علم معاشیات
معاشیات کو عربی میں اقتصاد اور انگریزی میں ECONOMICS کہا جاتا ہے ، اور یہ لفظ دو یونانی الفاظ سے مرکب ہے ، عام فہم انداز میں کہہ سکتے ہیں کہ کم وسائل کے باوجود کفایت شعاری سے خرچ چلانا تاکہ ضروریات پوری ہو سکیں۔
معاشیات کی تعریف
ماہرین معاشیات نے اس کی بہت سی تعریفیں کی ہیں ،کسی نے دولت کہا ہے ، کسی نے مادی فلاح وبہبود کا علم بتایا ، لیکن اس جگہ ڈاکٹر محسون بھجت جلال کی تعریف نقل کی جاتی ہے ،جس کو انہوں نے اپنی کتاب مبادی الاقتصاد میں بیان کیا ہے،
’’علم الاقتصاد ھو العلم الذی یدرس المشکلات التی تنشا عن حاجات انسانیۃ متعددۃ موارد اقتصاد یۃ محدودۃلاشباع ھذہ الحاجات‘‘ (مبادی الاقتصادص۷)
علم معیشت متعدد انسانی حاجتوں اور محدود اقتصادی اسباب کےپیش نظر، میسر ذرائع سے ان ضروریات کو پوراکرنےكا نام هے۔ اس راہ میں جو مشکلات و مصائب سامنے آتی ہیں ان کو فرو کرنے کا نام علم معیشت ہے ۔
اسلا م کا نقطۂ نظر
معاش کا مسئلہ عصر حاضر میں انسان کے اہم ترین مسائل میں سے ہے ۔یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے ،یہ کسی نہ کسی شکل میں ابتد ا سے انسان کے ساتھ وابستہ رہا ہے۔ ا سلام نے اس کا حل پیش كیا۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات اور کامل دین کا نام ہے ، اس لیے یہ انسان کے ہر پہلو سے بحث کرتا ہے ۔اسلام تارک الدنیا لوگوں کے نقطئہ نظر کی صاف تردید کرتاہے ،اسلام دولت مندی کو جو حلال ذرائع سے حاصل ہوئی ہو، اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت قرار دیتاہے ، جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا واجب ہے ، اور فقرو فاقہ کوایک ایسی مصیبت کہتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے۔
علامہ یوسف قرضاوی اپنی کتاب۔مشکلۃ الفقر وکیف عالجھا الاسلام میں لکھتے ہیں۔
’’فقر و فاقہ اخلاق و کردار کے لیے بھی کچھ کم خطرناک نہیں،کسی غریب اور تنگ دست کو اس کی بدحالی اور محرومی بعض دینی اور دنیاوی معاملات میں غیر شریفانہ اور اخلاق سے گراہوا روّیہ اختیا کرنے پر مجبورکردیتی ہے،اس لیے تو کہتےہیں ۔۔۔صوت المعدۃ اقوی من صوت الضمیر یعنی معدے کی آواز ضمیر کی آواز سے زیادہ طاقت ور ہے ‘‘ ۔(مشکلۃ الفقر وکیف عالجھا الاسلام ص۱۵)
قرآن میں للہ تعالیٰ نے حصول معاش کو’’ فضل اللہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، چنانچہ ارشاد باری ہے ۔
جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤاور اللہ کافضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو ، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔ (سوره جمعه)
اور کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں ۔(سوره مزمل)
لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلامن ربکم(البقرہ ۷۔۱۹۸)
اور اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ،تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
حصول مال کا تصور
اسلام نے زندگی گزارنے کے لئے لوگوں کی ہر اعتبار سے رہنمائی کی ہے ، چنانچہ معاشی زندگی میں بھی اسلام رہنمائی کرتاہے ،اسلام لوگوں کو معاشی زندگی گزارنے کے لیے حلال ذرائع سے حصول مال کی ترغیب دیتاہے ، قرآن کریم نے مال و دولت کو قیام للناس (النساء ۱۵،المائدہ۹۷) کے لفظ سے یاد کیاہے ،یعنی مال انسانوں کے لئے زندگی کا سبب ہے۔نبی كریم ﷺ كا ارشاد هے:
’’اپنے وارث کو مالداری كی حالت میں چھوڑویه اس سے بہتر ہے کہ تم اس کوبے یار مدد گار چھوڑواور وہ لوگوں کے پاس مانگنے کے لیے اپنا ہاتھ پھیلاتاپھرے ،بے شک تم جتنا بھی خرچ کرو وہ تمہارے لیے صدقہ ہے حتی کہ وہ لقمہ جوتم اپنے بیوی کے منھ میں رکھتے ہو وہ بھی تمہارے لیے صدقہ ہے۔‘‘(بخاری)
اصول کسب معاش
ہمیں قرآن کے اندر دو قسم کے اصول ملتے ہیں :
(۱) اصول کسب معاش
(۲) اصول انفاق مال
اصول کسب معاش یہ ہے کہ پاکیزہ اشیاء کو پاکیزہ طریقہ سے حاصل کیا جائے ، اسلام حصول مال کے لیے ناجائز اسباب پرقدغن لگاتا ہے ،چناچہ ارشادباری ہے ۔
’’اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طورپرنہ کھاؤ،ہاںالبتہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سےہو‘‘(سوره نساء)۔ اسلام انفاق مال کے اصول كی جانب بھی رہنمائی کرتا ہے ، انفاق مال کے سلسلے میںبنیادی اصول یہ ہے کہ بقدر استطاعت ضرورت کے مطابق خرچ کیا جائے اوراسراف وتبذیر سے اجتناب کیا جائے ،قرآن کریم میںهے :
وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ہی بخل ،بلکہ ان کا خرچ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہوتا ہے ۔(سوره فرقان)
اسراف ؛اسراف تین چیزوں کا نام ہے ۔
(۱) ناجائز کاموں میں دولت صرف کرنا خواہ وہ ایک پیسہ کیوں نہ ہو۔
(۲) جائز کاموںمیں خرچ کرتے ہوئے حد سے تجاوز کرجانا ۔
(۳) نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا مگر اللہ کے لیے نہیں بلکہ ریا اور نمائش کے لیے۔
اس کے برعکس ؛بخل کا اطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے ،ایک یہ کہ آدمی اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پر اپنی مقدار اور حیثیت کے مطابق خرچ نہ کرے ،دوسرا یہ کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اس کے ہاتھ سے پیسہ نہ نکلے ،ان دونواں انتہاؤںکے درمیان اعتدال کی راہ اسلام کی راہ ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اپنی معیشت میں توسط اختیار کرنا آدمی کے فقیہ یعنی دانا ہونے کے علامتوں میں سے ہے (احمد وطبرانی بروایت ابی الدرداء ،تفہیم القرآن ،جلد ۳ ص۳،۴۶۴)
حصول معاش كے ذرائع
قرآن واحادیث مین حلال و حرام کی تفصیلات موجود ہیں،چنانچہ حلال اشیاء کی خرید وفروخت حلال ہے ،اور حرام اشیاء کی خرید وفروخت حرام ہے،کچھ متشابہ اشیاء ہیں جس کے حلال وحرام ہونے میں شک وشبہ ہے،ہمیں ان سے احترازکرناچاہیے،ارشاد نبوی ہے۔
حلال وحرام دونوں چیزیں بالکل واضح ہیں،جوان کے درمیان ہیں وہ متشابہات هیں،جو شخص ان سے بچے،اس نے اپنی دین اور مال و عزت کو محفوظ اور صحیح وسالم رکھا ،اور جو اس میں پرگیا اب یہ بعید نہیں کہ وہ حرام میں ملوث ہوجائے ،اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی جانورکو حمی یعنی چراہ گاہ کے قریب چرائے ،تو یہ بعید نہیںکہ حمی میں جانور داخل ہوجائے، لہٰذا یہ بات یاد رکھو کہ ہر بادشاہ کا اپنا حمی ہوتا ہے اور سن لو اللہ کا حمی اس کی حرام کردہ اشیاء ہیں ۔
شیخ الحدیث محمدزکریا کاندہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب فضائل تجارت میں بیان کیا ہے:
’’ ہمارے نزدیک کسب معاش میں سب سے اہم اور افضل ذرائع تین ہیں ؛تجارت ، زراعت اور اجارہ ، اگر اجارہ دینی کاموں یعنی تعلیم وتربیت اور درس و تدریس وغیرہ کے لیے ہو تو وہ تجارت سے افضل ہے بشرط کہ وہی دین کا کام مقصود ہو اور تنخواہ بدرجہ مجبوری ہو ‘‘ ( فضائل تجارت ص ۶۰)
تجارت
اسلام نے حصول معاش کا ایک اہم ذریعہ تجارت کو قراردیاہے :
امانت دار اور نیک تاجر کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ۔
سچا ، امانت دار تاجر قیامت میںنبیوں ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ (ترمذی)
جب لوگ حج کے لیے جارہے تھے تو لوگوں نے تجارت اور روزی حاصل کرنے کودنیا کا کام سمجھا، تو اللہ تعالیٰ نے اس كی اصلاح كی ۔’’اور اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ،تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘
حلال طریقے سے طلب رزق نیکی کا کام ہے ، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم تجارت سے وابستہ تھے ، جب آپ سن رشد کو پہونچے تو آ پ کو فکر معاش کی طرف توجہ ہوئی تجارت سے بہتر کوئی پیشہ نظر نہیں آیا ، چنانچہ آپ نے تجارت کی غرض سے متعدد ممالک یمن ،شام اور بحرین کا سفر کیا ۔
اسی طرح ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی ایک ، مشہور ومعروف تاجرہ تھیں اور ان کی تجارت اعلی پیمانہ پرشام سے تھی ، اور ان کے ماتحت بہت سےلوگ کام کرتے تھے ، خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے سامان کولے کر تجارت کی غرض سے شام کا سفر کیا ، اسی طرح حضرت ملیکہ ثقفیہ ؓاور بنت مخربہ ؓ عطر کی تجارت کیا کرتی تھیں ۔(سیر الصحابہ ج۸ص۱۰)
بهت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا بھی مشغلہ تجارت تھا ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اورمہاجرین کے درمیان مواخات کرائی تو حضرت سعد بن الربیع نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف سے هر چیزکا نصف لینے کی درخواست کی ،مگر انہوں نے کہا ’’خدایہ سب آپ کو مبارک کرے ، مجھ کو صرف بازار کا راستہ بتادیجئے‘‘۔انہوں نے قینقاع کا جو مشہور بازار تھا، اس کا راستہ بتادیا ،انہوں نے کچھ گھی ، کچھ پنیر خریدا اور شام تک خرید فروخت کی، چند روز میں اتنا سرمایہ ہوگیا کہ شادی کرلی ۔
(صحیح بخاری میں دو مختلف موقعوں پر یہ واقعہ مذکور ہے (کتاب البیوع باب ماجاء فی قول اللہ فاذا قضیت الصلاۃ الخ الحدیث ۲۰۴۸)اورکتاب النکاح باب الولیمۃ ولو بشاۃ الحدیث ۵۱۶۷)
رفتہ رفتہ ان کی تجارت کو اتنی ترقی ہوئی کہ خود ان کا قول تھا کہ خاک پر ہاتھ ڈالتاہوں تو سونا بن جا تی ہے ، ان کااسباب تجارت سا ت سات سو اونٹوں پر لد کر آتا تھا اور جس دن مدینہ میں پہنچتا تمام شہر میں دھوم مچ جاتی تھی ۔(اسد الغابۃ ج ۳ص ۲،۴۸۳)
بعض صحابہ ؓنے دو کانیں کھول لیں ، حضرت ابو بکر ؓکا کارخانہ مقام ــسخ میں تھا ، جہاں وہ کپٹرے کی تجارت کرتے تھے ، حضرت عمر ؓ بھی تجارت میں مشغول ہو گئے تھے دیگر صحابہ ؓنے بھی تجارت شروع کردی تھی ، صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ پر لوگوں نے جب کثرت روایت کی بناپر اعتراض کیا کہ اور صحابہ تو اس قدر روایت نہیں کر تے تو انہوں نے کہا کہ ’’اس میں میر اکیا قصور ہے اور لوگ بازار میں تجارت کرتے تھے ااور میں رات دن بار گاہ نبوت میں حاضر رہتاتھا‘‘ (سیرۃالنبی دار المصنفین اعظم گڑ ھ ج ۱ص ۲۰۶ )
الغرض اسلام نے حصول معاش کے لیے تجارت کو اہم اور افضل ذریعہ بتایا ہے۔
زراعت وکاشت کاری
اسلام نے حصول معاش کا دوسرا ذریعہ زراعت کو بتایا ہے:
زراعت کی فضیلت کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ،
’’کوئی بھی مسلم شحص کسی طرح کادرخت یا کھتی کرتایا لگاتاہے اور اس سے کوئی پرندہ یاانسان یاجانور کھاتاہے تو یہ اس کے لیے صدقہ کاباعث ہے‘‘ضرورت کے اعتبار سے بھی زراعت بڑی اہمیت رکھتی ہے ، کیوںکہ اقتصاد اور معیشت میں زراعت کا بڑا دخل ہوتا ہے، زراعت کو صحابہ اور صحابیات نے اپنا پیشہ بنایا ہے ، اور اس کا ثبوت حدیث کے اندر ملتا ہے ۔ مدینہ میںعموما انصار کی عورتیں ٖکاشکاری کرتی تھیں مہاجرعورتوںمیںحضرت اسماء کا بھی یہی مشغلہ تھا ۔ ( سیرالصحابہ ج ۸ ص۱۰)
اجارہ
اسلام نے حصول معاش کا تیسرا ذریعہ اجرت یعنی اجارہ داری بتایا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت دار مزدور کی فضیلت بتائی:
آپ نے اجرت کے متعلق فرمایا:
’’اللہ نے کوئی نبی نہیں مبعوث کیا مگر انہوں نے بکریاں چرائیںتوصحابہ نے عرض کیا آپ نے بھی ، تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں مکہ کے لوگوں كی بكریاں چراتا تھا۔‘‘(بخاری)
اجارہ بھی اسلام میں ایک اہم ذریعہ معاش ہے ، اور انبیاء نے اس کو اختیار کیا ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ ؓ نے تجارت کی غرض سے بصریٰ بھیجا تھا ،اوركها میں آپ کو دوگنا معاوضہ دونگی اس سے جو میں دوسرے لوگوں کو دیتی ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس معاہدہ کو قبول فرمایا ،اور پھر ان کے مال تجارت کو لے کر بصرہ ٰ تشریف لے گئے ۔ اس کے علاوہ احادیث وسیرت میں اس موضوع پر بہت ساری روایات واردہیں۔
زکوٰۃ:
اسلام مال و دولت پر زکوٰۃ واجب کرتاہے جو مال تم حاصل کرتے ہو اس میں صرف تمہاراہی حق نہیں ہے، بلکہ اس میں غریب ومسکین کا بھی حق ہے ،چناچہ ار شاد باری ہے وفی اموالہم حق للسائل والمحروم(ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے) کہ اگر غرباء ومساکین تم سے مالی مدد طلب کریں تو تمہاری پیشانی پر بل نہیں آنا چاہیے کیوں کہ وہ اپنا حق طلب کررہے ہیں ،یہی وجہ کہ زکوٰۃ کی تعلیم وترغیب تمام انبیاء نے دی۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق ارشادہے ؛
وہ اپنے لوگوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اللہ کے نزدیک برگزیدہ تھے (سوره مریم)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام كا قول نقل كیا گیا:
اللہ تعالی نے مجھے برکت دی جہاں بھی میں ہوں او مجھے ہدایت فرمائی کہ نماز پڑہوں اور زکوۃ دیتارہوں جب تک زندہ رہوں۔ (سوره مریم)
اقیمواالصلاۃ واتواالزکوٰۃ وارکعوامع الراکعین(البقرۃ ،۴۳)
نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اوررکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو (یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑہو)
زکوٰۃکے متعلق ارشادباری ہے ۔
دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کوجو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ،ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی ،اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوںکو داغاجائے گا ، یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیاتھالو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔ (سوره توبه)
انفاق فی سبیل اللہ
اللہ تعالیٰ نے رضاء الٰہی کے حصول کے لیے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ نے متقین اور نیک لوگوں کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔۔۔۔۔۔
الذین یؤ منون بالغیب و یقیمون الصلاۃ ومما رزقناہم ینفقون۔(البقرۃ )
وہ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں نمازقائم کرتے ہیں جو رزق ہم نے ان کو دیاہے ، اس میںسےخرچ کرتے ہیں ۔
بخاری شریف کی مشہور حدیث ہے۔ (الحدیث ۵۳۵۲) اے ابن آدم توخرچ کر میں تم پر خرچ کرونگا۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
بیوه اور مسکین کی مددکرنے والے کی مثال مجاہد فی سبیل اللہ یاتہجدگزار اور روزہ رکھنے والے کی طرح ہے ۔(بخاری)
بیت المال کا قیام
اسلام نے معاشی نظام کو برقرار رکھنے اور کنٹرول کرنے کے لیے بیت المال کا نظام قائم کیا ہے ،اسلام نے ایک طرف سودی کاروبار کو حرام قرار دیا ہے ،تو وہیں دوسری طرف بلا سودی قرضہ کا مختلف طریقوں سے انتظام بھی کیا ہے ۔دولت مند صحابہؓ مفلس صحابہؓکو بغیر کسی سودکے ’’قرضہ حسنہ ‘‘دیا کرتے تھے ، خود رسول اکرم ﷺنے ایک مرتبہ چالیس ہزار کی رقم قرض لی تھی ،چنانچہ عبداللہ بن ربیعہ کا بیان ہے۔(نسائی، ۴۶۸۷)۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ مئی 2019