یہ مقالہ اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (SIO )کی کل ہند کانفرنس میں ۲۴؍فروری ۲۰۱۸ء کو دہلی میں پڑھا گیا۔
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ٭وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَاالسَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَاالَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃ’‘ کَاَنَّہٗ وَلِیّ’‘ حَمِیْم’‘٭وَمَا یُلَقّٰئھَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ٭ وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغ’‘ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہٗ ھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ٭(سورہ حم السجدہ: ۳۳ تا ۳۶)
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
علامہ اقبال نے اس ایک شعر میں اسلام کے فلسفۂ تاریخ کو سمو دیا ہے۔ یہ پارٹیوں کا جیتنا ہارنا؛ اقلیت و اکثریت کے جھگڑے؛ حکومتوں کا بننا بگڑنا؛ عالمی طاقتوں کے سفارتی اور جنگی کھیل؛ سوپر پاور قوموں کا عروج و زوال۔اس پورے ہنگامۂ عالم سے ذرا اوپر اٹھ کر دیکھیں تو ہم پائیں گے کہ تاریخ انسانی ایک طرف آدمؑ تو دوسری طرف ابلیس؛ ایک طرف موسیٰؑ تو دوسری طرف فرعون ہامان و قارون؛ ایک طرف ابراہیم ؑ تو دوسری طرف آذر و نمرود؛ ایک طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو دوسری طرف ابوجہل، ابولہب و دیگر دشمنان خدا۔۔۔ بالفاظ دیگر اسلام و جاہلیت کی کشمکش سے عبارت ہے۔ عجیب بات ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں یہ کشمکش بالکل نئی نظر آتی ہے۔ کچھ اس وجہ سے کہ ایک انسان کا ذاتی عرصۂ حیات اور مہلت عمل محدود ہے اور کچھ اس وجہ سے کہ ہر زمان و مکان اپنی منفرد خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں ۔ بات خواہ کچھ ہو اسلام و جاہلیت کی یہ کشمکش آج بھی جاری ہے۔ ہر بار کی طرح آج بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ جاہلیت بہت زورآور، بہت مضبوط اور طاقتور ہے۔ حق کی آواز نحیف و لاغر و کمزور معلوم پڑتی ہے۔ لیکن اندھیرے کو ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی روشنی بھی بہت گراں گزرتی ہے۔ شاعرانہ symbolism (علامتوں)سے ہٹ کر اگر realistically (واقعاتی )بات کی جائے تو گھپ اندھیرے کو صرف ایک ٹمٹماتے چراغ سے کوئی خوف محسوس نہ ہونا چاہئے۔ ایک چراغ۔۔۔ وہ بھی ٹمٹماتا ہوا۔۔۔ اس کی عمر ہی کتنی ہوتی ہے؟ گھڑی دوگھڑی۔ اس دوران بھی بیچارے کی روشنی کہاں تک پھیلے گی؟ زیادہ سے زیادہ چند مربع میٹر۔ مگر اندھیر نگری کے باشندے صرف اس وجہ سے اس ٹمٹماتے ہوئے چراغ سے لرزتے ہیں کہ اس کا محض وجود ہی اندھیرے کے لئے بالقوی خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں اس پژمردہ چراغ میں خوداعتمادی کا تیل نہ پڑجائے؟ کہیں یہ چراغ دوسرے چراغوں کے لئے مشعل راہ نہ بن جائے؟ کہیں چراغ سے چراغ نہ جلنے لگیں؟ کیونکہ ایسا ہوا تو یہ اندھیرے کی موت کا پیغام ہے۔ شاعر کہتا ہے:
شہر کے اندھیرے کو اک چراغ کافی ہے
سو چراغ جلتے ہیں اک چراغ جلنے سے
(احتشام اختر)
آج ہمارے ملک میں شرک کا اندھیرا توحید کے چراغوں کے درپے ہے۔نفرت کا اندھیرا محبت کے چراغوں کے درپے ہے۔فتنہ و فساد کا اندھیرا امن و انسانیت کے چراغوں کے درپے ہے۔ظلم و ناانصافی کا اندھیرا عدل و راستی کے چراغوں کے درپے ہے۔ ان حالات کا تذکرہ مجھے نہیں کرنا، ان تفصیلات سے ہم سب واقف ہیں۔مختصراً صرف اتنا عرض ہے کہ ملک کے حالات ایسے ہیں جن میں مایوس ہوجانا پرامید رہنے سے زیادہ آسان ہے اور اس لئے صبر کے، ایمان کے، امید کے، توکل کے اعتصام باللہ کے سبق کو پھر سے یاد کرنا ضروری ہے۔ وہ کمزور چراغ جو مایوس بھی ہوں زیادہ دور تک اور زیادہ دیر تک روشنی نہیں دیتے۔ بات ہورہی تھی اسلام اور جاہلیت کی کشمکش کی! اور ظاہربیں نگاہوں کی اس غلط فہمی کی کہ جاہلیت بہت مضبوط ہے۔ سرورعالمؐ کی جدوجہد کو یاد کیجئے، اس جدوجہد کا آغاز یوں ہوا تھا کہ ایک فرد نے، جی ہاں صرف ایک اکیلے فرد نے، جاہلیت کو چیلنج کردیا اور یہاں کروڑوں کے اجتماعی قوی کے اضمحلال کا حال یہ ہے کہ خود کو اقلیت سمجھ رکھا ہے۔ خیر، تو کہنا یہ تھا کہ مکی جاہلیت نے اس اکیلے انسانؐ کے چیلنج کو سنا ان سنا کرنا چاہا؛ پھر ہنسی میں اڑانا چاہا؛ پھر لالچ اور دھمکیاں دیں؛ پھر تشدد پر آمادہ ہوگئے۔ لیکن کیا ہوا؟تاریخ شاہد ہے کہ اسی جاہلیت کے اندھیرے سے ٹوٹ ٹوٹ کر پروانے شمع رسالت کے گرد جمع ہوگئے۔ تو پتہ یہ چلا کہ ابلیس کی طرح سب کچھ جانتے بوجھتے جاہلیت کے علمبردار گنتی کے چند ہوتے ہیں اور اکثریت ان کی ہوتی ہے جن کے سامنے چراغ روشن کیا جائے تو وہ پکار اٹھتے ہیں کہ روشنی اندھیرے سے بہتر ہے۔ اسی لئے دعوت الی اللہ کا کام اہم ہے، بنیادی ہے۔اور یہی وہ انبیائی راستہ ہے جس کے ذریعہ الٰہی ہدایات کی روشنی میں سماج کی تشکیل نو کا عمل انجام دیا جاسکتا ہے۔
خرم مرادؒ پوچھتے ہیں:’’بتاؤ کہ جس لمحہ غارحرا میں آپؐ منصب نبوت پر فائز فرمائے گئے، اس وقت سے لے کر آخری لمحات تک کے ۲۳ برسوں میں وہ کونسی بات تھی جو آپؐ نے سب سے زیادہ فرمائی؟ وہ کونسا کام تھا جو آپؐ نے سب سے بڑھ چڑھ کرکیا؟ لاریب کسی بھی تردد کے بغیر یہ کہوں گا کہ وہ دعوت الی اللہ کا تھا۔ پیٹ پر پتھر باندھ کر، نعلین مبارک کو لہو مبارک سے تر کراکے، تلواروں کی چھاؤں میں اور گردن مبارک میں بل کھاتی رسی کی گرفت کے باوجود، ہر جگہ ہر لمحہ ایک ہی دھن سوار تھی، ایک ہی فکر چھائی ہوئی تھی۔کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائیں، ان کا رشتہ ان کے رب سے جوڑیں تاکہ وہ صرف اسی کی بندگی کریں۔ ساری سنتوں میں سب سے بڑی سنت اوراسوۂ حسنہ میں سب سے بڑا اسوہ اللہ کی طرف دعوت دینا ہے اور مخلوق کا رشتہ خالق حقیقی سے جوڑنے کی کوشش کرنا ہے۔‘‘
مولانا مودودیؒ قرآن کریم کے بارے میں رقمطراز ہیںکہ ’’یہ ایک دعوت و تحریک کی کتاب ہے۔ اسے تو پوری طرح آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اٹھیں اوردعوت الی اللہ کا کام شروع کردیں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اس طرح قدم اٹھاتے چلے جائیں۔‘‘ (مقدمہ تفہیم القرآن: ص۳۴)موجودہ حالات میں دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کو،بالخصوص نوجوانوں کو، جن متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں سے چند ایک کا تذکرہ درج ذیل ہے:
۱) اشتعال: دعوت الی اللہ کی راہ میں سب سے بڑا چیلنج اشتعال ہے۔ مخالفین ظلم کریں، ناانصافی کریں، شرارتیں کریں، طنز و استہزا کے تیر چلائیں، جاہلانہ اعتراضات وارد کریں، الزامات لگائیں تو من کرتا ہے کہ انہیں سخت سے سخت جواب دیا جائے۔ دکھا دیا جائے کہ ہم کسی سے کم نہیں۔ مگر غصے، اشتعال اور ردعمل کے یہ جذبات نزغ شیطانی ہیں۔ مکے کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ کفار قریش نے شرافت و انسانیت کی ساری حدیںپار کرلی تھیں؛ جھوٹ کا بازار گرم کررکھا تھا؛ الزامات لگاتے تھے؛ مخالفانہ پروپیگنڈ ے کئے جارہے تھے، جب آپؐ دعوت دیتے تو شور و غوغا کیا جاتا کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دے۔ اذیتیں دی جاتی تھیں۔ ان حالات میں انہی آیتوں میں، جن سے ہم نے آج گفتگو کی شروعات کی ہے، یہ بتایا گیا کہ اس شخص کی بات بہترین ہے جس نے اللہ کی طرف بلایا، نیک عمل کئے، اور کہا کہ میں مسلمان ہوںاور پھر جو نسخۂ کیمیا بتایا گیا وہ یہ تھا، بدی کو نیکی سے دفع کرو اور نیکی بھی ایسی ویسی نہیں بہترین نیکی۔ اور بتایا گیا کہ اس نسخے پر عمل کرنے سے جانی دشمن جگری دوست بن جائے گا مگر ساتھ ہی آگاہ کردیا گیا کہ اس نسخے پر عمل صبر کرنے والے خوش نصیبوں کو ملتا ہے جو ذرا سی شیطانی اکساہٹ محسوس کرتے ہیں تو اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
سورہ بنی اسرائیل (۵۳) میں بھی ٹھنڈا اسلوب اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فتنہ و فساد پھیلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ سورہ اعراف (۲۰۲-۱۹۹) میں نبیؐؐ کو نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرنے کی؛ معروف کی تلقین کرنے کی؛ جاہلوں سے نہ الجھنے کی؛ شیطان کی اکساہٹ پر اللہ کی پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی۔ سورہ مومنون (۹۶)میں ادفع بالتی ھی احسن السیئۃ یعنی برائی کا بدلہ احسن طریقے سے دینے کی بات کہی گئی ہے۔ سورہ نحل (۱۲۵) میں حکمت، عمدہ نصیحت، اور جدال احسن کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہاں عقل کو اپیل بھی کرنا ہے اور جذبات کو بھی۔ دلسوزی اور خیرخواہی بھی ضروری ہے۔
یعنی یہ بات طے ہے کہ ہم اندھیرے کو گالی دے کر، اندھیرے پر لعن طعن کے تیر برساکے، اندھیرے میں مکے، لاتیں، تلوار ،پستول، اور توپ چلاکر اسے ختم نہیں کرسکتے۔ اندھیرے کو صرف روشنی کے چراغ جلاکر ختم کیا جاسکتا ہے۔ ہدایت کا چراغ۔۔۔ ایمان کا چراغ۔۔۔ قرآن و سنت کا چراغ۔۔۔
۲) مداہنت: دعوت کے راستے کا دوسرا بڑا چیلنج مداہنت ہے۔ بسا اوقات فرد وقت اور حالات سے مرعوب و متاثر ہوجاتا ہے، احساس کمتری میں مبتلا بھی ہوجاتا ہے۔۔۔ اور پھر چاہتا ہے کہ جس پیغام کا وہ علمبردار ہے اسی میں کتربیونت کرلے کیونکہ موجودہ شکل میں وہ لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ انہی نام نہاد خیرخواہانہ جذبات کے تحت سینٹ پال نے نصرانیوں پر سے موسوی شریعت کی پابندی اٹھالی تھی کہ یہ شریعت اتنی سخت ہے کہ لوگوں کے نجات کے راستے کا روڑا بن رہی ہے۔ جن کا یہ طرز عمل ہوتا ہے وہ یہ فراموش کربیٹھتے ہیں کہ ہدایت دینے کا کام اللہ کے ذمے ہے۔ ہمارے ذمہ پیغام پہنچانا ہے۔۔۔’’انما انت مذکر‘‘(سورہ غاشیہ: ۲۱)’’علیک البلاغ و علینا الحساب‘‘(سورہ رعد: ۴۰)۔قیامت میں سوال یہ نہیں ہوگا کہ تمہارا فلاں دوست مسلمان کیوں نہیں ہوا؟ سوال یہ ہوگا کہ تم نے اپنی بساط بھر اللہ کا پیغام اس تک پہنچایا تھا یا نہیں؟ دعوت دینے کے دوران حکمت و تدریج کا خیال رکھا جائے گا مگر حکمت کے نام پر اپنے نظریے و فکر کا سودا نہیں کیا جائے گا کیونکہ حکمت فکری کجروی یاکوتاہ عملی کا نام نہیں ہے۔
۳) نان ایشو (غیر ضروری مباحث): داعیٔ حق کے لئے تیسرا بڑا چیلنج نان ایشوز میں الجھنا ہے۔ شیطان جب یہ دیکھتا ہے کہ داعی کو برائی میں الجھانا ممکن نہیں تو وہ اسے غلط نہیں مگر غیراہم باتوں میں الجھانے کی، اس کی مرکوزیت (concentration) کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سورہ طہ (۵۱، ۵۲) میں ذکر ہے کہ موسیٰؑ جب فرعون کے دربار میں جاکر اس کے سامنے دعوت حق پیش کرتے ہیں تو ایک مرحلے پر فرعون پوچھتا ہے کہ اچھا ہمارے عقیدے گمراہ کن ہیں تو یہ بتاؤ کہ ہمارے آباء و اجداد کا کیا انجام ہوگا؟ مفسرین نے لکھا ہے کہ موسیٰ نے اس سوال کو، جو کہ فرعون کی ایک diversion tactic (خلط مبحث کی سعی) تھی، بڑی خوبی سے یہ کہہ کر طرح دے گئے کہ وہ اپنے اعمال کرکے خدا کے دربار میں حاضر ہوچکے ، ان کے اعمال اللہ کے ہاں درج ہیں اور اللہ کے فیصلہ میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔ حالانکہ وہ صاف صاف کہہ سکتے تھے کہ مشرکین کا انجام آگ ہے۔ اسی طرح مولانا ثناء اللہ امرتسری کا ایک واقعہ ملتا ہے کہ کسی آریہ سماجی سے ان کی بحث ہونے والی تھی۔ وہ مولانا سے بڑا خائف تھا۔ لیکن آخر کار اس نے ایک ترکیب سوچی اور اسٹیج پر آتے ہی بولا۔ میں چاہتا تھا کہ مباحثہ کسی مسلمان سے ہو مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو صاحب میرے سامنے ہیں ان پر تو فلاں مفتی اور فلاں مولانا نے کفر کا فتوی صادر کیا ہے۔ اب جو خود مسلمان نہ ہو وہ اسلام پر مجھ سے کیا بحث کرے گا۔ مسلمانوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ سب لوگ پریشان ہوگئے۔ پنڈت نے سوچا کہ یہ کہہ کر اس نے میدان مارلیا مگر مولانا ثناء اللہ اٹھے اور زور سے کلمۂ شہاد ت پڑھا اور پنڈت کو مباحثے کے دعوت دی۔ اس کے اوسان خطا ہوگئے۔ مولانا کفر کا فتوی دینے والے مفتیوں اور علماء کے خلاف بول سکتے تھے۔ یہ بتا سکتے تھے کہ انہوں نے غلطی کی ہے یا دھاندلی کی ہے۔ وہ اپنے دفاع میں نہ جانے کیا کیا کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا کچھ بھی نہ کرتے ہوئے کلمۂ شہادت پڑھا اور یوں از سر نو مسلمان ہوگئے اور پنڈت کی چال ناکام ہوگئی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ داعی کی اولین کوشش یہ ہوتی ہے کہ بنیادی موضوع سے رتی بھر بھی انحراف نہ کیا جائے۔ بلاوجہ نئی نئی باتوں کی ٹوہ میں رہنا؛ so called (نام نہاد )علمی باتوں کے چکر میں علمی مغالطے پھیلانا؛بیکار بحثوں میں الجھنا الجھانا؛ علماء کے درمیان کی جانے والی بحثوں کو عوام الناس میں اچھال کر انٹلکچول بننے کی کوشش کرنا۔یہ ساری باتیں داعیٔ حق کے شایان شان نہیں ہیں۔
۴) ترجیحات کا تعین: دعوت کی راہ میں چوتھا چیلنج اس کام کی ترجیح و اہمیت کو سمجھنا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں، مصر میں، ترکی میں، یا پھر سعودی عرب میں مسلمانوں کی ترجیحات کی نوعیت کچھ اور ہو۔ لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں کی اسی فیصد سے زائد لوگ شرک میں مبتلا ہوں، مسلمانوں کی کوئی دوسری ترجیح نہیں ہوسکتی سوائے اس کے کہ وہ توحید کے علمبردار بنیں اور توحید کی دعوت دیں۔ ہمارے ہر کام کا سرا اور محور ہونا چاہئے۔ ہماری دوستی، ہمارے خدمت خلق کے کام، بلکہ ہر کام کے پیچھے جذبہ یہ ہو کہ جس فرد سے میرا تعلق دوست کی، پڑوسی کی، کلاس میٹ کی، آفس کلیگ (ساتھی) کی حیثیت سے تعلق قائم ہوگیا ہے اسے جہنم کی آگ سے بچالیا جائے۔ اس بات کا خیال رہنا چاہئے کہ دعوت الی اللہ کا کام کرنے کے نتیجے میں کچھ لوگ ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ ہوجاتے ہیں؛ کچھ ابوطالب اور مطعم بن عدی رہ جاتے ہیں؛ اور کچھ بے حس ابوجہل اور ابولہب بن جاتے ہیں۔ لیکن داعی کے مطمح نظر ہمیشہ یہ بات ہوتی ہے کہ مدعو مومن صالح بن جائے۔ وہ صرف ان کی غلط فہمی دور کرنے پر، انہیں کچھ اخلاقی باتیں بتادینے پر، کچھ وعظ و نصیحت کردینے پر، وحدت ادیان کے قبیل کی کچھ باتیں کردینے سے مطمئن نہیں ہوتا۔ حضورؐ کو ابوطالب کی ہرطرح کی مادی و اخلاقی حمایت حاصل تھی لیکن داعیٔ اعظمؐنے آخر وقت تک کوشش کی کہ ابوطالب ایمان لے آئیں۔ اس کوشش میں ایک داعی کے لئے بہت بڑا سبق ہے۔ رسولؐ قرآن کی زبان میں ’’حریص‘‘ (سورہ توبہ: ۱۲۸)تھے کہ لوگوں کو ہدایت مل جائے اور وہ اخروی زندگی میں کامیاب ہوجائیں۔ سورہ شعرا (۳) میں ہے کہ لَعَلَّکَ بَاخِع’‘ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (کیا آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے کہ یہ ایمان نہیں لاتے!)۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے ہر وقت رسول خداؐ پر یہی فکر چھائی رہتی تھی۔ ابوجہل نے ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ کو بہت برا بھلا کہا، مذاق اڑایا۔ اللہ کے رسولؐ سر جھکاکر جاہلوں کی تمام باتیں سنتے رہے پھر گھر چلے آئے۔ یہ خبر حضرت حمزہ تک پہنچی جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔ انہوں نے ابوجہل کو جاکر ایک زوردار کمان ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا اور پھر آپؐ کے پاس آئے کہ بھتیجے میں نے تمہارا بدلہ لے لیا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا، ’’مجھے اس سے خوشی نہیں ملتی۔ آپ اسلام کیوں نہیں قبول کرلیتے۔‘‘ یہی وہ داعیانہ جذبہ ہے جو دلوں کا فاتح ہے۔
امت مسلمہ کا مقصد وجود بتاتے ہوئے آل عمران (۱۱۰)میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’تم وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے برپا کیا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
۵) ابھی میری کیا حیثیت ہے: ایک اور مغالطہ جو دعوت کے راستے میں لوگوں کو لاحق ہوتاہے وہ یہ کہ ’’اس کام کو ہونا تو چاہئے لیکن دوسروں کے ذریعہ کیونکہ میں اس کام کا اہل نہیں ہوں۔‘‘ اس کام کو کرنے کے لئے نہ جانے کتنے علوم کا ماہر ہونا ضروری ہے۔ نہ جانے کتنی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے کہ ’’پیغام پہنچادو چاہے تمہارے پاس ایک ہی آیت ہو۔‘‘ آپ علامہ محمد اسد کی (جو پہلے Leopold Weiss تھے) ان کی کتاب ’روڈ ٹو مکہ ‘ (جانبِ مکّہ) پڑھئے۔ آپ دیکھیں گے کہ ان کے جیسا پڑھا لکھا آدمی بھی اسلام کے نظریے اور اس کی سادی تعلیمات سے بعد میں واقف اور متاثر ہوا لیکن پہلے پہل جس چیز نے اس کے دل کو اپنی طرف کھینچا وہ سادہ دل بدوؤں کے اسلامی اخلاق تھے۔ تو ہاں یہ بات صحیح ہے کہ یہ ذمہ داری بڑی ہے۔ لیکن مولانا مودودی کے الفاظ میں ہم چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اسلام کے سفیر ہیں۔ اپنی کلاس، کیمپس یا آفس میں ہم جو کچھ کرتے ہیں لوگ اسے اسلام کے کھاتے میں ڈالتے رہتے ہیں۔ لوگوں کے اس طرز عمل کو آپ غیر عقلی کہہ لیں غیر علمی کہہ لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہی ہے۔ انسان انسان سے اثر قبول کرتا ہے۔ اگر آپ اپنے عمل سے اسلام کی غلط نمائندگی کررہے ہیں تو اس کا وبال آپ کے سر ہے، آپ یہ کہہ کر نہیں چھوٹ سکتے کہ میں اسلام کے نام سے وہ حرکتیں نہیں کررہا تھا۔
تو جی ہاں، دعوت الی اللہ کا کام ہمیں انجام دینا ہے۔ اس کے لئے خود کو تیار کرنا ہے۔ نوافل، اذکار بالخصوص تہجد کی نماز سے اپنے آپ کو قوت پہنچانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب لوگوں کو حق کی طرف بلانے کی ذمہ داری رسول اکرمؐ پر ڈالی تو انہیں راتوں کو جاگ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ عام الفاظ میں یہ داعی کے اندر سے اسٹرونگ (پختہ) ہونے کے لئے ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہم غیرمسلموں کی غلط فہمیوں کا تدارک کر سکیں، سوالات کے جوابات دے سکیں، دوسرے مذاہب میں پائی جانے والی کمزوریوں کی طرف بھی اشارہ کرکے انہیں غوروفکر پر آمادہ کریں؛ اسلام کے اصولوں کی روشنی میں نئے زمانے اور نئے حالات میں رہنمائی اخذ کرسکیں۔ اسی طرح اپنے کردار کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو ہماری کہنی اور کرنی میں فرق نہ دکھائی دے۔ اور لوگ ہمارے اخلاق و کردار کے ذریعہ اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں۔ یہ تینوں باتیں ضروری ہیں لیکن یہ شیطان کا بہت کارگر ہتھیار ہے کہ پرفکشن (تکمیل) کے نام پر آپ کی پروگریس (سعی) کو روک دے۔ ابھی دعوت کا کام انجام نہیں دے سکتے جب تک یہ تینوں شرائط پوری نہ ہوجائیں۔ جان لیجئے یہ تینوں شرائط مکمل طور پر کبھی پوری نہیں ہوں گی۔ آپ کو ان کی تکمیل کی جستجو کے ساتھ ساتھ دعوت کا کام بھی کرنا ہوگا۔ یہ ایک طرح کا virtous circle (تسلسل )ہے۔ آپ کے نوافل، آپ کا مطالعہ، آپ کے اعمال آپ کو دعوت کے میدان میں مدد دیں گے اور دعوت کے میدان میں جو تجربات درپیش ہوں، جومشکلات آئیں گی وہ آپ کو مزید رجوع الی اللہ، علمی ترقی اور اخلاقی بلندی کی راہیں طے کرائیں گی۔
یہ راز کہ اسلام کی ترقی کا راز دعوت اسلام میں مضمر ہے اپنے تو جانتے ہی جانتے ہیں غیر بھی جانتے ہیں۔ چنانچہ میکس ملر اور تھامس آرنلڈ جیسے مغربی محققین شہادت دیتے ہیں کہ اسلام ایک تبلیغی مذہب ہے۔ تھامس آرنلڈ تو اپنی کتاب The Spread of Islam(اسلام کی اشاعت) میں صاف صاف اس حقیقت کا اقرار کرتا ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں دعوت و تبلیغ سے پھیلاہے۔ اور یہ دعوت و تبلیغ بھی انفرادی نوعیت کی دعوت و تبلیغ مثلاً انڈونیشیا یا مالابار کے ساحلوں پر مسلمان تاجروں کے اخلاق و کردار سے لوگ متاثر ہوئے اور اسلام لائے۔ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ دعوت کی اجتماعی کوششیں نہیں ہونی چاہئے۔ مطلب یہ ہے کہ اجتماعی کوششیں ہمیں انفرادی کوششوں سے غافل نہ کردیں۔ سورہ اعلیٰ (۹)میں ارشاد ہوا:فذکر ان نفعت الذکری(نصیحت کرو، اگر نصیحت نفع بخش ہو)۔ اجتماعی تبلیغ عموماً awareness (شعور کی بیداری )کی سطح کی تبلیغ ہوتی ہے۔ ان اجتماعی کوششوں کو انفرادی نوعیت کے تعلقات کے ذریعہ نتیجہ خیز بنانا چاہئے۔ اس دوسرے کام میں کچھ سالوں سے کوتاہی محسوس ہوتی ہے۔ اصل غلبہ تودل کا غلبہ ہے کہ ملکوں پر تو ڈنڈے اورتلواروں کے زور پر فتح پائی جاسکتی ہے مگر دلوں پر نہیں؛ دلوں کو تو اسلام کی سادہ اور پرکشش تعلیمات اور مسلمانوں کے بلند اخلاق و کردار ہی سے جیتا جاسکتا ہے۔ بخاری(۳۷۰۱) کی حدیث ہے کہ حضورؐ نے دعوت الی اللہ کا فریضہ یاددلاتے ہوئے قسم کھاکر حضرت علیؓ سے فرمایا، اگر کسی ایک فرد کوبھی تمہارے ذریعہ ہدایت مل جائے تو یہ تمہارے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔‘‘ یہ تعلیم آپؐ نے عین حالت جنگ میں دی ہے۔
یاد رہے کہ اللہ کا دین غالب ہونے کے لئے آیا ہے، اللہ اسے غالب کرکے رہے گا لیکن اقامت دین کی کوشش ہم پر فرض ہے۔ یاد رہے کہ ہدایت دینا اللہ کا کام ہے لیکن شہادت حق کی ادائیگی ہم پر فرض ہے۔ ہدایت توفیق الٰہی سے ملتی ہے لیکن یہ دنیا دارالاسباب ہے اور اس لئے اس دین کو جاہلیت ہی کی صفوں سے عمر اور خالد بن ولید ملتے ہیں۔ ذرا یہ سوچئے کہ اللہ کا دین تو غالب ہوکر رہے گا۔ اب یہ ہم پر اور آپ پر ہے دین کے اس غلبے میں، کسی عمر اور کسی خالد بن ولید تک ہدایت کے پہنچنے کا سبب ہم بن سکے یا یوں ہی صبح شام کرکر کے عمر تمام کردی!اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کے چراغوں سے ملک عزیز کے گوشے گوشے کو روشن کردینے کی توفیق نصیب فرمائے!
نہ جانے کتنی قیامتوں کی امین یہ دو صداقتیں ہیں
جنوں کا محشر خرام ہونا، شعور کا نرم گام ہونا
مشمولہ: شمارہ مئی 2018