جدید الحاد کی اہم ترین بنیادوں میں سے ایک بنیاد اثباتیت ہے۔گو کہ جدید دور میں اثباتیت کو بے جان مانا جاتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید ملاحدہ اسی فلسفے کے بدلے ہوئے پہلوؤں کو اپنی دلیلوں میں پیش کرتے ہیں۔
اثباتیت کیا ہے؟
اثباتیت کا عام مفہوم یہ ہے کہ علم کا ذریعہ محسوسات اور تجربات ہیں جنہیں اعداد و شمار کے ذریعے سے فیصل کیا جاسکتا ہے۔ اسے ماضی قریب میں جان لاک ( John Locke)اور ڈیوڈ ہیوم (David Hume)نے پیش کیا تھا حالانکہ اس کی ابتدائی جڑیں یونانی فلسفے میں اور اس کے بعد عربی فلاسفہ کے ہاں بھی مل جاتی ہیں۔ جدید الحاد میں اثباتیت کے تین اہم تغیرات دیکھنے کو ملتے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
کلاسیکی اثباتیت (Classical Positivism)
جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تمام تر علم بالآخر صرف اور صرف محسوسات سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس تعریف کو عام طور مشہور فلسفی جان لوک کے تبولہ راسا (Tabula Rasa)والے جملے سے جوڑا جاتا ہے۔ یونانی زبان میں تبولہ راسا کا مطلب خالی تختی سے لیا جاتا ہے۔ اس کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ اپنی نشوو نما کے ابتدائی دور میں انسان بالکل خالی تختی کی طرح ہوتا ہے۔ بعد میں وہ اپنے محسوسات کے ذریعہ سے اپنے آس پاس کی دنیا کو تشکیل دیتا ہے۔ یہ محسوسات، تجربات اور مشاہدات اس کے نظریات اور شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ یعنی انسان کے اندر طبعی طور پر کوئی چیز ودیعت نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ اس کا سارا جہاں اپنا تخلیق کردہ ہوتا ہے۔ جو آس پاس کے ماحول سے عبارت ہوتا ہے۔ رچرڈ ڈاکنز(Richard Dawkins)نے اپنی کتاب God Delusion میں اس اثباتیت کا جابجا استعمال کرتے ہوئے مذہب میں موجود گناہ و ثواب کے تصور پر تنقید کی ہے۔ان کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ خیر و شر اور اس کے تعلق سے انسان کے اندر موجود حساسیت ،کسی خدا کے ذریعہ طبعی طور پر انسان کے اندر ودیعت نہیں کی گئی ہے بلکہ انسان اپنے آس پاس کے ماحول سے اس طرح کے تصورات کو اخذ کرتا ہے اور اچھائی برائی کے تصورات کو اپناتا ہے۔[1]
منطقی اثباتیت(Logical Positivism)
منطقی اثباتیت کلاسیکی اثباتیت سے زیادہ اہم ہے۔ اس کی تعریف یوں بیان کی جاتی ہے کہ وہی بیانات صحیح ہوتے ہیں جو اعداد و شمار مشاہدے اور منطقی تجزیے کے ذریعے فیصل کیے جا سکتے ہیں۔
اس تعریف کا استعمال ہمیں سیم ہیرس اور ڈینیل ڈینٹ کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے جب وہ مذہب کے حوالے سے تنقید کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق نبیوں نے معجزات پیش کیے، موت کے بعد کی زندگی برحق ہے، خدا موجود ہے، فرشتے وحی لاتے ہیں، جنت اور جہنم وغیرہ ہونی ہے، یہ سب غیر ادراکی اور بے معنی بیانات ہیں، جنہیں منطقی اثباتیت کے تحت فیصل نہیں کیا جا سکتا۔[2]،[3]
سیم ہیرس نے اپنے مختلف انٹرویوز اور تقاریر میں[4]اور ڈینیل ڈینٹ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب انڈ آف فیتھ (End of Faith)میں دعاؤں کے بے اثر ہونے کو سائنسی مشاہدات سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔[5] اس کا کہنا یہ ہے کہ دعا کے حوالے سے تمام تر سائنسی شواہدات کو دیکھنے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ دعا دراصل اپنے آپ کو دھوکہ دینے کا ایک طریقہ ہے یا اس سے آگے بڑھ کر ارتقائی نفسیات کے نتیجے میں بہتر بقا (Survival)کے لیے دعا کو انسان نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا سیکھ لیا ہے۔ دعا اصل میں کچھ نہیں ہوتی بلکہ انسان اپنے تکلیف، درد، غم، پریشانی، مصائب، مشکلات، حسرت اور خواہشات جیسی کیفیات سے نبردآزما (coping) ہونے کے لیے دعا کو استعمال کرتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ منطقی اثباتیت کی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ صرف وہی بیانات صحیح مانے جائیں گے جن کی تصدیق اعداد و شمار اور مشاہدے کے ذریعے سے کی جا سکتی ہو۔ لیکن خود اس تعریف کی تصدیق اعداد و شمار اور مشاہدے کے ذریعہ نہیں کی جا سکتی!! جدید ملاحدہ بطور خاص ڈینیل ڈینٹ نے انڈ آف فیتھ میں اسی تعریف کا استعمال کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ سائنسی مشاہدہ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ دعا کا کوئی اثر مریضوں کے اچھا ہونے پر نہیں ہوتا ہے اور مختلف مریض جنہوں نے سائنٹیفک تحقیقات میں حصہ لیا ہے ان کی بیماری پر دعا کا کوئی اثر نہیں ہوا! یہ بڑی مضحکہ خیز بات ہے کیونکہ سیم ہیرس جن تحقیقات کا حوالہ دیتے ہیں ان تحقیقات کے علاوہ دعا کا مریض پر اثر دیگر تحقیقات، ذاتی تجربات اور آس پاس کے مشاہدات سے ثابت ہوتا ہے۔ لیکن سیم ہیرس اور جدید ملاحدہ اس طرح کے کسی بھی مشاہدے کو اعداد و شمار کی کمی، تجربات کی کسوٹی پر پورا نہ اترنا اور اس طرح کی خامیوں سے متصف قرار دیتے ہیں! حالانکہ یہ تمام خامیاں ان کی ان تحقیقات پر بھی اٹھائی جاسکتی ہیں جن کا حوالہ وہ دے رہے ہیں۔
سائنٹفک اثباتیت (Scientific Empiricism)
اثباتیت کی تیسری اور سب سے اہم قسم سائنٹفک اثباتیت(Scientific Empiricism) ہے جس کا تذکرہ ہم اس سے قبل کے مضمون میں کر چکے ہیں. اس کی تعریف یہ ہے کہ علم حاصل کرنے کا واحد ذریعہ مفروضہ ،مشاہدہ، تجربہ اور اس کے بعد اس کے استعمال سے حاصل ہونے والا علم ہے۔ (اس پر تفصیلی کلام ہم نے اپنی کتاب سائنس، سائنس پرستی اور اسلام میں کیا ہے جو لوگ چاہیں اسے وہاں دیکھ سکتے ہیں) دوسرے لفظوں میں علم بس وہی ہے جو سائنٹیفک طریقے سے حاصل کیا جاتا ہے. یا علم وہی کہا جاسکتا ہے جس میں ایک مفروضہ ہو جس کی بنیاد پر تجربہ ڈیزائن کیا جائے پھر اس تجربے میں مختلف چیک اینڈ بیلنس لگائے جائیں اور اس کے بعد اس کے نتائج اخذ کیے جائیں پھر ان نتائج کو ہم عصر اہل علم یا سائنسداں پرکھیں اور اس کے بعد جو بات وجود میں آتی ہے وہی علم ہے۔ اس کے علاوہ باقی سب علم کے دائرے میں نہیں آتا ہے۔اسے آج کل سائنٹزم کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔
سائنٹیفک اثباتیت کا غالبًا سب سے زیادہ استعمال رچرڈ ڈاکنز نے کیا ہے۔ اس کے علاوہ جدید الحاد کے تمام ہی چوٹی کے مفکرین اس کا استعمال کرتے ہیں۔جن میں نیل ڈی گریس، براؤن کوکس اور دیگر شامل ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (زندگی نو، ستمبر 2024) مثلًا سیم ہیرس کا کہنا ہے کہ نیورو سائنس کے ذریعے ہم اعلی ادراکی سوالات (Questions of Higher Consciousness)کا جواب پیش کر سکتے ہیں. مختلف نیورو سائنس کے تجربات کے ذریعے ہم مامتا، حیا، قربانی، ایثار، مثبت جذبات، خوشی وغیرہ کا کیمیائی تعامل اور اس تعامل سے حاصل ہونے والے مختلف نتیجوں کا تجزیہ اور ان کی تحلیل کر سکتے ہیں۔
ڈاکنز کا کہنا ہے کہ ارتقائی حیاتیات کا استعمال کرتے ہوئے سادہ جانداروں سے پیچیدہ جانداروں کی طرف ارتقا کو بیان کیا جا سکتا ہے، جو بالآخر ترقی یافتہ انسان کی شکل میں زمین پر ظہور پذیر ہوئے ہیں۔
اسی طرح ارتقائی اخلاقیات کے ذریعے موجودہ پیچیدہ اخلاقیات کی توجیہ کی جا سکتی ہے۔ ڈینیل ڈینٹ بھی اس بات کی دہائی دیتا نظر آتا ہے۔ اس کی مشہور زمانہ کتاب [2]Breaking Spell میں ارتقائی نفسیات کا استعمال کرتے ہوئے مذہب کو ایک فطری مظہر کے طور پر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مذہب دراصل انسانوں کے ذریعے بنائے گئے ہیں، نہ کہ کسی فوق الفطرت ہستی کی طرف سے انسانیت کو عطا کیے گئے۔ (اس مفروضہ پر تنقید اور اس کے رد کے لیے دیکھیئے “نظریہ تخلیق اور نظریہ ارتقاء عصری مباحث کا جائزہ”)
یعنی انسان نے اخلاقیات اور مذہب کو ایجاد کیا تاکہ وہ بہتر طریقے پر بحیثیت نوع اس دنیا میں اپنی زندگی گزر بسر کر سکے اور انسانی تہذیب کے ارتقا کا سفر جاری رہے۔ مذہب اور اس کی تعلیمات، اخلاقیات، آخرت کا تصور، گناہ ثواب، قربانی و ایثار، یہ تمام کے تمام معروضی وغیر معروضی فلسفے ہدایات اور اخلاقیات دراصل ارتقائی سفر کے نتیجے میں رونما ہوئے ہیں۔
اثباتیت کی کلاسیکی اور جدید ملاحدہ کے ذریعے استعمال کی جانے والی قسموں پر شدید قسم کے اعتراضات وارد کیے جا سکتے ہیں۔جیسے: منطقی اثباتیت کی تعریف میں جو بات بیان کی گئی ہے کہ صرف تجرباتی طور پر تصدیق شدہ بیانات معنی رکھتے ہیں۔ یہ اصول خود تجرباتی طور پر ثابت نہیں ہوسکتا اس لیے یہ اپنی ہی بنیاد کو کمزور کرتا ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ یہ خود کو ہی کاٹنے والا اصول ہے ۔
دوسرا سب سے بڑا تضاد جو سائنٹیفک اثباتیت اور کلاسیکل اثباتیت میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ کوانٹم فزکس کے سائنسی افق پر طلوع ہونے کے بعد یہ بجائے خود ازکار رفتہ قرار پاتا ہے۔ لیکن جدید ملاحدہ نے کوانٹم فزکس کے بہت واضح اصولوں کے بعد بھی جا بجا اپنی کتابوں میں، اپنی تقاریر میں، اپنے انٹرویو میں اثباتیت اور اس سے جڑے اس کے مختلف پہلوؤں کا استعمال اپنے بیانیے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کیا ہے۔ یہ بڑی مضحکہ خیز اور علمی اعتبار سے بودے پن کی بات ہے کہ کوانٹم فزکس کے وجود میں آنے کے بعد بھی اعداد و شمار، محسوسات اور ڈیٹا کی تخریج پر زور دیا جاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید الحاد کے توسیعی تصور کے حامی یہ کہتے ہیں کہ اثباتیت اور اس کے تمام پہلوؤں کو اگر نظر انداز بھی کیا جائے اور کوانٹم فزکس کے سائنسی افق پر طلوع ہونے کے بعد اور اس کی غیر معمولی ترقی ہو جانے کے بعد بھی خدا کے تصور کو کائنات کی توجیہ کے لیے درمیان میں لانے کی کیا ضرورت ہے!! وہ یہ کہتے ہیں کہ طبعی اصولوں کے مطابق اس کی کائنات کی پیدائش، اس کا ارتقا اور اس میں موجود پیچیدگی وغیرہ کے بارے میں جس رفتار سے ہماری سمجھ میں اضافہ ہو رہا ہے اور سائنس کے اصولوں میں جو لچک موجود ہے اور ٹیکنالوجی کی غیر معمولی ترقی جس رفتار سے آج ہو رہی ہے وہ تمام اس بات کی ضامن ہے کہ ہم ایک دن کسی خدا کے تصور کو بیچ میں لائے بغیر اس کائنات کی تعریف و توجیہ و تشریح کرسکیں گے۔ لیکن بڑی عجیب بات یہ ہے کہ سائنس بجائے خود اب اس بات کو ماننے لگی ہے کہ ہر چیز کی حدود ہوتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی بھی بالآخر ایک حد ہوگی۔ مثلًا ہم روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والی کوئی شے نہیں بنا سکیں گے۔ اسی طرح سے اب اس بات کو بھی مانا جانے لگا ہے کہ ہم کائنات کی وسعت کو شاید کبھی نہ جان پائیں۔ سپر کمپیوٹنگ اور کوانٹم کمپیوٹنگ کے حدود پر بھی گفتگو شروع ہو چکی ہے۔ اسی طرح سائنسی فریم ورک کی بھی بالآخر ایک حد ہوگی۔ تو ایک طرف تو یہ دعوی ہے کہ سب کچھ جان لیا جائے گا دوسری طرف یہ معاملہ ہے کہ کائنات کتنی بڑی ہے اس پر ہی ابھی فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ تیز ترین رفتار سے ترقی کرنے والی ٹیکنالوجی بھی بہت سے سوالوں کا جواب دینے سے عاجز ہے۔ لیکن جدید ملاحدہ کی ہٹ دھرمی کی سطح کچھ اور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان تمام کمیوں کا کیا یہ مطلب ہوگا کہ ہم ایک ایسی غیر مرئی شے یعنی خدا کو مان لیں جس کے وجود کے دعوے کی تصدیق کرنے کے لیے ہمارے پاس براہ راست یا بالواسطہ کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اصل میں یہ وہ بنیادی سوال ہے جو جدید توسیعی الحادی فکر رکھنے والے اب مذہبی افراد سے کر رہے ہیں۔ اس توسیعی تصور کو ماننے والے محققین اس بات کو پیش کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہو بھی جائے تو بھی خدا کو درمیان میں لانے کی کیا کوئی ضرورت ہے؟ یہ اپنے آپ میں ایک کمزور دلیل ہے اس لیے کہ کائنات کی تمام تر توجیہ و تعریف اور توصیف و تشریح کے باوجود یہ سوال باقی رہے گا کہ کائنات کا وجود کیوں ہوا ہے؟ اس کا جواب اگر یہ دیا جائے کہ یہ اتفاق سے وجود میں آئی ہے تو پھر دوسرا اس سے زیادہ الجھن میں ڈالنے والا سوال پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ انسانی نفسیات میں مقصد اور معنی کے تئیں زبردست داعیہ کیوں موجود ہے؟ اور مقصد و معنی کی عدم موجودگی میں انسان کیوں ایک زبردست خلا اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ واضح رہے کہ تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسانوں میں خودکشی کے رحجان کو بڑھاوا دینے اور خودکشی کے ایک اہم محرک کے طور پر مقصد و معنی کی عدم موجودگی کو ثابت کیا جاچکا ہے۔[6] اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ سماجی پس منظر، جغرافیائی حدود، ذاتی ترجیحات اور شعور کی مختلف سطحوں کے علی الرغم کچھ بنیادی سوالات ہیں جو باشعور انسان اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلہ میں اپنے آپ سے پوچھتا ہے۔ مثلًا وہ کون ہے؟ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ یہ کائنات کیوں بنائی گئی ہے؟ اس کائنات کا بالآخر انجام کیا ہونا ہے؟ کیا یہ زندگی ہی سب کچھ ہے یا موت کے بعد کچھ اور ہے؟ یہ اور اس طرح کے متعدد سوالات ہیں جو ہر باشعور شخص اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی اپنے آپ سے کرتا ہے۔ کائنات کو اتفاقی حادثہ مان لینے کے نتیجے میں جو خلا پیدا ہوتا ہے اس خلا کی بھرپائی کے لیے سائنس کے پاس کیا جواب ہے۔ جدید الحاد کا توسیعی فکر اس بات کا جواب یہ دیتا ہے کہ ہر شخص کو اپنا معنی و مقصد خود پیدا کرنا چاہیے اس کے لیے اسے کسی مذہب کی کتاب کی طرف، پیغمبروں کے اقوال کی طرف یا رسم و رواج کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ معنی اور مقصد انسانوں کی بہتری، انسانی نوع کی ترقی، تمام افراد کے لیے یکساں مواقع اور تمام افراد کے لیے بہتر زندگی کی ضمانت وغیرہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام مقاصد کے لیے تحریک کہاں سے حاصل ہو؟ مذہب جو تحریک دیتا ہے اس طرح کی تحریک سیکولر اخلاقیات نہیں دے سکتی۔ اس پر اب اتفاق ہو رہا ہے لیکن پھر بھی جدید ملاحدہ اور اس کی فکر رکھنے والے افراد اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ جدید سیکولر انسانیت پرست (Secular Humanistic) نقطہ نظر اس بات کا ضامن ہوسکتا ہے کہ وہ اچھے کاموں کے لیے تحریک دے سکے۔ مثلًا رچرڈ ڈاکنز اپنے انٹرویو[7] میں بار بار یہ کہتے ہیں کہ کیا آپ شعور کی اس سطح پر ہیں جہاں پر آپ کو کوئی اچھا کام کرنے کے لیے کسی انعام کی ضرورت ہوتی ہے؟ کیا آپ ایک بچے ہیں جو ٹافی کی لالچ میں کوئی اچھا کام کرتا ہے یا اچھی عادت کو اپناتا ہے؟ بظاہر بہت مضبوط لگنے والی دلیل میں بنیادی انسانی فطرت کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ شعور کی اعلی ترین سطحوں پہ پہنچ جانے کے باوجود بھی انسان کے اندر اچھے انجام کی چاہت اور اچھے کاموں کا اچھا صلہ پانے کی خواہش یا یوں کہیں کہ ایک خاص قسم کی منفعت پسندی کا طاقت ور داعیہ پایا جاتا ہے۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ سیکولر اخلاقیات شعور کی اعلی سطح کے ساتھ تعامل کر کے بالآخر اس شعوری حالت کو انسان پہنچ جائے گا جس میں بغیر کسی انعام اور سزا کے خوف کے وہ ایک متمدن زندگی گزارنے لگے گا لیکن عمل کی دنیا میں بارہا یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مذہب پر مبنی اخلاقیات اور سیکولر اخلاقیات کے درمیان جب بھی تقابل ہوا، یہ پایا گیا کہ مذہب پر مبنی اخلاقیات نے انسان کو بہت مضبوط بنیادیں فراہم کی ہیں، جن بنیادوں پر ایک بہتر انسانی رویے کی تشکیل ممکن ہے۔ (حالیہ دنوں میں مغربی مقتدرہ کی طرف سے اسرائیلی مظالم کی غیر مشروط حمایت اس کی ایک چشم کشا مثال ہے۔)
ہم سمجھتے ہیں کہ اثباتیت کی تمام شکلیں اور اس سے جڑے تمام پہلو بالآخر اس غیر معروضیت کی تشریح و توجیہ نہیں کر سکیں گے، جس کے مظاہر پوری کائنات میں بکھرے پڑے ہیں۔ مثلًا درد کی نیورو سائنٹیفک تشریح و توجیہ، درد کے آخذ (receptor)اور اس کے مہیج (Stimuli)کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ یعنی دماغ میں موجود مختلف کیمیائی مادوں کے تعامل اور تحریک سے درد کے خاص قسم کے احساس جنم لیتے ہیں، لیکن درد ہر شخص مختلف انداز میں محسوس کرتا ہے، ایسا کیوں ہے؟ اسی طرح سے خوشی اور دیگر جذبات اور اعلی ادراکی مظاہر کا معاملہ ہے۔ یہ جو غیر معروضیت ہوتی ہے اس کی تشکیل و توجیہ اور تعریف اثباتیت نہیں کر پاتی اسی طرح سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اس کے جواب میں جدید ملاحدہ کے توسیعی فکر کے ماننے والے افراد یہ مقدمہ پیش کرتے ہیں کہ پہلے ہمیں درد کیسے ہوتا ہے؟ نہیں معلوم تھا۔ اب یہ معلوم ہے کہ درد کیسے ہوتا ہے۔ آگے چل کر یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ درد میں اتنی غیر معروضیت کیوں ہوتی ہے۔[8] یہ دلیل بھی بظاہر بڑی مضبوط نظر آتی ہے۔ لیکن یہ تو مستقبل میں جاننے کی بات ہے۔ آج کے فرد کے لیے اس کی کیا معنویت ہے؟ وہ لوگ جو آج درد کی غیر معروضیت کو سمجھنا چاہتے ہوں، کس تشریح و توجیہ پر مطمئن ہوں گے یا کس تشریح و توجیہ کی طرف دیکھیں گے؟
ایک اور دلچسپ بات جو کوانٹم میکینکس کے حوالے سے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جدید سائنس بھی کوانٹم میکینکس کے ایسے بہت سارے اصولوں کو مانتی ہے جن کو اعداد و شمار کی بنیاد پر فیصل نہیں کیا جاسکتا۔ مثلًا الیکٹرون کو لے لیں۔ الیکٹرون کو ایک ذرہ بھی مانا جاتا ہے اور ایک طیف، لہر یا ویو بھی مانا جاتا ہے۔ الیکٹرون کی رفتار اور اس کی پوزیشن دونوں بیک وقت معلوم نہیں کیے جا سکتے، اس بات کو سائنس نے تسلیم کر لیا ہے۔ منطقی اثباتیت کے اصولوں کے خلاف یہ ساری باتیں جاتی ہیں، پھر بھی ان کو مانا جاتا ہے۔ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ کوانٹم میکینکس کا استنباط و استخراج مختلف تجربات اور ڈیٹا کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ یعنی کم از کم وہ حدود متعین ہیں جو محسوسات اور اعداد و شمار کے دائرے میں پوری طور نہیں آتے ہیں۔ لیکن یہ صرف سرسری بات ہے۔ کوانٹم میکینکس بلکہ اس سے آگے بڑھ کر پوری جدید سائنس میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایسے مفروضات ہیں جن کو بس مانا جاتا ہے ان کی کوئی تعریف اور توجیہ ہم مختلف ڈیٹا سے نہیں کرتے۔ مثلًا پروٹین کی ساخت کے سلسلے میں ہم بہت سے مفروضات کی بنیاد پر اس کی ساخت کو جانتے اور مانتے ہیں۔ اسی طرح سے ڈی این اے اور اس سے جڑی ہوئی دنیا کے سلسلے میں بہت سے مفروضات ہیں۔
ایک اور سب سے اہم تنقید جو اثباتیت پر کی جاتی ہے اور کی جانی چاہیے، اسے مذہب پر دائروی تنقید کا نام دیا جا سکتا ہے مثلًا یہ کہ جدید ملاحدہ اثباتیت کے طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے مذہب اور اس سے جڑے ہوئے اصولوں کو غیر منطقی بتاتے ہیں لیکن خود ان کے بہت سے مفروضات اثباتیت پر مبنی نہیں ہیں یا اثباتیت کے سلسلے میں ان کے مفروضات بہت زیادہ اعداد و شمار کی بنیاد نہیں رکھتے تو جس ذریعے کا استعمال کرتے ہوئے وہ مذہب پر تنقید کرتے ہیں وہی ذریعہ بنیادی طور پر اپنے اندر اثباتیت سے ثابت شدہ نہیں ہے۔ اسے مذہب پر تنقید کا دائروی اشکال کہا جاسکتا ہے۔
ایک اور تنقید جو اثباتیت اور اس کی بنیاد پر وجود میں آنے والے سائنٹزم یا نیچرلسٹک سائنسی طریقہ کار پر کی جاتی ہے اور جس کا کافی و شافی جواب آنا باقی ہے وہ یہ کہ اگر حتمی حقیقت (Ultimate Reality) سائنس کے ذریعے معلوم کی جا سکتی ہے اور دو دعووں کے درمیان صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے کے لیے سائنسی طریقہ ہی بالآخر سب سے اچھا طریقہ ہے تو یہ ماننا کہ سائنسی طریقہ ہی سب سے اچھا طریقہ ہے جو کہ مختلف دعووں کی تصدیق کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے یہ بھی تو ایک طریقے کا ایسا دعوی ہے جسے صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی جدید ملاحدہ اور اس کی توسیعی فکر کو ماننے والے افراد جس دائروی دلیل کے حوالے سے مذہبی افراد کو غلطی پر مانتے ہیں اور انہیں غیر منطقی اور غیر سائنسی ٹھہراتے ہیں وہی دلیل خود ان کے خلاف جاتی ہے۔
اسی طرح سے جدید الحادی فکر جس بنیاد پرستی اور عدم برداشت (Intolerance)کا الزام مذہبی افراد اور ان کے ماننے والوں پہ لگاتی ہے سائنسی طریقہ کار اور اثباتیت کے حوالے سے وہی جدید الحادی فکر بنیاد پرستی اور عدم برداشت کی مرتکب ہو جاتی ہے۔ یہ ایک طرح کی منافقت ہے جس کا مظاہرہ جدید الحادی توسیعی فکر رکھنے والے افراد اپنی کتابوں، تقریروں، انٹرویو اور مباحث میں کرتے ہیں۔ [9]یہ افراد مذہب کی مخالفت میں اس تشدد و تعصب کی آخری حدوں کو پہنچ جاتے ہیں جس کا الزام وہ مذہب والوں اور مذہب کا دفاع کرنے والوں پر لگاتے ہیں۔
حوالہ جات
- Dawkins, R. (2006). The God Delusion. Boston, MA: Houghton Mifflin.
- Dennett, D. C. (2006). Breaking the Spell: Religion as a Natural Phenomenon. New York, NY: Viking.
- Harris, S. (2004). The End of Faith: Religion, Terror, and the Future of Reason. New York, NY: W. W. Norton & Company.
- Sam Harris https://www.youtube.com/watch?v=26IvvpwTMZE
- Daniel Dennet https://www.youtube.com/watch?v=5WhQ8bSvcHQ
- Gearing RE, Lizardi D. Religion and suicide. J Relig Health. 2009 Sep;48(3):332-41. doi: 10.1007/s10943-008-9181-2. Epub 2008 Jul 10. PMID: 19639421.
- Richard Dawkins https://www.youtube.com/watch?v=U0Xn60Zw03A&t=134s
- Christopher Hitchens https://www.youtube.com/watch?v=jpC-o5QEuMs
- Hitchens, C. (2007). God Is Not Great: How Religion Poisons Everything. New York, NY
مشمولہ: شمارہ مئی 2025