یہ دمشق کا منظرہے، جمعہ کاد ن تھا، ۹صفر۹۹ہجری کاواقعہ ہے، شہرکے راستےخالی ہوچکے تھے، دوکانیں بندہو چکی تھیں ، دور دور تک سناٹا، کوئی بھی شخص نظرنہ آتا، سارے لوگ خلیفہ کے محل کے ارد گرد، محل سے متصل میدانوں اورمحل تک جانےوالے راستوں میں جمع ہوگئےتھے۔
محل کا صحن افسروں اورسرداروں سےکھچا کھچ بھر اہوا تھا، اعیان سلطنت، سرداران قوم اوراہل منصب مخصوص جگہوں پربیٹھے تھے، تمام لوگ بےتابی سےانتظارمیں تھے، ان کے چہروں پر گھبراہٹ اوربےچینی کے آثار نظر آرہے تھے، ہوا یہ کہ اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک اچانک سخت بیمارہوگئےتھےاوریہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی کہ وہ آخری سانس لینے ہی والےہیں۔ ان کےپاس صرف ان کا خصوصی مشیررجاءبن حَیوَۃ تھا۔
محل کےاندربنوامیہ کےسرداروں کی عورتیں خبریں سننےکےلیےبےتابی سےمنتظرتھیں۔ مجلس کےسامنےیزید، ہشام، مسلمہ کی بیویاں اورخلیفہ کے دوسرے بھائی موجود تھے، ان میں ہرعورت امیدلگائےتھی کہ بس اسےخوش خبری ملنےہی والی ہے کہ سلیمان کےبعدخلافت کے لیےاس کے شوہر کا نام آیاہے، وہ سلیمان جس پروہ سب اپنےجھوٹےحزن وملال اور اس کی وفات کےڈرکااظہارکررہی تھیں ، جب کہ دل ہی دل میں اس کی موت کی تمناکررہی تھیں ، تاکہ اس کی جگہ اس کےشوہرکےلیے خالی ہوجائے!
تاہم مجلس کےایک طرف ایک خوب صورت اورسلیقہ مندلڑکی کھڑی تھی، اس کےکپڑےاتنےقیمتی اوردیدہ زیب تھے کہ محل کی ان تمام عورتوں میں سےکسی کےبھی کپڑےاس کےبرابرنہ تھے۔ اس پر وقاراورسنجیدگی اس قدرنمایاں تھی کہ ان میں سےکسی پربھی اس جیساوقاراورسنجیدگی نہ تھی، گویااسےان کی تمناؤں جیسی کسی چیزکی نہ تمناتھی، نہ کسی طرح کاکوئی ڈرتھااورنہ کسی چیزکی کوئی آرزوتھی، اسےجوکچھ مل چکاتھااسی پروہ خوش تھی اس سےزیادہ اسےکسی اورچیزکی ضرورت نہ تھی۔
اورحقیقت یہ ہےکہ اسےہروہ چیزحاصل تھی جس کی کوئی لڑکی خواہش کرسکتی ہے، اسےخوب صورتی، عزت، ادب، نیک اورمال دارشوہراورخوش حال زندگی، سب کچھ حاصل تھا، اس کی ولادت محل میں ہوئی تھی، وہ نازونعم کےآغوش میں پلی بڑھی تھی، اسےجس چیز کی ضرورت ہوتی مل جاتی، وہ جس چیز کی خواہش کرتی پالیتی۔
وہ جوان ہوئی تو حسن صورت اور خوبی سیرت میں لاجواب تھی، اس کی شان نرالی تھی، اس سےمحبت کی وجہ سےاوراس کےباپ سےقریب ہونےکےلیےہرکوئی اسےچاہتا اوراس کےنازاٹھاتا۔ کیا تمھیں ابھی بھی نہیں معلوم ہوا کہ اس کےباپ کون تھے؟
کیا تمھیں معلوم ہےکہ آج مراکش اورافغانستان کےدرمیان کتنے ملک ہیں ؟اس کےباپ اکیلےان تمام مملکتوں کےحکمراں تھے، ان کافیصلہ آخری فیصلہ ہوتااوران کی حکومت سےبڑھ کرکسی کی حکومت نہ تھی!
وہ خلیفہ عبدالملک کی بیٹی ہے، وہ عبدالملک کے بعد کے خلفاء کی بہن ہے۔ جب وہ جوان ہوئی توبنوامیہ کےنوجوانوں کی نگاہیں اس کی طرف اٹھنےلگیں ، تب اس کےباپ نےاس کےلیےسب سےلائق وفائق نوجوان کا انتخاب کیا، جسےایک شریف اموی سردارعمربن عبدالعزیزکےنام سے جانا جاتا۔ فاطمہ ایک محل سےدوسرےمحل میں منتقل ہوگئی، آسائشوں بڑھتی گئیں ، دن بہ دن اس کی آسودہ حال اور خوش حال زندگی میں اضافہ ہوتاگیا۔
اس وقت فاطمہ مجلس کےایک طرف تھی، تمام حاضرین مجلس سےنمایاں تھی، نہ اسے کسی طرح کی کوئی ایسی امید تھی جواسےہلکے پن کا احساس دلاتی، اورنہ اس کےدل میں کوئی ایسی حسرت تھی جواسےغمگین کرتی۔
یکایک دوطرح کی آوازیں سنائی دیں ، جوپورےمحل میں گونج اٹھیں ، ایک درد بھری آواز، جس میں خلیفہ وقت کی وفات کی خبرتھی، دوسری وہ آوازجس نے بہتوں کی امیدوں پر پانی پھیردیا، وہ نئےامیرالمؤمنین کی حیثیت سے عمربن عبدالعزیزکےنام کا اعلان تھا!
فاطمہ جھٹ گوشے سےنکل کرمجلس کےسامنےآگئی، جب وہ الگ تھلگ تھی، توکوئی اس پرتوجہ نہیں دیتا تھا، مگراب وہی مرکزِتوجہ اورتمام دلوں کی دھڑکن بن گئی تھی، سرداروں کی بیویاں پیچھےہٹ گئیں تاکہ خلیفہ کی بیوی آگےآگےچلے!
فاطمہ اپنےمحل واپس آئی، محل فرط مسرت سےجھوم گیا، اورروشنی سےجگمگا اٹھا، وہ اپنےآقا کی آمد کامنتظرتھاکہ ان کی آمد پرآسائشوں اورخوشیوں بھرا جشن منائے۔ ادھرفاطمہ بیٹھ کرخوب صورت اوراچھےماضی کویاد کرنےلگی اورآنےوالےمستقبل سےسرگوشی کرنےلگی، اس امیدسےکہ وہ ماضی سےکہیں زیادہ خوب صورت اورشان دارہوگا۔ اس نےاس دن کو یاد کیا جس دن وہ اپنےوالدعبدالملک کےمحل سےنکل کراپنےشوہر، اپنےچچازادبھائی، گورنر عمربن عبدالعزیزکےمحل گئی تھی، وہ دیکھتی ہےکہ گورنر کامحل توخلیفہ کےمحل سے زیادہ شاندارہے، اس کےبستر، اس کی خوب صورتی، اس کےتحفے، تحائف اوراس کےمال ودولت، غرض ہرچیزمیں آگےہے۔
عمربن عبدالعزیزخوش حالی اورمال داری میں اموی امراءمیں سب سےآگےتھے، حکومت کےایوان میں ان کی پرورش ہوئی تھی اوراسی کےسایےمیں پل بڑھ کرجوان ہوئےتھے، وہ آسائش پسند تھے، ان کےوہ کپڑےجنھیں زیب تن کرکےلوگوں کےسامنےنکلتےتھے، ان کی قیمت پانچ ہزاردرہم سےزیادہ ہوتی، وہ عطرجس سےوہ معطرہوتےصرف ان کےلیےہندوستان سےمنگایا جاتا، جب وہ کسی جگہ سےگزرتےتوانھیں ان کی عطرکی خوشبوسےوہ بھی پہچان لیتا، جس نےانھیں نہیں دیکھا ہوتا۔ اہل ثروت کی خواہش ہوتی کہ ان کےکپڑے دھوبی کے یہاں عمرکےکپڑوں کےساتھ دھلےجائیں تاکہ ان کی مہک ان کپڑوں میں منتقل ہوجائے۔ ان کےچلنےکاایک نرالااندازتھاجسےلوگوں نےاس کی دلکشی اور انوکھے پن کی وجہ سے’عمریہ‘کانام دےرکھاتھا۔ نوجوان اسےسیکھنےاوراس کی نقل اتارنےکی کوشش کرتے۔ اس زمانے کے معزز لوگوں کے طرز پر وہ بھی اپنےکپڑے گھسیٹتے ہوئے چلتے، اور کبھی کپڑاجوتےمیں پھنس جاتا، تواسے اس طرح کھینچ لیتے کہ وہ پھٹ جاتا، مگراسےدرست کرنےکےلیے نیچے نہ جھکتے، جب کہ ان کے کپڑوں کی قیمت ایک ہزاردرہم سےبھی زائد ہوتی!کبھی شال ان کےکاندھوں سےگرجاتی تواسے اٹھاتے نہیں ، چھوڑدیتے، اور کوئی دوسرااسےاٹھالیتا!
فاطمہ ان تمام مناظرکویاد کررہی تھی، اسےیاد آرہاتھا وہ عیش وآرام اوروہ خوش حال زندگی جسےدونوں نےساتھ ساتھ گزاراتھا، اس کے ختم ہونےکاوہ تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ دونوں کےدرمیان بےپناہ محبت کا مضبوط رشتہ قائم تھا، عمرکااشارہ اس کےلیےایک حکم کادرجہ رکھتااورفاطمہ کی خواہش ان کےیہاں ایک فرض کا مقام رکھتی، نہ وہ کسی معاملہ میں ان کی مخالفت کرتی اورنہ اس کی کوئی طلب ان کےیہاں رد کی جاتی!
وہ اسی سوچ میں گم تھی کہ یکایک محل کا ماحول بدلنے لگتا ہے، نئےخلیفہ کے بارے میں محل میں عجیب وغریب خبریں آنےلگتی ہیں ، ایک خادم تیزی سےداخل ہوتاہے، کہتاہےکہ خلیفہ نےدربار ِخلافت کی خاص سواری پرسوارہونےسےانکارکردیا، تمام حاشیہ برداروں کورخصت کردیا، اوراپنی سواری پرسوارہوگئے۔۔۔ دوسراآکرکہتا ہےکہ خلیفہ نےشان وشوکت سے بھرپور جشن تاج پوشی اور بیعت کی تقریب کومنسوخ کردینے کااعلان کردیاہے۔۔۔ اورتیسراآکرکہتا ہےکہ انھوں نےتوبیت المال سےکچھ لینےسےبھی انکارکردیاہے۔۔۔ !
فاطمہ یہ ساری خبریں سن رہی تھی مگرانھیں سچ ماننےکو تیارنہ تھی!کیوں کہ اسےاپنے شوہرکےبارےمیں معلوم تھاکہ ان کادل دنیاکی آسائشوں کوقبول کرنےمیں بڑاکشادہ ہے، وہ آسودگی، خوش حالی اورجائزسامانِ دل چسپی کا آشناہے۔۔۔ وہ کیوں کراس دنیاسےبےرغبتی اختیارکرسکتا ہےجواس کےپاس چل کرآئی ہےاور اس نےسب کچھ اس کےقدموں میں ڈال دیا ہے؟
آخر کار نئےخلیفہ اپنےمحل آتے ہیں ، لیکن ایک الگ ہی انسان بن کر۔ ان کےاندرکی ہرچیزبالکل بدل چکی ہے، بیعت کےوقت سےہی ان کےفیصلوں سےلوگوں کےلیےسعادتیں ظاہر ہونے لگی تھیں ، لیکن ان کےاہل خانہ کوان کی بیعت میں بدبختی ہی نظرآرہی تھی!
فاطمہ خلیفہ سےملتی ہے، کیا دیکھتی ہےکہ وہ تین دن جس میں وہ اس سےدورتھے، تین صدیوں جیسےکاموں کااثران پرڈال چکے ہیں !لوگوں کی خاطردن دن بھر رات رات بھر جاگنے کےسبب ان کےچہرےکارنگ تھکن سے نڈھال ہے، اللہ کےخوف سےاورامانت کےبوجھ سےان کےرونگٹے کھڑے ہیں ، اور جسم جیسے کہ ٹوٹ رہا ہے، اس کادل ان سےمحبت اوران کی فکر میں پھٹنے لگتاہے۔
عمر: اےفاطمہ!مجھ پریہ ذمےداری آپڑی ہےاورمیں نےبڑےبھاری بوجھ کواٹھالیاہے، محمد کی امت میں دور ونزدیک سب کےبارےمیں اب میں جواب دہ ہوں ، مجھ پرجوتمہاراحق ہےاسےپوراکرنےکےلیےیہ بھاری کام میرےجسم میں نہ سکت رہنے دے گا، اور نہ ذرا بھی وقت بچنے دے گا، اورنہ میرےلیےعورتوں میں کوئی دل چسپی باقی رہنے دے گا۔ میں تم سےجداہونانھیں چاہتا، میں دنیامیں کسی کو تم سے زیادہ نہیں چاہتا، لیکن میں تم پرظلم کرنانھیں چاہتا، مجھےاندیشہ ہےکہ میں نےاپنےلیےجینےکی جوصورت اختیارکی ہے اس پرتم صبرنہیں کرپاؤگی، اب اگرتم چاہوتومیں تمھیں تمہارےگھر والوں کے یہاں واپس رخصت کردوں۔۔۔
فاطمہ: آپ کیا کرناچاہتےہیں ؟
عمر: یہ سارامال جوہمارےپاس ہےاور جوتمھارےبھائیوں اوررشتےداروں کےقبضےمیں ہے، ساراکاسارامسلمانوں سےغصب کیا گیا مال ہےاورمیں نےیہ ٹھان لی ہےکہ یہ سارامال ان سےلےکرمسلمانوں کولوٹادوں گا۔ میں اس کاآغازاپنی ذات سےکرناچاہتا ہوں ، میں کچھ بھی نہیں چھوڑوں گاسوائےاپنی زمین کےاس ٹکڑےکےجسےمیں نےاپنی محنت کی کمائی سےخریداہےاورصرف اسی سےگزربسرکروں گا۔ اب اگرتم کشادگی کےبعد تنگی نہیں جھیل سکتی ہو تواپنےمیکےچلی جاؤ!
فاطمہ: آپ کواس بات پرکس چیزنےآمادہ کیاہے؟
عمر: اےفاطمہ!میرے اندر ایک آرزو مند انسان ہے، اسےجب کوئی چیزمل جاتی تواس سےاعلی کی خواہش کرتا ہے، اس نےگورنری کی خواہش کی، جب اسےپالیاتوخلافت کی آرزوکی، جب وہ بھی مل گئی تواب اس سےاعلی کی تمنا لیے بے چین ہے اوروہ جنت ہے!
میرے قاری دوست، ذرا اس درخشاں منظر نظر ہٹا کر سوچواگرکوئی مال دارتاجریاکوئی بڑاعہدےداربڑی سڑک پرشان دارمحل میں رہتاہواوراس کےگھرمیں عمدہ ترین ساز وسامان اورراحت سے بھرپور بسترہوں پھروہ چاہےکہ اللہ کی خاطران سب سےدست بردارہوجائے، توکیاوہ اپنی بیوی کواس پرراضی کر پائےگا؟کیاوہ ایک تنگ گھرکےدوخالی کمروں میں اس کےساتھ رہناپسند کرےگی؟کیاوہ قسم قسم کے کھانوں سےبھرےہوئےدسترخوان کےبعد روکھا سوکھا کھانااس کےساتھ کھاناچاہےگی؟کیاوہ عالی شان سواری کےبجائےپیدل چلنا گواراکرےگی؟
میں نہیں سمجھتاکہ کوئی بیوی اس دن کو پسند کرے گی۔ لیکن فاطمہ جوتاریخ کی تمام عورتوں سے اس طرح ممتاز تھی کہ وہ ایک حکمراں کی بیٹی، ایک حکمراں کی بیوی اورچارحکمرانوں کی بہن تھی، اور ان میں سےہرایک اس زمانےکےملکوں کے برابربیس بیس ملکوں کاحکمراں تھا۔۔۔ وہ فاطمہ اپنےشوہرکا ارادہ جان لینے کے بعد کہتی ہے: آپ جومناسب سمجھیں کریں ، میں آپ کےساتھ ہوں ، میں ایسی نہیں ہوں کہ خوش حالی میں تومَیں آپ کےساتھ رہوں اورتنگی میں آپ کاساتھ چھوڑدوں ، آپ کی پسند میری پسند ہے۔ اور پھراس فیصلے کے ساتھ ہی عیش وآرام کی وہ زندگی ختم ہوجاتی ہے، جس کامزہ خوش حال لوگ بھی کم ہی چکھ پاتےہیں اورپریشانی وتنگی کی وہ زندگی آجاتی ہےجسےبہت غریب لوگ بھی نہیں جان پاتے ہیں !
یہ خوش حال زندگی اس لیےنہیں ختم ہوگئی تھی کہ وہ دونوں مال داری کےبعد غربت کا شکارہوگئےتھے، یا ان پردنیاکی آفتیں اورمصیبتیں ٹوٹ پڑی تھیں ، بلکہ اس لیےکہ انھوں نےلازوال عیش وآرام پسند کرلیا تھا، ایساعیش وآرام کہ دنیاکےتمام عیش وآرام تومٹ جائیں گےلیکن وہ کبھی نہیں مٹےگا۔
عمربن عبدالعزیزنےخلافت کی باگ ڈورسنبھالتےہی باندیوں اورغلاموں کوآزاد کردیا، خادموں کورہاکردیا، محل کوچھوڑدیا، محل میں جوکچھ تھا، بیت المال کولوٹادیااورمسجد کےشمالی جانب ایک چھوٹےسےگھرمیں رہنےلگے۔
خلیفہ سےملنےمصرسےایک عورت آئی اوران کےمحل کےبارےمیں پوچھنے لگی، لوگوں نےاسےان کا گھربتایا، جب وہ آئی توپرانےکپڑوں کے پیوند لگی ہوئی ایک دری پرایک خاتون کوپایا اورایک آدمی کودیکھا، جس کے دونوں ہاتھ گارے کی مٹی میں لت پت تھے، وہ گھرکی دیوارکی لِپائی کررہاتھا، اسےجب معلوم ہواکہ دری پربیٹھی ہوئی عورت عبدالملک کی بیٹی ہےتواس کی حیرانی گھبراہٹ تک پہنچ گئی، فاطمہ نےاسےتسلی دی اور جب وہ مطمئن اورمانوس ہوگئی توفاطمہ سےکہا: محترمہ، آپ اس مزدورسےپردہ کیوں نہیں کررہی ہیں ؟فاطمہ ہنس پڑی اوربولی: یہ لپائی کرنےوالاہی امیرالمؤمنین ہے!
ان کےزمانۂ خلافت میں ایک کپڑابیچنےوالاآیااس نےانھیں ایک کپڑادکھایا، جس کی قیمت آٹھ درہم تھی، توعمرنےکہا: یہ توبہت عمدہ ہے، کیااس سےہلکا نہیں ہے!آدمی نےکہا: آپ خلیفہ ہیں ، میں آپ کو نہایت معمولی سا ایک کپڑادکھارہاہوں جس کی قیمت صرف آٹھ درہم ہےاورآپ مجھ سے کہہ رہےہیں کہ یہ توعمدہ ہے، کیااس سےمعمولی اورسادہ نہیں ہے!
ایک بارخلیفہ بیمارپڑگئے، ان کےجسم پرایک مَیلی قمیص تھی، مسلمہ بن عبدالملک اپنی بہن کےپاس آیااورکہا: اےفاطمہ!امیرالمؤمنین کی قمیص دھل دو، انھوں نےکہا: ٹھیک ہے۔ وہ دوسرےدن پھرآیامگرقمیص دھلی ہوئی نہیں تھی، اس نےکہا: اےفاطمہ!قمیص دھل دوکیوں کہ لوگ ان کےپاس آرہےہیں ، انھوں نےکہا: بخدااس کےعلاوہ ان کےپاس کوئی قمیص نہیں ہے!
ان کےپاس خادموں میں سےصرف ایک چھوٹالڑکاتھا، وہی خلافت کےمحل میں اکیلاخادم تھا، ایک روزفاطمہ نےاس کےلیےکھانارکھاتووہ پریشان ہوگیا اورجھنجھلاکربولا: دال، دال!بس روزانہ دال!فاطمہ نےنرم لہجےمیں کہا: پیارےبیٹےیہ کھاناتمہارےآقاامیرالمؤمنین کاہے!
ایک روزخلیفہ کوانگورکھانےکی خواہش ہوئی، کہا: اےفاطمہ!کیاتمہارےپاس ایک درہم ہےجس سےہم انگورخرید سکیں ؟فاطمہ نےکہا: آپ امیرالمؤمنین ہیں پھربھی آپ ایک درہم کےمالک نہیں ہیں کہ انگورخرید سکیں ؟فرمایا: اےفاطمہ!زمین کےایک ٹکڑےکےسوامیرےپاس کچھ بھی نہیں ہےاوراس کی پیداوارمیری خواہشیں پوری نہیں کرسکتی، جہنم کی آگ برداشت کرنےکےمقابلےمیں ان خواہشوں پرصبرکرلینازیادہ آسان ہے!
اب فاطمہ کےپاس ان کےزیورات کےعلاوہ کچھ بھی نہ باقی بچاتھا، ایک روزخلیفہ نےکہا: اےفاطمہ!تمھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان زیورات کوتمہارےوالدنےمسلمانوں کےمال میں سےلےکرتمھیں دیا ہےاورمجھےپسند نہیں کہ وہ میرےساتھ میرےگھرمیں رہے۔ تم دومیں سےایک پسند کرو، یاتوانھیں بیت المال واپس لوٹادویاپھرمجھےاجازت دوکہ میں تم سےجدا ہوجاؤں !فاطمہ نےکہا: نہیں ، بخدامیں آپ کوان زیورات سے کہیں زیادہ عزیز رکھتی ہوں ، بلکہ میرےپاس اگران سےزیادہ بھی ہوتےتب بھی میں آپ ہی کوپسند کرتی!اورپھرانھوں نےزیورات بیت المال کےحوالےکردیے۔
خلیفہ کی بیوی نےایسی مشکل زندگی گزاری کہ ویسی زندگی دسویں درجےکےکسی ملازم کی بیوی بھی نہیں گزارتی، بس اپنےرب سےاجروثواب کی امید اوراپنےشوہرکے ساتھ کی خاطر اس نےسب کچھ خوشی خوشی گواراکرلیا۔
خلیفہ کےخوفِ خدااورفکرِآخرت میں وہ برابران کےساتھ شریک رہیں۔ ایک دفعہ عمر بن عبدالعزیز کاایک نیک دوست ان کےپاس آیا، عمرنےاس سےکہا: قبراورمیت کےسلسلےمیں سوچنےکی وجہ سےرات بھرنیند نہیں آئی۔ توآدمی پوچھ پڑا: آپ کاکیاحال ہوگااگرآپ میت کو اچھی صورت، عمدہ خوشبواورصاف ستھرےکپڑےمیں ہونےکےتین دن بعداس حال میں دیکھیں کہ اس کےجسم پرکیڑے ہی کیڑےہوں جو اس کےگوشت کوکھارہےہوں ؟یہ سنناتھاکہ عمرروپڑےاوربےہوش ہوکرگرپڑے۔ فاطمہ نےاپنےغلام (مزاحم) سےکہا: ارے اس آدمی کوجلدی باہرنکالو۔ آدمی فوراًباہرنکل جاتاہےاوروہ عمرکےپاس آتی ہیں اور روتے ہوئے ان کےچہرےپرپانی کےچھینٹےڈالنےلگتی ہیں ، جب انھیں ہوش آتاہےتوبیوی کو روتاہوادیکھتےہیں۔ کہتےہیں : فاطمہ!کیوں رورہی ہو؟وہ کہتی ہیں : امیرالمؤمنین!میں نےآپ کوگراہوادیکھاتومجھےخیال ہواکہ آپ اللہ کےسامنے موت کے آغوش میں گرگئےہیں اورہم سے رخصت ہورہےہیں ، اسی وجہ سےمجھےروناآگیا۔
وہ خلیفہ کی زندگی میں ان کی موت کےڈرسےروئیں اورجب وہ انتقال کرگئےتوان کے غم میں اتناروئیں کہ ان کی بینائی کمزورپڑگئی۔ ان کےدونوں بھائی مسلمہ اورہشام انھیں تسلی دینےآئے اوران کےسامنے اپنی دانست میں بڑی دولت کی پیش کش رکھی، انھوں نے کہا: بخدامیں دولت کی خاطرنہیں رورہی ہوں بلکہ میں نےایک ایسامنظردیکھاجسےیاد کرکےرورہی ہوں۔
انھوں نےپوچھا: وہ کیا؟
بولیں : میں نے ایک رات دیکھا، وہ کھڑےہیں اورنمازپڑھ رہےہیں ، جب انھوں نےآیت(یومَ یكونُ الناسُ كالفَراشِ المبثوثِ وتكونُ الجِبالُ كالعِهْنِ المنفوشِ)پڑھی تورونےکی وجہ سےزورسےچیخ نکلی، تومجھےایسالگاکہ ان کی روح پروازکرگئی۔ پھرجب انھیں ہوش آیاتومیں نےانھیں نمازکےلیےآوازدی۔
جب ان کےبھائی یزید نےخلافت کی باگ ڈورسنبھالی توانھیں ان کےزیورات واپس لوٹادیے، انھوں نےکہا: نہیں ، بخداہرگزنہیں ، میرےشایان شان نہیں کہ ان کےجیتےجی تومیں ان کی اطاعت کروں اوران کےمرنےکےبعد ان کی نافرمانی کروں۔ مجھےان کی ضرورت نہیں۔ اور اس کےسامنے ہی ان زیورات کوغریبوں میں تقسیم کردیا۔ ان پراللہ کی رحمت ہو۔ خداکی قسم وہی توسچےلوگ تھے۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2020