گزشتہ ماہ تعلیمی اداروں کے اساسی تصورات پر گفتگو کرتے ہوئے اس وضاحت کی کوشش کی گئی تھی کہ تعلیمی ادارے کیسے اسلام کے منفرد تصورِتعلیم کی عملی شہادت پیش کرسکتے ہیں اور اس کے لیے نصاب، نظام اور اداروں کے بنیادی ڈھانچے کی کس قسم کی تشکیل مطلوب ہے۔ اس ماہ ہندوستان کے پس منظر میں اس مسئلے کے عملی پہلوؤں کو ہم زیر بحث لائیں گے اور اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں گے کہ یہاں کے مخصوص حالات میں ان تصورات کو روبہ عمل لانے کی کیا شکلیں ممکن ہیں؟
قانونی و دستوری پس منظر
بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ گزشتہ مضمون میں تعلیم کے عمل کو اسلام کی قدروں سے ہم آہنگ کرنے کی جو بات کہی گئی تھی، ہمارے ملک کا دستور اقلیتوں کو اس کا پورا حق دیتا ہے۔ یہ عمل عین دستور اور قانون کے مطابق ہے۔ دستور ہند کی دفعہ 30 اقلیتوں کو اپنی پسند کے مطابق تعلیمی ادارے قائم کرنے اور آزادانہ اُن کا انتظام کرنے کا حق دیتی ہے۔ اسی دفعہ کی شق 3 میں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ اس طرح کے تہذیبی مقاصد کے لیے قائم اقلیتی ادارے دیگر اداروں کے برابر سرکاری امداد کے مستحق ہوں گے۔
اس دفعہ کی تشریح کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے متعدد فیصلوں میں وضاحت کی ہے کہ اس کا دائرہ اثر صرف تعلیمی اداروں کے انتظامی امور میں آزادی فراہم کرنے تک محدود نہیں ہے۔ اس کا اصل مقصد اقلیتوں کو ایسی تعلیم کا موقع دینا ہے جو ان کی مذہبی و تہذیبی قدروں کی آئینہ دار ہو۔ مثلاً سینٹ زیویر کالج[1] کے مشہور مقدمے میں سپریم کورٹ نے بڑی وضاحت سے یہ بات کہی ہے:
”دفعہ 30(1)کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ اقلیتیں اپنے ادارے قائم کرسکیں، ان میں اپنا نصاب خود تشکیل دے سکیں، اپنی پسند کے مضامین کی تدریس کرسکیں، ان پر امتحانات لے سکیں اور ڈگریاں دے سکیں۔ ان اداروں کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی ڈگریوں کو (سرکاروں سے) تسلیم کرائیں اور سرکاروں سے مالی تعاون حاصل کریں، اگر دیگر اداروں کو جو اس معیار کی تعلیم دے رہے ہوں اس طرح کی مدد دی جاتی ہو ۔“[2]
کیرلا ایجوکیشن بل کیس میں چیف جسٹس ایس آر داس لکھتے ہیں:
” دفعہ یہ نہیں کہتی کہ مذہبی اقلیتیں صرف مذہب کی تعلیم دینے کے لیے ادارے قائم کریں۔ یا لسانی اقلیتیں صرف اپنی زبان کی تعلیم دینے کے لیے ادارے قائم کرنے کا حق رکھتی ہیں۔ دفعہ جو کچھ کہتی ہے اور چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔اس طرح کے اداروں میں پڑھائے جانے والے مضامین پر کوئی تحدید نہیں ہے۔۔۔زیر بحث دفعہ (دفعہ30)کو اور اس کے مضمرات کو سمجھنے میں اصل کلیدی لفظ پسند choice ہے۔ اس لفظ کی وجہ سے اس دفعہ کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہے جتنا کسی کمیونٹی کی پسند کا ہوسکتا ہے“۔ [3]
ٹی ایم اے پائی فاونڈیشن کیس میں سپریم کورٹ نے کہا کہ دفعہ30کا دائرہ اتنا تنگ نہیں ہے کہ اسے صرف اقلیتی تہذیب کے کسی مضمون (مثلاً اسلامیات) یا اقلیتی زبان کی تعلیم تک محدود کردیا جائے۔ اقلیتوں کو عام تعلیم بھی اپنے نقطہ نظر سے فراہم کرنے کا حق حاصل ہے۔[4]
حال ہی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مقدمے میں اس موقف کو دہراتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا ہے:
”(دستور ہند میں) اقلیتی تعلیمی اداروں کو اپنے اداروں کے انتظام کا حق دیا گیا ہے تاکہ انہیں مناسب آزادی حاصل رہے کہ کمیونٹی جن تعلیمی قدروں کو اہمیت دیتی ہے، ان کے مطابق اپنے تعلیمی ادارے کو ڈھال سکے۔“[5]
سپریم کورٹ نے یہ وضاحت بھی کردی کہ یہ حق صرف ‘اسلامیات’ کے مضمون کی تعلیم تک محدود نہیں ہے بلکہ
”دفعہ 30 کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ مذہبی اقلیتوں کو مذہبی تعلیم دینے کا حق ملے۔ دفعہ 30 کے احاطے میں سیکولر تعلیم بھی آتی ہے۔ اقلیتیں یہ چاہیں گی کہ سیکولر تعلیم اور ان کے مذہب کی تعلیم دونوں ساتھ ساتھ دی جاسکے۔ معاملے کا ایک پہلو یہ ہے۔ لیکن دوسرا اتنا ہی اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اقلیتیں یہ چاہیں گی کہ سیکولر تعلیم اس طرح دی جائے جو ان کے مذہب اور اس پر عمل سے ہم آہنگ ہو۔ مذہبی تعلیم کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنائے بغیر بھی وہ یہ چاہ سکتے ہیں (کہ سیکولر مضامین کی تعلیم ان کے مذہب کے مطابق ہو۔)۔“[6]
ان مقدمات کی تشریح کرتے ہوئے ماہرین قانون لکھتے ہیں کہ اقلیتوں کو تعلیم و تدریس کے پورے پروگرام کو اپنے مذہب کے مطابق رخ دینے کا حق حاصل ہے[7]۔ نصاب تعلیم کی تدوین و تشکیل، طریقہ تدریس (pedagogy)وغیرہ کو اپنی قدروں کے مطابق ڈھالنا اور اپنی قدروں کو تعلیم و تدریس کے پورے عمل کا جزو بنانا اس حق میں شامل ہے اور اقلیتوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ریاضی سائنس وغیرہ جیسے مضامین کا اپنی تہذیبی قدروں کے ساتھ امتزاج کرتے ہوئے اپنے عدسے سے(through their own lens)تعلیم دیں۔
ایسا نہیں ہے کہ اس حق کا استعمال کرنے والے، یعنی نصاب تعلیم اور طریقہ تدریس کو اپنی تہذیبی قدروں سے ہم آہنگ کرنے والے ادارے حکومت سے منظوری یا گرانٹ نہیں لے سکتے۔ سپریم کورٹ نے اس مسئلے پر بھی متعدد فیصلوں میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ ایک فیصلے میں چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ اقلیتی اداروں کا حکومت سے تسلیم شدہ ہونا بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر “تعلیمی ادارے اپنا مقصد ہی حاصل نہیں کرسکتے اور دفعہ 30 میں جو حق دیا گیا ہے اس حق کا موثر استعمال ہی نہیں ہوسکتا۔[8]کورٹ نے متعدد فیصلوں کے ذریعے یہ وضاحت کردی ہے کہ منظوری دینے یا گرانٹ دینے کے لیے حکومت، یونیورسٹی یا بورڈ اقلیتی اداروں کو کن شرطوں کا پابند بناسکتی ہے اور کن کا نہیں بناسکتی۔ کہا گیا کہ حکومت کی منظوری کے لیے حکومت کے منظور شدہ نصاب اور معیار تعلیم کی پابندی ضروری ہوگی لیکن اس نصاب میں اپنی تہذیبی ضرورتوں کی خاطر اضافے کا اور اس نصاب کو اپنے تہذیبی زاویے سے پڑھانے کا حق ادارے کو حاصل رہے گا۔ اساتذہ کی کم سے کم تعلیمی لیاقت وغیرہ طے کرنے کا حق حکومت یا بورڈ کو رہے گا لیکن اس قابلیت کے اساتذہ کے تقرر کا اختیار ادارے کو ہوگا۔ گویا مسلمہ اور منظور شدہ نصاب کو اپنے رخ اور اپنی قدروں کے مطابق پڑھانے کا تدریسی موقع (pedagogical space) اقلیتوں کو حاصل ہے۔ عدالتیں کہتی ہیں کہ حکومت سے تسلیم اور سرکاری یونیورسٹیوں اور بورڈوں سے ملحق اداروں پر حکومت ضروری پابندیاں لگانے کا حق رکھتی ہے لیکن اقلیتی اداروں کے معاملے میں یہ حق محدود ہے اور دفعہ 30 کا پابند ہے۔ ایسے قوانین اور ضوابط نہیں بنائے جاسکتے جن سے دفعہ 30 میں دیا گیا حق مجروح ہوتا ہو۔[9]کورٹ نے بڑی وضاحت سے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ:
”(حکومت، یونیورسٹی یا بورڈ کا) ہر وہ قانون جو کسی اقلیتی ادارے کو تسلیم کرنے کے لیے ایسی کوئی شرط عائد کرتا ہے جس سے اپنی پسند کے تعلیمی ادارے کے قیام و انتظام کا حق متاثر ہوتا ہو، اسےدفعہ 30 کی خلاف ورزی مانا جائے گا (اور اس لیے وہ ضابطہ ناقابل اعتبار ہوگا)۔“ [10]
ان سارے مباحث کے پیش نظر ہمارا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کو دستوری طور پریہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اداروں میں اسلامی طرز تعلیم کی اُن تینوں سطحوں پر عمل کرسکیں جن کی طرف گزشتہ مضمون[11] میں ہم نے اشارے کیے تھے۔
ہندوستان میں عملی مشکلات اور مواقع
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سب قانونی و دستوری حقوق کے باوجود موجودہ سیاسی ماحول میں ان پر عمل آوری کی راہ میں بڑی رکاوٹیں درپیش ہیں۔ عدالتوں کے رجحانات بھی بدل رہے ہیں اور کب کونسی نئی تعبیر آجائے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن بہرحال یہ امید رکھنی چاہیے کہ یہ مشکلات عارضی ہیں۔ جب تک قانونی و دستوری حق موجود ہے اس کے استعمال کے مواقع بھی موجود ہیں۔ کچھ علاقوں میں دشواریاں زیادہ ہوسکتی ہیں لیکن کچھ علاقوں میں بھرپور مواقع بھی دستیاب رہ سکتے ہیں۔ جو دشواریاں ہیں ان کو حل کرنے کی بھی کوشش ہوسکتی ہے۔ احوال و کوائف اور قوت و استعداد کے اعتبار سے عمل آوری کے درجے میں فرق ہوسکتا ہے لیکن ہمارے خیال میں اسلامی قدروں کے امتزاج کی کچھ نہ کچھ کوشش ہر جگہ ممکن ہے۔ اس کی مختلف عملی شکلیں ذیل کے مطابق ہوسکتی ہیں۔
1۔ جہاں سارے طلبہ مسلمان ہیں وہاں تیسری سطح کے اُس امتزاج کی کوشش ہوسکتی ہے جسے ہم نے گزشتہ مضمون میں ماورائے تخصص امتزاج (Transdisciplinary Integrated Approach)کہا تھا۔[12] یعنی تمام حقائق کو توحید کے نقطہ نگاہ سے دیکھنے اور دکھانے کی کوشش، حقائق کو بامقصد سمجھنا اور ہر حقیقت کا مطالعہ اللہ کی آیات اور اس کی سنت کو سمجھنے کے جذبے سے اور عمارة الارض اور خلافت ارضی کے فریضے کوانجام دینے کے مقصد سے کرنا اور کردار سازی کو نظام تعلیم کا بنیادی جزو بنانا۔ یہ ایک مشکل کام ہے اور پورے نصاب پر از سر نو محنت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کے لیے ہمارے اپنے منصوبہ ہائے سبق(lesson plans)، ٹیچر مینول، اساتذہ کی ضروری تربیت اور ان کی مستقل کونسلنگ وغیرہ کا نظام درکارہوگا۔ لیکن اس راستے میں بھی قانونی و دستوری لحاظ سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ رکاوٹ ہے تو وژن کے درست نہ ہونے، تحقیق و ریسرچ کے ناکافی ہونے، مناسب علمی و پیشہ ورانہ تعاون کی عدم فراہمی اور ٹریننگ کے ناقص انتظامات کی وجہ سے ہے۔ ان مسائل پر قابو پالیا جائے تو جو تجربات انڈونیشیا وغیرہ میں ہورہے ہیں وہ ہمارے ملک میں بھی ہوسکتے ہیں۔ (ان مسائل پر قابو پانے کے سلسلے میں تجاویز آگے پیش کی جارہی ہیں)
2۔ جن اداروں میں طلبہ کی ایک قابل لحاظ تعداد غیر مسلم طلبہ کی ہے اُن کے سلسلے میں دستور کی دفعہ 28(3)کے مطابق یہ پابندی ہے کہ طلبہ کو ان کی مرضی کے خلاف کسی مذہبی تعلیم کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی جگہوں پر جو طلبہ (یا ان کے سرپرست) چاہیں ان کے لیے پہلی سطح کے امتزاج یعنی منقسم امتزاج (Fragmented Integration)کی کوشش کی جاسکتی ہے۔[13] یعنی ایسے طلبہ کی اضافی کلاسیں لی جائیں۔ اس طرح کے امتزاج کے جو نقائص بیان کیے گئے تھے اُن کی کسی حد تک تلافی درج ذیل تدبیروں سے ہوسکتی ہے۔
الف) اضافی کلاسوں میں صرف ‘دینیات’پڑھانے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ دیگر مضامین کے درست اسلامی نقطہ نظر کو بھی واضح کیا جائے۔ یعنی سائنس کی عام تعلیم تو مشترک کلاس میں ہو لیکن پڑھائے گئے اسباق کے اسلامی پہلو واضح کرنے کی کوشش، اضافی کلاس میں ہو۔
ب) اصل کلاسوں میں بھی اسلام کے تذکرے کے بغیر اُن مشترک عقیدوں اور قدروں کے حوالے سے تعلیم دی جائے جن پر تمام مذاہب کا اتفاق ہے۔ مثلا مظاہر کائنات کا ذکر کرتے ہوئے مشترک کلاس میں بھی یہ لائن اختیار کی جاسکتی ہے کہ یہ ہم سب کے پیدا کرنے والے کی حکمت اور اس کی قدرت کی نشانی ہے۔ وغیرہ۔
ج) اخلاقی قدروں کو تدریس کا اہم حصہ ضرور بنایا جائے۔ مشترک کلاسوں میں وہ مشترک اخلاقی قدریں نظام تعلیم کا حصہ بنائی جاسکتی ہیں جن پر وسیع تر اتفاق رائے موجود ہے۔ سچائی، ایمان داری، ماں باپ کی خدمت، انسان دوستی، ماحولیاتی تحفظ وغیرہ جیسی قدروں پر تو ایک طرح کا آفاقی اتفاق پایا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ عفت و حیا، جنسی پاکبازی وغیرہ جیسی قدروں کے سلسلے میں بھی ہمارے ملک کے تمام مذہبی گروہوں میں ہم آہنگی موجود ہے۔ ایسی قدروں کو آسانی سے تعلیمی عمل میں سمویا جاسکتا ہے اور اسلام کی مخصوص قدروں کے لیے اضافی کلاسوں سے مدد لی جاسکتی ہے۔
3۔ جو مسلمان طلبہ مسلمانوں کے اقلیتی اسکولوں میں نہیں بلکہ دیگر عام اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ان پر بھی خاص توجہ ضروری ہے۔ ان کے لیے مکاتب وغیرہ کے ذریعے اور آن لائن نظام کے ذریعے، تعلیم کو اسلامی رخ دینے اور کردار سازی کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ یعنی نکتہ 2 میں اضافی کلاسوں کا جو تصور دیا گیا ہے اس کے مطابق سرکاری اور غیر سرکاری سیکولر اسکولوں کے طلبہ کے لیے بھی ایسی کلاسیں لی جاسکتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے ادارہ سازی بھی ہماری ایک اہم تعلیمی ضرورت ہے۔ (نیچے’اختراعی محاذ ‘ کی ذیلی سرخی کے تحت جو مثالیں دی گئی ہیں ان سے مدد لی جاسکتی ہے) ابھی تک اس طرح کے اسکولوں کے بچوں کی زیادہ سے زیادہ ضرورت یہ محسوس کی جاتی ہے کہ مکاتب میں انہیں قرآن پڑھنے اور نماز کے طریقے کی تعلیم دے دی جائے۔ ان کی مجموعی تعلیم کو بھی درست رخ فراہم کرنے کی ضرورت کا شعور ابھی عام نہیں ہے اور اس سلسلے کی کوششوں کا بھی فقدان ہے۔ کچھ جگہوں پر ایسی کوششیں شروع ہوجائیں تو دھیرے دھیرے اس کی طرف رجحان بھی بڑھے گا اور تجربات سے اس کے زیادہ بہتر طریقے بھی ظہور پذیر ہوں گے۔
کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
سب سے پہلے تعلیمی بیداری و ترقی کی ملی کوششوں کے رخ کو درست کرنا ضروری ہے۔ مسلمان بچوں کو صرف تعلیمی اداروں تک پہنچادینا اور ڈگریاں حاصل کرنے کے لائق بنادینا کافی نہیں ہے۔ ان کی تعلیم کے رخ کو درست کرنا بھی ایک اہم ملی فریضہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس فریضے کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ اس عہد کی تہذیبی یلغار پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ شدید بھی ہے اور ہمہ گیر بھی۔ مادہ پرستانہ تعلیم کو تفریحات(entertainment)، طرز حیات (lifestyle)اور مشاغل کی بااثر کمک حاصل ہوچکی ہے۔ ٹکنالوجی کی غیر معمولی طاقت اسے میسر ہے۔ ٹکنالوجی نے تہذیبی سرحدوں کو منہدم کردیا ہے۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ ملحدانہ افکار و رجحانات اور اباحیت پسند طرز حیات اب ایک طبقاتی مسئلہ نہیں رہا۔ یہ ہر گھر اور ہر بچے کا چیلنج بن چکا ہے۔ اس پر مستزاد اب ہمارے ملک میں مشرکانہ تہذیبی یلغار ہے۔ اس نئی یلغار کا اصل محاذ بھی نظام تعلیم ہی ہے۔ اس پس منظر میں رسمی دینی تعلیم کافی نہیں ہے۔ تعلیم کے پورے عمل پر اثر انداز ہونے کی ہر ممکن کوشش ناگزیر ہوچکی ہے۔
اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ ساتھ موجود اداروں کی کارکردگی کو بہتر کرنے اور ان کے رخ کو درست کرنے کے لیے ادارہ جاتی کوششیں کی جائیں۔ یعنی ایسے ادارے قائم ہوں جو موجود اداروں کی مدد و رہنمائی کرسکیں۔ اسی طرح اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ عام سیکولر اداروں میں زیر تعلیم بچوں کو راست مخاطب کرنے والے خصوصی ادارے قائم کیے جائیں۔ ایسے ادارے جو ان کی تعلیم کے متوازی انتظامات کریں اور ان کی ذہن سازی اور رجحان سازی کے لیے خصوصی اختراعی منصوبے نافذ کریں۔ اس سلسلے میں کچھ اہم توجہ طلب امور ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں:
1۔ ہندوستان میں اور بالخصوص ملت اسلامیہ ہند کے درمیان، اس بات کی ضرورت ہے کہ ذہین و فطین افراد نظام تعلیم اور تعلیمی خدمات سے وابستہ ہوں۔ یہ ہندوستان کا عام مسئلہ ہے کہ یہاں ذہین طلبہ عام طور پر تعلیم و تدریس کے شعبے کو اپنا ترجیحی کیریر نہیں بناتے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق تعلیم وتدریس کا شعبہ ہمارے ملک میں طلبہ کا پسندیدہ کیریر (career choice)نہیں بلکہ آخری متبادل (fall-back option)ہے۔[14] یعنی جو طلبہ انجینیرنگ، میڈیسین، سول سروس وغیرہ میں نہیں جاپاتے وہ تدریسی کیریر منتخب کرتے ہیں۔ نیوپا کے سروے کے مطابق سرکاری اسکولوں میں بھی خدمات انجام دینے والے اکثر اساتذہ (جنہیں اب کافی اچھی تنخواہیں اور سہولتیں بھی میسر ہیں) اعلیٰ اسکور کرنے والے طلبہ میں سے نہیں آتے۔[15] یورپ، سنگاپور، کوریا وغیرہ جیسے ملکوں میں اساتذہ بلکہ پرائمری اساتذہ بھی ذہین ترین اور کام یاب ترین طلبہ میں سے آتے ہیں۔[16] اس صورت حال کا تعلق سماجی رویے، اسٹیٹس، مالی فوائد وغیرہ کے ساتھ سرکاری پالیسی سے بھی ہے۔ یورپ، سنگاپور وغیرہ میں سرکاروں کی پالیسیوں نے ہی اس رجحان کو تبدیل کیا ہے اور تعلیم وتدریس کے لیے سماج کے بہترین اور ذہین ترین افراد کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے۔[17] حکومتوں کو اس طرح کی پالیسیوں کی طرف متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ ملت میں یہ رجحان پیدا کیا جائے کہ اونچی صلاحیتیں رکھنے والے لوگ تعلیم و تدریس کے میدان میں آگے آئیں۔ اوپر جن تصوراتِ تعلیم کو زیر بحث لایا گیا ہے، ان کا موثر نفاذ غیر معمولی ذہنی صلاحیت اور اختراع و ایجاد کی قوت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس طرح کی صلاحیتوں کے حامل افراد تعلیم و تدریس کے شعبوں سے وابستگی اختیار کریں۔
کچھ عرصہ پہلے تک، باصلاحیت اور ذہین لڑکیوں اور خواتین کا پہلا انتخاب شعبہ تدریس ہی ہوتا تھا۔ اور وہ کم یافت کی پروا کیے بغیر اسی پیشے کو ترجیح دیا کرتی تھیں۔ لیکن عام مشاہدہ ہے (اس مسئلے پر ٹھوس مطالعات موجود نہیں ہیں) کہ اب یہ رجحان بھی بدل رہا ہے۔ خواتین بھی اب مختلف دیگر پیشوں میں جارہی ہیں، جس کے اپنے فائدے ہیں لیکن بڑا نقصان یہ محسوس ہوتا ہے کہ تعلیم و تدریس کا شعبہ باصلاحیت افراد کی کمی کا شکار ہورہا ہے۔
ہمارے ملک میں حالیہ دنوں میں یہ مثبت رجحان پیدا ہوا ہے کہ آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم کے فارغین اور دیگر باصلاحیت افراد تعلیم کے محاذ پر مختلف اختراعی منصوبے نافذ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ (جس کی طرف کچھ اشارے اس مضمون کے آخر میں بھی کیے گئے ہیں) ملت میں یہ رجحان بھی ابھی کم زور ہے۔ اسے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
۲۔ دوسرا اہم کام تعلیم کے شعبے میں تحقیق اور ریسرچ کا کام ہے۔ اسلامی رخ پر تعلیم و تدریس کا کام خود ایک چیلنجنگ کام ہے۔ یہ بہاؤ کی مخالف سمت تیرنے کا عمل ہے اور ایسے عمل کے لیے جہاں جرأت و ہمت اور صبر و ثبات درکار ہوتا ہے وہیں اختراع و ایجاد اور تحقیق و تفتیش کی مسلسل کمک بھی ناگزیر ہوتی ہے۔ پھر ہندوستان جیسے معاشرے میں طرح طرح کے چیلنجوں کے درمیان اس عمل کو انجام دینا اور زیادہ گہری بصیرت اور راہیں نکالنے کی صلاحیت چاہتا ہے۔
ملت اسلامیہ ہند میں تحقیق و ریسرچ کا کلچر بہت کم زور ہے۔ اس موضوع کو ہم تفصیل سے اس سے قبل زیر گفتگو لاچکے ہیں۔[18] تعلیمی محاذ پر بھی، اسکولوں اور اداروں کے قیام کی دوڑ تو ہے لیکن تحقیق و ریسرچ اور آئیڈیاز کو تشکیل دینے کی سمت توجہ بہت کم ہے۔ دوسرے معاشروں میں یہ عام رجحان ہے کہ ہر شعبے میں نمایاں ترین خدمات انجام دینے والے باصلاحیت لوگ ریٹائرڈ ہونے کے بعد تحقیق و ریسرچ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور اپنی زندگی بھر کے تجربات کی اساس پر نئے افکار اور نئی راہوں کی تلاش میں نئی نسلوں کے مدد گار بن جاتے ہیں۔ ملت اسلامیہ ہند میں ریٹائرڈ ٹیچروں اور پروفیسروں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ان کے اندر بھی اپنی صلاحیتوں کے اس طرح استعمال کا کوئی داعیہ نہیں ہے اور نہ ان سے اس طرح کے کام لینے کے ادارہ جاتی نظام موجود ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہماری تعلیمی تحریکیں اس کام کی اہمیت کو محسوس کریں۔
۳۔ تیسرا اہم کام اساتذہ کی تربیت کا کام ہے۔ اگر اساتذہ کی ایک بڑی تعداد کی ذہن سازی ہوجائے اور وہ اسلامی رخ پر تعلیم و تدریس کے لائق ہوجائیں تو خود بخود تعلیم کا عمل ایک مثبت رخ اختیار کرلے گا۔ جماعت اسلامی ہند اور اس سے منسلک متعدد تنظیمیں اور ادارے بالخصوص مرکزی تعلیمی بورڈ[19] برسوں سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور اپنی بساط بھر کوشش کررہے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ کام بڑے پیمانے پر ہو۔ متعدد ملی تنظیمیں اور ادارے اس کام کی طرف متوجہ ہوں۔ زیادہ موثر اور سائنٹفک طریقوں سے تربیت اساتذہ کا اہتمام ہو اور اس کام کو مسلسل اس طرح انجام دیا جاتا رہے کہ سماج میں ٹھوس تبدیلی اس سے ممکن ہوسکے۔ آن لائن تربیت کے مواقع کی وجہ سے اب یہ کام کافی آسان ہوگیا ہے اور دنیا کے بہترین افراد اور وسائل سے استفادہ آسان ہوگیا ہے۔ چند ادارے بھی اس مقصد کے لیے یکسو ہوجائیں تو بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
۴۔ چوتھا کام تعلیمی عمل میں تعاون فراہم کرنے والے اداروں کا قیام و ارتقا ہے۔ آج تعلیم و تدریس کا جو ماحولیاتی نظام (ecosystem)ساری دنیا میں تشکیل پارہا ہے اس میں راست تعلیمی ادارے اس ماحولیاتی نظام کا محض ایک جزو ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں کے علاوہ تعلیمی عمل میں معاونت فراہم کرنے والے متعدد اداروں سے مل کر ایک موثر تعلیمی ماحول تشکیل پاتا ہے۔ ان میں تعلیمی تحقیق و ریسرچ کے ادارے، پالیسی ایڈوکیسی کے ادارے، اساتذہ کی ٹریننگ، اسکولوں کی آڈٹ اور ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کنسلٹنسی، نفسیاتی کونسلنگ، اسپورٹس سے متعلق خدمات فراہم کرنے والے، اساتذہ کو تدریسی مواد، تدریسی تعاون اور تدریسی رہنمائی فراہم کرنے والے، اخلاقی تعلیم فراہم کرنے والے، ہم نصابی سرگرمیوں کو انجام دینے والے، وغیرہ دسیوں قسم کے ادارے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں جو بہت سی محدودیتیں (limitations)اور پابندیاں (restrictions) پائی جاتی ہیں،ان سے آزاد رہ کر اس طرح کے ادارے زیادہ بڑے پیمانے پر اور زیادہ موثر طریقے سے اسلامی طرز تعلیم کو فروغ دینے کا کام کرسکتے ہیں۔ ایسے اداروں کا چلن بھی ابھی تک ہمارے معاشرے میں زیادہ عام نہیں ہوسکا ہے۔ ایسے کچھ اداروں کی عملی مثالیں ہم ذیل میں زیر بحث لارہے ہیں۔
تعلیمی سرگرمیوں کے اختراعی محاذ
موجودہ دور کا رجحان یہ ہے کہ غیر سرکاری سماجی تنظیموں اور اداروں کی تعلیمی سرگرمیاں، سرکاروں کے تعلیمی اداروں کے متبادل کے طور پر نہیں بلکہ ان کے معاون اور شراکت دار کے طور پر زیادہ کام یاب ہیں۔ وسیع آبادی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے سرکاروں کے پاس جو وسائل اور سہولیات (infrastructure) ہوتی ہیں، ان کا متبادل فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ ان سہولیات سے سماج کو بھرپور فائدہ ہو اور سرکاری اداروں کی کم زوریوں کا تدارک ہو، یہ فلاحی اداروں کا اصل ہدف ہونا چاہیے۔ ہمارے فلاحی اداروں کا ایک اہم ہدف یہ بھی ہونا چاہیے کہ سرکاری اداروں کی تعلیم میں فکری، اخلاقی اور تہذیبی نقطہ نظر سے جو نقائص رہ جاتے ہیں، متوازی اور معاون کوششوں سے ان کا ازالہ ہوسکے۔ یہ اپروچ ہو تو کم سے کم وسائل کے ساتھ سماج کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ اوپر اسلامی طرز تعلیم کی جو مختلف شکلیں تجویز کی گئی ہیں ان کا بھی اس طریقے سے ممکنہ اہتمام ہوسکتا ہے۔ ذیل میں اس قسم کے کچھ کام یاب تجربات کو پیش کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ ان اداروں کے افکار ونظریات اور ان کی کوششوں کا فکری و تہذیبی رخ اس وقت زیر بحث نہیں ہے۔ ان میں سے اکثر ادارے لبرل مغربی قدروں کے علم بردار ہیں۔ بعض اُن اداروں کی بھی مثالیں پیش کی جارہی ہیں جن کا تعلق ہمارے ملک کے دائیں بازو کے عناصر سے ہے۔ ان کے کام کے انوکھے اور اختراعی طریقے اصلاً ہمارے لیے لائق توجہ ہیں۔ ان طریقوں کو یہاں اس غرض کے لیے پیش کیا جارہا ہے کہ اس طرح کی اختراعات اسلامی طرز تعلیم کے لیے بھی کی جاسکیں۔
۱۔تعلیم برائے تلافی(remedial education): اس کا مطلب یہ ہے کہ اسکولوں میں دی جانے والی تعلیم میں جو کمی رہ جاتی ہے اس کی ممکنہ تلافی کی جائے۔ اس کے لیے خصوصی کلاسوں کا اہتمام ہو۔ یہ رجحان بہت سی جگہوں پر اب مسلمانوں میں بھی شروع ہوچکا ہے۔ ٹیوشن کلاسوں اور مسابقتی امتحان کی تیاری کے لیے خصوصی اداروں کے قیام کی کوششیں کئی جگہ ہورہی ہیں اور اچھے نتائج بھی پیدا کررہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک گیر سطح کا کوئی ادارہ ملک کی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرکے منظم طریقے سے ایسی کوششوں کو آگے بڑھائے۔ شاہین گروپ کا اے آئی سی یو پروجیکٹ [20]اصلاً ان کے اپنے اداروں کا پروجیکٹ ہے۔ اداروں میں باضابطہ طور پر شریک طلبہ ہی ان سے مستفید ہوتے ہیں لیکن اس طرح کے پروجیکٹ، الگ سے، تمام طلبہ کے لیے بھی شروع کیے جاسکتے ہیں۔ غریب اور پس ماندہ بستیوں میں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔
اس طرح کی کوشش کی ایک نمایاں مثال پرتھم ایجوکیشن فاونڈیشن (Pratham)ہے۔ [21] فاونڈیشن کی دیگر سرگرمیوں کے ساتھ خاص طور پر ان کا ‘ہمارا گاؤں’[22] پروجیکٹ قابل ذکر ہے۔ والنٹیروں کی مدد سے وہ پسماندہ بستیوں میں بچوں کے لیے کلاسوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسکول نہ جانے والے بچوں کو ان کی عمر کے مطابق مناسب کلاس میں داخلے کے لائق بناتے ہیں اور اسکول جانے والے طلبہ کو وہ باتیں سکھاتے ہیں جو وہ اسکولوں میں (ناقص معیار تعلیم کی وجہ سے) نہیں سیکھ پاتے۔ ٹیچنگ ایٹ رائٹ لیول (TaRL)کے نام سے پرتھم نے ایک طریقہ ڈیولپ کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ بچوں کی حقیقی استعداد کو پیش نظر رکھ کر آموزشی خلا (learning gaps)ختم کرنے کا انتظام کیا جائے۔ پرتھم کا کام ملک کی 28 ریاستوں میں پھیلا ہوا ہے اور ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ بچے ہمارا گاؤںسے مستفید ہوچکے ہیں۔[23] ایک اور نمایاں کوشش ایجوکیٹ گرلز (educate girls)ہے۔[24]ممبئی کی خاتون سفینہ حسین کی قائم کردہ اس این جی او کو اس سال رامن میگسیسے ایوارڈ (Ramon Magsaysay Award) دیا گیا۔ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی ان کی پہلی ہندوستانی این جی او ہے۔[25] اس ادارے کا اصل کام اسکول چھوڑ دینے والی بچیوں کو والنٹیروں(بالیکا والنٹیر) کی مدد سے دوبار اسکول میں لانا ہے۔ اب تک بیس لاکھ بچیوں کو اسکولوں سے جوڑنے میں انہیں کام یابی ملی ہے۔ ان بچیوں کو اسکولوں میں داخلہ کرانے سے پہلے، ان کی عمر کی مناسبت سے ان میں تعلیمی استعداد پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے لیے خصوصی کلاسیں لگائی جاتی ہیں۔ ان کلاسوں میں اسکول جانے والی کمزور بچیاں بھی شریک رہتی ہیں۔ اس طرح اب تک پچیس لاکھ بچیوں کی تعلیمی استعداد بڑھانے کا کام انہوں نےانجام دیا ہے۔ [26]
ہمارے فلاحی ادارے بھی اس طرح کے کام بہت بڑے پیمانے پر کرسکتے ہیں اور ان مراکز میں اسلامی طرز تعلیم کے تجربات بھی کیے جاسکتے ہیں۔
۲۔ اساتذہ کی تربیت اور تعاون: ایک اہم کام یہ ہے کہ اسکولوں میں برسر کار اساتذہ کی مناسب ٹریننگ کا نظم کیا جائے اور ان کو وہ راستہ دکھایا جائے اور وہ وسائل فراہم کیے جائیں جن کے ذریعے وہ معیاری تعلیم درست رخ پر دے سکیں۔ متعدد ادارے اسباق کے منصوبے lesson plans اور اساتذہ کے لیے درکار تدریسی مواد فراہم کرتے ہیں۔ برٹش کونسل نے انگریزی زبان کی تعلیم کے لیے بہت شاندار اور ہر قسم کا مواد دستیاب کررکھا ہے۔[27] ٹیچر ڈاٹ آرگ[28] کےلیسن پلان بھی اساتذہ میں کافی مقبول ہیں۔ بعض اداروں نے یہ کوشش کی ہے کہ اساتذہ ہی سے لیسن پلان تیار کرائے جائیں اور اچھی کوالٹی کے پلان دوسرے اساتذہ کے لیے دستیاب کرائے جائیں۔ شیرمائی لیسن اور ٹیچر کری ایٹیڈ[29]جیسی ویب سائٹیں اس اپروچ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ہمارے ملک میں اس طرح کی نمایاں ویب سائٹ‘ٹوینکل’ہے۔ [30] یہ ادارے صرف اساتذہ کو مواد فراہم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ملک کے بہترین اسکولوں کے اساتذہ اس مواد کو بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح بہت آسانی سے یہ ادارے تعلیمی عمل پر گہرے اثرات مرتب کررہے ہیں۔ فکری و تہذیبی رخ کو درست کرنے کے لیے یہ طریقہ بہت مفید ہے۔
سہارا لائن ایک بہت سادہ پروجیکٹ ہے جسے چند ریسرچ طلبہ نے شروع کیا ہے۔ وہاٹس اپ گروپ ہوتا ہے جس سے اساتذہ جڑ جاتے ہیں۔ کسی کو بھی تعلیم و تدریس سے متعلق، ٹکنالوجی یا وسائل کے استعمال سے متعلق حتی کہ اپنی ذاتی الجھنوں سے متعلق کچھ بھی پوچھنا ہو یا مدد حاصل کرنا ہو تو وہ اپنا مسئلہ پوسٹ کرتے ہیں اور کوآرڈنیٹر اس کو متعلق ماہر (expert)سے جوڑدیتا ہے جو اسے مطلوب رہنمائی یا وسائل فراہم کردیتا ہے۔[31]
اساتذہ کے تعاون کی ادارہ جاتی کوشش کا ایک اچھا نمونہ عظیم پریم جی فاؤنڈیشن کے ٹیچر لرننگ سینٹر (teacher learning centres)ہیں۔ [32] فاؤنڈیشن کی جانب سے آٹھ ریاستوں کے ساٹھ اضلاع میں پونے تین سو سینٹر کام کررہے ہیں۔ ان سینٹروں میں مسلسل سرگرمیاں چلتی رہتی ہیں۔ سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ جمع ہوتے ہیں۔ ان کے ورکشاپ ہوتے ہیں۔ اچھے تجربات کی نمائش اور آپس میں تبادلے اور گفتگو کے پلیٹ فارم فراہم کیے جاتے ہیں۔ اچھی لائبریری اور کمپیوٹر دستیاب ہوتے ہیں۔ تعلیم و تدریس سے متعلق دنیا بھر کی بہترین کتابیں، جرنل، آن لائن وسائل وغیرہ دستیاب رہتے ہیں۔
۳۔ تعلیم و تدریس کے کاموں کے لیے باصلاحیت قیادت اور افراد کی فراہمی: بعض تحریکیں اس مقصد کے لیے شروع کی گئی ہیں کہ تعلیمی نظام میں خاص طور پر دیہی اور پسماندہ علاقوں میں باصلاحیت افراد کی خدمات حاصل کی جائیں۔ ان میں سب سے اہم ٹیچ فار انڈیا[33] (Teach For India)کی تحریک ہےجو سولہ سال پہلے ممبئی کی ایک خاتون شاہین مستری نے شروع کی تھی۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ غریب اور پسماندہ علاقوں کے بچوں کو بھی ویسے ہی معیاری ٹیچروں سے معیاری تعلیم کا حق حاصل ہے جو دولت مند بچے مہنگے پرائیوٹ اسکولوں میں حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ طریقہ ایجاد کیا کہ باصلاحیت نوجوانوں کو رضاکارانہ طور پر تعلیم و تدریس کے کام کے لیے وقت فارغ کرانے کی مہم شروع کی۔ اس ادارے کے تحت باصلاحیت نوجوانوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ دو سال پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے لیے فارغ کریں۔ بعض لوگ تعلیم سے فراغت کے فوری بعد اور بعض اپنے کیریر میں دو سالوں کا بریک لے کر اپلائی کرتے ہیں۔ ذہین ترین اور لائق ترین نوجوانوں کا انتخاب کیا جاتا ہے اور انہیں ضروری ٹریننگ دے کر پسماندہ بستیوں کے اسکولوں میں مقرر کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ لوگ دو سال تک بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ یہ لوگ اسکولوں سے کچھ نہیں لیتے، البتہ انہیں ضروری فیلوشپ کی فراہمی اور ان کےاخراجات کی تکمیل کا کام ٹیچ فار انڈیا کرتی ہے۔ ٹیچ فار انڈیا کے تحت آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم کے گریجویٹ، آکسفورڈ و ہارورڈ جیسے اداروں سے پڑھ کر آنے والے لوگ، بڑی کمپنیوں میں اونچے عہدوں پر کام کرنے والے پروفیشنل وغیرہ ہر قسم کے باصلاحیت لوگ جھگی جھونپڑیوں کے پسماندہ اسکولوں میں غریب بچوں کو انگریزی، ریاضی، سائنس وغیرہ کی تعلیم دیتے ہیں۔
مطالعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کوشش کے نتیجےمیں متعدد اسکولوں کی کایا پلٹ ہوگئی۔ شہری علاقوں کے ذہین، باصلاحیت نوجوانوں نے جب رضاکارانہ جذبے کے ساتھ تعلیم دینی شروع کی تو ان اسکولوں کے بچوں کا معیار تیزی سے بڑھنے لگا۔ بچوں میں ہی نہیں بلکہ اسکولوں میں پہلے سے برسرکار اساتذہ اور اسکول کے مجموعی ماحول میں بھی تیز رفتار خوش گوار تبدیلی نمودار ہوئی۔ بعد میں ان میں سے بہت سے نوجوانوں نے تعلیم کے میدان میں ہی خدمت کو اپنا کیریر بنالیا اور طرح طرح کے این جی او شروع کیے۔ انڈوس ایکشن[34] (Indus Action)، لیڈ اسکول[35](Lead School)، لرننگ کرو فاونڈیشن [36](Learning Curve Foundation)وغیرہ جیسے متعدد ادارے ٹیچ فار انڈیا کے سابق فیلوز ہی کے شروع کردہ ہیں۔ اب تک پندرہ ہزار سے زیادہ ایسے باصلاحیت ٹیچروں کی خدمات حاصل کرنے میں ادارے نے کام یابی حاصل کی ہے۔ [37]
۳۔ ایجوکیشنل ٹکنالوجی: تعلیم میں ٹکنالوجی کا استعمال اب عام ہوگیا ہے۔ یہ اساتذہ کی بھی ضرورت ہے اور طلبہ کی بھی بڑی ضرورت بن گئی ہے۔ بہت سے ادارے طرح طرح کی ٹکنالوجیوں کے ذریعے خدمات فراہم کررہے ہیں۔ اسلامی فلاحی ادارے بھی اس خدمت کو اپنے کام کا ایک اہم میدان بناسکتے ہیں۔ ٹکنالوجی کے ذریعے طلبہ کو سہولت فراہم کرکے انہیں اقدار پر مبنی تعلیم راست فراہم کی جاسکتی ہے اور اساتذہ کو ایسے منصوبہ ہائے سبق(lesson plans)، مینول(manuals)، اسمارٹ بورڈوں کے لیے ڈجیٹل مواد وغیرہ فراہم کیا جاسکتا ہے جو وہ کلاس روم میں استعمال کرسکیں اور اس تعلیمی مواد کو قدروں سے گہرائی کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے۔ مشہور زمانہ خان اکیڈمی پراس سے قبل ہم تبصرہ کرچکے ہیں۔ [38] ہمارے ملک میں، ای آئی مائنڈ اسپارک (Ei Mindspark) دلی کی ایک کمپنی ہے جس نے مصنوعی ذہانت پر مبنی مکمل خود کار تعلیمی سافٹ ویر لانچ کیا ہے۔[39]سافٹ ویر اسکول کے طالب علم کی صلاحیت، آموزشی خلا(learning gaps)اس کے مزاج، رجحان، انداز آموزش (learning style)وغیرہ کا تجزیہ کرکے ہر طالب علم کے لیے شخصی (personalized)آموزشی پروگرام تشکیل دیتا ہے اور اسباق، سرگرمیوں، گیم، وغیرہ کے ذریعے تدریس کا انتظام کرتا ہے۔ اسلامی ادارے اس طرح کے منصوبے بھی بڑے پیمانے پر رائج کرسکتے ہیں۔
۴۔اخلاقی تعلیم: یہ ہمارے لیے دلچسپی کا سب سے اہم محاذ ہے۔ اس محاذ پر بھی غیر رسمی طریقوں سے تعلیمی سہولیات کی ڈیزائننگ اور فراہمی اب ساری دنیا میں عام رجحان بن چکی ہے۔ کیرکٹر ڈاٹ آرگ (character.org)ایک امریکی ادارہ [40]ہے۔ اس نے طویل تحقیقات کے بعد بچوں میں قدروں کے فروغ کے لیے ایک گیارہ نکاتی پروگرام (The Eleven Principles Framework) تیار کیا ہے۔ [41] اس فریم ورک کا تعلق تمام مضامین کے طریقہ تدریس، اسکول کے مجموعی ماحول، اساتذہ کے رویوں وغیرہ اُن تمام باتوں سے ہے جن کا بچوں کے اخلاق پر اثر پڑسکتا ہے۔ اس پروگرام کی اصل خوبی یہ ہے کہ اس میں اخلاقی قدروں کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ قدروں کا تعین اسکول، بچوں کے سرپرست وغیرہ مل کر خود کرتے ہیں۔ جن قدروں کو بھی وہ اہم سمجھیں، ان کے سلسلے میں تربیت کے لیے یہ پروگرام مدد کرتا ہے۔ اس لیے مسلمان بھی ضروری احتیاطوں کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ادارہ اساتذہ کی ٹریننگ کرتا ہے۔ گیارہ اصولوں (یہ اصول اخلاقی اصول نہیں ہیں بلکہ جن اخلاقی اصولوں کو بھی آپ اہم سمجھتے ہیں ان کو اسکولوں میں نافذ کرنے کے طریقوں سے متعلق اصول ہیں) کے حوالے سے اسکول کے نصاب، ماحول، وغیرہ کا جائزہ لیتا ہے اور اصلاحی تدابیر تجویز کرتا ہے۔ جو اسکول ان اصولوں کو معیاری طریقے سے نافذ کرپاتے ہیں انہیں سرٹیفیکیٹ دیتا ہے۔ دنیا میں بارہ ہزار سے زیادہ اسکول اس پروگرام سے منسلک ہیں۔ لیونگ ویلیوز ایجوکیشن[42](Living Values Education) اور ہمارے ملک میں ویلیوز اسکول[43](Values School)بھی کام یاب ادارے ہیں جو اسکولوں کو اخلاقی تربیت کی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ مرکزی تعلیمی بورڈ نے اخلاقی تعلیم کا ایک بڑا مبسوط منصوبہ تشکیل دیا ہے۔ اس منصوبے کو بھی عام کرنے اور زیادہ سے زیادہ اداروں تک اس کے فائدوں کو پہنچانے کی ضرورت ہے۔
چیریٹی فار چینج[44](charity for change) اور ژراف ہیروز پروجیکٹ[45] (Giraffe Heroes Project) وہ خدمات ہیں جو اسکولوں کو نہیں بلکہ راست بچوں کو سامنے رکھ کر ڈیزائن کی گئی ہیں۔ یہ ادارے بچوں کے ہفتہ وار ورکشاپ کرتے ہیں۔ عوامی اور سماجی خدمات کے مختلف منصوبوں میں انہیں شامل کراتے ہیں۔ کچھ ایپ اور گیم انہیں فراہم کرتے ہیں اور ان سب کے ذریعے مخصوص قدروں کو ان کے اندر پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے تحت سی آئی او (children Islamic Organization)کا پروگرام بھی اسی سے مماثل ہے۔ ملت کے دیگر ادارے بھی اس طرح کے پروگراموں کو لے کر آگے آسکتے ہیں۔
لیونگ ویلیوز[46]جیسے ادارے سرپرستوں کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ وہ سرپرستوں کو گائیڈ بک فراہم کرتے ہیں۔ ان کے ورکشاپ کرتے ہیں۔ ان سے خاندانی قدروں کے معاہدے (family values contracts)سائن کرتے ہیں۔ ان کی کونسلنگ اور کوچنگ کے سیشن کراتے ہیں۔ سرپرستوں کو ایک دوسرے کے تجربات سے مستفید ہونے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
کیرکٹر فار کڈز[47]جیسے اداروں نے اساتذہ کو پیش نظر رکھا ہے۔ یہ ادارے بھی تعلیمی نظام میں قدروں کا فروغ چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے اساتذہ پر کام کرتے ہیں۔ انہیں تربیت فراہم کرتے ہیں کہ مختلف مضامین کی تدریس کے عمل کو اخلاقی تربیت کا ذریعہ کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ اخلاقی قدروں کے فروغ کے لیے کلاس روم کا ماحول کیسے تشکیل دیا جائے؟ اس کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟ غیر تدریسی سرگرمیوں کو اس مقصد کے لیے کیسے مفید بنایا جائے؟ اس کے لیے اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے۔ ان کو مواد فراہم کیا جاتا ہے۔ درپیش مسائل کے سلسلے میں کوچنگ اور کونسلنگ کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔
ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف قدروں کے فروغ کے لیے دنیا بھر میں کتنی منظم مؤثر اور گہری کوششیں ہورہی ہیں۔ خود ہمارے ملک میں اب دائیں بازو کے عناصر اس محاذ پر کافی سرگرم ہیں۔ بال گوکلم[48](balagokulam)، کریڈا بھارتی[49]، بال سنسکار کیندر[50]، سنسکار بھارتی[51] وغیرہ جیسے متعدد ادارے ہیں جو اس طرح کی خدمات فراہم کررہے ہیں۔
اس بات کی ضرورت اب بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ مسلمان ادارے اس طرح کے کاموں میں خاص دلچسپی لیں۔ تعلیمی ادارہ چلانے کے مقابلے میں بہت کم وسائل اور توانائی کے ساتھ اس طرح کے کاموں کے ذریعے بڑی خدمات انجام دی جاسکتی ہیں اور لاکھوں بچوں کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔
گزشتہ دہوں میں مسلمانوں میں تعلیمی بیداری لانے کے حوالے سے ٹھوس کوششیں ہوئی ہیں اور اس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کے عمل کو درست رخ دینے اور تعلیم کا ایک مکمل ماحولیاتی نظام (ecosystem)تشکیل دینے کو ہدف بنایا جائے اور حوصلہ مند نوجوان اس مقصد کے لیے اختراعی منصوبوں کے ساتھ میدان میں آئیں۔
حواشی و حوالہ جات
[1] The Ahmedabad St. Xaviers College … vs State Of Gujarat & Anr on 26 April, 1974; AIR 1974 SUPREME COURT 1389
[2] Rev. Sidhajbhai Sabhai v. State of Bombay, AIR 1963 SC 540 (1963).
[3] In Re: The Kerala Education Bill, 1957. … vs Unknown on 22 May, 1958 ([1959]1SCR995)
[4] T.M.A.Pai Foundation & Ors vs State Of Karnataka & Ors on 31 October, 2002 (2002 AIR SCW 4957)
[5] Aligarh Muslim University vs. Naresh Agarwal and Ors; November 8, 2024; (2024; INSC 856 )
[6] ibid
[7] مزید تفصیل کے لیے:
- Bhargava, Rajeev. The Promise of India’s Secular Democracy;New Delhi: Oxford University Press, 2010
- Mustafa, Faizan. “Right to Education and Minority Rights.” Economic and Political Weekly 45, no. 7 (2010): 23–26
- Mahmood, Tahir. Politics of Minority Educational Institutions: Law and Reality in the Subcontinent. New Delhi: ImprintOne/ Foundation Books, 2007
[8] In Re: The Kerala Education Bill, 1957. … vs Unknown on 22 May, 1958 ([1959]1SCR995)
[9] The Ahmedabad St. Xaviers College … vs State Of Gujarat & Anr on 26 April, 1974 (1974 AIR 1389)
[10] ibid
[11] سید سعادت اللہ حسینی؛ تعلیمی ادارے:اساسی تصورات (اشارات)؛زندگی نو؛ ستمبر 2025؛ نئی دہلی؛ ص 11-14
[12] حوالہ سابق ص 13
[13] حوالہ سابق ص 11
[14] UNESCO. (2021). State of the Education Report for India 2021: No Teacher, No Class. UNESCO New Delhi Re-gional Office. Paris: UNESCO.
[15] Kingdon, G. (2007). The Progress of School Education in India. Oxford University Press (based on NCERT and NUEPA data).
[16] Barber, M., & Mourshed, M. (2007). How the world’s best-performing school systems come out on top. McKin-sey & Company. Retrieved from
[17] McKinsey & Company. (2010). Closing the talent gap: Attracting and retaining top-third graduates to teaching. McKinsey & Company.
[18] ملاحظہ ہو:
- سید سعادت اللہ حسینی؛ تحقیقی ادارے اور فکر گاہیں: رہنما اصول (اشارات)؛زندگی نو؛مئی 2025؛ نئی دہلی اور
- سید سعادت اللہ حسینی؛ تحقیقی ادارے اور فکر گاہیں:عملی مشورے (اشارات)؛ زندگی نو؛ جون2025؛ نئی دہلی
[19] https://taleemiboard.org/
[20] https://shaheengroup.org/aicu/
[22] https://pratham.org/about/hamara-gaon/
[23] ملاحظہ ہو، سالانہ رپورٹ
[24] https://www.educategirls.ngo/
[25] https://www.prnewswire.com/news-releases/educate-girls-becomes-first-indian-organisation-to-receive-2025-ramonmagsaysay-award-302543017.html?utm source=chatgpt.com
[26] تفصیلی رپورٹ ملاحظہ ہو:
[27] https://www.teachingenglish.org.uk/resources
[28] https://www.teacher.org/lesson-plans/
[29] Refer these links
[30] https://www.twinkl.co.in/
[31] CHI ’24: Proceedings of the 2024 CHI Conference on Human Factors in Computing Systems; Article No.: 876, Pages 1 – 20; https://doi.org/10.1145/3613904.36426
[32] https://azimpremjifoundation.org/what-we-do/education/working-with-teachers/
[33] https://www.teachforindia.org/
[36] https://theselclassrooms.wordpress.com/
[37] https://www.teachforindia.org/our-impact
[38] سید سعادت اللہ حسینی؛ ادارے اور اختراع و ایجاد (اشارات)؛زندگی نو؛ اگست 2025؛ نئی دہلی؛ ص 14
[39] https://learn.mindspark.in/
[41] https://character.org/11-principles-in-schools/
[42] https://www.livingvalues.net/
[43] https://valuezschool.com/
[44] https://charityforchange.org/
[46] https://www.livingvalues.net/values-for-parents/
[47] https://www.characterforkids.org/
[48] https://balagokulam.hssus.org/
[49] https://kreedabharati.org/
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2025






