کئی زمانوں کا ایک انساں
علامہ شبلی نعمانی(1857-1914) انیسویں صدی کے ہندوستان کاایک ایسانام ہے،جس کی تاریخی علمیت،فکری بلندقامتی،ادبی و تنقیدی بصیرت، علمی برتری،تہذیبی آگاہی اور مطالعاتِ اقوام ومذاہب کے باب میںامتیازی شناخت تب سے لے کراب تک قائم ہے،اُنھوںنے بطورِخاص اردوکتب خانے کو قیمتی تصنیفات سے مالامال کیا، شبلی نعمانی اپنی بے پناہ خدمات اور حصولیابیوںکی بناپرتنِ تنہاایک عہد ہیں۔قدرت نے اُنھیں ایسے اساتذہ،پھررفقاے کاراورماحول سے نوازا، جنھوں نے مل کر ان کے علمی وفکری ذوق کی آبیاری کی اورعنفوانِ شباب سے ہی ان کی تصنیفی صلاحیت،فکری تعمق اور گیرائی کے نمونے سامنے آنے لگے۔
یوںتوشبلی نے علم و ادب ،تاریخ وتہذیب اور فکروفلسفہ کے بیشتر موضوعات کواپنی قلم را نی کاموضوع بنایااوران میں سے ہرایک کاحق اداکیا؛لیکن خاص طورسے تاریخ نگاری اورمؤرخانہ تحقیق و تدقیق کی جونیوشبلی نے اٹھائی،اس میں وہ یکتاومنفردتھے،اُنھوںنے اردوزبان میں تاریخ نگاری کی گویا باقاعدہ اساس رکھی،بقول مہدی افادی شبلی اردوزبان میں’’تاریخ کے معلمِ اول‘‘ہیں ۔ پھرچوںکہ ان کامطالعہ وسیع اورعلمی جغرافیہ طویل و عریض تھا، سو انھوںنے اپنی دقتِ نظری ودیدہ وری سے تاریخ نگاری کے ایسے اصول مقرر کیے،جوکم ازکم اردوزبان میں ان کے دورمیں بالکل نایاب تھے، انھوںنے اپنی تصنیفات میں تحقیق و تنقیدِمعلومات کے جدید ترضابطوں کو برتا اور اس وجہ سے بھی ان کی تحریروںکوغیر معمولی مقبولیت وشہرت حاصل ہوئی،وہ اپنی تحریروںمیں صرف معلومات کی جگل بندی پر انحصارنہیں کرتے تھے؛بلکہ ان کی چھان پھٹک کرکے کھرے اور کھوٹے میں تمیزبھی کرتے تھے، شبلی نے اردو زبان کوتاریخ نگاری کاسلیقہ دیااورتحقیق و تنقیدکی بنیادیں فراہم کیں۔دوسری جانب انھوں نے پوری ہنرمندی اور قوتِ استدلال کے ساتھ اسلامی تاریخ کی خصوصیات و اوصاف پرقلم اٹھایا اور مستشرقین کے اتہامات کامنہ توڑ جواب دیا،اسلام کی علمی بنیادوں، مآخد و منابع، پس منظروپیش منظر کی ایسی تصویرکشی کی کہ معاصردنیادنگ رہ گئی!
شبلی کی تاریخ نگاری -پس منظر
شبلی نے اپنی عملی زندگی کے آغازمیںہی اردوزبان میں اسلامی تاریخ اور تہذیبی و سیاسی سرمایے کی حد درجہ قلت کوشدت سے محسوس کیااورتبھی ان کے دل میں خیال میں آیاکہ اسلامی تاریخ کے تسلسل کوعلمی اعتبار سے بھی دنیاکے سامنے پیش کیاجائے اوراُن شخصیات وافرادکے سوانح لکھے جائیں، جنھوں نے فی الجملہ مسلمانوںکی اجتماعی زندگی پرکسی بھی طرح کااثرڈالاہے۔یہ خیال جب ان کے دل میں آیا تب وہ جوانِ رعناتھے،جذبۂ عمل تاب ناک اورحوصلۂ کار قوی ترتھا اورپھربہت جلد اُنھوں نے اپنے منصوبے پر عمل بھی کرنا شروع کردیا،جس کے نتیجے میں ان کے ذریعے ’’المامون‘‘ (1888ء)،’’سیرۃ النعمان‘‘ (1890ء) ، ’’الفاروق‘‘ (1899ء) ’’الغزالی‘‘ (1901ء) ’’سوانح مولانا روم‘‘ (1906ء) ’ ’سیرۃ النبیﷺ‘‘ (ابتدا:1912ء) جیسی عظیم الشان تصنیفات اوران کے علاوہ اورنگ زیب عالمگیر، مکتبہ اسکندریہ،ذمیوںکے حقوق ، جزیہ، عہدِ اسلامی کے تعلیمی نظام اوردیگر بیسیوں موضوعات پرتاریخی وتحقیقی مقالات اوررسائل سے اردو دنیا بہرہ ورہوئی۔
انفرادیت
اردومیں تاریخ نویسی وسوانح نگاری کے منفردطرزکی ایجادکے حوالے سے اردوکے اکابراہلِ تنقیدو بصیرت نے ان کے تفوق کوتسلیم کیاہے ،آل احمدسرور ’’مولانا شبلی کامرتبہ اردوادب میں‘‘(طبع اول : 1945)کے مقدمے میں لکھتے ہیں:’’انھوںنے اردومیں تاریخ کاذوق پیداکیا،خودبڑی اچھی سوانح عمریاں اور تاریخیںلکھیں اور تحقیق و تدقیق،واقعات کی چھان بین اور مآخذکی تلاش اور تاریخ میںایک صاف اور واضح نقطۂ نظر؛ان سب کی اہمیت دکھائی اورجتائی‘‘۔شیخ محمداکرام تصانیفِ شبلی کو’’اردوادب کازیور‘‘قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:’’مولانانے ہندوستانی مسلمانوںکوصحیح طورپراسلامی تاریخ سے روشناس کرایا اور یہ الفاروق،المامون،الغزالی،سیرۃ النعمان ہی کافیض ہے کہ ہندوستان کے خواندہ مسلمانوںکو ان عظیم الشان شخصیتوںسے خاصی واقفیت ہے‘‘۔(موجِ کوثر ،ص: 226، ط: ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ لاہور،1979ء) مہدی افادی کایہ تبصرہ بھی معنی خیزہے کہ:’’عام مصنفین کے خلاف، جوچندکتابوںسے موٹے موٹے واقعات لے کرایک تاریخ یاسوانح عمری مرتب کردیاکرتے ہیں ، مولاناتمام ذخیرۂ کتب، جو دست رس میں ہوتاتھا،نہایت غورواحتیاط سے مطالعہ کرتے تھے اور اکثرجزئیات ایسی کتابوںسے اور کتاب کے ایسے گنجلک مقامات سے تلاش کرلیتے تھے، جن پرکسی کی نظرنہیںپڑتی تھی،پھران جزئیات کوایسی خوب صورتی سے ترتیب دیتے تھے کہ جس سے بہتر ترتیب نہیں ہوسکتی،اس کے ساتھ مولاناجوکچھ لکھتے تھے،وہ نہایت حزم و احتیاط سے اورانتہائی تحقیق و تنقید اور اصولِ فلسفۂ تاریخ کے مطابق‘‘۔(تذکرہ شمس العلمامولاناشبلی،ص:48)
سحر انگیز اسلوب
ایک اورچیز،جوخاص طورسے ذکرکیے جانے کے قابل ہے کہ شبلی کی تصنیفات کازمانہ انیسویں صدی کانصفِ آخرہے،جب اردوزبان معانی واسالیب اور طرزہاے تعبیر کے اعتبار سے اُس قدرثروت مندنہیں ہوئی تھی،جتنی کہ آنے والی صدیوںمیں ہوئی؛لیکن اس کے باوجودشبلی کی تصنیفات کامطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ذرابھی احساس نہیں ہوتاکہ ہم1900ء سے پہلے یابیسویںصدی کی پہلی دہائی کی اردوکتاب کامطالعہ کررہے ہیں،اس کی ایک وجہ توشبلی کی علمی و ادبی صلاحیت کی بے کرانی ہے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تحریرکوطباعت کے اسٹیج تک پہنچنے سے پہلے کئی بارتصحیح و تنقیدکے مرحلے سے گزارتے تھے،وہ صرف مضمون اور موادومعلومات کی عمدگی و استنادپرہی توجہ نہ دیتے؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کازورلفظوںکی تراش خراش،اسلوبِ بیان کوخوب سے خوب تر بنانے پر بھی ہوتاتھا؛یہی وجہ ہے کہ ان کے بغیراردوادب واسلوبِ تحریرکے’’ عناصرِخمسہ‘‘ کی تکمیل نہیں ہوتی۔ سرسیداحمد خان نے ان کے خوب صورت طرزِ نگارش پرتبصرہ کرتے ہوئے ’’المامون‘‘کے دیباچے میں لکھا:’’یہ کتاب اردوزبان میں لکھی گئی ہے اورایسی صاف وشستہ اور برجستہ عبارت ہے کہ دلی والوںکوبھی اس پر رشک آتاہوگا‘‘۔’’المامون‘‘میں اسلوبِ شبلی کے تعلق سے سیدصباح الدین عبدالرحمن کایہ تبصرہ بھی خاصا حقیقت افروز ہے کہ:’’مولانانے یہ کتاب اس وقت لکھی،جب وہ تیس برس کے جوان تھے ، جوانی تمام رعنائیوںکواپنی آغوش میں لینے کی خواہاں ہوتی ہے۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2017