پانچویں صدی ہجری کے مشہور محدث اور شارح بخاری مہلب اسدی اندلسی کا یہ جملہ بعد کے شارحین حدیث نے اہتمام کے ساتھ ذکر کیا ہے: مسجد کی تاسیس مسلمانوں کی جماعت کے مفاد کی خاطر ہوئی ہے، اس لیے ہر وہ کام جس میں اسلام اور اہل اسلام کا فائدہ اکٹھا ہوجائے اسے وہاں انجام دینا جائز ہوگا۔ ’’ الْمَسْجِدُ مَوْضُوعٌ لِأَمْرِ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِینَ فَمَا كَانَ مِنَ الْأَعْمَالِ یجْمَعُ مَنْفَعَةَ الدِّینِ وَأَهْلِهِ جَازَ فِیهِ‘‘(فتح الباری، ابن حجر)
مسجد ہر آبادی کے لیے مرکزی مقام ہے۔ اس کا سب سے اہم اور لازمی استعمال تو باجماعت نماز کی ادائیگی ہے، تاہم جس طرح نماز انسانی زندگی پر غیر معمولی اثرات ڈالتی ہے، اسی طرح مسجد کے فائدے بھی بہت زیادہ ہیں۔ مسجد کا مثالی کردار یہ ہے کہ اس سے گردوپیش کی آبادی کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ اگر آبادی دین سے دور ہے تو وہ دوری ختم ہو، اگر آبادی تعلیمی، معاشی اور سماجی پہلو سے پس ماندہ ہے تو اس کی پس ماندگی دور ہو اور وہ ترقی کی راہ پر چل پڑے، اگر آبادی میں انتشار وافتراق اور گروہ بندیاں ہیں تو مسجد کی برکت سے یہ سب کچھ ختم ہو اور آبادی میں اتحاد و اتفاق قائم ہو۔ مسجد کے ذریعے لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیا جائے اوران کی خوشیوں کو دوبالا کیا جائے۔
مسجدوں کو آباد رکھیں
مسجد سے ہمارا گہرا رشتہ ہونا چاہیے۔ اسے قرآن مجید میں عمارة (آباد کرنے) سے تعبیر کیا گیا ہے۔قرآن کا ارشاد ہے: إِنَّمَا یعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ یخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ یكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِینَ [التوبة: 18]
’’خدا کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے ہیں اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ یہی لوگ امید ہے کہ ہدایت پانے والے لوگوں میں ہوں۔‘‘
مسجد میں دیر تک بیٹھیں، حمد و تسبیح کریں، قرآن مجید کی تلاوت کریں اور آیتوں پر غور و فکر کریں۔ جب ماحول پر مادہ پرستی کا غلبہ ہو، پورے سماج میں صرف مادیت رخی باتیں ہورہی ہوں ایسے میں اپنے دل ودماغ کو کچھ دیر کے لیے سہی، روحانی ماحول دینے کے لیے مسجد بہترین جگہ ہے۔ وہاں انسان کو روحانی سکون، روحانی پاکیزگی اور روحانی قوت حاصل ہوسکتی ہے۔
فِی بُیوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَیذْكَرَ فِیهَا اسْمُهُ یسَبِّحُ لَهُ فِیهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ. رِجَالٌ لَا تُلْهِیهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَیعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِیتَاءِ الزَّكَاةِ یخَافُونَ یوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ [النور: 36و37]
’’ان گھروں میں جن کے بارے میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ بلند کیے جائیں اور وہاں اللہ کے نام کا ذکر کیا جائے (اور) اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے ہیں جنھیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و ادائے زکوٰة سے غافل نہیں کر دیتی وہ اُس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹ جائیں گے اور دیدے پتھرا جائیں گے۔‘‘
مسجد میں رہنے والوں کے بارے میں ایک حدیث میں بڑی پیاری بات بتائی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’مسجدوں میں کچھ کھونٹے ہوتے ہیں (یعنی ایسے لوگ جو مسجد میں کھونٹے کی طرح جمے رہتے ہیں)، ان کی ہم نشینی فرشتے کرتے ہیں، وہ کبھی غیر حاضر ہوں تو ان کی کمی محسوس کرتے ہیں، اگر بیمار ہوجائیں تو ان کی عیادت کرتے ہیں اور اگر انھیں کوئی ضرورت ہو تو ان کی مدد کرتے ہیں’’ (مسند احمد)
نواز دیوبندی کا یہ شعر بہت خوب پیغام رکھتا ہے:
بلا سبب ہی میاں تم اداس رہتے ہو
تمھارے گھر سے تو مسجد کا فاصلہ کم ہے
اتحاد و اتفاق کی تربیت گاہ
مسجد کا مقام اور باجماعت نماز کی شان تو یہ ہے کہ جو لوگ مسجد اور باجماعت نماز سے وابستہ ہوجائیں وہ اتحاد واتفاق کے سب سے بڑے علم بردار بن جائیں۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ دینی معاملات کو لے کر مسجد میں جتنے اختلافات اور جھگڑے ہوتے ہیں وہ کہیں اور نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ مسجد اور باجماعت نماز کے پیغام پر دھیان نہیں دیتے۔ مضبوط اجتماعیت کی زبردست پریکٹس روز دن میں پانچ بار کرتے ہیں، مگر انھیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس چیز کی ٹریننگ لے رہے ہیں۔
مسجد اتحاد و اتفاق کی بہترین تربیت گاہ بن سکتی ہے، اگر باجماعت نماز ادا کرتے ہوئے انسان اجتماعیت کا درس بھی دل میں بٹھالے۔ کس طرح ایک امام کے پیچھے سب ایک صف میں قریب قریب کھڑے ہوتے اور ایک ساتھ نماز کے تمام اعمال انجام دیتے ہیں۔
مسجد میں باہمی رواداری کی بہترین تربیت ہوسکتی ہے، اگر سبھی نمازی ایک دوسرے کی نماز کا احترام کریں اور اپنی نماز کی طرح دوسرے کی نماز کو بھی صحیح اور سنت کے مطابق سمجھیں۔
مسجد میں آپسی محبت پروان چڑھ سکتی ہے اگر یہ خیال رہے کہ مسجد کے تمام ساتھی جواللہ کے حضور سجدہ ریز ہیں، اپنی اس ادا کی بنا پر اللہ کو محبوب ہوں گے،اس لیے مجھے بھی ان سے محبت کرنی چاہیے۔
حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ہماری نماز پڑھی اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلم ہے، جسے اللہ اور اس کے رسول کی امان حاصل ہے، اس لیے اللہ کی امان توڑنے کی کوشش مت کرو۔ (صحیح البخاری، حدیث: 5563 )
اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں سے قلبی رشتہ قائم کریں،یہ سوچ کر کہ اللہ کی محبت میں آپ اور وہ دونوں شریک ہیں۔ جس طرح اللہ کی محبت آپ کو مسجد کھینچ لائی ہے انھیں بھی کھینچ لائی ہے۔
نماز میں اللہ تعالی نے بہت زیادہ تنوّع رکھا ہے۔ یہ تنوّع نماز کے اذکار میں بھی ہے اور اعمال میں بھی ہے۔ اس تنوّع کو برتنے سے رواداری کی بہترین تربیت ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کچھ لوگ آمین زور سے کہتے ہیں اور کچھ دھیرے سے کہتے ہیں اور کوئی کسی کو غلط نہیں سمجھتا تو اس سے رواداری کی تربیت ہوگی۔
اس پہلو سے مسجد ایک پیمانہ بھی ہے۔ اگر مسجد میں لوگ مختلف طرح کے تنوعات کو دل سے قبول کررہے ہیں اور ان تنوعات کے ساتھ تضادات کی طرح تعامل نہیں کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں رواداری ہے، لیکن اگر معاملہ برعکس ہے اور مسجد کے اندر کسی طرح کا تنوع گوارا نہیں کیا جارہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں رواداری ختم ہوچکی ہے اور صورت حال سنگین ہوگئی ہے۔ مسلم معاشرے کی خرابی کا علاج بھی مسجد کے ذریعے ہی بہتر طریقے سے کیا جاسکتا ہے۔
بات بات پر ٹوکنے کا ماحول نہیں ہونا چاہیے
بے جا روک ٹوک اور بے محل نکیر سے اختلافات میں شدّت آتی ہے۔ عوام کو یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں کس چیز کی کتنی اہمیت ہے، اس لیے ہر وہ چیز جو انھیں معمول سے مختلف نظر آتی ہے، اسے غلط سمجھتے ہیں اور اس پر ٹوکنا ضروری سمجھتے ہیں۔ کوئی ٹوپی نہ اوڑھنے پر ٹوک دیتا ہے تو کوئی نماز کے بعد دعا نہ مانگنے پر۔ اگرنماز میں کسی کے موبائل کی گھنٹی بج گئی تو اسے بہت سے لوگو ں کی کھری کھری سننا پڑتی ہے۔ کوئی اپنے ساتھ بچہ لے آئے اور وہ شرارت کرے پھر تو اس کی خیر نہیں۔ جن مسائل میں شریعت نے تنوع اور کشادگی رکھی ہے، بے علمی کی وجہ سے اس پر بھی لوگ نکیر کرنے لگتے ہیں۔ غرض روک ٹوک اور بے جا ملامت سے مسجد کا ماحول بہت تنگ اور گھُٹا گھُٹا سا بن جاتا ہے۔نمازی کو ہر وقت دھڑکا لگارہتا ہے کہ کس بات پر اسے ٹوک دیا جائے۔ یہ رویہ صحت مند نہیں ہے۔ اس بیمار رویے کی وجہ سے بسا اوقات مسجد اکھاڑا بن جاتی ہے۔ مسجد میں زیادہ توجہ اپنے عمل اور اپنے دل کی کیفیت کی طرف ہونی چاہیے، دوسروں کے اعمال کی نگرانی پر آپ مامور نہیں کیے گئے ہیں۔ نکیر کا عمل کھلے منکرات اور بڑی غلطیوں تک محدود ہونا چاہیے اور اس میں بھی اگر کسی کو کسی بات کی طرف توجہ دلانی ہے تو تنہائی میں اور شفقت و نرمی کے ساتھ اپنی بات رکھ دینی چاہیے۔ اس سے پہلے کسی صاحب بصیرت عالم سے معلوم کرلینا چاہیے کہ اس بات پر ٹوکنے کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔
جمعہ کے خطبات
جمعہ کے خطبات افراد کی شخصیت سازی اور سماج میں بہتر ماحول سازی کے عمل میں بہت بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جمعہ کا خطبہ اصلاح و تربیت کا خدائی انتظام ہے۔ اس انتظام کا کوئی اور متبادل نہیں ہوسکتا ہے۔ اصلاح و تربیت کے نقطہ نظر سے تو جمعہ کے خطبے کو اس زبان میں ہونا چاہیے جسے سامعین بخوبی سمجھ سکتے ہوں۔ بہت سے فقہا نے اس کی اجازت بھی دی ہے۔ البتہ جن لوگوں کا یہ موقف ہے کہ مکمل خطبہ صرف عربی زبان ہی میں ہو اور انھوں نے یہ شکل نکالی ہے کہ خطبے سے پہلے مقامی زبان میں بیان یا تقریر ہوجائے تو اس انتظام کو بھی زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ خطبے سے پہلے آکر اس تقریر کو سنیں، نیزاس تقریر کو زیادہ سے زیادہ مفید و مؤثر بنانے کی کوشش کی جائے۔جمعہ کے خطبات کے سلسلے میں یہ عام تاثر ہے کہ سماج کو درپیش مسائل سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے۔ اس تاثر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ مثالی خطبہ یا تقریر وہ ہے جس میں ایمان کی تازگی کے ساتھ سامعین کو اپنے کچھ سوالوں کا جواب اور کچھ الجھنوں اور مسائل کا حل ملے۔ مسجدوں میں سماجی اصلاح کے منصوبے بننے چاہئیں، اصلاح کے اہداف طے ہونے چاہئیں اور جمعہ کے خطبات کے ذریعے ان اہداف کوحاصل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔
دینی تعلیم کا انتظام
ہمارے سماج کے بچے زیادہ تر اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہاں دینی تعلیم کا انتظام نہیں ہوتا ہے۔ جب کہ دینی تعلیم ہر مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے۔ مسجدوں کے ذریعے اس ضرورت کی تکمیل احسن طریقے سے ہوسکتی ہے۔ ناظرہ قرآن، حفظ قرآن، قرأت و تجوید، حدیث و سیرت، ضروری دینی احکام ومسائل کی تعلیم، بنیادی عقائد کی تعلیم، اسکولوں کے نصاب تعلیم میں جو باتیں اسلامی عقیدے سے ٹکراتی ہیں، ان کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نظر کی تعلیم، غرض مسجد میں دینی تعلیم کا مدرسہ ضرور ہونا چاہیے، جو صرف ناظرہ قرآن اور حفظ قرآن تک محدود نہ ہو، بلکہ ضروری حد تک دین کے علم و فہم کے حصول کا بھی انتظام رہے۔ بچوں کی دینی تعلیم کے علاوہ تعلیم بالغان کا انتظام بھی ہونا چاہیے۔ جن ریاستوں میں مسلمانوں کی مادری زبان اردو ہے وہاں مسجدوں میں اردو پڑھنا سکھایا جائے اور اتنی اردو سکھادی جائے کہ وہ دینی لٹریچر کا مطالعہ کرسکیں۔
ہماری تاریخ کے زرّیں دور میں مسجدیں اپنے وقت کی تعلیم گاہیں ہوا کرتی تھیں۔ قرنِ اول میں عالم اسلام کی دو سب سے بڑی تعلیم گاہیں مدینہ میں مسجد نبوی اورمکہ میں مسجد حرام تھیں۔ حرمین شریفین کی تعلیم گاہوں میں شریک ہونے کے لیے پوری دنیا سے علم کے پروانے آیا کرتے تھے۔ بعد میں مصر میں جامع عمرو بن العاص، دمشق میں جامع اموی، بغداد میں جامع منصور، مراکش میں جامع قرویین، تونس میں جامع زیتونہ اور قاہرہ میں جامع ازہر ابتدا میں مسجدیں تھیں، جہاں تعلیم بھی ہوتی تھی۔ بعد میں یہ سب اپنے وقت کی یونیورسٹیاں بن گئیں جہاں اعلی تعلیم کے لیے دور دور سے لوگ آیا کرتے۔
اگر مسجد میں عبادت کے لیے پرکیف ماحول کے ساتھ تعلیم و تربیت کے لیے بھی موزوں انتظام ہو، تو مسجد سماج کا دل اور دماغ دونوں بن سکتی ہے۔ عہد رسالت میں مسجد کا سماج میں یہی مقام تھا۔
دینی کتابوں کی لائبریری
بڑی مسجد میں ایک کمرے کو دار المطالعہ بنایا جاسکتا ہے اور چھوٹی مسجدوں میں مسجد کے اندر ایک الماری میں لائیبریری قائم کی جاسکتی ہے۔ لائیبریری میں عام فہم زبان میں دین کا فہم پیدا کرنے والی دینی کتابیں ہوں۔ تفسیر، شرح حدیث، سیرت رسولﷺ، سیرت صحابہؓ، فقہی مسائل، اسلامی تاریخ اور دین کا صحیح تصور پیش کرنے والی کتابیں تو ہونی ہی چاہئیں۔ اس کے علاوہ کچھ دینی رسالے بھی جاری کرانے چاہئیں۔ لائیبریری میں بچوں کے لیے بھی دل چسپ دینی اور اخلاقی کتابوں کا سیٹ ہو۔
اسی کے ساتھ نمازیوں کو لائیریری سے استفادے کی ترغیب بھی دلائی جائے۔ کتابو ں کی حفاظت سے زیادہ توجہ اس پر ہو کہ لوگ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں۔
جن خوش قسمت لوگوں کو مسجد نبوی کی زیارت کا موقع ملے، انھیں حرم شریف کی لائیبریری بھی جاکر دیکھنا چاہیے تاکہ انھیں اندازہ ہو کہ مسجد اور کتب خانے کا رشتہ کتنا گہرا ہے اور مسجد میں لائیبریری کتنی مفید ہوسکتی ہے۔
لائیبریری میں انٹرنیٹ کی سہولت کے ساتھ کمپیوٹر بھی ہوں، اچھی ویب سائٹوں کی طرف رہ نمائی ہو، مسجد بچوں اور نوجوانوں کی آن لائن مصروفیات کو پاکیزہ رخ دینے اور اس حوالے سے ان کی تربیت کرنے میں اہم رول ادا کرسکتی ہے۔
خدمت خلق کا مرکز بن جائے
اللہ کے رسول ﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی فرد یا گروہ پریشان حال ہوتا تو مسجد میں موجود لوگوں کو مدد کرنے کی ترغیب دیتے۔ اس سلسلے میں متعدد واقعات سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔
سیرت پاک کی روشنی میں مسجدوں کو اس حوالے سے فعال بنایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر آبادی میں کوئی شخص شدید ضرورت کا شکار ہو اور وہ مسجد کی انتظامیہ کو اپنے ضرورت سے باخبر کرے، جمعہ کے دن مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے اعلان ہوجائے اور لوگوں کی اعانتوں سے اس کی مدد کردی جائے۔ آبادی میں کسی کے ساتھ کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے تو مسجد کی انتظامیہ خود یہ معلوم کرے کہ اسے کتنی مدد کی ضرورت ہے اور نمازیوں کی اعانت سے اس کی مدد کردے۔
ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ایسے ہر معاملے میں نمازیوں کو آگاہ کرکے ان کے بروقت تعاون سے مدد کردی جائے، ساتھ ہی یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ مسجد میں ایک امداد فنڈ ہو، جس میں لوگ اپنی اعانتیں جمع کرتے رہیں اور مسجد کی انتظامیہ آبادی کے ضرورت مندوں کی اس فنڈ سے امداد کرتی رہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ جو واقعی ضرورت مند ہیں ان کی مدد ہوسکے گی، دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ مسجدوں کے سامنے جو بھیک مانگنے والوں کا جمگھٹا رہتا ہے وہ ختم ہوگا، لوگ انھیں دینے کے بجائے امداد فنڈ میں رقم ڈالا کریں گے جو واقعی مستحقین تک پہنچتی رہے گی۔
اگر مسجد کے آس پاس دوسرے مذاہب والے بھی بستے ہوں، تو ان کی بھی خبر گیری کی جائے اور مسجد کے امداد فنڈ سے، یا نمازیوں کی بروقت اعانت جمع کرکے ان کی بھی مدد کی جائے۔
اگر کسی مخلوط آبادی میں مسجد ہو تو وہاں کے سبھی لوگ مسجد کو اپنی آبادی کے لیے باعث رحمت سمجھیں۔ وہاں جمع ہونے والے نمازیوں کو آبادی کے حالات سے واقفیت رہے، بیماروں کی عیادت اور پریشان حالوں کی داد رسی میں مسجد میں جمع ہونے والے نمازی پیش پیش رہیں۔
بہت سی عبادت گاہوں اور درگاہوں سے لنگر اور عمومی دسترخوان کا تعلق جڑا ہوا ہے۔ وہاں عمومی دسترخوان لگتا ہے اور امیر و غریب سبھی کو کھانا ملتا ہے، جسے کوئی ضرورت کے تحت کھاتا ہے اور کوئی عقیدت کی خاطر۔ یہ ایک مذہبی رسم ہوتی ہے، جو بڑے اہتمام سے ادا کی جاتی ہے۔ مسجدوں سے کی جانے والی خدمت خلق کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے، یہاں متعین طور پر ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے پر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ وہ کھانے کی بھی ہوسکتی ہے اور کپڑے کی بھی اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی بھی۔ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں سب طرح کی ضرورتیں مسجد میں پیش ہوتیں اور وہاں سے پوری ہوتیں۔
ہمیں کسی حوالے سے یہ نہیں ملتا کہ مسجد نبوی کے سامنے بھیک مانگنے والوں کی قطار لگا کرتی تھی۔ بھیک مانگنے کی تو حوصلہ شکنی ہوتی تھی۔ البتہ ہمیں بہت سے حوالوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کی ضروریات مسجد نبوی میں پوری کی جاتی تھیں۔ کسی کے پاس شادی کرنے کے وسائل نہ ہوتے تو اس کی شادی کا انتظام کیا جاتااور کسی کے پاس کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تو اسے کمانے کا ذریعہ فراہم کیا جاتا۔
یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ ہندوستان کی بعض بڑی مساجد میں ہونے والے چندے سے شہر کے بڑے اسپتال چل رہے ہیں۔
مسجد میں زکوٰة کا اجتماعی نظم ہو
جس طرح مسجد میں نمازکا اجتماعی اہتمام ہوتا ہے اسی طرح مسجد میں زکوٰة کا بھی اجتماعی انتظام ہونا چاہیے۔ہر مسلم محلے میں ایک مسجد ہو، اس مسجد میں محلے کے مستحقین کا مکمل ریکارڈ موجود رہے اور مسلسل اپ ڈیٹ ہوتا رہے۔ اس محلے کے اہل ثروت اپنی زکوٰة، صدقات اور صدقہ فطر اس مسجد میں جمع کریں۔ ان رقومات سے محلے کے غریبوں کی فوری ضرورت بھی پوری کی جائے اور مستقل طور پر ان کی غربت دور کرنے کے مفید منصوبے بھی بنائے جائیں۔
اگر ہر آبادی کی ایک مسجد میں زکوٰة کا اجتماعی نظم قائم ہوجائے تو اس محلے کے مسلمانوں کی معاشی حالت قدرے بہتر ہوسکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ زکوٰة جمع کرنے اور اسے خرچ کرنے کا کام دیانت داری، سنجیدگی اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ ہو۔
درس قرآن کی محفلیں
مسجد اللہ کا گھر ہے اور قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ اس تعلق کا تقاضا ہے کہ قرآن کا پیغام مسجد سے نکل کر پوری آبادی کو روشن کرے۔ اگر مسجد میں دل نشیں درس قرآن ہوگا تو اس کا فائدہ مسجد کے گرد و پیش کی پوری آبادی کو ہوگا۔
مسجد میں درس قرآن کا سلسلہ ہمیشہ رہنا چاہیے۔ روزانہ ہو تو بہتر ہے۔ درس کے ذریعے قرآن مجید کا مکمل دور ہوتا رہے تو شرکائے درس کے لیے بہت مفید ہوگا۔ طویل درس دینے کے بجائے آیتوں کی مختصر اور ضروری تشریح کی جائے،تاکہ کم وقت میں قرآن مجید کے درس کا دور مکمل ہوجایا کرے۔ قرآن کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عقل کو غذااور دل کو سوز عطا کرتا ہے۔ درس قرآن کو بھی اس خصوصیت کا حامل ہونا چاہیے۔ درس قرآن کی محفل خشک اور بے مزا نہ رہے،بلکہ روحانی لذت اور ایمانی حرارت سے بھرپور ہو۔
قرآن مجید سے مسجد کا گہرا رشتہ ہے۔ اس رشتے کو اللہ کے رسول ﷺ نے اس طرح بیان کیا ہے: ’’جب کچھ لوگ اللہ کے گھر میں جمع ہوتے ہیں، اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اس کی آیتوں پر باہم گفتگو کرتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، رحمت ان پر چھاجاتی ہے، فرشتے ان پرسایہ کرتے ہیں اور اللہ اپنے یہاں ان کا ذکر فرماتا ہے‘‘(صحیح مسلم)
مسجد میں نکاح
جمہور فقہا کے نزدیک مسجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔ سنن ترمذی کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ نے مسجد میں نکاح کی تقریب رکھنے کی تعلیم دی ہے، لیکن اس حدیث کو ترمذی نے حسن اور دیگر لوگوں نے ضعیف قرار دیا ہے۔ مسجد میں نکاح کی تقریب سے بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔ نکاح کی مجلس دراصل شوہر اور بیوی کے درمیان عہد و معاہدے کی مجلس ہوتی ہے۔ یہ قول و قرار جب مسجد میں بیٹھ کر طے پائے تو اس کی مضبوطی بڑھ جاتی ہے۔ مسجد کا روحانی ماحول نکاح کی تقریب کے وقار کو بڑھادیتا ہے۔ زوجین کے لیے دعائیں کرنے کا ماحول ہوتا ہے۔ بہت سی جاہلانہ رسومات، فضول خرچیوں اور نمائش سے نکاح کی تقریب محفوظ رہتی ہے۔ اگر آبادی کے اہل ثروت اور اہل اثر افراد مسجدوں میں سادگی کے ساتھ نکاح کو رواج دیں تو باقی لوگ بھی اس کارِ خیر میں شامل ہوجائیں گے۔ مسجد میں نکاح کے تعلق سے اس کا اہتمام ضروری ہے کہ سبھی لوگ نماز سے پہلے مسجد پہنچ جائیں اور نماز کے بعد نکاح کی تقریب ہوجائے، تاکہ نمازیوں کو انتظار نہ کرنا پڑے۔
اگر نکاح کی تقریبات کو فضول خرچیوں اور بے جا رسم و رواج کے چنگل سے باہر نکالنا ہے تو اس تقریب کو مسجد کی طرف لانا ہوگا۔ نکاح کی تقریب کو آسان، سادہ اور پر وقار بنانے میں مسجد کا اہم رول ہوسکتا ہے۔
تنازعات کا تصفیہ
لوگوں کے درمیان جھگڑے اور تنازعات سلجھانے کے لیے مسجد موزوں ترین مقام ہے۔ مسجد کے روحانی ماحول میں اس بات کی زیادہ امید کی جاسکتی ہے کہ گفتگو کےدوران سنجیدگی اور وقار قائم رہےگا، لوگ جھوٹ بولنے اور جھوٹی قسمیں کھانے سے بچیں گے اور مصالحت و مفاہمت کے لیے ماحول سازگار رہےگا۔
اگر مسجد کی سطح پر تصفیہ کمیٹی قائم رہے تو لوگوں کو اس کی طرف رجوع کرنے میں آسانی رہے گی۔ مسجد کی تصفیہ کمیٹی کو سماج میں یہ پہچان بنانی ہوگی کہ اس کے ذریعے کیے جانے والے فیصلوں میں عدل و انصاف کو پوری طرح ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
اس سے اچھی کیا بات ہوگی کہ تصفیہ کمیٹی کی کارروائی اور نتائج سے آبادی کے دوسرے اہل مذاہب بھی واقف ہوں اور ضرورت پڑنے پر وہ بھی مسجد کی تصفیہ کمیٹی میں اپنا معاملہ پیش کرنے کو ترجیح دیں۔
صحیح بخاری میں ایک باب ہے: بَابُ مَنْ قَضَى وَلاَعَنَ فِی المَسْجِدِ۔ ’’یہ باب ہے مسجد میں عدالت لگانے اور لعان کرانے والے کے بارے میں‘‘ اس کے بعد امام بخاری بتاتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے نبی ﷺ کے منبر کے پاس لعان کرایا، اور شریح نے شعبی نے اور یحیی بن یعمر نے مسجد میں عدالت لگائی اور مروان نے زید بن ثابت کے خلاف منبر کے پاس قسم کی بنیاد پر فیصلہ کیا، اور حسن اور زرارة بن اوفی مسجد کے باہر صحن میں عدالت لگاتے تھے۔
مسجد کونسلنگ کا مرکز بن جائے
اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں مرد و خواتین اپنے گھریلو مسائل کو مسجد نبوی میں آکر پیش کرتے اور آپ ان کی بہترین رہ نمائی کیا کرتے تھے۔
اس وقت دنیا کے تمام معاشروں کی طرح مسلم معاشرے میں بھی خاندانی تنازعات سنگین صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ طلاق کی کثرت، نزاعات کی شدت اور خاندانوں کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کے لیے شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کونسلنگ کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہوئے مسجد میں فیملی کونسلنگ کا بہتر انتظام کیا جاسکتا ہے۔ مسلم معاشرے میں بھی یہ ماحول بنایا جائے کہ قانونی چارہ جوئی سے پہلے فریقین فیملی کونسلنگ کے لیے پہلے مسجد کی طرف رجوع کریں۔ بہت اچھا ہو اگر مسجد کے ائمہ و مدرسین فیملی کونسلنگ میں مہارت حاصل کریں۔
عیسائی چرچ کونسلنگ کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ مسجدوں کے سامنے تو اسوہ رسول ﷺ ہے، انھیں اس معاملے میں ممتاز مقام حاصل کرنا چاہیے۔ مغربی ملکوں کے بہت سے اسلامی سینٹروں / مسجدوں میں کونسلنگ کا عمدہ انتظام ہوتا ہے۔ کونسلنگ شادی کے معاملات تک محدود نہیں ہے، والدین اور اولاد کے تعلقات، دیگر رشتے داروں کے ساتھ تعلقات، اس کے علاوہ ڈپریشن اورذہنی تناؤ جیسے مسائل بھی ایڈریس کیے جاسکتے ہیں۔
دوسرے اہل مذاہب سے رابطے کی جگہ
مسلمانوں کے درمیان مسجد کی وہ حیثیت ہونی چاہیے کہ دوسرے لوگ بھی مسجد کو مسلمانوں کا مرکز سمجھیں۔ وہ مسلمانوں سے رابطہ کرنے کے لیے مسجد سےرجوع کریں۔ مسجد کی طرف سے ہونے والی سماجی خدمات کا فیض محلے کے تمام لوگوں کو پہنچے۔
دوسرے مذاہب والوں کو مسجد دکھانے کے لیے بلایا جائے، یہ بہت مفید عمل ہے۔ وہ مسجد کے پاکیزہ روحانی ماحول کو دیکھیں،باجماعت نماز کے حسین و جمیل منظر سے لطف اٹھائیں، باہمی محبت و الفت کا مشاہدہ کریں، جمعہ کے خطبات میں پیش کی جانے والی اخلاقی تعلیمات کو سنیں۔ لیکن یہ ابتدائی نوعیت کی کوششیں ہیں۔
مطلوبہ کیفیت تو یہ ہے کہ دوسرے مذاہب والے اپنے شوق اور ضرورت کے تحت مسجدوں کا رخ کریں۔وہ یہ ماننے لگیں کہ جس طرح مسلمان اپنے ذاتی و معاشرتی مسائل کے حل کے لیے مسجد کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ انھیں جمعہ کے خطبے کی باتیں اچھی لگیں اور اسے سننے کے لیے وہ بھی مسجد میں آنا چاہیں۔ بڑی مسجدوں میں ان کے بیٹھنے کے لیے الگ سے جگہ بھی بنائی جاسکتی ہے۔ محلے میں امن و امان اور خیرسگالی کی فضا قائم رکھنے کے لیے جو کمیٹیاں بنیں ان کی میٹنگ کے لیے مسجد کو مناسب ترین جگہ سمجھا جائے۔مسجد میں انسانوں کی بہبود کے لیے جو تربیتی پروگرام ہوں، مثال کے طور پر فیملی کونسلنگ یا کیریر گائیڈنس پر لکچر ہو، نفسیاتی صحت کا پروگرام ہو تو اس میں دیگر اہل مذاہب بھی شریک ہوں۔وہ اسلام کے بارے میں جاننے اور اپنی غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے مسجد والوں سے رجوع کریں۔
خواتین کی تعلیم و تربیت کا مرکز
ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا ہے کہ عورتوں کے لیے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے تو وہ مسجد میں نماز کیوں پڑھیں۔ اس وقت ہمارے پیش نظر مسلم لڑکیوں اور خواتین کی دینی تعلیم و تربیت کا مسئلہ ہے جو بہت اہم ہے۔ اس سے غفلت کے نتائج بہت سنگین ہوسکتے ہیں۔ مسجد دینی تعلیم و تربیت کے لیے اہم جگہ ہے، تعلیم و تربیت کے اس انتظام سے فائدہ اٹھانے کے لیے خواتین کو بھی موقع ملنا چاہیے۔
جمعہ کا خطبہ اور دروس قرآن و حدیث اور دیگر دینی بیانات اور لکچر سننے کا انھیں موقع ملے، اس کے لیے آبادی کی سب نہیں تو کچھ بڑی مسجدوں میں تو انتظام ضرور ہونا چاہیے۔
وہ عورتیں جو اب تک دین سے دور تھیں اور اب وہ دین سیکھنا اور اس پر عمل کرناچاہتی ہیں،وہ مسجد جاکر وہاں دین سے واقف خواتین سے مدد لے سکتی ہیں۔ مسجد ایسی عورتوں کے لیے رہ نمائی کے مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے سماج میں کچھ مسجدیں اس حیثیت سے معروف ہونی چاہئیں کہ وہاں عام خواتین جاکر اہل علم خواتین سے زندگی کے مختلف مسائل میں رہ نمائی اور تعلیم و تربیت حاصل کرسکیں۔
مسجد میں عورتوں کی علیحدہ جگہ صرف ان کے نماز پڑھنے کے لیے ہی نہ ہو، بلکہ وہاں خواتین کے مختلف پروگرام بھی پابندی سے منعقد ہوں۔
بعض جگہوں پر خواتین کی مسجد کے نام پر الگ سے چھوٹی سی کوٹھری بنادی جاتی ہے، جہاں نہ طہارت خانے کا معقول انتظام ہوتا ہے اور نہ روشنی، ہوا اور صفائی کا۔ اس سلسلے میں بھی ہمارے سامنے مسجد نبوی کا موجودہ انتظام رہنا چاہیے۔ عہدِ رسالت سے اب تک مسجد نبوی میں مردوں اور خواتین کا انتظام مساوی نوعیت کا رہا ہے۔
مسجد کشادہ جگہ پر قائم ہو
خاص کر شہروں میں جب مسجد کے لیے جگہ لی جائے تو کوشش کی جائےکہ کافی بڑی جگہ ہو۔ مسجد کی عمارت اتنی ہو جتنی ضرورت ہے، لیکن مسجد کے باہر وسیع و عریض لان ہو۔ عام طور سے مسجد کی عمارت پنج وقتہ نمازوں کے لیے کافی ہوجاتی ہے، لیکن جمعہ کی نماز کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ اگر باہر کشادہ لان ہوگا تو جمعہ و عیدین کی نماز کے لیے آسانی ہوجائے گی۔ مسجد کے وسیع لان میں صحت و تفریح کا انتظام آبادی کے لیے بہت مفید ہوگا۔ شہروں میں ٹہلنے کے لیے جگہ بہت کم ہوتی ہے، چھوٹے اور تنگ مکانوں میں رہنے کی وجہ سے صحت کے بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مسجد کے وسیع لان کے ذریعے اس بڑی ضرورت کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ مسجد کے لان میں بچوں کے لیے کچھ جھولے وغیرہ لگادیے جائیں، تاکہ بچوں کے دل میں مسجد سے ایک انسیت پیدا ہوجائے۔خاص طور سے وہ بچے جو مسجد میں قرآن اور دین کی تعلیم کے لیے آتے ہیں، ان کے لیے اگر کچھ کھیل تفریح کا سامان بھی ہو تو مسجد کے تعلیمی نظام سے ان کی دل چسپی بڑھ جائے گی۔
شہروں میں خاص طور سے مسجد کی ایک ضرورت موٹر سائیکلوں اور کاروں کے لیے پارکنگ بھی ہوتی ہے۔ اس کی گنجائش اور منصوبہ بندی بھی ہونی چاہیے۔
مسجد کی زمین خریدتے ہوئے اس بات کا پورا تیقن لازمًا کرلینا چاہیے کہ قانونی لحاظ سے وہ زمین بالکل صاف ستھری ہے، اس میں سرکاری یا غیر سرکاری کسی اور ملکیت کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ قانونی پہلو سے مسجد کے ہر حصے کو محفوظ ہونا چاہیے۔ خواہ وہ زمین کا رجسٹریشن ہو،بجلی اور پانی کا کنکشن ہو یا مسجد کی مالیات کا حساب کتاب ہو۔
مسجد کی جگہ تنگ ہو تو کیا کریں
بڑے شہروں میں مسجدیں جمعہ کی نماز کے لیے عام طور سے ناکافی ہوجاتی ہیں۔ بعض مسجدوں میں باہر راستے میں صف بناکر نماز ادا کی جاتی ہے۔ یہ صحیح طریقہ نہیں ہے۔ اس سے اجتناب کرتے ہوئے دوسرے حل تلاش کرنے چاہئیں۔ خاص طور سے اگر وہ راستہ دوسرے مذاہب والوں کی بھی گزرگاہ ہو تب تو ہرگز وہاں راستے پر نماز نہیں ہونی چاہیے۔
جہاں تک گنجائش ہو مسجد کی منزلوں میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اور اگر مسجد میں مزید توسیع کی گنجائش نہ ہو تو ایک سے زیادہ جمعہ کی نمازوں کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔
اس سلسلے میں یوروپین کونسل فار افتا اینڈ ریسرچ کا درج ذیل فتوی ہندوستان کی ان بہت سی مسجدوں کی رہ نمائی کرتا ہے، جہاں ایک مسجد نمازیوں کے لیے کافی نہیں ہوتی اور مسجد کے علاوہ کہیں اور جمعہ پڑھنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔فتوے کا ترجمہ ہے:
’’کبھی جگہ کی تنگی کی وجہ سے اور نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے اور کبھی تمام لوگوں کے ایک وقت میں جمع نہیں ہوپانے کی وجہ سے، جیسا کہ یوروپ میں لوگوں کے کاروبار اور ملازمتوں کی پابندیوں کی وجہ سے ہوتا ہے، جب کہ وہاںمسجدیں ایک بستی میں کم ہوتی ہیں، مجلس اسے ممنوع نہیں سمجھتی کہ ایک ہی مسجد میں ایک سے زیادہ مرتبہ جمعہ قائم کیا جائے، اگر اس کے لیے سبب موجود ہو، جیسا کہ گزرا یعنی جگہ کی تنگی یا لوگوں کا ایک وقت میں جمع نہ ہوپانا۔
اگر اس سے منع کیا جائے گا تو اس میں بڑی برائی ہوگی، کیوں کہ بہت سے مسلمان اس فریضے کی ادائیگی سے محروم ہوجائیں گے جسے اسلام کے عظیم شعائر میں شمار کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ جمعہ کے اورمقاصد بھی فوت ہوجائیں گے، جنھیں دینی حاجت کا درجہ حاصل ہے، جیسے مسلمانوں کا جمع ہونا، ان کے درمیان قلبی تعلق قائم ہونا، باہمی تعارف ہونا، مزید برآں ان کی رہ نمائی، نصیحت اور تعلیم کا حصول۔ (فتوی نمبر: 4028، تاریخ اجرا: 7 نومبر 2008)
واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کے بڑے شہروں کی کئی مسجدوں میں صورت حال یہ بن چکی ہے کہ اگر جمعہ کی دو جماعتیں ایک مسجد میں قائم نہ کی جائیں تو بہت بڑی تعداد جمعہ کی نماز سے محروم ہوجائے گی۔ اس صورت حال میں تیزی کے ساتھ اضافہ بھی ہورہا ہے۔ سڑکوں پر نماز ادا کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ دو یا دو سے زیادہ بار جمعہ کی نماز ادا کی جائے۔
لاؤڈ اسپیکر کا مفید و مؤثر استعمال
لاؤڈ اسپیکر کو صرف اذان کے لیے استعمال ہونا چاہیے، یا پھر بہت ضروری اعلان کے لیے۔ اذان کے وقت لاؤڈ اسپیکر کی آواز بہت بلند نہ رکھیں۔ عشا اور فجر کے اوقات میں کم سے کم آواز رکھیں۔ خطبہ جمعہ اور نمازوں نیز دیگر خطابات اور بیانوں کے لیے صرف اندر کے اسپیکر کا استعمال کریں۔
اذان خوش الحانی کے ساتھ ہونی چاہیے۔ خوش الحان موذن کا تقرر کیا جائے۔ اگر موذن خوش الحان نہ ہو تو اسے ہدایت کی جائے کہ وہ ممکن حد تک خوش الحانی سیکھے۔ یہ عام شکایت ہے کہ مسجدوں سے اذانیں اس طرح نہیں ہوتیں کہ سماعت کو اچھی لگیں۔ مسجد اگر ایک عظیم مقام ہے تو اذان کو مسجد کے شایان شان ہونا چاہیے کہ اذان سن کر مسلمانوں کے دل مسجد کی طرف کھنچے چلے آئیں اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی مسجد اور نماز کے بارے میں اچھا تاثر لیں۔
مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر سے غیر ضروری اعلانات اور بیانات نہیں ہونے چاہئیں۔مسلم آبادی میں بھی نہیں اورمخلوط آبادی میں تو ہرگز نہیں۔بعض مسجدوں میں تو اس تعلق سے بے اعتدالی حد سے بڑھی ہوئی ہے اور مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر شور غل کی علامت بن گئے ہیں۔
مسجد راحت بخش ہو
مسجد کی آرائش و زیبائش پر رقم خرچ کرنے کے بجائے نمازیوں کی راحت پر خرچ کرنی چاہیے۔ گرمی کے موسم میں جب بہت زیادہ نمازی مل مل کر کھڑے ہوتے ہیں تو گرمی کی شدت بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے مسجد میں ایر کنڈیشن کا انتظام ہو تو بہت اچھی بات ہے۔ اس انتظام کا خرچ سب یا کچھ نمازی اپنے ذمے لے لیں تو پھر کوئی مضائقہ نہیں رہ جاتا ہے۔ اسی طرح گرمی میں ٹھنڈا پانی پینے کا انتظام بھی کرنا چاہیے۔ اس طرح کے انتظامات مسجد آنے اور وہاں زیادہ وقت گزارنے کے لیے معاون محرک کا کام کرتے ہیں۔
سخت سردی میں وضو کےلیے گرم پانی اور مسجد میں ٹھنڈک سے بچاؤ کے انتظامات بھی کرنے چاہئیں۔
صفائی ستھرائی کا اہتمام
مسجد کی صفائی کے سلسلے میں ہمیں خاص تاکید ملتی ہے، حضرت سمرہ بن جندبؓ فرماتے ہیں: ’’ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا کہ اپنے محلوں میں مسجدیں قائم کریں اور اس کا بھی حکم دیا کہ مسجدوں کی صفائی کا اہتمام کریں‘‘ (مسند احمد، حدیث: 20184)
مسجد میں بچھی دریوں کی مناسب وقفے سے دھلائی ہونی چاہیے، یا پھر دریوں پر چادریں بچھائی جائیں اور ان کی مناسب وقفے سے دھلائی ہوتی رہے۔ نمازیوں کو سمجھایا جائے کہ وہ گندے پاؤں یا بدبودار موزوں کے ساتھ مسجد کی دری پر نہ آئیں۔ نمازی جب سجدے میں جائے تو اسے کسی بھی طرح کی بدبو کی اذیت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔
بہت سی مسجدوں میں دروازے کے پاس ہی بیت الخلا ہوتا ہے اور مسجد کے اندر داخل ہوتے ہوئے بدبو کے تیز بھبھکے سے مزاج خراب ہوجاتا ہے۔ یہ نقشہِ تعمیردرست نہیں ہے۔ بیت الخلا کو مسجد کے دروازے سے بالکل الگ ہونا چاہیے۔
اگر مسجد چھوٹی ہو تو مسجد کے باہر کوئی جگہ لے کر وہاں بیت الخلا بنادیا جائے۔ اور اگر جگہ کی تنگی کی وجہ سے دروازے کے قریب بنانا ضروری ہو تو ایسا انتظام کیا جائے کہ بدبو نہ اٹھے۔ بہرحال بیت الخلا کہیں بھی ہو، بدبو ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ وضوخانہ مسجد کے اندر ہوتو بہتر ہوتا ہے، اس سے نمازیوں کو کافی سہولت ہوجاتی ہے۔
صفائی ستھرائی کا فائدہ یہ ہے کہ مسجد آنے والے نمازی صفائی کے پہلو سے بھی خوش دلی کے ساتھ مسجد آئیں گے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ اگر مسجد دیکھنے آئیں گے تو صفائی کے حوالے سے بھی اچھا اثر لیں گے۔
مسجد اتنی صاف ستھری ہو کہ اسے دیکھ کر لوگ اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کریں۔ایسا نہ ہو کہ لوگ صاف گھروں میں رہیں اور مسجد صاف نہ رہنے کی وجہ سے مسجد جانے میں کراہیت محسوس کریں۔
بیت الخلا اور وضوگاہ کو کس طرح صاف رکھا جائے، اس کے سلسلے میں نمازیوں کو وقفے وقفے سے تذکیر کرتے رہنا چاہیے، کیوں کہ صفائی کا اہتمام خاص طور سے مسجد اور اس کے متعلقات کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔
مسجد علامہ اقبال کے اس شعر کی عکاس ہو، جو انھوں نے مسجد قرطبہ کی شان میں کہا تھا:
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل
ماحول دوست مسجد کا آئیڈیا
ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ دنیا کو درپیش سنگین ترین مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اس حوالے سے مسجد پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔اسلام کی تعلیمات زمین کی تعمیر اور ماحول کی حفاظت کی ضمانت لیتی ہیں، اس حقیقت کا اظہار مسجد کے ذریعے بخوبی ہوسکتا ہے۔
اس وقت دنیا کے کئی ملکوں میں ماحول دوست مسجدیں بنانے کا آئیڈیا رواج پارہا ہے۔ ایسی مسجدوں میں مسجد کے باہر وسیع سر سبز لان ہوتا ہے۔ آکسیجن مہیا کرنے والے پودے لگائے جاتے ہیں۔ بجلی کے لیے شمسی توانائی کے سسٹم کو استعمال کیا جاتا ہے۔ وضوخانے کے پانی کو محفوظ کرکے درختوں اور سبزے کی آبیاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی کرکے فلٹر کرنے کے بعد وضو اور بیت الخلا کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کی آواز کم سے کم رکھی جاتی ہے۔ دیواریں اور کھڑکیوں کہ شیشے اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ توانائی کا ضیاع نہ ہو۔مسجد میں روشنی کا نظام کم سے سے کم توانائی خرچ کرنے والا ہوتا ہے۔ طہارت خانے میں پانی کا سسٹم ایسا ہوتا ہے کہ پانی کم سے کم خرچ ہو۔ بیت الخلا سے بائیو گیس کے حصول کا انتظام ہوتا ہے۔ جرمنی میں مسجد کے میناروں میں ہوا کے پنکھے لگاکر قابل تجدید توانائی حاصل کرنے کے تجربے بھی کیے جارہے ہیں۔
انڈونیشیا میں ایک ہزار ماحول دوست مسجدوں کو بنانے کے منصوبے پر عمل شروع ہوچکا ہے۔ یوروپ کے کئی ملکوں میں ماحول دوست مسجدیں بنائی گئی ہیں۔ برطانیا میں کیمبرج کی مسجد کو اس پہلو سے قابل تعریف قرار دیا گیا۔ بہرحال ہمیں بھی حسب استطاعت مسجد کو ماحول دوست بنانے کی سمت پیش قدمی کرنی چاہیے۔ نہ صرف یہ کہ مسجد کے منبرسے ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میں شعور بیدار کیا جائے، بلکہ خود مسجد کو ماحولیات کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ ہونا چاہیے۔
عام دنوں میں بھی اور خاص طور سے جمعہ کے دن مسجد آنے والے اپنی گاڑیاں اس طرح پارک کریں کہ دوسروں کو پریشانی نہ ہو، مسجد کے باہر راستو ں پر نماز نہ پڑھی جائے، مسجد کے سامنے بھیک مانگنے والوں اور خوانچہ فروشوں کی بھیڑ دوسرے راہ گیروں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنے، مسجد کے طہارت خانے کا پانی راستے میں نہ بہے۔ مسجد میں اگر اجتماعی کھانے کا پروگرام ہوتا ہو تو مکمل صفائی کی جائے اور مسجد کے اندر یا باہر کہیں بچا ہوا کھانا اور کوڑا کرکٹ نہ رہے۔ غرض ہر پہلو سے مسجد عام آبادی کے لیے باعث رحمت محسوس کی جائے۔
مسجد میں تفریح کا انتظام
سننے میں یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے کہ مسجد میں تفریح کا انتظام کیا جائے۔ قربان جائیے اللہ کے رسول ﷺ پر کہ آپ نے اس کے بارے میں بھی ہمارے لیے بہترین نمونہ چھوڑ ا ہے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک دن ایسا ہوا کہ میں اپنے حجرے کے دروازے پر تھی، حبشہ کے کچھ لوگ مسجد میں کھیل کا مظاہرہ کررہے تھےاور اللہ کے رسول ﷺ مجھے اپنی چادر کی آڑ میں لیے ہوئے تھے اور میں ان کا کھیل دیکھ رہی تھی۔ (صحیح بخاری)
اس دن اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا: یہودی یہ جان لیں گے کہ ہمارے دین میں کشادگی ہے، مجھے روادار دین حنیف کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ (مسند احمد)
امام نسائی نے ان روایتوں کے لیے باب قائم کرتے ہوئے اسے عنوان دیا: اللَّعِبُ فِی الْمَسْجِدِ یوْمَ الْعِیدِ وَنَظَرُ النِّسَاءِ إِلَى ذَلِكَ ’’عید کے دن مسجد میں کھیل ہونا اور عورتوں کا اسے دیکھنا‘‘
مسجد میں اگر شائستہ انداز کی تفریح کا کچھ انتظام ہوتا ہے تو یہ مسجد کی بے حرمتی نہیں ہے،بلکہ مسجدسے ایک اہم دینی پیغام کا اعلان ہے۔ مسجد میں کھیل اور تفریح سے دراصل اسلام کی ایک اہم خوبی کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام زندگی کو خشک اور بے لطف نہیں، بلکہ پرلطف اور مزے دار بناتا ہے۔ اسلام کھیل اور تفریح کا مخالف نہیں ہے، بلکہ وہ اس کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہےاور اس کے مواقع دیتا ہے۔
تفریح کیسی ہو؟ اس کا تعلق عُرف اور رواج سے بھی ہے۔ ہندوستان کے مسلم سماج میں اگر مسجدوں میں موقع بہ موقع حمد و نعت اور حسن قرأت کی مجلسیں سجائی جائیں تو یہ بھی دل و دماغ کو فرحت دینے کی عمدہ شکل ہے۔
ایک بار حضرت حسان بن ثابت ؓ مسجد نبوی میں اشعار پڑھ رہے تھے۔وہاں سے حضرت عمرؓ کا گزر ہوا۔ انھوں نے اعتراض بھری نگاہ سے انھیں دیکھا، اس پر حضرت حسانؓ نے کہا: میں تو اس وقت بھی یہاں شعر پڑھتا تھا جب آپ سے بہتر ہستی یہاں موجود ہوتی تھی۔ (بخاری و مسلم)
صحت مند رکھنے والی ورزشوں کا اہتمام
فروری 2019 کی بات ہے، سوشل میڈیا پر ایک انوکھی خبر ویڈیو اور تصاویر کے ساتھ وائرل ہوئی، جس نے دینی حلقوں میں میں ایک بحث چھیڑ دی۔ عراق کے ایک شہر حلبجہ کی مسجد بہشت میں فجر کی نماز اور اذکار کے بعد نمازی رک جاتے ہیں اور وہیں مسجد کے ہال میں ایک ماہر ریاضت کی نگرانی میں ورزش کرتے ہیں۔ نمازیوں کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ ہماری صحت کے لیے بہت مفید ثابت ہورہا ہے۔
کیا مسجد میں ورزش کا اہتمام کیا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے 2006 میں اسلام ویب نے یہ فتوی جاری کیا ہے:
’’مسجد میں جسمانی ریاضت کرنا جائز ہے، جب کہ اس میں مسلمانوں کا عام فائدہ ہو ‘‘۔ اس کی دلیل کے طور پر حضرت عائشہ کی وہ حدیث ذکر کی گئی ہے، جس میں کچھ حبشی مسجد میں کھیل دکھارہے تھے۔ اس حدیث کی تشریح میں حافظ ابن حجر ؒنے لکھا ہے: ’’اس حدیث میں مسجد میں یہ کھیل کھیلنے کا جواز موجود ہے۔ پھر وہ یہ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ نیزوں کا کھیل تھا، جو محض کھیل نہیں ہوتا، بلکہ اس میں بہادری کی تربیت ہوتی۔ (إسلام ویب: رقم الفتوى: 70720)
اسلام ویب کے ایک اور فتوے میں خواتین کو بھی اس کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر گھر میں یا کہیں اور پردے میں رہ کر اور اختلاط سے بچتے ہوئے ورزش کرنے کا موقع نہ ہو تو عورتیں بھی مسجد میں (عورتوں والے حصے میں) ورزش کرسکتی ہیں۔ (إسلام ویب رقم الفتوى: 63716)
شہروں کی گھنی آبادیوں میں اور چھوٹے بند مکانات میں رہنے والے مرد و خواتین کے لیے ورزش بہت ضروری ہوتی ہے،لیکن اس کے لیے مناسب کشادہ جگہ نہیں ہوتی ہے۔ مسجد کے کشادہ ہال کو اگر خالی اوقات میں اس کے لیے استعمال کیا جائے تو کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا ہے۔
مشہور عالم و مفتی شیخ عبداللہ بن بازؒ نے بھی اپنے ایک فتوے میں اس کی اجازت دی ہے، اس شرط کے ساتھ کہ اس کی وجہ سے مسجد کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
بہرحال اگر مسجد کے احاطے میں کشادہ جگہ ہو اور اس میں ورزش کے لیے جم بنادیا جائے، تو وہ بھی نوجوانوں کو مسجد سے جوڑنے میں معاون ہوگا۔ اس کے علاوہ بوڑھوں اور کم زوروں کے لیے فٹنس سے جڑی رہ نمائی اور سہولیات بھی ہونی چاہئیں۔
بچوں کے لیے مسجد میں کشش پیدا کریں
ایک مسجد میں ہر ہفتے بچوں کا پروگرام ہوتا ہے، اس میں دینی معلومات سے متعلق مقابلہ ہوتا ہے، اور کام یاب بچوں کو انعامات نیز تمام شریک بچوں کو ٹافیاں دی جاتی ہیں۔
ایک اور مسجد میں ایک صاحب کا معمول ہے کہ وہ فجر اور عصر میں آنے والے تمام چھوٹے بچوں کو ٹافیاں بانٹتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں بہت سی مسجدیں وہ ہیں جہاں چھوٹے بچوں کو شدید قسم کی روک ٹوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ بڑوں کی جھڑکیوں کہ ڈر سے مسجد جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
مسجد کو ہر طرح سے بچوں کے لیے پرکشش ہونا چاہیے۔ وہی تو مستقبل میں مسجد کو آباد کرنے والے ہوں گے۔ مسجد میں ایسا ماحول ہو کہ آنے والے بچوں کو خوب شاباشی ملے، ان کے لیے دوستانہ ماحول ہو، ان کی بہت سی حرکتوں سے صرف نظر کیا جائے اور انھیں محبت سے سمجھایا جائے۔
اس میں کوئی حرج نہیں کہ چھوٹے بچوں کے لیے مسجد کے اندر اور بڑے بچوں کے لیے مسجد کے باہر لان میں کچھ کھیل اور تفریح کا سامان ہو۔
مسجد کی بعض دیواروں پر جہاں نمازیوں کی نگاہ نہ جاتی ہو، بچوں کے لیے دل چسپ اخلاقی کہانیاں چسپاں کی جاسکتی ہیں۔ ان کے لیے وائٹ بورڈ پر دینی معلومات لکھی جاسکتی ہیں۔ نماز کے بعد بچوں کو الگ جمع کرکے دل چسپ اخلاقی کہانیاں سنائی جائیں تو ان کی تربیت بھی ہوگی اور مسجد میں ان کا دل بھی لگے گا۔ جمعہ کے خطبے میں کچھ باتیں اتنی آسان فہم اور دل کو لگتی ہوئی ہوں کہ وہ بچوں کو یاد رہ جائیں۔
بچوں کے تربیتی تفریحی پروگرام بھی مسجد میں کیے جاسکتے ہیں۔ خاص طور سے موسم گرما کی طویل تعطیلات میں بچوں کے لیے سمر کیمپ لگائے جائیں، جن میں تفریح کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم دی جائے۔
افراد کی تیاری ضروری ہے
اگر آپ کسی مسجد کو اس عظیم کردار کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے تو اس کے لیے مناسب طریقہ یہ ہے کہ آپ مسجد کے متولی، اس کی انتظامی کمیٹی، امام و مؤذن اور مستقل نمازیوں کو اس کے لیے آمادہ کریں۔ جب مسجد کی رائے عامہ اس کے لیے ہم وار ہوجائے گی تو یہ کام آسان ہوجائے گا۔
یہ کوشش بہت حکیمانہ طریقے سے ہونی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کوشش کے سبب مسجد نزاعات کا شکار ہوجائے۔ جہاں اس کی اہمیت ہے کہ مسجد کا سماج میں بڑا کردار ہو وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ مسجد میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم رہے۔ اگر تدریج کے ساتھ اس راستے میں آگے بڑھا جائے تو امید ہے کہ بہتر نتائج کی بنا پر باقی چیزوں کو قبول کرنا آسان ہوجائےگا۔ ضروری نہیں کہ مذکورہ بالا تمام تجاویز کو اختیار کیا جائے، ان میں سے جن نکات پر اتفاق ہوجائے انھیں اختیار کرلیا جائے۔
مسجد کو مطلوبہ کردار تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں کی فکری اور اخلاقی سطح بلند کی جائے جنھیں اس کردار میں عملی طور پر شریک رہنا ہے۔
مسجد کے امام اور مدرسین اپنی علمی سطح کو بلند کرنے کی مستقل کوشش کرتے رہیں۔ اپنی ابلاغی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی تدبیریں بھی کریں۔ مسجد کے ائمہ و مدرسین کے لیے تربیت کے خصوصی کورس چلانے چاہئیں۔ ان کے علم کی سطح بلند ہوگی اور صلاحیتیں ترقی پائیں گی تو وہ اپنا مطلوبہ کردار بہتر طریقے سے ادا کرسکیں گے۔ مسجد کے فنڈ کا ایک حصہ اس مد میں خرچ کرنا چاہیے۔
مسجد صالح افراد کی تیاری کا بہترین کارخانہ ہے، اس کےاس کردار کی علامہ یوسف قرضاویؒ نے خوب عکاسی کی ہے:
ولا یصنع الأبطال إلا فی مساجدنا الفساح فی روضة القرآن فی ظل الأحادیث الصحاح
فی صحبة الأبرار ممن فی رحاب الله ساح من یرشدون بحالهم قبل الأقاویل الفصاح
(بطلِ جلیل کشادہ مسجدوں میں تیار ہوتے ہیں، قرآن کے چمنستان میں اور صحیح حدیثوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں۔ نیک لوگوں کی صحبت میں جو اللہ کی عطا کی ہوئی وسعتوں میں سیاحت کرتے ہیں اور جو اپنی فصیح باتوں سے پہلے اپنے حسین کردار سے نصیحت فرماتے ہیں۔ )n
نوٹ: اس مضمون میں جو نکات پیش کیے گئے ہیں، ان پر اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے، آپ کی آرا کا استقبال ہے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2023