیے گئے ہیں کہ بولنے سے زیادہ سنو۔
٭ •ہم بہادری کا سبق سیکھتے ہیں: میں معذرت چاہتا ہوں یا میں نے آپ کے ساتھ زیادتی کی جیسے الفاظ کے ذریعے صمیمِ قلب سے اپنی غلطی کا اعتراف ہمیں بہادر بناتا ہے۔ اس طرح ہم اپنی اصلاح کی سچی کوشش کرسکتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا سکتے ہیں۔
٭ •مختصر وقت اور کوشش کے ساتھ بہتر علاج تجویز کرسکتے ہیں: آپ مخاطب کے جذبات کے ذریعہ اس کے اطراف کی دنیا کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس کی حالت کی تشخیص کرکے مختصر وقت میں علاج تجویز کر سکتے ہیں۔
٭ •ما بین السطور کو سمجھ سکتے ہیں: ہر شخص اپنی گفتگو کے درمیان، خصوصا اپنے اندرونی احساسات کے اظہار کے وقت بین السطور میں بہت سی باتیں کہتا ہے۔ توجہ سے سن کر آپ ان ناگفتہ پیغامات کو سمجھ سکتے ہیں۔ الفاظ اور اندرونی خیالات کے درمیان ربط پیدا کریں۔
٭ •سیدِ انسانیتﷺ کی نصیحت پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں: حجۃ الوداع کے موقع پر پیارے نبیﷺ نے حضرت جریر بن عبد اللہ بجلیؓ سے کہا تھا “لوگوں سے کہو کہ توجہ سےسنیں”۔
٭ •حق تک پہنچ سکتے ہیں: میں اپنے مقاصد کو سامنے رکھ کر نہیں سنتا بلکہ حق کو سمجھنے کے لیے سنتا ہوں۔ حقوق وجذبات آپ کے ہوں یا دوسروں کے سب کی یکساں اہمیت ہے۔ لیکن حق سب سے بلند وبرتر ہے۔ حضرت عمر جیسا مزاج پیدا کریں: “میں نے کسی سے بھی بحث کی تو یہ تمنا رہی کہ اس کی زبان سے حق بات نکلے”۔ خواہشاتِ نفس سے بلند ہوکر صرف اور صرف حق سے محبت مطلوب ہے۔
لوگوں کو توجہ سےسننے کے لیے:
٭ •تعلیم وتربیت کےذریعہ سننے کی مہارت کو پروان چڑھائیں: یہ موروثی نہیں بلکہ اکتسابی صلاحیت ہے، جسے آسانی سےسیکھا جاسکتا ہے۔
٭ •غور سے سنیں اور اپنی گفتگو سے پہلے مخاطب سے دریافت کریں کہ آپ کی بات مکمل ہو گئی ہے یا نہیں: ہم قطعِ کلامی کیے بغیر پوری بات سنیں، حقائق، جذبات اور رایوں کے درمیان فرق کریں۔ حضرت عطاء ابن ابی رباحؒ کی مثال اپنے سامنے رکھیں۔ ایک نوجوان نے جب آپ کو کچھ باتیں سمجھانے کی کوشش کی تو اتنی توجہ سے سنتے رہے گویا وہ یہ باتیں پہلی بار سن رہے ہوں، جب اس نوجوان نے اپنی گفتگو مکمل کی اور چلا گیا تو حاضرین نے ان کی توجہ پر تعجب کا اظہار کیا، اس پر انھوں نے کہا اللہ کی قسم اس نے جو کچھ کہا وہ میں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا”۔
٭ •ہمہ تن گوش ہو جائیں: حقیقتِ حال تک پہنچنے کے لیے کان، دل، دماغ اور آنکھیں سب کا استعمال کریں۔ سراپا سماعت بن جائیں، اس کے لیے اپنی ہر طرح کی صلاحیت کا استعمال کریں۔ ان کی طرح نہ بن جائیں جن کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ “اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں” (الاعراف 179)۔ وہ توجہ سے نہیں سنتے تھے۔ کانوں سے الفاظ ٹکراتے تھے لیکن دلوں تک اس کی آواز نہیں پہنچتی تھی۔
٭ •سماعت کے متنوع اسالیب: میں ہر فرد کو ایک ہی انداز سے سننے کے بجائے ہر شخص کے لیے مناسبِ حال اسلوب اختیار کرتا ہوں۔ یہ اس وقت بہتر طریقے سے ہوسکتا ہے جب آپ مخاطب کی نفسیات سمجھتے ہوں۔ کسی کے لیے مناسب یہ ہوتا ہے کہ آپ درمیان میں سوالات کریں۔ کہیں سر ہلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر جگہ اگر میں ایک ہی اسلوب اختیار کروں تو اس کا نتیجہ بھی ناکامی کی صورت میں سامنے آئے گا۔
٭ •سننے کا مقصد سمجھنا ہو نہ کہ جواب کی تیاری کرنا: کچھ لوگ سنتے ہیں پر سمجھنے کی زحمت انھیں گوارا نہیں ہوتی، وہ اس لیے سنتے ہیں کہ مخاطب ان کی بات سنے یا اس دوران وہ اپنا جواب تیار کر لیں۔(جاری)
مشمولہ: شمارہ مارچ 2020