جمالیات اور فنون لطیفہ

اسلامی موقف اور اہل اسلام کی ذمہ داریاں

فنون لطیفہ کے سلسلے میں امت میں دو فقہی موقف ہیں ، لیکن عملی صورتِ حال یہ ہے کہ دونوں موقفوں سے مختلف دو عملی رویےرائج ہیں ، اور اس کے ساتھ اسلام اور اہل اسلام کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔

ایک فقہی موقف یہ ہے کہ فنون لطیفہ قدرے محدود دائرے میں جائز ہیں۔ دوسرا فقہی موقف یہ ہے کہ فنون لطیفہ قدرے وسیع دائرے میں جائز ہیں۔ دونوں موقف جواز کے قائل ہیں ، مگر ایک کا دائرہ جواز چھوٹا ہے اور دوسرے کا دائرہ جواز بڑا ہے۔ بے قید اور غیر مشروط اجازت کا کوئی قائل نہیں ہے۔ اور نہ ہی کوئی سب کچھ حرام ہونے کا دعوے دار ہے۔

اس کے برعس، امت میں دو عملی رویے ہیں ، ایک طرف مذہبی دین دار طبقہ ہے جو ہر طرح کے فنون لطیفہ سے لاتعلقی اور بیزاری پسند کرتا ہے۔ اس طبقے کے یہاں فنون لطیفہ کے حوالے سے کسی طرح کی تخلیقیت کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی ہے۔

دوسری طرف امت کے عام افراد ہیں ، جن کا رویہ فنون لطیفہ کے سلسلے میں بے قید آزادی کا ہے، تمام مسلم ممالک میں سرکاری سرپرستی اسی رویے کو حاصل ہے، اور پوری امت میں عام طور سے فنون لطیفہ کے تحت جو پروڈکشن سامنے آرہا ہے وہ حرام وحلال کی تمییز سے بالکل عاری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے یہاں رائج فنون لطیفہ دراصل مغرب کی اباحیت کی نقالی ہے، نہ کوئی بلندی اور پاکیزگی ہے اور نہ ہی کوئی ندرت اور تخلیقیت ہے۔ استثنائی کوششیں کچھ نہ کچھ ضرور ہیں۔

امت کو درپیش چیلنج یہ ہے کہ فنون لطیفہ جو دل ودماغ پر گہرا اثر ڈالتے ہیں ، اور جو فرد اور سماج کے رویوں کی تشکیل میں بڑا رول ادا کرتے ہیں ، مکمل طور سے اسلام مخالف طاقتوں کے ہاتھوں میں ہیں ، اہل اسلام کا ان پر ذرا قابو نہیں اور اسلام کی ان پر کچھ بھی چھاپ نہیں ہے۔ اس طرح اسلام اور اسلامی تحریکات ایک عظیم قوت سے یکسر محروم ہیں۔ دور جدید میں ٹکنالوجی کی ترقی اور پھیلاؤ سے فنون لطیفہ نے بھی غیر معمولی ترقی کی اور پھیل کر پوری انسانی زندگی میں سرایت کرگئے، اور کسی بھی گوشے کو خالی نہیں چھوڑا، اوراس طرح خدا سے غفلت، مادہ پرستی، اباحیت اور فسادِ اخلاق پر مبنی فنون لطیفہ کی گرفت فرد اور سماج پر نہایت مستحکم ہوگئی۔ یہ تحریر دراصل اس صورتِ حال کی شدت کا ادراک کرتے ہوئے اہل اسلام کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہاں حرام وحلال سے متعلق نئی بحثوں کو چھیڑنا مقصود نہیں ہے، بلکہ سابقہ بحثوں کے نتیجے میں اجمالی طور پر جو دو موقف پہلے سے موجود ہیں ، ان دونوں ہی کے ماننے والوں کو صورتِ حال کی خطرناکی اور اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنے کی دعوت دینا مقصود ہے۔

انسان اور جمالیات

اللہ نے انسان کو حسن وجمال سے مالا مال کائنات میں بسایا، جس میں اس کی حیثیت ایک ناظر جمالیات کی ہے۔

اللہ نے انسان کے اندر جمالیاتی تخلیق کی صلاحیت ودیعت کی، اس طرح اس کی حیثیت ایک خالق جمالیات کی ہے۔

کائنات کا جمال انسان کو ایک اچھا ناظر بننے کی ترغیب دیتا ہے، اور انسان کی صلاحیت، اور پھر اپنی صلاحیتوں کےاظہار کا شوق اس پر ایک اچھا تخلیقی فن کار بننے کی ذمے داری عائد کرتا ہے۔

فنون لطیفہ انسانی وجود کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں ہے، فنون لطیفہ کی جڑیں انسان کی فطرت میں پائی جاتی ہیں۔ فنون لطیفہ اس جمیل وحسین کائنات میں انسان کےتخلیقی شوق کا اظہارہے، فنون لطیفہ کا تعلق انسان کے عمل اور اس کی تخلیقی وابداعی خدا دادصلاحیتوں سے ہے۔ فنون لطیفہ پر پابندی لگانے کا مطلب انسان کی تخلیقی صلاحیتوں پر قدغن لگاناہے، اور یہ انسان کی شخصیت کے سب سےاہم پہلو کو موت کے گھاٹ اتار دینا ہے۔ دینِ فطرت کے سلسلے میں یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ وہ انسانی شخصیت کے اس اہم پہلو کو ابھرنے کا موقع نہ دے گا۔

ظاہری پہلو سے دیکھا جائے تو فنون لطیفہ انسان کی کائنات کے ساتھ محاکات (imitation)ہے۔ اس معنی میں نہیں کہ انسان نقال واقع ہوا ہے، بلکہ اس معنی میں کہ فنون لطیفہ کے جو بھی اصناف انسانوں نے اختیار کیے ہیں ، اور ان پر مشق کی ہے، وہ سب کمال درجے میں کائنات میں پائے جاتے ہیں ، اور کائنات کے حسن وجمال کا عنصر بنتے ہیں۔ کائنات خوب صورت مناظر کا مرقع ہے، اس کے مناظر سے مسرور ومتاثر انسان انھیں رنگوں سے تصویریں بنانے کا شوق پورا کرتا ہے، دل موہ لینے والی سریلی آوازوں اور نغموں سے پوری کائنات طرب گاہ بنی ہوئی ہے، انسان اپنے گلےاور مصنوعی آلات سے رسیلی آوازیں نکال کر بھی کیف محسوس کرتا ہے، کائنات حیرت انگیز تخلیق پاروں سے آباد ہے، انسان بھی مجسمہ سازی اور معماری میں انوکھا پن دکھاکرحظ پاتا ہے، رقص کے مناظر پوری کائنات میں نظر آتے ہیں ، انسان بھی اپنے دل کی کیفیات کا اظہار رقص کے ذریعہ کرتا ہے۔ غرض فنون لطیفہ کا بڑا حصہ بظاہر آفاقی جمالیات کی تقلیدہے۔ فنون لطیفہ اور کائنات میں اصل میں فر ق واقع ہوجاتاہے اخلاقی نقطہِ نظر سےاور دل پر مرتسم ہونے والے اثرات کے پہلوسے۔ جہاں یہ فرق ختم ہوجائے، اور انسانی فنون لطیفہ اور کائنات کی جمالیات ہم آہنگ ہوجائیں ، وہیں اسلامی فنون لطیفہ کی دریافت ہوتی ہے۔

فنون لطیفہ انسان اور کائنات کے درمیان خوب صورت تعلق کا حسین وجمیل اظہار ہے۔ کائنات کا جمالیاتی پہلو انسان کےجمالیاتی احساس کو جگاتا ہے، اسے غذا دیتا ہے، اسے حرکت دیتا ہے، اور تخلیقیت کے راستے دکھاتا ہے۔ انسان کی نشوونما میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں ، لیکن انسان اپنے جمالیاتی وجود کی نمو کے لیے کائنات کے جمالیاتی وجودکا ممنون کرم ہوتا ہے۔

اسلام جو دین فطرت ہے، اور انسان کے فطری تقاضوں کی تکمیل کا انتظام رکھتا ہے، اور اس کی ہر تعلیم انسانی فطرت اور کائنات سے ہم آہنگ ہے، وہ فنون لطیفہ کی حوصلہ شکنی نہیں کرتا ہے۔ بلکہ فنون لطیفہ کے لیے سازگار ماحول اور پاکیزہ فضا فراہم کرتا ہے۔

فنون لطیفہ کا تعلق جمالیات پسندی سے ہے، اورجمالیات پسندی پر اسلام پابندی نہیں لگاتا ہے۔ بلکہ وہ جمالیاتی ذوق کی نمو کا بہترین انتظام رکھتا ہے۔

قرآن مجید کو جمالیات سے جوڑنے کی اہمیت

قرآن مجید میں جمالیات کا پہلوبہت زیادہ نمایاں ہے۔ صوتی جمالیات، تصویری جمالیات، ادبی اور بیانی جمالیات۔ قرآن مجید سے جمالیات کا رشتہ اتنا گہرا ہے، کہ اس سے متعلق ہر چیز پیکرِ جمیل بن کر سامنے آتی ہے۔ صوتی جمالیات سے تجوید کا ایک پورا فن تشکیل پایا۔ قرآن مجید کو خوب صورت خط میں لکھنے کے شوق سے جمالیات کے چشمے پھوٹے، اورخاص قرآنی آیات کے لیے خطاطی کا فن ترقی پایا، جس میں فن کاروں نے خوبی ذوق کے خوب خوب جوہر دکھائے۔ قرآن مجید سے اہل اسلام کا رشتہ صرف تقدس اور احترام کا نہیں رہا بلکہ زینت آرائی اور جمال آفرینی کا رشتہ بھی رہا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے یہاں مقدس عمارتوں کی آرائش وزیبائش کے لیے سب سے زیادہ استعمال قرآن مجید کی خوش خطی میں لکھی ہوئی آیتوں کا کیا گیا۔

قرآن مجید میں جمالیات کا تذکرہ بھی بہت زیادہ ہے۔ کائنات کے جمال کا ذکر بہت زیادہ ہے، اور جنت جسے کامیابی کی علامت اور ابدی سکونت کا مقام قرار دیا گیا ہے اس کا ہر تذکرہ بتاتا ہے کہ وہ سر تا سر ایک ما ورائے تصورحسن کی جلوہ گاہ ہے۔

قرآن مجید کوپڑھنے والا جمالیات سے بے پرواہ اور خشک مزاج نہیں ہوسکتا، اس کے اندر جمالیاتی ذوق کی نشوونما ہونا بالکل فطری ہے۔ قرآن مجید جمالیاتی احساس اور ذوق کی پرورش کرتا ہے، اور اس کے اوپر پڑی ہوئی آلائشوں کو دور کرتا ہے۔ ایک طرف قرآن مجید طہارت وپاکیزگی پسند کرنے والا مزاج بناتا ہے، اور اسی کے ساتھ زینت وجمال کو پسند کرنے والا ذوق بھی ابھارتا ہے۔ پاکیزگی اور حسن دونوں میں بہت گہرا رشتہ ہے۔

قرآن مجید کی جمالیات سے انسانوں کو جوڑنا ایک اہم تربیتی اور دعوتی منصوبہ ہوسکتا ہے۔

کائنات کو جمالیات سے جوڑنے کی اہمیت

کائنات کا جمال زندہ وجاوید ہے، اس سےلطف اٹھانے کا سلسلہ نہ کبھی رکا ہے اور نہ رکے گا۔ کا ئنات کا جمال ہمیشہ تروتازہ اور شاداب رہتا ہے، اکتاہٹ کا ذرا سا شائبہ بھی اس میں شامل نہیں ہوتا ہے، اس کا کوئی منظر کبھی پرانا نہیں ہوتا ہے۔ جھلملاتے تاروں کی ما فوق البشر ترتیب، سمجھ میں نہ آنے کے باوجود، ہمیشہ سے دل کو لبھاتی رہی ہے۔

کائنات میں جمالیاتی تشنگی کی تسکین کا بھرپور انتظام ہے۔ جمالیات کی فطری پیاس رکھنے والے انسانوں کے لیے یہ حسین وجمیل کائنات ایک صاف وشفاف ہر قسم کی آلائش سے پاک چشمہ کے مانند ہے۔ اس انتظام اور اس چشمہ با صفاسے انسانوں کو جوڑنا ایک بہت بڑا دعوتی منصوبہ ہوسکتا ہے۔

قرآن مجید کائنات کی جمالیات پر دھیان دینے کی ترغیب دیتا ہے، بلکہ انسانی وجدان کو مشاہدے کے اڑن کھٹولے پر بٹھاکر حسین وجمیل کائنات کی سیر کراتا ہے۔ اس سیر کی تربیتی، اصلاحی اور دعوتی اہمیت کتنی زیادہ ہے، اسے سید قطب کی حسین وجمیل تعبیر میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:

قرآن نفس کو آسمان کے جمال کی طرف متوجہ کرتا ہے، پورے کون کے جمال کی طرف، کیوں کہ وجود کے جمال کا ادراک وجود کے خالق کے جمال کے ادراک کا قریب ترین اور سچا ترین وسیلہ ہے۔ یہی ادراک ہے جو انسان کو حد امکان کےاعلی ترین افق تک بلند کردیتا ہے، کیوں کہ اس وقت وہ اس نقطے پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ زندہ وجاوید زندگی کے لیے تیار ہوتا ہے، خوب صورت آزاد جہان میں ، جو دنیائے ارضی اور حیات ارضی کی آلائشوں سے پاک ہے۔ انسانی دل کے لیے سب سے سعید لمحے وہ ہیں جب اللہ کے جمالِ تخلیق کی اس میں آمد ہوتی ہے، کیوں کہ یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جو اسے تیار کرتے ہیں اور اس کے لیےساز گار کرتے ہیں کہ وہ الہی جمال سے وابستہ ہوجائے اور اس کا لطف لے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر سورۃ الملک، سید قطب)

قرآن مجید کس طرح ظاہری حسن سے باطنی حسن کا سفر کراتا ہے، اور اس کے لیے قرآن مجید اور کائنات کس طرح ایک دوسرے سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں ، یہ وہ باب ہے جس سے سلوک ومعرفت کی راہیں کھلتی ہیں۔ کیا اچھا ہوتا اگر ارباب ِتصوف معشوق ِمجازی سے معشوق ِحقیقی تک پہنچنے کی لا حاصل سعی کے بجائے، قرآن مجید کے طریق پر غور کرتے۔

کائنات کے جمال کا ایک اعجاز یہ ہے کہ جب نگاہیں کائنات کے جمال سے لطف اٹھارہی ہوتی ہیں ، اس وقت دل کائنات سے آگے بڑھ کر اللہ کے جمال سے لطف اندوز ہورہا ہوتا ہے۔

جمالیات کا مقصود : اچھائی کی ترغیب

کائنات میں جلوہ افروز جمالیات کا اصل مقصوداچھائی کی ترغیب ہے۔

إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِینَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَیهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (۷) وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَیهَا صَعِیدًا جُرُزًا (۸)[الكهف]

کائنات سے جمالیات لے لینا اور اچھائی کی ترغیب چھوڑ دینا ایسے ہی ہے جیسے روزے کو چھوڑ کر سحری اور افطار کا لطف اٹھانا۔

کا ئنات اپنی تما م حسن آرائیو ں اور جمال آفرینیوں سے عمل صالح کی ترغیب دیتی ہے، جس کے اندر یہ جذبہ پیدا نہیں ہوا، سمجھنا چاہیے کہ کائنات کا حسن اس پر آشکارا ہی نہیں ہوا۔

اعمال کا حسن وقبح، جمالیات کا اہم باب

جس طرح مادی چیزوں میں حسن وقبح دونوں پائے جاتے ہیں ، اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ حسن وقبح کی تفریق انسان کے اعمال میں پائی جاتی ہے۔ بلکہ مادی قبح کو دیکھ کر اتنی کراہیت نہیں ہوتی ہے، جس قدر کراہیت قبیح اعمال کو دیکھ کر ہوتی ہے۔ اور مادی حسن اتنا دل فریب نہیں ہوتا ہے جس قدر دل فریبی اور سحر آفرینی حسین وجمیل اعمال میں پائی جاتی ہے۔ جمالیات کو جس قدر پھلنے پھولنے اور اپنے کمالات کا مظاہرہ کرنے کا موقع اعمال کے فریم میں ملتا ہے، وہ کسی بھی مادی فریم میں نہیں ملتا ہے۔

حسن وجمال کی بہترین مرقع اس کائنات میں کسی قبیح کام کی گنجائش نہیں ہے، اور جو ایسا کرتا ہے وہ پوری کائنات کے حسن کو داغ دار کرنے کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔

اور یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ فنون لطیفہ بھی انسانی اعمال ہیں ، اور حسن وقبح کی تقسیم ان پر بھی عائد ہوتی ہے۔

فنون لطیفہ فلسفہ اخلاق کی ترازو میں

فنون لطیفہ میں سے کیا جائز ہے اور کن شرطوں کے ساتھ جائز ہے، اس پر فقہی نقطہ نظر سے گفتگو کی جاتی ہے، اس کی اپنی اہمیت ہے۔

تاہم اس موضوع پر فلسفہ اخلاق، اور نظریہ خیر وشر کے حوالے سے بھی گفتگو ہونی چاہیے۔

فنون لطیفہ انسانی عمل ہیں ، اور انسان کے ہر عمل کی طرح فنون لطیفہ بھی خیر اور شر کی تقسیم سے دوچار ہوتے ہیں۔ خیر اور شر کا تصور جس قدر واضح ہوگا فنون لطیفہ میں خیر اور شر کی اخلاقی تمیز کرنا اتنا ہی آسان ہوگا۔

روز اول سے دنیا میں خیر وشر کی کشمکش جاری ہے، خیر بھی فروغ پانے کے لیے وسائل کا تقاضا کرتا ہے، اور شر بھی پھیلنے کے لیے وسائل کا استعمال کرتا ہے۔ ٹکنالوجی کی ترقی اور اس سے جنم لینے والے تنوع نے فنون لطیفہ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ فنون لطیفہ نے جدید ٹکنالوجی کے سہارے غیر معمولی جست لگائی ہے، وہ ہر شعبہ حیات میں دخیل ہوگئے ہیں ، اورانسانی زندگی کو مکمل طور پر اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ ایسے میں فنون لطیفہ کو خیر وشر کے میزان پر رکھنا بہت زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔

خیر وشر کو پہچاننے والی اخلاقی کسوٹی کو سامنے نہیں رکھنے پر فنون لطیفہ کی صحیح تقسیم نہیں ہوپائے گی۔ بلکہ اس کسوٹی سے اگر فنون لطیفہ کو نہیں گزارا جائے تو سب کچھ قبول کرلینے یا سب کچھ رد کردینے کا رجحان پیدا ہوتا ہے، اور یہ دونوں ہی رجحانات امت میں بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔

خیر وشر کے سلسلے میں اسلام کے فلسفہ اخلاق کو سامنے نہیں رکھنے کےنا قابل ستائش نتیجے کیا ہوسکتے ہیں ، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ موسیقی اور غناء کے سلسلے میں تو عام فقہی موقف کافی سخت ہے، لیکن دیکھا جائے تو ان دونوں چیزوں کو اخلاقی لحاظ سے شدید قابل اعتراض بنانے والی چیز وہ اشعار ہوتے ہیں جو موسیقی کے ہم راہ گائے جاتے ہیں۔ اگر اشعار کا مضمون مفسد اخلاق ہے تو یقینی طور پر اس کی ہم راہ موسیقی اور غناء بھی اخلاقی پہلو سےمفسد قرار پائے گی، اور اگر اشعار کامضمون اعلی اخلاق کی ترغیب وتعمیرپر مشتمل ہو تو ان اشعار کو گانے اور ان کے ساتھ موسیقی شامل کرنے کو کسی قدر اخلاقی تائید حاصل ہوتی ہے۔

ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہوا کہ موسیقی اور ترنم کے سلسلے میں تو سخت فقہی موقف اختیار کیا گیا، لیکن خود اشعار کے مضمون کے سلسلے میں عام طور پر فقہی طور پر بھی نرمی رہی اور عملی طور پر تو بہت زیادہ تساہل عام ہوگیا۔

فلسفہ اخلاق کا پر زور تقاضا ہے کہ موسیقی اور غناء سے زیادہ کلام کےمضمون پر دھیان دیا جائے۔

لِنَبْلُوَهُمْ أَیهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (تاکہ ہم انھیں آزمائیں کہ بہترین عمل کون کرتا ہے)، اس مقصدتخلیق کا انطباق انسان کے تمام کاموں کے ساتھ فنون لطیفہ پر بھی ہوتا ہے۔ لوگوں کے لاشعور میں یہ بات بیٹھ گئی ہے یا کم از کم اس کا عملی اظہار ہوتا ہے کہ فنون لطیفہ یا اس میں سے کچھ چیزیں خیر وشر کی تقسیم میں نہیں آتی ہیں۔ یعنی یا تو تمام فنون لطیفہ جائز ہیں ، یا تمام فنون لطیفہ ناجائز ہیں۔ یہ تصور درست نہیں ہے۔ ان میں اخلاقی نقطہ نظر سے خیر اور شر کی تقسیم پر ہمیشہ دھیان رکھنا چاہیے۔

فنون لطیفہ میں اخلاقی پہلو کو پیش نظر رکھنا کتنا ضروری ہے، اس کے سلسلے میں قرآن مجید میں سورۃ الأعراف آیت ۳۲ اور ۳۳ پر غور کرنا چاہیے، ان آیتوں میں یہ دوباتیں کہ اللہ کی زینت حرام نہیں ہے اور فحاشی وبدکاری کی چیزیں حرام ہیں ، بہت معنی خیز ہیں۔ پہلی بات فنون لطیفہ کے سلسلے میں اجازت وترغیب کا دروازہ کھولتی ہے، اوردوسری بات فنون لطیفہ کے لیے معیار مقرر کردیتی ہے۔

ہر موقف اپنےساتھ ذمے داری رکھتا ہے

فنون لطیفہ میں بہت سی چیزیں آتی ہیں ، ایک تقسیم کے مطابق کچھ فنون لطیفہ متحرک ہوتے ہیں ، جیسے رقص، نغمہ اور موسیقی، کچھ ساکن ہوتے ہیں جیسے مصوری، سنگ تراشی، معماری، اور کچھ کا تعلق شعر سے ہے اور شاعری کی بہت سی قسمیں ہیں۔ جدید ٹکنالوجی نے فنون لطیفہ میں ویب ڈیزائننگ جیسی جدید چیزوں کا اضافہ کیا۔

فنون لطیفہ کی تفصیلات میں جائیں گے تو معلوم ہوگا کہ اہل اسلام کے درمیان کچھ کے حلال ہونے پر اتفاق ہے، اور کچھ کےحرام ہونے پر اتفاق ہے۔ جب کہ کچھ کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔ اور یہ اختلاف ایسا نہیں ہے کہ اسے شاذ قول کہہ کر مطلق نظرانداز کردیا جائے، بلکہ یہ اختلاف امت کے اکابر اہل علم کے درمیان ہے، دونوں ہی فریق کتاب وسنت کو اپنا مرجع مانتے ہیں ، اور کتاب وسنت کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ اور دونوں ہی فریق معتبر ومستند اہل علم ہیں۔

اس لیے یہ ماننا چاہیے کہ فنون لطیفہ کے سلسلے میں اختلاف اس لیے ہوا کیوں کہ اس کی گنجائش تھی۔ اور ایسے اختلافی امور میں ہمارا رویہ نرمی کا ہونا چاہیے۔ ہم جس موقف کو درست سمجھیں اختیار کریں ، مگر دوسرے موقف کو گم راہی نہیں قراردیں۔

سخت موقف والوں کی ذمہ داری

جو لوگ دلائل کا حوالہ دے کر فنون لطیفہ کے سلسلے میں شدت والا موقف رکھتے ہیں ، ان کی ذمہ داری ہے کہ جس محدود دائرے کو وہ مباح سمجھتے ہیں ، اس میں تحسین اور تخلیقیت کی کوشش اتنی زیادہ کریں کہ وہ دائرہ اپنی محدودیت کے باوجود اپنی کشش اور جاذبیت کی بنا پرانسانوں کی تشنگی دور کرنے کے لیے کافی ہوجائے۔ یہ ناممکن نہیں ہے۔ بلکہ اہل اسلام اس سلسلے میں ایک درخشاں تاریخ سے مالا مال ہیں۔ اس سلسلے میں بہت سی تحقیقات اور جائزے بتاتے ہیں کہ مسلمانوں نے فنون لطیفہ کے سلسلے میں شریعت کی سخت شرطوں کے درمیان بعض میدانوں میں غیر معمولی ابداع اور تخلیقیت کے نقوش قائم کیے، جیسے فن تعمیر، فن نقش ونگار اور فن خطاطی۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں نے دور تنزلی میں فنون لطیفہ سے تغافل برتا تو خود ان کے اپنے فنون لطیفہ زمانہ حال سے غائب ہوکر محض تاریخ کا حصہ بن گئے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دور حاضر میں بھی بعض اسلام پسند گائے کاروں نے بغیر موسیقی کے کروڑوں لوگوں کے دلوں تک اپنا پیغام پہنچانے کی کامیاب کوشش کی، لیکن یہ حجم اور تاثیرکے لحاظ سے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔

نرم موقف والوں کی ذمہ داری

جو لوگ فنون لطیفہ میں دلائل کے ساتھ اعتدال کا حوالہ دیتے ہوئے نرمی والا موقف رکھتے ہیں ، ان کی ذمہ داری دوہری ہے۔ ایک طرف تو وہ مباح کے نسبتا وسیع دائرے میں تخلیقیت کی بھرپورکوشش کریں تاکہ تشنگی بجھانے کا یہ مباح انتظام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ اور وہ حرام سے خود کو بے نیاز محسوس کرسکیں۔

دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے دائرے کے سلسلے میں بہت زیادہ محتاط رہیں۔ ان کے وسیع تر دائرے کے لیے بہت بڑی وجہ جواز یہ ہوتی ہے کہ وہ حرام کی واضح صورتوں سے اجتناب کرنے کی شرطوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اس لیے اگر ان کے دائرے میں رخنے پیدا ہوگئے، اور باہر کا حرام عنصر ان کے یہاں شامل ہونے لگا، تو وہ اپنے موقف کی وجہ جواز سے محروم ہوجائیں گے۔

ویسے بھی اول الذکر موقف کے مقابلے میں یہ موقف حرام کی سرحدوں سے قریب کردیتا ہے، اس لیے احتیاط بہت زیادہ بڑھادینا لازم ہوجاتا ہے۔

غرض دائرے کی وسعت تخلیقیت کے امکانات توبڑھاتی ہے، ساتھ ہی احتیاط کے تقاضے بھی بڑھادیتی ہے۔

یہ صورتِ حال قابل تعریف نہیں ہے کہ نظریاتی طور پر تو شرطوں سے گھرے ہوئے وسیع موقف کو اختیار کیا جائے، اور عملی برتاؤ میں ان تمام شرطوں کو پامال کرکے وہ رویہ اختیار کیا جائے جس کے حرام ہونے میں کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔

غرض آپ کو فنون لطیفہ کے سلسلے میں جس فقہی موقف پر اطمینان ہو اس پر قائم رہیں ، اس کی شرطوں اور حدود کی پوری پابندی کریں ، لیکن اس موقف کے دائرے میں رہتے ہوئے تخلیقیت کی پروزور حوصلہ افزائی کریں ، اور اس عظیم انسانی قوت کو اپنی متاع گم شدہ کے طور پر اختیار کریں۔ اگر دونوں ہی موقف کے حاملین اس میدان میں سنجیدہ کوشش کریں تو بڑی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔

فنون لطیفہ، تفریح ہی نہیں طاقت بھی

عام طور سے جو لوگ فنون لطیفہ میں زیادہ گنجائش رکھتے ہیں وہ بھی اسے لہو اور تفریح کے ذیل میں رکھتے ہیں ، اور اس میں زیادہ انہماک کو غلط قرار دیتے ہیں ، سامعین وناظرین کی حد تک یہ بات صحیح ہوسکتی ہے، تاہم فنون لطیفہ سامانِ تفریح سے آگے بڑھ کر زبردست ذہن ساز قوت بھی ہیں ، اور یہ قوت بہت زیادہ توجہ اور محنت کے بعد ہی ہاتھ آسکتی ہے۔

دور حاضر کے مشہور تحریکی مفکر ورہنما راشد غنوشی فنون لطیفہ کو اہل اسلام اور تحریک اسلامی کی زبردست طاقت اور توانائی قرار دیتے ہیں ، اور باطل کو شکست دینے اور حق کو غالب کرنے کے لیے اس کے استعمال کو ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں :

جمالیاتی احساس انسان کی اہم ترین خصوصیات میں سے ہے، انسان اس احساس کا مختلف طریقوں سے اظہار کرتا ہے، ان طریقوں کو اصطلاح میں فنون لطیفہ کہا جاتا ہے: وہ آواز ہو یا تصویر ہو یا رنگ ہو یا حرکت۔ اس دور میں ٹکنالوجی کی ترقی، انسانی پریشانیوں کی کثرت، انسان کےالمیاتی احساس کی شدت، نظریات کے ٹکراؤ، کے ساتھ فنون لطیفہ نے بہت بڑی اہمیت حاصل کرلی، معیشت کی سطح پر وہ دولت کمانے کا بڑا ذریعہ بن گئے، اور فکری، اعتقادی، اور سیاسی سطح پر جماعتی اور مذہبی ترویج کا زبردست وسیلہ بن گئے، جو عوام کو مدہوش رکھنے، یا انھیں شعور دینے، یا انھیں جوش دلانے کا کام کرتے ہیں۔ اسلام نے جمال کے ہر مفہوم کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے، اسے اللہ کی صفت بتایا ہے، خالق پر ایمان لانے اور اس کی بندگی کرنے کا راستہ بتایا ہے، تاہم یہ عظیم ترین توانائی اسلامی تحریک میں بے کار پڑی ہے۔ اس حیثیت سے اسے پروان چڑھانے پر دھیان نہیں دیا جارہا ہے کہ جمالیاتی احساس اسلامی شخصیت کے عناصر میں ایک بنیادی عنصر ہے۔ بلکہ اسلامی تحریک فنون اور آرٹس کی بہت سی قسموں جیسے اسٹیج، سینما، مصوری نغمہ اور تصویر سے کنارہ کشی کی راہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اورکوئی کوشش نہیں ہورہی ہے کہ اس کے سلسلے میں نظریہ کاری ہو، حلال فنون اور حرام فنون کے درمیان خط فاصل کھینچاجائے، انھیں بے حیائی کے الحادی مشمولات سے آزاد کیا جائے، اوراپنے تراث اور قدروں میں اس کی جڑیں اتاری جائیں ، تاکہ راستے اور محرابیں وجود میں آئیں ، اللہ کی عبادت کے لیے، عوام میں جمالیاتی احساس (جو کہ ایمان کا بھائی ہے) کی نشوونما کے لیے، انھیں غربت وافلاس کے مارے ہوئے، اور ظلم کی چکی میں پستے ہوئے انسانوں کے مسائل کا شعور دینے کے لیے، اور ظلم کے خلاف ایمان کے انقلابی معرکے میں آگے بڑھانے کے لیے۔ اسلامی دعوت کتنی شدت سے ضرورت مندہے عظیم قائدین کی جو معاصر فنی تجربے کو پوری طرح سمجھیں ، ہر کوئی اپنے میدان میں ، اور اسے سدھانے، آزاد کرنے، اس کی جڑیں استوار کرنے، اور اسے مسخر کرنے کا کام کریں ، ہم زمانہ مگر جڑ سے وابستہ اسلامی فن کی تخلیق کو اپنی منزل بناکر۔ (الحرکۃ الاسلامیہ ومسألۃ التغییر ص ۵۰)

معیاری اسلامی ادب

ادب کی حیثیت فنون لطیفہ میں ریڑھ کی ہڈی کی ہے، اگر ادب فحش ہے تو اس کی بنیاد پر تیار ہونے والے نغمے، ڈرامے اور فلمیں سب فحش کے زمرے میں آئیں گے، اور اگر ادب اعلی اخلاق کی بلندیوں کو چھونے والا ہو تو توقع کی جاسکتی ہے کہ اس کی بنیاد پر تیار ہونے والے نغمے، ڈرامے اور فلمیں بھی اخلاق کے دائرے میں رہیں گے۔

مقاصد کے لحاظ سے آخری بلندی پر فائز اسلامی ادب کوجمالیاتی پہلو سے فنون لطیفہ کی معراج پر پہنچانے کا کام ہونا چاہیے، قرآن مجید کا جمالیاتی امتیاز اس کا طاقت ور محرک بن سکتا ہے۔ یہ تاثر غلط ثابت کرنا ہوگا کہ ادب اگر اسلامی ہو تو معیاری ادب نہیں رہتا، کیوں کہ وہ جمالیات سے خالی رہ جاتا ہے۔

اسی طرح قرآن مجیدکی جمالیات سے تحریک پاکر وعظ کے عمل کو دل نشین اور پرکشش ہونا چاہیے۔

فنون لطیفہ پوری زندگی کا عنوان بن جائیں

فنون لطیفہ کا جمالیاتی عکس پوری زندگی پر نظر آنا چاہیے۔ پرلطف محفل، خوب صورت تخلیق، اوردل نواز پرفارمنس تک جمالیات کو محدود رکھنا فنون لطیفہ کی ناقدری اور پوری زندگی کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ فنون لطیفہ سے دل چسپی تخلیق وپیش کش کی سطح پر ہو یا ناظر وسامع کی حیثیت سے ہو، پوری زندگی پر اثر انداز ہو اور شخصیت کے مجموعی رویے میں حسن وجمال کا موجب بنے۔ اسلامی فنون لطیفہ کوعام طور پر تمام اہل اسلام اور خاص طور پر اسلامی تحریک کے مزاج اور رویوں میں سرایت کرجانا چاہیے۔

فنون لطیفہ داعی کی قوت

فنون لطیفہ کا دعوتی زبان میں استعمال، اور فنون لطیفہ کا داعی کے رویے اور لہجے میں ظہور بہت اہم ہیں ، ساتھ ہی ایک اہم چیز ہے مدعو قوم کے فنون لطیفہ سے واقفیت، ان کے فنون لطیفہ کا استعمال اور اس میں ان کے ساتھ اشتراک۔

مدعو قوم کے فنون لطیفہ کو استعمال کرنے کے مطلب اپنے اور مدعو قوم کے درمیان بہت مضبوط لطیف اور دل پسند رشتہ قائم کرنا ہوتا ہے، لسان القوم کی معراج ان کےفنون لطیفہ کا استعمال ہے۔

مدعو قوم سے رابطہ قائم کرنے کے لیے بھی اور مدعو قوم کو اپنی دعوت سے متاثر کرنے کے لیے بھی مدعو قوم کے فنون لطیفہ سے آگاہی اور اپنے اندر فنون لطیفہ کا ذوق پیدا کرنا ضروری ہے۔ اوریہ وضا حت بار بار ہونی چاہیے کہ ان سب امور کا اسلام کے نظریہ خیر وشر اور نظام حلال وحرام کےماتحت رہنا ضروری ہے۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2020

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223