[ایک تجربہ ]
یہ تحریر۱۸؍ اپریل ۲۰۱۵ء کو جامعۃ الحکمہ بھوپال کے ایک سالانہ پروگرام میں پیش کی گئی۔ اس میں مہمان خصوصی جناب ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی سکریٹری تصنیفی اکیڈمی جماعت اسلامی ہند تھے۔ یہ پروگرام ’’نصاب تعلیم میں دینی وعصری توازن‘‘ کے عنوان پر الحکمہ پبلک اسکول کی بلڈنگ میں ہوا۔
ہندوستان میں امت مسلمہ کے اندر موجود اپنے آزاد نظام تعلیم میں افادیت اور خیر کے کتنے پہلو چھپے ہوئے ہیں اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔یقینا اس کا بنیادی نہج بہت کچھ ہماری تعلیمی روایات اور اسلام کے ثقافتی ڈھب سے میل کھاتاہے ۔زمانے کا تعلیمی ڈھانچہ بالکل الگ اور انسانیت کی بنیادی ضرورت کے اعتبار سے ناقص ہے۔ نقص اور ادھوراپن تو دونوں طرف ہے ۔ اس فرق کے ساتھ کہ ایک طرف یہ نقص بنیادی ہے اور بیج کاہے دوسری طرف یہ نقص فرع کا یا تکمیل کاہے ۔اگر حسن وکمال مطلوب ہے تو ماننا پڑے گا کہ نفی کمال معیوب ہے۔خواہ وہ کہیں بھی ہو۔ اس زمانے میںکم سے کم امت مسلمہ کوجو کچھ مطلوب ہے وہ ایسا نظام ہے جو اپنی اسلامی بنیادیں اور ثقافتی روایتیں رکھتاہو اورساتھ ہی زمانی نوعیت کی ضروری تکمیلی چیزیں بھی ۔ ندوہ ماڈل اگر اسلامی بنیادیںرکھتاہے اور کسی حد تک بھر پور روایتی ثقافت اور زمانی تکمیلات سے عاری ہے تو علی گڈھ یونیورسٹی مسلم ثقافت کے کچھ ورثے اور زما نی تکمیلات کو لئے ہوئے ہے ۔اتنے بڑ ے ڈھانچے کے اندر مسلم ثقافت کا اتنا حصہ ،بنیادی حصے کے بغیر امت کی ضرورت کے لئے کافی نہیں ۔ یہ ایک ایسی تسلیم شدہ حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ثبوت یہ ہے کہ ہر طرف سے ایک ہی صدا آرہی ہے کہ وہ عنقا چیزابھی موجود ہی نہیں ہے ورنہ بس کاپی کرنا رہ جاتا ۔ ان ناقص ماڈلوں کی دسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں کا پیاں ہو چکی ہیں ،مطلوب ضرورت جوں کی تو ں باقی ہے بلکہ کم حوصلہ نقل کرنے والوں نے اس نقص کواور اجاگر کردیا ہے ۔
اب ہماری گفتگو صرف اس پر ہوگی کہ اپنا بہت کچھ اثاثہ رکھتے ہوئے ہم کمال سے کیوں محروم ہوگئے۔دور اول میں جب ہمارے ہاںعلوم وفنون کا ارتقاء ہو رہا تھاتوامت کی ساری ذہنی صلاحیتیں ان پر لگی ہوئی تھیں ۔ سیاسی اختلافات اورنئے نئے علمی چیلنجیز نے علماء اور نصوص اسلامی کے ماہرین کو بڑا محتاط بنا دیا تھا ۔ اپنے دائرے کے علوم وفنون میں احتیاط اورتحقیق وتنقید نے ان کو عبقریت کا مقام د لادیا ۔ انسانی تاریخ کے توارث سے جو تہذیبی اور تمدنی علوم آرہے تھے ان کی نوعیت ذرا الگ تھی ۔دینی علوم سے اس کا تعلق اس طرح تو تھا کہ بعض باتیں درست ہوں اور بعض باتیں درست نہ ہوں یا کسی معاملہ میں جوازیاعدم جواز کامعاملہ ہو۔ لیکن اس سلسلے میں استفادہ اصلا سابقہ تہذیبی وتمدنی علوم کے مطالعہ، ردونقد اوراخذ وقبول کی راہ سے ہی ہو ناتھا۔اپنے وقت پریہ عمل ہوگیا۔ بعد میں پڑھنے پڑھانے اور تحقیق وتنقید کی جو روایتیں قائم ہونی چاہئے تھیں وہ قائم نہ رہ سکیں ۔ قرآن وحدیث کے خالص دینی علوم کے ساتھ بعد کے دور میں فقہ وقانون کے علم کو دنیوی ضروری علم کی حیثیت سے ایک بڑا درجہ مل گیا۔تمدنی علوم کی اہمیت دن بہ دن کم ہوتی چلی گئی ۔ دینی نصوص کے ماہرین نے ان تمدنی علوم کا اعتراف نہیں کیا بلکہ نقدوجرح کے تیروں سے ان کاوشوں کو زخمی کیا۔ بعد کی صدیوں میں جب ان علوم کی کتابیں کیونکہ ہر تعلیمی مرکز کے دست رس میں نہیں تھیں یا جب تاراج کردی گئیں یا لوٹ کامال سمجھ کر فاتح قوم کی طرف منتقل ہوگئیں تو اب ساری مسلم دنیا اس سے عاری ہوگئی۔ اب دوبارہ جبکہ ان سب چیزوںکی یافت ہوچکی ہے۔سب کچھ عام ہوچکاہے۔ضرورت کی حد تک زبان کی رکاوٹ بھی کم ہو گئی ہے۔
ہمارے مدرسوں کی نصاب میں آج بھی ان علوم کی جانکاری صفر کے برابرہے ۔ آج حکماء اور مسلم سائنسداں کے حوالے سے اردو میں گنتی کی دو چار تعارفی نوعیت کی سرسری کتابیں ہیں ۔وہ بھی نصاب کا حصہ نہیں ہیں ۔مدرسوں میں تعلیمی سالوں کی مقدار اور علوم اسلامی کاحجم بڑھتا جارہاہے ۔جس تناسب اور توازن کی ضرورت ہے وہ نا پید ہے۔جب کہ آج پرائمری لیول کی اسکولی تعلیم میں جدید دورکے ہر سائنسی کارنامے کی مختصر تفصیل اور سائنسی وسماجی شخصیت کا تعارف موجودہے۔ ہمارا انداز کچھ ایساہو گیا ہے کہ گویا ہمیں فخر اور خوشی ہو کہ ہم دنیوی علوم کے بوجھ سے آزاد ہوگئے ہوں اور کچھ اتنے بے نیاز، کہ اگرکسی کو کچھ اور ضرورتیں پوری کرناہو تو کہیں اور جائے ۔ بہت سے ہندو اور کرشچین اسکول ہیں ۔ عملاً تو یہی ہورہاہے ۔ارباب مدارس کے اس طرح ان علوم سے بے نیاز ہونے کی وجہ سے عوام الناس نے بھی بے رخ ہوکر اپنا رابطہ اسکولی دنیا سے قائم کر لیا۔اب صورتحال یہ ہے کہ پانچ فیصد لوگ شاید اعتماد سے کہہ سکتے ہوںگے کہ ہم گھرمیں دینی تعلیم دے دیںگے۔ اور شاید پانچ فیصد لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ تبلیغ میں بھیج کر ہم دیندار بنالیںگے۔ اگر یہ ابتدائی دینی واقیت بالفرض کسی حد تک کام کی مان بھی لی جائے تو مزید۹۰فیصد کا حال تو اب بھی دگر گوں ہے ۔ اب تو 14 سال کے بچے کے لئے تعلیم پانا لازم ہو گیاہے ۔آپ تو بے نیاز ہو گئے کہ جہاں جاناہو جائیں ۔زمانے کی توجہ اور التفات کا تو یہ عالم ہے کہ بچوں کے لئے دنیوی ضرورت کی تعلیم کے لازم ہو نے کا قانون بن رہاہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صرف نظام تعلیم کے درست کرنے سے معاملہ درست ہوناہے۔
فطرت کا تقاضا ہے کہ تعلیم کا رشتہ عملی زندگی سے مربوط ہو ۔ اس سے صرف نظر کر کے کہ یہ رشتہ بنیادی ہو یا ثانوی۔ ضرورت بڑی منہ زور ہوتی ہے ،اگر کسی سبب سے یہ عملی رشتہ کٹ جائے اور کسی درجہ میںتعلیم سے روزگاراورعملی زندگی کاربط قائم نہ رہے تو تعلیم پانے والوں میں ایک طرح کی بے کیفی اور طبیعت میںکسی حد تک مرجھانے والی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔اس ضرورت کی تکمیل کے لئے مدرسوں نے نصاب میں اوپری سطح کی جزوی تبدیلی پیدا کرلی تا کہ جدید اداروں سے الحاق ہو جائے اور کسی حدتک اپنے دائرے کے علوم کے ذریعہ اس ضرورت کو پورا کرلیا۔اس میں جو بات پیش نظر رہی وہ یہ کہ اپنے نظام ونصاب کو جیوں کا تیوں باقی رکھتے ہوئے محض جزوی تبدیلی کرکے یا خارجی جزوی تجاویز پر عمل کرکے مدارس کے طلبہ کو یونیورسٹی میں جانے دیا ۔یا اب برج کورس کے ذریعہ اس کو ذرا اچھے اندازسے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تبدیلی کی ضرورتوں کے اس غلغلے کے بعد اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اصل بات ہی غائب نظر آتی ہے۔ اسکولی نظام تعلیم میں جو روٹ ڈلے گی آگے پھل اسی کے اعتبار سے ملیں گے۔یہ فطرت کے خلاف ہے کہ اگر دینی تعلیم کی بنیاد نر سری سے نہ ڈالی جائے گی تو 10thکلاس کی اسکولی تعلیم کے بعد صرف ایک فیصدیا دو فیصد مہم جو شخص بعد میں مدرسی دنیا میں آکر کوئی کارنامہ دکھائیںگے ۔ اسی طرح مدرسے کی تعلیم میں جہاں نرسری سے یونیورسٹی کی تعلیم تک جدید تعلیمی بنیادوں کو اس طرح نہ ڈالا جائے تو وہ سائنسی اور سماجی علوم میں کوئی قابل قدر کارنامہ انجام نہیں دے سکتا۔اگر ایک فیصد یا دو فی صد کوئی ایسا کرگزرے تو بات الگ ہے۔ موجودہ وقت میں ہر یونیورسٹی میں مدارس سے آئے طلبہ واساتذہ بھرے ہیں ، شاذ ہی ایسا ہوگا کہ جو انگریزی میں ، سائنسی وسماجی علوم میں کوئی ماہرانہ کام کر رہاہو ۔شاید کچھ لوگ اس کو لطیفہ سمجھیںگے کہ آج بھی مسلم معاشرے کے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی شخص کے ساتھ ڈاکٹر یا پروفیسر کا جدید لفظ لگنے کا مطلب ہے عصری تعلیم کا ماہر ۔ یہ فہم کی سطح تقریبا وہی ہے کہ جب جدید تعلیم کارجحان چلا تو خط کے ایڈریس پڑھنے کے لئے جتنی انگلش کی ضرورت تھی تو لوگوں نے سمجھا کہ مولوی صاحب کو انگلش آگئی ہے۔ آج علوم و فنون کی جو شاخ در شاخ شکلیں ہیں اور مہارتوں کی جو انتہا ہے، اس روشنی میں اگراس دنیا سے کوئی رابطہ ہوا بھی ہے تو صرف ایک صفحہ یا دو صفحے کا مضمون پڑھنے کا ہواہے ۔
میں یہ بات براہ راست معلومات کی بنیاد پر کہہ رہاہوں کہ اتنے دنوں کے بعد مدارس میں جو تبدیلی آئی ہے وہ یہ کہ مدرسی دنیا میں ایک یا چند غیر اہم ریٹائرڈانگلش ٹیچرمدرسی ماحول میں ہوتاہے۔پورے نظام میں انگریزی تعلیم وتعلم کی کوئی فضا نہیں ہوتی ۔ نہ اخبارات و میگزین ہوتے ہیں ، نہ اس کو پڑھنے کی صلاحیت ہوتی ۔ نہ اس صلاحیت کی کوئی تحریک ہوتی۔ یا اگر کسی کو ذاتی دلچسپی ہے تو اسکی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔یہ تو اس انگریزی کا حال ہے جس کی صدا لگاتے ہوئے علماء کے گروہ کو سوا سو سال ہو گئے ہیں ۔سائنسی اور سماجی علوم کا معاملہ تو اور برا ہے۔ ان علوم کی تعلیم وتعلم کی ضرورت کے لئے توہمارے علماء حوصلہ افزائی کے کلمات بول ہی نہ سکے ۔دور اول کی تاریخ میں بھی ،جیسا کہ میں نے اوپر کہا،علماء اعترافی کلمات نہیں بول پائے ۔ سر سید دور آخر میں اس کے سب سے بڑے مؤید رہے ہیں ، لیکن المیہ یہ ہے کہ وہ علماء کے حلقے میں معتوب ہوگئے ۔شبلی چند اصلاحات کے ساتھ اس عمل کو مکمل کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں صحیح میدان کار دستیاب نہ ہو سکا۔ دیگر علماء سمجھ ہی نہیں پائے کہ سائنسی علوم وغیرہ کے وہ مثبت پہلو بھی ہیں جنہیں اب تقریبا ہر ایک بیان کر رہاہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ یہ علوم ہمارے مدرسی نصاب میں تقریباصفر کے درجہ پر ہیں اور ان علوم کا ایک ماہر استاد بھی ان مدرسوں میں نہیں ہے۔یہ دور کا مشاہدہ یا اٹکل نہیں ہے۔ایک آدھ مدرسے کو اس سے مستثنی کر بھی دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس کے مقابلے میں آج عام اسکولی تعلیم کا لیول یہ ہے کہ primary میں بچے کے پہنچنے سے پہلے وہ انگلش زبان کے الفاظ ، تلفظ اور لکھنے سے واقفیت حاصل کر چکتا ہے ۔ پرائمری لیول کے مکمل ہونے تک اس زبان کے ذریعہ سائنس اور سماجی علوم کی ابتدائی معلومات ، سائنسی وسماجی شخصیات اور اہم سائنسی ایجادات سے واقف ہو چکتا ہے۔ریاضی کاعلم توخود اسکول کی تعلیم کے سابقہ معیار سے بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ مدرسہ کے نصاب میں بچے کے لئے اس طرح کی معلومات کا جامع نصاب تو کجا ابتدائی نصاب بھی نہیں ہوتا۔ آگے تک کے نصاب میں وہ جن آلاتی چیزوں کو اور قریب کی مشینی زندگی کودیکھ رہا ہوتا ہے اس کے تعلق سے اسے کوئی جانکاری نہیں ہوتی۔ زمانہ اتنی برق رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے کہ شاید ایسے لوگوں کو لوگ عجوبہ سمجھنے لگیں۔اس پہلو سے یہ کہنا بجا معلوم ہوتاہے کہ ان لوگوںکا خلا ملا تعلیم یافتہ لوگوں سے نہیں ہوتا۔نہ انہیں انٹرویوکا سامنا کرناہوتاہے کہ جانچ ہو۔ آج مختلف رپورٹیں جو شائع ہو کر منظر عام پر آرہی ہیں ان کی جانچ کا معیار شاید یہی ہے۔ذرا یوں بھی ہم جائزہ لے لیں کہ مدرسے کے آگے تک کے نصاب میں ہماری تاریخ میں پائے جانے والے حکماء اور سائنسی کاوشیں کرنے والے افراد کے کارناموں، تصورات اور زمانے پر ان کے اثرات سے واقف ہونا تو دور کی بات ہے ، طلبہ ان کے ناموں تک سے واقف نہیں ہوتے۔اگر ان کو خارجی مطالعہ کی تجویز دی جائے تو اردومیں سر سری کتابوں سے زیادہ کتابیں یا تو موجود نہیں ہیں یا عام نہیں ہیں ۔اب کچھ اردو رسائل میں سرسری تعارفی مضامین نظر سے گزرتے ہیں ۔لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ خارجی کتابوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے رہبر مطلوب ہے، رہبر کے لئے یہ شرط کہ اسے اس مضمون سے دلچسپی ہو پھر اسے اس مضمون یا کتاب کا صرف پتہ ہی نہ ہو بلکہ اس نے اسے پڑھ بھی لیاہوپھر ہر ہر فرد کو دینا۔ نصاب میں تعلیم دیکر اگر ایک حد تک دلچسپی نہ پیدا کردی گئی ہوتو کسی چیزکو پانے اوراس تک پہنچنے کا فاصلہ بہت بڑھ جاتاہے اور کبھی کبھی تو یافت سے باہر ہوجاتاہے۔
صورتحال کے جائزہ میں کچھ طوالت اس لئے ہوگئی کہ ہم بتانا چاہتے تھے کہ کن نفسیاتی ، ذہنی اور تجرباتی راہوں سے گزرکر الحمد للہ ہم یہاں تک پہنچے ہیں ۔ اللہ کا فضل ہے کہ پوری ایک ٹیم نے اس سفر کو یہاں تک پچانے میں مدد کی ہے۔ہم یہ کہتے ہوئے اللہ کے بے انتہا شکر گزار ہیں کہ ہمارے پلان کا ایک حصہ یا ہمارے سفر کا ایک مرحلہ اسطرح پورا ہوا کہ اس سال جامعۃ الحکمہ کے ماتحت چلنے والے الحکمہ پبلک اسکول کے طلبہ نے Government MP Board سے امتحان میں بیٹھنے کا موقع حاصل کیا۔ آج سے دو سال پہلے میں نے اسی طرح کی ایک محفل میں ـ ایک مدرسہ اسکول کے نہج پر کے عنوان سے مدرسے کو اسکول کے نج پر لانے کی روداد سنائی تھی ۔آج میں یہ بتاؤں گا کہ کس طرح ہم نے نصاب کو ملایا کہ ہمارے وہ طلبہ جنہوںنے 9th کلاس تک انگلش ، سائنس، سوشل سائنس اورمیتھس کی CBSEکی کتابیں پڑھیں اور 10th میں MP Board کی کتابیں پڑہ کر امتحان دیاہے۔
پہلے سے یہ بات ہمارے پیش نظر رہی ہے کہ ہمیں کچھ تکمیلی چیزوں کی ضرورت ہے۔ مدرسہ میں پڑھائے جانے والے اجزاء اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں ۔بلکہ ہم نے یہ تک اپنے پیش نظر رکھاہے کہ ماحول ،روایتیں ،سادگی ، جذبہ خدمت اور بہت کچھ جو ہما ری میراث ہے، اسے وہیں سے لینا ہے۔ تو ہم نے یہ طے کیا کہ اردو زبان اور عربی زبان ،جو ہمارا ثقافتی ورثہ ہے، ہماری جسم وجان کی حیثیت رکھتاہے، حتی کہ فارسی زبان بھی۔ہم نے یہ سب اس طرح نصاب میں شامل کیا کہ نرسری سے 10th کلاس تک اردو با قاعدہ زبان وادب کی حیثیت سے جاری رہے گی۔9th اور 10th میں اردو کے ساتھ ابتدائی فارسی بھی پڑھائی جائے گی۔ عربی کا ایک پیریڈ لازم کیاگیاہے نرسری کلاس سے 10th تک ۔3rd تک قرآن پاک کی تحفیظ وتجوید ۔ 4th سے 10th تک عربی زبان،نحو وصرف اور ادب ۔ اسلامیا ت اور تعلیم دین کا ایک پیریڈ لازم کیا گیا ہے نر سری سے 10th کلاس تک۔
آج ہم مسرت کے ساتھ اور اللہ کی اس توفیق پر جذبہ شکر سے لبریز ہوکر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ Nursery سے لے کر 10th کلاس تک ہمارے طلبہ ایک دن بھی اردو ، قرآن ، عربی اورتعلیم دین سے محروم نہیں رہے۔ میں آپ کووہ پلان نہیں بتا رہا ہوں جو ابھی ذہن وخیال میں ہو یا جو ابھی صرف صفحہ قرطاس پر ثبت ہواہو۔نہیں ، بلکہ یہ پلان ایک ایک دن ، ایک ایک مہینہ اور ایک ایک سال گذار کر ، تین مسجدوں اور تین اور جگہوں کی درودیوار کو گواہ بناکر اس چوتھی جگہ اور ایک چوتھی مسجدمیں آکر خدا کی رہنمائی میں سینکڑوںنو نہال نفوس پر رقم ہواہے اور ان معصوموں کے والدین اس کے شاہد ومعترف ہیں ۔
اسکولی سطح کی وہ پرائمری لیول کی نصابی کتابیںپہلے ہم نے MP Board کی چلائیں پھر بدل کر سینٹرل بورڈ کی سرکاری کتابیں چلائیں اسکے بعد شہر میں اچھے اسکولوں کے نصاب پر غور کرکے دو مرتبہ مزید نصاب بدلا گیا۔ اس سلسلے میں اپنی آسانی کے لئے ہم نے یہ اصول بنایا کہ اس وقت نہ ہم اجتہاد کے درجہ پر ہیں اور نہ اس سلسلے میں کوئی رہنمائی کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ خود تجربہ کرنا ہے اور سیکھناہے ۔جس فیلڈ سے ہمارا تعلق ہونا ہے اس کی مہارتوں کو اپنانا ہے۔اس لئے ہمارے پاس اچھے سے اچھے سلیکشن کا آپشن ہر وقت موجود ہے۔ یہاں بھی ہم نے تقلید کو اختیار نہیں کیا ہے ۔ بس ہماری ضرورت ہمارے سامنے ہے۔ آج عصری تعلیم اتنی عام ہے اور کام کی چیزوں کی اتنی ویرائٹی ہے کہ اگرکھلی نگاہ سے ڈھونڈا جائے تو سب کچھ دستیاب ہے ۔ اور ہمیں خطرہ اس لئے نہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو اور اپنی امانتوں کو دین کے حصار میں محصور کر لیا ہے۔ اتنے انتظام کے بعد کسی خطرے کاکوئی امکان نہیں ہے ۔ جو تد بیر اپنے بس میں تھی اللہ کی توفیق سے کرلی ہے اور حقیقت تو یہی ہے کہ اللہ ہی حامی ومددگار ہے۔
اب ہم اپنے ایڈشنل یا اضافی تعلیمی نظام کے بارے میں بھی بتاتے ہیں ۔ہم اپنے طلبہ کو ترغیب دیتے ہیں کہ گھر کے ماحول کو چھوڑ کر ایک محفوظ جگہ مسجد میں جو شام اور رات کے اوقات میں ہمارے بیٹھنے کی جگہ ہے، وہاں آئیں ۔ شہر کی کوچنگوں کے مخلوط اور سحر آفریں ماحول سے بچ کر ایک پاکیزہ ماحول میں آناجہاں شام کی دو یا تین نمازیں فارکعوا مع الراکعین کا حکم بجا لاکر ادا کرنا ہے۔ آج شہر کی معمولی کوچنگ کا ریٹ 30 سے 50 ہزار سالانہ ہے ۔ اور ایک لا کھ اور اس سے اوپر کی کو چنگیں کئی ہیں ۔ ہم نے 100/ Rs کی معمولی فیس پر اور وہ بھی لازمی نہیں ہے، ایک پورا کو چیگ کا نظام صرف امتحان کے محدود دنوں کے لئے نہیں بلکہ مستقلا قائم کیاہے۔اس میں 4th اور 5th کے طلبہ کے لئے عربی، اردو ۔ انگلش اور میتھ کا مستقل پڑھانے کا نظام ہے۔مڈل کے طلبہ۔۔6th ،7th اور 8th ۔۔کے لئے عربی اور انگلش پڑھانے کا نظام ہے۔ اسی طرح 9th اور 10th کے لئے سائنس اور میتھس کا نظام ہے۔ 10th کلاس میں اسکول کے اوقات میں میتھس کے لئے ہم نے دو پیریڈمختص کئے ہیں ۔ ایک عجیب صورتحال یہ ہے کہ بچپن ہی سے بس ایک دو سبجیکٹس پر محنت کرنے کرانے کی ضرورت سمجھی جاتی ہے ۔ ہم نے جو نظام بنایا ہے وہ ریگولر محنت کرنے اور متناسب ضرورت کے اعتبار سے محنت کرانے کا عادی بنانا ہے۔مسجد میں اساتذہ سادگی کے ساتھ بیٹھکر پڑھاتے ہیں حالانکہ شام کے اوقات میں ہماری یہ بلڈنگ بھی خالی ہے، لیکن چھوٹے نظام کے لئے وہاںزیادہ سہولت معلوم ہوتی ہے۔ الحمد للہ ہماری اس مسجد کے گوشہ میں کمپیوٹر کی سہولت بھی موجودہے۔جب اس مسجد کاذکر ہی آگیا تو میں یہ بھی بتا دوںکہ ہمارے الحکمہ پبلک اسکول نامی پودے کی ابتداا سی طرح کی مسجدوںمیں ہوئی ہے ۔ اوراب جب کہ یہ دو منزلہ بلڈنگ ہمارے لئے تنگ ہو گئی ہے تو اپنے پلان کے آگے والے مراحل کی تکمیل بھی انشاء اللہ فی الوقت اسی مسجد میںہوگی ۔ توسیع تو ہونا ہے خواہ ابھی ہمارے لئے مناسب جگہیں تنگ پڑ رہی ہوں ۔خلاصہ یہ ہے کہ اس سال سے 10th کلاس اور ان شاء اللہ آئندہ سال سے 9th کلاس اسی مسجد میں لگاکرے گا ۔ صرف جگہ بدلے گی نظام ونصاب اور اساتذہ وہی رہیں گے۔
ادعائی انداز سے تو نہیں لیکن تحدیث نعمت کے طور پر میں یہ کہتا ہوں ہم نے یہ طے کیاتھا۔ اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مسجدومدسہ کے ماحول میں رہ کر اپنی ٹیم بنائی تھی کہ جب ہماری روٹ مدرسہ کی ہے تواب اس نظام کے صرف نام ہی کو نہیں بلکہ اسکے کردار کوبھی اپنائیں گے۔ جس میں بنیادی حصہ خدمت اور طلبہ کی سہولت کا ہوگا۔ غریب بچوں کے لئے حتی کہ متوسط سطح کے بچوں کے لئے بھی پہلی پریشان کن چیز ایڈمیشن فیس ہے ، جو ایک طرح کی من مانی ہوتی ہے ۔ کچھ کئے بغیر محض کریڈٹ کی قیمت وصو ل کر ناہے ۔اور اس ہنگامی وقت کی نفسیاتی کیفیت کو اکسپلائٹ کرنا ہے ۔ ہم نے اس کو کلی طور سے اپنے اوپر ممنوع کر لیاہے۔ ٹیوشن فیس Nursery سے 10th تک کی فیس Rs 300/ سے Rs 500/ کے درمیان ہے۔اس کے علاوہ کسی قسم کا اضافی چارج لئے بغیر ساری سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں جس میں پرو جیکٹر ، کمپیوٹر ، پرنٹر مشین کی سہولتیں شامل ہیں ۔ کاپی اور کتابوں کی بازار ریٹ پر فراہمی۔جس میں طلبہ کو تقریبا 35% یا 4o% چھوٹ کا فائدہ دیا جا تا ہے ۔مسجد میں لی جانے والی اضافی کوچنگ کی علامتی فیس کا تذکرہ اوپر کیا جا چکاہے۔ نیز غیر مستطیع طلبہ کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔جن کی جزوی یاکلی فیس معاف ہے۔ 100% حاضری اور اچھی پرفارمینس پر طلبہ کے لئے انعامات کی جھڑی لگی رہتی ہے ۔ جو لوگ ہم سے وابستہ ہیں اور ہمارے انداز سے واقف ہیں وہ ضرور اس بات کی گواہی دیںگے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے ایک دعوی کیا ہو اور بس ایک تصور پیش کیاہو،بلکہ ہم نے ساری تعلیم کوطلبہ رخی اور طلبہ مرکزی بنایاہے۔
جب ہم یہ سب کر رہے ہیں اور اللہ دیکھ رہاہے کہ فی الواقع ایساہی ہے تو آج اگر موقع آیاہے توہم بتا بھی رہے ہیں ۔ حالانکہ بتانے کا عمل اتنا کم ہے کہ ہمارے بہت سے قریبی لوگ بھی نہیں جان پائے کہ ہم 19 سال سے جو کچھ کر رہے تھے وہ کیاتھا اور آج الحمد للہ 3 سال میں جو کچھ سامنے آرہاہے تو یہ کو ئی کرشمہ نہیں ہے بلکہ ہمارے ٹیم ورک، اجتماعی عمل اور محنت کا پھل ہے جس کو خدا نے اپنے فضل خاص سے ثمر بار بنا دیاہے۔ اس پر ہم اللہ کے بے انتہا شکر گذار ہیں کہ اسی کی توفیق سے آج ہم نے ایک ماڈل بنالیا ہے۔ یہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مشابہ ماڈل نہیں ہے جس میں امت کی بنیادی تعلیم کی ضرورت کا اتنا خیال نہیں رکھا گیا جتنا تکمیلی ضرورتوںکا رکھا گیا۔بلکہ میں یہ کہوں گا کہ یہ ندوہ ماڈل سے زیادہ مشابہ ہے جس میں امت کی بنیادی ضرورتوں کا خیا ل رکھا گیا ہے ۔البتہ اس ماڈل میں تکمیلی ضرورتوں کا قابل قدر اضافہ کیا گیاہے ۔
اس وقت اہل فکر مسلسل اس طرح کے مضامین لکھ رہے اور خیالی اور تصوراتی خاکے پیش کر رہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت شدید تقاضہ ہے اس طرح کے عملی تجربے کرنے کا ۔ آج میری پوری گفتگو ہمارے اس تجربے کی تشریح وتوضیح میں صرف ہوئی ہے ۔انشاء اللہ یہ کامیاب تجربہ اپنی تکمیل تک پہنچنے میں مزید دو سال کا وقت لے گا ۔جامعۃ الحکمہ کے ہمارے طلبہ12th Standard کی عصری تعلیم کے ساتھ انشاء اللہ عالمیت کی تعلیم مکمل کریں گے۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2015