سلسلہ روز و شب نقش گرِ حادثات
سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات
بابری مسجد اور رام جنم بھومی مندر کے قضیے کی حیثیت تاریخ ہند کے ایک خوںچکاں باب کی ہے جو بہرحال اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ مسجد، جسے مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر (۱۵۳۰-۱۴۸۳) کے سپہ سالار میر باقی نے اپنی نگرانی میں مغل آرٹ کے طرز پر ۱۵۲۸ء میں بنوایا تھا، اب فیض آباد ضلع کی معروف نگری اجودھیا کی سر زمین پر نہیں بلکہ بھارت کے لوحِ ایام پر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہے، اور تقریباًپانچ سو سالہ تاریخ مغلیہ سلطنت کے قیام سے بھومی پوجن (۲۰۲۰ء) یعنی ہندتوا کی حکومت کے قیام تک ملک کے مختلف ادوار، عروج و زوال، ۱۸۵۷ء کے ہندومسلم اتحاد، انگریزوں کی غلامی، تحریک آزادی، تقسیم ملک، دستورسازی، آزادی، مساوات، عدل، مذہبی رواداری کے بلنداعلانات کے ساتھ حقوق انسانی وجمہوری قدروں کی پامالی، فرقہ وار انہ فسادات، ہندتوا کا اُبھار، حادثۂ۶دسمبر ۱۹۹۲ء، سیاسی عیاری، عدالتی داؤ پیچ، مذہبی دہشت گردی اور آستھا و متھ کے کھیل کی چشم دید گواہ ہے۔ جس کی گواہی ہندستان کا ہر با شعور مسلم و ہندو شہری دے گا۔ بلکہ ہندستان کے ہر مذہب و مسلک کی آنے والی انصاف پسند نسل اس گواہی میں شریک رہے گی۔ یہاں تک کہ ہندتوا کے پروپیگنڈے کی حقیقت ایک دن سچے رام بھکت بھی آشکاراکریں گے۔ یہ کب ہوگا، کہنا مشکل ہے۔ لیکن اتنا یقینی ہے کہ سنتِ الٰہی اور قوانینِ فطرت کے مطابق یہ کام ظہور پذیر ہوکر رہے گا۔ البتہ یاد رہے کہ ہمارے صبر، تحمل، توکل اور تقوی کا معیار جتنا بلند ہوگا اتنا جلد اس کا ظہور ہوگا۔ ولن تجد لسنت اللہ تبدیلا۔ او رتم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ (سورہ: الاحزاب؍۶۳) اور دوسری جگہ قرآن نے اعلان کیا انا کذالک نجزی المحسنین۔ اس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں۔ (سورہ: یوسف؍۲۲(
اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم سب آج ایک فطری عالم اضطراب سے گزر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں مایوسی، احساس شکست، جذباتی ردعمل یا انتہا پسندی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ بابری مسجد کا مسئلہ ہمارا سیاسی ایشو کبھی نہیں تھا اور نہ کبھی ہونا چاہیے۔ اگر اس سلسلے میں ہم نے آج جذباتیت یا انتہا پسندی کا رویہ اختیار کیا تو اخلاقی سطح پر جیتی ہوئی بازی ہار جائیں گے۔ اللہ کا شکر ہے کہ مسلمانوں کے متحدہ پلیٹ فارم نے اس سلسلے میں جو موقف اختیار کیا وہ کسی ڈر، نا معلوم خوف، لالچ، تعصب، اندیشہ ہائے دور دراز اور بے جا مصلحت پسندی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ انتہائی معقول، شریفانہ، ملک و ملت کے حق میں اور دور اندیشی پر مبنی تھا۔ ایک مہذب معاشرے اور متمدن دنیا میں کسی مکان، دُکان، کھیت کھلیان اور پلاٹ تالاب کی ملکیت کے مسئلے کا حل زور زبردستی، لاٹھی ڈنڈے، دھونس دھاندلی، دھوکہ فریب سے کرنا صحیح نہیں ہے۔ مسجد ہو یا مندر، چرچ ہو یا گرودوارا، بودھ مٹھ ہو یا خانقاہ جب مسئلہ ملکیت کا اٹھے گا تو اس کے معقول اور منصفانہ حل کا واحد راستہ ثبوتِ ملکیت کی دستاویزات ہوں گی اور اس کو جانچنے پرکھنے کی متفقہ جگہ عدالت قرار پائے گی۔ اس لیے مسلمانوں کے مشترکہ پلیٹ فارم نے اس کو دیوانی عدالت کے حوالے کردیا اور سماج میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فریق مخالف کی تمام شرارتوں اور غیر قانونی حرکتوں کے باوجود صبر و ضبط، تحمل اور برد باری کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔ ابتدائی دور میںفریقِ ثانی کی اشتعال انگیز حرکتوں کے جواب میں مسلمانوں کے ایک گروپ نے سید شہاب الدین صاحب مرحوم کی قیادت میں سیکولر حلقوں کے ساتھ مل کر احتجاج یا اجتماعی مارچ کا پروگرام بنایا تو ملت کے قائدین اور جماعت اسلامی کے ذمے داروں نے پُر امن اور جمہوری آداب کا انھیں پابند رکھا۔ سید شہاب الدین مرحوم خود بھی سچے ڈیموکریٹ اور انصاف کے عَلَم بردار تھے۔ بہر حال سبھوں نے مل کر اس ایشو کو کبھی بھی فرقہ وار انہ رنگ میں ملوث ہونے نہیں دیا۔ اس طرح ہندستانی مسلمانوں کے سیاسی ایشوز میں یہ مسئلہ سر فہرست نہیں بنااور ہمیشہ ہمارے لیے یہ مسئلہ سیاسی سطح پرنن ایشو کی طرح رہا۔
اصلاً یہ ہندتوا سیاست کی چالاکی تھی جس نے اس مسئلے کو قومی کش مکش اور ملک کی تاریخ کو متھ کے سانچے میں ڈھال کر ہندو قومیت کے وقار سے جوڑ دیا، پھر لگاتار پروپیگنڈا اور مہماتی پروگراموں کے ذریعے اس قضیے کو ہندو نیشنلزم کی علامت کے طور پر قائم کردیا اوروشو ہندو پریشد کے قیام سنہ ۱۹۸۲ء کے بعد عوامی اور ملکی سیاست کا سب سے اہم ایشو بنادیا۔ اس کے بعد لگاتار ا س بہانے ہندو مسلم کش مکش کے ایشوز کو سیاسی چالاکی کے ساتھ نئے نئے پروگراموں کے ذریعے آگے بڑھایا۔ یہاںتک کہ رام جنم بھومی کی تحریک نے مذہبی عقیدت، تہذیبی رنگ اور قومی وقار کی سیاست سے جوڑ کر ہندو قوم کے ایک بڑے گروہ کے لیے اس ایشو کو زندگی اور موت، عزت اور ذلت، ماضی، حال اورمستقبل کا سب سے اہم ایشو بنادیا۔ یہ کام ہندتوا پالیٹکس کے لیڈران نے نہایت ہوشیاری سے انجام دیا۔ دوسری طرف ملک کے نادان سیکولر سیاست دانوں نے اس معاملے کو الیکشنی جوڑ توڑ کے زاویے سے برتا اور اپنے ووٹ بینک کے رجحانات اور موڈ کے مطابق مختلف اور متضاد رویے اختیار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اس مسئلے نے ہندتوا عزائم کے مطابق کروٹ لے لی۔
مسلمانوں نے بھی اس کو مسجد اور مندر کی تعمیر اور حقِ ملکیت کے جھگڑے کی حیثیت سے عدالتی کوشش تک اپنے کو محدود رکھا اورانتخابی سیاست کے معاملے میں وہ مسلم علاقائی جماعتوں یا جنرل سیکولر پارٹیوں کی انتخابی سرگرمیوں کو کافی سمجھ کر اپنی الیکشنی حکمت عملی وضع کرتے رہے۔ انھوںنے یہ غور نہیں کیا کہ یہ تحریک فقط مسجد کی جگہ ایک مندر بنانے کی جدو جہد نہیں ہے، بلکہ اس کے پس پردہ جو ڈسکورس کھڑا کردیا گیا ہے وہ آئیڈیا آف انڈیا کو بدل کر رکھ دے گا اور ہندستان کا دستور جس ایپِسٹیم (episteme) یعنی آزادی کے وقت کی مجموعی علمی و فکری صورت حال کے تناظر میں نشو ونما پایا ہے اور بالآخر جس ڈسکورس کا نتیجہ ہے اس کو یکسر تبدیل کر دے گا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کے معاملے میں سوچنے سمجھنے والے ہندو مسلمان، سکھ، عیسائی اور سماجی انصاف کی لڑائی لڑنے والے سوشلسٹو ں، کمینسٹوں اور عام سیکولر احباب سے غلطی ہوئی۔ حالاںکہ ایک موقع پر مندر نرمان کی راہ ہموار کرنے کے لیے سمجھوتے کا ایک فارمولہ لے کر جب پرم ہنس راج چندرداس کی قیادت میں وشو ہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل صاحب آر ایس ایس کے اس وقت کے چیف بالا صاحب دیورس سے ملے تھے تو انھوںنے اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہوا کہا تھاکہ تم کیا سمجھتے ہوکہ ہم اس ملک میں بس ایک رام مندربنانے کی تحریک چلارہے ہیں؟ہندستان میں ہزاروں رام مندر بنے ہوئے ہیں جن میں رام چندر جی کی پوجا ہورہی ہے۔ اصلاً اس ایشو کے پس پردہ ہندتوا سیاسی انقلاب لانا ہمارا مطمح نظر ہے۔ اس کے بعد تصفیہ اور سمجھوتے کا رخ ہی بدل گیا۔ یہ صحیح ہے کہ اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے داؤ پیچ کے طور پر اس مسئلے کو حل کرنے کی رسمی کوششیں بھی کی گئیں کہ سانپ بھی نہ مرے، لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یعنی مسلمان ثالثی کے تحت مصالحت پر آمادہ ہو جائیں تاکہ مندر وہیں بنے اور رام مندر کی تعمیر کو ہندتوا نیشنلزم کے متفقہ ایجنڈے کی حیثیت سے سیلیبریٹ کرنے میں اخلاقی پوزیشن بھی مضبوط رہے۔ گویا آم کے آم اور گٹھلی کے دام بھی ہندتوا کی ہی جھولی میں گریں۔ لیکن مسلم ملت کے ذمے داروں نے شروع سے جو موقف اختیار کیا تھا، اسی کو مناسب سمجھا اورتصفیہ و ثالثی کے مسئلے کو بڑی حکمت اور دانائی کے ساتھ انجام دیا اور کسی بے جا دباؤیا سادگی و معصومیت کے شکار نہیں ہوئے اورسپریم کورٹ کے فیصلے کی پابندی کا اعلان کرتے رہے۔
اب فیصلہ آجانے کے بعد ہم سب پراس کی پابندی لازمی ہے۔ کیوں کہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ شکوہ، گلہ، ماتم، مرثیہ، اظہارِ مایوسی، جھنجھلاہٹ، غصہ رنج و الم سب نادانی کی باتیں ہوں گی۔ جدید جمہوری نیشن اسٹیٹ میں مہذب گروہ کو حق ملکیت کے جھگڑے میں کرنا جو کچھ چاہیے تھا، ہم کر چکے۔ اس سلسلے میں ہم نے کسی لو مۃ لائم کی پروا نہیں کی۔ فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل بھی ہم کر چکے۔ اس اپیل کا مطلب ہی یہی تھا کہ ہم کورٹ ہی میں نہیں عدل و انصاف کی تاریخ میں بھی مہذب اور قانونی طریقے سے یہ درج کرانا چاہتے تھے کہ یہ فیصلہ دلائل، مباحث، اور پیش کردہ ثبوت کے منطقی نتائج کے مطابق نہیں آیا ہے اور مبنی بر انصاف نہیں ہے اور اس پر آنریبل ججز کو نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ایڈوکیٹ دھون جو بابری مسجد کی طرف سے اصل وکیل تھے اسی طرح بعض دیگر قانون دان برادران وطن کا بھی یہی مشورہ تھا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ تقاضا ئے عدل و انصاف ہے۔ اس وقت ہمارے کچھ احباب نظر ثانی کے حق میں نہیں تھے بلکہ سیاسی حالات اور دباؤ کی وجہ سے بے جا مصلحت پسندی کے شکار تھے۔ اس کو وہ فرقہ وار انہ ہم آہنگی کے مسئلے سے جوڑ کر دیکھ رہے تھے۔ لیکن یہ ہندتوا کا تخلیق کردہ فالس پرسپشن تھا جس کے شکار بڑے پیمانے پر سیدھے سادے ہندو اور سادہ لوح مسلمان ہوگئے تھے۔ لیکن مسلمانوں کی مشترکہ قیادت نے حصول انصاف کے سارے تقاضوں کو پورا کیا۔ یہ بڑی کامیابی اور جرأتِ ایمانی کی بات ہے۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ہماری اصلی اخلاقی فتح یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی ہے۔ ذرا غور کیجیے اگر سپریم کورٹ یہ فائنڈنگ دیتا کہ بابری مسجد کسی مندر کومنہدم کرکے بنائی گئی تھی تو ہم پر واجب ہوجاتا کہ ہم اپنے ہاتھوں سے مسجد کی باقیات کو منہدم کرکے اس کے اصلی ٹرسٹیز کے حوالے کردیتے کیوں کہ نا جائززمین پر مسجد تعمیر کرنا سچی خدا پرستی کی سراسر توہین ہے اور خانہ کعبہ کی طرف اس کا رخ مسلم ملت یعنی متولیانِ خانہ خدا کو زیب نہیں دیتاہے۔
ہندستان کی عدالت کے دیگر فیصلوں کی طرح اس فیصلے پر بھی ماہرینِ قانون بحث کریں گے بلکہ بحث ہونی بھی چاہیے۔ میڈیا اور عوام بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں، لیکن ظاہر ہے اس کی زبان قانونی ہوگی اور اسلوب میں احتیاط ہوگی۔ نیز اس ادارے کی حیثیت اور نزاکت کو ملحوظ رکھتے ہو ئے کی جائے گی۔ کچھ ہی دنوں پہلے سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے اس ادارے کے سلسلے میں باضابطہ پریس کانفرنس کے ذریعے جمہوری معاشرے کی ذمے داری یاد دلائی تھی اور اس میں ہونے والی بد عنوانیوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ لہٰذا اس پر تبصرہ اور تنقید کا حق ہر ماہرِ قانون اور قانونی شعور رکھنے والے کو ہے لیکن اس مقام پر مندر کی تعمیر کو اپنی شکست، کم زوری اور ناکامی سمجھ کر غم و غصے سے مغلوب ہوجانا اور مستقبل سے مایوس ہو کر ملک و ملت کی تعمیر سے شکستہ دل ہوجانا اصل ناکامی ہے۔ ذرا غور کیجیے ،مسجد کی حفاظت اور مسجد کی ملکیت کافیصلہ کس کی ذمے داری تھی؟ لا اینڈ آرڈر کی بحالی، قانون کی بالادستی اور اس کو توڑنے والے کو سزا دینا، ریاست و حکومت کی ذمے داری ہے۔ قانون کے مطابق فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے۔ اب اگر رات کے اندھیرے میں مورتی چوری چھپے رکھ دی جائے اور اس کو رام کے ’پرکٹ‘ ہونے سے تعبیر کرکے ایک مذہبی رنگ دے دیا جائے پھر حکومت اس پر ٹال مٹول کرتی رہے اور بالآخر تالا لگا دیا جائے تو کس اخلاقی اصول اور قانون کے تحت کوئی مہذب کمیونٹی اس مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لے کر حل کرسکتی ہے۔ اسی طرح نیچے کی عدالت تالا کھول دے پھر دن کے اجالے اور تمام وعدے وعید اور حلفی بیان کے بعد مسجد کے گنبد و دیوار توڑ دیے جائیں تو قصور اور گناہ اس بھیڑ کا ہے اور مجرمانہ غفلت حکومت کی ہے جو گونگی بہری بن کرسب دیکھتی رہی اور طفل تسلی دیتی رہی۔ اچھا ہوا سپریم کورٹ نے طے کردیا کہ مسجد میں مورتی رکھنا بھی غلط اور توڑنا بھی کریمنل ایکٹ ہے۔ اس لیے مسلم ملت کے اندر احساسِ شکست غلط ہے۔ دنیا میں انسانی گروہ کی اصل فتح اخلاقی ہے، سو بابری مسجد کیس میں اخلاقی فتح مسجد ٹرسٹ کو حاصل ہوئی۔ افسوس کہ مسلمانوں کی سیاسی تربیت قومی کش مکش کے پہلو سے ناقص ہے۔ اس لیے عام طورپر مسلمان بھی کبھی کبھی اس پہلو سے حساس ہوکر غلط رخ پر سوچتے، بولتے اور بالآخر احساسِ ناکامی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے حق ناکام نہیں ہوتا اور حق کا ساتھ دینے والے بھی کبھی ناکامی سے دو چار نہیں ہوتے۔ بابری مسجد کیس میں لا اینڈ آرڈر کی ذمے دار ی جس ایجنسی پر تھی وہ ناکام ہوئی ہے، یعنی ملک کی سرکار۔ فیصلے کی ذمے داری جس ادارے پر ہے، سوالیہ نشان ہمیشہ اس پر ہوگا، یعنی ملک کا عدالتی نظام۔ افسانے کو حقیقت، متھ کو تاریخ، مذہب کوپاور کے حصول کے لیے استعمال کرکے، ہندو مذہب کی روحانی قدروں کو جنھوں نے بٹّہ لگایا، وہ پارٹیاں ہندو مذہب کے ماننے والوں کے سامنے شرمسار ہوںگی، یعنی ہندتوا پالیٹکس کرنے والی پارٹیاں۔ اس لیے اان تمام حادثات اور واردات کو صحیح تناظر میں دیکھنا چاہیے اور صحیح نتائج اخذ کرنے چاہئیں۔ کلیم عاجزؔ نے شاعرانہ زبان میں پتے کی بات کہہ دی ہے ؎
اگر بڑھتا رہا یوں ہی یہ سودائے ستم کاری
تمھیں رسوا سرِ بازار ہو گے ہم نہیں ہوں گے
خواہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو دل سے نہ مانیں، ہمیں بہرحال تاریخ کے فیصلے کو مانتے ہوئے پوری ایمان داری سے اس تاریخی عمل کا جائزہ لینا چاہیے اور ایک موزوں لائحہ عمل وضع کرنا چاہیے۔ ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ وہ کون سے اسباب تھے جن کی وجہ سے عارضی طور پر سہی ہندتوا عناصر اپنے غلط موقف کے باوجود ہندستان کو غلط منزل پر پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور ہندستان کے انصاف پسند ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی ان کو روک نہ سکے۔ آج تاریخ کا اصل سوال یہی ہے کہ آئندہ ہم سب کو اپنے ملک کو غلط راہوں سے بچانے کے لیے کیا کرناچاہیے۔ میرا خیال ہے کہ پہلی بات متفقہ طور پر اس سلسلے میں طے کرلینی چاہیے کہ واہجر ھم ھجرا جمیلا۔ اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہوجاؤ۔ (سورہ: المزمل؍۱۰) کی روشنی میں رام مندر کی تعمیر سے مسلم معاشرہ اس طرح بے تعلق ہوجائے کہ رام مندر کی مخالفت اور موافقت سے اس کوکچھ سروکار نہ ہو۔
اس وقت سب دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے سنگین مسائل سے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے بھومی پوجن کے نام پر قومی وقار اور راشٹر بھکتی کے راگ الاپے جارہے ہیں، لیکن اب یہ مسئلہ نقلی رام بھکتوں اور اصلی رام بھکتوں کا ہے۔ اسی لیے اس کو ہندو معاشرے پر چھوڑ دینا چاہیے۔ جیسے جیسے ہندو سماج کاسائنٹیفک مزاج بنتا جائے گا ویسے ہی وہ ہندتوا پالیٹکس اور ہندو مذہب کی اصل قدروں کے فرق کو سمجھتے جائیں گے۔ اس وقت ان کو احساس ہوگا کہ اہنکار کی سیاست رام کی نہ تھی بلکہ راون کی تھی۔ ہماری ذمے داری یہ ہے کہ ہم ہر مسئلے میں سائنٹیفک لہجے میں بات کریں اور عقل سلیم کا استعمال کرنے کے آداب سکھائیں جو قرآن نے ہمیں سکھایا ہے۔ مسلمان اجتماعی ایشوز پر، ملکی مسائل پر ٹی وی کی بحثوں میں، اخباری بیانوں میں ذمے دارانہ رویہ اختیار کریں اور اس پہلو سے ہر سطح کی لیڈرشپ کی تربیت بھی ضروری ہے۔ قومی کش مکش کی زبان، اس کے لہجے، اس کے ایشوز و مسائل کو انسانی نقطہ نظر، داعیانہ اسلوب اور خیرخواہانہ انداز سے ایڈریس کرنے کا سلیقہ آنا چاہیے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہندتوا کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس نے اپنی آئیڈیالوجی کو ملک کے تاریخی تناظر اور عصری حالات کے مطابق ایک بیانیہ (narrative) عطا کیا اور اس کو پرو پیگنڈے کے ذریعے ایک عوامی رجحان میں بدل دیا۔ پھر ایک بڑی ٹیم اس زبان و بیان کی بنیاد پر تیار کردی اور نئے نئے ایشوز کے حوالے سے ان کو منظم، متحرک اور فعال رکھا۔ بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں جو مواقع ملتے رہے ان کا استعمال کیا نیز ملک میں قوت کے جو مراکز اور سماج میں جو اسپیس جب جب نظر آیا اس پر چانکیہ نیتی کے طرز پر قابض ہوتے چلے گئے۔ اپنے پھیلتے ہوئے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے معاون، ذیلی، نیم آزاد تنظیموں کا جال بچھا دیا۔ مختلف جماعتوں اور تنظیموں میں اپنے افراد کو داخل کرکے اس پراثر انداز ہونے کی کوشش کرتے رہے۔ حکومت اور برسر اقتدار طبقے کے ساتھ رابطے کی ہر شکل اور تعلقات کی ہر کڑی کو ہمیشہ بحال رکھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے نظریے کے لیے جیون دان کرنے والوں کی ایک بڑی ٹیم سنگھ چالک اور سیوک کے نام سے تیار کرکے ملک اور بیرون ملک کے طول وعرض میں مختلف پروگراموں کے ذریعے سرگرم عمل کردیا ؎
دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیحِ شیخ
بت کدے میں برہمن کی پختہ زُناری بھی دیکھ
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج تک ہم اپنی آئیڈیالوجی کو آزاد بھارت کے موجودہ تناظر میں قابلِ فہم بیانیے کا پیرا یہ اور لفظوں کا پیراہن عطا نہیں کرسکے۔ بابری مسجد اور رام جنم بھومی مسجد کی ملکیت کی سول سوٹ تو ہم نے پوری دیانت داری، شرافت اور حسنِ تدبیر کے ساتھ لڑی، لیکن جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ رام مندر کی لڑائی کے پیچھے جو بیانیہ اور اس کی روشنی میں ہندتوا نے عوامی سطح پر جو ڈسکورس کھڑا کردیاتھا اس کے مقابلے میں اپنی آئیڈیالوجی کو بیانیہ اور مضبوط عوامی ڈسکورس میں بدلنے میں سب کے ساتھ ہم بھی ناکام رہے۔ چناںچہ ہندتوا ڈسکورس کو کاؤنٹر کیا ہی نہیں گیا۔ الیکشنی سیاست میں بی جے پی کے امیدوار کو شکست دینے کی محدود کوشش کافی نہیں ہے، ہم سب کی اصل کوتاہی یہی تھی اور اس کا تدارک بھی یہی ہے کہ رام مندر اور شیلا نیاس پر واویلا کرنے اور جوش و جھنجھلاہٹ میں غیر ضروری بیان بازی کے بجائے آزادی، مساوات، احترام اور تکریمِ بنی آدم، جمہوری اقدار اورعدل اجتماعی کے بنیادی تصور کو سامنے رکھ کر ایک مضبوط ڈسکورس منظم طریقے سے مل جل کر ہم کھڑا کریں اور اس میں ان سب لوگوں کو شریک کریں جو موجودہ ہندتوا ڈسکورس کو ملک، ساؤتھ ایشیا، اور عالم انسانیت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس ڈسکورس کو مشترکہ فورم پر عام کرتے ہوئے ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ برادرانِ وطن کے سامنے مختلف انداز سے یہ حقیقت بھی پیش کرتے رہیں کہ یہ ساری قدریں ساری انسانیت کی مشترکہ قدریں ہیں، جنھیںقرآن اور محمد صلی اللہ وسلم نے توحید سے جوڑ کر ایک روحانی آب و تاب عطا کردی ہے۔ اس سلسلے میں مولانا ابوالکلام آزاد کی تحریروں کا مطالعہ بھی ضروری ہے کہ کس طرح وہ آزادی کی جدوجہدکے عام جلسوں میں آزادی کے حصول کو مسلمانوں کا دینی فریضہ بتاتے ہوئے قرآن حدیث اور تاریخ اسلام کا حوالہ دیتے تھے۔ یہ اسلوب آج ہمارے لیے بہت مناسب اور ریلیونٹ ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒکی ’سیاسی کش مکش‘، ’خطبہ مدراس‘ اور ’رسائل و مسائل‘ میں سیاسی سوالات کے جوابات سے بھی ہم آج اپنے لیے نئی راہیں نکال سکتے ہیں۔ بعض ہندو اسکالروں، سیاسی قائدین اور عام ریسرچ اسکالروں نے ہندتوا ڈسکورس پر تنقیدیں کی ہیں۔ ان کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت مسئلہ پند، نصیحت، تذکیر، تقریر، رسمی دعوت اور حکایت بیانی کا نہیں ہے، جس کے ہم عادی ہوگئے ہیں۔ اپنے عقیدے کو تاریخ کے بہاؤ کی سمت اور سماجی تبدیلی کے عمل پر اثر انداز ہونے کے لیے عصر سے مکالمہ کرنے کی استعداد پیدا کرنا بہت مشکل کام ہے جو ہمیں کرناچاہیے اور یہ بالکل نئی چیز ہے۔ جس کا سبق مولانا مودودی نے اپنے وقت میں ملت کو سکھایا اور ’خطبہ مدراس‘ کے ذریعے اس کو آگے بڑھانے کی تدبیر بھی بتائی تھی۔ آج ضرورت ہے کہ ملت کے اربابِ حل وعقد اس کو نئے تناظر میں اجتہادی بصیرت سے تازہ اور موزوں تر کرکے ایک نئے لائحۂ عمل کی شکل دیں۔
آخر میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس وقت ہم جہاں پر لاکر کھڑے کردیے گئے ہیں وہاں سے آگے جانے کے لیے جمہوری سیاست میں نمایاں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے مسلمانوں کی موجودہ سیاسی آواز، عام اسلوبِ اظہار، پرانے پلیٹ فارم، افراد، پارٹی اور انجمنیں شاید متبادل اور بہتر کردار ادا نہ کرسکیں۔ اس سے میرا مقصد کسی شخصیت یا ادارے کی کردار کشی نہیں ہے، نہ کسی کے اخلاص پر سوال کھڑا کرنا ہے بلکہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں موثر اقدام کرنا ہے۔ ابھی لگاتار اور بلائیں آنے والی ہیں۔ ۱۵؍اگست کو صدر جمہوریہ کی تقریر میں رام مندر کے شیلانیاس کا ذکر جس انداز سے ہوا ہے اس کا سیاسی مطلب بہت دور رس ہے۔ اس کے ظاہر ی اور باطنی، سیاسی اور کلچرل مفہوم کو سمجھنا چاہیے۔ پرائم منسٹر کا بنفس نفیس پورے سج دھج کر شریک ہونا اور صدر جمہوریہ کا اعلانیہ معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اللہ خیر کرے۔ اکبر الٰہ آبادی کا ایک مصرعہ یاد آرہا ہے ؏
بنے رہو گے تم اس ملک میں میاں کب تک
اب سیاسی میدان میں سماجی سیاست، الیکشنی سیاست، علاقائی انجنیرنگ، مقامی کیمسٹری، مختلف گروہوں کے عزائم، ایڈو کیسی گروپ، پالیٹکل لابنگ، تھنک ٹینک، میڈیا کی قوت، مختلف سیاسی حلقوں سے کار آمد رابطے سب کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے اور بہ یک وقت سارے محاذ پر پیش رفت کی ضرورت ہے۔ ہمارا کام باہمی مشورے اور اخلاص کے ساتھ صحیح سمت میں توکل علی اللہ کے سہارے سر گرمِ عمل رہنا ہے۔ پھر اللہ کی ذات سے پُر امید رہیے اور دیکھیے:
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
مشمولہ: شمارہ اگست 2020