جب ہم تعلیم کی بات کرتے ہیں تو ذہن و قلب میں اس طرح کے الفاظ جنم لیتے ہیں۔آنکھوں کا نور، اندھیرے میں روشنی کی کرن، دل و زبان کی پاکیزگی، یعنی خود کو سنوارنا، خود پر اعتماد ہونا، خود کو پہچاننا نیز اپنا اور دوسروں کا شعور بیدا ر کرنا وغیرہ۔ مطلب صاف ہے کہ تعلیم ہی وہ شئے ہے جس کی مدد سے ہر مشکل کام کو نہایت آسان طریقے سے انجام دیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا تحفہ یا نعمت ہے جس کی رو سے ایک انسان اپنی خواہش اور آرزو کو حقیقی لباس پہنا کردل میں مچلتے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کراسکتا ہے۔یہ تعلیم ہی ہے جو ہر کام کو نبھانے کی قوت بخشتی ہے اور ایک انسان کو اُس حقیقی منزل تک پہنچانے کا کام کرتی ہے جہاں قدرت کی طرف سے اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے۔ ہر سماج ، ملک و قوم کے لیے اس کے تعلیمی نظام کا بہتر ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ ایک بہتر اور مستحکم تعلیمی نظام سے ہی ایک بہتر سماج جنم لیتا ہے۔ اگر ہم یہاں کے تعلیمی نظام کی بات کریں تو اس میں انتہا کی حد تک خامیاں نظر آتی ہیں جو ہم سب کے لیے ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں ہنرمند، باصلاحیت اور اعلیٰ سند یافتہ اراکین کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ بھی شامل ہیںجو اپنے پیشے کے ساتھ قطعی طور پر انصاف نہیں کرپاتے۔ایک پری نرسری کا بچہ جو اپنے آپ سے بھی نا واقف ہوتاہے۔ ایسے میں اگر استاد کا رویہ ذرا سا تلخ ہو تو بچہ اسکول جانے سے گھبرا جاتا ہے اوراس طرح اسے مختلف وسوسوں، خوف اور مجرد ہونے کا احساس اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتا ہے ۔ مشاہدے میں یہ بھی دیکھا جاچکا ہے کہ کئی اسکولوں میں اساتذہ طلباء کے ساتھ غیر ہمدردانہ رویہ اختیار کرتے ہیں جس سے طلاب کے ذہنوں پربُرے اثرات مرتب ہوتے ہیںاور وہ مختلف مسائل کا شکار ہو کر تعلیم کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔یہاں یہ نونہال بچے اپنے استاد کی ہمدردی اور اس کے بہتر رویے کے طلبگار ہوتے ہیں۔ ہمارے کشمیر میں ایسے اسکولوں کی بھی اچھی خاصی تعداد موجودہے جہاں سر چھپانے کے لیے چھت دستیاب نہیں، جہاں ہمارے بچے کھلے آسمان تلے صبح سے شام تک کڑی دھوپ میں پڑھائی کرتے ہیں اور موسم کے تیور بدلنے پر انہیں اولین فرصت میںا سکول سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔؟
آج کل اسکولوں اور کالجوں کا جال بچھایا جارہا ہے جس کی ہر طرف سے سراہنا کی جاتی ہے اور کرنی بھی چاہیے لیکن پڑھنے کے لیے صرف عمارتیں کھڑی کرنا کافی نہیں ہے بلکہ پڑھانے کے لیے سند یافتہ اساتذہ کا ہونا اشد ضروری ہے۔یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا لازمی بن جاتا ہے کہ بچوں کو ایسی کتابیں پڑھائی جائیں جو ان کے ذہن کے ساتھ میل کھائیں۔نیزطلاب کو پڑھنے کے لیے دہائیوں پہلے ترتیب دیئے گئے نصاب کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ بہر حال ان مسائل کی طرف متعلقہ حکام کو اولین فرصت میں توجہ دینی ہوگی۔ اگر ہمیں کل کے روشن مستقبل کی ضمانت چاہیے تو سب سے پہلے ہمیں بچوں کی ذہنیت کو پرکھ کر ایسے اساتذہ کا انتخاب عمل میں لانا چاہیے جو حقیقی معنوں میںباصلاحیت، ہنر مند، اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف برتنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں انفراسٹریکچر کی طرف بھی خاص توجہ دینی ہوگی۔ تب ہی ہم آج کے بچوں سے کل کے روشن مستقبل کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔تخلیق ِآدم کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو علم جیسی پاک شے سے نوازاہے جب سے لے کر آج تک اسی علم کی بدولت انسان نے کئی کار ہائے نمایاں انجام د یئے ہیں، کھبی حقیقتِ عالم کی جستجو کی ، کھبی رازِ ہستی کی تلاش۔ بہر حال علم کی ضرورت انسان کو ہر دَور اور ہر صدی میں محسوس ہوتی رہی ہے اسی لیے شائد ہر زمانے میں ایسے عالم، فلسفی، ادیب اور دانشور پیدا ہوتے رہے جنہوں نے علم کے وسیع سمندر میں غوطہ زن ہو کر علم کے ایسے موتی تلاش کیے کہ جن سے نہ صرف اُن زمانوں کے لوگ مستفید ہوئے بلکہ آج بھی اور آنے والے وقت میں بھی ان سے مستفید ہوتے رہیں گے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تعلیم انسان کے دماغ کی راہیں کھول دیتی ہیں۔ یہ قدرت کا وہ حسین تحفہ ہے جسے اللہ رب العزت اشرف المخلوقات کو عطا کیا ہے۔ انسانوں میں عقل، سمجھ، سوجھ، بوجھ اور تعلیم کی آراستگی نے انہیں زندگی جینے کا سلیقہ عطا کیا ہے۔ دنیا کی ہر قوم اور مذہب و ملت نے علم کی دولت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔انسان کی ترقی علم سے وابستہ ہے۔جو فرد یا گروہ علم سے بے بہرہ ہووہ زندگی کی تگ و دومیں پیچھے رہ جاتا ہے۔ نہ تو اس کی فکری پرواز بلند ہوسکتی ہے اور نہ اس کی مادی ترقی ہی کا بہت زیادہ امکان ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم تعلیم کو فروغ دیں اور کوشش کریں کہ اس بارے میں کسی بھی طرح کی کوئی کوتاہی سرزد نہ ہوپائے۔
ہندوستان کی ترقی کی باتیں چاہے جتنی کی جاتی ہوں لیکن آج بھی صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں کی حالت خاص کر دیہی علاقوں میںانتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔ موجودہ دوریقیناً ایک ایسا دور ہے جو سماج کے ہر فرد کو آگے بڑھنے کی تلقین کرتا ہے۔ ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ آگے بڑھے اور ترقی کے منازل طے کرتا رہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دولت علم سے مالا مال ہو۔ تب ہی وہ سماج کے ذی عزت لوگوں میں گردانا جاسکتا ہے اور وہ سب حاصل کرسکتا ہے جس کی اسے دلی تمنا ہو۔ چنانچہ تعلیم سے متعلق پوچھے جانے پر منتخبہ نمونہ سے پتہ چلا ہے کہ گھر کی کم آمدنی کی وجہ سے اپنی تعلیم کو جاری نہ رکھ سکے اور انہیں مظلوم زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور وہ محکوم بن جاتے ہیں اور بااختیار یا خود مختا نہیں بن پاتے ہیں۔بچوں کو دوستی، شفقت اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تمام جذبات بھی بچوں کے حقوق کا حصہ ہیں۔ John Kleining کے مطابق ـ’’ بچوں کو بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے سے ہی ان کاحق ادا نہیں ہوتا بلکہ دوستی،شفقت اور محبت جیسے جذبات کو بھی بچوں کے حقوق میں شمار کیا جانا چاہیے۔
کشمیرکے ہر دور میں چاہے وہ مغل دَور رہا ہو، افغان َدور رہا ہو، سکھ دَور رہا ہویا پھر ڈوگرہ دَور رہا ہو۔ غرض کہ ہر دَور میں کشمیریوں نے اپنی تہذیب و ثقافت کا دامن نہیں چھوڑا۔ یہ لوگ ہمیشہ اپنی اخلاقی اور تہذیبی و ثقافتی قدروں کے پاسباں رہے ہیں۔مگر نامساعد حالات کی وجہ سے آج یہاں کے لوگ کسمپرسی میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور طرح طرح کے کٹھن اور پیچیدہ مسائل سے جوجھ رہے ہیں۔شورش، ٹکرائو اور تنائو کی وجہ سے یہاں کثیر تعداد میں بچے یتیم ہو چکے ہیں۔باپ کی محرومی کے سبب بچوں پر مرتب ہونے والے اثرات میں جذباتی مضمرات بہت اہم ہیں جو خاص طورپر بچوں کے بہتر مستقبل کو بہت زیادہ متاثر کرتے ہیں نہ صرف نفسیاتی اعتبار سے بلکہ سماجی و ذہنی کارکردگی کے اعتبار سے بھی وہ متاثر ہوجاتے ہیں۔ باپ کا سایہ اٹھ جانے سے اکثر بچوں کی زندگی میں بڑی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اکثر بچے احساس جرم، غصہ، پچھڑے پن اور ایک ایسی اندرونی تکلیف کا شکار ہوجاتے ہیں جوظاہر نہیں ہوتا اور ان سب کی وجہ سے وہ مایوس اور ذہنی الجھن میں مبتلا ہوجاتے ہیں، ایسے بچے تعلیم میں ناکامی اور کمزور سماجی ومعاشی صورتحال سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سماجی مصلحین آگے آکر یہاںکے حساس مسائل کے کامیاب حل کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائیں!
مشمولہ: شمارہ مئی 2018