اس سے قبل ان سطور میں جدید استعمار کا تذکرہ کیا جاچکا ہے جس نے اس وقت پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ تاریخ کے موجودہ مرحلے میں استعماری طاقتیں نئے عالمی نظام کے علمبردار کی حیثیت سے سامنے آئی ہیں۔ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ عالم گیر ہونے کے باوجود، استعماری منصوبوں کا خادم یہ نظام — عام انسانوں کو انصاف فراہم نہیں کرتا بلکہ ان کی محرومی میں اضافہ کرتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ استعماری نظام سے نجات پانےکے لیے انسانوں کا ہدایتِ الٰہی کی طرف مخلصانہ رجوع ناگزیر ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ انسانوں کو ان کے خالق و مالک کی ہدایت، ان برگزیدہ بندگانِ خدا کے ذریعے سے ملتی رہی ہے، جن کو انبیاء اور رُسل کہا جاتا ہے۔ الٰہی ہدایت پر مبنی نظام کی بنیادی صفت عدل اور تمام انسانوں کے حقوق کا احترام ہے (اور اس کے برعکس استعماری نظام کا بنیادی وصف، انسانوں کا استحصال ہے)۔ انبیاء و رسل کے سلسلے کی آخری کڑی حضرت محمد ﷺ ہیں۔ آپ کی آمد سے تاریخ کے اس مرحلے کا آغاز ہوتا ہے، جس میں منصفانہ عالمی نظام کا قیام ممکن بھی ہے اور ضروری بھی ۔
نبی کریم ﷺ تاریخ کے آخری دور میں تشریف لائے۔ یہ بات آپ کے ارشادِ مبارک کے اُس اشارے میں پوشیدہ ہے جہاں آپ نے بتایا کہ آپ کی آمد کے بعد پیش آنے والا اہم واقعہ بَس قیامت ہی ہے۔ آپ کی نبوت پر نبیوں کا سلسلہ مکمل ہوگیا۔ گویا انسانی قافلہ اپنے سفر کے آخری مرحلے میں داخل ہوگیا۔ یہ خصوصیت خود آپ کی نبوت کے عالمی ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے، لیکن آپ نے صراحتاً بھی یہ بات بتائی کہ آپ کی بعثت تمام انسانوں کے لیے ہے۔ تاریخ کے اس آخری دور اور انسانی تاریخ کے بالکل ابتدائی دور میں اس اعتبار سے مماثلت پائی جاتی ہے کہ ابتدائی دور میں انسانیت ایک تھی۔ اور اب حالات کا رخ بتاتا ہے کہ تاریخ کے آخری مرحلے میں بھی انسانیت ایک ہوجائے گی۔ یہ بات کہ ابتدائی دور میں انسانیت متحد تھی قرآنِ مجید کے اس ارشاد سے معلوم ہوتی ہے: کان الناس امۃ واحدۃ۔ (ابتداء میں سارے انسان ایک ہی امت تھے)۔
یہ ابتدائی امتِ دینِ فطرت — اسلام— پر قائم تھی۔ اب اس آخری دور میں انسانیت کا قافلہ پھر اتحاد کی طرف گامزن نظر آتا ہے اور ارشاداتِ رسول کے اشارے بتاتے ہیںکہ یہ آخری منزل بھی اسلام کی روشنی میں منور ہوگی اور امتِ واحدہ کا منظر ایک بار پھر سامنے آئے گا۔
فطری طور پر انسان چاہتا ہے کہ امن و سکون کی زندگی گزارے۔ یہ امن اسے انفرادی اور ذاتی سطح پر بھی مطلوب ہے اور اجتماعی اور سماجی سطح پر بھی۔ انسان کی ان دونوں ضرورتوں کو اسلام درست سمجھتا ہے اور ان کی تکمیل کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ذاتی زندگی میں انسان کو قلبی سکون اللہ کی یاد سے حاصل ہوتا ہے:
الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب۔
’’بے شک انسانی قلوب اللہ کے ذکر ہی سے سکون پاتے ہیں۔‘‘
ذاتی و انفرادی زندگی میں انسان اللہ کی عبادت و بندگی کی راہ اختیار کرکے سکون حاصل کرسکتا ہے۔ اور قرآنِ مجید کے الفاظ میں ’’حیاتِ طیبہ‘‘ گزار سکتا ہے۔ سماجی و اجتماعی زندگی میں انسان کو سکون اس وقت حاصل ہوتا ہے جب معاشرے میں معروف کا چلن ہو، منکرات مٹ جائیں، حکمرانی و قیادت صالح اور باکردار افراد کے پاس ہو، عدل و انصاف قائم ہو اور حدود اللہ نافذ ہوں۔ معاشرے کو اس معیار پر لانے کے لیے اہلِ ایمان کو جدوجہد کرنی ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت میں ہمیں یہ جدوجہد نظر آتی ہے۔ آپ نے دعوت الی اللہ سے اپنے پیغمبرانہ کام کا آغاز کیا اور زندگی کے آخری مرحلے کے آنے سے قبل آپ ایک صالح معاشرے کے قیام میں کامیاب ہوچکے تھے۔ صالح معاشرے کے قیام تک جن مراحل سے آپ گزرے اُن میں قیامت تک اہلِ حق کے لیے رہنمائی موجود ہے۔
سماجی و اجتماعی زندگی کا آغاز خاندان سے ہوتا ہے پھر اس کا دائرہ ایک بستی اور شہر تک پھیل جاتا ہے۔ مزید وسعت اختیار کرکے پورے ملک تک اجتماعی زندگی وسیع ہوجاتی ہے۔ اب ٹکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کی ترقی کے نتیجے میں اجتماعی زندگی کی وسعتوں نے پوری دنیا کا احاطہ کرلیاہے۔ چنانچہ اب ایک عام انسان کی نظر بھی ساری دنیا تک پھیل چکی ہے، لیکن جہاں تک خدا پرست اہلِ نظر کا تعلق ہے تاریخ کے پچھلے ادوار میں بھی اُن کی نظر ساری دنیا کو اپنے احاطے میں لے لیتی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
انی جاعلک للناس اماماً۔
’’اے ابراہیم! میں تم کو سارے انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔‘‘
یعنی ابراہیم علیہ السلام کو کسی ایک علاقے، قوم یا نسل کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا امام قرار دیا گیا۔ آپ نے بیت اللہ کی تعمیر کی اور آپ کو ہدایت کی گئی کہ سارے انسانوں کو حج کے لیے اللہ کے گھر کی طرف بلائیں۔اس مثال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہلِ بصیرت کی نگاہ تو ہر دور میں پورے عالم تک وسیع تھی۔ البتہ آج ایک عام شخص کی نگاہ بھی اس وسعت کوتلاش کرسکتی ہے۔ چنانچہ جس اجتماعی زندگی میں انسان کو امن وانصاف کی تلاش ہے وہ کسی ایک ملک یا قوم تک محدود نہیں رہ گئی ہے، بلکہ پوری دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ بالفاظِ دیگر اجتماعی زندگی میں امن سے مراد آج کے سیاق میں امنِ عالم ہے۔ اس لیے کہ پوری دنیا اب ایک سماج بن چکی ہے۔
عالمی صورتِ حال
جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے ابتدائی تاریخ میں انسان متحد تھے، لیکن یہ صورتِ حال زیادہ عرصے برقرار نہ رہ سکی۔ انسانی برادری قوموں میں بٹ گئی اور یہ تقسیم صرف پہچان کی حد تک محدود نہیں رہی بلکہ فی الواقع مختلف اقوام کے درمیان تصادم شروع ہوگیا۔ انسان نے گرچہ تمدنی اور سماجی زندگی گزاری اور اس زندگی کے لازمی تقاضے کے طور پر ذاتی اغراض کے مقابلے میں معاشرتی فلاح کو ترجیح دینا سیکھ لیا لیکن اس اعلیـ صفت کا اطلاق عموماًصرف ایک قوم کے حدود میں محدود رہا۔ پورے عالم کے سماج کو انسان اپنا سماج نہ سمجھ سکا۔ یہ صورتِ حال آج بھی باقی ہے۔ قدیم دور میں انسان اچھی اخلاقی صفات کے مظاہرے کو اپنے قبیلے تک محدود رکھتا تھا۔ اب قبیلے کی جگہ ملک نے لے لی ہے۔ اس صورتِ حال میں عالمی سطح پر امن وانصاف کے حصول کے سوال پر غور کرنے سے قبل خود منصفانہ عالمی نظام کی تعریف متعین کرنا ضروری ہوگیا ہے:
(الف)اصولاً معیار مطلوب یہ ہے کہ انسانی معاشرہ ایک بار پھر متحد ہوجائے اور عدل و انصاف پر مبنی آفاقی تصورات کی حامل ایک عالم گیر ریاست کا قیام عمل میں آئے۔ یہ عالمی نظام کی معیاری شکل ہوگی۔ چاہے یہ منزل کتنی ہی دور نظر آئے لیکن عالمی امن وانصاف کے متلاشیوں کو یہ معیار سامنے رکھنا چاہیے۔ واقعی صورتحال کے درست مطالعے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ مطالعہ کرنے والے کی نگاہ وسیع ہو۔
(ب)لیکن یہ ظاہر ہے کہ اصولاً عالمی امن وانصاف کی مندرجہ بالا تعریف چاہے صحیح ہو لیکن حقیقت واقعہ اس سے بہت دور ہے۔ عالم گیر ریاست کے بجائے آج دنیا متعدد ملکی ریاستوں Nation Statesمیں منقسم ہے۔ اس صورتِ حال میں عالمی نظام کی ایسی تعریف کی ضرورت ہے، جوممکن الحصول ہو۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تعریف میں تین اجزاء شامل ہیں۔
(i) آفاقی تصورِ کائنات اور تصورِ انسان۔
(ii) بین الاقوامی قانون
(iii) اقوامِ عالم کے تعلقات کو درست رکھنے کے لیے ضابطۂ اخلاق۔
سیرتِ طیبہ کی رہنمائی ان تینوں پہلوؤں میں ہماری مدد کرتی ہے۔
عالمی انسانی معاشرے کا تصور
نبی کریم ﷺ نے اپنی رسالت کے اعلان کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ آپ کو سارے عالم کے لیے رسول بناکر بھیجا گیا ہے۔ آپ کا پیغام کسی ایک قوم یا ملک کے لیے محدود نہ تھا۔ دعوت کی یہ عالم گیری صرف اصولی حد تک نہ تھی بلکہ دعوت قبول کرنے والوں پر مشتمل جو امت وجود میں آئی وہ بھی آفاقی اور عالم گیر امت تھی۔ عالمی انسانی معاشرے کے واضح تصور کی جھلکیاں ہمیں سیرتِ طیبہ اور خلافتِ راشدہ میں ملتی ہیں۔ خلافتِ راشدہ کے دور کے واقعات کو معنوی اعتبار سے سیرتِ طیبہ ہی کا ایک پہلو سمجھا جانا چاہیے اس لیے کہ آپ نے اپنی سنت کی پیروی کی جو ہدایت فرمائی ہے اس میں خلفائے راشدین کی سنت کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ عالمی انسانی معاشرے کے عکاس، سیرت کے چند پہلوؤں کا تذکرہ ذیل کی سطور میں کیا جارہا ہے:
(الف)نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے والے صرف مکہ کے عربی الاصل باشندے نہ تھے بلکہ اُن میں سلمان فارسی، صہیب رومی اور بلال حبشیؓ جیسے اصحاب کرام بھی شامل تھے۔ اسلامی معاشرے میں ان سب کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان سب کو اعلیٰ سے اعلیٰ خدمات کا اہل سمجھا گیا۔ ذمہ دارانہ مناصب ان کے سپرد کیے گئے اور ان کو نمایاں مقام دیا گیا۔
(ب)دعوت کی فطری ترتیب یہی تھی کہ ام القریٰ مکہ معظمہ کے باشندوں کو پہلے خطاب کیا جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا لیکن جب وہاں مواقع مسدود ہوتے نظر آئے تو نبی ﷺ نے متعدد مقامات کے قبائل سے ربط قائم کیا اور دعوتِ اسلامی کے لیے اُن کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ان مقامات میں طائف اور یثرب قابلِ ذکر ہیں۔ طائف میں آپ کو سخت آزمائش سے گزرنا پڑا اور یثرب کے قبائل اوس اور خزرج نے آپ کی مدد کی۔ چنانچہ آپ نے یثرب کی طرف ہجرت فرمائی۔ بہرصورت دعوتِ اسلامی پر مکہ والوں یا قریش کی کوئی اجارہ داری نہ تھی جس کا خیال رکھا گیا ہو یا جس کی رعایت کی گئی ہو۔
(ج) مدینے میں اسلامی ریاست کے استحکام کے بعد آپؐ نے اس وقت کی متمدن دنیا کے قابلِ ذکر حکمرانوں کو دعوتی خطوط لکھے۔اُن سے جو بات کہی گئی وہ اللہ کی بندگی قبول کرنے کی دعوت تھی۔ اس میں عربوں کی حکمرانی کے تصور کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ مخاطبین پر یہ امر بالکل واضح کردیا گیا تھا کہ دعوت قبول کرنے کی صورت میں وہ بالکل برابر کے حقوق کے ساتھ امتِ مسلمہ کا جز بن سکیں گے۔
(د)آخری حج کے موقع پر آپ کا خطبہ حقوقِ انسانی مشہورکا عالم گیر چارٹر ہے۔ اس کی بلندی، آفاقیت اور عالم گیری کا ہم پلّہ کوئی دوسرا نمونہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔
(ہ)خلافتِ راشدہ ایک عالمی ریاست تھی، جس میں مختلف قوموں،نسلوں، علاقوں اور ملکوں کے افراد یکساں حیثیت میں شامل تھے۔ اس عالمی ریاست میں موجودہ دور کی نیشن اسٹیٹس کی تنگ نظری کا شائبہ تک نہ تھا۔ معلوم تاریخ میں یہ پہلی عالم گیر ریاست تھی ورنہ اس سے پہلے دنیا صرف قبائلی طرز کی سیاسی ہیئتوں سے یا کسی خاص نسل کی حکمرانی پر مبنی ریاستوں سے واقف تھی۔ خلافتِ راشدہ کی عالمی ریاست میں وہ اصول عملاً برت کردکھائے گئے جو آفاقی تصور کی علامت ہیں، یعنی انسانی و آفاقی مشن کی علمبرداری، عصبیتوں سے پاک طرزِ حکمرانی، قانون کے نفاذ میں یکسانیت، سب کے ساتھ عدل، اطاعت کے لیے معروف کی شرط، شورائیت کا اہتمام اور حکمرانوں کے احتساب کی آزادی۔ گرچہ خلافتِ راشدہ کی مدت مختصر رہی، بعض اسباب یعنی نومسلموں کی تربیت کا خاطر خواہ نظم نہ ہوسکنے کی بنا پر اور بعض عناصر کی سازش کی وجہ سے خلافت اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ قائم نہ رہ سکی، لیکن اس کا نمونہ اہلِ اسلام کے ذہنوں اور قلوب پر ہمیشہ کے لئے نقش ہوگیا۔ بعد کی تاریخ کے مسلمان حکمرانوں کے طرزِ عمل کو اسی معیار پر رکھا گیا۔ امتِ مسلمہ کے اندر زوال کے باوجود خلافتِ راشدہ کے احیا کی تمنا باقی رہی اور اس سمت میں کوششیں تاریخ کے ہر دور میں جاری رہیں۔
آفاقی تصورِ کائنات
نبی کریم ؐ کی دعوت کا اساسی نکتہ توحید ہے یعنی تنہا ایک اللہ عبادت کے لائق ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ توحید پر ایمان لانے والوں کے ذہن و دماغ خود بخود عالم کی وحدت کے تصور سے آشنا ہوجاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اکیلا ایک خدا اس کائنات پر حکمراں ہے۔ اس لیے پوری کائنات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ زمین اس کائنات کا ایک جز ہے جس میں اللہ نے اپنے خلیفہ، انسان کو آباد کیا ہے۔ توحید کے قائل افراد اس پوری زمین کو انسانیت کی مشترکہ میراث سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس زمین پر اللہ کی بندگی ہونی چاہیے۔ قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے:
ان ارضی واسعۃ فایای فاعبدون۔
’’بے شک میری زمین بڑی وسیع ہے، پس تم میری ہی بندگی کرو۔‘‘
یعنی اگر زمین کے ایک حصے میں اللہ کی بندگی ممکن نہ ہو تو اہلِ ایمان کو چاہیے کہ دوسری جگہ ہجرت کرجائیں۔ وطن اور اہلِ وطن کی محبت اس ہجرت میں مانع نہیں ہونی چاہیے۔ بقولِ اقبالؔ ؎
ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزادِ وطن، صورتِ ماہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
ہے ترکِ وطن سنت محبوبِ الٰہی
نبی کریم ﷺ کے صحابۂ کرام نے پوری زمین کو اپنا وطن سمجھا۔ آپ نے حبشہ ہجرت کرنے کا مشورہ دیا تو ایک قابلِ ذکر تعداد نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ حبشہ میں انھوں نے دعوتِ اسلامی کا فریضہ انجام دیا بعدمیں مدینہ کے دارالاسلام کی طرف اہل ایمان نے ہجرت کی۔ اپنے دین پر قائم رہنے کے لیے ان سب نے بخوشی ترکِ وطن کی مشکلات کو برداشت کیا مگر کسی حال میں اپنے مشن سے غفلت نہیں برتی۔
بعد کے مراحل میں تبلیغ حق کے لیے اور جہاد کے لیے متعدد بار دور دراز کے علاقوں میں جانے اور کم یا زیادہ مدت کے لیے وہاں قیام کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ ایسے ہر موقع پر صحابہ کرام نے مستعدی کا ثبوت دیا اور اجنبی علاقوں کی طرف جانے کے لیے با آسانی آمادہ ہوگئے۔ صحابہ کرام کے بعد مسلمانوں کی آئندہ نسلوں نے اس طرزِ عمل کو جاری رکھا اور دنیا کو اسلام کے پیغام سے آشنا کرایا۔ یہ سب کچھ اس دور میں ہوا جب سفر کوئی آسان کام نہ تھا ؎
دیں اذانیں کبھی یوروپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
وحدتِ آدم
قرآنِ مجید کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ (الحجرات:۱۳)
’’اے انسانو! ہم نے تم کو ایک ماں باپ سے پیدا کیا اور پھر تمہاری برادریاں اور قبائل بنادیے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک تم میں اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرتا ہے۔‘‘
نبی ﷺ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ’’کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فوقیت نہیں ہے، سوائے تقویٰ کے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔‘‘
انسانوں کی وحدت کے اس تصور کے ساتھ سارے انسانوں کو قابلِ احترام ٹھہرایا گیا۔
لقد کرمنا بنی آدم۔
’’بے شک ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے۔‘‘
اس عزت میں ہر انسان شریک ہے۔ کسی کو انسانی عزوشرف سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
نبی کریم ﷺ کی قائم کردہ ریاست میں سارے انسانوں کو اُن کے انسانی حقوق دیے گئے۔ خلافتِ راشدہ میں ان انسانی حقوق کا احترام جاری رہا۔ یہ حقوق صرف مسلمانوں ہی کو نہیں ذمیوں کو بھی دیے گئے۔ چند حقوق درج ذیل ہیں:
زندہ رہنے کا حق، نجی زندگی کے تحفظ کا حق، عقیدہ و ضمیر کی آزادی، آئندہ نسلوں کی اپنے دین کے مطابق تعلیم و تربیت کاحق، شخصی قوانین (پرسنل لا) پر عمل کا اور ان کے تحفظ کا حق، مذہبی دل آزاری سے تحفظ کا حق، ظلم کے خلاف احتجاج کا حق، قانون کی نظر میں یکسانیت، معاشی جدوجہد کا حق، بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل کی ضمانت اور حکمرانوں کے احتساب کا حق۔
قرآنِ مجید نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا کسی خاص نسل سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ تمام انسانوں کا آقا و مالک ہے۔ جو بھی ایمان اور عملِ صالح کی روش اختیار کرے گا کامیاب ہوگا۔ جس کی روش اس کے برعکس ہوگی وہ ناکام و نامراد ہوگا:
والعصر ان الانسان لفی خسر الاَّ الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر۔
’’زمانہ گواہ ہے کہ انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک کام کرتے رہے، جنھوںنے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔‘‘
پھر یہ واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو ہدایتِ الٰہی سے محروم نہیں کیا۔ تخلیقِ انسان سے قبل اس نے پوری نوعِ انسانی کی روحوں سے یہ سوال پوچھا تھا: الست بربکم (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟) سب کا جواب قرآن نے نقل کیا ہے: قالوا بلیٰ (سب نے جواب دیا کہ بے شک آپ ہمارے رب ہیں)۔ پھر انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ نے زمین پر رسالت کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر قوم کو اس سلسلے سےفیض پہنچا۔ وہاں یا تو رسول آئے یا اُن کے نمائندے پیغامِ حق لے کر پہنچے۔قرآن کے مطابق پوری انسانی تاریخ کو اللہ نے درسِ عبرت بنایا ہے۔ ہر قوم کے واقعات میں نوعِ انسانی کے لیے سبق ہے۔ تمام انسانوں کے لیے عروج و زوال کے قوانین یکساں ہیں۔
ان اللّٰہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسہم۔
’’اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنی حالت کو نہیں بدل دیتی۔‘‘
قرآنِ مجید نے پچھلی قوموں کے واقعات بیان کیے ہیں اور حق و باطل کی عالمگیر کشمکش کا نقشہ کھینچا ہے۔ قرآنِ مجید پر ایمان لانے والا انسانیت کی اس سرگزشت کو پڑھتا ہے۔ تو خود بخود اس کا وجدان وحدتِ بنی آدم کے تصور سے آشنا ہوتا چلا جاتا ہے۔
نبی ﷺ نے دینِ حق پر ایمان لانے والوں میں وحدتِ آدم کا زندہ شعور پیدا کیا۔ اہلِ ایمان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ محض آخری نبی پر نہیں بلکہ سارے نبیوں پر ایمان لائیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں اور تاریخ کے مختلف ادوار میں مبعوث ہوئے تاکہ وہ اس عالم گیر قافلہِ حق کا حصہ بن جائیں، جس میں تمام نسلوں اور قوموں کے خدا پرست انسان شامل ہیں:
إن ہذہ امتکم واحدۃ وانا ربکم فاعبدون وتقطعوا امرہم بینہم کل الینا راجعون۔ (الانبیاء: ۹۲-۹۳)
’’یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں۔ پس تم میری ہی عبادت کرو۔ مگر (یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ) انھوںنے آپس میں اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔ (بالآخر) سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔‘‘
اس آفاقی تصورِ انسان کے برعکس، آج کی دنیا میں انسانوں کے آپس کے میل جول کے باوجود دنیا قوموں میں بٹ چکی ہے۔ انسان ایک دوسرے سے ملتے ضرور ہیں مگر مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی حیثیت سے ملتے ہیں۔ ایک عالم گیر برادری اور ایک عالمی خاندان کے ارکان کے طور پر نہیں ملتے۔ محض اُن کی مادّی اغراض اُن کو اکٹھا اور جدا کرتی ہیں۔
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم
مکّے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام یا جمعیتِ آدم
(اقبالؔ)
بین الاقوامی قانون
اللہ کو حاکم ماننے والی عالم گیر ریاست کا قیام کی منزل بظاہر ابھی دُور نظر آتی ہے۔ اس سے قبل دنیا میں عملاً جو بہت سی حکومتیں موجود ہوں گی ان کے مابین معاملات کو بین الاقوامی قانون کا پابند ہونا چاہیے۔ قرآنِ مجید اور سیرتِ طیبہ کے نمونے سے اس بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصول ہمیں معلوم ہوجاتے ہیں۔ ماضی کے مسلمان اہلِ علم اصحاب نے ان اصولوں کی اساس پر بین الاقوامی قانون ترتیب دیا۔ آج کے حالات میں اس قانون میں مزید ارتقاء کی گنجائش موجود ہے۔ اس قانون کی امتیازی خوبی یہ ہے کہ اس میں غایت درجہ کا اعتدال اور حقیقت پسندی موجود ہے۔ آج کی دنیا اس قانون سے فائدہ اٹھا کر منصفانہ عالمی نظام کی منزل کو حاصل کرسکتی ہے۔ اس قانون کا دوسرا امتیاز یہ ہے کہ اس کو شریعتِ الٰہی کی سند حاصل ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے کسی چارٹر کو یہ امتیاز حاصل نہیں ہوسکتا۔ سیرتِ طیبہ کے تعامل کی روشنی میں بین الاقوامی قانون کی درج ذیل کلیدی دفعات سامنے آتی ہیں:
(الف) بطورِ واقعہ ان تمام حکومتوں کو تسلیم کیا جائے گا جو دنیا کے مختلف علاقوں میں موجود ہوں اور ان سے معاملہ اُن معاہدات کے مطابق ہوگا، جو اُن کے ساتھ کیے گئے ہوں۔ اگر کہیں صراحتاً کوئی معاہدہ موجود نہ ہو تب بھی اس مملکت کے ساتھ صلح و آشتی کا تعلق سمجھا جائے گا۔ الَّا یہ کہ اس کی طرف سے صلح و آشتی کے مغائر جارحانہ کارروائیاں سامنے آئیں۔ بین الاقوامی قانون کی یہ ابتدائی دفعہ ریاستوں کے باہمی تعلقات کو قانونی بنیاد عطا کرتی ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں بین الاقوامی تعلقات لاقانونیت کے شکار رہے ہیں۔ اس فضا کو ختم کرنے میں اسلام کی مذکورہ تعلیم نے اہم رول ادا کیا ہے۔
(ب)مسلمانوں کے آپس کے تعلقات باہمی ولایت کے ہیں۔ ولایت کی اصطلاح کی تشریح کرتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں:
’’ولایت کا لفظ عربی زبان میں حمایت، نصرت، مددگاری، پشتیبانی، دوستی، قرابت، سرپرستی اور اس سے ملتے جلتے مفہومات کے لیے بولا جاتا ہے۔ (سورہ انفال کی) اس آیت کے سیاق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے اور شہریوں کا اپنی ریاست سے اور شہریوں کے درمیان آپس میں ہوتا ہے۔ پس (سورہ انفال کی) یہ آیت دستوری و سیاسی ولایت کو اسلامی ریاست کے ارضی حدود تک محدود کردیتی ہے اور ان حدود سے باہر کے مسلمانوں کو اس مخصوص رشتے سے خارج قرار دیتی ہے۔‘‘ (ترجمہ قرآن مجید، سورہ انفال، حاشیہ۲۵)
(ج)مندرجہ بالا تشریح کے مطابق ولایت کے رشتے کے سیاسی و قانونی پہلو کا اطلاق صرف اسلامی ریاست کے مسلمان شہریوں پر ہوگا۔ البتہ ’’دینی اخوت‘‘ کے تقاضے ریاست کے باہر کے مسلمانوں کے سلسلے میں بھی پورے کیے جائیں گے۔ مولانا مودودیؒ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دارالاسلام سے باہر رہنے والے مسلمانوں کو ’’سیاسی ولایت‘‘کے رشتے سے خارج قرار دیا گیا تھا۔ اب یہ آیت اس امر کی توضیح کرتی ہے کہ اس رشتے سے خارج ہونے کے باوجود وہ ’’دینی اخوت‘‘کے رشتے سے خارج نہیں ہیں۔ اگرکہیں اُن پر ظلم ہورہا ہو اور وہ اسلامی برادری کے تعلق کی بناپر دارالاسلام کی حکومت اور اس کے باشندوں سے مدد مانگیں تو ان کا فرض ہے کہ اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کریں… (البتہ) ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دھند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں اوراخلاقی حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جاسکے گا۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دارالاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جاسکے گی جو معاہدات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو۔‘‘ (ایضاً، حاشیہ ۲۶)
(د)جب خلافتِ راشدہ کا نظام باقی نہیں رہا تو اسلامی مملکت رفتہ رفتہ متعدد ریاستوں میں بٹ گئی۔ یہ صورتِ حال نامطلوب تھی چنانچہ مخلص افراد ہر دور میںاحیائِ خلافت کے لیے کوشاں رہے۔ اس کوشش کے پہلو بہ پہلو ولایت بین الالمسلمین کی اصولی تعلیمات کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں کی متعدد ریاستیں قائم رہیں ان کے باہمی تعلقات برادرانہ تعاون کے ہوں۔ اگر اختلافات اور تنازعات پیدا ہوں تو تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کو دور کیا جائے اور انصاف کے ساتھ صلح کرائی جائے۔ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے:
’’اور اگر اہلِ ایمان میں سے دو گروہ باہم لڑجائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو اُن کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو۔ اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔‘‘(سورہ الحجرات: ۹-۱۰)
آیتِ بالا کی تشریح میں مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
’’یہ نہیں فرمایا کہ ’’جب اہلِ ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑیں‘‘ بلکہ (یہ) فرمایا ہے کہ ’’اگر اہلِ ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑجائیں۔‘‘ ان الفاظ سے یہ بات خود بخود نکلتی ہے کہ آپس میں لڑنا مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے اورنہیں ہونا چاہیے۔ نہ ان سے یہ امر متوقع ہے کہ وہ مومن ہوتے ہوئے آپس میں لڑا کریں گے۔ البتہ اگر کبھی ایسا ہوجائے تو وہ طریقِ کار اختیار کرنا چاہیے (جس کی ہدایت دی جارہی ہے)۔‘‘ (ایضاً، سورہ حجرات، حاشیہ:۵)
(ہ)ولایت بین المسلمین کا یہ تقاضا بھی ہے کہ اگر کوئی مسلمان مملکت جارحیت کا شکار ہو تو قریبی مسلمان ممالک اس کی مدد کریں۔ اگر اُن کی مدد کافی نہ ہو تو دور کے مسلمان ممالک کو بھی مدد کرنی چاہیے۔البتہ یہ مدد اخلاقی حدود اور بین الاقوامی معاہدوں کی رعایت کرتے ہوئے ہی کی جاسکے گی۔
(و)اسلام جنگ کے بجائے صلح کو ترجیح دیتا ہے، اس لیے اسلام کے قانون کی اہم دفعہ یہ ہے کہ اگر کوئی قوم مسلمانوں کے ساتھ صلح کی طرف مائل ہو تو صلح کرلی جائے اور بلا وجہ جنگ پر اصرار نہ کیا جائے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
’’اور اے نبی! اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقینا وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمہارے لیے اللہ کافی ہے۔ وہی تو ہے، جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمہاری تائید کی۔‘‘ (الانفال: ۶۱-۶۲)
(ز)معاہدہ ہوجانے کے بعد کوئی قوم اپنے قول یا عمل سے اُس کی خلاف ورزی کرے تو اس کے ساتھ معاہدہ باقی نہیں رہے گا۔ اور مسلمان مملکت اس کے خلاف جنگی کارروائی کرسکتی ہے، قرآنِ مجید کا ارشاد ہے:
’’یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں، جنھوں نے حق کو ماننے سے انکا رکردیا پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں (خصوصاً) اُن میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا پھر وہ ہرموقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے۔ پس اگر یہ لوگ تمہیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لو کہ ان کے بعد دوسرے جو لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں اُن کے حواس باختہ ہوجائیں۔ توقع ہے کہ بدعہدوں کے اس انجام سے وہ سبق لیں گے اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔ منکرینِ حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے۔ یقینا وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے۔‘‘ (الانفال، ۵۵-۵۹)
اس کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی قوم سے ہمارا معاہدہ ہوا اور پھر وہ اپنی معاہدانہ ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر ہمارے خلاف کسی جنگ میں حصہ لے، تو ہم بھی معاہدے کی اخلاقی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجائیں گے اور ہمیں حق ہوگا کہ اس سے جنگ کریں۔ نیز اگر کسی قوم سے ہماری لڑائی ہورہی ہو اور ہم دیکھیں کہ دشمن کے ساتھ ایک ایسی قوم کے افراد بھی شریکِ جنگ ہیں، جس سے ہمارا معاہدہ ہے تو ہم ان کو قتل کرنے اور ان سے دشمن کا سا معاملہ کرنے میں ہرگز کوئی تامل نہ کریں گے۔‘‘(سورہ الانفال، حاشیہ:۱۹)
(ح)اگر جنگ عملاً شروع ہوجائے تو جنگی کارروائی کو اسلام بعض قوانین و ضوابط کا پابند بناتا ہے۔ ان قوانین کی پابندی کی زرّیں مثالیں سیرتِ طیبہ، خلافتِ راشدہ اور بعد کے مسلمان مجاہدین کی تاریخ میں ملتی ہیں۔ اہم ضوابط درجِ ذیل ہیں:
٭ آگ میں جلانے کی ممانعت
٭ باندھ کر قتل کرنے کی ممانعت
٭ آبادیوں میں لوٹ مار کی ممانعت
٭ تباہ کاری کی ممانعت
٭ مثلہ کی ممانعت
٭ قتلِ اسیر کی ممانعت
٭ قتلِ سفیرکی ممانعت
٭ بدنظمی و انتشار کی ممانعت
٭ شور و ہنگامہ کی ممانعت
٭ غیر اہل قتال کی حرمت اور غیر جانبداروں سے عدمِ تعرض
٭ امان کا احترام
٭ عصمت کا تحفظ۔ (ماخوذ از الجہاد فی الاسلام، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)
(ط)جنگ کے جائز مقاصد یہ ہیں: مظلومین کی داد رسی، حکومت اسلامی کا دفاع، ناجائز بغاوت کی سرکوبی، عدل و انصاف کا قیام، اعلاء کلمۃ اللہ۔ ان مقاصد کے علاوہ محض ملک گیری کے لیے جنگ کو اسلام جائز نہیں رکھتا۔ دوسری قوموں کے استحصال یا اُن کے علاقوں کے وسائل پر تسلط کے لیے جنگ جائز نہیں ہے۔
بین الاقوامی ضابطۂ اخلاق
کسی معاشرے میں خوشگوار فضا کے لیے محض ضوابط و قوانین کا نفاذ کافی نہیں ، بلکہ ایک ضابطۂ اخلاق بھی ضروری ہے، جو انسانیت کے اعلیٰ معیار پر افراد کو قائم کرے۔ یہی بات بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں بھی درست ہے۔ چنانچہ سیرتِ طیبہ کی روشنی سے ہم وہ اخلاقی ہدایات بھی اخذ کرسکتے ہیں جو بین الاقوامی فضا کو خوشگوار بناتی ہیں۔ یہ اخلاقی ہدایات درج ذیل ہیں:
(الف) پہلی ہدایت یہ ہے کہ نیکی اور خدا ترسی کے کاموں میں سب کے ساتھ تعاون کیا جائے:
وتعاونوا علی البرِّ والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان، واتقوا اللّٰہ، إن اللّٰہ شدید العقاب۔ (المائدۃ: ۲)
’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں، اُن میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں، ان میںکسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو اور اس کی سزا بہت سخت ہے۔‘‘
(ب)عدل کی ہدایت کے ساتھ یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ احسان کی روش اختیار کی جائے۔ جس طرح یہ ہدایت افراد کے باہمی تعلقات کے لیے ہے اسی طرح قوموں کے باہمی تعلقات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے:
’’اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم اس سے سبق لو۔‘‘ (النمل: ۹۰)
(ج)جو اقوام اہِل اسلام سے برسرپیکار نہ ہوں وہ مسلمانوں کے حسنِ سلوک کی مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوںنے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘(الممتحنہ: ۸)
آج دنیا میں قیامِ امن کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان نبی ﷺ کی عطا کردہ تعلیمات سے دنیا کو آشنا کرائیں۔ آفاقی تصورِ انسان اور تصورِ کائنات کا وسیع تعارف کرائیں۔ آپ کے عطا کردہ بین الاقوامی قانون اور ضابطۂ اخلاق پر خود عمل کرکے دکھائیں اور دنیا کے چلن کو اس ضابطے کے مطابق بنانے کی کوشش کریں۔ مسلمانوں کی یہ کوشش انسانیت کی عظیم خدمت ہوگی۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2015