دین میں نماز کی جو اہمیت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایمان کے بعد جس عبادت کو کرنے کا حکم دے دیا گیاہے، وہ نماز ہی تو ہے۔ اور یہ نماز نہ صرف ایمان کا مظہر ہے بلکہ اس سے دین کے دوسرے تمام احکام پر بھی عمل کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ مشہور عالم دین مولانا محمد فاروق خان صاحب نماز کی اہمیت و فوائد کے حوالے سے اپنی ایک کتاب میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں۔
’’نماز اسلام کے ان تمام عقائد کو تازہ کرتی ہے، جن پر ایمان لائے بغیر نفس کی پاکیزگی، اخلاق کی درستی اور اعمال کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ صبر و توکل اور پاکیزگی، طہارتِ نقس وغیرہ اعلیٰ اخلاقی اوصاف کے حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے، نماز کے اندر آدمی کو پاکباز اور خدا ترس انسان بنانے کی بے انتہا قوت موجود ہے، نماز ہمیں باحوصلہ اور عالی ظرف بناتی ہے اور ایک پاک اور ستھری زندگی کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔۔۔۔ نماز کو دین کے ایک جامع عنوان کی حیثیت حاصل ہے۔ نماز مومن کی زندگی کا اول اور آخر سب کچھ ہے۔ نماز مومن کی اخلاقی اور حقیقی زندگی کی آئینہ دار ہے‘‘۔ (کلام نبوت، ج۱، ص: ۳۶۱)
ایک حدیث کے مطابق نماز کو دین کا بنیادی ستون قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حضرت معاذ بن جبل سے ایک طویل حدیث مروی ہے، جس میں ایک جگہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اَلاَ اُخْبِرُکُمْ بِرَاْسِ الْاَمْرِ کُلِّہِ وَعَمُوْدِہِ وَذِرْدَۃِ سَنَامِہِ، قُلْتُ بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، قَالَ رَاْسُ الْاَمْرِ الْاِسْلاَمُ وَعَمُوْدُہُ الصَّلاَۃُ وَذِرْدَۃُ سَنَامِہِ الْجِہَادُ۔ (الترمذی، ابواب الایمان، حدیث نمبر ۲۶۱۶، اسنادہ صحیح)
’’(اے معاذ!) کیا میں تم کو راس الامر، اس کے ستون اور اس کے کوہان کی خبر نہ دوں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول، پھر آپؐ نے فرمایا، راس الامر (یعنی کلمہ توحید کا اقرار) ہی اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور اس کی کوہان جہاد ہے‘‘۔
لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں سب سے زیادہ غفلت اور لاپروائی نمازوں کے ساتھ ہی برتی جارہی ہے۔ ایک ایک محلہ میں کئی کئی مسجدیں ہونے کے باوجود نمازی اتنے کم ہوتے ہیں کہ ایک مسجد بھی ان سے پوری نہیں ہوپائے گی۔بہت سے سیاسی قائدین تو سال میں صر ف دو بار عید الفطر او رعید الاضحی کے موقعوں پر عیدگاہ میں نماز پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ علماء و واعظین اور مفتیان بھی بعض ایسے ہیںجو مسجدوں سے غائب رہتے ہیں او روہ صرف جمعہ کے دن مسجدوں میں نمودار ہو کر وعظ و تبلیغ کر تے ہیں۔ ہفتہ بھر کی نمازیں وہ کہاں پڑھتے ہیں، اس کا علم نہیں ۔ جب ذمہ دار لوگوں کا نماز باجماعت کے ساتھ یہ رویہ ہو تو پھر اس سے عام مسلمانوں پر کس طرح کے اثرات پڑسکتے ہیں، کیا ہم علماء و قائدین کی نماز پنجگانہ کے ساتھ غفلت و لاپروائی کے ساتھ دوسروں کو نمازوں کا پابند بنا سکتے ہیں؟ نمازوں کے ساتھ یہ معاملہ آج کا ہی نہیں بلکہ گزشتہ امتوں میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے تھے، جنھوں نے دین سے بے رغبتی کی وجہ سے نمازوں کو ضائع کر کے خود کو ابدی ہلاکت و بربادی کا مستحق بنادیا تھا۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔
فَخَلَفَ مِن بَعْدِہِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا۔ (مریم: ۵۹)
’’پھر ان کے بعد ایسے نا خلف جانشین ہوئے، جنھوں نے نماز کو ضائع کردیا اور خواہشات کے پیچھے پڑگئے، تو قریب ہے کہ وہ بربادی کے انجام سے دوچار ہوں گے‘‘۔
مولانا شمس پیرزادہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’نماز کو ضائع کرنے اور خواہشات کے پیچھے چلنے کا جو ایک ساتھ ذکر ہوا ہے، اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ نماز کو ترک کرنے کے بعد شریعت کی پابندی کرنا اور نیک عملی کی زندگی گزارنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ ایسا شخص لازماً اپنے نفس کی خواہشات کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے او راس کی زندگی غلط رخ اختیار کرجاتی ہے‘‘۔
اس آیت میں مسلمانوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے، سابقہ امتوں کے نماز کو ضائع کرنے کے عبرتناک انجام کے سامنے آجانے کے بعد ان کو سختی کے ساتھ نماز کے حکم پر کاربند ہونا چاہئے تھا۔ مگر افسوس کہ آج مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نماز کو ترک کئے ہوئے ہے اور ان کی زندگیاں خواہشات کے تابع ہو کر رہ گئی ہیں‘‘۔ (دعوۃ القرآن، ج۲، ص: ۱۰۴۹)
شیخ عبد الرحمان بن ناصر السعدی اس آیت کی تفسیر میں ناخلف لوگوں، جنھوں نے نماز کو ضائع کردیا تھا اور خواہشات کے پیچھے پڑگئے تھے، کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’انھوں نے نماز کو ضائع کیا جس کی حفاظت اور اس کو قائم کرنے کا انھیں حکم دیا گیا تھا، انھوں نے نماز کو حقیر سمجھا اور اسے ضائع کردیا، جب انھوں نے نماز کو ضائع کردیا، جو دین کا ستون، ایمان کی میزان اور رب العالمین کے لیے اخلاص ہے، جو سب سے زیادہ مؤکد عمل اور سب سے افضل خصلت ہے تو نماز کے علاوہ باقی دین کو ضائع کرنے اور اس کو چھوڑ دینے کی زیادہ توقع کی جاسکتی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ شہوات نفس اور اس کے ارادوں کے پیچھے لگ گئے، اس لیے ان کی ہمتوں کا رخ ان شہوات کی طرف پھر گیا او ر انھوں نے ان شہوات کو حقوق اللہ پر ترجیح دی۔ یہیں سے حقوق اللہ کو ضائع کرنے اور شہوات نفس پر توجہ دینے نے جنم لیا۔ یہ شہوات نفس جہاں کہیں بھی نظر آئیں اور جس طریقے سے بھی بن پڑا، انھوں نے ان کو حاصل کیا۔ – ’پس عنقریب ملیں گے وہ ہلاکت کو‘ – یعنی کئی گنا سخت عذاب‘‘۔ (تفسیر السعدی، ج ۲، ص: ۱۵۸۴)
بد قسمتی سے موجودہ دور کے مسلمانوں میں، خواہ وہ تاجر ہوں یا ملازمین، دکاندار ہوں یا دستکار، اکثریت ان کی ہے، جو محض حقیر دنیاوی و ذاتی مفادات کی خاطر نمازوں کو یا تو وقت پر ادا نہیں کرتے ہیں اور یا پھر مکمل طور پر ان کو ضائع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جبکہ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے جو پیشوایان دین ہیں، ان میں بھی اکثر کا حال عام بے نمازیوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔
آجکل آڈیٹوریم ہالوں میں بھی مذہبی کانفرنسوں کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ جہاں مقررین انہی اسٹیجوں پر براجمان ہوتے ہیں جن پر مشاعرے او رناچ گانے بھی ہوتے ہیں۔ او رنیچے سامعین کے لیے سینما ہالوں کی طرح کرسیوں کا انتظام ہوتا ہے او ران ہالوں میں سمت قبلہ کا بھی کوئی اہتمام نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے ان کانفرنسوں میں شریک لوگ باجماعت نماز نہیں پڑھا کرتے بلکہ انفرادی طور پر بھی کوئی شخص وقت پر نماز پڑھتا ہوا نظر نہیں آتا ہے۔ ان میں شرکت کرنے والے علماء و پیشوایان دین اپنی مذہبی اعتباریت بھی کھودیتے ہیں۔ کیونکہ جب گفتار و کردار کے درمیان بے عملی کی لیکر کھینچ دی جاتی ہے تو اس طرح کی صورت حال پر قرآن کی اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے۔
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ (البقرۃ: ۴۴)
’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہو او راپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم (روزانہ اللہ کی) کتاب پڑھتے ہو، کیا تم سمجھتے نہیں؟‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت ہی سنگین معاملہ ہے کہ جو آدمی کسی کو نیکی کا حکم دیتا ہو او رخود اس پر عمل نہیں کرتا، یا وہ کسی کو برائی سے روکتا ہے او رخود اسے ترک نہیں کرتا، تو یہ طرز فکر و عمل اس کی جہالت او رنا سمجھی کی دلیل ہے۔ خاص کر جب ایسا شخص اس حقیقت کا علم بھی رکھتا ہو کہ کیا جائز ہے او رکیا ناجائز؟ کس عمل سے نجات ملنے والی ہے اور کس سے ہلاک ہونا ہے؟ اس طرح دوسروں کو عمل کی ترغیب دینا اور خود عمل سے دو ررہنا، کس قدر نقصان دہ ہے، خاص کر اگر یہ متضاد طرز فکر و عمل علماء و قائدین کی طرف سے ہو تو پھر اس کے بہت ہی دور رس، سنگین او رمضر اثرات مرتب ہوتے ہیں او ران کے ارد گرد لوگوں کی جو بھیڑ رہتی ہے، ان میں بھی بے عملی کے جراثیم پھیل جاتے ہیں، پھر کیا علماء او رکیا عوام، بلکہ جو لوگ دینی احکام پر عمل تو کرتے ہیں مگر دوسروں کو بے عملی یا بد عملی سے بچانے کی کوشش نہیں کرتے ہیں، سب اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجاتے ہیں۔ قرآن میں اس بدعملی کو فتنہ او رظلم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔
وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنکُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۔ (الانفال: ۲۵)
’’اور ڈرو اس فتنہ سے جس کی زد میں صرف وہی لوگ نہیں آئیں گے جنھوں نے تم میں سے ظلم کیا ہوگا (بلکہ سبھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے) او رجان لو کہ اللہ (بدعملیوں کی) سزا دینے میں بہت سخت ہے‘‘۔ (الانفال: ۲۵)
واضح رہے علماء او رمسلم قائدین کے حوالے سے خاص طور پر نماز کی کتنی اہمیت ہے اور ان کا نمازوں کا پابند ہونا کس قدر ضروری ہے؟ اس کا اندازہ اس مکتوب گرامی سے ہوتا ہے، جسے حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دو رخلافت کے دوران مختلف ریاستوں کے گورنروں کے نام لکھا تھا، اور جس کا ایک ابتدائی حصہ اس طرح ہے۔
عَنْ نَافِعٍ مَوْلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ اَنَّ عَمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَتَبَ اِلٰی عُمَّالِہِ اِنَّ اَہَمَّ اَمْرِکُمْ عِنْدِی الصَّلاَۃُ فَمَنْ حَفِظَہَا وَحَافَظَ عَلَیْہَا حَفِظَ دِیْنَہٗ وَمَنْ ضَیِّعَہَا فَہُوَ لِمَا سِوَاہَا اَضْیَعُ۔ (الموطا امام مالک، کتاب الصلاۃ، حدیث نمبر ۶)
’’حضرت عبد اللہ بن عمر کے (آزاد کردہ) غلام نافع سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے گورنروں کو لکھا تھا کہ تمہارے تمام کاموں میں سب سے بڑھ کر اہمیت میرے نزدیک نماز کی ہے، جس کسی نے اس کی حفاظت کی او راس کی نگرانی کرنے میں لگا رہا، اس نے اپنے دین کو بچالیا او رجس نے نماز کو ضائع کیا، وہ دوسرے تمام کاموں کو اور زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا‘‘۔
حضرت عمر فاروقؓ کے اس مکتوب گرامی سے بھی واضح ہوتا ہے کہ علماء و قائدین کو نماز کی حفاظت و نگرانی کرنے کے لیے کس قدر مستعد او رمحتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ایک او رحدیث کے مطابق جو لوگ جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے ہیں اور ان کو وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سے ضائع کردیتے ہیں تو ان کے لیے بہت ہی سخت وعید آئی ہے۔ حدیث اس طرح آئی ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ ہَمَمْتُ اَنْ اٰمُرَ بِحَطَبٍ لِیُحْطَبَ ثُمَّ اَمْرَ بِالصَّلاَۃِ فَیُؤَذَّنَ لَہَا، ثُمَّ اٰمُرَ رَجْلاً فَیَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ اُخَالِفَ اِلٰی رِجَالٍ فَاُحَرِّقَ عَلَیْہِمْ بُیُوْتَہُمْ ۔ الحدیث (البخاری، کتاب الاذان حدیث نمبر ۶۴۴/ مسلم کتاب المساجد، حدیث نمبر ۶۵۱)
’’حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے ارادہ کیا کہ حکم دوں کہ لکڑیاں جمع کی جائیں، پھر نماز کا حکم دوں کہ اس کے لیے اذان دی جائے، پھر کسی آدمی سے کہوں کہ وہ لوگوں کی امامت کرے، او رمیں ان لوگوں کی طرف جائوں (جو نماز باجماعت میں شریک نہیں ہوتے) اور پھر میں انہیں ان کے گھروں سمیت جلادوں‘‘۔
اس حدیث میں تو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی سخت تاکید آئی ہے اور جماعت کا اہتمام نہ کرنے کی صورت میں سخت وعید بھی آئی ہے۔ کیونکہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا، شریعت اسلامی کے بنیادی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے جو کہ مسلمانوں کے اتحاد کی ایک واضح علامت بھی ہے۔ لیکن جو لوگ نمازوں کے ساتھ غفلت برتتے ہیں اور جماعت سے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں اور باجماعت نماز کو کسی طرح کی کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں تو اس طرح کے تارکین جماعت کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ میں کسی آدمی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور خود جنگل سے لکڑیاں لاکر ان لوگوں کو ان کے گھروں سمیت جلادوں جو مساجد سے اذان سننے کے باوجود بھی جماعت میں حاضر نہیں رہتے ہیں تو اس وعید سے اندازہ ہوتا ہے کہ نماز پنجگانہ کا جماعت کے ساتھ پڑھنا کتنا ضروری ہے۔ او راس سے غفلت برتنا کس قدر ہلاکت کا باعث ہوگا۔ اس سلسلہ میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی ایک کتاب کا یہ اقتباس بھی انتہائی قابل غور ہے۔
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ اذان کی آواز سن کر اپنے گھروں سے نہیں نکلتے، میرا جی چاہتا ہے کہ جاکر ان کے گھروں میں آگ لگادوں۔ اور یہی وجہ ہے کہ حدیث میں نماز کو کفر اوراسلام کے درمیان وجہ تمیز قرار دیا گیا ہے۔ عہد رسالت او رعہدِ صحابہ میں کوئی ایسا مسلمان ہی نہ سمجھا جاتا تھا، جو نماز کے لیے جماعت میں حاضر نہ ہوتا، حتیٰ کہ منافقین بھی جنھیں اس امر کی ضرورت ہوتی تھی کہ ان کو مسلمان سمجھا جائے، اس امر پر مجبور ہوتے تھے کہ نماز باجماعت میں شریک ہوں۔ چنانچہ قرآن میں جس چیز پر منافقین کو ملامت کی گئی ہے، وہ یہ نہیں کہ وہ نماز نہیں پڑھتے بلکہ یہ ہے کہ بادل ناخواستہ نہایت بددلی کے ساتھ نماز کے لیے اٹھتے ہیں۔‘‘ (النساء: ۱۴۲)
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں کسی ایسے شخص کے مسلمان سمجھے جانے کی گنجائش نہیں ہے، جو نماز نہ پڑھتا ہو، اس لیے کہ اسلام محض ایک اعتقادی چیز نہیں ہے بلکہ عملی چیز ہے، اور عملی چیز بھی ایسی کہ زندگی میں ہر وقت ہر لمحہ ایک مسلمان کو اسلام پر عمل کرنے اور کفر و فسق سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ ایسی زبردست عملی زندگی کے لیے لازم ہے کہ مسلمان خدا کے احکام بجا لانے کے لیے ہر وقت مستعد ہو، اسی لیے دن میں پانچ وقت نماز فرض کی گئی تاکہ جو لوگ مسلمان ہونے کے مدعی ہیں، ان کا بار بار امتحان لیا جاتا رہے کہ وہ فی الواقع مسلمان ہیں یا نہیں، قرآن میں ارشاد ہے — ’’یعنی جو لوگ خدا کی اطاعت و بندگی کے لیے تیار نہیں صرف انھیں نماز گراں گزرتی ہے اور جس پر نماز گراں گزرے وہ خود اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ وہ خدا کی بندگی و اطاعت کے لیے تیار نہیں ہے‘‘۔ (خطبات، ص: ۱۲۵۔۱۲۶)
اصل میں نماز صرف عبادت ہی نہیں ہے بلکہ دائرۃ الاسلام میں داخلہ کا ثبوت بھی ہے۔ کیونکہ اسلامی عبادت میں نماز ہی ایک ایسی عبادت ہے جواجتماعی طور پر مسجد میں ادا کرنا لازمی ہے او رجس سے مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کا بھی مظاہرہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ روزانہ نماز پنجگانہ، جمعہ او رعیدین کے بڑے بڑے اجتماعات، یہ تمام چیزیں مسلمانوں میں ایک مضبوط اتحاد کی علامت ہے۔ اس لیے نئی نسل میں دینی بیداری پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی عبادات، جن میں نماز کو اول او رخاص درجہ حاصل ہے، کی طرف زیادہ سے زیادہ ترغیب دینے کی ضرورت ہے، اور ساتھ ہی خود علماء و قائدین کو بھی باجماعت نماز کا اہتمام کرنا چاہئے تاکہ ان کے قول و فعل میں کسی طرح کا کوئی تضاد نہ ہو، کیونکہ اگر مسلمان اسی طرح نماز سے غفلت و لاپروائی اختیار کرتے رہے تو پھر ان میں کسی انقلابی نوعیت کی تبدیلی کی امید نہیں کی جاسکتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی مدد بھی اسی صورت میں آتی ہے کہ جب اس کے بندے ہر وقت اس کی یاد میں مصروف ہوںاو رجونہی ان کے کان میں اذان کی آواز پڑجائے تو وہ سب کام چھوڑ کر اول وقت میں مسجد میں حاضر ہوجاتے ہیں اور تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے حوالے سے ایک اہم حدیث اس طرح آئی ہے۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلّٰی لِلّٰہِ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا فِیْ جَمَاعَۃٍ یُدْرِکُ التَّکْبِیْرۃَ الْاُوْلٰی کُتِبَتْ لَہٗ بَرَائَتَانِ بَرَائَۃٌ مِنَ النَّارِ وَبَرَائَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ۔ (الترمذی، ابواب الصلاۃ، حدیث نمبر ۲۴۱، اسنادہ صحیح)
’’حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص چالیس دن تک خالص اللہ کے لیے باجماعت نماز تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھے تو اس کے لیے دو پروانے ملتے ہیں ایک دوزخ کی آگ سے نجات کا اور دوسرا نفاق سے بری ہونے کا‘‘۔
اگر نماز باجماعت ادا کرنے کے میں سستی و کوتاہی کا سلسلہ جاری رہا تو پھر اس صورت میں ایسے آدمی کا ایمان بھی خطرہ میں پڑسکتا ہے۔ کیونکہ نماز کا یاد الٰہی سے گہرا تعلق ہے۔ (بنی اسرائیل: ۱۴)اور اگر اس تعلق کو ختم کیا گیا ہے تو پھر قرآن کے مطابق اس کا ہولناک انجام اور ابدی ہلاکت یقینی ہوگی۔ (المدثر: ۴۳)
مشمولہ: شمارہ جنوری 2018