مثالی تنظیم کے خدو خال

۱۹۵۴ میں جماعت کے ذمہ داران کی گرفتاری کے بعدسید عبدالقادر (مرحوم) مختصر عرصہ قائم مقام امیرجماعت رہے۔

اللہ کے بندوں کو اللہ کی بندگی میں داخل کرنے، انسانوں پر سے انسانوں کی خدائی کو ختم کرنے اور اللہ کی زمین پر اللہ کے حکم کو جاری کرنے کا ارادہ کرنا کوئی کھیل نہیں ہے۔ یہ وہ کار ِعظیم ہے جس کو انجام دینے کے لیے بڑے حوصلوں اور بڑی تیاریوں کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے اپنے نفس کا مقابلہ کرکے اس کو زیر کرنا، پھر خارج میں پیش آنے والی مزاحمتوں اور مخالفتوں کے مقابلے میں صبر و ثبات کے ساتھ جم کر کھڑا ہونا اور سوائے اللہ کے کسی اور طاقت پر بھروسہ نہ کرنا، ہر مشکل اور مصیبت میں اسی کی طرف رجوع کرنا اور اسی سے مدد کے طلب گار ہونا، غیر متعلق بحثوں میں الجھ کر اپنے وقت کو ضائع کرنے سے اجتناب کرنا، پگڈنڈیوں کی طرف بہکا لے جانے والے رہزنوں سے ہوشیار رہتے ہوئے اپنی منزل مقصود کی طرف نگاہ جمائے رکھنا، غیر ضروری مشغلوں میں پھنسنے سے بچتے ہوئے براہ راست دعوت حق کے کام میں اپنے آپ کو لگائے رکھنا، کسی بڑی سے بڑی طاقت کی پرواہ نہ کرنا اور آنے والی ابتلاؤں کو خاطر میں لائے بغیر اپنے فرض کی انجام دہی میں سرگرم رہنا یہ وہ چند ضروری امور ہیں جن کی طرف روشنی ڈالی جاچکی ہے۔

ان سطور میں ہم چاہتے ہیں کہ چند دوسرے اہم پہلوؤں کا تذکرہ کریں۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ یاد دلادیا جائے تومناسب ہوگا کہ دنیا عالم اسباب ہے، یہاں کوئی کام انجام نہیں پاسکتا جب تک کہ اس کے مناسب حال تدابیر اختیار نہ کی جائیں اور ان تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش نہ کی جائے جو اسباب کی دنیا چاہتی ہے۔ رہی اللہ کی مدد تو وہ اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب اللہ کے بندے اپنے ترکش کے تمام تیر خالی کرچکے ہوتے ہیں اور اپنے حصے کا پورا پورا فرض ادا کرچکے ہوتے ہیں۔ غفلت، کوتاہیاں اور لغزشیں تو اللہ تعالی اپنے فضل سے آخرت میں فرمائے گا، لیکن اسباب و علل کی فطرت بے لاگ ہوتی ہے جو معافی کو کم جانتی ہے۔

یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ کچھ لوگوں کا کسی مشترک مقصد کی خاطر ایک نظم کے دائرے میں منسلک ہونا بجائے خودیہ منشا رکھتا ہے کہ جس مقصد کو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ گویا انفرادی کوششوں سے حاصل نہیں ہوسکتا یا پھر یہ کہ مقصد کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے کہ اس میں انفرادیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ چنانچہ اقامت دین کی سعی پر ان دونوں باتوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ کا دین اپنے ماننے والوں سے صرف یہی مطالبہ نہیں کرتا کہ اس کو قائم کرنے کے لیے اجتماعی جدوجہد کی جائے بلکہ خود اس کے اپنے بہت سے تقاضے ایسے ہیں کہ وہ اجتماعیت کے بغیر پورے ہی نہیں ہوسکتے۔ جس طرح یہ ناممکن ہے کہ انسان دنیا میں اکیلےہی اکیلے اپنی پوری زندگی گزار سکے اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ اللہ کا دین اجتماعی پہلو کو نظر انداز کردے اورپھر بھی اسے دین کامل سمجھا جاسکے۔ اجتماعی تنظیم ہمارے لیے کوئی خارجی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ وہ دین کا ایک جز اور اس کا ایک لازمی عنصر ہے۔ پھر تیسری طرف اجتماعیت ایک عظیم طاقت بھی ہے۔ جوکام ایک آدمی سے انجام نہیں پاسکتا اس کے لیے جب متعدد آدمی زور لگاتے ہیں تو اس کا انجام پانا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔ بڑے بڑے مقاصد کے لیے انفرادی کوششوں پر اکتفا کرنا گویا اپنی توانائیوں کو فضا میں منتشر کرنے کے لیے چھوڑ دینےکے مترادف ہے۔ جب یہی انفرادی کوششیں ایک نظم میں منسلک ہوجاتی ہیں تو ایک ایک فرد کی کوشش اتنی ہی زیادہ طاقت ور ہوجاتی ہے جتنی کہ نظم اجتماعی میں افرادکی تعداد ہو بلکہ بعض حالات میں اس سے کہیں زیادہ۔ لیکن یہ طاقت اور اجتماعیت کے دیگرفوائدچند شرطوں کے ساتھ حاصل ہوتے ہیں۔ یہ شرطیں اگر پوری نہ کی جائیں تو بڑی سے بڑی تنظیم بھی بے اثر ہوکر رہ جاتی ہے۔

جس طرح یہ صحیح ہے کہ کوئی ایک فرد خواہ وہ پہلوان ہی کیوں نہ ہو، کسی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتا اسی طرح کوئی معمولی رکاوٹ کسی تنظیم کی راہ نہیں روک سکتی۔ لیکن اگر فوج منظم ہونے کے بجائے ایک منتشر انبوہ ہو، جس میں کوئی نظم و تنظیم کا کوئی رابطہ نہ ہو تو دنیا جانتی ہے اورتاریخ ایسے بیسیوں مناظر دیکھ چکی ہے کہ ایک فرد واحد بھی سیکڑوں ہزاروں آدمیوں کو ماربھگانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہی حال اجتماعی اداروں کا بھی ہوتا ہے۔ اگر نظم و تنظیم کی شرائط پوری نہ ہورہی ہوں اور کوئی ہیئت اجتماعیہ ایک انبوہ کثیر کا نقشہ پیش کر رہی ہو تو ایک معمولی سے معمولی حادثہ بھی اس کو منتشر کرنے کے لیے کافی ہوسکتاہے۔

کوئی جماعت بھی اس وقت تک اپنی اجتماعیت کی طاقت کو پوری طرح بروے کار نہیں لاسکتی جب تک کہ اس میں ایک فوج کا سا نظم نہ ہو، اور وہ اپنے کمانڈر کے اشارے پر ایک فرد واحد کی طرح حرکت نہ کرے۔ ہیئت اجتماعیہ ایک پرپیچ مشین کی مثل ہوتی ہے، جو اس وقت تک ٹھیک نہیں چل سکتی جب تک کہ اس کے تمام پرزے اپنی اپنی جگہ پوری طرح کسے ہوئے  (fit) نہ ہوں اور جب تک وہ ایک دوسرے کےساتھ اتنے مربوط نہ ہوں کہ کہیں دور بیٹھے ہوئے ڈرائیور کے ایک بٹن دبانے پر سلسلہ بہ سلسلہ سارے کے سارے حرکت میں آجائیں۔ اور اگر ایک پرزہ بھی اپنی جگہ پر ڈھیلا ہوجائے یا کسی وجہ سے رک جائے تو پوری مشین کی رفتار پر اس کا اثر پڑنا لازمی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ مقصد فوت ہونے لگے گا جس کے لیے مشین چالو کی گئی تھی۔ یہی حال اجتماعی تنظیموں کا بھی ہوتا ہے۔

تنظیم کی طاقت کا بڑا دارومدار بحیثیت ایک تنظیم ہونے کے اس کے ارکان کی ہم آہنگیٔ فکر اور اپنے سربراہ ِکار کے اشاروں کی تعمیل پر ہوا کرتا ہے۔ اصول ِتنظیم، مقصدِ تنظیم اور ارکانِ تنظیم کی انفرادی سیرت و کردار بالکل علیحدہ نوعیت کی چیزیں ہیں اور اپنی اپنی جگہ انھیں پوری اہمیت بھی حاصل ہے۔ لیکن ان تمام پہلوؤں سے سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود اگر کارکنان کے آپس میں ہم آہنگی ٔفکرموجود نہ ہو اور وہ اپنے اصحاب امر کی اطاعت میں سرگرم نہ ہوں تو ساری خوبیاں محض بے فائدہ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اس صورت میں تنظیم کی گاڑی اپنی تمام خوبیوں کے باوجود ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ پیچھے ہٹنے لگ جائے۔ یہ صحیح ہے کہ جہاں بہت سے لوگ جمع ہوں وہاں اختلاف آراء پیدا ہوسکتا ہے بلکہ اکثرو بیشترہوا کرتا ہے اور یہ ہم آہنگی پر الٹا اثر ڈالتا ہے۔ لیکن اسلام نے اختلاف آراء کو رحمت بتایا ہے، تو دیکھنا یہ ہے کہ یہ آخر کس طرح رحمت ہے۔ یہ اس طرح سے تو کبھی بھی رحمت نہیں بن سکتا کہ ہرشخص اپنی اپنی رائے پر اصرار کرے اور دل ہی دل میں اس خواہش کو پروان چڑھائے کہ اس کی اپنی رائے چلنی چاہیے۔ یہی خواہش اختلاف آراء کو رحمت کے بجائے زحمت بنادیتی ہے۔ اس کے بجائے ایک دوسری روش یہ ہےکہ مختلف رایوں کو مساوی احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے اور ہر ایک کے وزن پر غور کرکے اس میں جتنا صواب ہو اس کو لے لیا جائے۔ اس طرز عمل کے ساتھ ساتھ اگر اختلاف آراء کو جرح و تعدیل کے ذریعے زیادہ سے زیادہ صحیح فیصلے پر پہنچنے کا ایک وسیلہ بنایا جائے تو یہ ایک مطلوب چیز ہے اور یہی وہ اختلاف ہے جسے اسلام میں رحمت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اختلاف آراء کی عدم موجودگی میں نہ جرح و تعدیل کا موقع پیداہوتا ہےاور نہ مسائل کے تجزیہ و تحلیل کی گنجائش نکلتی ہے۔ اس طرح یہ حقیقتاً ایک رحمت ہی ہے۔ اس کا موجود نہ ہونا ذہنی مردنی کا ثبوت دیتا ہے۔ دوسری طرف اپنی اپنی آراء پر اصرار کرکے زحمت پیدا کرلینا ایک اور موت کو ثابت کرتا ہے جو عقل و خرد کی موت ہے۔

ہم آہنگیٔ فکر کو برقرار رکھنے کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ اصحاب امر ایک سوچے سمجھے اور جانے بوجھے نقشے کے مطابق اپنے کام کو چلائیں اور تمام اعضاے تنظیم کو اس نقشے سے باخبرکرتے ہوئے حتی الامکان انھیں مطمئن رکھنے کی کوشش کریں، وہیں یہ بھی ضروری ہےکہ اعضاے تنظیم میں سے کچھ لوگ کسی بھی مرحلے پر کسی بھی قسم کی بے اطمینانی، الجھن یا خلش محسوس کریں تو وہ بجائے اس کے کہ اپنی خلش کا آپس میں تذکرہ کریں اور اس طرح اس کو ایک دوسرے کے اندر پھیلا کر بے اطمینانی کے دائرے کو وسیع تر ہونے دیں، چاہیے یہ کہ وہ براہ راست اپنے اصحاب امر کی طرف رجوع ہوں اور وہیں سے اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہاں سے اطمینان حاصل نہ ہوسکے تو سلسلہ بہ سلسلہ مرکزِ تنظیم تک پہنچا جاسکتا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ یہاں پہنچنے سے پہلے، یا زیادہ سے زیادہ یہاں پہنچنے کے بعداطمینان حاصل ہوجائے۔ اتفاقاً اگر مرکز سے بھی اطمینان حاصل نہ ہو تب بھی اس کی گنجائش  نہیں ہے کہ تنظیم کے ساتھ عملی تعاون میں کوتاہی برتی جائے۔ عملاً تعاون کرتے ہوئے اپنی رائے کے وزن کو محسوس کرانے کی کوششیں جاری رہ سکتی ہیں، تاآنکہ کسی نہ کسی پہلو سے اتفاق رائے پیدا ہوجائے۔اور اگر اختلاف کی شدت اتنی زیادہ ہوکہ عملی تعاون میں مانع ہونے لگے تو پھر اس درجے کا اختلاف رکھنے والوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ جب تنظیم کی اکثریت کا اعتماد مرکز کو حاصل ہے تو پھر وہ خود بھی اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح اکثریت کے ساتھ ہم آہنگ بناسکتے ہیں یا نہیں۔ بصورت اثبات انھیں اپنے خیالات پر نظرثانی اور ان میں کچھ لچک پیدا کرنی ہوگی ورنہ اس کے سوا کیا شکل ہے کہ وہ متعلقہ تنظیم سے باہر اپنے لیے ایسے دوسرے ساتھی تلاش کریں جن کے ساتھ وہ کامل ہم آہنگیٔ فکر پیدا کرسکتے ہوں۔ کیونکہ مختلف اور متضاد طرزفکر رکھنے والے عناصر کا ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ رہنا کبھی پائیدار نہیں ہوسکتا۔

دوسرا ضروری پہلو جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے وہ سمع و طاعت کا پہلو ہے۔ سمع و طاعت میں کوتاہی چلتی ہوئی گاڑی کو بریک لگانے کے ہم معنی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کو ملحوظ نہ رکھنے کے نتیجے میں وہ نفسیاتی اثرات پیدا ہونے لگتے ہیں جو تنظیم میں انتشار کو راہ دیتے ہیں جس سے بالآخرپوری تنظیم پارہ پارہ ہوسکتی ہے۔تنظیم کی ایجابی طاقت کا سارا دارومدار سمع و طاعت ہی پر ہے۔ اللہ تعالی نے اگر اس کو اپنے حکم خصوصی کے ذریعے فرض اور اس میں کوتاہی کو معصیت قرار دیا ہے تو یہ اس کی حکمت عملی کا عین تقاضا ہے۔احکام کی نوعیت کو دیکھ کر مسائل کی اہمیت کا اندازہ لگانے والوں کے لیے اتنی بات کافی ہونی چاہیے کہ سمع و طاعت کا حکم کوئی استنباطی حکم نہیں ہے، بلکہ براہ راست قرآنی حکم ہے۔

یاایھالذین آمنوا  اطیعوا اللہ واطیعواالرسول و اولی الامر منکم ’’اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور تم میں جو اولی الامر ہوں ان کی اطاعت کرو‘‘ (النساء ۵۹)

اس حکم کی نافرمانی وہی درجہ رکھتی ہے جو دوسرےقرآنی احکام کی نافرمانی کا درجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث رسول ﷺ میں امام کی اطاعت کو خود رسول کی اطاعت کا اور امام کی نافرمانی کو خود رسول کی نافرمانی کا درجہ دیا گیا ہے۔ چنانچہ بخاری (کتاب الاحکام) کی ایک حدیث ہے:

عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ من اطاعنی فقد اطاع اللہ ومن اطاع الامام   فقد اطاعنی۔ ومن وعصانی فقد عصی اللہ ومن عصی الامام فقد عصانی ’’ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس  نے امام کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی۔ اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘

دوسرے مقامات پر یہ صراحت بھی کردی گئی ہے کہ حکم کی نوعیت خواہ پسند ہو یا ناپسند، بہرحال تعمیل ہونی چاہیے الایہ کہ کسی معصیت کا حکم دیا جائے۔

السمع والطاعۃ علی المرء المسلم فیما احب وکرہ مالم یومر بمعصیۃ۔ فاذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ ’’مسلمان کے لیے سننا اور ماننا (اپنے امراء کی اطاعت) ضروری ہے خواہ گوارا یا ناگوار جب تک کہ اس کو کسی ایسی بات کا حکم نہ دیا جائے جس کی تعمیل سے خدا اور رسول کی نافرمانی لازم آتی ہو‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام)

اگر اس کو معصیت کا حکم دیا جائےتو ایسی میں صور ت میں نہ سننا ہے اور نہ ماننا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر حکم دینے والے یعنی صاحب امر کی شخصیت بھی اگر ناپسند ہو تب بھی اس کی حکم عدولی کی کوئی گنجائش نہیں۔ چنانچہ مشہور حدیث ہے:

اسمعو ا واطیعواولو استعمل علیکم عبد حبشی۔ ’’ سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تمھارا سردار ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ بنادیا جائے‘‘

یہ امور اس بات کو محسوس کرنے کے لیے کافی ہیں کہ جو لوگ اقامت دین یعنی پورے پورے اسلام کو دنیا میں قائم کرنے کے ارادے سے منظم ہوں ان کے لیے سمع و طاعت کاحکم کیا مقام رکھتا ہے۔ اس معاملے میں ذرا سی کوتاہی خود اپنے مقصد کی جڑ پر کلہاڑا چلانے کے مترادف ہوسکتی ہے۔

پھر بعض حالات ایسے ہوتے ہیں جو احکام کی پابندی میں زیادہ شدت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مثلاً نمازیوں تو ہر حال میں فرض ہے لیکن اگر آدمی بے نمازیوں میں گھرِ جائے تو اس کے لیے اس فرض کی شدت بڑھ جاتی ہے تاکہ وہ غلط ماحول سے متاثر نہ ہونے پائے۔ ایک دوسری مثال یہ ہے کہ نماز میں خشوع و خضوع اور خشیت یوں تو ہر وقت ضروری ہے لیکن اس کشتی کے مسافروں کے لیے جو کسی گرداب میں پھنس گئی ہو یہ کیفیات کس درجہ زیادہ شدت اختیار کرلیتی ہیں اس کا اندازہ کرنا دشوار نہیں۔ اسی طرح دوسرے تمام احکام پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ آج ہندوستان میں تحریک ِاقامتِ دین جن حالات سے دوچار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ان حالات کو ذہن میں رکھ کر بآسانی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج تنظیمی استحکام سمع و طاعت کے پہلو سے کیا کچھ تقاضا کرتا ہے۔ یہ اندازہ کرنا زیادہ آسان ہوجائے گا اگر آئندہ کے ان امکانی حالات کو بھی سامنے رکھنے کی کوشش کی جائے جن کا آج کے مقابلے میں شدید تر ہونا بعید ازقیاس نہیں ہے۔ آسان مراحل میں جو تیاریاں نامکمل رہ جاتی ہیں ان کولے کر مشکل مراحل عبور کیے ہی نہیں جاسکتے۔ جن لوگوں نے خوب سوچ سمجھ کر پورے عزائم کے ساتھ اقامت دین کو اپنا نصب العین بنایا ہے ان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ آزمائشی حالات میں سہل انگاری سے کام لیں اور کسی معمولی سی کوتاہی کو بھی اپنے اندر دخل پانے کا موقع دیں۔

کوتاہیاں دراصل پیدا ہوتی ہیں اللہ کی یاد سے غفلت اور اس کے سامنے ذمہ داری و جواب دہی کے احساس کی کم زوری کے راستے سے، ان پر قابو پانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ہروقت اپنا احتساب کیا جاتا رہے اور اپنی پوری زندگی کا جائزہ لے کر یہ دیکھا جاتا رہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ جو رشتہ جوڑا گیا اس کو برقرا رکھنے، بڑھانے اور مضبوط کرنے کے لیے کیا کچھ کوششیں کی جارہی ہیں۔ روزمرہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ تہجد کا اہتمام، کلام الہی کی تلاوت اور اپنی دانستہ و نادانستہ لغزشوں کو یاد کرکے ان پر انتہائی ندامت و خشیت کے ساتھ استغفار کرتے رہنا اور انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعےدلوں کی تنگی کو دور کرنا، وہ ذرائع ہیں جو تعلق باللہ کو بڑھانے اور بالآخر اپنی کوتاہیوں پر قابو پانے میں مدد کا باعث بن سکتے ہیں۔

یہ گفتگو تشنہ رہ جائے گی اگر اصحاب امر کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں کچھ نہ کہا کہا جائے۔ اصحاب امر اپنے مامورین پر قوام ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بس ان کا کام صرف حکم دینا ہے اور جو لوگ تحت ِامر ہوں ان کاکام صرف تعمیل ِحکم کرنا ہے۔نہیں، بلکہ سب کا مقصودِاصلی رضاے الہی کے حصول کی خاطر اقامتِ دین کی سعی و جہد میں شانہ بشانہ چلنا ہے، اپنی مساعی میں طاقت پیدا کرنے اور اس کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کی فکر کرنی ہے۔ یہ کیفیت اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب امراء و مامورین کے درمیان کامل ہم آہنگیٔ فکر موجود ہو۔ کوئی پروگرام اگر ہاتھ میں لینا طے کیا جائے تو صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ ذمہ داران جماعت ہی اس کی ضروت و اہمیت کو سمجھ لیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے تمام ساتھیوں کو اس پر مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے۔ وہ یہ نہ سمجھیں کہ کوئی پروگرام خارج سے ان پر لادا جارہا ہے بلکہ یہ سمجھیں کہ خود انھوں نے اپنے ارادے سے اس کو مرتب کیا ہے۔ ایسی ہی صورت میں ہم آہنگیٔ فکر بڑھتی ہے اور کسی تاکیدی حکم کے بغیر محض ایک اشارہ پاکر اصحاب امر کی اطاعت کرنے کا جذبہ تیز تر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ہمیشہ اپنے تمام ساتھیوں کے اجتماعی مشورے سے ہی کوئی قدم اٹھانا طے کیا جائے۔

پھر حکم دینے میں اس کا لحاظ بھی ضروری ہے کہ جس کو کوئی حکم دیا جارہا ہو اس کی صلاحیتوں، استعداد کار، اوقات حاصلہ (time available) ، کاموں کی طرف میلان وغیرہ مختلف امورکا لحاظ کرتے ہوئے ایسا حکم دیا جائے اور ایسے طریقے سے دیا جائے کہ وہ سننے والے کو ناگوار بوجھ نہ بننے پائے۔ ضروری کام یقیناً انجام پانے چاہئیں، لیکن یہ زیادہ ضروری ہے کہ وہ خوش گوار فضا میں ذوق و شوق کے ساتھ اچھے معیار پر انجام پائیں۔ ورنہ مجبوراً کسی پروگرام کو روک دینا گوارا کیا جاسکتا ہے مگر یہ گوارا نہیں کیا جاسلتا کہ لوگ بددلی، ادنی سی تلخی یا ناگواری لیے ہوئے جبراً و قہراً ذوق و شوق کے جذبے سے خالی ہوکر محض تکمیل ضابطہ کی خاطر کوئی کام انجام دیں۔ لہذا اپنے ساتھیوں کو حکم دینے میں نہایت درجہ حکمت، لینت اور شفقت کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے یہاں بھی حکم کی نوعیت ایسی نہیں ہونی چاہیےکہ گویا وہ اوپر سے لادا جارہا ہے، بلکہ ایسی ہونی چاہیےکہ گویا ایک شخص خود اپنی خواہش و رضامندی سے بلکہ درخواست کرکے ایک حکم بغرض تعمیل حاصل کر رہا ہے۔ اس کیفیت کو پیدا کرنے کی کوشش میں جتنی کامیابی ہوگی اسی نسبت سے نظم و تنظیم میں استحکام اور مساعی میں حرکت پیدا ہوسکے گی۔

کوئی مشکل مرحلہ سامنے آجائے تو مایوس ہونے کے بجائے اللہ تعالی سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ایک ایسا راستہ سجھائے جس سے مشکلات حل ہوں۔ خلوص دل کے ساتھ جو دعائیں کی جاتی ہیں اللہ تعالی انھیں خالی واپس نہیں کرتا۔            (اشارات زندگی،شمارہ جون تا ستمبر 1954 )

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2019

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223