خواتین کی صلاحیتوں کا فروغ

گھریلو امور سے لے کر دنیاوی امور تک (2)

مسلم خواتین کے مقام، کردار، حقوق اور واجبات وغیرہ کے سلسلے میں اسلام کا موقف بنیادی طور پر شریعت کے نصوص سے اخذ کیا جانا چاہیے، اس لیے پہلے قرآن وسنت کے مطالعے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ عورت کن میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کے استعمال کے ذریعہ سے اسلامی تہذیب کی ترقی وبقا میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔

قرآن کریم میں فکر کو جلا بخشنے والے امور، رویوں کو درست سمت میں رکھنے والے نکات اور سبق آموز انسانی نمونوں سے شخصیت سازی کی جاتی ہے، اس لیے اس موضوع کے حوالے سے بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ عورتوں کے سماجی کردار کے سلسلے میں کیا نمونے پیش کیے گئے ہیں۔

قرآن مجید میں مردوں کے لیے انسانی کردار کے کچھ مثبت اور کچھ منفی نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ کچھ نمونے وہ ہیں جن کے نقش قدم پر چل کر کامیابی سے سرفراز ہو سکتے ہیں، ان میں انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے کردار بہت اہم ہیں۔کچھ اور انسانی کردار بھی پیش کیے گئے ہیں جو قابل تقلید ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ منفی کردار بھی پیش کیے گئے ہیں، تاکہ لوگ ان امور سے اجتناب کریں جن میں فرعون نمرود ہامان قارون ابولہب جیسے اشخاص شامل ہیں۔ اس کے برعکس جب ہم قرآن پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ خواتین کے سلسلے میں کون کون سی شخصیتوں کے کرداروں کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، تو پتہ چلتا ہے کہ جن کرداروں کو قرآن نے تفصیل سے پیش کیا ہے، وہ سب کسی نہ کسی پہلو سے خواتین کے لیے مثبت اور قابل تقلید نمونہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ان میں ایک عظیم الشان ہستی ملکہ سبا کی بھی ہے جس کی حکمرانی کے سلسلے میں قرآن نے تحسین کے کلمات استعمال کیے ہیں اور قرآن کے لب ولہجہ سے ہرگز پتہ نہیں چلتا کہ یہ ناپسندیدہ یا منفی کردار ہے۔ اسی طرح جب حضرت موسی علیہ السلام مدین پہنچے، تو وہاں آپ نے دو لڑکیوں کو دیکھا کہ وہ اپنی بکریوں کے ریوڑ کو سنبھالے ہوئے انتظار میں کھڑی ہیں کہ اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے مرد جگہ خالی کریں تو کنویں سے پانی نکالنے اور پلانے کا انتظام ہوجائے۔ ان کے باپ بوڑھے ہوگئے تھے اور گھر کا نظم چلانے کے لیے لڑکیوں نے معاشی ذمہ داری اپنے اوپر لے رکھی تھی، جس کی خاطر بکریاں چراتی تھیں۔

ہر جاہلی سماج میں کم زور طبقوں پر ظلم روا رکھا جاتا ہے، جن میں خواتین سب سے زیادہ ظلم کا شکار ہوتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ایک پہلو سے دیکھیں تو خواتین کی مظلومیت اور سماجی پسماندگی سے آزادی کی تحریک بھی تھی، جس نے عورتوں کو ان کا صحیح مقام عطا کیا۔ ان کے وہ تمام حقوق انہیں واپس ملے، جنہیں معاشرے نے ہڑپ لیا تھا۔ دعوت دین، ہجرت، بیعت اور جہاد کے میدانوں میں وہ مرد کے شانہ بشانہ رہیں۔

اب یہ بات بہت سے لوگ بھول گئے ہیں، یا شاید اسے یاد نہیں رکھنا چاہتے، کہ مسلم خواتین کی بہت لمبی تاریخ ہے، جو ہر زمانہ میں بہت سے میدانوں میں نمایاں اہم خدمات انجام دیتی رہی ہیں، اور بسا اوقات قیادت بھی کی ہے۔ عہد جدید سے پہلے کی مسلم دنیا میں دانشوروں، شاعروں، صوفیوں، حکمرانوں اور جنگجؤوں کی حیثیتوں میں خواتین نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، مگر ہم خود تاریخ کے اس روشن باب سے نابلد ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے صرف چند مثالیں کافی ہیں۔ حضرت خدیجہ بنت خویلد (وفات ۶۲۰ء) ایک تاجر تھیں۔ پیغمبر اسلام سے شادی سے پہلے ہی، وہ اپنے آپ میں صاحب رتبہ شخصیت تھیں، ایک کامیاب تاجر اور مکہ کی اشرافیہ میں سے ہونے کے ناطے انھوں نے اسلام کے نئے عقیدے کی تائید اور تبلیغ میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

نسیبہ بنت کعب (متوفی ۶۳۴ء) کو ام عمارہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، وہ بنی نجار قبیلےسے تھیں اور مدینہ میں ابتدائی طور پر اسلام قبول کرنے والوں میں سے ایک تھیں۔ ایک صحابیہ کی حیثیت سے، ان سے منسوب بہت سی خوبیاں ہیں۔ تاہم انہیں احد (۶۲۵ء) کی جنگ میں حصہ لینے پر سب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے، جس میں انھوں نے تلوار اور ڈھال اٹھائی اور مکہ والوں کے خلاف جنگ کی۔ انھوں نے جنگ کے دوران پیغمبر اسلام کو دشمنوں سے بچایا، کئی زخم کھائے اور تیروں کا سامنا کیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے ڈھال بن کر کھڑی رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بارہواں زخم کھانے کے بعد بے ہوش ہوگئیں اور جب مدینہ پہنچ کر اگلے روز ہوش میں آئیں، تو انھوں نے سب سے پہلے سوال کیا “کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ ہیں؟” یہ ان کی وفاداری اور نئے عقیدے سے وابستگی کا روشن ثبوت ہے۔ ایسی بے شمار مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔

گذشتہ کئی دہائیوں میں، کچھ امور جیسے خواندگی کا پھیلاؤ؛ لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے لیے عوامی تعلیم کی دستیابی اور فروغ؛ خواتین کے لیے ملازمت کے مواقع میں اضافہ، اور دوسری مذہبی روایات سے، خصوصا مغرب میں قبول اسلام کی بڑھتی ہوئی تعداد نے مسلم خواتین میں یہ خواہش پیدا کردی‌ہے کہ وہ اسلام کے تعارف، تعلیم وتبلیغ، معاشی سماجی اور سیاسی میدانوں میں ایک موثر رول ادا کریں۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ، مسلم خواتین نے ثابت کیا ہے کہ وہ بھی وسائل سے مالامال، باصلاحیت، تخلیقی صفات سے آراستہ، اور مقصدیت کی دھن میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ذیل میں ہم اس بات کے ثبوت میں درخشاں مثالیں پیش کریں گے۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ آج، مسلمان خواتین قرآنی دروس کے حلقوں، مسجد پر مبنی سرگرمیوں، دینی تنظیموں کے زیر اہتمام کمیونٹی خدمات، اور اسلامی تعلیم کے میدان میں (جس میں طلبا اور اساتذہ دونوں) سرگرم عمل نظر آتی ہیں۔ پوری دنیا میں مختلف میدانوں میں، قراءت کرنے والی خواتین، درس قرآن دینے والی خواتین، خواتین وکلاء، خواتین آرٹسٹ ، خواتین ممبر آف پارلیمنٹ اور اسلامی علوم کی خواتین پروفیسروں کی بڑھتی ہوئی تعداد نظر آتی ہے۔ خواتین تیزی سے مذہبی اہمیت کے حامل عہدوں پر بھی اپنی جگہ بنارہی ہیں۔ گو کہ ابھی مذہبی اداروں میں بڑے عہدوں تک پہنچ نہیں پائی ہیں۔

اس پس منظر میں مسلم خواتین کو عصر حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے، اپنے حوصلوں اور امنگوں کی ترجمانی کرنے، دین مبین کی نمائندگی کرنے کے لیے درکار گونا گوں صلاحیتیں اپنے اندر پیدا کرنی ہیں۔ تاہم ان میں چار صلاحیتیں ایسی ہیں جنہیں ترجیح دیتے ہوئے، انفرادی طور پر خواتین اپنے اندر پروان چڑھانے کی فکر کریں، تو اجتماعی ماحول بھی ان صلاحیتوں کے فروغ اور نشونما میں معاون ثابت ہوگا۔

۱۔ اسلامی علوم سے گہری واقفیت

دور حاضر میں اسلام بہت بڑا سوال بن کر سامنے آیا ہے۔ اسکول ہوں یا کالج، غیر رسمی گفتگو ہو یا رسمی بحث ومباحثہ، ٹی وی سیریل ہوں یا آن لائن بحثیں، میڈیا ڈیبیٹ ہوں یا سنجیدہ علمی کتابیں، غرض ہر محاذ پر اسلام کے خلاف اعتراضات اور اسلام سے متعلق سوالات کا ایک انبار ہے۔ اس کے علاوہ جیسے جیسے دنیا کے حالات بدلتے رہتے ہیں، سائنس اور ٹیکنالوجی ترقی کرتی ہے، نئے سیاسی ومعاشی قوانین بنتے ہیں، ہر ہر موڑ پر مسلمانوں کے لیے نئے حالات میں نئے ابھرتے ہوئے سوالات اپنا جواب مانگتے ہیں۔ ان نئے ابھرنے والے سوالات کا ایک بڑا حصہ خواتین سے متعلق ہے، کہ کیا اسلام میں مساوات مرد وزن ہے؟ کیا خواتین کے اپنے بھی کچھ حقوق ہیں؟ کیا خاتون اعلی تعلیم حاصل کرسکتی ہے؟ کیا وہ سیاسی سرگرمیاں انجام دے سکتی ہے؟ اگر خواتین پر ظلم ہو تو اسلام اس کا کیسے ازالہ کرتا ہے؟ یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات اور مسائل ہیں جن کے تشفی بخش جوابات کے لیے خود خواتین کو قرآن وسنت اور جدید علوم سے لیس ہوکر میدان میں آنا ہوگا۔

ہندوستان میں گذشتہ پچاس سالوں میں شمال سے لے کر جنوب تک؛ اردو زبان سے لے کر مقامی زبانوں تک؛ علوم دین سے خواتین کی واقفیت کے لیے چھوٹے بڑے دینی مدارس قائم کیے گئے، ان ‌کی کچھ فارغات اس وقت کہیں میدان عمل میں ہیں، تو بڑی تعداد اپنے گھریلو امور کی انجام دہی میں ایسے پھنسی ہوئی ہے، کہ وہ حاصل شدہ علم کی کھیتی کو مزید پروان چڑھانے سے قاصر ہے۔ مگر یہ بات کچھ خوشگوار محسوس نہیں ہوگی، اگر یہ کہا جائے کہ مردوں کے لیے جو اعلی معیار کے دینی مدارس اور جامعات پائے جاتے ہیں، ان میں خواتین کا داخلہ ممنوع ہے، اور اس پائے کے مدارس خواتین کے لیے نہیں پائے جاتے ہیں۔ ایک نسل سے دوسری نسل تک علوم دین کی منتقلی کے سلسلے میں یہ ایک بڑی کوتاہی ہے، جو ہمارے ہاں پائی جاتی ہے۔

انڈونیشیا میں بیسویں صدی کے آغاز سے ہی خواتین کو قرآن کے مطالعہ کی ترغیب دی گئی۔ مسلم خواتین کے لیے سب سے بڑی قومی تنظیم کی حیثیت سے ۱۹۱۷میں انڈونیشیا میں Aisyiyah کی بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد تھا کہ قرآن و سنت کے مطالعہ کے ساتھ خواتین کے معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی متنوع پروگراموں کو شامل رکھا جائے۔ اسی طرح کی ایک تنظیم، مسلمات النھضۃ 1946 میں قائم کی گئی، تاکہ خواتین کی حالت کو بہتر بنایا جائے، قانونی امور پر توجہ مرکوز کی جائے، اور ان نصوص کی ازسرنو تعبیر کی جائے، جو خواتین کے لیے کسی کم درجہ کے جواز کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ آج انڈونیشیا میں ہزاروں ایسے ادارے پائے جاتے ہیں، جن میں پیسنٹن (اسلامک بورڈنگ اسکول) بھی شامل ہیں، جہاں خواتین اسلامی تعلیم میں مہارت حاصل کرسکتی ہیں۔ ان اسکولوں کی فارغات میں قرآن مجید کی قراءت کی ماہر ہیں، جیسے حجازہ ماریہ الفتح، ملائشیا کوالالمپور میں قراءت قرآنی کا بین الاقوامی مقابلہ جیتنے والی پہلی خاتون ہیں، اس کے ساتھ عالمات، دانشور اور سماجی کارکن بھی شامل ہیں، جنہیں اسلامی علوم اور اسلامی قانون (شریعت اور فقہ) میں مہارت حاصل ہے۔ انڈونیشیا کے معاشرے میں مذہب کے طاقتور کردار کی وجہ سے قرآنی نصوص کی ترجمانی اور ان کی تفسیر معاشرتی سرگرمی کا ایک اہم پہلو ہے۔ انڈونیشیا میں بہت سارے ایسے مدارس چلائے جاتے ہیں، جہاں مینیجمنٹ سے لیکر عملے کی آخری سطح تک خواتین ہی ہوتی ہیں۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ خواتین ان امور میں بھی مرد حضرات سے پیچھے نہیں ہیں اور آئندہ نسلوں تک اسلام کی منتقلی کی ذمہ داری بخوبی اٹھاسکتی ہیں۔

مسلم دنیا اور مغربی دنیا دونوں جگہ، قرآن کی صحیح ترجمانی وتعبیر نو کے لیے معاصر مسلم خواتین کی سرگرمیاں گذشتہ صدی کے آغاز میں شروع ہوئیں۔ مصری کارکن ملک حفنی ناصف، نے باحثۃ البادیہ (یا صحرا نورد) کے قلمی نام کے تحت تحریری طور پر تبدیلی کے لیے ایک دس نکاتی پروگرام کی تجویز پیش کی، جس میں پہلا مطالبہ قرآن و سنت کی صحیح تعلیم کا تھا کہ لڑکیوں کو ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل ہو، اور وہ شادی میں شرعی پابندی کا اپنے طور پر اہتمام کرسکیں، بغیر اس کے کہ وہ سماجی دباؤ میں آجائیں۔ بعد میں ناصف نے خواتین کے لیے عبادات اور علوم دینیہ کو سیکھنے کے لیے درخواست کی کہ وہ انہیں مساجد میں شرکت کی اجازت دیں۔

۳۸-۱۹۳۷ میں، زینب الغزالی نے سماجی بہبود کی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے ایسوسی ایشن برائے مسلم خواتین کی تشکیل کی۔ تاہم، جلد ہی انھوں نے خواتین کو فریضہ دعوت کی انجام دہی کے لیے بھی تربیت دینی شروع کردی۔خواتین کو قرآن و حدیث کی تفسیر کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے تربیتی سیشنوں کا انعقاد کیا گیا۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اس ایسوسی ایشن اور اس کی تربیت یافتہ خواتین داعیات نے، خواتین کو جمعہ کا خطبہ دینے یا امام کی حیثیت سے خدمت کرنے کا مطالبہ نہیں کیا اور موجودہ نقطہ نظر کو چیلنج بھی نہیں کیا۔ الغزالی ہم عصر خواتین میں سے ایک تھیں جنھوں نے قرآن وحدیث پر اپنے تفسیری نکات اور شروحات شائع کیں اور خواتین کی بہت معتبر ترجمان رہیں۔ وہ ۲۰۰۵میں انتقال کر گئیں۔

ہندوستان کی تحریک میں ابھی ایسی خواتین کی شدید قلت پائی جاتی ہے، جو پائے کی عالمہ ہوں، جن کی قرآن وسنت پر گہری نگاہ ہو، حالات حاضرہ سے بھی کماحقہ واقفیت ہو اور نئے ابھرنے والے حالات اور چیلنجوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھنے اور ان کی نئی تعبیر بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ خود تفسیر قرآن کے حوالے سے بھی اگر دیکھا جائے تو ایسی معیاری خواتین کہ ان کی تفسیر عوام وخواص کے لیے دلچسپی کا باعث ہو، یہاں تک کہ سوشل میڈیا کے زمانے میں ان کے کلپس وائرل ہوتے ہوں، اس میعار کی صلاحیت کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ اگر ہماری خواتین اعلی علمی صلاحیت سے آراستہ ہوتی ہیں تو وہ اپنے زمانے کے حالات، تجربات اور تقاضوں کی روشنی میں پرانی تعبیرات کو چیلنج بھی کر سکتی ہیں اور نئی تعبیرات بھی دنیا کے سامنے لاسکتی ہیں، جس سے جدید پڑھا لکھا طبقہ، جس کے ذہن میں شکوک وشبہات ہوتے ہیں، وہ مطمئن ہو پائے گا اور دعوتی نقطہ نظر سے بھی اسلام کے دشمنوں یا اسلام پر اعتراضات کرنے والوں کا علاج ہوسکے گا۔

دینی اور علمی صلاحیتوں کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ روزمرہ خواتین پر بڑھتے ہوئے مظالم کے ازالے کے لیے ملک میں جا بجا کاونسلنگ سنٹرز اور دارالقضاء کا قیام ضروری ہوگیا ہے۔ وہاں آنے والے کیسوں کو سمجھنے، تجزیہ کرنے، کونسلنگ کرنے، فتوی دینے اور ضرورت پڑنے پر فیصلہ کرنے کی صلاحیتیں اتنی اہم ہیں کہ اس معاملے میں ذرا چوک ہوجائے تو ایک ہنستا کھیلتا خاندان ٹوٹ کر بکھرسکتا ہے، جب کہ اعلی درجے کی صلاحیت موجود ہو تو بکھرتھے خاندانوں اور ٹوٹتے رشتوں کو بچایا جاسکتا ہے۔ ان امور کی انجام دہی کے لیے فقہی بصیرت درکار ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں کوئی نامور خاتون فقیہ اور قاضی شریعت کے طور پر سامنے نہیں ہے۔

خوش آئند بات یہ کہ حالیہ برسوں میں، دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں نے فقہی مہارت میں صنفی عدم توازن کو دور کرنا شروع کیا ہے۔ ترکی میں خواتین کو مفتیوں کی حیثیت سے تربیت دینے کے لیے پروگرام ترتیب دیئے گئے ہیں۔ ہندوستان میں بھی کہیں کہیں اس ضمن میں ہلکی پھلکی کوششیں نظر آتی ہیں۔ ملائیشیا میں عدالتی اداروں اور فلسطینی اتھارٹی نے اپنی شرعی عدالتوں میں خواتین ججوں کی خدمات حاصل کرنا شروع کردی ہیں۔ اسی طرح کے رجحانات انڈونیشیا میں بھی پائے جاتے ہیں۔ انڈونیشیا کی تنظیموں نے حال ہی میں اسلامی دنیا کی اولین خواتین اسلامی اسکالرز کی کانفرنس منعقد کی۔ یہ تاریخی واقعہ، اپریل 2017 کے آخر میں، مغربی جاوا کے شہر، کریئبن میں ہوا۔ اسلامی احکام کے سلسلے میں تجاویز وسفارشات پیش کرنے کے لیے خواتین کے طویل گمشدہ فقہی اختیار کی بازیافت کے معاملے میں یہ واقعہ کسی کامیابی سے کم نہیں۔

۲. سماجی میدان میں سرگرمی کی صلاحیت

باطل نظریہ ہائے حیات نے دنیا کو ناانصافیوں کے خلاف اور حقوق کی بازیابی کے لیے ایک مسلسل کشمکش کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔ ایک طرف بلند بانگ دعوے ہیں تو دوسری طرف سنگین مسائل ہیں، جیسے مہنگائی، بے روزگاری، ناخواندگی، مذاہب کی بنیاد پر تفریق، رنگ کی بنیاد پر امتیاز، ذات پات اور حسب ونسب کی بنیاد پر انسانوں کے مابین اشرف اور ارذل کی تقسیم، ترقیاتی پراجیکٹ کے نام پرآبادیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنا، حصول تعلیم کا مشکل سے مشکل تر ہوتے جانا، حکومت کے اعلیٰ عہدوں اور مناصب پر پہنچنے کی راہ میںغیرمرئی چھلنی کا ہونا، معیشت میں کساد بازاری، شہریت کا خطرے میں پڑجانا وغیرہ- روزبروز اس طرح کے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ ان مسائل کی زد میں آنے والے کم زور عوام ہوتے ہیں، مگر ان میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا اور غیر محفوظ طبقہ خواتین کا ہے۔ لہذا ان نا انصافیوں اور مظالم کے خلاف آواز اٹھانے میں خواتین کا بھی ایک لازمی حصہ ہے جس کی ادائیگی ان پر فرض ہے۔

ظلم اور ظالمانہ نظام کے خلاف آواز اٹھانے میں خواتین نے ہر زمانے میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ ظلم کے خلاف خواتین ہمیشہ اٹھی ہیں۔ خواتین آج بھی بیدار ہورہی ہیں۔ خواتین ہمیشہ متحرک رہیں گی‌ ۔ اسلام کی نظر میں وہ برابر کے درجے کی شہری ہیں، شہریت کے حقوق برابر ہیں اور ان میں کمی ہو یا ظلم ہو تو اس کے خلاف جدوجہد میں بھی برابر کی شریک ہیں۔ نظام ظلم کے خلاف معلوم تاریخ میں کسی خاتون نے پہلی بار آواز اٹھائی تو وہ بی بی آسیہ تھیں۔ بی بی آسیہ ایک نہایت عظیم سلطنت کی خاتون اول تھیں، مگر بدقسمتی سے ان کا شوہر دنیا کا سب سے ظالم حکمران واقع ہوا۔ عورت عموماً سماج کے دباؤ میں رہتی ہے، مگر بی بی آسیہ نے بتایا کہ محل کے تعیشات ظلم کے عوض ملتے ہوں تو اسے ٹھوکر پر رکھا جائے گا اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائے گی۔

اس وقت ہندوستان میں شہریت کے ایک نئے قانون کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے، اس موقع پر مخالفوں کا کہنا ہے کہ مسلمان جب کم زور پڑنے لگے، تو بہت سی خواتین اور لڑکیاں میدان میں کھینچ لائے- بےشک کچھ گھریلو خواتین، کچھ طالبات جنہوں نے اپنے بالوں کو اسکارف سےڈھانپ رکھا ہے، کچھ اور پوری لمبائی والے برقعے ملبوس بھی، حکومت کے خلاف عوامی غم وغصے کی علامت بن کر سامنے آرہی ہیں۔ البتہ اس میں یہ بات صحیح نہیں ہے کہ عورتوں کو کھینچ کر لایا گیا ہے، بلکہ وہ بذات خود جوق در جوق احتجاجات میں شریک ہو رہی ہیں۔ آفرین ان اسّی نوّے سال کی بوڑھی عورتوں پر جنہوں نے این ڈی ٹی وی کو انٹرویو میں بتایا کہ وہ کیوں احتجاج کرتے ہوئے اس وقت سڑک پر آگئی ہیں۔ لڑکیاں بتا رہی ہیں کہ ہم حکومت یا وزیراعظم سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم گولی اپنے سینے میں کھانےکے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا: ” ہم اپنے حقوق کے لیے لڑنا جانتے ہیں۔ ” اس وقت طالبات کو یونیورسٹی کی دیواروں پر گرافٹی پینٹ کرتے ہوئے، ریلیاں نکالتے ہوئے اور مظاہرین کے لیے پوسٹروں اور کھانے کے لیے فنڈ جمع کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ شاہین باغ، دہلی کی احتجاجی بیٹھک میں تو اس وقت ۲۰۰۰سے زیادہ خواتین شدید سردی کے باوجود تا دم تحریر سڑک پر بیٹھی ہیں۔ جوان اور بوڑھے، مردوں کا ایک بڑا ہجوم ایک دائرے میں خواتین کے چاروں طرف کھڑا ہوا ہے۔

حقوق کی لڑائی میں احتجاجات تو اپنا مقام ضرور رکھتے ہیں مگر قانون کی لڑائی قانون سے ہوگی۔ ہمیں جن سے شکایتیں ہیں انھوں نے لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ماہرین قانون کی کھیپ تیار کر رکھی ہے۔ سماجی جد وجہد کی لازمی صلاحیتوں میں قانون کی جانکاری بھی ایک صلاحیت ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ کی ایک درخشاں مثال پیش کرنا چاہوں گا۔

فرحانہ خیرا کی پرورش نیو یارک کے بالکل اوپر واقع ایک چھوٹے سے شہر پینٹ پوسٹ میں ہوئی۔ خیرا کا کہنا ہے کہ اس کا مذہب اس کے ہم جماعت کے 99 فیصد ہم جماعتوں سے مختلف تھا، اور یہ فرق تنازعات سے زیادہ تجسس کا ایک ذریعہ بنا۔ کارپوریٹ دنیا میں اچھی کارکردگی کے بعد، خیرا نے امریکی سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی میں آئینی قانون کے ماہر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، جہاں انھوں نے یو ایس اے پیٹریاٹ ایکٹ میں ترمیم کے لیے جدوجہد کی اور قانون سازوں کے ساتھ کلیدی رابطے استوار کیے۔ 2005 میں، خیرا نے دوسروں کے اشتراک کے ساتھ مسلم ایڈوکیٹس کی بنیاد رکھی، جو ایک قومی قانونی وکالت گروپ ہے جو صدر ٹرمپ کی طرف سے عائد سفر کی پابندی اور مسلمانوں کی شہری آزادیوں پر ہونے والی دیگر خلاف ورزیوں کو چیلنج کررہا ہے۔

سماجی سرگرمی کا ایک اہم پہلو ڈاٹا جمع کرنا اور اس کی بنیاد پر مظالم کو چیلنج کرنا ہوتا ہے۔ عدالت میں حق کی لڑائی کے لیے ٹھوس معلوماتی بنیادوں پر ظلم اور ظالموں کے خلاف مقدمے دائر کرنا اور لڑائی کو منطقی نتیجے تک پہنچانا بھی شامل ہے۔ اس سلسلے کی ایک اور مثال پیش خدمت ہے:

امریکہ کی مسلم خاتون دالیا مجاہد ڈیٹا گرو کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔کالج میں دالیا مجاہد نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ، لیکن اس نے اسکول کے اخبار کے لےء جیو پولیٹکس پر بھی لکھا ہے۔ کارپوریٹ دنیا میں کام کرنے کے بعد ، دالیا مجاہد نے گیلپ سنٹر فار مسلم اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے اعداد وشمار اور مذہب سے متعلق اپنی معلومات کو یکجا کیا، جہاں تفصیلی سروے کے ذریعے اس نے اپنی کتاب Who Speaks For Islam?: What a Billion Muslims Really Think میں انکشاف کیا کہ “حقیقت میں ایک ارب مسلمان کیا سوچتے ہیں۔” دالیا مجاہد اب تحقیق کی ڈائریکٹر ہیں انسٹی ٹیوٹ برائے سوشل پالیسی اور افہام و تفہیم میں Institute for Social Policy and Understanding)،  جہاں وہ امریکی مسلمانوں پر “حل طلب” تحقیق کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ “امریکہ میں مسلمان ہونے کا کیا مطلب ہے” What it‘s like to be a Muslim in America  پر ان کی ٹیڈ گفتگو (TED Talk )ساٹھ لاکھ بار دیکھی جاچکی ہے۔

۳. سیاسی میدان کی صلاحیت

دنیا میں انقلابات آنے کے چار طریقے ہیں۔ ١. نظریات، تحریکات اور شخصیات ‌٢. حوادث اور واقعات ٣. سائنس اور ٹیکنالوجی ٤۔ قانون

نظریات اور تحریکات اور شخصیات کے ذریعے سے جو تبدیلی آتی ہے وہ پائیدار ہوتی ہے، مگر اس کے لیے لمبا وقت درکار ہوتا ہے۔اسلام دنیا میں اسی ذریعہ سے غالب آیا۔ کمیونزم جس کے عروج کا بھی یہی راستہ تھا، مگر بنیاد کم زور ہونے کی وجہ سے وہ جلدی ڈھے گیا۔ حوادث اور واقعات جیسے جنگیں، عوامی بغاوت وغیرہ سے بھی تبدیلی آتی ہے مگر اس میں جان کا بہت بڑا نذرانہ دینا پڑتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ تبدیلی خوش گوار طریقے سے آتی ہے، مگر زندگی پر گہری چھاپ چھوڑ دیتی ہے۔ مثلا موٹر گاڑیاں، ہوائی جہاز ، فون، ٹی وی، سمارٹ فون سوشل میڈیا وغیرہ۔

ان میں سب سے زیادہ موثر اور ہمہ گیر تبدیلی کا ذریعہ قانون ہے۔ قانون ساز اسمبلیوں میں ایک بل کے پاس ہونے سے قوموں کی صدیوں کی قسمت پلٹ دی جاتی ہے، کبھی ترقی کی طرف تو کبھی تنزل کی طرف۔ امریکہ سے لے کر ہندوستان تک قانون سازی کے ذریعہ سے زندگیوں میں خوشگوار یا ناخوشگوار تبدیلیاں لانے کی فہرست لمبی ہے۔

قوموں کی قسمتوں کو بہتر بنانے، دنیا میں عدل و‌قسط کے نظام کو قائم کرنے یا قائم رکھنے میں، ظالموں کو ظلم کرنے کے مواقع کو ختم کرنے اور دنیا میں فساد اور لوٹ کھسوٹ مچانے والوں پر روک لگانے کے لیے ضروری ہے کہ قانون سازی کی سطح پر کام کیا جائے۔ اس میں خواتین کا بھی اپنا حصہ ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس کی بےشمار مثالیں ملتی ہیں کہ خواتین نے حکومت اور اقتدار کی سطح پر کبھی راست اور کہیں بالواسطہ اثر انداز ہوتی رہیں۔

قرطبہ کی لبنی (وفات ۹۸۴ء) کی مثال قابل تقلید ہے۔ اصل میں وہ ہسپانوی نسل کی لونڈی تھیں، مگر لبنی قرطبہ کے اموی محل کی ایک اہم ترین شخصیت بن گئیں۔ وہ عبد الرحمن سوم (وفات ۹۶۱ء) اور ان کے بیٹے الحکم بن‌عبد الرحمن (متوفی ۹۷۶ء) کی محل سکریٹری تھیں۔ وہ ایک ہنر مند ریاضی دان بھی تھیں اور شاہی لائبریری کی صدارت کرتی تھیں، جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ کتابیں تھیں۔ اندلس کے مشہورعالم ابن بشکویل کے مطابق: “وہ تحریر، گرامر اور شاعری میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں، انہیں ریاضی کے علم میں درک تھا اور وہ دوسرے علوم میں بھی ماہر تھیں”۔ اموی محل میں ان جیسا معزز کوئی نہیں تھا۔

ہمارے ماضی میں ایسی خواتین کی متعدد مثالیں ہیں، جنہوں نے سیاسی طور پر اسلامی تاریخ میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ الحمدللہ آج بھی مغربی دنیا میں مسلم خواتین اپنے سیاسی اثر ورسوخ سے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی رہتی ہیں اور حق کے علم بردار کی حیثیت سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہیں۔

الحان عمر صومالی نژاد امریکی مسلمان خاتون ہیں۔ الحان عمر کا امریکی قانون ساز بننے کا سفر کینیا کے ایک پناہ گزین کیمپ میں شروع ہوا ، جہاں ان کا کنبہ صومالیہ کی ظالمانہ خانہ جنگی سے فرار ہو کر پناہ گزیں تھا۔ ۱۹۹۵میں امریکہ ہجرت کرنے کے بعد ، عمر کا کہنا ہے کہ ، وہ ملک کے اعلی نظریات اور اس کے سامنے درپیش زمینی حقیقتوں کے ما بین پائے جانے والے فرق کو دیکھ کر حیران رہ گئیں۔‌ لیکن ان کے دادا نے، جو امریکی تاریخ کے طالب علم ہیں، انہیں سیاسی پیپ ٹاک دیا، یعنی مایوسی اور شکایات کے مزاج سے نکال کر ہمت کی جولانیاں دکھائیں اور دنیا میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ اور ولولہ دیا۔‌ الحان کا کہنا ہے کہ ، “انھوں نے مجھے بتایا کہ بیٹھ کر صرف شکایت کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ،” مجھے عوامی خدمت کے میدان میں اترنا ہوگا”۔ سنہ 2016 میں عمر منیسوٹا کے ایوان نمائندگان کے لیے منتخب ہوئیں ، جہاں وہ ملک کی گرما گرم بحث میں اسلامی نقطہ نظر لاتی تھیں، بالخصوص جب تارکین وطن اور مہاجرین کے موضوع پر بحث ہوتی تھی۔

یہ ایک مثال ہے، ایسی اور بھی مثالیں مل سکتی ہیں۔ غرض اس پہلو سے آج اگر ہم اپنی نئی نسل پر کام کرنا شروع کریں تو ممکن ہے کہ آئندہ دو نسلوں کے بعد ہماری خواتین انصاف کے علمبردار کا کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کے سامنے ایک اچھا ماڈل پیش کرسکیں گی۔

۴۔ اظہار وبیان کی صلاحیت

مہربان (خدا) نے قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اس نے انسان کو پیدا کیااور اسے بیان کرنا سکھایا۔

انسان کا اپنی بات کہنا بیان (articulation)ہے۔ انسان جو کچھ سوچتا ہے یا جو نقطہ نظر رکھتا ہے اس کا اظہار بھی کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ بولتا ہے، لکھتا ہے، اشارہ کرتا ہے۔ ہر بولنا بولنا نہیں ہوتا۔ صحیح وقت پر صحیح بات صحیح انداز سے لوگوں کے سامنے اس طرح پیش کی جائے کہ ان کے دل ودماغ مطمئن ہوں اور ان کا نقطہ نظر بدل جائے، یہ ایک آرٹ ہے، جس میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا مفید ہے:

الف. بولنے سے پہلےسوچو: ذہنی طور پر ایک خاکہ تیار ہوجائے کہ کیا بولنا ہے اور کس حد تک بولنا ہے۔ کون سی مثالیں پیش کرنی ہیں، کون سا شعر معنی خیز ہوگا؟ اور کبھی دل لگی کرنی ہو تو یہ سوچ لیں کہ سننے والے کے جذبات مجروح تو نہیں ہونگے؟ بولنے کے لیے مواد ہو، دلیل ہو اور سامنے والے کو اپیل کرنے والاانداز بیان ہو۔

ب۔ بولنے کے دوران اپنے جذبات کو سنبھالیں: گفتگو کا بڑا حصہ عقل کو اپیل کرنے والاہو اور منطقی پہلو سامنے لایا جائے. سامعین میں جوش وجذبہ پیدا کرنے کے لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسروں کے خلاف دشمنیاں پیدا کردی جائیں۔ عزم، ہمت، حوصلہ، جواں مردی اور شجاعت کے جذبات تو پیدا کیے جاسکتے ہیں، مگر افسردگی تاسف ناامیدی کسی بھی طرح سے گفتگو کے کسی بھی انداز سے قطعاً پیدا ہونے ناپائیں۔

ج۔ اثر پیدا کرنے کے لیے اپنی آواز میں اتارچڑھاؤ پیدا کریں: موقع ومحل کے تقاضے کے مطابق آواز کی تشکیل دی جاسکتی ہے۔ آواز مضمون کی مناسبت سے ہو جیسے؛ اونچی آواز، نرم آواز، تیز آواز، دھیمی آواز، موٹی آواز، سخت آواز، پتلی آواز اور کرخت آواز۔ لب ولہجے کے اتار چڑھاؤ سے سامعین پر مسرت، خوف اور استحجاب کی کیفیات پیدا کی جا سکتی ہیں۔

د۔ فعال سامع بنیں: بحث ومباحثے میں اپنی بات رکھنے سے پہلے لازم ہے کہ سامنے والے کی بات کو غور سے سنا جائے اور اس میں جو امور اتفاق کے ہوں ان کی نشاندہی کر لی جائے اور جن امور پر اختلاف کرنا ہو انہیں ذہن ہی میں چھانٹ لیا جائے، اور پھر ماحول کی مناسبت سے اتفاق بھی کیا جاسکتا ہے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔

ھ۔ باڈی لینگویج کو ذہن میں رکھیں: بیان میں باڈی لینگویج کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ جب آپ گفتگو کرتے ہیں تو آپ کے اعضاء وجوارح بھی آپ کا ساتھ دیتے ہیں، آنکھیں بھی پیغام دیتی ہیں، پیشانی سے بھی ذہنی کیفیت کا پتہ چلتا ہے اور ہاتھ کے اشارے بھی بتاتے ہیں کہ آپ کی نفسیاتی کیفیت کیا ہے؟

بیان کی مختلف قسمیں ہیں جیسے درس قرآن، تدریس وتعلیم، تقریر، خطاب عام، بحث ومباحثہ، سوالات وجوابات اور انٹرویو وغیرہ۔ ان میں ہر ایک کا طرز تخاطب مختلف ہوسکتا ہے، البتہ سبھی میں کمیونیکیشن کے فن کا بھرپور استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی ہماری خواتین ان سب میدانوں کی شہسوار تھیں اور دور جدید میں بھی فنی اعتبار سے بھرپور کمیونیکیشن کرنے والی خواتین موجود ہیں مگر ہمارے حلقے میں ایسی خواتین کی تعداد ابھی کم ہے۔

زینب بنت علی (وفات ۶۸۱ء)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی اور اسلامی تاریخ کی ایک شجاع خاتون ہیں۔ وہ ساتویں صدی عیسوی کے آخر میں اہل بیت (خاندان نبوی) کی سرکردہ شخصیت تھیں اور انھوں نے کربلا (۶۸۰ء) میں قتل عام کے دوران اور اس کے بعد کے دردناک حالات میں مرکزی کردار ادا کیا، جہاں ان کے بھائی حسین اور آل حسین کے 72 بھتیجے اور دوسرے بھائی امویوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ ایک وقت کے لیے، وہ اہل بیت کی ایک موثر رہنما تھیں اور انھوں نے اپنے بھائی، حسین کے مقصد کی بنیادی محافظ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ کوفہ میں، انھوں نے اپنے بھتیجے علی بن حسین (متوفی 712) کا دفاع کیا، جب انہیں اس شہر کے گورنر کی طرف سے دمشق میں یزید بن معاویہ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں ان کی موت یقینی تھی، تو انھوں نے ایسی موثر اور زبردست تقریر کی کہ شاہی عدالت میں یزید بن معاویہ کو اس کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ کربلا کے قیدیوں کو رہا کر دیا جائے جس کے لیے وہ راضی ہوگیا۔ ان کی طاقت، صبر، اور دانائی نے انہیں اسلام کے ابتدائی دور کی ایک اہم ترین خاتون بنا دیا۔

شاہدہ البغدادی دسویں صدی کی عراق کی ایک معروف اسلامی اسکالر رہیں، فاطمہ سمرقندی بارہویں صدی کی اسلامی اسکالر تھیں۔ اس طرح اور بے شمار خواتین ہیں جن کا نام تاریخ میں ملتا ہے کہ وہ یونیورسٹیوں اور مساجد میں بھی علوم اسلامیہ اور اس زمانے کی جدید سائنس پر لیکچر دیا کرتی تھیں جن سے استفادہ کرنے والوں میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں۔

بیان یا خطاب کا فن اس مضمون میں درج پہلی تین صلاحیتوں کے لیے بھی لازمی جز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلامی علوم کی تعلیم وترویج کے لیے درس اور تقریر کا فن چاہیے۔ سماجی جد وجہد میں تقریر، انٹرویو اور خطاب عام کے فن کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاسی موضوعات پر سیاسی ایوانوں میں بحث ومباحثہ کے فن پر قدرت درکار ہوتی ہے۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2020

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223