عصر حاضر کا المیہ یہ ہے کہ خدا بیزار جمہوریت کو بے حد خوشنما بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اور ان ممالک کو مثالی قرار دیا جاتا ہے جہاں اس طرح کی جمہوریت نافذ ہے۔ جمہوریت کے بلند بانگ دعووں والے ان ممالک کے زمینی حقائق سے جائزہ لیا جائے جہاں خدا بیزار معاشرے میں یہ خدا بیزار نظام پھل پھول رہا ہے، تو ساری قلعی کھل جاتی ہے۔
مادہ پرست جمہوریت میں مساوات کا خوب چرچا ہوتا ہے کیونکہ راجہ اور رنک سب کا ایک ووٹ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ منتخب ہونے سے پہلے تک سارے لوگ (دولت و ثروت یا رنگ و نسل کے سبب ہونے والی تفریق وامتیاز کے باوجود مساوی کہلاتے ہیں کیونکہ سبھی رنک ہوتے ہیں۔ انتخاب کے بعد مگر جب ان میں سے کوئی راجہ بن جاتا ہے تو وہ رنک کے برابر نہیں رہتا بلکہ حکمراں کو بے شمار آئینی تحفظات حاصل ہوجاتے جو اسے عام آدمی سے ممیز وممتاز کردیتے ہیں۔
مادہ پرست جمہوریت کا ایک اور دعویٰ یہ ہے حکمراں سمیت سارے لوگوں پرآئین کا یکساں اطلاق ہوتا ہے۔ عوام کی حکمرانی کے آگے سربراہِ مملکت جوابدہ ہوتا ہے۔ ان حوالوں سے دنیا کی عظیم ترین جمہوریت ریاستہاے متحدہ امریکہ کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ ہندوستان کی وسیع ترین جمہوریت کو بھی بسا اوقات ناقص کہہ کر مسترد کردیا جاتا ہے۔ امریکی آئین کے مطابق صدر کو عہدے سے اس صورت میں ہٹایا جاسکتا ہے کہ جب اسے بغاوت، رشوت ستانی، کسی بڑے جرم یا بدعملی کی وجہ سے سزا دینا درکار ہو۔ اس کارروائی کو مواخذہ کہتے ہیں۔ عام باشندوں کی مانند صدر مملکت پر براہِ راست عدالتی کارروائی ممکن نہیں ہے۔ اس طرح مذکورہ سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے کے باوجود حکمراں کو یک گونہ آئینی برتری حاصل ہوجاتی ہے۔
مواخذہ کا طریقۂ کار یہ ہے کہ صدر کے خلاف الزامات پہلے کانگریس (ایوانِ نمائندگان) میں لائےجائیں جو آگے چل کر اس کے خلاف مقدمے کی بنیاد بن سکیں۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اگر کوئی صدر مملکت بغاوت اور رشوت ستانی جیسے بڑے جرائم کا ارتکاب کر بیٹھے تب بھی اس کوعدالت میں لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ مواخذہ کے پیچیدہ نظام میں سزا دینا تو دور، تحقیق کرنے کے لیے بھی ایوان نمائندگان کی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ یعنی اگرصدر کی جماعت ایوان کے اندر اقلیت میں نہ ہو تو وہ صاف بچ نکلتا ہے اور اگر نہ نکل سکا تب بھی معاملہ عدالت کے بجائے سینیٹ میں چلاجاتا ہے۔ سینیٹ (ایوان بالا) کے اندر اگر صدر کی جماعت اکثریت میں ہو تب بھی اس کا بال بیکا نہیں ہوتا۔ اس مرحلے میں صدر کو برخواست کرنے کے لیےمعمولی اکثریت نہیں بلکہ دو تہائی ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
موجودہ جمہوریت کی اعلیٰ ترین شکل میں حکمراں اور رعایا کے درمیان مساوات کا یہ پیمانہ ریاستہاے متحدہ امریکہ میں کبھی چھلک نہیں سکا۔ اس جمہوری تماشے کی بے فائدہ دھمکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو پچھلے سال بھی ملی تھی اور اس سال پھر مل گئی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دوسو پینتالیس سال کی تاریخ میں صرف دو امریکی صدور کا مواخذہ ہوسکا۔ سنہ 1865 میں 17ویں صدر اینڈریو جانسن نے چار سال تک حکومت کر نے کے بعد اپنے سے اختلاف کرنے والے وزیرِ جنگ ایڈوِن سینٹن کو من مانے طریقہ پر ہٹا دیا۔ اس لیے مواخذہ کی نوبت آگئی۔ اینڈریو جانسن نے مطلق العنانیت کا مظاہرہ کیا تھا۔ صدر ٹرمپ بھی اسی طرح اپنے سے اختلافات کرنے والے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو برخواست کر چکے ہیں۔ اینڈریو جانسن اس لیے بال بال بچ گئے کیونکہ ایوان میں ان کی جماعت ریپبلکن کی تعداد دو تہائی سے ایک ووٹ زیادہ تھی۔
جانسن کے ایک سو پچیس سال بعد سنہ ۱۹۹۸ میں ۴۲ ویں صدر بل کلنٹن کا مواخذہ ہوا۔ اس بار رعونت وانانیت کا نہیں بلکہ ایوانِ صدارت کی ملازمہ مونیکا لیونسکی کے ساتھ اخلاق سوز تعلقات کا معاملہ تھا۔ امریکہ کا نام نہاد روشن خیال معاشرہ اس طرح کے ناجائز تعلقات کو معیوب نہیں سمجھتا اس لیے کلنٹن کی بد کرداری کو جمہوریت کی دیوی نے بڑے آرام سے نظر انداز کردیا۔ کلنٹن پر اس بابت جھوٹ بولنے اور مبینہ طور پر مونیکا کو بھی جھوٹ بولنے پر مجبور کرنے کے الزامات لگے اور مواخذہ کا سامنا کرنا پڑا۔ ایوان نمائندگان نے ان پر انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کی بابت رائے لی تو 228 نے اس الزام کو درست مانا مگر 206 نےمواخذے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ دوسرا الزام مونیکا کی بابت جھوٹ بولنے کا تھا اس پر کلنٹن کی حمایت گھٹ کر 221 پر آگئی اور مخالفت میں 212 ارکان تھے۔ اس طرح مغرب کے مساواتِ مردو زن کی قلعی بھی کھل گئی۔
امریکی معاشرے کے اخلاقی انحطاط کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب ساری دنیا کلنٹن کی فحش حرکات سے شرمسار تھی صدر کی حیثیت سے وہ 72 فیصد لوگوں میں مقبول تھے۔ ایوان نمائندگان یعنی کانگریس میں تو کلنٹن کی جان خلاصی نہیں ہوئی تاہم جب 1999 میں یہ معاملہ سینیٹ کے اندر پہنچا تو حکم نامہ کی منظوری کے لیے دو تہائی حمایت حاصل نہیں کرسکا۔ ان کی اہلیہ ہیلری تک نے اپنے شوہر نامدار کی بھرپور حمایت کی اور آگے چل کر صدر کا انتخاب بھی لڑا۔ مغرب میں ناموس نسواں کے نعرے کی یہ حقیقت ہے۔ اس کے باوجود اسلامی شریعت پر خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ واٹر گیٹ معاملے میں صدر رچرڈ نکسن مواخذے کا پہلا شکار ہوسکتے تھے لیکن جب انہوں نے خطرہ محسوس کرلیا تو وہ استعفیٰ دے کر کنارہ کش ہوگئے۔ یہی ان کی سب سے بڑی سزا تھی۔ اس طرح رچرڈ نکسن بھی اپنے جرائم کی قرار واقعی سزا سے بچ ہی گئے۔
امریکی صدور اپنی نا اہلی کے باعث جب غیر مقبول ہوجاتے ہیں اور دوبارہ انتخاب سے قبل انہیں مشکل پیش آتی ہیں تو وہ کسی نہ کسی بہانے سے مشرق وسطیٰ کا رخ کرتے ہیں۔ اپنے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے جارج ڈبلیو بش کو صدام حسین، براک اوبامہ کو اسامہ بن لادن اور ٹرمپ کو ابوبکر بغدادی کی ہلاکت کا شور مچانا پڑتا ہے۔ صدام حسین کو اقتدار سے بے دخل کر کے جارج ڈبلیو بش نے دوبارہ انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی۔ براک اوبامہ نے پہلے سے ہلاک شدہ اسامہ بن لادن کی موت کا ناٹک رچایا تھا اور ٹرمپ نہ جانے کتنی بار ہلاک ہونے والے بغدادی کی موت کے بہانے اپنی مقبولیت بڑھانے کی سعی کے ساتھ ساتھ اپنے جرائم کی پردہ پوشی کررہے ہیں۔ ٹرمپ نے ماہ جولائی کے اواخر میں یوکرین کے صدر ولا دیمیر زیلنسکی سے ٹیلیفون پر مطالبہ کیا تھا کہ صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن کے بیٹے ہنٹر کی بابت اطلاعات فراہم کریں تاکہ ان کی شبیہ بگاڑی جاسکے۔ ٹرمپ نے اپنے یوکرینی ہم منصب کو دھمکی دی تھی کہ اگر ان کی حکم عدولی کی گئی تو دو سو پچاس ملین ڈالر کی امریکی مدد روک دی جائے گی۔
بدعنوانی کے اس معاملے کو یوکرین گیٹ کا نام دیا گیا اور اس کو ریپبلکن رہ نما جان میکنن نے واٹر گیٹ کے ہم پلہ قرار دیا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے اس پر ٹرمپ کے مواخذے کی تحقیقات کا عمل شروع کردیا۔ امریکی ایوان نمائندگان سے جب صدر کے مواخذے پر رائے لی گئی تو دو سو بتیس اراکین نے مواخذے کی قرارداد کے حمایت میں اور ایک سو چھیانوے نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ عوام کے نمائندگان کی اکثریت نے جب یہ فیصلہ کردیا تو جمہوریت کا تقاضا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس میں تعاون کرے لیکن اس کا رویہ بالکل برعکس ہے۔ اپنے صدر کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر تمام جمہوری اقدار کو پامال کرتے ہوئے یوکرین گیٹ میں بنیادی کردارادا کرنے والے امریکہ کے وزیر توانائی نے مواخذے کے تعلق سے تحقیقات میں گواہی دینے سے انکار کردیا ہے۔
موجودہ جمہوریت میں یہ ہے احتساب و جائزہ یا مواخذہ کی وقعت واہمیت۔ جو حکمراں عوام کے نمائندوں کے آگے جوابدہ نہیں ہے وہ بھلا عام باشندوں کے سامنے کیا ہوگا؟ اس پرمغرب کے دانشور اُس خلافت راشدہ کو چیلنج کرتے ہیں جس میں خلیفۂ وقت بلا تردد عدالت میں حاضر ہوجاتا تھا اور اگر اس کے خلاف بھی فیصلہ سنا دیا جائے تو اسے بسرو چشم قبول کرلیتا تھا۔ ایوان نمائندگان کے اس فیصلے نے امریکی صدر کا دماغی توازن بگاڑ دیا اوراس طرح جمہوری اقدار و معیار کی قلعی بھی کھل گئی۔ وطن عزیز کے سڑک چھاپ سیاستدانوں کو بھی امریکی صدر نے مات دے دی۔ صدر ٹرمپ نےمیسی سیپی کے انتخابی خطاب میں مواخذے کی تحریک کو ڈیموکریٹ سیاستدانوں کا غلط اقدام اور ان کا ذہنی تشدد قرار دینے کے بعد فرمایا ڈیموکریٹس پوری طرح پاگل ہوچکے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے ڈیموکریٹ حریف جو بائیڈن کو خواب آلود اور ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کو پاگل قرار دے دیا۔
سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر ایک ماہ قبل ٹرمپ اپنے خلاف مواخذے کی کارروائی کو بغاوت قرار دے چکے ہیں۔ اس وقت ٹرمپ نے نینسی پلوسی اور جان بل ایڈورڈ کے بارے میں لکھا تھا کہ ان لوگوں نےکچھ نہیں کیا، مگر ہم جو کر رہے ہیں وہ امریکا کو عظیم بنا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے جان بل ایڈورڈ کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا تھا زیادہ بے وقوف نہ بنو۔ ٹرمپ نے اس مواخذے کے جو مقاصد بیان کیے ان کو دیکھ کر امریکیوں نے اپنا سر پیٹ لیا ہوگا۔ ٹرمپ کے مطابق یہ مواخذہ عوام کا ووٹ، ان کی آزادی، دوسری ترمیم، مذہب، فوج، سرحد پر دیوار، اللہ کی طرف سے امریکی عوام کو دیے گئے حقوق کی طاقت سے محروم کردینے کے مترادف ہے۔ دنیا کے کسی بھی سفاک آمر کے اقتدار کو جب خطرہ لاحق ہوتا ہے تو کیا یہی زبان استعمال نہیں کرتا ہے؟ ایسے میں عملاً جمہوریت اور آمریت کے درمیان کیا فرق رہ جاتا ہے؟ ویسے ٹرمپ تو پچھلے سال یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ان کے مواخذے سے ملک دیوالیہ ہوجائے گا اور لوگ غریب ہوجائیں گے۔
جمہوریت کے بارے ایک بات بہت زور وشور کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ یہ اقتدار کی منتقلی کا نہایت مہذب طریقہ ہے اور اس سے ملک میں سیاسی استحکام حاصل ہوتا ہے۔ جہاں تک جمہوریت میں اقتدار کی منتقلی کے پرامن طریقوں کا تعلق ہے تو تاریخ گواہ ہے تقریباً ہر امریکی انتخاب سے قبل دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں دہشت گردی رونما کی جاتی ہے تاکہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ عام طور پر اس جبروظلم کا نزلہ مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں پر اترتا ہے لیکن اسرائیل کے یہ سب کرنے کے لیے کہیں جانا بھی نہیں پڑتا۔ ہر چار سال میں انتخاب سے پہلے یہودی عوام کو خوفزدہ کرکے ان کا ووٹ ہتھیا لینے کی خاطر غزہ اور شرق اردن پر بمباری کا آغاز ہوجاتا ہے اور حکومت سازی کے بعد حالات معمول پر آجاتے ہیں۔
پرامن انتقالِ اقتدار کے علاوہ سیاسی استحکام کی تو اسرائیل میں جنازہ اٹھ گیا ہے۔ اس سال دو مرتبہ اسرائیل کے اندر انتخاب ہوئے۔ اپریل۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخاب میں وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ کو ایوان پارلیمان کی 120 نشستوں میں سے35 پر جیت حاصل ہوئی۔ وہ پھر سے دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کے سہارے اکثریت ثابت کردیتے تو پانچویں مرتبہ وزیراعظم بن کر تاریخ رقم کردیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ڈیڑھ ماہ کی جوڑ توڑ کی ناکامی کے بعد ستمبرکے اندر دوبارہ انتخابات کا اعلان کرنا پڑا۔ یاہو کو اگر بدعنوانی کے سبب جیل جانے کا خوف نہ ہوتا اور وہ پارلیمان تحلیل نہ کرتے تو حزب اختلاف کو حکومت سازی کا موقع ملتا۔ دنیا بھر کے وسائل ضائع نہ ہوتے مگر اقتدار کی ہوس اور بیجا خود اعتمادی نے یاہو کو ذاتی طور پر بدنام بلکہ ملک کی ساکھ بھی ملیا میٹ کردی۔
دوسرے انتخاب میں کامیابی کے لیے۶ ماہ تک تمام سیاسی جماعتوں نے بشمول لیکوڈ نے نہایت شرمناک اور نفرت انگیز انتخابی مہم چلائی گئی۔ 22 ویں کنیسٹ (پارلیمانی) انتخابات میں نیتن یاہو کی جماعت لیکود اور سابق آرمی چیف بینی گانتز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کو کم وبیش برابر نشستیں حاصل ہوئیں۔ نتین یاہو کی سربراہی والے اتحاد کو 120 میں سے 55 نشستیں اور حزب اختلاف کے اتحاد کو 56 نشستیں حاصل ہوئیں جبکہ لیکوڈ کے صرف 31 اور حریف نیلی اور سفید پارٹی کو ۳۳ نشستوں پر کامیابی ملی۔ اس اخلاقی شکست کے باوجود یاہو نے ایک ماہ تک قومی حکومت تشکیل کرکے پھر سے وزیراعظم بننے کی بھرپور کوشش کی اور بالآخر ہمت ہار کر بیٹھ گئے۔ اب اگر گینتز بھی حکومت سازی میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر سے تیسرا الیکشن ہوگا۔ حالیہ جائزوں کے مطابق آئندہ الیکشن میں بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی اس لیے عوام اپنا موقف تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں مارچ کے اندر بجٹ کا موقع آجائے گا اور کارگزار سرکار کو اس کا اختیار نہیں ہے اس لیے پورا ملک ایک بہت بڑے بحران کا شکار ہوجائے گا۔
مشرق وسطیٰ کی اعلیٰ ترین کہی جانے والی جمہوریت کا یہ حال ہے تو خستہ حال جمہوریتوں کے بارے میں قیاس آرائی مشکل نہیں ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جبکہ ساری عرب حکومتوں کے سامنے اسرائیل کو ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ حال کے اندر بحرین میں مختلف ممالک کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کی سعی بھی کی گئی تھی لیکن قدرت نےاسرائیل کے جمہوری نظام کی بدولت اسے زبردست خلفشار کا شکار کردیا۔
خدا بیزاری سے آلودہ مگر خوش نما ناموں سے آراستہ نظامہاے باطل کو اپنے آپ پر مسلط کرکے لوگ ٹھوکر پر ٹھوکر کھاتے ہیں مگر عبرت پکڑ کر متبادل پر غور نہیں کرتے اور راہ راست پر نہیں آتے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب اللہ کی کتاب میں یہ ہے کہ’’خدا کی قسم اے محمدؐ، تم سے پہلے بھی بہت سی قوموں میں ہم رسول بھیج چکے ہیں مگر شیطان نے ان کے برے کرتوت ان کے لیے خوشنما بنا کر دکھائے۔ وہی شیطان آج ان لوگوں کا بھی سرپرست بنا ہوا ہے اور یہ دردناک سزا کے مستحق ہیں (۱۶:۶۳)۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2019