اِقامتِ دین کے نصب العین کی تشریح کے ذیل میں دستور جماعت اِسلامی ہند میں کہاگیا ہے:
’’اِس دین کی ’’اقامت‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کسی تفریق وتقسیم کے بغیر اس پورے دین کی مخلصانہ پیروی کی جائے اور ہر طرف سے یکسو ہوکر کی جائے۔ اور انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام گوشوں میں اسے اِس طرح جاری و نافذ کیاجائے کہ فرد کا ارتقاء ، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل سب کچھ اسی دین کے مطابق ہو۔ اِس دین کی اقامت کا مثالی اور بہترین عملی نمونہ وہ ہے جسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے قائم فرمایا۔‘‘ ﴿دستور جماعت اسلامی ہند،دفعہ:۴﴾
اِس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اِسلامی ریاست کا قیام ’’اقامت دین‘‘ کا ایک اہم جُز ہے۔ چنانچہ اقامت دین کے نصب العین کے لیے کام کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کے موضوع پر غور کریں۔ بنیادی سوالات جو اس موضوع سے متعلق ہیں درج ذیل ہیں:
﴿الف﴾ اِسلامی ریاست سے مراد کیاہے؟
﴿ب﴾ خلافتِ راشدہ کا نمونہ کِن امور کی جانب رہنمائی کرنا ہے؟
﴿ج﴾ اِسلامی ریاست کی جانب پیش قدمی کِس طرح ہو؟
اِسلامی ریاست کا دستوری مفہوم
’’اسلامی ریاست سے کیا مراد ہے‘‘ اِس سوال کا ایک جواب دستوری سطح پر دیاجاسکتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب یہ سوال پیدا ہواکہ مسلمانوں کی آزاد ریاست جو وجود میں آگئی ہے، اُس کو اِسلامی ریاست کیسے بنایاجائے تو مولانا مودودیؒ نے اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے اِسلامی ریاست کی دستوری اساس کے لیے چار نکات تجویز کیے۔ اپنی ایک تقریر میں جو مولانا نے قیام پاکستان کے چند ماہ بعد فروری ۱۹۴۸ء میں لاکالج لاہور میں کی، موصوف نے کہا:
’’تعمیر کی راہ میں پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنی اِس ریاست کو، جو ابھی تک انگریز کی چھوڑی ہوئی کافرانہ بنیادوں پر قائم ہے، مسلمان بنائیں۔ اور اسے مسلمان بنانے کی آئینی صورت یہ ہے کہ ہماری دستور ساز اسمبلی باقاعدہ اِس امر کا اعلان کرے کہ:
۱-پاکستان میں حاکمیت خدا کی ہے اور ریاست اُس کے نائب کی حیثیت سے ملک کا انتظام کرے گی۔
۲- ریاست کا اساسی قانون، شریعتِ خداوندی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذرریعے ہمیں پہنچی ہے۔
. ۳ -تمام پچھلے قوانین جو شریعت سے متصادم ہوتے ہیں، بتدریج بدل دیے جائیں گے اور آئندہ کوئی ایسا قانون نہ بنایاجاسکے گا، جو شریعت سے متصادم ہوتا ہو۔
۴- ریاست اپنے اختیارات کے استعمال میںاِسلامی حدود سے تجاوز کرنے کی مجاز نہ ہوگی۔
یہ وہ کلمہ شہادت ہے جسے اپنی آئینی زبان ﴿یعنی دستور ساز اسمبلی﴾ کے ذریعے سے ادا کرکے ہماری ریاست ’’مسلمان‘‘ ہوجائے گی۔‘‘﴿ترجمان القرآن، اگست ۱۹۴۸﴾
یہ دستوری اعلان اِسلامی ریاست کے قیام کا نقطہ آغاز ہے۔ اس کے بعد کسی مُلک کو حقیقی معنوں میں اِسلامی ریاست بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ اقتدار، صالح اور مخلص افراد کے ہاتھوں میں منتقل ہو۔ان افراد کے اندر اتنا شعور ہونا چاہیے کہ اِسلام کے سیاسی نظام کو سمجھ سکیں اور دوسری طرف ان میں اتنی صلاحیت بھی ہونی چاہیے کہ بدلتے ہوئے حالات میں اِسلام کے ابدی اصولوں کا انطباق کرسکیں۔ دستوری اِصلاح کے بعد عملاً ریاست کو مکمل طورپر اسلامی بننے میں کچھ نہ کچھ مدت درکار ہوگی جو اُس ملک کے حالات کے لحاظ سے مختصر یا طویل ہوسکتی ہے۔
اِسلامی ریاست کا مقصد
’’اِسلامی ریاست سے کیا مراد ہے؟‘‘ اِس سوال کا دستوری جواب ہمارے سامنے آیا۔ لیکن اِسلامی ریاست کو حقیقی معنوں میں جو وصف ایک ممتاز و منفرد ریاست بناتاہے وہ اُس کا مقصد ہے۔ ریاست کے چلانے والوں اور اُس کے شہریوں دونوں کو اُس مقصد کا شعور حاصل ہونا چاہیے۔ یہ مقصد قرآن مجید نے درج ذیل الفاظ میں بیان کیاہے:
الَّذِیْنَ اِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّہٰ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِo ﴿سورہ حج:۴۱﴾
’یہ اہلِ ایمان وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم کریں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام امور کاانجام کار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘
مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اِس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ اُن مسلمانوں ﴿کی کیفیت﴾کا بیان ہے جِن پر ظلم ہوئے اور جن کو گھروں سے نکال دیاگیا۔ یعنی خدا اُن کی مدد کیوں نہ کرے گا جب کہ وہ ایسی قوم ہیں کہ اگر ہم انھیں زمین کی سلطنت دے دیں تب بھی خدا سے غافل نہ ہوں۔ بذاتِ خود بدنی و مالی نیکیوں میں لگے رہیں اور دوسروں کو بھی اس راہ پر ڈالنے کی کوشش کریں۔
چنانچہ حق تعالیٰ نے ان کو زمین کی حکومت عطا کی اور جو پیشین گوئی کی تھی، حرف بحرف سچی ہوئی۔ فَلِلّٰہِ الحمد علٰی ذٰلک۔ اِس آیت سے صحابہ رضی اللہ عنہم خصوصاً مہاجرین اور اُن میں خاص طورپر حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی حقانیت اور مقبولیت و منقبت ظاہر ہوئی۔‘‘
اقامتِ صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے بعد اِسلامی ریاست کے مقصد کا دوسرا جُز امربالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔ اِس جُز کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودی فرماتے ہیں:
’’اِسلامی شریعت کا مقصد اسلامی زندگی کے نظام کو معروفات پر قائم کرنا اور منکرات سے پاک کرنا ہے۔ معروفات سے مراد وہ نیکیاں، خوبیاں اور بھلائیاں ہیں، جِن کو اِنسانی فطرت ہمیشہ سے بھلائی کی حیثیت سے جانتی ہے اور منکرات سے مراد وہ بُرائیاں ہیں جِن کو ہمیشہ سے اِنسانیت کاضمیر بُرا جانتا آیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ’’معروف‘‘ فطرتِ انسانی سے مناسبت رکھنے والی چیز ہے اور منکر اُس کے خلاف ہے۔
شریعتِ الٰہی ہمارے لیے انھی چیزوں کو بھلائی قرار دیتی ہے جو خدا کی بنائی ہوئی فطرت کے مطابق ہیں اور انھی چیزوں کو بُرا قرار دیتی ہے جو اس کی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ وہ اُن بھلائیوں کی محض ایک فہرست ہی بناکر ہمارے حوالے کردینے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ زندگی کی پوری اسکیم ایسے نقشے پر بناتی ہے کہ اُس کی بنیادیں معروف بھلائیوں پر قائم ہوں اور معروفات اس میں پروان چڑھ سکیں، اور منکرات کو اس کی تعمیر میں شامل ہونے سے روکا جائے اور نظامِ زندگی میںاُن کے دَر آنے اور اُن کازہر پھیلنے کے مواقع باقی نہ رہنے دیے جائیں۔‘‘ ﴿ماخوذاز: ’’اِسلامی قانون‘‘﴾
اِس تشریح سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ریاست زندگی کے ہر شعبے کی تعمیر معروف کے مطابق کرے گی ، تبھی اس کو اسلامی ریاست قرار دیاجاسکے گا۔ مقصد کا واضح شعور ریاست کی تمام پالیسیوں کا رخ متعین کرے گا اور ریاست کے تمام وسائل معروف کے فروغ اور منکرات کے ازالے کے لیے استعمال ہوں گے۔
خلافتِ راشدہ کانمونہ
تمام مسلمانوں کا اِس امر پراتفاق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کے بعد خلافتِ راشدہ ہمارے لیے مثالی دور ہے۔ اس دور میں جو ریاست قائم کی گئی، اُس کی اہم خصوصیات درج ذیل تھیں:
﴿الف﴾ ریاست کا سربراہ وہی شخص ہوسکتا تھا جسے مسلمان اپنی آزاد مرضی سے سربراہ تسلیم کریں۔ اُن پر اِس سلسلے میں جبر کرنے کی گنجائش نہ تھی۔
﴿ب﴾ ریاست کا قانون اِسلامی شریعت تھی اور یہ قانون بلاتفریق ہر شخص پر نافذ ہوتاتھا۔ کوئی فرد یا ادارہ قانون سے بالاتر نہ تھا۔
﴿ج﴾ مسلمانوں کے معاملات باہمی مشورے سے چلائے جاتے تھے اور کوئی ایک شخص اپنی رائے نہیں تھوپ سکتاتھا۔
﴿د﴾ بیت المال کو امانت کی حیثیت سے حاصل تھی۔ اس میں تصرف صرف اِسلامی ضابطے کے مطابق ہی کیاجاسکتاتھا۔
﴿ہ﴾ عوام حکمرانوں پر تنقید کرنے کے لیے آزاد تھے اور احتساب کے مواقع اُن کو میسر تھے۔
﴿و﴾ غیرمسلم شہری ہر زیادتی سے محفوظ تھے اور اُن کو مذہبی و تہذیبی حقوق حاصل تھے۔
﴿ز﴾ طرزِ حکمرانی تمام عصبیتوں سے پاک تھا۔ ہر قبیلے اور علاقے کے افراد کو یکساں مواقع حاصل تھے۔
﴿ح﴾ سکونت اختیار کرنے کی غرض سے دارالاسلام میں آنے والا ہر مسلمان، بالکل یکساں حقوق کے ساتھ ریاست کا شہری بن سکتاتھا، خواہ وہ دنیاکے کسی خطّے سے آیا ہو۔ چنانچہ حقیقی معنوں میں یہ ایک عالمی ریاست تھی۔
﴿ط﴾ ریاست محض نظم ونسق کی طرف متوجہ نہ تھی بلکہ ریاست کے چَلانے والوں کی نگاہ میں سب سے زیادہ اہمیت قیامِ عدل اور تزکیہ نفوس کو حاصل تھی۔ مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں یہ ریاست، خلافتِ راشدہ ہونے کے علاوہ ’’خلافت مرشدہ‘‘ بھی تھی، اِس لیے کہ اُس کو اپنے شہریوں کی دینی واخلاقی ترقی کی فکر تھی اور اس سلسلے میں وہ مسلسل کوشاں رہتی تھی۔
زوال کا شکار ہوجانے کے باوجود مسلمانوں کے معیارات اور اُن کی اقدار (Values)نہیں بدلی ہیں۔ اَب بھی ان کے نزدیک مطلوب طرزِ حکومت وہی ہے جو خلافتِ راشدہ کا تھا۔ بقول شاعر ؔ
وہ خود پست ہیں پر نگاہیں ہیں بالا
احیاء ِ خلافت اور تدریج
ہر مسلمان دل کی یہ تمنا ہے کہ دنیا میں خلافت کانظام پھر قائم ہو چنانچہ احیاء ِ خلافت کے لیے کوشش ایمان کی علامت ہے۔ البتہ عالمِ اسلام کی موجودہ صورتحال سے قیام خلافت کی مثالی صورتحال کی طرف سفر بتدریج ہی طے ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اِس سفر کے مراحل کیاہیں؟ موجودہ صورتحال پر غور کیاجائے تو یہ محسوس ہوتاہے کہ احیاء ِ خلافت کی جدوجہد میں درج ذیل مراحل سے گزرنا ہوگا:
- ﴿الف﴾مسلمان ممالک کی استعمار کے تسلط سے آزادی
- ﴿ب﴾سیاسی آزادی کے استقلال کا اہتمام
- ﴿ج﴾مسلمان ممالک میں جبر کی فضا کا خاتمہ اور عوام کے اِنسانی حقوق کی بحالی
- ﴿د﴾اسلامی دستور پر مبنی ریاستوں کا قیام
- ﴿ہ﴾اِن ریاستوں کا فی الواقع دین کا خادِم بننا
- ﴿و﴾مختلف ریاستوں پر مشتمل ایک مشترک نظام کا قیام جو بالآخر عالمی اِسلامی ریاست کی شکل اختیار کرلے۔
اِن میں سے ہرمرحلہ بجائے خود مختلف ذیلی مراحل پر مشتمل ہوگا۔ اِس سفر کے کامیابی کے ساتھ طے پانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید کے بعد جو عامل سب سے زیادہ اہم ثابت ہوگا وہ مسلمان ممالک میں باشعور ، باصلاحیت اور مخلص قیادت کی موجودگی ہے، جو عوام و خواص کی صحیح رہنمائی کی اہلیت بھی رکھتی ہو اور ارادہ بھی۔
پہلا چیلنج جس کا اِس قیادَت کو مقابلہ کرنا ہوگا وہ مسلمان ملکوں پر استعمار کا غلبہ ہے۔ بیرونی استعمار کا تسلط بالواسطہ (Indirect)بھی ہوتا ہے اور بلاواسطہ (Direct)بھی۔ بالواسطہ تسلط فوجی و معاشی معاہدوں، استعمار کے خادم حکمرانوں کے اقتدار اور استعماری ایجنڈے پر گامزن اِداروں کی سرگرمیوں کی شکل میں پایا جاتاہے۔ اِن سب نے مسلمان ممالک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ لیکن استعمار کا غلبہ محض بالواسطہ نہیں ہے۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں استعماری طاقتوں کے فوجی اڈے موجود ہیں، جو ان ممالک کی رسمی آزادی کے دعوے کی کھلی تکذیب کرتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ واضح جارحیت بعض خِطّوں میں غیرملکی فوجوں کی موجودگی ہے جن کی چیرہ دستیوں کے آگے حکمراں اور عوام یکساں بے بس ہیں۔
ظاہر ہے کہ استعمار سے آزادی کے بغیر اسلامی ریاست کی جانب پیش قدمی کاتصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ مسلمان ممالک میں موجود باشعور اور مخلص قیادت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ استعمار سے آزادی کے لیے عوام کو بیدار کرے۔ آزادی کی اس جدوجہد میں حکمراں طبقے کے وہ عناصر بھی شریک ہوسکتے ہیں جن کے دِل استعمار کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ جو حالات کے نتیجے میں استعمار سے سمجھوتے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ آزادی کی تحریک کو آبادی کے ہر طبقے کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن اس کی قیادت بہرحال اُن ہوش مند لوگوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جن کا مطمحِ نظر محض آزادی کا حصول نہ ہو بلکہ اِسلامی ریاست کا قیام ہو۔
آزادی کا تحفظ
دنیا کی تاریخ اِس تلخ حقیقت پر شاہد ہے کہ آزادی کا حصول لازماً اُس کے بقا کی ضمانت نہیں ہوا کرتا۔ اگر قیادت میں جرأت و ہوش مندی اور عوام میں مخلص قیادَت کے ساتھ تعاون کاجذبہ موجود نہ ہوتو آزادی ملنے کے بعد چھِن بھی جایا کرتی ہے۔ آزادی کی بقا کے لیے یہ لازم ہے کہ مُلک اور سماج ایمانی و اخلاقی، ذہنی وفکری اور سماجی ومعاشی ہر پہلو سے طاقتور ہوں اور اپنی آزادی کی حفاظت پر قادر ہوں۔ اِسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ صنعت، سائنس، ٹکنالوجی اور آلاتِ حرب کے سلسلے میں مُلک خود کفیل (Self Reliant) ہو یا کم از کم خود کفیل ہونے کی جانب گامزن ہو۔ اِن میدانوں میں قابلِ لحاظ ترقی کے بغیر محض اچھے ارادوں اور خوش نما نعروں سے آزادی کا تحفظ نہیں کیاجاسکتا۔ جِس طرح مخلص قیادَت کے لیے یہ لازم ہے کہ آزادی کو حاصل کرے، اِسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ آزادی کے بقا کی تدابیر سوچے اور آزادی کی حفاظت کے لیے ہمہ جہتی منصوبہ بنائے۔ ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی مسلمان ممالک کی صورتحال کے اِس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مسلمان عوام کی ناخواندگی اور جہالت اور مسلم ممالک کی معاشی پسماندگی دور کرنے کی اِسلامی اہمیت کا ﴿اِدراک ضروری ہے۔﴾ سوال اس لیے اہمیت اختیار کرگیاہے کہ ایک طرف تو موجودہ صورتحال خود اِن ﴿اسلامی﴾ تحریکوں کے پیغام کو سمجھنے اور اُسے قبول کرنے میں مانع ثابت ہوتی ہے اور دوسری طرف یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اگر ﴿اِسلامی تحریکوں کی﴾ دعوت قبول بھی کرلی جائے تو اِس صورتحال کو بدلے بغیر مسلمان ملکوں میں اِسلامی نظام قائم ہونا دشوار ہے۔ آج کی دنیا میں محتاج، بڑی طاقتوں پر انحصار کرنے والی اور ناطاقتی کا شِکار قومیں، تہذیبی خود ارادیت سے بھی محروم ہیں۔ اُن کی یہ کیفیت اُن کے ان اجتماعی فیصلوں کے نفاذ میں مانع ہوگی جو بڑی طاقتوں کی پسند اور مزاج کے خلاف ہوں۔ مزید برآں عالمی سطح پر بڑی طاقتوں کے زبردست استیلا اور اسلامی دنیا میں اُن کے جارحانہ عزائم رکھنے والے ایجنٹوں کا وجود ایک ایسا چیلنج ہے جس کے مقابلے کے لیے فوجی طاقت بھی ناگزیر ہے۔ اِس طاقت کی فراہمی کے لیے تعلیم بالخصوص سائنس اور ٹکنالوجی میں زبردست پیش رفت اور بڑے پیمانے پر صنعتی عمل ضروری ہے۔‘‘ ﴿ماخوذ از: ’’تحریک اسلامی عصرِ حاضر میں‘‘﴾
اس سلسلے میں ممالک کے درمیان تعاون کی ضرورت کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں خود کفیل ہونے کے لیے بھی کوششیں کرنی ہوںگی تاکہ مغربی اداروں پر ہمارا انحصار کم ہو۔ اِسلامی ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون بڑھنا چاہیے اور ساتھ ہی ’’تیسری دنیا‘‘ کے تمام ترقی پزیر ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون ہونا چاہیے تاکہ ہماری معیشت کا انحصار مغربی طاقتوں پر نہ رہے۔
. اِسلامی نشاۃثانیہ کی حکمت عملی دو متوازی کوششوں کی متقاضی ہے۔ ایک طرف تو نظریاتی اور تہذیبی دعوت و تجدید کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے ایسا جاندار تعلق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جِس کے نتیجے میں اسلامی اقدار کی طرف قوی میلان اور اِنسانی سماج کی مرضیات الٰہی کے مطابق تعمیرنوکا عزم پیدا ہو۔ دوسری طرف ایسی عملی تدابیر اختیار کی جائیں جِن کے نتیجے میں اِس تعمیرنو کے لیے زمین ہموار ہو۔ خواندگی عام کرنا، تعلیم کامعیار اونچا کرنا، اہم علوم میں ریسرچ کا اہتمام کرنا ، مسلمانوں ملکوں میں بالخصوص اور پوری تیسری دنیا میں بالعموم اقتصادی ترقی، باہمی تعاون اور سیاسی اتحاد پیدا کرنا چند ایسی ہی ناگزیر تدابیر ہیں۔
نظریاتی اور مادّی دونوں میدانوں میں کچھ نہ کچھ کوششیں آج بھی کی جارہی ہیں مگر اِن دونوں کوششوں کے درمیان ربط اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی ہے، جِس کا سبب اصل مقصد سے اِن کے تعلق کا پورا شعور نہ ہونا ہے۔ آج اِن دونوں کوششوں میں ربط کم پایاجاتاہے کیونکہ پہلے کام کو دینی قیادت کی ذمہ داری سمجھاجاتاہے اور دوسرا کام ’’سیکولر‘‘ قیادَت کے ہاتھ میں ہے۔ یہ دوئی ختم کرکے باہم مربوط اور ہم آہنگ کوششیں عمل میں لائی جانی چاہئیں۔‘‘ ﴿ایضاً﴾
آزادمسلمان ممالک کو اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیے الگ الگ کوششوں کے علاوہ باہمی تعاون کے لیے ادارے بھی تشکیل دینے ہوں گے۔ اِس نوعیت کے جو ادارے اِس وقت موجود ہیں اُن کو حقیقتاً مفید اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ تعاون کی یہ فضا آئندہ کے مراحل میں عالمی اِسلامی ریاست کی جانب پیش قدمی کو آسان بنائے گی۔
جبر کی فضا کا خاتمہ
مطلوب یہ ہے کہ مسلمان ممالک میں جبر کی فضا ختم ہو اور اِنسانوں کے حقوق بحال ہوں۔ یہ تبدیلی اولاً اس لیے مطلوب ہے کہ خلافتِ راشدہ کا نمونہ یہی سکھاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ خلافتِ راشدہ کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اِس خلافت کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ اس میں تنقید اور اظہار رائے کی پوری آزادی تھی۔ خلفائ ہروقت اپنی قوم کی دسترس میں تھے۔ وہ خود اپنے اہلِ شوریٰ کے درمیان بیٹھتے اور مباحثوں میں حصہ لیتے تھے… آزاد فضا میں ہر شریکِ مجلس اپنے ایمان وضمیر کے مطابق رائے دیتاتھا۔ تمام معاملات اہلِ حل و عقد کے سامنے بے کم و کاست رکھ دیے جاتے اور کچھ چھپاکر نہ رکھاجاتا۔ فیصلے دلیل کی بنیاد پر ہوتے تھے نہ کہ کسی کے رعب واثر، کسی کے مفاد کی پاسداری یا کسی جتھہ بندی کی بنیاد پر… ہر شخص کو ﴿حکمرانوں کو﴾ ٹوکنے، اُن پر تنقید کرنے اور اُن سے محاسبہ کرنے کی کُھلی آزادی تھی۔ اور اِس آزادی کے استعمال کی وہ محض اجازت ہی نہ دیتے تھے بلکہ اس کی ہمت افزائی کرتے تھے۔‘‘ ﴿ماخوذ از ’’خلافت و ملوکیت‘‘ باب سوم﴾
مولانا مودودیؒ نے اسلامی ریاست میں رہنے والے مسلم و غیرمسلم باشندوں کے درجِ ذیل بنیادی حقوق کاتذکرہ کیا ہے:
’’﴿الف﴾ جان کا تحفظ
﴿ب﴾ حقوقِ ملکیت کا تحفظ
﴿ج﴾ عزت کا تحفظ
﴿د﴾ نجی زندگی کا تحفظ
﴿ھ﴾ ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کاحق
﴿و﴾ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کانیز تنقید کاحق
﴿ز﴾ نیکی اور بھلائی کی غرض سے آزادی اجتماع کاحق
﴿ح﴾ ضمیر واعتقاد کی آزادی کاحق
﴿ط﴾ مذہبی دِل آزاری سے تحفظ کاحق
﴿ی﴾ یہ حق کہ ہر شخص صرف اپنے اعمال کا ذمّہ دار ہو اور دوسروں کے اعمال کی ذمّہ داری میںاُسے نہ پکڑاجائے۔
﴿ک﴾ یہ حق کہ کسی شخص کے خلاف کوئی کارروائی، ثبوت کے بغیر اور اِنصاف کے معروف تقاضے پورے کیے بغیر نہ کی جائے۔
﴿ل﴾ یہ حق کہ حاجت مند اور محروم افراد کو اُن کی ناگزیر ضروریاتِ زندگی فراہم کی جائیں۔
﴿م﴾ یہ حق کہ ریاست اپنی رعایامیں تفریق اور امتیاز نہ کرے بلکہ سب کے ساتھ یکساں برتائو کرے۔‘‘ ﴿’’خلافت وملوکیت‘‘ باب اوّل﴾
مسلمان ملکوں میں جبر کی قضا کاخاتمہ اِس لیے بھی مطلوب ہے کہ اگر مسلمان عوام کو آزادانہ اختیار کا موقع دیاجائے تو وہ اپنی رائے اِسلامی نظام کے حق میں استعمال کریں گے۔ اِس سلسلے میں مولانا مودودی فرماتے ہیں:
’’دنیا کی … مسلم حکومتیں … ہر جگہ اپنی اپنی قوموں کے ضمیر سے لڑرہی ہیں۔ اُن کی قومیں اِسلام کی طرف پلٹنا چاہتی ہیں اور یہ اُن کو زبردستی مغربیت کی راہ پر گھسیٹ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کہیں بھی مسلمان قوموں کے دِل اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں۔
… مسلمان ملکوں میں پے درپے آمریتیں قائم ہورہی ہیں۔ مغربیت زدہ طبقے کی وہ چھوٹی سے اقلیت، جِس کو مستعمرین کی خلافت حاصل ہوئی ہے، اِس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر نظامِ حکومت عوام کے ووٹوں پر مبنی ہو تو اقتدار اُن کے ہاتھوں میں نہیں رہ سکتا بلکہ جلدی یا دیر سے، وہ لازماً اُن لوگوں کی طرف منتقل ہوجائے گا جو عوام کے جذبات اور اعتقادات کے مطابق حکومت کا نظام چلانے والے ہوں۔‘‘
﴿’’دنیائے اِسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریقِ کار‘‘ ماخوذاز تفہیمات حصہ سوم﴾
گویا عوام کے حقوق کی بحالی کالازمی نتیجہ، اِسلامی نظام کی جانب پیش رفت ہے۔
اِسلامی دستور
یہ حقیقت ہے کہ کسی ملک کے سیاسی نظام کا تشخص محض ملک کے دستور سے متعین نہیں ہوتا بلکہ متعدد عوامل مل کر سیاسی نظام کی صورت گری کرتے ہیں لیکن اِس امر سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دستور کا رول بہت اہم اور اکثر حالات میں کلیدی ہوتا ہے۔ چنانچہ اِسلامی ریاست کے قیام کے لیے مُلک کے دستور کی اِصلاح ضروری ہے۔ موجودہ صورتحال کاجائزہ لیاجائے تو بہت سے مسلمان ممالک ایسے نظرآتے ہیں جن کے دساتیر پر سیکولرطرزِ فکر اور اصطلاحات کا غلبہ ہے۔ کچھ ممالک میں دستور کی زبان اورطرز میں دینی جذبات کی رعایت نظرآتی ہے۔ اکثر ممالک میں صورتحال ملی جلی ہے یعنی ملک کے دستور پر اسلام کے اثرات بھی محسوس ہوتے ہیں اور سیکولر نظریات کے بھی۔
اِن حالات میں اسلامی ریاست کی جانب پیش قدمی کے لیے ناگزیر ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مسلمان ممالک کے دساتیر میں ضروری اصلاحات کا یا اُن کی اسلامی خطوط پر تدوینِ نو کا عوامی مطالبہ کیاجائے۔ اس مطالبے کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لیے دو طرح کی کوششیں کرنی ہوںگی :ایک طرف تو عوام وخواص کو اِسلامی نظام اور اِسلامی دستور کی افادیت و معقولیت پر مطمئن کرنا ہوگا اور اُن کے سوالات کے جواب دینے ہوںگے۔ دوسری طرف مسلسل کوشش کرکے اور قربانیاں دے کر یہ ثابت کرناہوگاکہ اسلامی دستور کے مطالبے کو دبانا ممکن نہیں ہے۔ اِن دو طرفہ کوششوں کے ذریعے بالآخر وہ مرحلہ آسکے گا جب مُلک کے کارفرما عناصر دستور کو اِسلام کے مطابق بنانے کے لیے آمادہ ہوجائیں۔ اور باہر کی استعماری طاقتیں، نوشتہ دیوار کو پڑھ کر اِس سلسلے میں مایوس ہوجائیں کہ وہ اِسلامی ریاست کے قیام کو روک سکیںگی۔
مولانا مودودیؒ اِس سلسلے میں فرماتے ہیں:
’’﴿اِسلامی نظام کی جانب پیش قدمی کے لیے﴾ سب سے پہلے جو کام کرنے کاہے وہ یہ ہے کہ ﴿لوگوںکو﴾ واضح طریقے پر یہ بتایاجائے کہ اِسلامی قانون کس چیز کا نام ہے۔ اس کی حقیقت کیاہے۔ اُس کا مقصد، اُس کے اصول، اُس کی روح اور اُس کامزاج کیاہے۔ اس میں کیا چیز قطعی اور مستقل ہے اور اُس کے ایسا ہونے کا فائدہ کیا ہے۔ اور اس میں کون سی چیز ابد تک ترقی پزیر ہے اور وہ کس طرح ہر دَور میں ہماری بڑھتی ہوئی تمدنی ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہے۔ اُس کے احکام کِن مصالح پر مبنی ہیں اور اُن غلط فہمیوں کی کیا اصلیت ہے جو اُن احکام کے متعلق ناواقف لوگوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر یہ تفہیم صحیح طریقے پر ہوجائے تو ہمیں یقین ہے کہ ہمارے بہترین کارفرما اور کارکن دِماغ مطمئن ہوجائیں گے اور اُن کا اطمینان اُن ساری تدبیروں کادروازہ کھول دے گا جو اِسلامی قانون کے نفاذ کو عملاً ممکن بناسکتی ہیں۔‘‘ ﴿ماخوذاز: ’’اِسلامی قانون‘‘﴾
ریاست کا اِسلامی خطوط پر ارتقا
اِسلامی نظام کے قیام کے لیے دستور کا اِسلامی ہونا ایک لازمی شرط (Necessary Condition) تو یقیناہے لیکن محض ایک اِسلامی دستور کا ترتیب پاجانا اِسلامی نظام کے فی الواقع قائم ہوجانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ حقیقی اِسلامی نظام کے لیے چند اور کاموں کا انجام پانا ضروری ہے۔
﴿الف﴾ عوام کی اِصلاح و تربیت
﴿ب﴾ موجود اجتماعی اداروں کی روحِ اسلامی کے مطابق تشکیل نو
﴿ج﴾ اِسلامی ریاست کے منشا کو پورا کرنے کے لیے درکار نئے اداروں کا قیام
یہ سب کام اُس ریاست کے کرنے کے ہیں جو تدوینِ دستور کے بعد بنے گی۔ البتہ یہ اُسی وقت انجام پاسکتے ہیں جب دستور کی ترتیب کامرحلہ طے پاجانے کے بعد مُلک کا اقتدار عملاً اُن عناصر کے ہاتھ میں منتقل ہوجائے جو خلوصِ دِل کے ساتھ ریاست کو دین کاخادم بنانا چاہتے ہوں اور اس کام کو کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ رہا یہ سوال کہ ایسے مخلص اور باصلاحیت افراد کے ہاتھ میں اقتدار آنے کا کیا امکان ہے تو اس کی توقع اس وقت کی جاسکتی ہے جب مُلک میں جبر کی فضا ختم ہوچکی ہو اور عوام اِس پوزیشن میں آگئے ہوں کہ اپنی آزاد مرضی سے جِس کو حکمراں بنانا چاہیں، بنائیں پھر عوام کی اِصلاح بھی کم از کم اِس درجے تک ہوگئی ہو کہ وہ مفاد پرست، بددیانت اور دین کے باغی عناصر کے مقابلے میں خدا ترس اور امانت دار خُدّامِ دین کو ترجیح دیں۔
اِسلامی دستور کی ترتیب کے بعد اگر مُلک کا اقتدار فی الواقع صالحین کے ہاتھ میں آجائے تو اِسلامی ریاست کی جانب سفر جاری رہے گا اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوسکے تو دستور کے رسماً اِسلامی بن جانے کے باوجود اِسلامی نظام کی منزل کی جانب پیش قدمی رُک جائے گی۔ اس صورت میں صبر کے ساتھ عوام کی اِصلاح کے لیے اور جبر کی فضا کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری رکھنی ہوںگی تاآنکہ اللہ تعالیٰ کے اِذن سے فضا بدل جائے اور اقتدار کی کنجیاں صالح افراد کے ہاتھوں میں آجائیں۔ عوام کی اِصلاح میں ریاست کے رول پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
’’اِس وقت ﴿یعنی ۱۹۴۸ءمیں﴾ چونکہ پاکستان کاآئندہ نظام زیرِ تشکیل ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ایسی ریاست بن جائے جو اسلامی زندگی کی معمار بن سکے۔ ہماری یہ خواہش اگرپوری ہوگئی تو ریاست کے وسیع ذرائع اور طاقتوں کو استعمال کرکے پاکستان کے باشندوں میں ذہنی اور اخلاقی انقلاب برپاکرنا بہت آسان ہوجائے گا۔ پھر جس نسبت سے ہمارا معاشرہ بدلتاجائے گا اسی نسبت سے ہماری ریاست بھی ایک مکمل اِسلامی ریاست بنتی چلی جائے گی۔‘‘ ﴿ترجمان القرآن، جون ۱۹۴۸ء﴾
اجتماعی اداروں کی اِصلاح کے سلسلے میں ریاست کے رول کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
’’اب ہمیں گویا بالکل نئے سرے سے کام کرنا ہے۔ بے شک اِسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کیجیے۔ قوانین اسلامی کو مدون بھی کیجیے تاکہ ہماری عدالتیں اُن کے مطابق فیصلے کرسکیں مگر بس یہی ایک کام ایسا نہیں ہے جس سے اِسلامی نظام قائم ہوجائے۔ سب سے زیادہ زور جس بات پر صَرف کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے ابتدائی اور ثانوی مدرسوں اور ہمارے تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میںاِسلامی تعلیم دی جائے۔ ذرائع اِبلاغ کو فحش اور بے حیائی اور بداخلاقی اور جرائم پھیلانے کے بجائے مسلمانوں کو ایمان اور اسلامی عقائد سمجھانے اور اُن کے ذہن نشین کرنے پر صَرف کیاجائے۔‘‘ ﴿ماخوذاز: ’’تصریحات‘‘﴾
اسی سلسلہ گفتگو میں مولانا نے مزید فرمایا:
’’اب اگر کوئی اِسلامی حکومت قائم ہوتو یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ چھوٹتے ہی مثالی نظام کی طرف پلٹ جائے گی، آغازِ کار میں اگر کچھ ہوسکتاہے تو وہ اس کے بغیر نہیں ہوسکتاکہ حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو مُلک کے تمام ذرائع و وسائل، مُلک کے تمام ذرائع اِبلاغ، مُلک کے سارے نظامِ تعلیم اور حکومت کی پوری انتظامی پالیسی کو اس غرض کے لیے استعمال کریں کہ مسلمانوں میں اِسلام کا عِلم وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے اور اُن کی عام اخلاقی حالت کو درست کیاجائے۔ جِس قدر اِسلام کا علم پھیلے گا اور عام اخلاقی حالت درست ہوتی جائے گی اتنی ہی زمین اِسلامی نظام کے لیے تیار ہوتی چلی جائے گی۔‘‘ ﴿ایضاً﴾
بہرصورت اگر ریاست کا دستور اِسلامی خطوط پر مرتب ہوچکاہوتو عملاً ریاست کے چلانے والے خواہ کسی ذہن کے ہوں اُن کو رائے عامّہ کے ذریعے اِس کام پر آمادہ کیاجاسکتا ہے کہ وہ ریاست کی طاقت کو فی الواقع خیرکا خادِم بنائیں۔ مسلمان سماج کے باشعور عناصر اگر مستعدی کے ساتھ ریاست کے رول کو درست رکھنے کی کوشش کریں تو اِسلامی نظام کی طرف پیش رفت ممکن ہے۔
عالمی اِسلامی ریاست
مسلمان ممالک میں اِسلامی ریاستوں کے قیام اور اُن کے صحت مند خطوط کے ارتقا کا مرحلہ اگر طے ہوجائے تو یہ ریاستیں باہم مل کرعالمی اِسلامی ریاست بناسکتی ہیں۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
’’﴿اسلامی ریاست﴾ ایک ایسی ریاست ہے جو رنگ، نسل، زبان یا جغرافیہ کی عصبیتوں کے بجائے صرف اصول کی بنیادپر قائم ہوتی ہے۔ زمین کے ہر گوشے میں نسل انسانی کے جو افراد بھی چاہیں اِن اصولوں کو قبول کرسکتے ہیں اور کسی امتیاز و تعصب کے بغیر بالکل مساوی حقوق کے ساتھ اِس نظام میں شامل ہوسکتے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی اِن اصولوں پر کوئی حکومت قائم ہوگی وہ لازماً اِسلامی حکومت ہی ہوگی۔ خواہ وہ افریقہ میں ہو یا امریکہ میں، یورپ میں ہو یا ایشیا میں اور اُس کے چَلانے والے خواہ گورے ہوں یا کالے یا زرد۔ اس نوعیت کی خالص اصولی ریاست کے لیے ایک عالمی ریاست بَن جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ بلکہ اگر زمین کے مختلف حصوں میں بہت سی ریاستیں بھی اِس نوعیت کی ہوں تو وہ سب کی سب یکساں اِسلامی ریاستیں ہوں گی۔ کسی قوم پرستانہ کش مکش کے بجائے اُن کے درمیان پورا پورا برادرانہ تعاون ممکن ہوگا اور کسی وقت بھی وہ متفق ہوکر اپناایک عالم گیر وفاق قائم کرسکیں گی۔‘‘ ﴿’’خلافت و ملوکیت‘‘ باب اول﴾
درجِ بالا سطور میں اِسلامی ریاست کی جانب پیش رفت کے مراحل کاتذکرہ اُن ممالک کے ضمن میں کیاگیاہے جِن کو عموماً ’’عالم اسلام‘‘کہاجاتاہے۔ دنیا کے اُن خِطّوں کے سیاق میںبھی اِس موضوع پر گفتگوکی ضرورت ہے جن کو عالم اسلام کا جز نہیں سمجھاجاتا۔ یہ گفتگو اِنشائ اللہ کسی اور موقع پر کی جائے گی۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2012