ہندوستان کے صوبہ کیرالہ میں پہلی صدی عیسوی میں سینٹ تھامس کے آنے سے عیسائی مذہب کا آغاز ہوا ۔ عیسائی موَرخین کے مطابق آپ حضرت عیسی علیہ السلام کے بارہ حواریوں میں سے ایک ہیں۔ آپ کی محنت اور کوششوں سے جو لوگ آپ کےہم خیال ہوکر عیسائیت میں داخل ہوئے ان کو تھامس عیسائیThomas Christian کہا جاتاہے۔واضح رہے کہ تھامس عیسائیوں کو شامی عیسائی (Syrian Christian) اور نصرانی عیسائی بھی (Nazarenes) بھی کہا جاتاہے ۔(1)
گو ہندوستان میں مسیحی تاریخ کی ابتدا کا سراغ لگانا کچھ آسان نہیں، تاہم یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہندوستان میں مسیحی تاریخ بہت پرانی ہے ۔‘‘(2) مگر اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ ہندوستان کے صوبہ کیرالہ سے عیسائیت کا آغاز ہوا ہے۔
میتھیو ورگیز Mathew Varghese اپنے ایک مقالہ میں لکھتے ہیں کہ کیرالہ کے عیسائی اپنے آپ کو پوری دنیا میں سب سے قدیم عیسائی ہونا مانتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ وہ پہلی صدی کے نصف یعنی 52 ء میں حضرت عیسی علیہ السلام کے حواری سینٹ تھامس کے ہاتھو ں عیسائی ہوئے تھے اور اس سے پہلے وہ برہمن فیملی سے تعلق رکھتے تھے ۔(3)
مگر موَرخین کے درمیان اس بات میں بڑا تنازع ہے کہ آیا کیرالہ کے عیسائی برہمن فیملی سے تعلق رکھتے تھے یا نہیں؟ سی وی چیرین نے اپنی کتاب’ کیرالہ میں عیسائیت کی تاریخ از مشن سینٹ تھامس تا آمد واسکو ڈی گاما‘ میں تفصیل سے بحث کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ کیرالہ میں سینٹ تھامس کے مشن سے جو لوگ عیسائی ہوئے تھے وہ در حقیقت نچلی ذات سے تعلق رکھتے تھے، وہ برہمن نہیں تھے۔ ہاں جب پرتگال اور برطانیہ نے کیرالہ میں اپنا قدم رکھا تو انہوں نے تھامس عیسائیوں کے طرز بو دو باش کے معیار کو کافی اونچا کردیامعاشی طورپر بھی اور تعلیمی طورپر بلکہ برہمنوں کے معیار زندگی سے بھی زیادہ اونچا کردیا تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھئے ۔(4)
بہرحال ، یہاں اس بحث کی ضرورت نہیں ہے کہ سینٹ تھامس کے مشن سے عیسائی ہونے والے لوگ برہمن تھے یا نہیں؟ یا وہ کیا تھے؟ برصغیر ہند میں عیسائیوں کے آنے کی وجہ قدیم زمانے سے ہی خطہ َ کیرالہ اور میڈیٹیرین یعنی خطہ بحیرہ روم کے درمیان تجارتی تعلقات ہیں۔اور تجارتی تعلقات ہونے کی وجہ سے غالب گمان یہ ہے کہ دونوں خطوں کے درمیان سماجی اور سیاسی تعلقات بھی رہے ہوں گے۔ تجارتی سامان کا جائزہ لینےسے معلوم ہوتاہے کہ قدرتی ذرائع یعنی تجارت و کامرس کی بنیاد پر اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کا وجود سرزمین کیرالہ سے ہوا ہے۔ہندوستان کا صوبہ کیرالہ ہی ایک ایسا صوبہ ہے جسے تمام صوبوں کی بنسبت یہ امتیاز حاصل رہا ہے کہ قدیم زمانے سے اس کا تعلق بحر ہند کے ذریعہ مشرق وسطی اور میڈیٹیرین خطے سے رہا ہے۔ کیرالہ سے پیدا ہونے والے گرم مسالے اس زمانے میں سمندر پار اہم تجارتی شئ مانے جاتے تھے۔اور یونان ، روم ، یروشلم ، عراق اور ببیلون سے عیسائی اور یہودی کیرالہ آتے جاتے تھے اور تجارت کرتے تھے ۔(5)
امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ چوتھی صدی عیسوی میں جب تھامس عیسائیوں کا دور زوال پذیر ہونے لگا اور قریب تھا کہ عیسائی دور کا وجود ختم ہو جاتا تو ایسے وقت میں یروشلم ، نینوا اور بغداد سے ایک پادری کی قیادت میں مرد و زن اور نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے ایک گروپ نے مالابار میں قدم رکھااور اس وقت موجودہ حکمراں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا تھا۔ اورپھر ان نو وارد عیسائی گروپ سے تھامس عیسائیوں کی روایت کو تقویت ملی اور عیسائیت کا دور بحال ہونے لگا ۔ (6)
واضح ہو کہ تھامس عیسائی سینٹ تھامس کی کوششوں اور شب و روز کی جد وجہد سے کیرالہ میں عیسائی ہوئے تھے۔اس وقت کیرالہ میں ہندو اور بدھ مذہب اصل مذہب تھا ۔(7) اور کیرالہ میں راجاوَوں کی حکمرانی تھی جو برہمن سماج کے تھے ، انہوں نے چونکہ سینٹ تھامس کو بہت ساری مراعات دی تھیں اور ان کو ہر طرح کے حقوق دیئے گئے تھے،اس وجہ سے بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد عیسائی ہوگئی تھی اور دوسری وجہ شاید یہ بھی ہو کہ تھامس عیسائیوں نے مکمل طورپر ہندوستانی مراسم اختیار کرلیا تھا اور راجاوَوں کو ان سے اختلاف رائے رکھنے میں کوئی اہم وجہ نظر نہیں آتی تھی ۔(8)
سی وی چیرین نے بھی یہی لکھا ہےکہ تھامس عیسائیوں کی زندگی بالکل ہندو بھائیوں کی طر ح تھی، ان کی بود و باش، ان کا رہن سہن ہندوستانی رسم وراج کے مطابق تھا، بلکہ یہ کہا جائے کہ اس وقت عیسائی مذہب ہندوستان کے ایک لازمی مذہب کے نام پر وجود پذیر ہواتھا ۔(9)
یہ سوال کہ سینٹ تھامس ہندوستان کیسے آئے ؟ اس بارے میں مختلف واقعات ہیں۔میتھیو ورگیز لکھتے ہیں کہ سینٹ تھامس ایک تجارتی جہاز کے ذریعہ ہندوستان پہنچے تھے اور انہوں نے فارس اور ہندوستان میں عیسائِیت کو فروغت دینے کے لیے مشن شروع کیا تھا ۔(10)جولیس ریکٹر نے Acts of Thomas اور The Martyrdom of Thomas کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہندوستانی راجا گونڈا پھارسGondophares کو ایک محل تعمیر کرنا تھا تو ان کو ایک ماہر معمار کی ضرورت پڑی ، اس کے لیے انہوں نے ایک ہندوستانی تاجر کو یروشلم بھیجا ۔ یروشلم کے’’غلامی بازار ‘‘ میں حضرت عیسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے اس تاجر کو تھامس کی طرف اشارہ کیا جو ایک ماہر معمار تھا اور پھر تھامس کو اس ہندوستانی تاجر سے بیچ دیا اور اس طرح سے تھامس راجا کے دربار میں پہنچا۔ تھامس نے بہت سے لوگوں کو عیسائی بنایا۔ کچھ دنوں کے بعد تھامس اس راجا کے دربار کو چھوڑ کر دوسرے راجا کے دربار میں چلاگیا اور یہاں اس کی موت ہوگئی ۔ اور ان کی باقیات کو ایڈیسہ Edessa جو آج کی تاریخ میں ترکی کے شہر شانلیعرفا میں واقع ہے،لے جایا گیا اور وہیں اس پر چر چ بنایا گیا ۔ (11)بہر حال جولیس ریکٹر یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان واقعات پر یقین کرنا مشکل ہے۔
سینٹ تھامس کی زندگی پر بشپ ولیم جی ینگ نے اپنی کتاب ’ رسولوں کے نقش قدم پر‘ اور پادری برکت اللہ نے اپنی کتاب ’مقد س تومار رسول ہند‘ کچھ تفصیلات لکھی ہیں ، تفصیل کے لیے دیکھیں ۔ (12)
سولہویں صدی عیسویں میں ہندوستان میں پرتگالیوں کے آنے تک کیرالہ میں مذہب کے نام پر عیسائیوں کاوجود باقی رہا اور وہ ہندوستانی تہذیب و تمدن، کلچر اور طرز معاشرت میں کس قدر ڈھل گئے تھے ۔پلے سیڈ پوڈی پاراPlacid J. Podippara لکھتے ہیں کہ تھامس عیسائی کلچر کے حساب سے ہندو، مذہب کے حساب سے عیسائی اور عبادت کے حساب سے اورینٹل یعنی مشرقی تھے۔(13)یہ ہندوستانی عیسائی پورے بر صغیر ہند میں پھیل نہیں سکے تھے بلکہ وہ ٹریوینکور Travancore اور کوچین میں سمٹ کر رہ گئے تھے ۔(14)
اس طویل عرصے میں کیرالہ کے عیسائیوں نے مذہب کے نام پر اپنے وجود کو کیسے باقی رکھا ؟ اور کیا پرتگالیوں کی آمد سے قبل تک مغربی عیسائی ممالک سے ان کا کوئی تعلق تھا یا نہیں؟ تاریخ میں اس بارے میں کوئی خاص تذکرہ نہیں ملتاہے۔پرتگال پہلا ایسا ملک ہے جس نے سولہویں صدی کے شروع میں سرکاری سرپرستی میں تجارت کے نا م پر بر صغیر ہند کے صوبہ گوا میں اپنا قدم رکھا اور پھر اس نے بتدریج اپنی حکومت قائم کی اور عیسائیت کی تبلیغ کرنے اور ہندوستانیوں کو عیسائی بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ طاقت و قوت کا بھی استعمال کیا اور کسی ہندوستانی کے عیسائی ہونے سے انکارکرنے پر ہر ظلم و ستم کو جائزرکھا ۔(15)یہاں سے برصغیر ہند میں عیسائیت کا دوسرا دو رشروع ہوتاہے اور عیسائیت کی احیا بھی ۔
ایک قابل ذکر بات یہ ہے کیرالہ کے ان تھامس عیسائیوں کے وجود وبقاء کے حوالے سے ایک عیسائی مورخ لکھتے ہیں کہ؛
And the churches of Asia have been as welcome slaves, and would, in all probability, have shared their fate, had not God cast up a barrier for the protection …the barrier was the power of the Mahometans. Under the Mahometans, Christianity, such as it was in the seventh and following centuries, spread considerably in Asia, the conquerors for a long time judging it good policy to patronise the followers of Christ and the Malabar Christians probably increased in numbers.(16)
اگر خدا وند نے ایشیاکے ان عیسائیوں کے تحفظ کے لیے ڈھال فراہم نہ کرتا تو وہ غلام بن گئے ہوتے اور غالب گمان یہ تھا کہ وہ اپنا وجود کھو چکے ہوتے اور یہ ڈھال مسلمان بنے تھے ۔مسلمانوں کے تحفظ میں عیسائیت کو ساتویں صدی اور اگلی صدیوں میں بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا اور ان مسلم فاتحین نے ایک لمبے عرصہ تک عیسائیوں کی سرپرستی کی جس کی وجہ سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔
حواشی
(1)The Encyclopaedia of Christianity, Volume 5 by Erwin Fahlbusch. Wm. B. Eerdmans Publishing – 2008
(2)ولیم بارکلے ، یسوع کے حواری (مترجم: فادر رفیق مائیکل،کٹیک ٹیکل سنٹر ۱۰۴ موہن ٹیرس ، بار اسٹریٹ ، صدر کراچی،۱۹۸۴ئ، ص۶۳)
(3) The indigenous tradition of Syrian Christians of Kerala a perspective based on their folk songs: marriage, customs and history, published in Indian Folklore Research Journal, Vol.2, No.5, 2005: 34–58
(4) A History of Christianity in Kerala, from the Mission of St. Thomas to the Arrival of Vasco Da Gama (A.D. 52-1498)
(5) (Edward Gibbon-Decline and Fall of the Raman Empire-1946, p.41( with reference of The indigenous tradition of Syrian Christians of Kerala a perspective based on their folk songs: marriage, customs and history by M ATHEW V ARGHESE page 34
(6) Julius Richter, A History of Missions in India (Edinburgh: Oliphant Anderson & & Ferrier, 1908
(7) [10] K.P.P. Menon, History of Kerala written in the form of Notes, Vol.1 (New Delhi: Asian Educational Services, 1982(
(8) [11] K.P.P. Menon, History of Kerala, Vol. 2 (New Delhi: Asian Educational Services, 1983
(9) A History of Christianity in Kerala, from the Mission of St. Thomas to the Arrival of Vasco Da Gama (A.D. 52-1498(
(10) The indigenous tradition of Syrian Christians of Kerala, P.36
(11) Julius Richter, A History of Missions in India (Edinburgh: Oliphant Anderson& Ferrier, 1908, Pp. 27-28
(12) بر صغیر میں مسیحی سکالرز کا پیش کردہ قرآنی لٹریچر، ، ازڈاکٹر ساجد اسد اللہ، صفحہ، 10-8
(13) Placid J. Podippara, The Thomas Christians
(14) Early Roman-Catholic Missions to India by James F.B. Tinling, B. A. London; S.W. Partride and Co.9 Paternostter Row, Bristol; W. Mack, 38 Park Street. 1871, pp. 11-12
(15)مغلیہ سلطنت اور مسیحیت ، برکت اللہ پادری بحوالہ برصغیر میں مسیحی سکالز کا پیش کردہ قرآنی لیٹریچر، صفحہ 42
(16) Early Roman-Catholic Missions to India by James F.B. Tinling, B. A. London; S.W. Partride and Co.9 Paternostter Row, Bristol; W. Mack, 38 Park Street. 1871, pp. 11-12
مشمولہ: شمارہ نومبر 2016