قر آن کریم کے بعدسیرت نبویﷺ ایک ایسا پسندیدہ و مقبول موضوع ہے جس سے اہلِ اسلام کو خاص طور پر اس کے علمِی حلقے میں غیر معمولی دلچسپی کا پایا جا نا فطری ہے ۔ اس لیے کہ آخری کتابِ ِ الٰہی قرآن مجید کے بعد آپﷺ کی حیات مبارکہ ہی ان کے لیے بہترین مشعلِ راہ ہے۔اس موضوع پر مختلف زبانوں میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ ایک طویل عرصہ سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت نبویﷺ پر کتب و رسائل اور مضامین کا وافرذخیرہ دست یاب ہے جس سے قارئین فیض یاب ہوتے رہتے ہیں،لیکن یہ بھی سیرت پاک کا ایک اعجاز ہے کہ اس پر مطالعہ و تحقیق کا سلسلہ جاری ہے اور نئے نئے پہلوؤں سے تصانیف و تالیفات منظر عام پر آرہی ہیں۔ زیر مطالعہ کتاب ’اوراقِ سیرت‘ بھی اسی نیک سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس کے مصنف ِ گرامی ممتاز عالمِ دین اور معروف محقق و مصنف مولانا سید جلال الدین عمری صاحب ہیں، جن کی اردو میں اسلامیات کے مختلف پہلوؤں پر کتابیں تحقیق و تصنیف کا اعلیٰ معیار پیش کرتی ہیں اور دینی و علمی حلقوں میں کافی مقبول ہیں ۔ ہماری روزمرہ زندگی میں رہ نمائی کے لیے دو ہی بنیادی مآخذ ہیں : قرآن کریم اور سنت نبویﷺ۔ مولانا کے سلسلۂ تصنیفات و تالیفات میں ’تجلیاتِ قرآن‘ کے ظہور کے بعد ’ اوراقِ سیرت‘ کی جلوہ گری متوقع اور فطری ترتیب کے عین مطابق تھی ۔ ان کی تصانیف کا ایک امتیازی پہلو یہ ہے کہ یہ عصری تقاضوں کے مطابق یا موجودہ دور میں مسلم معاشرہ کی ضروریات کے اعتبار سے نئے مسائل و معاملات سے بحث کرتی ہیں اور اگر قدیم یا روایتی موضوعات سے تعلق رکھتی ہیں تو ان میں بھی نئے پہلوؤں سے جدید اسلوب میں مباحث ضرور ملتے ہیں اور بحمد اللہ پیش نظر کتاب بھی اس وصف خاص سے خالی نہیں ہے۔
زیر مطالعہ کتاب،جو ۳۸۴ صفحات پر مشتمل ہے،سیرت کے موضوع پر مختلف اوقات میں قلم بند کیے گئے اور مختلف مناسبتوں سے شایع شدہ مضامین کا مجمو عہ ہے۔ اسے روایتی انداز کی تالیفِ سیرت نہیں کہا جا سکتا ،جس میں زمانی ترتیب کے اعتبار سے سیرت نبویﷺ کے واقعات تفصیل سے درج کیے جاتے ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس میں بکھرے ہوئے مضامین اس سلیقہ سے مرتب کیے گیے ہیں کہ ایک مربوط تالیف کے مستقل ابواب بن گئے ہیں ۔ مرتب گرامی کے بیان کے مطابق کتاب کے مضامین کو تین ابواب ( آب و تابِ سیرت، دعوتِ اسلام اور علمی احسانات) میں تقسیم کیا گیا ہے ( پیش لفظ ص۱۴)، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھیں تین حصے کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔اس لیے کہ ہر حصہ کے تحت جو مضامین مرتب کیے گئے ہیں ان میں سے ہر ایک کی حیثیت ایک مستقل باب کی ہے ۔ ناچیز نے سہولت کی خاطر اس کتاب میں شامل ہر مضمون کا مطالعہ ایک مستقل باب کی حیثیت سے کیا ہے اور اسی کے مطابق پیش نظر مطالعہ میں ابواب کا حوالہ دیا گیا ہے۔ کتاب کی ترتیب میں ایک اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہر مضمون؍باب کے آخر میں اس کی اولین اشاعت کی تفصیلات درج ہیں،جس سے اس کے زمانۂ تحریر اور پس منظر کا اندا زہ ہو جا تا ہے۔اس تصریح کی وجہ سے کتاب کے مشتملات کا پایۂ استناد اور بڑھ گیا ہے ۔ ’اوراقِ سیرت‘ کے مطالعہ سے ایک اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ ا س میں دعوتی اسلوب غالب ہے۔ آغازِ رسالت، ختم الرسل ﷺ ، دعوتِ دین کے مختلف مراحل، ہر مرحلہ کی اہمیت و نزاکت، دعوتِ دین کے فروغ کے لیے نبی کریم ﷺ کی اختیار کردہ تدابیر یا حکمتِ عملی اور اس راہ میں آپؐ اور صحابہ کرام ؓ کو لاحق ہونے والی ابتلاء و آزمائش کے واقعات کا احاطہ کرنے کے ساتھ ان کا مطالعہ و تجزیہ اس طور پر پیش کیا گیا ہے کہ ان سے عام قارئین کی فیض یابی کے علاوہ خاص طور سے دعوت و تبلیغ کی خدمت انجام دینے والوں کو بڑے قیمتی اسبا ق اور رہ نما خطوط ملتے ہیں۔ اس کتاب سے حیاتِ طیبہ کے بعض ایسے گوشے بے نقا ب ہوتے ہیں جو سیرت کی روایتی کتب میں عام طور پر نہیں ملتے۔
کتاب چھوٹے بڑے ۲۲ ابواب پرمشتمل ہے۔ابواب کے حجم میں عدمِ توازن کا احساس ہوتا ہے۔ بعض ابواب ( مثلاً ختمِ نبوت، مواخاتِ مکّہ ،صلحِ حدیبیہ کے معاہدے کی ایک شرط، کتاب و سنت اساسِ دین ہیں) بہت مختصر ( بعض محض پانچ چھ صفحات پر مشتمل) ہیں۔ دوسرے کہ یہ مختصر مضامین وہ ہیں جن میں سیرت نبویﷺ کا کوئی خاص واقعہ یا پہلو زیرِبحث آیا ہے ۔ بہر کیف کتاب کے لیے ان مضامین پر نظر ثانی اور ان کی تہذیب وتنقیح کے وقت ان مختصر ابواب کے مواد میں کچھ اور اضافہ ہوجائے تو بہتر ہے۔ زیرِ مطالعہ کتاب کے ابواب کے مشتملات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان میں حیاتِ نبویﷺ کے مکی و مدنی دونوں دور کے اہم پہلوؤں ( حیات طیبہ اور تعلیمات،آ ٓخری رسول ﷺ کے امتیازات ، نبوت سے سرفرازی،دعوت کا آغا ز اور ارتقائی مراحل، آزمائشی حالات اور اہلِ اسلام کی ثابت قدمی ، ہجرتِ حبشہ کی اہمیت اور اس کے دور رس نتائج،دعوتِ دین کے فروغ میں مخالفین اور غیر مسلم سرداران قبائل کا تعاون، ہجرت ِ مدینہ کی اہمیت اور ا س کے ثمرات ،نبی اکرم ﷺ کی تبلیغی ہدایات اور فروغِ دعوت کے عملی اقدامات ،دعوتی مکاتیبِ نبویﷺ، عرب کے وفود کی آمد اور تبلیغِ دین، حضور اکرم ﷺ اور علم کی اشاعت ، اصحابِ صفہ کی تعلیمی سرگرمیاں اور ان کے معاشی کوائف) کا ا حاطہ کیا گیا ہے۔ زبان کی سادگی، ادب کی چاشنی، اسلوب کی دل کشی، تحقیقی معیار اور علمی انداز بیان مولانا کی تحریروں کا خاصّہ ہے جو اس کتاب میں بھی بخوبی نمایاں ہے۔ کسی مصنف یا مولف کی سب سے بڑی کام یابی یہ ہے کہ وہ اپنی تحقیقات یا نتائجِ فکر اس زبان و اسلوب میں پیش کرے جسے قارئین کی اکثریت سمجھ جائے۔ اس لحاظ سے زیر مطالعہ کتاب کے مصنفِ محترم قابلِ مبارک باد ہیں۔
سیرت کے اہم گوشے
ا ولین باب( رحمۃً للعالمینﷺ۔ سیرت وتعلیمات) ایک طرح سے سیرت کا خلاصہ ہے۔ اس کے تحت حیات طیبہ کے اہم گوشوں کو نمایاں کرنے کے علاوہ آپ ؐ کی سیرت و کردار کے جو امتیازی پہلو اجاگر کیے گئے ہیں وہ بڑے قیمتی و لا ئقِ مطالعہ ہیں ۔ مصنف محترم نے سیرتِ نبوی ﷺ کا کمال یہ قرار دیا ہے کہ آپ ؐنے صحیح عقیدہ، اخلاق حسنہ، عدل وانصاف، انسانوں کے درمیان مساوات ، کم زوروں کے حقوق کی حفاظت اور دین حق کی خاطر او ر انسانیت کی بھلائی کے لیے صبر و تحمل، ثبات و استقلال، عفو و درگذر، ایثار و قربانی کا نہ صرف درس دیا، بلکہ عملاً ا نھیں قایم کیا اور اس نظامِ احسن کو برپا کرنے میں آپ ؐ نے مسلسل جد و جہد کی اور بے مثال قربانی دی (ص۳۶۔۳۷) ۔ ان موضوعات سے متعلق قرآنی آیات، احادیث اور سیرت کے واقعات نقل کر کے صاحبِ کتاب نے دل میں گھر کرجانے والا یہ تاثر ظاہر کیا ہے: ’’ یہ تھے اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ۔ جو شخص بھی آپ کی زندگی،آپ کی تعلیمات اور نوع انسانی کی فلاح کے لیے آپ ؐ کی جد وجہد کو دیکھے گا، اس کا دل بے اختیار پکار اٹھے گا کہ آپ ؐ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول اور نوعِ انسانی کے سب سے بڑے محسن تھے‘‘ (ص۳۹)۔ باب ’ آخری رسول۔آخری رہ نما‘ میں ختم الرسل ﷺ کی بعثت،اس کا پس منظر،اہلِ کتاب و دیگر قوموں کے بگڑے ہوئے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے مصنف ِ موصوف نے واضح کیا ہے کہ ظلمت سے بھری ہوئی دنیا اس بات کی محتاج تھی کہ اسے دین حق سے روشناس کرایا جائے اور صراط مستقیم پر چلایا جائے۔اسی مقصد سے آخری رسول کی بعثت ایک ایسے مکمل ہدایت نامے کے ساتھ ہوئی جو حق وباطل کو الگ الگ کردینے والا اور ساری دنیا کو راہِ حق دکھانے والا تھا۔اسی ضمن میں نبی آخر الزماں ﷺ کی رسالت کا یہ امتیاز واضح کیا گیا ہے کہ آپؐ کی بعثت کسی خاص قوم،قبیلہ اور ملک کے لیے نہیں ہے ،بلکہ ساری دنیا کے لیے تھی اور جملہ انسانیت کا فائدہ آپ کے پیشِ نظر تھا۔آپ ؐ نے بغیر کسی تفریق کے سب کو اسلام کی دعوت دی اور ایک بہت بڑی،لیکن ناقابلِ فراموش حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہر زمانہ میں اسلام رہا ہے اور یہ کہ اسلام کے علاوہ کوئی دین قابلِ قبول نھیں( انّ الدین عند اللہ الاسلام [ آل عمران؍۱۹]؍ بے شک دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے) (ص۵۳۔۵۴)۔ اسلام کیا ہے؟،اس کی بنیادی تعلیمات کیا ہیں؟ اسلام کی بنیاد پر آپؐ نے جو امت تشکیل دی اس کی خصوصیات کیا ہیںاور اس کا سب سے اہم بڑا فریضہ کیاہے ؟امتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ا ن سب نکات سے تفصیلی بحث کے بعد مولانا نے نہایت جامع اور دل نشیں انداز میں امتِ مسلمہ کا فرض منصبی ( شہادت علی الناس) یاد دلایا ہے ،جس کی اہمیت و معنویت ہر دور میں مسلّم ہے۔ خود ان کے اپنے الفاظ میں:
’’ اس امت کا کام یہ ہے کہ وہ حق کو حق کہے اور باطل کو باطل،جو بات اللہ کے دین کے مطابق ہو اس کی تائیداور جو اس کے خلاف ہو اس کی تردید کرے،خیر کا حکم دے اور شر سے منع کرے، بھلائیوں کی ترغیب دے اوربرائیوں سے دور رکھنے کی سعی وجہد کرے۔وہ جس دین کی عَلَم بردار ہے وہ ایک دعوت ہے جو ہر حال میں دی جائے گی ،وہ ایک پیغام ہے جو سب تک پہنچایا جائے گا،راحت میں بھی،تکلیف میں بھی،آسانی میں بھی ،دشواری میں بھی،بے سر وسامانی میں بھی اور ساز وسامان کے ساتھ بھی۔ اگر اقتدار حاصل ہوجائے تو اقتدارکی طاقت بھی اس پاک مقصد کے لیے استعمال ہوگی‘‘( ص۵۷)۔
رسالت
’سیرت ۔ دلیلِ رسالت‘ موضوعِ بحث اور مشتملات کے لحاظ سے بہت اہم باب ہے۔اولین باب ( رحمۃ للعالمین۔ سیرت اور تعلیمات) کے آخر میں آپ ؐ کی سیرت کی پختگی و پاکیزگی،کردار کی بلندی،حسنِ اخلاق اور جذبۂ انسانی، خیر خواہی پر مختصر اً روشنی ڈالی گئی تھی یا کچھ اشارات دیے گئے تھے۔ اس بحث میں کچھ تشنگی محسوس ہورہی تھی۔زیر نظر باب سے یہ کمی دور ہوگئی ہے۔’سیرت پاک ﷺ خود آپ ؐ کے رسول بر حق ہونے کی دلیل ہے‘۔اس پہلو سے سیرتِ طیبہ کا مطالعہ بہت کم کتابوں میں ملتا ہے۔ مولانانے اپنی کتاب میں اس پہلو کو خاص طور سے نمایاں کیا، اس طرح مطالعۂ سیرت کا ایک نیا رخ پیش کیا ہے اور بڑی تفصیل سے آپ ؐ کی سیرت و کردار کے مثالی پہلووں کو اس طور پر اجاگر کیا ہے کہ وہ آپ ؐ کی رسالت کی صداقت و حقانیت کے مضبوط دلائل بن گئے ہیں۔ اس ضمن میں خاص طور سے سیرتِ پاک کے ان پہلوؤں کو نمایاں کیا گیا ہے:متانت و سنجیدگی،راست بازی، یقینِ کامل،اللہ تعالیٰ سے مثالی تعلق، قول و فعل میں مطابقت،انسانیت کی خیرخواہی، نام و نمود سے اجتناب،دنیا سے بے رغبتی اور انتہائی سادگی۔اہم بات یہ کہ ان تمام اوصاف و کمالات سے متعلق آپؐ کی حیاتِ مبارکہ سے عملی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں، جس نے اس پوری بحث کو اور زیادہ مستحکم اور با معنیٰ بنا دیا ہے۔آخر میں مصنف محترم نے نتیجہ کے طور پر یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ ان نادر خصوصیات کی حامل سیرت کی ایک خاص بات اس کی زبردست قوتِ تاثیر تھی،یعنی جن افراد کو آپؐکا فیض ِ صحبت نصیب ہوا وہ آ پ ؐ کے عکسِ کامل بن گئے( ص۸۳)۔پھر آپ ؐ کی صحبت و تربیت سے فیض یافتہ متعدد اصحاب کرامؓ کی زندگی کے واقعا ت نقل کر کے یہ قیمتی نکتہ بھی اخذ کیا گیا ہے کہ ’’ محمد ﷺ کو رسول ماننے والوں کا یہ یقین،ایمان اور یہ قربانیاں آپ ؐ کے بر حق ہونے کی زبردست دلیل ہیں، اس لیے کہ آج تک اس کی کوئی مثال نہیں ہے کہ کسی جھوٹے نے دوسروں کو صداقت کا پابند بنا دیا ہو، کسی خدا سے بے خوف انسان نے اپنے ساتھیوں کے اندر اس کا خوف و خشیت پیدا کردی ہو اور کسی پست سیرت آدمی کی صحبت سے لوگوں کی سیرت بلند ہوگئی ہو‘‘ (ص۸۷)۔
’ ختمِ نبوت۔وجوہ و اسباب‘ کتاب کے مختصر ابوا ب میں سے ہے ،لیکن اس میں دو اہم نکتے ملتے ہیں:اول یہ کہ ختمِ نبوت کا اعلان در حقیقت ایک بہت بڑی حقیقت کا اعلان ہے اور وہ یہ کہ آخری رسولﷺ کی رسالت عالم گیر رسالت ہے، یعنی آپؐصرف اس دور کے پیغمبر نہیں جس میں آپ ؐ پیدا ہوئے،بلکہ ہر دور میں آپؐ کی اتباع فرض ہے، آپؐکی بعثت کسی خاص خطۂ زمین اور کسی خاص قوم کے لیے نہیں ہوئی تھی، بلکہ آپؐ کو ہر خطۂ زمین اور ہر قوم کے لیے بھیجا گیا تھا۔دوسرے یہ کہ نجات کے لیے آپ ؐ کی اتباع ضروری ہے۔یہ بات در اصل آپ ؐ کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول ماننے کا لازمی تقاضا ہے( ص ۸۹۔ ۹۱ ) ۔ ان حقائق کے علاوہ صاحبِ کتاب نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ تمام انسانوں کے لیے آپ ؐ کی اتباع کے لازم ہونے کی دو خاص وجوہ ہیں: پہلی وجہ دنیا کی وہ عمومی (بگڑی ہوئی اور جہالت زدہ) حالت ہے جو آپ ؐ کی بعثت کے وقت تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ کا پیغام آپؐ کے ذریعہ انسانوں کو آخری بار ملا ۔( ص ۹۲۔۹۳) ۔ بہتر ہو تا کہ اس مختصر باب کے مشتملات کو ’ آخری رسول۔آخری رہ نما‘کے مباحث کے ساتھ ضم کردیا جاتا، جہاں ختم نبوت کے اعلان کا مختصر ذکر ملتا ہے۔
دعوت کا آغاز
’نبوت سے سرفرازی اور دعوت کا آغاز‘ مکی عہدِ نبویﷺ کی تاریخ کا بہت اہم باب ہے ۔ سورہ المدّثّر کی اولین آیات کے نزول (یعنی انذار کے پہلے حکم) کے بعد آپ ؐ نے دعوت و تبلیغ کا کام با قاعدہ شروع کیا، جو مختلف مراحل سے گزر کر تکمیل کو پہنچا۔ مصنف موصوف نے اس سلسلہ میں یہ بنیا دی نکتہ واضح کیا ہے کہ اس کام میں آپ ؐ نے جو تدابیر و حکمت عملی اختیار کی وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور اس کی عطا کردہ بصیرت کے مطابق تھی ۔ اسی کے تحت آپ ؐ نے ابتدا میں انفردای طور پر لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلایا اور خاص طور سے ان فراد کو جن سے آپؐقربت اور یگانگت محسوس کرتے تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً تین برس تک جاری رہا اور اس کے بڑے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔اس ضمن میں ان تمام حضرات کے نام کے ساتھ ان کے قبول اسلام کی تفصیلات دی گئی ہیں جو اس مرحلہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ یہاں یہ اہم نکتہ بھی اجاگر کیا گیا کہ آپؐ کی دعوت پر اولین لبیک کہنے والوں نے تبلیغ ِ دین کا وہی طریقہ اپنایا جو ہادیِ بر حق کا تھا اور اس کے نتیجہ میں اسلام کا دائرہ بڑھتا رہا اور اسی مرحلہ میں ایسی شخصیات نے اسلام قبول کیا جو دین کی خاطر اپنا سب کچھ( دل ودماغ،جسم وجان اور مال ودولت) قربان کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے اور آپ ؐ کی پکار پر ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہتے تھے۔ اس سلسلہ میں مصنف گرامی نے حضرت ابو بکرؓ کی قربانیوں اور دین کے لیے ان کی بے مثال خدمات کا خصوصی ذکر کیا ہے اور اس کا اختتام حضور اکرمﷺ کے اس قیمتی تاثر پر کیا ہے: ’’ جس کسی نے ہم پر ا حسان کیا ہم نے اس کا عوض دے دیا،سوائے حضرت ابو بکرؓ کے۔ بے شک ہم پر ان کا اس قدر احسان ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی جزا دے گا۔کبھی کسی شخص کے مال نے مجھے اتنا نفع نہیں پہنچایا جتنا کہ ابو بکرؓکے مال نے پہنچایا‘‘ ۔ یہ الفاظ مبارک سن کر حضر ت ابو بکرؓ نے جو جواب دیا اس میں دین کی خدمت کرنے والوں کے لیے نہایت اہم درس ملتا ہے ۔ ایک روایت کے مطابق ’’ یہ ارشاد سن کر حضرت ابو بکرؓ کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں اور فرمایا: اے اللہ کے رسول! میں اورمیرا مال آپ ہی کے لیے تو ہے‘‘ (ص۱۱۴)۔ حضرت ارقم بن ارقمؓ ان لوگوں میں شامل ہیں جو حضرت ابو بکرؓ صدیقؓ کی تبلیغ کے نتیجہ میں اس وقت اسلام سے مشرف ہوئے جب اہلِ اسلام کی تعداد دس سے زیادہ نھیں تھی۔ ان کا مکان (جسے انھوں نے خود پیش کیا تھا اوروہ دارِ ارقم کے نام سے مشہور تھا ۔) مکہ میں تعلیم کا اولین مرکز کہا جاتا ہے اور عام طور پر اس حیثیت سے سیرت کی کتابوں میں اس کا ذکر آتا ہے،لیکن زیر مطالعہ کتاب سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یہ مکان دار لتعلیم،دار التبلیغ ، دار التربیت اور دار المشورۃ سب کچھ تھا اور آبادی سے کسی قدر دور صفا پہاڑی پر واقع ہونے کی وجہ سے خاموش تبلیغ کے لیے بہت موزوں تھا، اسی لیے یہ تین سال تک دعوت و تبلیغ کا مرکز بنا رہا( ص۱۱۵)۔
اس بحث کے آخر میں صاحبِ کتاب نے اس بات پر خاص زور دیا ہے کہ دعوت کے اولین مرحلہ میں نبی کریم ﷺ نے اس کی اشاعت کے لیے ہدایات ربّانی کے فیض سے جو حکمتِ عملی یا اسٹریٹجی اختیار کی، اس میں لوگوں کی نفسیات، ماحول کی رعایت اور وقت کا تقاضا پوری طرح کار فرما تھا ۔ بلا شبہ یہ حکمتِ عملی بہت کار گر ثابت ہوئی، جیسا کہ تاریخی حقایق اس کے گواہ ہیں کہ محض تین سال کی مختصر مدت میں آ ٓپؐ کے رفقاء کی خاموش تبلیغ کے نتیجہ میں مکہ کا جوہر خالص آہستہ آہستہ اسلام کی طرف کھنچنے لگا اس دور میں کثیر تعداد میں جو لوگ اسلام لائے ان میں کوئی ایسا نہ تھا جو زرِ خالص ثابت نہ ہوا ہو۔یہ تمام باتیں نبی بر حق ﷺ کے طریقۂ کار کی کام یابی کی واضح دلیل پیش کرتی ہیں( ص ۱۱۷)۔’ السا بقون الاولون‘در اصل ما قبل بحث کا تکملہ ہے۔اس باب ؍ مضمون کوا سی کے ساتھ ضم کر دینا زیادہ موزوں تھا،اس لیے کہ اس میں ان لوگوں کے احوال و کوائف بیان کیے گئے ہیں جنھوں نے دعوت کے اولین دور یا خاموش تبلیغ کے زمانہ میں آپؐکی دعوت پر لبیک کہا۔سب سے پہلے ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو دور جاہلیت میں بھی بت پرستی کے مخالف تھے اور تلاشِ حق میں سر گرداں رہتے تھے۔ ٍٖٓؒ چنانچہ جب بعثت نبویﷺ کے بعد انھیں توحید کی دعوت دی گئی تو انھوں نے اسے اپنے دل کی آواز محسوس کرکے اس پر لبیک کہا،اسی میں انھیں خیر و بھلائی نظر آئی۔ اس کے بعد ان قدیم الاسلام اصحاب کرام( جن کا ذکر اس سے پہلے کے باب میں بھی آچکا ہے) کا تذکرہ ہے جو دور جاہلیت میں طبیعت کی نیکی اور صالحیت کے لیے معروف تھے اور انھوں نے وعوت کے اولین مرحلہ میں ہی اس کا بخوشی استقبال کیا تھا ۔ ان سابقین اولین کے احوال کے تجزیہ کی روشنی میں مصنف محترم نے جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ بالکل نئے ہیں۔ ان کا ذکر اہمیت سے خالی نہ ؎چنانچہ جب بعثت نبویﷺ کے بعد انھیں توحید کی دعوت دی گئی تو انھوں نے اسے اپنے دل کی آواز محسوس کرکے اس پر لبیک کہا،اسی میں انھیں خیر و بھلائی نظر آئی۔ اس کے بعد ان قدیم الاسلام اصحاب کرام( جن کا ذکر اس سے پہلے کے باب میں بھی آچکا تھا) کا تذکرہ ہے جو دور جاہلیت میں طبیعت کی نیکی اور صالحیت کے لیے معروف تھے اور انھوں نے وعوت کے اولین مرحلہ میں ہی اس کا بخوشی استقبال کیا تھا ۔ ان سابقین اولین کے احوال کے تجزیہ کی روشنی میں مصنف محترم نے جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ بالکل نئے ہیں۔ ان کا ذکر اہمیت سے خالی نہ ہو گا: (۱)اس دور میں سردارانِ قبائل یا مکہ کی سربرآوردہ شخصیات کی توجہ اسلام کی طرف کم ہوئی، در اصل ان کا غرور و تکبر اس میں مانع بنا رہا (۲) نو جوانوں نے آگے بڑھ کر اسلام کا استقبال کیا، اس لیے کہ ان پر باطل عقاید و افکار کی چھاپ گہری نہیں تھی، دوسرے انھیں اپنی چودھرا ہٹ کے ختم ہو جا نے کا خطرہ نہیں تھا (۳) کم زور طبقہ کے لوگوں نے بھی اسلام قبول کرنے میں پیش قدمی دکھائی، اس لیے کہ انھیں اسلام اپنا ہم درد اور خیر خواہ معلوم ہوتا تھا اور اس کے دامن میں پناہ لینے میں انھوں نے اپنی عافیت سمجھی(ص۱۲۶۔۱۲۷)۔
چنانچہ جب بعثت نبویﷺ کے بعد انھیں توحید کی دعوت دی گئی تو انھوں نے اسے اپنے دل کی آواز محسوس کرکے اس پر لبیک کہا،اسی میں انھیں خیر و بھلائی نظر آئی۔ اس کے بعد ان قدیم الاسلام اصحاب کرام( جن کا ذکر اس سے پہلے کے باب میں بھی آچکا تھا) کا تذکرہ ہے جو دور جاہلیت میں طبیعت کی نیکی اور صالحیت کے لیے معروف تھے اور انھوں نے وعوت کے اولین مرحلہ میں ہی اس کا بخوشی استقبال کیا تھا ۔ ان سابقین اولین کے احوال کے تجزیہ کی روشنی میں مصنف محترم نے جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ بالکل نئے ہیں۔ ان کا ذکر اہمیت سے خالی نہ ہو گا: (۱)اس دور میں سردارانِ قبائل یا مکہ کی سربرآوردہ شخصیات کی توجہ اسلام کی طرف کم ہوئی، در اصل ان کا غرور و تکبر اس میں مانع بنا رہا (۲) نو جوانوں نے آگے بڑھ کر اسلام کا استقبال کیا، اس لیے کہ ان پر باطل عقاید و افکار کی چھاپ گہری نہیں تھی، دوسرے انھیں اپنی چودھرا ہٹ کے ختم ہو جا نے کا خطرہ نہیں تھا (۳) کم زور طبقہ کے لوگوں نے بھی اسلام قبول کرنے میں پیش قدمی دکھائی، اس لیے کہ انھیں اسلام اپنا ہم درد اور خیر خواہ معلوم ہوتا تھا اور اس کے دامن میں پناہ لینے میں انھوں نے اپنی عافیت سمجھی(ص۱۲۶۔۱۲۷)۔
علانیہ تبلیغ
تین برس خاموش تبلیغ کے بعد علانیہ انذار کا حکم ملنے پر نبی کریم ﷺ نے اس کے لیے کیا طریقۂ اختیار کیا اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے، باب ’دعوت عام (اہلَ خاندان سے خطاب) ‘ میں اس کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔اس ضمن میں ایک مفید بحث ان اسباب و حِکم کی وضاحت( جو سیرت کی عام کتابوں میں نہیں ملتی) ہے جو سب سے پہلے اہل خاندان کو انذار کرنے کے پیچھے کارفرما تھے۔ ان کو مختصراً اس طور پر بیان کیا جا سکتا ہے:(۱)ہر شخص کا سب سے زیادہ حق اپنے خاندان والوں پر ہوتاہے، اس لیے وہ سب سے پہلے اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ انھیں اچھی بات بتائی جائے اور اللہ کے دین سے بڑھ کر اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟(۲)اہلِ خاندان کو انذار سے اس طرف متوجہ کرنا مقصود تھا کہ ساری دنیا کی طرح ان کے گھر اور خاندان والوں کی نجات بھی ایمان و عمل سے وابستہ ہے، نہ کہ پیغمبر ﷺ سے نسبی و خاندانی قربت سے(۳) آپ ؐکے قریبی لوگ آپ ؐ کی سیرت و کردار کی پاکیزکی و عظمت کے معترف تھے، اس لیے انھیں یہ بتا نا بہت ضروری تھا کہ محض آپؐ کی تعریف و توصیف سے وہ عذاب نہیںٹل سکتا جس سے انھیں ڈرایا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ایمان وعمل صالح کا سرمایہ رکھنا ضروری ہے(۴) سیاسی و سماجی اعتبار سے نبی برحق ﷺ کے خاندان کی برتری سارے عرب میں مسلّم تھی۔ ان کی اصلاح پر خصوصی توجہ اس لیے دی گئی کہ وہ دوسروں کی اصلاح کا ذریعہ بن جائیں (ص ۱۳۳۔۱۳۴)۔
اسی بحث میں مصنف موصو ف نے اس پہلو پر خاص زور دیا ہے کہ آپ ؐ نے قریش کی ایک ایک شاخ کو مخاطب کرکے جو انذار کیا اور آخر میں اپنے چچا ( عباس ؓبن عبد ا لمطلب)، پھوپھی( حضرت صفیہؓ)اور صاحب زادی( حضرت فاطمہؓ) کا الگ الگ نام لے کر انھیں مخاطب کرکے یہ پیغام دیا کہ آپ لوگ خود اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائیے ( یعنی ایمان و عمل صالح کی زندگی گزارے )، قیامت کے دن میں آپ لوگوں کے کچھ کام نھیں آ سکتا۔اس سے در حقیقت سب کے سامنے صاٖ ف لفظوں میں یہ اعلان کرنا تھا کہ ہر شخص کی نجات اور حقیقی کامیابی کا دارومد ار صرف اور صرف اس کا عقیدۂ صالح اور نیک عمل ہے، نبی سے نسبی رشتہ یا خاندانی قربت بھی اس میں کچھ کام نھیں آ سکتی(ص۱۳۵۔۱۳۶)۔ باب کے آخر میں مصنف گرامی نے یہ واضح کیا ہےکہ اسوۂ نبویﷺ کی پیروی میں صحابہ کرامؓ نے دعوت و تبلیغ کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا اور سب سے پہلے اس سلسلے میں اپنے خاندان کو اہمیت دی، اس لیے کہ خاندان سماج کا بنیاد ی ادارہ ہے، اسی سے پورے سماج کی صورت گری ہوتی ہے۔ اگر کوئی اس محاذ پر کام یابی حاصل کرلے، تو دوسرے محاذوں پر کام یابی ملنے میں آسانی ہو تی ہے(ص۱۴۴۔۱۴۵)۔یہ بات بخوبی معروف ہے کہ مکی دور میں رسولِ اکرم ﷺ اور آپ کی دعوت پر لبیک کہنے والے بڑی کٹھن آزمائشوں اور نہایت سخت ا متحا نا ت سے گزرے ہیں۔ یہ سیرت نبوی ﷺ کا نہایت اہم باب ہے۔ زیر مطالعہ کتاب میں اس کے بارے میں تفصیلی معلومات اس عنوان ’ وہ ا س طرح آزمائے گئے‘ کے تحت فراہم کی گئی ہیں اور محولہ واقعات کا باریک بینی سے تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے۔سب سے پہلے اس قیمتی نکتہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دینِ حق کی دعوت و تبلیغ کی راہ میں آزمائشیں، مشکلات اور پریشانیاں آتی رہی ہیں، لیکن وہ زیادتیاں و جفا کاریاں قابلِ دید اور لایق عبرت ہیں جو ’’ دنیا کے سب سے اعلیٰ اور سب سے اشرف انسان( صلی اللہ علیہ وسلّم) کے ساتھ روا رکھی گئیں‘‘۔ اس ضمن میں مستند مآخذ کے حوالہ سے جو واقعا ت بیان کیے گئے ہیں ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مکی دور ابتلاء میں آپ ؐ پر سب سے زیادہ سخت دن طائف میں وہاں کے سرداروں کو دین کا پیغام پہنچاتے ہو ئے گزرا اور اس کی تصدیق بھی آپ ؐ کے تاثر سے ہوتی ہے جسے صحیح بخاری کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان سخت ترین آزمائشی حالات سے متعلق آپ ؐ کے اس قول کا بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ ’’ مجھے اللہ کی راہ میں جتنا ہراساں کیا گیا، مجھے اللہ کی راہ میں جتنی اذیتیں پہنچیں اتنی کسی کو نھیں۔‘‘ مصنفِ محترم کی اس وضاحت سے ارشاد گرامی ﷺ کی معنویت اور مبرہن ہو جا تی ہے: ’ رسول اللہ ﷺ کو جو جسمانی تکلیفیں پہنچیں بعض صحابہ ٔ کرام کو ان سے زیادہ تکلیفیں پہنچیں ۔ ان تکالیف سے آپ ؐکو ذہنی و روحانی صدمہ پہنچتا تھا، اس لیے کہ یہ تکلیفیں آپ ؐ پر ایمان ہی کے نتیجہ میں صحابہ کو پہنچ رہی تھیں ۔ اس پہلو سے آپ نے سب سے زیادہ تکلیفیں برداشت کیں‘‘ ( ص۱۴۹)۔
آزمائشیں
دین حق کی راہ میں صحابہ کرام کے سخت ترین آزما ئشی حالات کا مطالعہ و تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اس سے جو اہم نتائج سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں:(۱) اہلِ ایمان میں صاحبِ حیثیت و کم زور، خو ش حال و تنگ دست، نعمتوں کے پروردہ و فقر و فاقہ کے مارے ہوئے، سن رسیدہ و نوجوان، مرد و عورت بلا امتیاز سب کو ستایا گیا اور اذیتیں دی گئیں(۲)البۃ کم زور، بے سہارااور غلاموں ( مستضعفین) کو سب سے زیادہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا (۳) صبر و ثبات کے ان پیکروں نے ا ذیتیں سہ لیں، تکلیفیں برداشت کرلیں، لیکن احد احد کی صدائیں لگاتے رہے ، ایمان کی پونجی کو حرز جاں بنائے رہے اور رسول کریم ﷺکی صحبت و رفاقت کو سینہ سے لگائے رہے (۴ ) ان کٹھن اور انتہائی تکلیف دہ حالات میں نبی کریم ﷺ انھیں قرآن کریم کے حوالہ سے صبر و اسقلال واستقامت کی تلقین کرتے رہے اور ا نھیں یہ مژ دہ سناتے رہے کہ اللہ کا وعدہ( اہلِ ایمان کو نصرت، کام یابی و سرخروئی عطا کرنے کا ) پورا ہو کر رہے گا(۵)کم زوروں، مسکینوں اور غلاموں کو اہلِ مکہ کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے اہلِ وسائل صحابہ کرام آگے بڑھ کر اپنا مال واسباب خرچ کر تے رہے یعنی غلاموں کو خرید کر انھیں ظلم و ستم کی چکی سے آزادی دلاتے رہے۔ ان میںحضرت ابوبکر صدیق ؓ پیش پیش رہے ہیں(۶)مظلوم و ستم رسیدہ مسلمانوں کی مدد کے لیے نبی کریم ﷺ نے جو عملی اقدامات کیے ان میں مکہ میں صحابہ کرام کے مابین مواخات کا نظم قایم کر نا بھی شامل تھا، تاکہ سماجی و مالی لحاظ سے مضبوط ا ہلِ ایمان اپنے کم زور بھائیوں کی مدد کرسکیں(۷) ابتلاء و آزمائش کے یہ حالات اوراس میں صحابہ کرام کا مظاہرۂ صبر و ثبات ، مظلوم و مقہور افرادکی انفرادی مد د اور ریاست کی سطح پر اس کے لیے عملی اقدامات ہر دور کے مسلمانوں کے لیے آزمائشی صورتِ حال سے نپٹنے کے لیے بڑا قیمتی سبق دیتے ہیں۔
مکی دور کے سخت آزمائشی حالات کے باوجود نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کی قربانیوں کے نتیجہ میں اسلام کی اشاعت ہوتی رہی اور اہلِ سلام کی تعداد بڑھتی رہی۔دوسری اہم بات یہ کہ ان حالات میں بھی بعض مخالف حلقوں کی حمایت نصیب ہوئی ،جس سے ان حالات سے نپٹنے میں کچھ آسانی ہوئی۔ باب ’ اسلام کی پیش قدمی اور مخالفین کا ردِ عمل ‘ میں یہی امور زیر بحث آئے ہیں۔ باب کے شروع میں ذیلی سرخی کے تحت دو اہم بحثیں ملتی ہیں: قرآن مجید کی اساسی تعلیمات؍ مخالفین کا ردِّ عمل۔ان میں سے پہلی بحث ’دعوت عام‘کے شروع(ص۱۲۸) میں اور دوسری ’ وہ اس طرح آزمائے گئے‘کے تحت شامل کی گئی ہوتی تو زیادہ موزوں تھا۔ ’ مخالف صفوں سے حمایت‘کے پہلو کو واضح کرنے کے لیے ’ابوطالب کی حمایت، حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کا قبول اسلام ، بنو ہاشم کا مقاطعہ اور اس کا خاتمہ‘ کے واقعات تفصیل سے زیرِ بحث آئے ہیں۔ حضرت حمزہؓ و حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کو صحابہ کے لیے باعث تقویت قرار دیا گیا ہے، البتّہ ثانی الذکر کے قبول اسلام کے واقعہ کو کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس سے اہلِ اسلام کو جو مضبوط سہارا ملا اور ان کا حوصلہ بڑھا، اس کے ثبوت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓکا یہ قول نقل کیا گیا ہے: ’حضرت عمرؓکا اسلام لانا عزت و تقویت کا سبب بنا، ان کی ہجرت نصرت کا اور ان کا دورِ امارت رحمت کا ذریعہ ثابت ہوا۔قسم خدا کی، حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے پہلے ہم کھل کر بیت اللہ کے پاس نماز نہیں پڑھ سکتے تھے‘(ص۱۸۸)۔بنو ہاشم کے مقاطعہ کے دوران مخالفین کی صفوں سے حمایت کا پہلو یہ پیش کیا گیا ہے کہ بنو ہاشم ہی کے کچھ لوگوں کی پہل اورکوشش( جنہیں ابو طالب کی حمایت حاصل تھی) پر یہ مقاطعہ ختم ہوا اور اس خاندان کے دوسرے قبائل سے سماجی و معاشی تعلقات بحال ہوئے۔اس ضمن میں یہ بات توجہ طلب ہے کہ ’’ مقاطعہ بنی ہاشم بھی آپؐ ، آپؐ کے اصحاب اور خاندان والوں کے لیے تقریباً دو برس تک بڑی سخت آزمائش کا زمانہ رہا، اس واقعہ کو تفصیل سے اس سے پہلے کے باب ’وہ اس طرح آزمائے گئے‘ میں بیان کیا جانا اور اس کا صرف ضروری حصہ ’مخالفین کی صفوں سے حمایت ‘کے تحت دینا زیادہ مناسب ہوتا۔دوسرے ہجرت حبشہ کا واقعہ بھی مخالفین کی جانب سے حمایت و مدد کی تاریخی مثال پیش کرتا ہے اور یہ تاریخی واقعہ مقاطعہ سے پہلے کا ہے، جیسا کہ اولین باب میں اسی ترتیب سے نقل کیا گیا ہے (ص۳۱)۔ کسی نہ کسی صورت میں زیرِ مطالعہ باب میں ہجرتِ حبشہ کا ذکر آنا چاہیے تھا، گرچہ اس کی اہمیت کے پیشِ نظر اس پر ایک مستقل باب کتاب میں موجود ہے۔
مکہ میں مواخات
ہجرت حیاتِ نبوی ﷺکا ایک انقلابی واقعہ ہے اور اس کے بعد مدنی زندگی میں آپؐکے اولین اہم اقدام کے طور پر مواخات بہت مشہور ہے، جسے سیرت کی ہر کتاب میں ذکر کیا جاتا ہے، لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آپ ؐ نے مکہ میں بھی مواخات کرائی۔ کتاب میں ایک مختصر باب ( مواخا تِ مکہ ) میںاسی سے متعلق ضروری معلومات فراہم کی گئی ہیں۔اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ آپؐنے ہجرت سے قبل مکہ میں ان مسلمان کے درمیان موا خات کرائی تھی جو دائرۂ اسلام میں داخل ہورہے تھے اور اس سے مقصود یہ تھا کہ ہر مسلم بھائی اپنے بھائی کے دکھ درد میں شریک رہے ، اسے تحفظ فراہم کرے اور بوقتِ ضرورت اسے مالی مدد دے۔اہم بات یہ کہ اس ضمن میں مآ خذ کے حوالے سے ان اصحاب کے اسمائے گرامی بھی دیے گئے ہیں جن کے مابین آپ ؐنے اس دور میں بھائی چارگی کا رشتہ قایم کیا۔آخر میں مصنفِ محترم نے ابن تیمیہؒ کی اس رائے کو کم زور قرار دیا ہے کہ مکہ میں مواخات نہیں واقع ہوئی اور اپنی مو قف کی تائید میں ابن حجر کا قول نقل کیا ہے ( ص ۲۰۳۔۲۰۴)۔ مواخات مکّہ کی بحث میں کئی مقام پر ’ مکہ میں مہاجرین کے درمیان مواخات‘الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ اس کے بجائے کہ’ مکہ میں اہلِ اسلام کے درمیان مواخات‘ کی تعبیر اختیار کرنا مناسب تھا، تاکہ کوئی کنفیوزژ ن نہ پیدا ہو۔
ہجرتِ حبشہ مکی عہدِ نبوی ﷺ کا اس لحاظ سے ایک نہایت اہم تاریخی واقعہ ہے کہ دین کی خاطر یہ پہلی ہجرت تھی، جس نے اس طرح کے حالات میں آئندہ کے لیے متعدد مثالیں قایم کیں۔اس تاریخی واقعہ کے مختلف پہلوؤں سے کتاب کے ایک مستقل باب( ہجرتِ حبشہ) میں بڑی تفصیل سے بحث کی گئی ہے اور ان سے بہت سے قیمتی نکات اخذ کیے گئے ہیں ۔یہ اردو زبان میں پہلی مستقل او ر مفصّل بحث ہے۔ اس واقعہ کے پس منظر کے طور پر جو کچھ بیان کیا گیاہے اس سے اچھی طرح ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے ملکوں کے حالات پر آپؐکی گہری نظر تھی اور معاصر حکم رانوں کے مزاج و کردار سے آپؐ بخوبی با خبر تھے۔کفارِ مکہ کی جانب سے اہل اسلام پر شدید اذیتوں اور زیاد تیوں کی صورتِ حال میں مقام ہجرت ( حبشہ) کا انتخاب اور وہاں کے باد شاہِ کے بارنہیں میں آپ ؐ کا یہ تاثر کہ ’ ’و ہ عدل پسند ہے، اس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا، ارضِ حبشہ ارضِ صدق( سچائی کی زمین ) ہے‘‘ ، اسی حقیقت کے شاہد ہیں۔مہاجرین کی تعداد، دوران ِ ہجرت کے اہم واقعات، مہاجرین کو مکہ واپس لانے کے لیے قریشی مہم اور اس کی ناکامی، حضرت جعفرؓکی تاریخی تقریر ،مہاجرین کے پہلے قافلہ کی واپسی،دوبارہ ہجرت اور حبشہ میں قیام کے دوران اہلِ اسلام کے غیر مسلموں سے سماجی و معاشی تعلقات کے انوکھے تجربات،یہ تمام امور زیر بحث آئے ہیں۔ مزید یہ کہ ہجرت ِ حبشہ سے متعلق بعض واقعات کے سلسلہ میں روایتوں میں جو اختلاف ملتا ہے اس کا بھر پور محاکمہ کیا گیا ہے اور ان کے بارے میں مصنف گرامی نے اپنی ترجیحی رائے بھی پیش کی ہے( ص ۲۰۷،۲۰۹، ۲۱۱۔۲۱۵)۔
ہجرتِ حبشہ
ان سب تفصیلات سے عربی مآخذ پر ان کی گہری نظر کا مزید ثبوت ملتا ہے۔ ا ن تفصیلات کا سب سے قیمتی پہلو یہ ہے کہ عام سیرت نگاروں کی طرح مصنف ِ گرامی نے صرف واقعات کا احاطہ نہیں کیا ہے، بلکہ بڑی باریک بینی سے ان کا تجزیہ بھی کیا ہے،جس نے اس بحث کی قدر وقیمت کو دوبالا کردیا ہے۔ انھوں نے ہجرت، حبشہ کے واقعات سے جو اہم نتائج اخذ کیے ہیں وہ یہ ہیں:(۱) مسلمانوں کے لیے اپنے وطن یا ملک سے دوسرے ملک کی طرف ہجرت اسی حالت میں جائز ہے جب ان کے لیے اپنے ملک میں زندگی اجیرن ہوگئی ہو،دین پر قایم رہنا انتہائی دشوار ہوگیا ہو اور دعوتِ دین کی راہیں مسدود وہو گئی ہوں(۲)اللہ کے دین کی خاطر ہر طرح کی قربانی مطلوب ہے، اس لیے کہ اہل ایمان کے لیے اللہ کا دین سب سے زیادہ عزیز ہے،جیسا کہ مہاجرین حبشہ نے کر دکھایا(۳) دین کی خاطر کسی غیر مسلم ملک میں ہجرت کی جاسکتی ہے، اگر وہاں کے حالات اہلِ اسلام کے لیے سازگار ہوں اور انھیں اپنے مذہب پر عمل کی آزادی اور تبلیغ دین کے مواقع میسر ہوں، بشرطے کہ کوئی دارالاسلام ہجرت کے لیے موجود نہ ہو(۴)مسلمان اگر ایسی غیر مسلم حکومت کے تحت رہ رہے ہیں جہاں انھیں امن و امان اور اپنے مذہب پر عمل کی آزادی حاصل ہے اور وہاں کا حکم راں انصاف پسند ہے تو سربراہِ حکومت کے اپنے حریفوں یا مخالفوں سے جنگ یا مقابلہ کی صورت میں مسلمانوں کے لیے اس حکم راں کی حمایت کرنا نہ صرف جائز، بلکہ مطلوب ہے، جیسا کہ نجاشی کی اپنے حر یف یا سلطنتِ حبشہ کے ایک دعوے دار کے خلاف جنگ کے موقع پر مہاجرین نے انھیں بھر پور حمایت دی اور بادشاہ کی فتح کے لیے دعائیں بھی کیں (۵) ہر دور میں مقام، ماحول اور مخاطب کے احوال کے اعتبار سے اسلام کی ترجمانی اور مخالفین و ناقدین کا جواب دینے کے لیے تیار رہنا ضروری ہے ورنہ اسلام کی حقانیت ثابت نہیں ہو پائے گی نہ دعوتِ دین کا حق ادا ہوگا، جیسا کی حضرت جعفرؓ نے نجاشی کی مجلس میں قرآن کریم کے حوالے اٹھائے گئے سوالات کا تشفی بخش جواب دیا اور عقلی دلائل سے بھی اپنی باتوں کو مستحکم کیا، یہاں تک کہ سفرائِ قریش لاجواب ہوگئے(۶)ہر ماحول میں ( خواہ موافق ہو یا مخالف) دین کی تشریح و ترجمانی یا اسلام کے عقائد، بنیادی تعلیمات اور اخلاقیات کی وضاحت بلا جھجھک پوری جراء ت ایمانی کے ساتھ کی جانی چاہیے،جیسا کہ نجاشی کے دربار میں صحابہ کرامؓ نے کیا( ۷) ضرورت کے وقت غیر مسلم حکومت( خاص طور سے اس یقین کے بعد کہ وہ مسلمانوں کی معاون و ہم درد ہے) سے ر ا بطہ و تعاون طلب کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ مصنف گرامی نے ابن ہشام کے حوالہ سے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ غزوۂ خیبر کے دوران ( ۶ھ کا آخر یا ۷ھ) نبی کریم ﷺ نے نجاشی کے پاس اپنا قاصد اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ جو مسلمان حبشہ میں رہ گئے ہیں انھیں مدینہ بھیج دیں۔ اس کے جواب میں نجاشی نے دو کشتیوں کا نظم کرکے باقی ماندہ مہاجرین کو مدینہ روانہ کیا ( ص ۲۲۵]) (۸) حبشہ میں مسلم مہاجرین کی زندگی کا ایک اور پہلو( جس کی تفصیلات اس کتاب میں کم ملتی ہیں) مقامی غیر مسلم باشندوں سے ان کے سماجی و معاشی تعلقات و معاملات اور ان پر مقامی تہذیب و تمد ن کے اثرات ہیں۔ ( اس موضوع پر کچھ تفصیلی بحث استاد گرامی پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی کی کتاب ’’مکی اسوہ نبوی ﷺ۔ مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل‘‘ میں ملتی ہے)۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلم ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے شرعی حدود کے اندر وہاں کے مقامی باشندوں سے سماجی و اقتصادی تعلقات و معاملات قایم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ سیرت کی متداول کتابوں میں ہجرتِ حبشہ کے واقعات بیان تو کیے جاتے ہیں، لیکن اس واقعہ سے کیا اہم نتائج اخذ ہوتے ہیں ،یا جدید دور میں غیر مسلم حکومت کے تحت رہنے والے مسلمانوں کے حالات یا مسلم غیر مسلم تعلقات و معاملات پر انھیں کیسے منطبق کیا جا سکتا ہے، ان نکات سے تعرض کم ہی کیا جاتا ہے۔ ’اوراقِ سیرت‘ میں اس پر مفید بحث اس کا ایک ا ور ا متیازی پہلو ہے۔باب ’ تبلیغِ دین میں غیر مسلم سردارانِ قبائل کا تعاون‘ اور باب ’ اسلام کی پیش قدمی اور مخالف صفوں سے حمایت‘ کے مباحث میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔بہتر ہوتاکہ دونوں ابواب کے مباحث ایک ساتھ مرتب کردیے جاتے۔اس میں پہلے ابو طالب کی حمایت سے مفصل بحث کی گئی ہے ،جو محولہ باب ( اسلام کی پیش قدمی اور مخالف صفوں سے حمایت) میں بھی آچکی ہے۔اس کے علاوہ ابو طالب کی وفات کے بعد بعض مواقع پر ابو لہب اور مطعم بن عدی کی جانب سے نبی کریم ﷺ کی مدد کا تذکرہ ہے۔ اس کے علاوہ مشرکین میں سے ابن الدغنہ نے حضرت ابو بکرؓ کو، ابو جہل یا حارث ابن ہشام نے اپنے بھانجے حضرت عمرؓ کو اور ولید بن مغیرہ نے حضرت عثمان بن مظعون ؓ کو بعض مشکل حالات میں جو پناہ دی یا ان کی حمایت کی، اس کا ذکر ہے ۔ان واقعات سے مصنفِ محترم نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس کا ذکر اہمیت سے خالی نہ ہوگا۔ وہ یہ کہ مشکل حالات یا شدید خطرہ کی صورت میں اگر غیر مسلم کسی مسلم کو( از خود یا عند الطلب) پناہ دےاور اس سے تبلیغِ کے مواقع حاصل ہو ںیا دعوتِ دین کی راہ کھل جائے تو اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ در اصل اس حکمتِ عملی کا حصہ تھا جو مکہ کے ماحول میں نبی کریمﷺ اور آپ ؐ کے اصحاب کرامؓ نے اختیار کی ( ص۲۴۳)۔
قبائل سے ملاقاتیں
اس باب کی دوسری ذیلی سرخی( مکہ کے باہر قبائل میں دعوت و تعاون کی درخواست) کے تحت حج کے موسم میں اطرافِ حجاز سے آنے والے قبائل میں نبی کریم ﷺ کے دعوتی مشن کا ذکر ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ؐ کتنی دل چسپی، محنت و مشقت اور ذمہ داری سے یہ کام انجام دیتے تھے۔ایک ایک قبیلہ کے قیام گاہ کا پتہ لگا کر ان کے سامنے اس طور پر اپنی دعوت پیش کرتے: ’’لوگو لا الہٰ الاّ اللہ کہو فلاح پائو گے، اس کے ذریعہ عرب وعجم سب تمھارے ما تحت ہو جائیں گے۔بت پرستی چھوڑ کر ایمان لائو تو جنت کے وارث ہوگے۔ ‘‘اسی کے ساتھ آپؐان سے یہ بھی کہتے کہ انھیں( قریش کے مقابلہ میں) تحفظ فراہم کریں، تاکہ وہ اپنے رب کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچاسکیں۔اگرچہ ابتداء میں کوئی قبیلہ آپ ؐ کی باتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوا،بلکہ مدعو قبائل کے لوگ جواب میں منفی باتیں ہی کہتے رہے۔آخر کار آپؐ کی جہد مسلسل کے فیض سے مدینہ کے مشہور قبائل میں اوس و خزرج کے قلوب نرم ہوئے اور انھوں نے نہ صرف اسلام قبول کیا، بلکہ آپ ؐ کی حفاظت و دفاع کا وعدہ بھی کیا، جو ہجرتِ مدینہ کے عظیم واقعہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ان تمام تفصیلات سے ایک اہم نکتہ( جس کا ذکر کتاب میں نہیں ملتا) یہ سامنے آتا ہے کہ ایک علاقہ یا ملک کے مخالفینِ اسلام کے مقابلہ میں دوسرے علاقے کے غیر مسلموں سے دعوتِ دین کے فروغ کے لیے تعاون یا مدد طلب کی جا سکتی ہے۔
ہجرتِ مدینہ بلا شبہ سیرتِ نبوی ﷺ کا ایک اہم باب ہے۔ اس سے دعوت و تبلیغ کو نئی جہات ملیں،فتوحات کے دروازے کھلے، اسلامی اداروں کی نشو ونما ہوئی اور اسلامی ریاست کی تنظیم عمل میں آئی۔ ’ اسلامی تاریخ میں ہجرتِ مدینہ کی اہمیت ‘ کے تحت یہی امو ر خاص طور سے قرآن کے حوالے سے زیر بحث آئے ہیں۔اس ضمن میں مصنف ِ محترم کایہ تبصرہ بڑی اہمیت ر کھتا ہے کہ گھر بار، خویش و اقارب، زمین و جائداد اور کار و بار چھوڑنے میں انسان کے لیے بڑی آزمائش ہوتی ہے۔اسی لیے قرآن نے متعدد آیات کے ذریعہ ہجرت سے پہلے اہلِ اسلام کا یہ ذہن بنایا کہ اللہ کے دین کی خاطر ہر تکلیف برداشت کی جاسکتی ہے، اس لیے دین کے لیے گھر بار چھوڑنا اور وطن ترک کر نا بھی پڑے تو ایمان کا تقاضا ہے کہ برضا ورغبت یہ اقدام کر گزرے (ص۲۵۵) ۔ہجرت کے دیرپا نتائج کے طور پر بڑے جامع انداز میں اسلام کی وسعت، تکمیلِ دین( سماجی،معاشی و سیاسی نظام سے متعلق احکام کی تنزیل)، اسلامی حکومت کا قیام، معاشی خوش حالی اور دور دراز علاقوں میں دعوتِ دین کے نفوذ کا ذکر کیا گیا ہے۔انہی وجوہ سے اسلامی تاریخ میں ہجرتِ مدینہ کوسنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے(۲۵۹۔ ۲۶۲)۔ ’’ صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی ایک شرط‘‘ بھی کتاب کے مختصر ابواب میں سے ہے۔اس میں معاہدہ کی ایک شرط( مکہ سے کوئی شخص،خواہ مسلم ہی کیوں نہ ہو مدینہ جائے گا تو اسے واپس مکہ بھیج دیا جائے گا) اس پہلو سے زیر بحث آئی ہے کہ اس کا اطلاق مردوں و عورتوں دونوں پر ہوگا یا صرف مردوں پر؟صاحبِ کتاب نے متعلقہ آیات و احادیث کے گہرے مطالعہ و تجزیہ کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ معاہدہ کی یہ شق صرف مردوں سے متعلق تھی،عورتیں اس میں شامل ہی نہیں تھیں۔اس ضمن میں بخاری کی ایک روایت نقل کی گئی ہے جس میں ’احد‘ (کوئی)کی جگہ ’ رجل‘ (مرد) کا لفظ آیا ہے ۔ دوسرے آپ ؐ کا یہ معمول بھی نقل کیا گیا ہے کہ جو عورتیں اسلام لانے کے بعد مکہ سے مدینہ آئیں انھیں آپﷺ نے واپس نہیں لوٹایااور اگر مشرکین نے اس پر اعتراض کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ معاہدہ مردوں سے متعلق ہے، عورتوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے (ص۲۶۶)۔ مصنفِ گرامی کی تحقیق کے مطابق ان سب باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی رائے صحیح نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ سورۂ ممتحنہ کی آیت؍۹ کے نزول کے بعد معاہدہ کی شرطوں میں کچھ ترمیم ہوئی(ص ۲۶۷۔۲۶۸)۔
دعوتی مساعی
یہ بات بخوبی معروف ہے کہ اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے ، جو تا قیامت ہر دور کے انسانوں کے لیے ہے۔آخری رسول ﷺ نے، جن کے توسط سے اس کی تکمیل ہوئی، عرب اور عرب سے باہر اس کی اشاعت کے لیے مختلف ذرایع اختیار کیے۔ آپؐ کے بعد آپ ؐ کے ماننے والوں کی ذ مہ داری قرار پائی کہ وہ اس کی تبلیغ و اشاعت کے لیے کوشش کریں۔نبی کریم ﷺ نے اس کام کی اہمیت واضح کرتے ہوئے ا نہیں کیسے اس کی طرف متوجہ کیا؟ اس کے لیے انھیں کیا ضروری ہدایات دیں، دعوت کے فروغ کے لیے خود کیا عملی اقدامات کیے؟ یہ تمام باتیں باب ’ رسول اکرم ﷺ کے تبلیغی احکام و ہدایات‘ کے تحت زیر بحث آئی ہیں۔عملی اقدامات میں خاص طور سے مختلف علاقوں میں وفود کی روانگی، مکہ و مدینہ میں اہلِ اسلام کی تعلیم و تربیت کا نظم،یمن، نجران و ہمدان کے قبائل میں دعوت و تبلیغ کے انتظامات کا مفصل تذکرہ ہے۔آخر میں مصنف گرامی نے اس نکتہ پر خاص زور دیا ہے کہ آپ ؐ جو فوجی مہمات روانہ فرماتے تھے ان میں بھی تبلیغ ودعوت کا پہلو غالب رہتا تھا اور غزوۂ خیبر کے دوران آپ ؐ نے حضرت علی ؓ کو علم حوالہ کرتے ہوئے جو ہدایت دی تھی اس سے بخوبی وہ مقصد واضح ہوتا ہے جو ایک مسلمان کے پیش نظر محاذِ جنگ پر بھی ہونا چاہیے اور وہ ہدایت یہ تھی:’’ اللہ تمہارے ذریعہ ایک آدمی کو ہدایت دے ، یہ تمہارے حق میں اس سے بہتر ہے کہ تمھیں سرخ اونٹ دیے جائیں‘‘ ( ص ۲۷۹۔۲۸۰)۔
نبی کریم ﷺ نے مدنی دور میں عرب سے باہر مختلف علاقوں؍ ملکوں میں دعوت دین کے فروغ کے لیے جو اقدامات کیے، ان میںمتعدد سربراہان ِ ریاست اور سردارانِ قبائل کے نام دعوتی مکاتیب ارسال کرنا تھا۔باب ’ رسول اللہ ﷺ کے دعوتی مکاتیب‘ انہی مکاتیب کے تعارف و تجزیہ پر مشتمل ہے۔یہ باب در اصل سابق باب کی توسیع ہے اس لیے زیادہ مناسب تھا کہ اس کے عنوان میں جزوی تبدیلی( رسول اللہ ﷺ کے تبلیغی احکام و ہدایات اور انتظامات) کرکے اس کے آخر میں زیرِ مطالعہ باب کے مشتملات شامل کردیے جاتے ۔ترسیلِ مکاتیب کی تاریخ، مکتوب الیہم کے نام و مقام،مکاتیب کو سرکاری حیثیت دینے کے لیے مروجہ تدبیر پر عمل ا ور مکاتیب کے مضمون کی اجمالی وضاحت اس کے مشتملات کے اہم پہلو ہیں۔مزید براں مصنف محترم نے یہ سوال اٹھاکر اس کا مد لل جواب تفصیل سے دیا ہے کہ کیا آپ ؐ کے مختصر مکاتیب اسلامی عقائد و تعلیمات کی وضاحت کے لیے کافی تھے کہ( ان کے رد کی صورت میں) کہا جا سکے کہ مخاطب نے اچھی طرح سمجھنے کے بعد انہیں رد کیا تھا۔اس کا لبِّ لباب یہ ہے کہ: (۱) جس وقت یہ مکاتیب لکھے گئے اسلام کی دعوت معروف ہو چکی تھی(۲) مدینہ میں اسلام اور اسلامی نظام عملاً قایم ہوچکا تھا،مخالفین کو بھی اسلام کے سمجھانے پوارنظم قایم تھا(۳)یہ مکاتیب جن سفراء کے توسط سے بھیجے گئے تھے وہ اسلام کے ترجمان و نمائندے تھے ، بوقت ضرورت وہ ترجمانی کر سکتے تھے اور بعض نے واقعتاً کیا بھی( ص ۲۸۹۔۲۹۰) ۔آخر میں پوری بحث سے ایک اہم نتیجہ یہ اخذ کیا گیا ہےکہ عہدِ نبوی ﷺ سے ہی تقریر کے ساتھ تحریر بھی دعوتِ دین کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے اور اسے ہر دور میں بحسن و خوبی استعمال کرنا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ دعوت و تبلیغ کے لیے مدعو کی زبان سے واقفیت بہت اہمیت رکھتی ہے، اس لیے ہر دور میں اہلِ اسلام کو مروجہ زبانیں سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
شاہِ روم کو خط
اگلا باب ’ ہرقل شاہِ روم کے نام مکتوب گرامی‘ سابق باب کا تکملہ ہے۔اس میں ہرقل کے نام مکتوب گرامی ﷺ کا مفصل تحقیقی مطالعہ ہے۔اس میں مکتوب کی اہمیت،ترسیل کا زمانہ و پس منظر، مکتوب ملنے پر بادشاہ کا نبی کریم ﷺ کے بارے تفصیلی معلو مات کی طلب، ہرقل کا ( حضرت) ابو سفیا ن سے مکالمہ، ان کے بیانات پر ہرقل کا تبصرہ،مکتوب گرامی کا متن، شاہِ روم کا ردِّ عمل، یہ تمام امور تفصیل سے زیر بحث آئے ہیں۔ رومی سلطنت کے سر براہ کے نام مکتوب نبی ﷺ کی اہمیت واضح کرتے ہوئے مصنفِ محترم نے تحریر فرما یا ہے کہ یہ دنیا کی دو بڑی سلتنطوں میں سے ایک تھی، جو ایک وسیع علاقہ پر حکم رانی کے علاوہ تہذیب وتمدن اور علم وفن کے باب میں بھی دنیا کی قیادت کر رہی تھی۔ اسی ضمن میں ابن قیم کی تالیف ’ زاد المعاد‘ کے حوالے سے یہ روایت بھی نقل کی گئی ہے کہ ’’ رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام سے فرمایا کہ میرا یہ مکتوب قیصر( رومی بادشاہوں کا لقب) کے پاس جو لے جائے گا وہ جنت کا مستحق ہو گا۔مجلس میں سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا یہ ثواب، قیصر اسلام نہ قبول کرے تو بھی ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا :ہاں! اگر وہ اسلام نہ لائے تو بھی ملے گا‘‘ (ص۲۹۲)۔حضرت ابو سفیانؓ( جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے) نے ہرقل کے سوالات کے جواب میں اسلام،رسول اکرمﷺ اور آپ کے متبعین کے بارے میں جو کچھ اظہار ِ خیال کیا، اس پر صاحبِ کتاب کا یہ تبصرہ بہت قیمتی ہے کہ یہ مخالف کی جانب سے حقایق کی صحیح ترجمانی ہے، یہ آپ ﷺ کی بے داغ سیرت کا کرشمہ ہے کہ سخت سے سخت مخالفین بھی اس میں کوئی خامی نہ نکال سکے ۔ ابو سفیان تنہا نہیں تھے ،بلکہ ان کے ساتھ بیس تیس نفر کا قافلہ تھا، لیکن کوئی آپ ؐ کے پاک کردار پر انگلی نہ اٹھا سکا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ہرقل نے حضرت ابو سفیان کے تاثرات سن آپ ﷺ کے نبی برحق ہونے کی گواہی دی( ص۳۰۲)۔ یہ طویل تبصرہ حاشیہ میں دیا گیا ہے۔ بلا شبہ یہ متن میں دینے کے لایق ہے۔ مکتوب سے متعلق تمام معلومات طلب کرنے کے بعد ہرقل کے اصل رویہ ( وہ اسلام لایا کہ نہیں) کے بارے میں مختلف فیہ روایات اور سیرت نگاروں کے بیانات کے ناقدانہ جائزہ کے بعد مصنف گرامی نے اپنایہ موقف واضح کیا ہے کہ کہ ہرقل کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں، لیکن وہ ایمان نہیں لایا۔ تائید میں انہوں نے زاد المعاد کے حوالہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ’’ہرقل نے رسول اللہ ﷺ کو خط کے ذریعہ اپنے اسلام لانے کی اطلاع دی اور کچھ دینار بھی خدمت میں بھیجے۔آپ ؐنے خط دیکھ کر فرمایا کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے، وہ اسلام نھیں لایا، بلکہ نصرانیت پر قایم ہے۔ جو دینار اس نے بھیجے تھے وہ تقسیم فرمادیے‘‘ ( ص۳۰۸)۔اس روایت سے یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ غیر مسلم حکم راں( خواہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو) کے ہدایا قبول کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہیںہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ فتح مکہ کے بعد اشاعتِ اسلام کا دائرہ اور وسیع ہوگیا، لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے اور مدینہ سے باہر بہت سے عرب قبائل نے بھی اسلام کے پیغامِ رحمت کو قبول کیا، پھر دین سیکھنے کی طلب نے ان کا رخ مدینہ کی طرف موڑ دیا۔ ۹ھ میں اس کثرت سے وفود کی آمد ہوئی کہ یہ ’ عام الوفود‘ کہلایا۔ ان کی آمد، تعلیم وتربیت اور واپسی پر تبلیغِ دین کی تفصیلات ایک مستقل باب میں پیش کی گئی ہیں۔ جس کا عنوان ہے:’عرب کے وفود دربارِ رسالت میںان سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرنے والے یا اسلام لا کر حاضر ِ خدمت ہونے والے وفود کوآپ ؐ زبانی افہام و تفہیم کے علاوہ انھیںیہ موقع عنایت فرماتے کہ آپ ؐ کی صحبت میں کچھ عرصہ گزار کر اسلامی زندگی کی عملی تربیت حاصل کریں۔ بعض اوقات آپ ؐ انھیں ضروری مسائل املا کراتے اور رخصت کرتے وقت انھیں انعامات و عطیات سے بھی نوازتے(۳۱۱)۔ مزید یہ کہ آپ ؐ انھیں یہ تاکید کرتے کہ واپس جاکر اپنے علاقے؍ قبیلے کے لوگوں میں دعوت و تبلیغ کا کام انجام دیں گے۔ جن وفود کی مدینہ آمد اور ان کی تعلیم وتربیت کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں وہ یہ ہیں:وفدعبد القیس، قبیلہ عمرو بن سلمہ، وفد بنو لیث، قبیلہ بنو سلیم، قبیلہ بنو سعد اور قبیلہ جہینہ کے نمائندے، وفد بنو کلاب، وفد قبیلہ صداء۔ ان وفود کی آ مد پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنفِ محترم نے بجا تحریر فرمایا ہے کہ’’ یہ وفود ان علاقوں میں اسلام کی اشاعت کا سبب بنے، ان کے ذریعہ پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کا نور پھیلا اور بہت جلد عرب ساری دنیا کے امام و قائد بن گئے‘‘(ص۳۲۳)۔
علمی انقلاب
کتاب کے آخری حصہ( محمد عربی ﷺ کے دنیائے علم پر عظیم احسانات) کا پہلا مضمون؍ باب ’کتاب و سنت اساسِ دین ہیں‘ کے عنوان سے ہے۔ یہ مختصرترین باب ہے، جو محض چار صٖفحات پر مشتمل ہے، لیکن اس میں ایک نہایت اہم نکتہ (ہدایت کے بنیادی مآخذ کیا ہیں) ایک سوال کے جواب میں حدیث ( بالخصوص خطبۂ حجۃ الوداع کے متن)کے حوالے سے واضح کیا گیا ہے۔ اس بحث کا ما حصل یہ ہے کہ ’’ دین کے دو بنیادی مآخذ( قرآن و سنت) ہیں، یہ ہدایت کے وہ سر چشمے ہیں جن سے قیامت تک رہ نمائی حاصل کی جاتی رہے گی اور اختلافات میں رجوع کیا جاتا رہے گا‘‘ (۳۲۸)۔آخر میں قرآنی آیات کے حوالے سے اطاعتِ الٰہی کے ساتھ اطاعتِ رسولﷺ کی لازمیت اور شریعت میں احکامِ نبوی ﷺ کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ یہ مختصر مگر قیمتی بحث سیرتِ نبوی ﷺ کے مطالعہ کی اہمیت اور اور اس سے فیض یابی کی ضرورت اور قدر وقیمت واضح کرتی ہے۔ اگر اسے کتاب کے شروع میں رکھا گیا ہوتا تو اس کی معنویت اور بڑھ جاتی۔ باب ’ علم و حکمت کا کوئی بدل نہیں‘ کے شروع میں اس بات پر خاص زور دیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نہ صرف علم کی اہمیت واضح کی ،بلکہ اسے دینی رخ عطا کیا۔اگر علم کو دینی رخ نہ ملے تو انسان خدائی ہدایت سے محروم رہ کر ضلالت میں بھٹکتا رہتا ہے(ص۳۳۱)۔مصنفِ گرامی کا بیان کردہ یہ نکتہ بھی بہت اہم اور قابلِ توجہ ہے کہ عام علم و فہم اور دینی بصیرت( جسے قرآن’ تفقہ فی الدین ‘سے تعبیر کرتا ہے) یہ سب کا سب عطیۂ الٰہی ہے، نہ کہ انسان کے اپنا ہنر وکمال۔جب یہ اپنا نہیں ہے، دوسرے کا عطا کردہ ہے تو اس پر فخر و تکبر کے کیا معنی؟ جس نے دیا ہے وہ اسے لے بھی سکتا ہے،جس چیز کے باقی رہنے پر انسان قادر نہیں اس پر اترانا کہاں تک صحیح ہوگا؟(ص۲۳۳)۔
حدیث کے حوالے سے اس بات پر خاص زور دیا گیا ہےکہ اصلاً اس علمِ دین کی فضیلت ہے جس کے حصول کا مقصد اسلام کی تبلیغ و اشاعت ہو۔اسی ضمن میں موجودہ مدارس کے فارغین پر فاضل مصنف کا یہ تبصرہ توجہ طلب ہے؛ ’’آج بے شمار لوگ دینی مدارس میںپڑھ تو رہے ہیں لیکن انھیں اپنے مقصد کا شعور تک نہیں ہے اور فراغت کے بعد عام لوگوں کی طرح وہ بھی دنیا کی طلب میں لگ جاتے ہیں۔ ایسا علم کس کام کا؟ اللہ کے یہاں قدر اس علم کی جستجو او ر تلاش کی ہے جو اسلام کو زندہ کرنے کی غرض سے کی جائے، جو قرآن و سنت کی پیروی عام کرنے کے مقصد سے کی جائے‘‘ (۳۳۶)۔ نبی اکرمﷺ کے علمی احسانات میں اس پہلو کو سب سے زیادہ اہم و قیمتی قرار دیا گیا کہ ’’ جس طرح رسول اللہ ﷺ کو بے پناہ علم کا خزانہ اللہ سے ملتا تھا، اسی طرح آپ بے حد وحساب اپنے لوگوں پر لٹاتے تھے۔اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پورا عالم اس علم وحکمت سے روشن ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی علم کے اثرات دکھائی دیتے ہیں وہ سب آپؐہی کا طفیل ہے‘‘(ص ۳۳۸)۔اس نکتہ کی طرف توجہ اصلاً اس حدیث کی تشریح کے ضمن میں دلائی گئی جس میں آپ ؐنے بیان فرمایا ہے کہ سب سے بڑا سخی و ہ ہے جو علم حاصل کرے اور اسے پھیلائے ۔ مزید بر آں ایک حدیث کے حوالے عابد پر عالم کی فضیلت پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور اس کی تائید میں عقلی دلائل دیتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ امت کی رہ نمائی، سربراہی اور قیادت وہی ( یعنی عالم) کرے گا، کسی مسئلہ کا حل وہی بتا ئے گا، قرآن و سنت کے احکام وہی سنائے گا، اللہ اور اس کے رسول کا مقصد و منشا وہی واضح کرے گا،نزاعی معاملات کا فیصلہ وہی کرے گا‘‘ ( ص ۳۴۱)۔ حدیث ’’ فضل العالم علی العابد کفضلی علیٰ ادناکم ‘‘ کے حوالے سے مصنفِ گرامی کا یہ تبصرہ بہت قیمتی ہے کہ : ’’رسول اللہ ﷺ کے یہ مقدس الفاظ علم اور تعلیم کو آسمان کی رفعت عطا کرتے ہیں‘‘( ۳۴۳)۔ اس باب میں علم،حکمت ،تفقہ فی ا لدین یا دینی بصیرت کی اہمیت و فضیلت اور اہلِ علم کی قدر وقیمت کے بارے میں اظہارِ خیال زیادہ تر حدیث کے حوالے سے کیاگیا ہے ، جب کہ قرآن میں ان سب سے متعلق بہت سی آیتیں ملتی ہیں۔مضمون کے آخر میں دیے گئے نوٹ سے اس کی وجہ واضح ہوگئی کہ یہ مضمون در اصل ایک درسِ حدیث کے مشتملات پر مبنی ہے۔
یہ بات بخوبی معروف ہے کہ علم کی اہمیت وافادیت واضح کرنے اور طلبِ علم کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ نے علم کی اشاعت کے لیے عملی اقدامات بھی کیے۔باب’ فروغِ علم کے لیے اقدامات‘میں انہی کا تذکرہ ہے۔باب کے شروع میںجو باتیں (طلب ِ علم کی فضیلت، اس میں محنت وانہماک کی ترغیب، دینی علوم کے اکتساب کی فرضیت، عابد پر عالم کی فضیلت) زیر بحث آئی ہیں، سابق باب میں بھی ان کی تفصیلات گذر چکی ہیں۔ اس باب میں ایک مفید بحث حصولِ علم کے لیے صحابہ کرامؓ کے اہتمام پر ملتی ہے ۔ بجا طور پر یہ واضح کیا گیا کہ یہ اصلاً فیض تھا آپ ؐ کی تعلیمات و ترغیبات کا۔اسی علمی شوق اور اہتمام کا اثر تھا کہ بعض اوقات دو صحابی ؓ آپس میں طے کرلیتے کہ ایک آپ کی مجلس میں حاضر ہو کر علم حاصل کرے گا اور دوسرا اپنی معاشی مصروفیات جاری رکھے گا اور شام کو حاضر رفیق غائب رفیق کو آپ ؐ سے سنی و سیکھی ہوئی باتیں بتا دے گا۔اس طرح آپ ؐ کی مجلس میں حاضر نہ ہو نے والا بھی محروم نہ رہے گا۔ اسی سلسلہ میں یہ واضح کیا گیا کہ آپ ؐ نے مختلف اسلوب و انداز میں صحابہ کرام میں اشاعتِ علم کی تحریک پیدا کی۔ انہی میں ایک یہ ارشاد گرامی ہے کہ سب سے اچھا صدقہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کوئی علم حاصل کرے اور اپنے مسلمان بھائی کو اس کی تعلیم دے۔( ص۳۵۶)۔
علم کا فروغ
علم کے فروغ میں آپ ؐ کے عملی اقدامات میں خاص طور سے مساجد کا ذکر کیا گیا کہ آپ ؐ نے عبادت گاہ کے ساتھ انھیں مراکزِ علم بنا دیا، جہاں سیکھنے سکھانے، قرآن و سنت کی باریکیوں پر غور وفکر کرنے اور احکامِ شریعت کی افہام و تفہیم کا عمل آپ ؐ کی رہنمائی میں مسلسل جاری رہتا تھا۔مسجدِ نبوی ﷺ سے ملحق صفّہ میں تعلیم وتربیت کا عظیم الشان مرکز قایم تھا، اس کا تذکرہ اس باب میں نہیں ملتا۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ اگلا باب اسی تعلیمی مرکز کی سرگرمیوں کے مطالعہ کے لیے مختص ہے۔آپ ؐکے علمی احسانات پر بحث کے خلاصہ کے طور پر یہ حقایق پیش کیے گئے کہ آپؐ نے علم کا تصور وسیع کیا،دینی علوم کے ساتھ سماجی علوم کو اس کا صحیح مقام دیا، علم کو عام کرنے پر زور دیا اور اس کے لیے اپنے اصحاب کرام ؓ میں اکتسابِ علم کی زبردست تحریک پیدا کی۔حقیقت یہ کہ آج اگر آپ ؐ کے تعلیمی اسوہ پر سنجیدگی سے عمل ہو تو آپ ؐ کی امت کے ہاتھوں میں علمی قیادت ہوگی اور علم کے ہر محاذ پر صحیح رہ نمائی ہو سکے گی ( ص۳۶۱)۔
’اصحابِ صفّہ۔ تعلیمی و معاشی جائزہ‘کتاب کا آخری باب ہے۔اس کے تحت یہ امور زیرِبحث آئے ہیں: صفّہ کی تعریف و تعیین، اصحابِ صفّہ کی تعداد،ان کی وعظ و تذکیر اور علمی مجالس، سوال و جواب کے سلسلے، صحابہ کرام کے ذریعہ ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام، اصحابِ صفّہ کی معاشی صورتِ حال،ان کی تنگ دستی، نبی کریم ﷺ کی جانب سے صبر وثبات کی تلقین، آپ ؐ کااپنی صورتِ حال بیان کرکے انھیں تسلی دینا اور حالات کی تبدیلی اور نصرتِ الٰہی کی بشارت، ان کی معاشی زندگی کا نظم، ان کی ضروریات کی تکمیل پر آںحضرت ﷺ کی توجہِ خاص، ریاست کے وسائل میں ان کے ساتھ ترجیحی سلوک، صحابہ کرام کو ان کی میزبانی کی ترغیب، ا ن کے لیے انصار ومہاجرین کا فراخ دلانہ تعاون۔ آخر میں صاحبِ کتاب نے عام روایات سے ہٹ کر ِ اصحاب صفہ کے بارے میں صحیح صورتِ حال واضح کی ہے کہ اصحاب صفہ ایک ہی وقت میں وہاں جمع نہیں ہوگئے تھے، صفہ میں ان کا قیام حسبِ حالات مختصر یا طویل ہوتا تھا، جسے مکان کی سہولت ہوجاتی وہ وہاں منتقل ہوجاتا تھا۔ اپنی سہولت کے اعتبار سے وہ یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی تھی۔ان میں سے بعض تبلیغی مقاصد سے دوسرے مقام پر بھیجے جاتے تھے، بعض جہاد میں بھی شرکت کرتے تھے اور وہ انتظامی ذمے داریوں پر بھی مامور کیے جاتے تھے۔مزید برآں ریاست کے استحکام کے ساتھ ان کی معاشی حالت بہتر ہو تی چلی گئی(ص۳۷۷)۔مصنفِ محترم نے ابن تیمیہؒ کے حوالے سے اصحاب صفہ کے بارے میں اس خیال کی تردید کی ہے کہ ان کا مستقل قیام صفہ ہی میں رہتا تھا، وہ صرف طبعی ضروریات کے لیے ہی باہر جاتے تھے، فقر و فاقہ ان کی پہچان تھی، یعنی کاسۂ گدائی ان کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔اسی طرح وہ اس خیال سے بھی اتفاق نہیں کرتے کہ صحابۂ کرام میں سب سے اونچا مقام اہلِ صفہ کا تھا۔ صحیح بات یہ ہے کہ امت میں سب سے افضل خلفاء راشدین،اس کے بعد عشرۂ مبشرہ اور پھر اصحابِ بدر ہیں( ص۳۷۸۔ ۳۷۹) ۔ یہ باب یا مضمون جس حصہ( رسول اکرم ﷺ کے علمی احسا نا ت) کے تحت شامل کیا گیا ہے اس کا تقاضا تھا کہ اصحاب صفہ کی تعلیم و تربیت کی کیفیت، اس کے اثرات اور علم کے فروغ میں صفہ کے کردار پر مزید تفصیلات فراہم کی جاتیں۔ اسلامی تاریخ میں تعلیم بالغاں کے اولین مرکز کی حیثیت سے صفہ کی سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ اور تعلیم کے فروغ میں اس منفرد مرکز کی خدمات ِ جلیلہ کا گہرا مطالعہ افادیت سے خالی نہ ہوگا ۔ بہر حال اصحاب صفہ پر یہ ایک تفصیلی مطالعہ ہے جودوسری جگہ کم ہی ملے گا۔
مشورے
آخر میں زیر مطالعہ کتاب کو خوب سے خوب تر بنانے ، ا س کے مباحث کی افادیت بڑھانے اور قاری کو ان سے استفادہ میں آسانی پیدا کرنے کے مقصد سے کچھ احساسات ظاہر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
۱۔ مختلف ابواب؍ مضامین کے تحت کتاب کے مشتملات میں تکرار پائی جاتی ہے۔ مصنفِ محترم نے ’پیش لفظ‘ میں خود اس کا اعتراف کیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ یہ کتاب مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے ۔ تاہم کتابی صورت میںان پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے کسی حد تک دور کیا جا سکتا تھا۔اگلے ایڈیشن میں اس پر توجہ دینا مفید ہوگا۔
۲۔ بعض مقامات پر حواشی بہت طویل ہوگئے ہیں۔ ایک ایک حاشیہ تقریباً ایک صفحہ میں پھیلا ہوا ہے ۔ اگرچہ ان میں اہم نکات زیر بحث آئے ہیں، تاہم انھیں کچھ مختصر کیا جا سکتاہے۔بعض حواشی کے قیمتی نکات کو متن کے اندر شامل کرنا مناسب ہوگا، مثلاً ہرقل کی مجلس میں اسلام کے عقائد، نبی اکرم ﷺ کے کردار اور صحابہ کرام ؓ کے بارے میں حضرت ابو سفیانؓ ( جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے )کے حقایق پر مبنی قیمتی تاثرات ( ص ۰۲ ۳،حاشیہ نمبر۱) اور امام غزالی کی قایم کردہ علوم کی تقسیم پر مفید بحث (ص ۳۴۵،حاشیہ نمبر۱)۔
۳۔ ابواب؍مضامین کے مشتملات پر اس پہلو سے نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ بعض مختصر مضامین کو سابق باب؍ مضمون کے ساتھ ضم کیا جاسکتا ہے کہ نہیں۔
۴۔ ’فہرست مضامین ‘کو بہتر بنانے کے لیے ابواب کی باقاعدہ تقسیم اور ان کی نمبرنگ در کار ہے ۔
۵۔ قارئین کے لیے استفادہ میں مزید آسانی کی خا طر کتاب کے آخر میں ایک مبسوط اشاریہ( بلحاظ اشخاص، مقامات ،موضوعات ؍ اصطلاحات) مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ’ اوراقِ سیرت‘ کے ورق ورق کو نفع بخش بنائے اور ہم سب کو روز مرّہ زندگی میں اپنے کلامِ مقدس اور اپنے محبوب رسول ﷺ کی سیرتِ پاک سے رہ نمائی حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین ثمّ آمین۔
یہ کتاب مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے ۔ صفحات : ۳۸۴، قیمت :۵۰ روپے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2016