ہندو مسلم تعلقات کی ایک اہم جہت

فارسی اور سنسکرت کے باہمی مطالعہ کی ہندوستانی روایت

مسلمان اور ہندو کئی سو برسوں سے اس ملک میں ایک دوسر ےکے پڑوسی کی حیثیت سے زندگی گزارتے آئے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمان جہاں کہیں آباد ہوئے ان کے پڑوسی غیر مسلم ہی تھے۔ اسلام میں پڑوسی کا حق بہت زیادہ ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ جبریل پڑوسیوں کے بارے میں اتنی وصیت کرتے رہے کہ مجھ کو خیال ہونے لگا کہ ان کو وراثت میں حصہ دار بنادیں گے۔ (بخاری کتاب الادب)

اس حق کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم اپنے برادران وطن کے مذہب کو جانیں۔ اس لیے کہ انسان کے بہت سے کار و افکار اور اس کے افعال واعمال کی بنیاد عقیدہ پر ہوتی ہے۔ کسی انسان کے رویے، اس کے طرز عمل اور اس کی نفسیات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اس کے مذہبی پس منظر کا جاننا بھی ضروری ہوتا ہے۔ دین اسلام کے تعارف کے کام کے لیے بھی جو مسلمانوں پر فرض ہے مخاطب کے مذہبی معتقدات کا جاننا لازمی ہے کیوں کہ اس کے بغیر وہ حکمت میسر نہیں آسکتی ہے جو دعوت کے کام کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے اور جس کے اختیار کرنے کا حکم قرآن میں دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مسلمان داعی اگر ایک آریہ سماجی ہندو سے اپنی گفتگو میں بت پرستی کی خرابی بیان کرے گا تو یہ عمل لاحاصل اور غیر حکیمانہ ہوگا۔کیوں کہ آریہ سماجی خود ہی بت پرستی کے مخالف اور توحید کے قائل ہیں۔ غیر حکیمانہ اور غیر عاقلانہ گفتگو مخاطب کے دل میں نور وسرور پید اکرنے کے بجائے ناسور پیدا کرسکتی ہے۔ اس لیے دعوت سے پہلے مخاطب کو اچھی طرح جاننے کی کوشش کرنا چاہیے، عقل کی پیشوائی کا تقاضا ہے کہ برادران وطن کو مخاطب بنانے کے لیے ان کے ساتھ حسن سلوک اور اکرام واحترام کا معاملہ ہو اور ان کے مذہب کا مطالعہ کیا جائے۔ یہ بات ایک داعی کو یاد رکھنی چاہیے کہ داعی اعظم رحمت عالم ﷺ کفارو مشرکین کو برا نہیں کہتے تھے بلکہ ہمیشہ ان کی ہدایت کے لیے دعا کرتے رہتے تھے کہ اللہ میری قوم کو ہدایت دے وہ حق وباطل کے درمیان تمیز نہیں کرتے۔ ایک مرتبہ مشرکین کے مظالم سے تنگ آکر بعض صحابہ نے آپ سے بد دعا کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ میں لعنت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہوں بلکہ رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔

مسلمانوں کی سنسکرت دانی

ہندو مذہب کا مطالعہ اس ملک میں مسلمانوں کی روایت بھی رہی ہے۔ سلطان محمود غزنوی کے دربار میں ابوریحان البیرونی تھا جو علم وتحقیق کی قلمرو کا سلطان تھا، اس کا شمار دنیا کے بڑے ارباب علم وفضل میں کیا جاتاتھا۔ اس کے انتقال پر ساڑھے آٹھ سو برس گزرجانے کے باوجود اس کی اہمیت اور مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وہ علم ہیئت، علم نجوم، علم تاریخ اور ادب میں مہارت رکھنے کے ساتھ ادیان ومذاہب پربھی گہری نظر رکھتا تھا وہ عربی فارسی عبرانی زبانوں کے ساتھ سنسکرت کا بھی ماہر تھا۔ اس زبان کی مذہبی کتابوں کا براہ راست اس نے مطالعہ کیا تھا۔ وہ ہمیشہ تصنیف وتالیف میں مشغول رہتا تھا۔ اس کے ہاتھ سے قلم نہیں چھوٹتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے سے کتاب نہیں ہٹتی تھی۔ اس کا دماغ ہمیشہ گہرے غور وفکر کا عادی تھا۔انتہا یہ ہے کہ بوقت مرگ حالت نزع میں بھی وہ علمی مسائل سلجھانے میں لگارہا۔ اس نے ایک کتاب ’کتاب الہند‘ کے نام سے لکھی جس میں اس نے ہندوؤں کے مذہبی معتقدات ہندوستان کی معاشرتی حالت، ہندوؤں کے لباس، کھانے پینے کے آداب، رسوم ورواج، ذات پات کے نظام، ان کے مذہب کے حلال اور محرمات اور تہواروں تک کا بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ البیرونی کی بے تعصبی اور خالص علمی اسلوب کی خود ہندو دانش وروں نے تعریف کی ہے۔اگر ہر زمانہ میں ہندو اور مسلمان دونوں میں البیرونی جیسی شخصیتیں پیدا ہوتی رہتیں تو اس ملک کی تاریخ مہر ووفا، رواداری اور یگانگت کی تاریخ ہوتی۔

ہندوستان کے مذہبی ذہن وفکر رکھنے والے مسلم بادشاہ بھی ہندو مذہب کی واقفیت کی فکر رکھتے تھے۔ سلطان محمد تغلق ہندو اور جین مذہب سے متعلق معلومات کی تلاش میں لگارہا وہ ان مذاہب کے فضلا کو اپنی مجالس میں مدعو کرتا اور ان سے آدھی آدھی رات تک مذہبی گفتگو کرتا تھا۔ اس سلطان کے بارے میں ابن بطوطہ کا بیان ہے کہ وہ شریعت کا پابند تھا۔ صبح کی نماز کے بعد اور اد ووظائف میں مشغول رہتا اور فسق وفجور سے پرہیز کرتا تھا۔ اذان کے احترام میں کھڑا ہوجاتا۔جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے والوں کو سزا دیتا۔

فیروز شاہ نے ہندوؤں کے علوم سے متعلق کتابوں کا فارسی ترجمہ کروایا۔ یہ کتابیں فلسفہ علم نجوم اور الہیات سے متعلق تھیں۔ اس طرح ایک کتاب کا نام اس نے دلائل فیروز شاہی رکھا۔ وہ ہندو راجاؤں کی تعظیم وتکریم کرتا تھا اور ان کو شاہانہ نوازشوں سے نوازتاتھا۔ اس سلطان نے ترغیب وتحریص کے ذریعے ہندوؤں کو دائرہ اسلام میں لانے کی کوشش کی تھی۔ اس نے اعلان کیاتھاکہ جو کوئی دین اسلام قبول کرلے گا تو نہ صرف اس کا جزیہ معاف کردیا جائے گا بلکہ انعام واکرام سے بھی نوازا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد بکثرت ہندو مسلمان ہوئے۔

سلطان ناصر شاہ(1282-1325) بنگالی زبان کا بہت بڑا سرپرست تھا۔ اس کے حکم سے مہابھارت کا بنگالی زبان میں ترجمہ ہوا۔ پھر سلطان حسین شاہ نے بھگوت پر ان کے بنگالی ترجمہ کے لیے مالا دھرباسو کو مامور کیا۔ ان ہی سلاطین کی کوششوں سے بنگالی اس خطہ میں ان مسلمانوں کی زبان بھی ہوگئی جو اس زبان سے واقف نہ تھے۔ کشمیر میں سلطان زین العابدین کو ہندی اور تبتی زبان پر بڑا عبور حاصل تھا۔ اس نے اپنے دربار میں سنسکرت کے فضلا کو متعین کیا اور اس کے حکم سے انھوں نے سنسکرت میں کشمیر کی تاریخ لکھی۔ سلطان نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سنسکرت کی کتابوں کا فارسی میں اور فارسی کتابوں کا سنسکرت میں ترجمہ بھی ہوتا تھا۔ پنڈت اس کے دربار میں شاستر سناتے تھے۔ مسلمان صوفیا نے یگانگت اور محبت کی خاطر ہندوستان کی مقامی زبانوں میں دوہے لکھے۔ حضرت فرید الدین گنج شکرؒ نے پنجابی میں حضرت عبد القدوس گنگوہیؒ نے ہندی میں دوہے لکھے۔ یہاں کے باشندوں سے قریب ہونے کے لیے اس وقت کے مسلمانوں نے عربی اور فارسی کو چھوڑ کر مقامی زبانیں اختیار کرلیں۔ اور اسی سے اردو کی نشوونما بھی ہوئی۔

مسلمانوں کا ذوق جستجو اور مذاہب کے مطالعہ کا شوق پوری تاریخ میں ہر عہد میں پایا جاتا ہے۔ ہندو مذہب کے بارے میں جاننے اور ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کا ترجمہ کرنے کوششیں ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں مسلسل پائی جاتی ہیں۔ مغلیہ عہد کے دور ہمایونی میں محمد گوالیاری نے سنسکرت کی مشہور تصنیف امرت کنڈ کا فارسی ترجمہ بحر الحیات کے نام سے کیا۔ اس کتاب میں برہمنوں کے مذہبی خیالات وعقائد پر مباحث ہیں اور یہ کتاب مخطوطہ کی شکل میں برٹش میوزیم میں موجود ہے۔ شیرشاہ کے دور میں ملک جائسی نے ہندی پدماوت لکھ کر لسانی اور مذہبی رواداری کا ثبوت دیا۔ اکبر نے سنسکرت کی کلاسیکل کتابوں کو فارسی میں منتقل کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔اس کے حکم سے نقیب جان، ملا عبد القادر بدایونی، ملاشیری اور سلطان حاجی تھانیسری نے مہابھارت کا فارسی ترجمہ 995ھ میں کیا۔ اس کی خواہش پر اس کو مصوّر بھی کیا گیا اور اس کا فارسی نام رزم نامہ رکھا گیا۔ پھر ملا عبد القدر بدایونی نے لگاتار چار سال کی محنت کے بعد رامائن کا ترجمہ 996ھ میں مکمل کیا۔ اتھروید کا فارسی ترجمہ حاجی ابراہیم سرہندی نے کیا۔ ملاشیری نے فارسی میں ہربنس کا ترجمہ کیا جس میں کرشن جی کی زندگی کے حالات ہیں۔ آئین اکبری اور منتخب التواریخ وغیرہ میں ان کتابوں کا تذکرہ موجود ہے۔ اکبری دورمیں ابوالفضل نے ہندوؤں کے علوم وفنون کا گہرا مطالعہ کیا اور ان کی عقل ودانش او رنفس کشی کو دل کش پیرایہ میں پیش کیا۔ اکبری عہد کا یہ عظیم مؤرخ انڈولوجی کا ماہر اور ہندوؤ ں کی مذہبی کتابوں کا عالم تھا اس نے ہندوؤں کے مذہبی عقائد کا تجزیہ بڑی دیدہ وری سے کیا ہے۔ اس کی کتاب آئین اکبری اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

جہاں گیر ایک دانش ور فرماں روا تھا۔ توزک جہاں گیری سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو مذہب اور عقائد پر اس کی اچھی نظر تھی وہ پنڈتوں کے ساتھ مذہبی بحث ومناظرہ بھی کرتا تھا اور ان کو مظاہر پرستی سے ہٹاکر ذات مجرد کے اعتراف پر لانے کی کوشش کرتا تھا۔ اس نے اپنی توزک میں ہند ومذہب پر تبصرے بھی کیے ہیں۔ اسی کے عہد میں شیخ سعد اللہ نے رامائن کو فارسی میں منظوم کیا اور اس کانام رام وسیتا رکھا۔اسی عہد کے مورخ قاسم فرشتہ نے اپنی تاریخ میں ہندوؤں کے مذہبی عقائد کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ تاریخ فرشتہ میں مہابھارت کا تذکرہ بھی ہے اور تجزیہ بھی۔

شاہ جہاں کے دور میں مولانا عبد الرحمن چشتی نے بھگوت گیتا کا منظوم ترجمہ فارسی زبان میں کیا۔ یہ ترجمہ بھی مخطوطہ کی شکل میں برٹش میوزیم بھی موجود ہے۔ پھر اس عہد میں شمس بازغہ کے مصنف ملا محمود جونپوری نے ہندوستان کے خاص فن نائیکا بھید کا گہرا مطالعہ کیا اور اس پر ایک کتاب لکھی۔ مولانا نجم الدین حسن کے رسالہ شطاری میں ہندوؤں کے مراقبے کے طریقے لکھے ہیں۔ شاہ جہاں نے اپنا ولی عہد دارا شکوہ کو بنایا تھا۔ دارا شکوہ کا علمی اور مذہبی مطالعہ بہت وسیع تھا۔ اس کی کتاب مجمع البحرین مذاہب کے بارے میں اس کے وسیع المطالعہ ہونے کا ثبوت ہے۔ اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی تصوف اور فلسفہ ویدانت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ وہ اکبر کی طرح وسیع المشرب تھا۔ راسخ العقیدگی سے اس کو کوئی مناسبت نہ تھی۔ مجمع البحرین لکھنے کے بعد اس نے ہندو مذہب کی کئی کتابوں کے ترجمے کیے یا اس کام پر لوگوں کو مامور کیا۔ اس نے 1067ھ میں اپنشد کے پچاس ابواب کا فارسی ترجمہ بنارس کے ہندو پنڈتوں کی مدد سے کیا۔ بھگوت گیتا کا ایک ترجمہ بھی اس کی طرف منسوب ہے۔ اس نے غلو سے کام لے کر ہندو مذہب اور اسلام کا ملغوبہ تیار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جس طرح اکبر کو ناکامی ہوئی،ناکامی اس کا بھی مقدر بنی۔ اور اس طرح کی غلط کوششوں کا انجام یہی ہوتا آیا ہے۔ تاریخ میں وحدت ادیان کی کوششیں کبھی کام یاب نہیں ہوئی ہیں۔ نہ اس طرح کے بے معنی کام سے دلوں کی تسخیر میں کوئی مددملی ہے۔ اسی عہد میں محسن فانی کی کتاب دبستان المذاہب لکھی گئی۔

1732 عیسوی میں امانت کے ایک مصنف نے شری کرشن کے قصے فارسی زبان میں لکھے۔ اس کے بعد شاہ نیاز احمد بریلوی بھی ہندو مذہب کے بارے میں تفصیلی معلومات رکھتے تھے انھوں نے ہندو گیان دھیان کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا ہے۔ مرزا مظہر جان جاناں ایک صوفی بزرگ تھے لیکن ہندو مذہب کے بارے میں ان کا مطالعہ وسیع تھا، وید کو الہامی کتاب مانتے تھے۔ اور ہندوؤں کو شبہ اہل کتاب قرار دیتے تھے۔ انھوں نے عربوں کی بت پرستی اور ہندوؤں کی بت پرستی میں فرق ثابت کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عرب بت پرست اپنے بتوں کو ذات الٰہی کی طرح متصرف اور موثر حقیقی سمجھتے تھے۔ اور ہندو بتوں کے تصرف کو ان کا تصرف نہیں بلکہ تصرف الٰہی سمجھتے ہیں۔ وہ شرک کے ذریعے الوہیت کو پہنچتے ہیں۔ بتوں کے سامنے ان کا سجدہ عبودیت کاسجدہ نہیں ہے بلکہ سجدہ تحیت ہے جو اسلام سے پہلے کے مذاہب میں جائز تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں ہے کہ ’’وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِیهَا نَذِیرٌ ’’(فاطر:24)۔  اس سے ظاہر ہے کہ ہندوؤں میں بشیر اور نذیر ضرور آیا ہوگا اور ممکن ہے رام چندر جی اور کرشن ان میں نبی رہے ہوں۔

قارئین اور ناظرین کے ذوق وذہن کی ضیافت کے لیے یہ تفصیلات کافی ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں دلداری کے شیر وشہد کی نہریں بہائیں اور عطر محبت کی شمیم انگیزیوں سے لدی ہوئی ہوائیں چلائیں۔ اس بارے میں اہل دل صوفیائے کرام کا رول خاص طور پر بہت نمایاں ہے۔ انھوں نے اقلیم دل کو فتح کرنے کاکام بڑے پیمانہ پرانجام دیا۔

مسلم صوفیا کی انسانیت نوازی

اس ملک میں مسلمان صوفیانے تسخیر قلوب کے لیے خدمت وایثار کی اسلامی تعلیمات کی شمع روشن کی۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ کی تعلیم یہ تھی کہ راہ سلوک میں جو کئی گناہ کبیرہ ہیں ان میں ایک مردم آزاری بھی ہے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ خدا کی کسی مخلوق سے عناد رکھنا طریقت کے خلاف سمجھتے تھے۔ تمام مشائخ چشتیہ محبت واخلاص کی گھنی چھاؤں میں اللہ کی تمام مخلوق کو پناہ دیتے تھے۔ حضرت شر ف الدین یحییٰ منیریؒ نے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں پہنچنےکی راہیں تو بہت ہیں لیکن سب سے نزدیک راہ دلوں کو راحت پہنچانا ہے۔ حضرت خواجہ محمد گیسودرازؒ نے گلبرگہ کے سلطان احمد شاہ بہمنی کو تعلیم دی تھی کہ وہ فقیروں، کم زوروں، عاجزوں اور بیواؤں کی پوری خبر گیری کرے۔ امیر خسروؒ برادران وطن کی دلجوئی کی خاطر ہند ومذہب کی بہت سے چیزوں کی تعریف کرتے اور کہتے تھے کہ ان کے بہت سے عقائد اسلام کے عقائد کے مشابہ ہیں، ان کے یہاں وحدانیت کا تصور بھی پایاجاتا ہے۔ وہ خدا وند تعالیٰ کی وحدت وقدامت اور اس کی قدرت ایجاد اور اس کے رازق اور خالق اور فاعل ومختار ہونے کے قائل ہیں ان کا کہنا تھا کہ یونان کی حکمت مشہور ہے لیکن ہندوستان بھی اس سے تہی مایہ نہیں۔ یہاں بھی منطق فلسفہ، علم نجوم، علم کلام، علم ریاضی اور علم ہیئت موجود ہے۔

ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کی داستان مسلمانوں کے فیاضانہ سلوک وہمدردی اور بے تعصبی کی روایت سے وابستہ ہے۔ لیکن اس روایت کے تسلسل میں اب فرق آگیا ہے۔ تلخ کامی اور تلخ کلامی کے واقعات کے ساتھ ہرروز کے اخبارات ہندو اور مسلمان دونوں کے ذہن ودماغ کو نفرت سے آلودہ کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک باہمی دل داری کے بجائے باہمی دل آزاری کی باتیں کی جاتی ہیں۔ یہ ماحول نہ صرف اسلام کے تعارف کے لیے سازگار نہیں ہے بلکہ شائستگی اور تہذیب کے بھی منافی ہے۔ رواداری اور تحمل، فیاضی اور سیر چشمی، ایثار ومحبت،عفو وکرم کی صفات اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہوتی جا رہی ہیں۔ اور اعلیٰ اخلاقی سیرت تک رسائی ان صفات کے بغیر ممکن نہیں اور اعلیٰ اخلاقی سیرت کے بغیر تسخیر قلوب کا عظیم الشان کام انجام نہیں پا سکتا ہے۔ اگر انسان کو دوسروں کے عقائد میں خرابی بھی نظر آئے تو اس سے دل میں نفرت کی پرورش نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ خدا کے لیے شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے۔ اگراس کی طرف سے توفیق کی دست گیری نہیں ہوتی تو نہ جانے ہمارا کیا حال ہوتا۔ ہمیں دوسروں کی دلآزادی کے بغیر اپنے عقیدہ و مذہب کے حسن سے دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی جذبہ کے لوگ اس ملک میں اصلاح ودعوت کے شمع بردار بننے کی صلاحیت رکھ سکتے ہیں اور اسی مضر اب سے دعوت کا ساز چھیڑا جا سکتا ہے۔ مشترکہ انسانیت کا رشتہ بڑا اہم رشتہ ہے اور اس کا ہر قیمت پر احترام کیاجانا چاہیے اور اس رشتہ کو ٹوٹنے نہیں دینا چاہیے۔ زندگی کو بے دریغ رفاہ عام کے لیے وقف کردینا چاہیے۔

ہندوؤں کی فارسی دانی

تہذیب در اصل باہمی لین دین اور داد وستد کا نام ہے، جس طرح سے مسلمانوں نے ہندوؤں کی مذہبی وتہذیبی کتابوں کا مطالعہ کیا اسی طرح سے ہندوؤں نے بھی مسلمانوں کی زبان سیکھی، اور فارسی زبان میں مہارت حاصل کی، ہندوؤں میں فارسی کی تعلیم سکندر لودھی کے زمانے میں رائج ہو چکی تھی، تاریخ فرشتہ میں اس کی صراحت ہے کہ اس زمانہ میں ہندو برہمنوں اور کائستھوں نے فارسی اور عربی کا علم حاصل کر کے درس وتدریس کا کام شروع کیا، کتابوں میں مذکور ہے کہ کشمیر میں سلطان زین العابدین کے زمانے میں فارسی زبان کو عروج حاصل ہوا، اور یہی فارسی زبان ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنی، ابتدا میں سیکڑوں پنڈتوں نے فارسی کو اپنایا، اور اس کے بعد ہندوستان کی وسیع تر زمین میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی وہاں مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں نے بھی فارسی زبان پر قدرت حاصل کی، مغلیہ عہد میں بادشاہوں کے دربار میں بہت سارے ہندو عہدے دار منصب دار ہوتے تھے، اور ان میں سے بیش تر فارسی زبان بولنے لکھنے اور سمجھنے پر قادر تھے، یہاں تک کہ بہت سے لوگوں نے اس کو تحریر وتصنیف اور شاعری کا ذریعہ بنایا۔

ہندوستان میں جب انگریزوں کے قدم داخل ہوئے اور ان کو عروج حاصل ہوا، تو ہندوستا ن میں فارسی زبان پر زوال آیا، اور اردو زبان دربار اور بازار کی زبان بنی، اور کم از کم ڈیڑھ سو سال کا زمانہ ایسا گزرا، کہ ہندوؤں نے بھی مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ اردو زبان کو اپنایا، اور اس کو اپنی مادری زبان بنایا، اور اس کی ترقی میں حصہ لیا۔

مسلمانوں نے جس طرح سے سنسکرت کی متعدد کتابوں کے فارسی ترجمے کیے۔ بالکل اسی طرح سے ہندوؤں نے مسلمانوں کے عہد عروج واقبال میں فارسی زبان کو اپنے سینے سے لگایا، بلکہ ہندو اسلامی تہذیب سے اتنے ہم آہنگ ہوگئے تھے کہ کئی ہندو مصنف اپنی کتاب کی ابتدا بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرنے لگے۔

تقریباً تین سو سال تک ہندو مساجد اور مکاتب میں مسلمان طالب علموں کے پہلو بہ پہلو بیٹھ کر فارسی سیکھتے اور فارسی کے اشعار پڑھتے اور آگے چل کر کے فارسی زبان کے مصنف اور شاعر بنتے۔ فارسی زبان کی ترقی میں ہندو اہل قلم وادبا کا حصہ بہت زیادہ ہے۔

محمود غزنوی کے حملوں سے لے کر اکبر کے زمانے تک تقریباً چھ سو سال کا زمانہ ہے۔ اس طویل عرصے میں فارسی زبان سے ہندوؤں کا تعلق بہت زیادہ نظر نہیں آتا ہے، البتہ کچھ ناموں کاتذکرہ تاریخ میں ملتا ہے، یہ ہندو حضرات ہیں جو فارسی زبان میں شاعری کیا کرتے تھے، گرونانک، لودھیوں کے آخری زمانے کے بزرگ ہیں ان کی کتاب ’آدی گرنتھ‘ہے، اس کتاب میں فارسی کی آمیزش ہے اور فارسی الفاظ اس میں کثرت سے موجود ہیں، لیکن آہستہ آہستہ اسلامی معاشرت کا اثر ہندوؤں کی زبان ومعاشرت پر پڑنے لگا۔ اور بتدریج وہ وقت آیا کہ ہندو نہ صرف فارسی سیکھنے لگے بلکہ اس میں شاعری بھی کرنے لگے۔ مغلیہ دور میں اکبر کے دور سے ہندوؤں نے فارسی زبان کی شیرینی سے متأثر ہوکر بڑی تعداد میں فارسی زبان بولنا ،سیکھنا اور لکھنا شروع کردیا۔

ہندوؤں نے عہد اکبری سے فارسی زبان کی تعلیم کی طرف خاص طور پر توجہ شروع کی، اور اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ خود اکبر ہندوؤں سے قریب ہونے کی بہت زیادہ کوششیں کرتا تھا، اور ہندوؤں کے علما وفضلا کو انعام واکرام سے نوازتا تھا۔ راجہ ٹوڈرمل نے ملک کے طول وعرض میں تمام دفتری کام کاج کو فارسی زبان میں انجام دیے جانے کا حکم دیا۔ اکبر کی معتدل حکمت عملی کی وجہ سے ہندوؤں کی تالیف قلب اس قدر ہو چکی تھی کہ انھوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا بلکہ اسے خوشی سے قبول کیا۔ خود راجہ ٹوڈرمل فارسی زبان سے واقف تھا، ٹوڈرمل کی طرف ایک کتاب ’خازنِ اسرار‘ منسوب کی جاتی ہے، اور یہ کتاب فارسی زبان میں ہے، لیکن ٹوڈرمل کی طرف اس کتاب کے انتساب پر محققین نے شبہ ظاہر کیا ہے۔ اکبر کے زمانے میں فارسی کا ایک ہندو شاعر مرزا منوہر تو سنی تھا، جس کا بہت سارا کلام فارسی زبان میں ہے۔ پھر جہاں گیر اور شاہ جہاں کے زمانے میں بھی ہندوؤں میں فارسی لکھنے والے پیدا ہوئے، اور پھر داراشکوہ وغیرہ کے زمانے میں بھی ہندوؤں میں کئی ایسے نام ملتے ہیں جو ہندوؤں کی فارسی دانی پر دلالت کرتے ہیں۔ اور پھر اس کے بعد چندر برہمن کا نام آتا ہے جنھوں نے ’چہار چمن‘ کے نام سے فارسی میں کتاب لکھی، پھر بھگوان داس بندہ درگاہ کا نام آتا ہے جس نے ’شاہ جہاں نواں‘ کے نام سے فارسی میں تاریخ لکھی۔ اور اس کے بعد بندرابند داس نے ’لب التواریخ‘ لکھی۔ سجن رائے بٹالوی نے ’خلاصة التواریخ‘ لکھی۔ ایشرداس ناگر نے ’فتوحات عالم گیری‘ اور کامراج نے تاریخ کی کتاب ’عبرت نامہ‘ لکھی،۔جگ جیون داس نے ’منتخب التواریخ‘ لکھی۔ یہ ساری کتابیں فارسی زبان میں ہیں اور اکبر کے دور کے بعد لکھی گئی ہیں۔ پھر ایک فارسی مصنف بھیم سین ولد رگھونندن داس کا نام آتا ہے جنھوں نے فارسی زبان میں ’تاریخ دل کشا‘ لکھی ہے۔ اور یہ تاریخ اور نگ زیب کی تخت نشینی سے لےکر شاہ عالم کے زمانے تک مشتمل ہے۔ پھر فارسی نثر کے ممتاز ادیبوں میں منشی مادھورام اور ملک زادہ منسی اور منشی اودھے راج کا نام آتا ہے۔ ہندوؤں میں فارسی زبا ن کے اچھے شعرا بھی پیدا ہوئے۔ جیسے منشی چندر بھان برہمن جن کے دیوان کا نام ’دیوان برہمن‘ ہے اور اسی طرح سے بنوالی داس کا نام بھی آتا ہے جو دارا شکوہ کا ملازم تھا۔

مغلوں کے عہد انحطاط میں ہندوؤں کے درمیان فارسی زبان کا عروج ہوا، اور ایک نہیں متعدد فارسی زبان کے ہندو مصنفین کا نام سامنے آتا ہے۔ جنھوں نے تاریخ وتذکرہ کے موضوع پر کتابیں لکھیں۔ فنِ انشاء پر بھی بہت سے ہندوؤں کی کتابیں ہیں۔ قصص وحکایات کے موضوع پر بھی وہ قلم فرسا ہوئے ہیں۔ ہیئت ونجوم کے موضوع پر بھی انھوں نے کاوشِ قلم کے نمونے پیش کیے ہیں۔ منشی ٹیک چند بہار کی کتاب ’بہارِ عجم‘ ہندوستان میں فارسی زبان وادب کی بہت اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اور اسے قبولِ عام کی عزت حاصل ہوئی ہے۔

ہندوستان میں جب مسلمانوں کی تہذیب کا دمِ واپسیں تھا، اور ان کی حکومت کا ٹمٹماتا ہوا چراغ گل ہورہاتھا اس وقت بھی ہندوؤں میں فارسی کی تعلیم اور فارسی شعر وادب کا ذوق عام تھا۔ 1857ء کے بعد جن ہندوؤں نے فارسی زبان میں مرتبۂ کمال حاصل کیا، ان میں لالہ رتن ناتھ، برج نارائن چکبست، سوامی رام تیرتھ اور منشی پیارے لال رونق وغیرہ کے نام بہت ممتاز ہیں اور یہ فہرست بہت طویل ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزوں کے دورِ اقتدار میں بھی ایسے ہندو فضلا موجود تھے، جنھوں نے نہ صرف فارسی زبان پر دست گاہ حاصل کی بلکہ اسلامی تصوف پر بھی۔ اور بعض دوسرے اسلامی موضوعات پر بھی انھوں نے فارسی زبان میں کتابیں لکھیں۔ایک ہندو مصنف اشکی ہیں (متوفی 1248ھ) ان کی فارسی کتاب کا نام ’تذکرۂ صوفیا‘‘ ہے، پھر بابولال ابن منشی کشوری لال کانام ہے جن کا انتقال 1879ء میں ہوا۔ انھوں نے ’وقائع معین الدین چشتی‘ کے نام سے فارسی میں کتاب لکھی۔ پھر لکشمی نارائن نے فارسی زبان میں ہدایت ’المعرفت‘کے نام سے کتاب لکھی۔ پھر پنڈت متھوراناتھ (متوفی 1228ھ) کا نام آتا ہے۔ انھو ں نے فارسی میں ’ریاض المذاہب‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ اور پھر انیسویں صدی عیسوی کے راجہ رام موہن رائے کو کون نہیں جانتا ہے۔ جنھوں نے دنیا کے بڑے مذاہب پر ’تحفة الموحدین‘ کے نام سے کتاب لکھی۔بنگالی اور فارسی کے علاوہ وہ عربی زبان بھی جانتے تھے۔ اور انھو ں نے قرآن مجید کا مطالعہ کیا تھا۔تحفة الموحدین کا مقدمہ عربی زبان میں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ راجا رام موہن کو عربی زبان پر بھی قدرت حاصل تھی۔

ہندوؤں میں فارسی زبان پر جس طبقہ نے سب سے زیادہ توجہ کی وہ کائستھوں کا طبقہ ہے۔ یہ لوگ سب سے زیادہ مسلمانوں کے ساتھ رہتے تھے، درباروں میں کام کرتے تھے، اور انھوں نے ہر جگہ اپنی صلاحیت اور حسنِ فہم کا ثبوت دیا ہے، ان کی عورتیں بھی فارسی جانتی تھیں، جہاں تک راج پوتوں کا تعلق ہے وہ سپاہیانہ مشاغل کے لوگ تھے، وہ قرطاس وقلم کی بساط کے بجائے میدان جنگ کی بساط میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے تھے، اور جو برہمن تھے وہ عام طور پر انفرادیت اور علاحدگی کو علوِشان سمجھتے تھے۔مسلمان اساتذہ بھی ہندو شاگردوں پر شفقت ومہربانی کا برتاؤ کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہندو اور مسلمان دونوں باہم شیر وشکر ہوکر مودّت ویگانگت کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔

فارسی زبان کے سیکھنے اور مسلمانوں کے ساتھ معاشرت کی وجہ سے اسلامی اثرات بھی ہندوؤں کی سوسائٹی میں کافی عرصے تک نظر آتے رہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، الحمدللہ، ﷺ، جیسے الفاظ ہندو سوسائٹی میں بہت ملتے ہیں، بے شمار ہندو شعرا ایسے ہیں جنھوں نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں بہت اچھی نعتیں کہی ہیں، اور پوری عقیدت اور محبت کے ساتھ کہی ہیں۔ فارسی الفاظ وکلمات کا استعمال ان کی تحریروںمیں بہت عام نظر آئے گا، یہاں تک کہ برلب گور اور واصل جہنم جیسے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ اگر پہلے سے مصنف کا نام نہ معلوم ہو تو یہ یقین کرنا مشکل ہوگا کہ یہ کسی  ہندو کی تصنیف ہے۔ مولانا جلا ل الدین رومی کا مطالعہ بھی ہندو فارسی داں شعرا بہت کثرت سے کرتے تھے، اور رومی کی صدائے باز گشت بے غم راغی کے کلام میں بہت نمایاں ہے۔ بہت سے اسلامی عقائد کا اظہار بھی ہندوؤں کی فارسی شاعری میں نظر آئےگا۔ جیسے توحید یا وحدتِ نسلِ انسانی، خودی اور غرور کا استیصال، مساواتِ انسانی، عبودیت اور محبت رسولؐ جیسے موضوعات ہندو فارسی شعرا کے کلا م میں بہت کثرت سے ملیں گے۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2022

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223