سید سلیمان ندوی(1884-1953)کی شخصیت ہمہ جہت اور ہمہ گیر تھی۔ان کی خدمات کا دائرہ کسی ایک خاص شعبے تک محدود نہیں ہے۔ان کے کارنامے قرآنیات، فقہیات، تاریخ نگاری، تحقیق و تنقید، لسانیات، تہذیب و تمدن، ادب و شاعری، طب اور صحافت تک پھیلے ہوئے ہیں۔انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس کاحق ادا کیا۔اردو زبان اور مسلمانوں سے انھیں جو لگاؤ تھا، اس کا اندازہ ان کے شذرات، مضامین اور خطبات کے مطالعے سے ہوتا ہے۔انھوں نے عربوں کی جہاز رانی کے تعلق سے اپنے نتائج تحقیق بیان کیے ہیں۔بحری سفر اور اس کی مشکلات کو انھوں نے تحقیقی انداز میں پیش کیا ہے۔عرب و ہند کے تعلقات، نامی کتاب میں سید سلیمان ندوی نے عرب و ہند کے مذہبی، تعلیمی اور تجارتی تعلقات پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ اس مقالے میں مذکورہ کتاب کے ایک حصے’عرب و ہند کے تعلیمی تعلقات‘کا تعارف پیش کیاجائےگا۔
عربوں کی علمی سرگرمیاں
جب اہل عرب ہندیوں کے علم سے واقف ہوئے تو، ان کی علمی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ یہ کام پہلی صدی ہجری میںہوا۔جب حکومت کا مرکز شام تھا، تو یونانی اور سریانی زبان کا غلبہ رہا، جب عباسی خلافت کا تخت عراق میں بچھا تو ہند و ایران کی طرف توجہ ہوئی۔ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستانیوں کے علم کو عربوں نے پہچانا۔اس کی قدر ومنزلت اس طرح کی کہ اس علم کوسنسکرت زبان سے عربی زبان میں منتقل کیا۔ نجوم، جوتش، جفر، رمل ، سانپوں کا علم، زہر وں کا علم،موسیقی، سیاست، جنگ ، کیمیا، منطق ، جادو ، کہانی ، اوراخلاق و حکمت کو ترجمے کے ذریعے عربوں نے اپنے سرمایے کا حصہ بنایا۔ عرب و ہند کے مابین تعلقات کی یہ ابتدائی کڑی تھی۔
موجودہ وقت میں جب ہم اس تعلقات پر گفتگو کرتے ہیں تو اپنے ماضی کی تاریخ کی تابناکی ہمارے لیے باعث افتخارہوتی ہے، البتہ اپنی کوتاہیوں ،کمزوریوںا ور اپنے اسلاف کے کارناموں کی ناقدری نے ہمیں اب پیچھے کر دیا ہے۔ اب تعلیمی معاملات میں مسلمان لوگوں کی توجہ کا مرکز نہیں بن پا رہے ہیں، بجز چند علوم کے، آج ہم اپنی جامعات کا سروے کریں تواس محرومی کا خاطر خواہ اندازہ کیا جاسکتا ہے آج ہمارےیہاں دوسرے ملکوں کے طالب علموں کی نمائندگی کا فیصد کتنا ہے؟ جب کہ کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں لوگ علم سیکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔آج جب بین الاقوامی سطح پر جامعات کا سروے کرایا جاتا ہے تو تعلیمی معیار کی پستی کے سبب ہماری جامعات کا کوئی رول ہمارےسامنےنہیںآتا۔علمی خدمت کے سبب ابتدا میں متعارف ہوئے، اب اس اعتبار سے ہماری کوئی شناخت نہیں ۔اس لیے ابتدا میں ہمارے جن علوم کی قدر کی گئی ان کا ذکر ناگزیرہے ۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے، جہاں عرب وہند ایک دوسرے سے قریب آئے۔ یوں تو تجارت کی غرض سے عربوں کا ہندوستان میں آنا جانا بہت پہلے سے تھا، لیکن پہلی صدی ہجری میں عربوں نے ہندی علوم کو پہچانا اور اس علمی سرمایے کی قدر کی اور ترجمے کے ذریعے اسے اپنے علوم کا حصہ بنایا۔
سید سلیمان ندوی کی تحقیق
سید سلیمان ندوی نے عرب وہند کے تعلیمی تعلقات کا سہرہ’برامکہ‘ کے سر باندھا ہے ۔ برامکہ(خاندان) کے لیے مشہور ہے کہ یہ آتش پرست ایرانی تھے۔لیکن سید سلیمان ندوی نے مختلف دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ خاندان آتش پرست نہیں تھا، بلکہ یہ بدھ مذہب کے پیرو تھے، ان کا اصل تعلق ایران سے نہیں، بلکہ ہندوستان سے تھا۔ اس خاندان کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کے افراد اپنے علم وحکمت سے بغداد کی عباسی خلافت میں تقریبا ً پچاس سال تک وزارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔مسلمانوں میں علم کلام، فلسفہ، طب، معقولات اور دوسری قوموں کے علوم کے سیکھنے کا شوق پیدا کرنے میں برامکی خاندان نے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ سید سلیمان ندوی نے ابتدا میں برامکہ کون تھے؟ اس کا مدلل جواب دیاہے۔ اور مختلف حوالوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ خاندان بدھ مذہب کا پیرو کار تھا، اور یہ ہندوستانی باشندے تھے۔یہ ایک ایسا تحقیق طلب معاملہ تھا، جس کو واضح کرنے میں غیر معمولی ذہانت کی ضرورت تھی ۔اس خاندان نے عرب و ہند کے مابین تعلیمی تعلقات قائم کرنے میں ایک پل کا کام کیا تھا۔ جب بھی ان دونوں ملکوں کے مابین تعلیمی تعلقات کی ابتدا کے بارے میں گفتگو کی جائے گی تو اس خاندان(برامکی)کا ذکر ضرور آئے گا۔عرب و ہند کے درمیان باقاعدہ علمی تعلقات کے آغاز کے سلسلے میں جناب سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے:
’’……جب خلافت کا مرکز شام سے ہٹ کر عراق آگیا یعنی امویوں کے بجائے عباسیہ اسلام کے تخت حکومت پر بیٹھے تو سندھ اور عراق کے قرب نے فارس کی خلیج میں ان دونوں قوموں کے درمیان اتحاد کا ایک سنگم پیدا کر دیا۔سفاح کی دو تین سال کی حکومت کے بعد عباسی خانوادہ کا دوسرا خلیفہ منصور123ھ میں بادشاہ ہوا۔146ھ میں پایہ تخت کی تعمیر ختم ہوئی اور بغداد آباد ہوا اور اس کے آٹھ برس کے بعد یعنی154ھ سے عرب و ہند کے علمی تعلقات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔‘‘ (عرب وہند کے تعلقات۔ سید سلیمان ندوی۔مشعل بکس، لا ہور،2004ص، 73)
برامکہ خاندان کی خدمات
منصور بہت علم دوست تھا۔ اس کا چرچا جب پھیلا تو سندھ کے ایک وفد کے ساتھ ہیئت اور ریاضی کا ایک پنڈ ت سنسکرت کی سدھانت لے کر بغداد پہنچا، اور خلیفہ کے حکم سے ایک ریاضی داں کی مدد سے اس کا عربی میں ترجمہ کیا۔غالبا ً یہ پہلا واقعہ ہے جب عربوں کوہندوستانیوں کی قابلیت کا اندازہ ہوا اور اس کا اعتراف انھوں نے اپنی زبان میں کتابوں کا ترجمہ کر کے کیا۔یہ سلسلہ جو شروع ہوا تو ، دوسرے علوم وفنون سے واقفیت رکھنے والے لوگوں کے علمی مقام کا بھی اعتراف کیا گیا۔ہارون نے اپنے علاج کے لیے ہندوستان سے ہی وید بلوایا، جنھوں نے عربوں میں ہندوستان کی قدر اور بڑھا دی۔جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ برامکہ نے علمی اعتبار سے ایک دوسرے(عرب و ہند) کو قریب کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ چنانچہ اس کے بعد برامکہ کی سرپرستی میں مختلف علوم و فنون کا عربی میں ترجمہ کیا گیااور ہندوستان کی علمی لیاقت کا اعتراف پوری دنیا میں کیا گیا۔یعقوبی ایک سیاح، مورخ اور فاضل تھا۔ اس نے ہندوستانیوں کی علمی لیاقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ ہندوستان کے لوگ عقل والے اور غور کرنے والے ہیں اور اس حیثیت سے سب قوموں سے بڑھ کر ہیں۔ جوتش اور نجوم میںان کی باتیں سب سے زیادہ درست نکلتی ہیں۔ سدھانت انھیں کی ذہانت کا نتیجہ ہے جس سے یونانیوں اور ایرانیوں نے فائدہ اٹھایا۔ طب میں ان کا فیصلہ سب سے آگے ہے۔ اس فن میں ان کی کتاب چرک اور ندان ہے اور بھی طب میں ان کی کئی کتابیں ہیں۔ منطق اور فلسفہ میں ان کی تصنیفات ہیں اور بہت سی تصنیفات ہیں جن کی بڑی تفصیل ہے۔‘‘ (بحوالہ، عرب و ہند کے تعلقات۔ص، 76)
یعقوبی کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے ہندوستانیوں کے علم کا اعتراف کیا ہے۔ سر زمین ہند نے نہ جانے کیسے کیسے جوہر پیدا کیے، لیکن اہلِ ہند اس شناخت کو باقی نہیں رکھ سکے۔ ان کےعلوم سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا، اُ ن کا ترجمہ کیا، پھر اسے اپنا سرمایہ بنا لیا۔ یہ علمی خدمت اتنی طویل مدت پر معمور ہے کہ اب خود شک ہونے لگتا ہے کہ کیا واقعی اس علم کے موجد ہندی تھے یا کوئی اور؟ سید سلیمان ندوی یا اس طرح کے محققین نے اپنی تحقیق سے ہندوستانیوں کو آئینہ دکھایا ہے کہ اہلِ ہند کیا تھے اور کیا ہو گئے۔ یہ ایک ایسی بحث ہے جس کا حق ہے کہ اس موضوع پرمزیدتحقیق کی جائے۔ اس مضمون میں بعض گوشوں کی طرف اشارہ کیا گیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کی علمی لیاقت کا عربوں نے نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اُن کی تصنیفات کاعربی میں ترجمہ کر کے دنیا کو مستفید ہونے کا موقع بھی فراہم کیا۔
اس مختصر رودادسےیہ واضح ہوتا ہے کہ عرب و ہند کے تعلیمی تعلقات زمانۂ قدیم سے ہیں، لیکن ہندوستان نے جن علوم کے ذریعے اپنی شناخت قائم کی تھی، وہ اب باقی نہیں رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ اہلِ ہند میں خود اعتمادی نہیں رہی۔ جب آزادانہ غور وفکر ختم ہو جاتا ہے تو اس کا انجام علمی پستی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ یہی ہوا ۔ اب بھی ہندوستانی محققین غور کرنے لگیں تو اپنے اسلاف کے وقار کواز سر نو بحال کر سکتے ہیں۔تاریخ جاننے کا مطلب یہ ہوتا ہے ہم اپنی تاریخ کے ذریعے اسلاف کے کارناموں سے بھی واقفیت حاصل کریں۔سید سلیمان ندوی نے عرب و ہند کے تعلیمی تعلقات کا جائزہ لیا ہے، اس کے مطالعے سے بہت ساری باتوں کا علم ہوتا ہے، ان کی تحقیق کوجاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2018