کسی کامیاب شاعر کی پہچان یہ ہے کہ اس کے اشعار ضرب المثل بن جائیں۔ امیر خسرو ہر لحاظ سے ایک کامیاب شاعر ہیں۔ فارسی زبان میں ان کا ایک مشہور اور زبان زدِ عام مصرعہ ہے: زبانِ یار من ترکی و من ترکی نمی دانم(ترجمہ: میرے دوست کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا)۔ میری ناقص رائے میں شاعر نے اس چھوٹے سے مصرعے میں دنیا بھر میں پھیلے بیشمار مسائل اور آویزشوں کے منبع کی نشاندہی کردی ہے۔ یہی کام مولانا رومی نے مثنویٔ معنوی میں بیان کردہ ایک حکایت کے ذریعہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ چار افرادسفر پر روانہ ہوئے۔ ایک کا تعلق ایران سے تھا، دوسراعرب کا باشندہ تھا، تیسرا ترکی کا رہنے والا تھا اور چوتھا یونان کا شہری تھا۔ دورانِ سفر انہیں مشترکہ طور پر ایک درہم کا ہدیہ ملا۔ اب اس ایک درہم کا کیا کیا جائے؟ ایرانی نے کہا کہ اس ایک درہم کا ’’انگور‘‘ لے لیتے ہیں۔ عرب نے انکار میں سر ہلایا اور ’’عنب‘‘ خریدنے کا مشورہ دیا۔ ترک نے دونوں پر ایک نگاہِ غلط انداز ڈالی اورکہا کہ اس ایک درہم میں ’’اوزم‘‘ سے بہتر اور کچھ نہیںمل سکتا۔ یونانی نے تینوں کو مسترد کرتے ہوئے ’’استافیل‘‘ خریدلینے کا عندیہ ظاہر کیا۔ لطف یہ ہے کہ چاروں اپنی اپنی زبان میں انگور ہی مانگ رہے تھے لیکن ایک دوسرے کو نہ سمجھ پانے کی وجہ سے جھگڑا طول پکڑتا رہا یہاں تک کہ نوبت ہاتھا پائی تک جاپہنچی۔ اس موقع پر ایک حکیم وہاں سے گزرے اور جب انہیں لڑائی کی وجہ معلوم ہوئی تو مسکرا کر بتایا کہ دراصل وہ سب ایک ہی چیز چاہتے ہیں۔
آج اس دنیا میں کوئی فرد ’’آزادی‘‘ کا نعرہ لے کر اٹھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دنیا کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے اگر لوگوں کواس کی مجوزہ آزادی مل جائے۔ مقابلے میں ایک تحریک آزادی کو سرمایہ دارانہ ڈھکوسلہ قرار دے کر ’’مساوات‘‘ کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔ کہیں کوئی نظریہ ’’اخوت‘‘ کے نام سے پیش ہوتا ہے تو کچھ لوگ اٹھ کر کہتے ہیں کہ نہیں’’غریبی‘‘ کا خاتمہ ہی تمام مسائل کے حل کی شاہ کلید ہے۔ کہیں سے آواز آتی ہے جب تک ’’تعلیم‘‘ عام نہیں ہوگی زندگی کی کوئی کل سیدھی نہیں بیٹھے گی۔ اس ہائے واویلا کے بیچ کوئی مہاتما اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ’’موکشا‘‘ اور ’’روحانی سکون‘‘کے نام پر اپنی دکان چمکاتے ہیں۔ دنیا کے نقار خانے میں اس طرح کے سیکڑوں بلکہ ہزاروں باجے بج رہے ہیں، ایک شورِ قیامت برپا ہے۔ طوطیٔ اسلام کو اس نقار خانے میں وہی کام کرنا ہے جو حکیم نے مولانا روم کی حکایت میں کیا ہے۔ یہ واضح کرنا ہے کہ حقیقی آزادی، حقیقی مساوات، حقیقی اخوت، حقیقی تعلیم، حقیقی روحانی سکون اور غربت جیسے مسائل کا قرار واقعی حل بلکہ اور بھی بہت کچھ صرف اور صرف ’’اسلام‘‘ ہے۔
سوال ہوسکتا ہے کہ کیا اسلام کوئی مجموعۂ اضداد ہے؟ اگر نہیں تو بیچارا اسلام بھلا کس طرح مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے، مختلف نفسیات کے حامل، مختلف نظریات کو ماننے والے، مختلف تحریکات سے متعلق، مختلف افراد کی مختلف ترجیحات کو ایک ساتھ نبھا سکتا ہے؟ اس پیچیدہ سوال کا سادہ سا جواب اسلام کے فلسفۂ اعتدال میں پوشیدہ ہے۔
کائنات میں اعتدال:
اعتدال کیا ہے؟ اعتدال دراصل نام ہے توازن کا۔ ہم روز کھانا کھاتے ہیں۔ اگر کھانے میں نمک کی مقدار زیادہ ہو تو پسندیدہ سے پسندیدہ کھانے کو بھی حلق سے اتارنا مشکل ہوجاتا ہے، نمک کم ہو تو بھی کھانا کھایا نہیں جاتا۔ کھانے میں نمک کی وہ مقدار جو اپنی کمی یا زیادتی کی بنا پر طبع پر گراں نہ گزرے توازن اور اعتدال کی بہترین مثال ہے۔ اسی طرح آپ نے سرکس میں کرتب دکھانے والے کو رسی پر چلتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ وہ ایک حد سے زیادہ اپنا وزن نہ دائیں طرف ڈال سکتا ہے نہ بائیں طرف بلکہ ایک توازن برقرار رکھتے ہوئے سیدھے چلتا ہے۔ بس یہی اعتدال ہے۔ یہ اعتدال ہمیں خدا کی ہر تخلیق میں نظر آتا ہے۔ قرآن یہ جو بار بار کائنات پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق میں جس اعتدال و تناسب کا مظاہرہ کیا ہے انسان اس کا مشاہدہ کرے اور اللہ کی صناعی اور کاریگری کو دیکھ کر اس کی عظمت اور کبریائی کی گواہی دے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرادیا۔ ‘‘ (المومنون:۱۸)
’’ہم نے زمین کو پھیلایا، اس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی۔ ‘‘ (الحجر:۱۹)
قرآن پکار پکار کہتا ہے کہ انسان اس کائنات پر غور کرے، اگر وہ غور کرے گا تو اس نتیجے تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ :
’’سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں۔ ‘‘ (الرحمن:۵ )
’’اور سورج، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے۔ یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے۔ اور چاند اس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں یہاں تک کہ ان گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے۔ نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے، سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔ ‘‘ (یٰس:۴۰-۳۹)
یہ اعتدال ، یہ توازن صرف چند گنی چنی اشیاء کا خاصہ نہیں ہے بلکہ یہ تخلیقِ کائنات کا ایک اہم فلسفہ ہے۔ کہا گیا کہ :
’’(وہ اللہ ہی ہے)جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کا ایک خاص اندازہ (ٹھیک ٹھیک پیمانہ) مقرر کردیا۔ ‘‘ (الفرقان:۲)
’’ہر چیز کے لیے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔ ‘‘(الرعد:۸)
’’اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں۔ ‘‘ (الحجر:۲۱)
’’اور آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔ ‘‘ (الرحمن:۷)
اب یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کائنات میں قائم شدہ اس اعتدال کو، اس میزان کو درہم برہم نہ ہونے دے۔ فرمایا:’’اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو۔ ‘‘(الرحمن:۸)
دین میں اعتدال:
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں نیکی اور بدی کے تصورات بہت واضح اور قابل عمل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیکی اور تقویٰ کے نام پر خود کو مختلف قسم کی نفسیاتی اور جسمانی اذیتوں میں مبتلا کرنے کا کوئی تصور اسلام میں نہیں پایا جاتا۔ جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کے ساتھ نمازیں پڑھی ہیں۔ آپؐ کی نمازیں بھی معتدل ہوتی تھیں اور خطبہ بھی معتدل ہوتا تھا(صحیح مسلم)۔ آپؐ کا عمل دراصل لا تغلو فی دینکم (اپنے دین میں غلو نہ کرو)کی واضح ہدایات کی عملی تفسیر اور امت مسلمہ کے لیے اعتدال اور توازن کا ایک درس ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ تین اصحابِ رسولؐ امہات المومنینؓ سے آپؐ کی عبادات کے بارے میں پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرمؐ کا عمل بتایا گیاتو انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا آنحضرتؐ سے کیا مقابلہ ! آپؐ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں۔ پھران میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ جب آپؐ نے یہ روداد سنی تو مذکورہ اصحاب سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ جب انہوں نے اقرار کیا تو فرمایا: سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں(یعنی ہمیشہ روزہ نہیں رکھتا)۔ ( رات میں )نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (صحیح بخاری)
دین میں کسی قسم کا غلو درحقیقت دین سے جنگ ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ایک حدیث کے مطابق ’’دین آسان ہے اور دین سے جب بھی مقابلہ کیا جائے گا وہ مقابلہ کرنے والوں کو شکست دے دے گا۔ پس تم لوگ صراطِ مستقیم پر چلو، شدت پسندی سے بچو اور اللہ کی رحمت اور نجات سے مایوس نہ ہو‘‘۔ (صحیح بخاری)
سورہ تحریم میں پیغمبرؐ کو اس بات پر ٹوکا گیا ہے کہ اپنی ازواج کی رضا جوئی کے لیے کیوں آپ نے ایک حلال شئے (شہد) کو اپنے لیے حرام ٹھہرالیا ہے۔ اگلی آیتوں میں اس کا بیان ہے کہ کس طرح آپؐ نے کوئی بات اپنی کسی بیوی سے بتائی اور انہوں نے اسے دوسری بیوی پر افشا کردیا۔ علامہ فراہیؒ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
سوکنوں میں محبت، جو عورت کی سب سے اعلیٰ مگر کمیاب صفت ہے، محمدؐ کی ازواج مطہرات میں بالعموم۔ پورے طور پر موجود تھی۔ چنانچہ یہ باہمی محبت ہی تھی جس نے آپس میں رازداری کے تمام پردے اٹھادیے تھے اور ایک دوسرے سے ایک راز کی بات بے تکلف ظاہر کردی جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو تنبیہ فرمائی۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ یہ لغزش، جو بر بنائے محبت و اخلاص صادر ہوئی، اپنے محرک کے اعتبار سے بہت سی نیکیوں پر فضیلت کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی طرح کی لغزش حضرت نوحؑ سے اپنے بیٹے کے لیے استغفار کے معاملے اور حضرت ابراہیمؑ سے اپنے باپ کے معاملے میں ہوئی جو درحقیقت اس رافت و محبت کا مظہر تھی جو اخلاقی نقطہ نظر سے نہایت پسندیدہ چیز ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے جس طرح اس چیز کو حلال قرار دینے کا حکم دیا جو بربنائے تشدد حرام کی گئی ہو۔ اسی طرح اس چیز کو حرام قرار دینے کا بھی حکم دیا جو محض طبیعت کی نرمی اور کریم النفسی کے سبب حلال کردی گئی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارا دین کس طرح سختی اور نرمی کے درمیان ایک نقطۂ اعتدال ہے اور وہ کس صحت اور اہتمام کے ساتھ ہر چیز کو اس کی اصل جگہ میں دیکھنا چاہتا ہے۔
آفاتِ اعتدال:
فلسفۂ اعتدال کے تعلق سے اکثر لوگ ایک غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کسی مخصوص مسئلہ پر صرف دو موقف لیے جاسکتے ہیں۔ موقف نمبر ایک مبنی بر اعتدال، موقف نمبر دو مبنی بر انتہا پسندی اور بس۔ یہ فلسفۂ اعتدال کی ایک بہت سرسری اور سطحی سمجھ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسندی وہ تالی ہے جو کبھی ایک ہاتھ سے بج ہی نہیں سکتی۔ نیوٹن کے تیسرے قانونِ حرکت کے مطابق اگر انتہا پسندی کو ایک عمل قرار دیا جائے تو اس کا موجود ہونا ہی اس بات پر دال ہے کہ ایک مخالف انتہاپسندی بطور رد عمل ضرورموجود ہوگی۔
اعتدال دراصل ایک نہیں بلکہ کم ازکم دو(متضاد) انتہاپسندیوں کے درمیان ایک راہ کا نام ہے۔ مثلاً ’بزدلی‘ ایک انتہا ہے اور ’لاابالی پن‘ دوسری اور مخالف انتہا؛ ’بلند حوصلگی‘ ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ ہے۔ ’احساسِ کمتری‘ ایک انتہا ہے اور ’غرور‘ دوسری اور مخالف انتہا؛ ’خود اعتمادی‘ ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ ہے۔ ’مایوسی‘ ایک انتہا ہے اور ’خوش فہمی‘ دوسری اور مخالف انتہا؛ ’امید‘ ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ ہے۔ ’محجوبیت‘ ایک انتہا ہے اور ’بے شرمی‘ دوسری اور مخالف انتہا؛ ’حیا‘ ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ ہے۔ ’تجرد ‘ایک انتہا ہے اور ’آزادانہ اختلاط‘ دوسری اور مخالف انتہا؛ ’نکاح‘ ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ ہے۔ قرآن ہمیں متعدد مقامات پر اعتدال اور توازن کا یہ درس دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ’کنجوسی‘ ایک انتہا ہے اور ’فضول خرچی‘ ایک دوسری اورمخالف انتہا؛ چنانچہ رحمن کے بندوں کی صفات گناتے ہوئے سورہ فرقان میں کہا گیا: ’’جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل بلکہ ان کا خرچ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ ‘‘ (۶۷) اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کردہ ایک حدیث میں حضورؐ نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھے نوباتوں کا حکم دیا ہے۔ ان میں ’’کسی پر مہربان ہوں یا کسی کے خلاف غصے میں ہوں دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں‘‘ اور ’’امیری اور فقیری ہر دو حالت میں راستی اور اعتدال پر قائم رہوں‘‘بھی شامل ہیں۔
اعتدال کے تعلق سے مذکورہ بالا غلط فہمی کئی طور سے ضرر رساں ثابت ہوتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو، رسی پر چلنے والا اگر صرف اس بات کا خیال رکھے کہ میں دائیں طرف نہ گروں تو اس کے بائیں طرف گر جانے کے امکانات یقینابڑھ جائیں گے۔ توازن کے ساتھ اعتدال کی رسی پر چلنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ دائیں اور بائیں دونوں طرف گرنے سے بچا جائے۔ اسلامی کاز کے لیے اسی قسم کے توازن کی ضرورت ہے۔ اور یہاں اعتدال کی راہ پر چلنا رسی نہیں بلکہ تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ایک قسم کی انتہا پسندی عروج پر ہوتی ہے اور دوسری قسم کی انتہا پسندی کمزور اور ناتواں۔ ایسے میں طاقتور انتہا پسندی کے مقابلے کی خواہش، جو کہ فی نفسہٖ نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے، کبھی کبھار افراد اور تحریکوں کو دوسری انتہاپسندی کی طرف ڈھکیل دیتی ہے۔ لہذا اسلامی تحریکات کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ مثلاً وہ مادہ پرستی کی مخالفت میں رہبانیت اور دنیا سے قطع تعلقی کی انتہا کو فروغ دینے کا باعث نہ بن جائیں یاسرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کرتے کرتے اشتراکیت کے توسیعے کے طور پر نہ پہچانی جانے لگیںیا آمریت کی مخالفت کرتے کرتے جمہوریت اور سیکولرزم کی انتہاپسندی کا شکار نہ ہو جائیں۔ ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ وقت کے مسائل سے تعرض کرتے وقت ہم اسلام کے مزاج اور اعتدال کی راہ سے تجاوز نہ کریں۔ بے محابا ’تشدد‘، بے قصوروں کا قتلِ عام وغیرہ کی مخالفت ضرور ہونی چاہئے، یہ آج کا ایک عظیم فتنہ ہے۔ لیکن یہ مخالفت اگر اس طرح ہو کہ ہمیں گاندھی اور مہاویر والے ’عدم تشدد‘ کا علمبردار سمجھا جانے لگے تو یہ نقصان کا سودا ہے۔ ’تشدد‘ اور ’عدم تشدد‘ ان دونوں میں سے جس انتہا بھی سامنا ہو ہمیں اسلام کے ’شرطیہ تشدد‘ والے نظریے کولوگوں کے سامنے دو ٹوک انداز میں پیش کرنا چاہئے۔ حق ہونے کی وجہ سے اس موقف میں وزن بھی ہوگا اور ہماری باتوں کو معذرت خواہانہ (apolegetic) قرار دے کر رد کرنے والے بھی سوچنے پر مجبور ہوں گے۔ ایک کرتب باز اگر توازن کھو بیٹھے تو رسی سے نیچے وہ زمین پر گرتا ہے جس میں کچھ ہڈیوں یا بیش از بیش اک جان کا زیاں ہے لیکن اگر کوئی مسلمان جادۂ اعتدال سے چوکا اور حبل اللہ سے اس کا ناتا ٹوٹا تو گرنے کے بعد وہ خود کو نہ جانے جہنم کے کس گڑھے میں پائے۔ اللہ ہمیں محفوظ رکھے۔ اعتدال کی اسی باریک مگر دھاردار راہ پر چلنا ’شہادت گہہ الفت‘ میں قدم رکھنا ہے اور غالباً یہی وہ ’مشکلاتِ لاالہ‘ ہیں جن کی وجہ سے علامہ اقبال خود کو مسلمان کہتے وقت کانپ جاتے تھے۔
چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ را
اعتدال کی روش کے لیے دوسرا بڑا خطرہ ’غصہ‘ ہے۔ یہ غصہ ہی ہے جس میں انسان آپے سے باہر ہوکر ایسے کام کرگزرتا ہے جس پر اسے بعد میں پچھتانا پڑے۔ جب یہ ’غصہ‘ ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری قوم یا پورے سماج کا غصہ بن جائے تو بے اعتدالیوں کی کوئی انتہا نہیں ہوتی اور ہونے والے نقصان کی بھرپائی کے لیے صدیاں بھی کافی نہیں ہوتیں۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے قرآن کریم کی یہ آیت رہنمائی کرتی ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۰ۡوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۰ۭ اِعْدِلُوْا۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۰ۡوَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۸ (المائدہ: ۸)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
جس امت کو اشتعال کے موقع پر بھی اعتدال کی روش پر قائم رہنے کے لیے ایسی واضح ہدایات ملی ہیں، المیہ یہ ہے کہ دشمن آج اسی امت کو طرح طرح سے مشتعل کرکے اپنا الو سیدھا کرنے میں مشغول ہے۔ اے کاش! یہ امت مادیت اور جذباتیت ان دونوں خندقوں سے ابھرے اور ایک بار پھر دنیا کی امامت کے فرائض انجام دے۔
آج اس دنیا میں مختلف تحریکیں برپا ہیںجو مختلف نظریات کا دم بھرتی ہیں۔ ان تمام تحریکوں کی چلت پھرت کا راز انسان کی بے کلی میں مضمر ہے۔ انسانیت ایک انتہا کے کنویں سے نکلتی ہے تو دوسری انتہا کی کھائی میں جا پڑتی ہے۔ تاریخ کا سفر اسی نہج پر جاری ہے۔ مذہبی توہم پرستی کی انتہا سے نکل کر انسان نے سائنسی عقلیت پرستی کی انتہا کا سفر طے کیا۔ یہاں سے اب وہ مابعد جدیدیت کی انتہا تک جا پہنچا ہے جہاں اس کے لیے ساری قدریں اضافی ہیں اور سارے ہی سچ جھوٹ ہیں۔ ایرک ہابس بام نے بیسویں صدی کی تاریخ لکھی اور اسے انتہاؤں کا زمانہ (Age of Extremes) قرار دیا۔ آج ہم اس دنیا پر غور کریں تو لگتا ہے کہ انتہاؤں کے اس زمانے کی ابھی انتہا نہیں ہوئی ہے۔ اس بھولی بھٹکی انسانیت کو اسلامی اعتدال کی منزل پر پہنچنے سے قبل کتنی اور انتہاؤں کا سفر کرنا ہے اس کا علم تو صرف خدا کو ہے لیکن یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اعتدال کے اسلامی پیغام کو لسانِ قوم میں لوگوں تک پہنچانے کا کام کرے۔ اس کے لیے زندگیاں کھپانے کی ضرورت ہے۔ انتہاؤں کے صحرا میں یکے بعد دیگرے مختلف سرابوں کے پیچھے دوڑتی انسانیت کو اگر امت مسلمہ نے اعتدال کے نخلستان کی راہ نہیں دکھائی، اسلام کا آبِ حیات نہیں پلایا تو سوچنے کی بات ہے کہ آخر نوعِ انسانیت کے لیے برپا کی جانے والی اس امت کا مقصدِ وجود کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو خود اعتدال کی راہ پر چلائے، عدل و قسط کا علمبردار بنائے،دین میں ہر قسم کے غلو سے محفوظ رکھے اور امتِ وسط ہونے کے ناطے جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں نبھانے کی توفیق دے۔ آمین!
مشمولہ: شمارہ مارچ 2014