اللہ تعالیٰ نے دعوت دین کا فریضہ صرف مردوں پرعائد نہیں کیا ہے بلکہ خواتین پربھی یہ ذمہ داری عائدکی ہے۔دین کے فرائض وواجبات مردوں کی طرح خواتین کے لیےبھی ضروری ہیں۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر،شہادت علی الناس،دعوت دین اوراقامت دین کے کام خواتین کے ذمہ بھی اسی طرح ہیں جس طرح مردوں کے لیےہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خواتین گھراوراولاد کی ذمے داری اداکرتے ہوئے یہ کام کریں گی۔ان کا اصل دائرہ کارخواتین کا سماج ہوگا۔
اس سلسلے میں بعض قرآنی آیات ملاحظہ کریں:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیاءُ بَعْضٍ۔ یاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَینْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَیقِیمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَیطِیعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۔ۭ اُولٰىِٕكَ سَیرْحَمُہُمُ اللہُ۔ۭ اِنَّ اللہَ عَزِیزٌ حَكِیمٌ۔ (التوبۃ:۷۱)
’’مومن مرداور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں،زکوٰۃ دیتے ہیں اوراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جن پراللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقیناً اللہ سب پرغالب اورحکیم ودانا ہے۔‘‘
اِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِینَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِینَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِینَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِینَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِینَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِینَ وَالصّٰۗىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِینَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِینَ اللہَ كَثِیرًا وَّالذّٰكِرٰتِ۔ اَعَدَّ اللہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیمًا۔ (الاحزاب :۳۵)
’’بالیقین جو مرد اور عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں،راست باز ہیں، صابرہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے،صدقہ دینے والے ہیں،روزہ رکھنے والے، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے اور اللہ کوکثرت سے یاد کرنے والے ہیں،اللہ نے ان کے لیے مغفرت اوربڑااجر مہیا کررکھا ہے۔‘‘
مسلم خواتین کی دعوتی ذمہ داریاں مردوں کے تابع نہیں ہیں، بلکہ دعوت اسلامی کا فریضہ ان پر بھی مردوں کی طرح عائد ہوتا ہے۔بسا اوقات خواتین اس سلسلے میں مردوں پرسبقت لے جاتی ہیں۔
دعوت اسلامی کے ابتدائی دور میں شروع ہی سے خواتین کا رول خاصا اہم اور بھرپور رہاہے ۔ قبول اسلام،اسلام پر صبرواستقامت،جان ومال کی قربانیاں،دعوت کی راہ میں پہلی شہادت،ہجرتِ حبشہ اول ودوم اور ہجرتِ مدینہ،غزوات،شعب ابی طالب اورمدینہ میں اسلامی معاشرے کی تعمیر سے لے کر دعوت،اقامت ِدین اور غلبۂ دین تک کا کوئی کام اورکوئی مرحلہ ایسا نہیں ہے جہاں خواتین نے سرگرم رول ادا نہیں کیا۔دعوت دین کے آغاز سے لے کر اقامت دین کے غلبے تک کے سفر میں صحابیات کے عظیم کارنامے ہیں، جن کے تذکروں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
مسلم خواتین کی صورت حال
آج مسلم خواتین کا سرسری طورپر دینی جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا معاملہ مردوں سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے ۔وہ محدود تصوردین کی حامل،خاندانی رسم ورواج میں جکڑی اور دینی تعلیم سے محروم ہیں۔شادی کے بعد بھی اس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔بہت سی غیر اسلامی روایات جو آباسے چلی آرہی ہیں وہ اصل دین وشریعت کی جگہ لے لیتی ہیں۔ بدعات وخرافات کا زور ہے۔ بے پردگی اور جہالت عام ہے، ان کی ایک محدود تعداد ہی نماز، روزہ اور دیگر فرائض کی پابندی کرتی ہیں، خواتین میں دعوت کے کام کادوردور تک کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔غیرمسلم خواتین سے ان کے تعلقات یا روابط بالکل نہیں ہیں ۔ان میں یہ بات پھیلادی گئی ہے کہ ترجمہ سے قرآن مجید کونہیں پڑھنا چاہیے۔تمام مسلم خواتین ایک سطح پر نہیں ہیں،کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم خواتین ہیں،کچھ درمیانی طبقہ کی معمولی تعلیم یافتہ ہیں۔اس کے بعد بہت بڑی تعداد میں وہ خواتین ہیں جو بالکل ان پڑھ رہ گئی ہیں ۔ان سب کے نزدیک غیرمسلم خواتین کے متعلق وہی تصورات پائے جاتے ہیں جو ان سے دور کرنے والے ہیں۔مردوں ہی کی طرح ان سے دوری اور بے تعلقی عام سی بات ہے ۔وطنی خواتین سے کسی ضرورت یا مجبوری کی بنا پر ملاقات (اسکول، اسپتال،دکان،فارمیسی وغیرہ)ہوجاتی ہے، لیکن انھیں اسلام کا تعارف کرانا،ان سے میل جول بڑھاکر خوشی اور غم کے موقعوں پر ان کے ساتھ رہ کران کی نظر میں خیرخواہ بننا، اس طرح کا تصور نہیں پایاجاتا۔غیرمسلم خواتین اوران کی آبادی کے متعلق مسلم خواتین کے اندربعض غلط فہمیاں اور بدگمانیاں بھی پائی جاتی ہیں۔
مسلم خواتین کے اندر دین کے لیے بے پناہ جذبہ پایا جاتا ہے ۔اللہ اوراس کے رسول سے محبت اور وفاداری کے معاملے میں وہ حساس ہیں۔ان میں اچھی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اپنی بات کو پیش کرنےاور سمجھانے کا ان میں سلیقہ ہوتا ہے۔ بغیر کسی جھجک اورمرعوبیت کے وطنی خواتین کو وہ دین کی باتیں سمجھاسکتی ہیں۔مسلم خواتین کی عمومی اصلاح وتربیت کے سلسلے میں مایوسی کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اب تک جن تنظیموں اور اداروں کے ذریعے یہ کام ہورہاہے اس کے نتائج کافی حوصلہ افزاہیں۔
رسول اکرمﷺ کے دو ر میں صحابیات کے ذریعے خواتین میں دعوت کاکام ہوتاتھا۔ صحابہ کرامؓ کی جانب سے خواتین میں دعوتی کام کرنے کے واقعات اورمثالیں بہت کم ہیں ۔ظاہر ہے مرد حضرات خواتین میں دعوت کا کام بھرپور طریقے سے نہیں کرسکتے۔ اس طرح مسلم خواتین، غیرمسلم مردوںمیں دعوت کا کام نہیں کرسکتی ہیں۔خواتین کا دائرہ کار خواتین ہیں۔ اس کے ساتھ خاندان اور معاشرے کی تعمیرمیں خواتین کے رول کی بڑی اہمیت ہے۔
غرض یہ کہ آج کی صورت حال میں مسلم خواتین کو فریضۂ دعوت کے لیے تیار کرنا ضروری ہے ۔دعوت کے کام میں خواتین کو کہیں بھی مستثنیٰ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ وہ ان ذمے داریوں میں مردوں کے برابر شریک اورشامل ہیں۔
دعوت اورصحابیات
صحابیات میں دعوتی جذبہ بہت زیادہ پایا جاتا تھا۔ قبول حق کے بعد وہ بے چین ہوجاتی تھیں کہ کیسے دوسروں تک دعوت پہنچائی جائے۔ دعوت کی خاطروہ ہر طرح کی قربانیاں دینےکے لیے تیارو مستعد رہتی تھیں۔ قبول اسلام کے ساتھ ہی عرب جاہلی معاشرے میں ان کی پاکیزہ زندگیوں کا نمونہ اپنے اندر دوسروں کے لیے کشش رکھتاتھا۔ دوسری طرف انھوں نے کبھی دین کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا ۔اس ضمن میں حضرت عمرؓ جیسی شخصیت کے قبول اسلام میں ان کی بہن حضرت فاطمہ بنت خطابؓ کاکردار یادرکھنا چاہیے۔حضرت سمیہ ؓ راہ خدا میں پہلی شہید ہیں۔ حضرت خدیجہؓ نے قبول حق کے بعد اپنا گھر،اپنے سارے وسائل اوراپنی پوری دولت، تجارت، اپنا آرام اور راحت سب کچھ قربان کردیا۔
حضرت ام سلیمؓ کا دعوتی واقعہ بتاتا ہے کہ صحابیات کس طرح جذبۂ دعوت سے سرشار ہوتی تھیں اور ان کے اندر دعوتی کام کوانجام دینے کی حکمت اور صلاحیت کتنے اعلیٰ پیمانے پر پائی جاتی تھی۔
حضرت عائشہؓ اور ان کی بہن حضرت اسماءؓ نے ہجرت کے نازک موقع پر نہایت اعلیٰ درجہ کی سمجھ داری اورفراست کا ثبوت دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین میں دعوتی کا م کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے۔ رسول اللہﷺ کے مبارک دور میں خواتین کی دعوت،جہاد اور غزوات میں خدمات کے بہت سے واقعات ہیں۔ایک عورت جب حق کو قبول کرلیتی ہے تووہ پورے گھراور خاندان کوبدل سکتی ہے۔
جنگ احدمیں انتہائی نازک موقع پر،جب کہ حضور ﷺ چند صحابہ کے ساتھ میدان میںڈٹے ہوئے تھے، مسلمان سراسیمگی اور مایوسی کی حالت میں تھےاور رسول اکرمﷺ کی شہادت کی افوہ اڑائی گئی تھی۔ حضرت ام عمارہؓ چند صحابہ کے ساتھ حضورﷺ کی حفاظت کے لیے گھیراڈال کردشمنوں کامقابلہ کرنے لگیں۔ ایسے نازک موقع پردشمنوں کے نرغے میں ایک صحابیہؓ کا یہ عظیم کردارراہِ دعوت وجہاد میں ایک نمونہ ہے۔چندمسلم خواتین کے ذریعے تاتاریوں میں جواسلام پھیلا ہےاس کے بعد تاریخ کا دھارابدل گیا۔اسلام اور مسلمانوں کے کٹر دشمن تاتاری اسلام اور مسلمانوں کے حامی بن گئے ۔
حضرت خدیجہؓ کا دعوتی واقعہ
حضرت خدیجہؓ کا آخری وقت ہے، وہ بستر مرگ پرتھیں۔ ان کی بچپن کی ایک سہیلی عیادت کے لیے پہنچی۔ اس نے اپنی دانست میں حضرت خدیجہؓ کو بے چارگی،بے کسی اور بےبسی کی حالت میں پایا۔ اس پر اظہار افسوس کرتے ہوئے دعوت دی کہ اسلام سے توبہ کرلو تو مرنے کے بعد شان دار طریقے پر جنازہ اور قبر کا بندوبست ہوجائے گا۔ حضرت خدیجہؓ تڑپ گئیں اور اپنی سہیلی کو دعوت دی۔ اپنی مالی قربانی کی بات آئی تو فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے دین کی لازوال دولت دی ہے ۔دنیا اور مال یہیں رہ جائے گا۔ دین آخرت میں بھی کام آئے گا ۔شرک کو چھوڑا ہے۔ آخرت آنے والی ہے ۔شباب اوراس کی تمام رعنائیاں ختم ہورہی ہیں ۔موت کی منزل قریب ہے۔ آخرت کی فکر کرو۔ایمان لے آؤ۔ حضرت خدیجہؓ نے اتنے درد وسوز سے یہ ساری باتیں سمجھائیں کہ سہیلی کے آنسو بھرآئے۔ اتنی متاثر ہوئیں کہ اسلام قبول کرلیا۔
راہ دعوت میں حضرت اسماءؓ کا کردار
ہجرت کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ گھر میں جمع سرمایہ جو تقریباً چھ ہزار درہم تھا، لے گئے۔ حضرت ابوبکرؓ کے والد ابوقحافہ ؓ، جو نابینا تھے، اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، پوتیوں کے پاس تسلی کے لیے آئے اور کہنے لگے: افسوس، میراخیال ہے کہ ابوبکرؓ نے اپنے جانے کا صدمہ تمہیں پہنچایا اورمال بھی شاید سب لے گیا کہ یہ دوسری تکلیف تم پر ڈال دی ۔حضرت اسماءؓ نے کہا: دادا جان وہ تو بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں۔ یہ کہہ کر چھوٹی چھوٹی کنکریاں جمع کرکے گھر کے اس طاق میں بھردیں جس میں ابوبکرؓ کے درہم رکھے ہوتے تھے۔ اپنے دادا کو وہاں لے کرگئیں اورپتھروں پرکپڑا ڈال کر دادا کا ہاتھ اس پررکھ دیا۔ وہ مطمئن ہوگئے کہ ابوبکرؓ نے کافی مال چھوڑا ہے ۔کہنے لگے: خیر یہ تو اس نے اچھا کیا کہ اس سے تمہارا گزارہ ہوجائے گا۔
حضرت ام سلیمؓ کی دعوتی جدوجہد
حضرت ام سلیمؓ کے قبیلے کے ایک شخص ابوطلحہ نے انھیں نکاح کا پیغام دیا۔ ابھی تک ابوطلحہ ایمان نہیں لائے تھے اور ایک بت کی پوجا کرتے تھے۔حضرت ام سلیمؓ نےاپنے پہلے شوہر مالک بن نضرسے ان کے شرک کی وجہ سے علیٰحدگی اختیار کرلی تھی۔ اب انھیں کیسے گوارا ہوسکتا تھا کہ ایک دوسرے مشرک سے نکاح کریں۔صاف انکار کردیااور کہا : میں تواللہ واحد اور اس کے رسولﷺ پرایمان لائی ہوں۔افسوس ہے تم پر کہ تم جس خدا کو پوجتے ہووہ ایک درخت ہے، جو زمین سے اگا ہے اور اس کو فلاں حبشی نے گھڑ کر تیار کیا ہے۔ میں خدائے واحد کی پرستار اور تم خود ساختہ بتوں کے پجاری، جو کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ بھلا میراتمہارا میل کیسے ہوسکتا ہے ؟یہ باتیں ایسے دل نشین انداز میں بتایا کہ ابوطلحہ کے دل میں اترتی چلی گئیں۔وہ کچھ دن غورکرنے کے بعد ام سلیمؓ کے پاس آئے اورکہا: مجھ پر حق واضح ہوگیا ہے، اب میں تمہارا دین قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔ حضرت ام سلیمؓ ان سے نکاح پرتیارہوگئیں اور کہا کہ میرامہراسلام ہوگا۔
وطنی بہنوں کی صورتِ حال
وطنی بہنوں کا طبقہ مختلف مذاہب وعقائد کے ماننے والوں اورمختلف رسوم ورواج اورتہواروں کو منانے والوں پرمشتمل ہے۔ان کے درمیان مشترک بات شرک اورمختلف چیزوں کی پوجا وپرستش ہے۔ان میں تعلیم زیادہ عام ہے ۔اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کا بڑ ا حصہ اپنے مذہب سے جذباتی لگاؤ اور عقیدت رکھتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ آبائی مذہب کا ہونا ہے۔ لیکن ان کی عملی زندگیوں پرمذہب کی گرفت نہیں ہے۔جدید تعلیم کی وجہ سے مغربی نظریات اورتہذیب کے اثرات کا غلبہ ہے۔ان کی مذہبی زندگی کا خلاصہ بیان کیا جائے تو وہ ان امور پر مشتمل ہوگا: مذہب کی کچھ رسومات اورآبائی رواجوں کی پابندی،مذہبی تہواروں کو منانا۔مندروں، یا تراؤں اور تیرتھ استھانوں کی زیارت،روحانی تسکین کے لیے روحانی باباؤں کے زیر اثر زندگی گزارنا۔ان میں بعض خواتین انسانی حقوق کے لیے ادارہ جاتی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔ بعض وہ خواتین ہیں جو رفاہی خدمات کے لیے این جی او قائم کرکے سرگرم عمل ہیں۔سماجی سرگرمیوں کے طورپر مختلف خدمات انجام دیتی رہتی ہیں۔ ان کا ایک بڑا طبقہ ایسی خواتین پربھی مشتمل ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باعث بڑی اور پرکشش ملازمتوں پرفائز ہوکر زندگی بسرکررہی ہیں۔ ان کا مقصد، زندگی میں خوش حالی،عیش وعشرت اور زندگی سے حظ اندوز ہونے (enjoy) کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک طبقہ فرقہ پرست اورفسطائی تنظیموں سےوابستہ ہوکر اسلاموفوبیاکا شکار ہوگیا ہے۔ یہ طبقہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہے ۔ان کی بعض سرگرمیاں دیکھ کرہر امن پسند اور انسان دوست آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ کیوں کہ غلط فہمیوں پرمبنی ذہن کی وجہ سے شدید نفرت اوردشمنی کازہر گھولنےکاکام کرتی ہیں بالخصوص نئی نسل کے لڑکے اورلڑکیوں کے ذہنوں کو زہرآلود کرنے کا کام وہ مسلسل کرتی رہتی ہیں۔
عام وطنی خواتین کو اپنے مذہب سے آباپرستی کی وجہ سے لگاؤ ہے۔ اس کے تقاضے پوراکرتے رہنا ہی مذہبی زندگی کے لیے کافی ہے ۔ان کے نزدیک مذہب پرچلتے رہنا ضروری اورکافی ہے۔مذہب بدلنے کی چیز نہیں ہے۔
وطنی بہنوں کی مذہبی زندگی کاایک اہم اورقابل ذکر پہلو یہ ہے کہ مذہبی کتابوں سے ان کا کوئی زیادہ تعلق نہیں رہا ہے۔ ہندوخواتین میں گیتا کے مطالعہ کا رجحان تھوڑا پایاجاتا ہے۔ چارویدوں کو کروڑوں میں سے کسی ایک نے دیکھا ہوگا۔تعلیمی زندگی میں اگر کسی نے بین المذاہب کورس لے رکھا تھا تو کچھ مذہبی کتب کا مطالعہ کیاہوگا ورنہ باقی خواتین کتابیں دیکھتی ہی نہیں ہیں۔ رامائن اورمہابھارت ٹی وی سیریل کی وجہ سے اورمذہبی پروگراموں میں رامائن اور گیتا پاٹھ ہوتے ہیں،بس اس قدر کتابوں سے ان کا تعلق ہے۔مجموعی طورپر دیکھا جائے تو وطنی بھائیوں سے زیادہ وطنی بہنیں اپنے مذہب پرعمل کرتی ہیں۔
وطنی خواتین میں ذات پات کے نظام کی بندشیں ماضی کے مقابلے میں کم زور ہوئی ہیں۔اس کے اسباب میں سب سے اہم سبب تعلیم کا عام ہونا ہے۔ اسی کے نتیجے میں مذہبی تنگ نظری اوراونچ نیچ،چھوت چھات میں بھی کمی ہوئی ہے،بلکہ مذہبی کشادگی اور رواداری میں اضافہ ہوا ہے۔ملک میں دیگر سماجوں کی طرح یہ خواتین بھی مردوں کی بالادستی،ظلم وستم اوراستحصال کا شکار ہیں۔
اسلام کے بارے میں ان کے اندر عام طور سے یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وہ عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھتا ہے۔ ان پر ظلم وجبر کرتا ہے۔اس غلط فہمی کی بنا پر وہ مسلمان عورت کو مظلوم اورمردوں کے استحصال کا شکار سمجھتی ہیں۔لیکن ان کے سامنے جب صحیح بات پیش کی جاتی ہے تو وہ متاثر ہوتی ہیں اور اسلام کے بارے میں اپنی غلط معلومات سے رجوع کرلیتی ہیں۔
وطنی بہنوں کے سماجی مسائل بھی دیگر سماج کے خواتین کے مسائل کی طرح کافی سنگین ہیں۔ مثلاً جہیزی اموات، مادررحم میں دختر کشی،بیواؤں کی حالت ِ زار،گھریلو تشدد،گھروں میں مردوں کے اندر شراب کے استعمال کا عام ہونا،بے پردگی،عریانیت، مخلوط مجلسوں کی خرابیاں اورطلاق وخلع کا اختیار مردوعورت کو نہ ہونا۔یہ اختیار عدالت کو حاصل ہے۔
ان سب کے باوجود وطنی بہنوں میں اسلام کے سلسلے میں ایک تجسّس پایا جاتا ہے۔ اسلام اور مسلم مخالفانہ پروپیگنڈے نے ایک طلب پیداکردی ہے کہ آخرسمجھیں تو سہی کہ اسلام کیاہے؟ عورت کے سلسلے میں اس کی تعلیمات کیا ہیں؟مسلمان عورت کے حقوق ہیں بھی یا نہیں؟ اگرہیں تو کیا ہیں؟
چناں چہ دعوت کا کام کرنے والی خواتین کے لیے وطنی بہنوں کی موجودہ صورت حال زبردست مواقع فراہم کرتی ہے۔ ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔غرض یہ کہ ہندومذہب جو زندہ ہے انھی وطنی بہنوں کی مذہبی دل چسپی اور سرگرمیوں کی وجہ سے زندہ ہے۔
وطنی بہنوں میں دعوتی کام کی اہمیت کے بعض پہلو
اس ملک میں دعوت کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مردوں کے ساتھ خواتین نےبھی حق کو قبول کیا ہے۔موجودہ دورمیں بھی اسلاموفوبیا کا بڑا ہدف مسلمان عورت اوراس کے حقوق ہیں۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ خواتین پوری دنیا میں مردوں سے زیادہقبول حق کررہی ہیں۔ان میں بعض بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، مثلاً کملاثریا (کیرلا)، ایوان ریڈلے(انگلینڈ)،سعودی عرب میں برطانوی سفیر کی اہلیہ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام مخالف پروپیگنڈے کے برعکس جب ان خواتین نے قرآن مجید کاترجمہ سے مطالعہ کیا، یا مسجد اور نماز کے منظر کا مشاہدہ کیا،یا رمضان اور روزہ کی عبادات نے ان کو متاثر کیا تو وہ اسلام کے قریب ہوگئیں۔ مزید علم اور تحقیق کے بعد ان کی ساری غلط فہمیاں دور ہوگئیں اور انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔
قبول حق کے بعد مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ خواتین بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار رہتی ہیںاوراس راہ میں ہر طرح کی محرومی کو گوارا کرلیتی ہیں ۔ صبر اور استقامت کا ثبوت دیتی ہیں۔ اگر ان کی مناسب دینی تعلیم اور تربیت کا انتظام کیا جائے تو وہ دین پر عمل کے ساتھ ایک داعیہ بن کر کام بھی کرتی ہیں۔
اس حقیقت کے پیش نظر وطنی خواتین میں اسلام کے تعارف اوراس سے متعلق غلط فہمیوں کے ازالہ کا معقول انتظام ہونا چاہیےاور اس کا بہترین طریقہ دعوت ہے۔
وطنی بہنوں کے مسائل کا حقیقی حل
ملک میں کسی بھی مذہب کے ماننے والے سماج میں خواتین کو لے کر کچھ نہ کچھ مسائل ہوتے ہیں۔ لیکن وطنی خواتین کے سنگین مسائل الگ نوعیت کے ہیں ۔ان کے سلسلے میں ملک میں قانون سازی ہوتی ہے لیکن وہ بالکل بے اثر ثابت ہوتی ہے۔اس لیے کہ یہ مسائل قانون سازی سے حل نہیں ہوں گے بلکہ یہ ذہن سازی سے حل ہوں گے۔ عورت کی قدراوراس کا احترام، اس کے حقوق کے تحفظ کا مسئلہ سماجی اور غلط سوچ کا مسئلہ ہے ۔اس کا حل سوچ کو درست کرنا ہے۔ یہ کام انسانی فکروفلسفہ او ردیگر مذاہب کے بس کا نہیں، وحی الٰہی کا ہے ۔چناں چہ دعوت واحد حل ہے۔ جب تک یہ دعوت عام نہیں ہوگی،چاہے جتنے قوانین بنالیے جائیں،عدالتیں قائم کرلی جائیں، لیکن مسائل حل نہ ہوں گے۔ مثلاً جہیزی اموات اورخودکشی،جبری عصمت دری، زندہ جلادینا، رحم مادر میں دخترکشی،طلاق کی گنجائش نہ ہونے پر چھٹکارا پانے کی غلط کوششیں، بیواؤں کی حالت زار وغیرہ۔ویسے کسی نہ کسی درجے میں یہ مسائل دیگر مذاہب کے پیروؤں میں بھی ہیں۔ غرض ان سب کا حل ایک ہی ہے اور وہ دعوت ہے۔
ان مسائل کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صرف مردوں کے قبول حق اور خواتین کے عدم قبول کے نتیجے میں خاندانی اور معاشرتی مسائل پیداہوتے ہیں۔کہیں رشتۂ زوجیت کے باقی رکھنے نہ رکھنے کا مسئلہ پیداہوتا ہے ۔کہیں بچوں کی تولیت کا اورکفالت کا مسئلہ ۔ کہیں دوسرے رشتوں پرپڑنے والے اثرات ۔ غرض یہ کہ دعوت وطنی خواتین میں عام ہونے لگےاور مردوں کے ساتھ وہ بھی قبول حق میں پیچھے نہ رہیں توان مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔
وطنی بہنوں میں دعوت کی کام یابی کے امکانات
وطنی خواتین میں دعوت کے کام کے سلسلے میں اب تک جو کوششیں ہوئی ہیں ان کے نتائج حوصلہ افزا ہیں ۔یہ خواتین اسلام کوپسند کرتی ہیں ۔انھیں نماز،رمضان کے روزے پسند آتے ہیں۔ حجاب کا سسٹم بھی ان کو اچھا لگتا ہے۔بعض خواتین سے گفتگو ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ توحید کی تعلیم نے ان کو متاثر کیا،ترجمۂ قرآن پڑھ کر متاثر ہوئی ہیں،انٹرنیٹ پرتقاریر اورنعتوں نے متاثر کیا ہے۔غرض یہ کہ اسلام کی تعلیمات میں سے کوئی تعلیم، کوئی اسلامی قدران کو متاثر کرتی ہے۔یہ اس وقت ممکن ہے جب ان تک دعوت پہنچائی جائے اور وہ کچھ مطالعہ کریں۔ ایک وطنی خاتون ترجمۂ قرآن کی تلاش میں تھیں ۔لیکن شہر کے برادران وطن کی کتابوں کی دکانوں میں ان کو کہیں نہیں ملا۔ بالآخر ایک پروگرام میں جماعت اسلامی کے کارکنوں نے ان کو ترجمۂ قرآن دیا توبے اختیار قرآن کو سینے سے لگا کر کہنے لگیں کہ جس کتاب کامجھے ایک مدت سے انتظار تھا وہ مجھے آج ملی ہے۔ میں نے اس کے لیے تمام دکانیں چھان ماری تھیں۔
عہد نبوی کا ایک واقعہ اس سلسلے میں بہت اہم ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:’’ابوبکرؓ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنائی اور وہ اس جگہ نماز پڑھا کرتے اور قرآن کی تلاوت کیا کرتے۔ جب آپ نماز پڑھتےاور قرآن کی تلاوت کرتےتو مشرکین کی عورتیں اوربچے اردگرد جمع ہوجاتے۔ وہ سب تلاوت قرآن سے متاثر ہونے لگے۔ اس سے قریش کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں ان کے بچے اور عورتیں فتنے کا شکار نہ ہوجائیں۔ آج کے ماحول اور مخالفت کے دور میں بھی قرآن کے اندر یہ تاثیر بدستور باقی ہے اور تا قیامت باقی رہے گی۔ اگر قرآن انھیں سنایا جائے اور اس کا ترجمہ سنایا جائے تو وہ ضرور متاثر ہوں گی اور دین حق کے قریب ہوں گی۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2021