میڈیا کا علم اکیسویں صدی کی مطلوبہ صلاحیتوں میں ایک اہم صلاحیت ہے۔ جہاں میڈیا کی جانکاری عام شہریوں کے لیے ضروری ہوگئی ہے، وہیں طلبہ کے لیے اپنے سفر کو تیز کرنے کے اور علم کو مؤثر بنانے کے لیے میڈیا کا علم مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ایجاد کے بعد، میڈیا کا علم اور مصنوعی ذہانت مل کر دنیا کو نئی اونچائیوں تک لے جا رہے ہیں۔
میڈیا کیا ہے؟
اس کا جواب معمولی علم رکھنے والا ہرشخص جانتاہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک کثیر تعداد میڈیا کی تعریف کو مربوط انداز میں بیان کرنے سے قاصر ہے۔
میڈیا دراصل جمع کا صیغہ ہے میڈیم کا۔ لیکن ان دنوں بعض موقعوں پر میڈیا واحد اور جمع دونوں کیفیات میں استعمال ہوتا ہے۔ میڈیا کی ایک جامع تعریف یوں ہے: “ ہر وہ عمل، ذریعہ اور ٹیکنالوجی جو کسی بھی انفارمیشن، خبر اور مواد کو محفوظ کرے، فرد یا افراد تک پہنچائے یا فرد اور افراد کے اذہان پر اثر انداز ہو۔”
میڈیا کی تاریخ انسانی تاریخ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو بولنا سکھایا تو گویا اس نے انسان کو بہترین وجود کے ساتھ میڈیا کی صلاحیت بھی بطور فضیلت عطافرمائی۔انسان کو ناطق بنانا گویا میڈیا کی صلاحیت سے اسے آراستہ کرنا تھا۔میڈیا کا یہ سفر اپنے نشیب و فراز طے کرتے ہوئے اخبار کی شکل اختیارگیا۔ اخبار کے دور میں ہی ریڈیو کی ایجاد ہوئی۔ریڈیو کے بعد میڈیا نے ایک اونچی جست لگاتے ہوئے ٹی وی کی شکل اختیار کر لی۔ ٹی وی نے سیاہ وسفید اور رنگین دونوں ادوار دیکھے۔پھر میڈیا ٹی وی سے نکل کر عام انسانوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی ایجاد نے آج ہر فرد کو جو اپنے پاس اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ رکھتا ہے، میڈیا کا مالک بنا دیا۔
میڈیا کے اس طویل سفر کو کئی ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہر دور کے بارے میں وسیع لٹریچر موجود ہے۔
میڈیا دراصل اس ذریعے کا نام ہے جو پیغامات کو عوام یا کثیر افراد تک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ میڈیا کی وہ معروف شکلیں ہیں جن کا تذکرہ ہم نے اوپر کیا ہے، ان کے علاوہ بھی میڈیا کی کئی شکلیں ہیں، ہم یہاں کچھ شکلوں کا خاص طور سے ذکر کریں گے:
- اخبارات ورسائل
- ریڈیو و ٹیلی وژن
- فلم، ڈرامے، نکرڑناٹک اور اسٹیج شو
- پمفلٹ، ہینڈبل، بینر اور خطوط و پیغامات
- کتابیں اور انسائیکلوپیڈیا
- جلسے جلوس اور اجتماعات
ڈیجینل میڈیا پلیٹ فارم جیسے واٹس ایپ، انسٹاگرام، فیس بک، ویکی پیڈیا، ویب سائٹیں، یوٹیوب چینل، ایس ایم ایس سروس، ٹک ٹاک وغیرہ۔
میڈیا کا علم بحیثیت ایک موضوع و مضمون انگلینڈ، جرمنی اور امریکہ میں 1920 کی دہائی میں ابھرا۔ جب کہ دنیا پہلی جنگ عظیم کے اثرات سے گزر رہی تھی۔ ان دنوں بعض یونیورسٹیوں اور کالجوں میں میڈیا اسٹڈیز کو ایک مضمون کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ اس وقت عام طور پر اخبارات کی خبروں، مضامین اور ریڈیو کی نشریاتی تقاریر کا جائزہ لیا جاتا اور ان کے اثرات شہریوں پر کیا مرتب ہو رہے ہیں اور کیا ہوسکتے ہیں، تحقیق و جائزے کا موضوع ہوتا۔
میڈیا اسٹڈیز کو 1960 کی دہائی میں یوروپی ممالک میں زیادہ مقام ملا۔ ان دنوں یوروپی ممالک میں رفتہ رفتہ کنزیومرزم (صارفیت ) کا فروغ ہو رہا تھا۔ مارکیٹ سماجی و سیاسی زندگی کی ایک طاقتور اکائی بن کرابھر رہی تھی۔ اخبارات اور ریڈیو پر اشتہارات کا آغاز ہو چکا تھا۔ ایسے حالات میں یہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ میڈیا اور اشتہارکے عمل اور سماجی و سیاسی زندگی پر ان کے اثرات کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ اشتہارات کے علاوہ خبروں کو دی جانے والی جگہ اور خبروں کی پیش کش نیز بین السطور پیغامات کا جائزہ لینا بھی ضروری محسوس کیا کیا گیا، تاکہ عوام کو باخبر رکھا جائے اور دوسری جانب میڈیا کے مالکان کی نگرانی کی جا سکے۔ یہ سلسلہ ترقی پاتے ہوئے اب اپنے دامن کو وسیع تر کر چکا ہے۔
میڈیا لٹریسی /میڈیا خواندگی
امریکہ کی میڈیا اسٹڈیز ایسوسی ایشن نے میڈیا لٹریسی کی تعریف اس طرح بیان کی ہے: “ میڈیا لٹریسی علم کی وہ شاخ ہے جس میں میڈیا، میڈیا کے ذرائع، اس تک رسائی کا طریقہ، میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی معلومات کا جائزہ و تجزیہ، انفرادی و اجتماعی زندگی پر اس مواد کے اثرات، اس مخصوص مواد کی تصدیق اور پھر اس کا استعمال شامل ہیں۔”
میڈیا لٹریسی کی اس تعریف کے حوالے سے آج کے دور میں میڈیا لٹریسی صرف ان لوگوں کے لیے ضروری نہیں ہے جو میڈیا میں کام کرنا چاہتے ہیں یا میڈیا کے شعبے میں اپنے معاشی امکانات کو تلاش رہے ہیں بلکہ آج ہر اُس فرد کے لیے ضروری ہے جو اس دنیا میں باخبر ہو کر زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ آئیے! میڈیا خواندگی کے جو عناصر اس کی تعریف میں بیان کیے گئے ہیں، انھیں سمجھنے کی کوشش کریں:
میڈیا کے ذرائع اور ان تک رسائی
ہم نے اوپر میڈیا کی اقسام کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ اقسام ایک طرف تو اپنی مستقل حیثیت میں کام کر رہی ہیں لیکن دوسری طرف وہ ڈیجیٹل ورلڈ کا حصہ بھی بن گئی ہیں۔ مثلاً اخبار جہاں کاغذ پر چھپ کر شائع ہو رہا ہے، وہیں اخبار کے صفحات موبائل فون پر بھی دستیاب ہیں۔ اتنا ہی نہیں، اب ایسے ایپلی کیشن بھی آ چکے ہیں جو اخبارات کے ان صفحات کو پڑھ کر سنا بھی دیتے ہیں۔ اسی طرح ہینڈ بل اور دیگر تشہیری ذرائع جہاں چھاپ کرعام کیے جاتے ہیں، وہیں ان تمام چیزوں کو انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف فائل بنا کر بھی شیئر کیا جاتا ہے۔ کچھ سال پہلے کسی موضوع پر کتاب حاصل کرنا مشکل ہوتا تھا، لیکن آج انٹرنیٹ پر دنیا بھر کی کتابیں اور کتابی معلومات موجود ہیں۔ انھیں تلاش کرنے کا ہنر اور صلاحیت میڈیا لٹریسی کا ایک اہم عنصر ہے۔
مستند معلومات کی پہچان
میڈیا کے مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارموں پر موجود مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کرنا آج کے دور میں اہم ہوگیا ہے۔ ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ کس ذریعے سے مستند معلومات مل سکتی ہیں۔ گوگل سرچ انجن وغیرہ سے حاصل کی گئی معلومات کا مستند اور تشفی بخش ہونا ضروری نہیں ہے۔ لیکن اسی میں ہمیں مستند اور مفصل معلومات مل بھی سکتی ہیں۔ یہ سرط انجن اپنے طور پر بھی کچھ معلومات فراہم کرتے ہیں لیکن بہت سی معلومات وہ دوسرے ذرائع سے صارفین تک پہنچاتے ہیں۔ چناں چہ آج کے دور میں ذرائع کی پہچان اور ان کی معتبریت کا علم رکھنا ضروری ہے اور یہ میڈیا کے علم کی ایک بنیادی اور اہم ضرورت ہے۔
میڈیا لٹریسی میں میڈیا کے ذرائع سے ناواقفیت یا ان پر اندھا اعتماد، اسے استعمال کرنے والے شخص کو الجھن میں ڈال دیتا ہے۔ آج کے دور میں افراد کے فیصلے میڈیا سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں، اس لیے غلط میڈیا کی بنا پر غلط معلومات حاصل ہو سکتی ہیں اور انجام کار ان کی بنیاد پر لیا گیافیصلہ غلط اور نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کبھی میڈیا سے حاصل شدہ معلومات غلط ہوتی ہیں اور کبھی دونوں ہی غلط ہو سکتے ہیں۔ مثلاً، مشہور صحافی رویش کمار کے بقول، ہاؤسنگ سوسائٹی کے انکل اور آنٹیاںواٹس ایپ کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات پر بھروسا کرنے کی وجہ سے انجانے طریقے سے سماج میں نفرت پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
ہر وہ شخص جو آج موبائل فون سے جڑا ہوا ہے، وہ میڈیا کے اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔ چناں چہ موبائل فون استعمال کرنے والوں کے شب و روز، خیالات، عادات و اطوار، زندگی کے رجحانات پر میڈیا کے اثرات مرتب ہورہےہیں۔اب میڈیا کے ذریعے صرف معلومات کی ترسیل ہی نہیں ہوتی ہے بلکہ میڈیا کے ذریعے بڑے بڑے جرائم بھی انجام پا رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں انڈونیشیا کے ایک فارم ہاؤس سے تھائی لینڈ کے ڈھائی سو شہریوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ وہاں بیٹھ کر دنیا بھر میں ڈیجیٹل کرائم انجام دے رہے تھے۔
ہمارے ملک میں بھی ادھر چند ہفتوں سے اس طرح کے جرائم میں اضافہ ہوا ہے، کبھی موبائل فون کے ذریعے یہ خبر دی جاتی ہے کہ آپ کے نام ایک پارسل آیا ہے جس میں غیر قانونی اشیا ہیں، جس کی وجہ سے آپ پر مقدمہ چلایا جائے گا، اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ مقدمہ قائم نہ ہو تو آپ اتنی رقم یہاں بھیج دیں، فلاں مقام پر پہنچا دیں یا فلاں بینک اکاؤنٹ میں جمع کردیں۔
جرائم کی اسی فہرست میں ایک نئی قسم کے جرم کا اضافہ ہوا ہے جسے سیکسٹورشن کہا جاتا ہے۔
سیکسٹورشن میں مجرم کسی بے گناہ یا اس جرم سے ناواقف افراد سے نت نئی جنسی لالچ دے کر ایسا عمل کراتا ہے جو مجرم کے پاس ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ بعد ازاں اس ویڈیو اور آڈیو والے مواد کو مجرم اس فرد کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور اس سے پیسے وصول کرتا ہے۔ مثلا گذشتہ دنوں ایک خاتون مجرم نے ایک کم عمر نوجوان کو ٹیلی فون کر کے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ چند دنوں بعد اس مجرم خاتون نے لڑکے کے کپڑے اتروائے اور وہ بھی برہنہ ہو گئی اور اس کے ویڈیو بنائے اور پھر اسے اس نوجوان کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ مجرم خاتون نے نوجوان سے ایک موٹی رقم طلب کی۔ نوجوان نے اس رقم کو ادا کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی مجبوری ظاہر کی تو مجرم خاتون نے اسے دھمکی دی کہ وہ اس ویڈیو کو وائرل کر دے گی اور نوجوان کے ماں، باپ اور کالج کے پرنسپل تک پہنچا دے گی۔ مجرم خاتون کے مطالبے کو پورا کرنے کے لیے نوجوان نے ماں کے زیورات چرائے اور زیورات کو فروخت کیا اور اس رقم کے ذریعے اس نے اس خاتون کے مطالبے کو پورا کیا۔ جب زیورات کی چوری کا جرم تھانے میں درج کرایا گیا تو پولیس انکوائری میں اس نوجوان نے یہ تمام باتیں بتائیں۔ اس طرح کے جرم میں مجرم خواتین آج کل چھوٹی بڑی رقومات بلیک میل کے ذریعے حاصل کر رہی ہیں۔
سیکسٹورشن کےکیس میں بچوں، نوجوانوں اور بزرگ حضرات کو بھی ملوث کیا جا رہا ہے۔ اس لیے آج ضروری ہے کہ میڈیا کے استعمال کا فن سیکھا جائے اور میڈیا کے ذرائع کا استعمال کرکے پھیلائی جا رہی برائی، گندگی، بدامنی، نفرت اور جرائم سے خود بھی بچیں اور دوسرے افراد کو بھی بچائیں۔ اس علم کو عام کرنا آج نیکی کا بڑا کام بن گیا ہے۔
خبروں کا تجزیہ اور ان کے اثرات کامطالعہ
میڈیا لٹریسی میں میڈیا کے ذرائع تک رسائی کے بعد دوسرا اہم عنصر میڈیا کے اس ذریعے سے حاصل ہونے والی انفارمیشن کا تجزیہ (analysis) اور تعین قدر (evaluation)ہے۔ معلومات کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنا اور ان چھوٹے چھوٹے حصوں کے باہمی ربط و تعلق کو سمجھنا، بین السطور بیان کی گئی معلومات کو پڑھنا، معلومات کو پس منظر اور بعض وقت تاریخ سے جوڑنا، معلومات کو سماج میں پھیلے رجحانات کے پس منظر میں دیکھنا، یہ سب تجزیے میں شامل ہے۔ تجزیے کے بعد خبروں کی قدرکے تعین میں یہ بات آئے گی کہ ان خبروں کے زمانے کے حالات، کیفیات اور انفارمیشن کے اس حصے کو استعمال کرنے والے فرد یا سماج پر کیا منفی اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
میڈیا کے حوالے سے اقدام
تجزیہ اورقدر شناسی کے بعد ہم میڈیا سے حاصل شدہ ان معلومات کے استعمال کے بارے میں فیصلہ کرسکتے ہیں، کہ ان معلومات کو جوں کا توں استعمال کرنا چاہیے، رد کرنا چاہیے یا پھر انھیں درست کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔ آج طلبہ بڑی تعداد میں اپنی تعلیمی ضرورتوں کے لیے انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کرتے ہیں، ایسی معلومات جو سائنس، ریاضی اور مشاہدات پر مبنی ہوتی ہیں، انھیں استعمال کرنے میں اکثر پیچیدگی کم ہوتی ہے، لیکن وہ علوم جو سماجیات، تاریخ اور غیر سائنسی شعبوں سے متعلق ہوتے ہیں ان میں آج جھوٹ بڑی مقدار میں شامل کیا جا رہا ہے۔ایسی صورت حال میں طلبہ کے لیے میڈیا لٹریسی ایک ضروری صلاحیت بن گئی ہے۔ امریکہ اور یوروپ کے کئی اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں اب میڈیا لٹریسی کوایک مضمون کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے۔
بھارت میں میڈیا لٹریسی کی ضرورت
ہمارے ملک میں میڈیا لٹریسی بہت ہی کم زور ہے۔ یوں تو بھارت، دنیا بھر میں سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت کی 80 فیصد آبادی انٹرنیٹ سے جڑی ہوئی ہے۔ 40 کروڑ افراد ہر دن چھ سے دس گھنٹے میڈیا پر مصروف رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی جنگیں جیتی اورہاری جارہی ہیں، نریٹیو اور ڈسکورس پیدا کرنے کا کام اس سے لیا جا رہا ہے۔
بھارت میں کم زور میڈیا لٹریسی میڈیا کے منفی اثرات کو زیادہ موثر بنارہی ہے۔ ایک بڑی تعدادآج واٹس ایپ پر ایمان رکھتی ہے۔” واٹس ایپ یونیورسٹی” آج سماج میں غیر منظم علم کے فروغ کا بہت بڑا ذریعہ بن گیا۔ ڈیٹا سائنس کے ذریعے اذہان کومسخر کرنےکے بین الاقوامی ادارے بھی سرگرم عمل ہیں۔ ان میں سے بعض تجارتی مقاصد کے لیے ڈیٹا سائنس کا استعمال کر رہے ہیں تو بعض اپنے نظریات کے فروغ کے لیے۔ اسلاموفوبیا کی انڈسٹری سوشل میڈیا پر اپنے خبیث اثرات پھیلا رہی ہے۔سماج میں غلط فہمیوں کا طوفان کھڑا کیا گیا ہے۔ان حالات میں ملک کے تعلیمی نظام کو میڈیا لٹریسی کے بارے میں مربوط پروگرام کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ملت کے مفاد میں کام کرنے والی جماعتیں اور ادارے بھی میڈیاا سٹڈیز کے پرائیویٹ ادارے قائم کرنے پر غور کریں۔ بعض جماعتوں اور افراد کی جانب سے ڈیجیٹل میڈیا کے میدان میں یوٹیوب چینل اور نیوز پورٹل تک کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ یہ سرگرمیاں قابل قدر ہیں لیکن مرکزی سطح پر ایک میڈیااسٹڈیز سینٹر کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ یہ میڈیاا سٹڈیز سینٹر میڈیا لٹریسی کے کام کے ساتھ ساتھ اسی سے جڑے درج ذیل کام انجام دے سکتا ہے:
اسلام اور مسلمانوں کے متعلق پھیلائی جارہی فیک نیوز کی جانچ پڑتال، جانچ کے بعد اس حوالے سے صحیح معلومات اور مثبت پہلوؤں کو سماج میں عام کرنے کی کوشش۔
ڈیجیٹل ورلڈ میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق مثبت مواد تخلیق دینا اور ان معلومات کو ڈیجیٹل ورلڈ میں عام کرنا۔ اس کی ایک معمولی مثال یہ ہے کہ آج ویکی پیڈیا پر اسلام مسلمانوں کے متعلق جو معلومات ہیں، ان میں کافی اضافے کی ضرورت ہے۔ ویکی پیڈیا کے علاوہ ایسی ویب سائٹیں بنانے کی ضرورت ہے جن میں آج کے ذہنوں کو مطمئن کرنےوالی انفارمیشن پہنچائی جائے اور اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے جنم لے رہے سوالات کا جواب پیش کیا جائے۔
مختلف یوٹیوب چینلوں پر ہونے والی بحثوں اور غیر مستند تقاریر کا جائزہ لیا جائے اور انھیں ایکسپوز کیا جائے۔ آج یوٹیوب پر معروف اور بڑے بڑے انفلوئینسر اپنے یوٹیوب چینلوں کے ذریعے اسلامو فوبیائی مواد کوپھیلارہے ہیں۔ اس کی مسلسل نگرانی کی ضرورت ہے۔مختلف اخبارات و رسائل میں رپورٹنگ کا پیٹرن، مسلمانوں اور اسلام کو دی جانے والی جگہ، شائع ہونے والے موضوعات اور نظر انداز کیے جانے والے موضوعات کے حوالے سے بھی تحقیق ہونی چاہیے۔چند برسوں پہلے امریکہ کے ایک مشہور دانش ور جان ایل ایس پوزیٹو نے امریکی اخبارات میں مسلم خبروں کے تعلق سے ایک بہترین جائزہ پیش کیا تھا۔ بھارت میں ایسا کوئی جائزہ نہیں ملتا۔ ٹیلی وژن پر کتنا وقت مسلمانوں کے تعلق سے مثبت خبروں اور کتنا منفی خبروں کے لیے صرف کیا جاتا ہے، اس اسٹڈی کا ایک اہم موضوع ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ میڈیا سینٹر میڈیا لٹریسی کی تربیت دینے کا کام بھی کرسکتے ہیں، جہاں ملت کے دانش ور افراد اور ملی جماعتیں اور ادارے میڈیا کے بہتر اور مؤثر استعمال کی تربیت حاصل کرسکتے ہیں۔
جمعہ کے خطبات اور دیگر رابطے کے پروگراموں کے ذریعے باشندگان ملک بالخصوص مسلمانوں کو یہ بات بتانا ضروری ہے کہ وہ کون سے یوٹیوب چینل دیکھیں اور کن سے احتیاط برتیں۔ آج ایک بڑی تعداد غیر شعوری طور پر جھوٹ اور مسلم مخالف مواد کو عام کرنے والے چینل کو دیکھتی اور انھیں شیئر کرتی ہے۔ اس طرح کے عمل کے ذریعے گویا ہم سماج میں منفی مواد کے فروغ کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ جب کہ ہمیں حکم یہ ہے کہ ہم نیکیوں کو پھیلائیں اور اچھی باتیں لوگوں تک پہنچائیں۔ منفی انفارمیشن کو زیادہ شیئر کرنے کے نتیجے میں اُن چینلوں کی ہمت افزائی ہوتی ہے جو اس کام میں ملوث ہیں۔ آج کل ایک عام چلن یوٹیوب پر شارٹ ویڈیو بنانے اور اپنی سیلفی کو عام کرنے کا چل پڑا ہے۔ ان شارٹ ویڈیو میں شائستہ وغیر شائستہ دونوں قسم کا مواد شامل ہوتا ہے۔ نوجوان نسل اپنی سیلفی کو عام کرتا ہے۔ سیلفی کا سفر کہاں تک پہنچ گیا ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک خاص طرح کا چہرہ بنا کر تصویر کھینچی جاتی ہے اسے پاؤٹ (Pout) کہتے ہیں۔ ہمارے نوجوان پاؤٹ کے معنی سے ناواقف ہیں۔ پاؤٹ کا مطلب خنزیر (سور ) کے چہرے کی وہ شکل ہے جس سے اس کی جنسی اشتہا کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ خطرناک بات ہے کہ آج کی نوجوان نسل سوشل میڈیا کی وجہ سے ثقافتی ا رتداد کا شکار ہو رہی ہے۔ اس ارتداد سے نسل کو بچانا ہے۔ ثقافتی ارتداد یہ ہے کہ کوئی فرد اسلامی تہذیب و آداب سے بغاوت کر کے اسلام کے بنیادوں سے ٹکرانے والی ثقافت و تہذیب کو اختیار کرے۔ یہ عمل ابتدا میں معمولی چیزوں سے شروع ہوتا ہے لیکن بعد میں یہ سنگین ہو جاتا ہے۔ نئی نسل کو شروع سے ہی اس طرح کے سنگین خطرات سے بچایا جائے، یہ پوری ملت اور خاص طور سے اس کے تعلیمی اداروں کی ذمے داری ہے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2024