رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبّہ کاایک زرّیں اور قابلِ تقلیدپہلو یہ ہے کہ وہ زہد و قناعت کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ آپﷺنے اپنے ارشاداتِ عالیہ کے ذریعے دنیا کی بے ثباتی واضح کی، آخرت طلبی کاجذبہ ابھارا اور مال و دولت سے بے نیازی، اسبابِ دنیا سے بے پروائی، فقرو فاقہ اور زہد و قناعت کاعملی نمونہ پیش کیا۔ آپﷺکی زندگی میں بارہا ایسے مواقع آئے جب آپ کی ملکیت میں خاصا مال آگیا، لیکن آپ نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں دیر نہیں کی۔کبھی اگرنماز میں خیال آگیاکہ گھر میں تھوڑا مال بچاہوا رکھا ہے، تو نماز سے فارغ ہوتے ہی گھر میں گئے اور اسے صدقہ کرنے کے بعد ہی اطمینان کا سانس لیا۔کبھی مال تقسیم کرتے کرتے سب خرچ کردیا، پھر گھر والوں نے یاد دلایاکہ شام کے کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے تو فرمایاکہ پہلے کیوں نہیں یاد دلایا۔ ازواج مطہرات کی زندگیاں بھی آپﷺکے سانچے میں ڈھل گئی تھیں ﴿الاحزاب: ۲۸۔۲۹﴾ چنانچہ ان کے گھروں میں بسااوقات ایک ایک ماہ تک چولھا نہیں جلتاتھا اور کھجوروں وغیرہ پر گزراوقات ہوتی تھی۔ اس موضوع پر کتبِ حدیث میں وافر ذخیرہ موجود ہے۔ یہاں صرف ایک روایت نقل کی جاتی ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے ، فرماتی ہیں:
تُوُفِیّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَدِرْعُہ’ مَرْھُوْنَۃٌ عِنْدَ یَھُودِیٍ بِثکراتِیْنَ صَاعاً مِنْ شَعِیْرٍ ﴿بخاری، کتاب الجھاد، ۲۹۱۶/ اور دیگر مقامات﴾
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی اس وقت آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جَو کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی‘‘
اس مضمون کی روایت حضرت عائشہؓ کے علاوہ آپﷺکے عم زاد حضرت ابن عباسؓ آپﷺکے خادم ِخاص حضرت انس بن مالکؓ اور حضرت اسمائ بنت یزیدؓ سے بھی مروی ہے۔ اور اس کی تخریج امام بخاریؒ کے علاوہ امام مسلم ﴿۱۶۰۳﴾، امام ترمذی ﴿۱۲۱۴،۱۲۱۵﴾، امام نسائی ﴿۴۶۱۰، ۴۶۵۱﴾، امام ابن ماجہ ﴿۲۴۳۶،۲۴۳۷، ۲۴۳۸،۲۳۹﴾، امام احمد بن حنبل ﴿۱/۲۳۶،۳۰۰،۳۰۱، ۳۶۱، ۳/۱۰۲، ۲۰۸، ۲۳۸، ۶/۴۲، ۱۶۰، ۲۳۰، ۲۳۷، ۴۵۳، ۴۵۷﴾ اور امام دارمی ﴿۲۵۸۲﴾ نے بھی اپنی کتابوں میں کی ہے۔
تمام روایات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کی غذائی ضروریات کے لیے ایک موقعے پر ایک یہودی سے کچھ غلّہ ایک متعین مدّت کے لیے ادھار خریداتھا اور بطور رہن لوہے کی ایک زرہ اس کے پاس رکھوادی تھی۔ صحیح ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ ادھار کا یہ معاملہ ایک سال کے لیے ہواتھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حیاتِ نبوی کے آخری ایام ہی کا تھا۔ بخاری ﴿۲۰۶۹﴾ اور نسائی ﴿۴۶۱۰﴾ کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ یہ یہودی مدینہ کا تھا۔ یہ غلّہ جَو تھا اور اس کی مقدار تیس ﴿۳۰﴾صاع اور بعض روایات کے مطابق بیس ﴿۲۰﴾صاع تھی۔ حافظ ابن حجرؒ نے دونوں کے درمیان یوں تطبیق دی ہے کہ ممکن ہے اصل مقدار بیس اور تیس کے درمیان رہی ہو۔ بعض راویوں نے پھٹکر مقدار کم کرکے بیس کردیا اور بعض نے کچھ بڑھاکر تیس مکمل کردیا۔ ﴿فتح الباری ، دارالمعرفۃ، بیروت، ۱۴۱/۵﴾
اس ایک روایت سے محدثین کرام نے بہت سے احکام مستنبط کیے ہیں۔ اس کااندازہ ان ذیلی عناوین ﴿ترجمہ الباب﴾ سے بہ خوبی لگایاجاسکتا ہے، جو انھوںنے ان احادیث پر قائم کیے ہیں۔ اس میدان میں رئیس المحدثین امام بخاریؒ کو بڑی مہارت حاصل ہے۔ انھوںنے اسے مختلف سندوں سے بارہ مقامات پر روایت کیا ہے۔ ان کے ہر ترجمہ الباب سے ایک الگ حکم مستنبط ہوتاہے۔ ﴿ملاحظہ کیجیے احادیث نمبر : ۲۰۶۸۔۲۰۶۹۔ ۲۰۹۶۔ ۲۲۰۰۔ ۲۲۵۱۔ ۲۲۵۲۔ ۲۳۸۶۔ ۲۵۰۸۔ ۲۵۰۹۔ ۲۵۱۳۔ ۲۹۱۶۔ ۴۴۶۷﴾ حافظ ابن حجرؒ نے شرح بخاری میں اور علامہ نوویؒ نے شرح مسلم میں اس کے ذیل میں بہت سے استنباطات کاتذکرہ کیا ہے۔ ﴿فتح الباری، ۱۴۱/۵، صحیح مسلم بشرح النووی، دارالریان للتراث قاہرہ، ۱۹۸۷ئ جلد/۴، جزئ /۱۱، ص۴۰﴾ تفصیل کے طالب ان مقامات کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
مذکورہ روایت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زہد وقناعت کی محض ایک مثال ہے۔ اس طرح کی بہت سی روایات ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں، جن سے آپﷺکی حیات طیبہ کے ایک خاص پہلو پر روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتاہے کہ آپﷺمال و دولت کے ڈھیروں کی طرف کبھی نگاہ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتے تھے اور جو کچھ پاتے تھے سب اللہ کی راہ میں لٹادیتے تھے یہاں تک کہ اپنی روزمرّہ کی ضروریات کے لیے بسااوقات آپﷺکو قرض لیناپڑتاتھا۔ لیکن موجودہ دور کی عقلیت پسندی کو کیاکہیے کہ وہ کسی سیدھے سادے واقعے میں بھی شکوک و شبہات اور ذہنی خلجان کے بہت سے پہلو تلاش کرلیتی ہے۔ پھر اس کی تائید میں ذہنی اختراع کے ذریعے بہت سے دلائل بھی فراہم کردیتی ہے۔
ماہ نامہ زندگی نو دسمبر ۲۰۰۹ میں ایک مراسلہ شائع ہوا ہے، جس میں مذکورہ روایت کو نقل کرکے اس پر کچھ اشکالات وارد کیے گئے ہیں۔ مراسلہ نگار نے راقم سطور سے ان کا جواب دینے کی خواہش کی ہے اور ادارۂ زندگی نے اسے شائع کرکے مجھے جواب دینے کا موقع فراہم کردیاہے۔ اس لیے سطور ذیل میں ان اشکالات کاخلاصہ ذکر کرکے ان کے ازالے کی کوشش کی جائے گی۔
۱۔ ۵ھ ھ میں یہود بنی قریظہ کی سرکوبی کے بعد مدینہ کے نواح میں کوئی یہودی نہ رہاتھا شہر مدینہ تو یہود کے وجود سے پہلے ہی پاک ہوچکاتھا، پھر وصال نبوی ﴿ ۱۱ھ ﴾ کے وقت مدینہ یا اس کے اطراف میں کسی یہودی خاندان کے بسے ہونے کی بات کیوں کر صحیح ہوسکتی ہے؟
تمام کتب ِ سیرت بیان کرتی ہیں کہ ۲ھ میں بنوقینقاع کو اور ۴ھ میں بنونضیر کو مدینہ سے نکال دیاگیاتھا۔ پھر ۵ھ میں بنوقریظہ کا صفایا کردیاگیا۔ لیکن مدینہ اور اس کے اطراف میں صرف یہی تین قبیلے نہ تھے۔ تاریخ مدینہ کی ایک مشہور اور مستند کتاب میں مذکور ہے کہ مدینہ اور اس کے اطراف میں یہود کے بیس سے زائد قبیلے آباد تھے ﴿جمال الدین ابوالمحاسن السمھودی، وفائ الوفائ باخبار دارالمصطفیٰ، مطبتہ الآداب مصر، ۱۱۳۲۶ھ، ۱۱۶/۱﴾ مدینہ سے جلاوطنی اور قتل کی سزا صرف شر اور فتنہ پرآمادہ یہودی قبائل اور افراد کو دی گئی تھی۔ ورنہ عہد نبوی کے آخر تک مدینہ میں یہودی موجود تھے اور پوری شہری آزادیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ بہ طور تائید یہاں چند حوالے ذکر کیے جاتے ہیں:
ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے لکھاہے:
’’آغاز اسلام کے وقت یہودی عرب کے مختلف حصوں میں نظرآتے ہیں۔ خاص کر مدینہ میں وہ کافی تعداد میں آباد تھے۔ غزوۂ بدر کے بعد بنوقینقاع نے اور غزوۂ احد کے بعد بنوالنصیرنے بدعہدی کی اور سب سے آخر میں غزوۂ خندق کے دوران میں بنوقریظہ نے غدّاری کی تھی، جس کی وجہ سے یہود مدینہ سے جلاوطن کردیے گئے تھے۔ تاہم مدینے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اکّادُکّا یہودی موجود تھے۔‘‘ ﴿اردو دائرہ المعارف الاسلامیۃ، دانش گاہ پنجاب، ۳۲/۹۵۳، ۰۶۳، مقالہ ‘یہود’﴾
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’مدینہ میں بنواُریض کے جو یہودی رہ گئے تھے، ان سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیّاضانہ سلوک کیا۔ انھیں سالانہ وظائف دیے گئے۔ جب تک وہ خود پُرامن رہے، کسی نے ان کے ساتھ تنازع کھڑا نہیں کیا، انھیں مذہبی ، قانونی ﴿عدالتی﴾ اور اقتصادی معاملات میں خودمختاری حاصل تھی اور انھوںنے خوب ہی ترقی کی‘‘۔ ﴿کتاب ‘محمدرسول اللہ’ درنقوش لاہور، رسول نمبر ،۲/۶۰۳۱﴾
مولانا مجیب اللہ ندوی نے یہود بنی قینقاع کے اخراج کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’اس قبیلے کے بعض افراد کااس کے بعد بھی مدینہ میں پتاچلتا ہے۔ ممکن ہے، جن لوگوں نے معافی مانگ لی ہو ان کو رہنے کی اجازت مل گئی ہو‘‘۔ ﴿اہل کتاب صحابہ وتابعین، دارالمصنفین اعظم گڑھ، ص :۶۳﴾
یہی نہیں،بلکہ بعض روایات سے حضرت عمرفاروقؓ کے عہدِ خلافت میں بھی مدینہ میں یہودیوں کی موجودگی کا پتا چلتا ہے۔ قاضی ابویوسف نے کتاب الخراج میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دن مدینہ میں ایک بوڑھے نے حضرت عمرؓ سے بھیک مانگی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہواکہ وہ یہودی ہے جو پہلے کماتا اور جزیہ ادا کرتاتھا، مگر اب بڑھاپے کی وجہ سے معذور ہے۔ حضرت عمرؓ نے نہ صرف اسے کچھ خیرات دی، بلکہ بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر کردیا۔ ﴿کتاب الخراج، المطلبتہ السلفیہ قاہرہ ۱۳۵۲ھ، ص ۱۲۶﴾
۲۔ مدینہ میں آپﷺکے جاں نثاروں میں کئی صاحب ثروت اور دل والے صحابۂ کرام موجود تھے۔ پھر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انھیں چھوڑکر آپﷺکسی یہودی کے پاس جائیں اور اس سے کچھ غلّہ حاصل کرنے کے لیے اپنی زرہ اس کے پاس رہن رکھیں۔ محدثین کرام نے اس اشکال کا جواب دیاہے۔ انھوں نے لکھاہے کہ صحابۂ کرام آپﷺپر اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اگر انھیں آپ ﷺکی ضرورت کا ادنیٰ سا بھی احساس ہوجاتاتو وہ بلامعاوضہ غلّے کاڈھیر لگادیتے اورآپﷺکے کہنے کے باوجود اس کی قیمت قبول نہ کرتے۔ اس لیے آپﷺعموماً ان کے سامنے اپنی ضروریات کے اظہار سے احتراز کرتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپﷺنے یہ بیانِ جواز کے لیے کیاہو، تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ غیرمسلموں سے مالی اور دیگر معاملات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ﴿ابن حجر، ۵/۱۴۱۔ ۱۴۲، نووی، ۴/۱۱/۰۴﴾
روایات میں جو تفصیلات ملتی ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ یہ یہودی ، جس کا نام ابوالحشم تھا اور جو یہودی قبیلہ بنوظفر سے تعلق رکھتاتھا ، اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے تکلفی تھی۔ ایک مرتبہ اس نے آپﷺکی اپنے گھرپر دعوت کی تھی۔ اس دعوت کا پیغام حضرت انسؓ نے آپﷺتک پہنچایاتھا۔ ﴿ابن حجر، ۵/۱۴۱﴾ ممکن ہے، اسی وقت یا کسی اور موقع پر ادھار خریدو فروخت اور رہن کا یہ معاملہ انجام پایاہو۔
۳۔ اگر اس واقعہ کو صحیح مان لیاجائے تو اُس وقت کے لیے یہ خبر غیرمعمولی تھی کہ آپﷺکی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن ہے۔ اس لیے آپﷺکے وصال کے بعد اسے ضرور چھڑایاگیاہوگا۔ مگر تاریخ و سیرت میں اس کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا کہ اسے کس نے چھڑایا ؟
یہ دونوں باتیں صحیح نہیں ہیں۔ پیغمبر کسی غیرمسلم سے کوئی مالی معاملہ کرے، اُس زمانے کے لحاظ سے یہ ایک عام سا واقعہ تھا۔ مکّی اور مدنی دونوں عہدوں میں صحابۂ کرام اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین اور اہل کتاب سے مختلف دُنیوی معاملات انجام دیتے تھے اور اسے غلط اور نامناسب نہیں سمجھاجاتاتھا۔ کتبِ سیرت و تاریخ میں صراحت موجود ہے کہ اِس زرہ نبوی کو چھڑایاگیا اور کس نے چھڑایا؟ ابن سعدؒ نے حضرت جابرؓ سے روایت کی ہے کہ آں حضرت ﷺکے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپﷺکے ’’وعدے‘‘ پورے کیے اور حضرت علیؓ نے آپﷺکے قرضوں کی ادائی کی۔ لیکن اسحاق بن راہویہؒ نے اپنی مسند میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ ہی نے رہن رکھی ہوئی اس زرہ کو بھی چھڑایاتھا اور اسے حاصل کرکے حضرت علیؓ کے حوالے کردی تھی۔ ابن الطلاع نے بھی اپنی کتاب الاقضیۃ النبویۃ میں یہی بات لکھی ہے۔ ﴿ملاحظہ کیجیے ابن حجر ، فتح الباری، ۱۴۲/۵﴾
۴۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے منادی کی کہ نبیﷺکا قرض ہو یا آپﷺنے کسی سے کوئی وعدہ فرمایاہوتو وہ آکر لے جائے۔ حضرت جابرؓ کی ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے حاضر ہو کرآپﷺکے ایک وعدے کا تذکرہ کیا اور حضرت ابوبکرؓ نے اسے پورا کردیا۔ لیکن اس موقع پر کسی نے، حتّٰی کہ حضرت عائشہؓ نے بھی اس قرض کی یاد نہیں دلائی جس کی وجہ سے آپﷺکی زرہ رہن رکھی ہوئی تھی۔
یہ بھی صورتِ واقعہ کی صحیح تصویر کشی نہیں ہے۔ حضرت جابرؓ کی روایت میں صرف ان کامعاملہ مذکورہے۔ کسی اورنے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپﷺکا کوئی وعدہ یاد دلایایانہیں؟ اور کسی نے آپﷺکے کسی قرض کی یاد دہانی کرائی یا نہیں؟ اس سے یہ روایت خاموش ہے۔ اوپر بیان کیاگیاکہ آپﷺکی زرہ کے ایک یہودی کے پاس رہن ہونے کا علم کم از کم چار صحابہ ؓ کوتھا۔ انھوں نے ضرور اس کی خبر دی ہوگی۔ اسی بنا پر قرض کی ادائی کی گئی اور رہن رکھی ہوئی زرہ کو چھڑایاگیا۔
آخر میں یہ بات عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ صحیح اور معتبر روایات اور ثابت شدہ واقعات کے بارے میں توجیہ و تاویل کاذہن بنانا چاہیے، نہ کہ صرف ان پر اشکالات وارد کرنے اور ذہنی خلجان میں مبتلا ہونے کا۔ ورنہ کسی بات کو قبول کرنے پر طبیعت آمادہ نہ ہو تو آنکھوں دیکھی حقیقت کو بھی مشتبہ بنایاجاسکتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2010