تحریکِ نسوانیت

ایک جائزہ (3)

آسٹریلیا کے مشہور آن لائن اخبار “The Age” کے نیشنل سیکورٹی کرسپنڈینٹ National security correspondent اور تجزیہ نگار “David wroe” single parent children more at riskکے عنوان سے ایک جائزہ رپورٹ میں مغربی معاشرہ پر سنگل پرینٹ کے سنگین اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتےہیں :۔

“Children growing up in single parent housolds are twice as likly to suffer a mental illness, commit suicide or develop an alcohal- related disease then children who live with both parents.

The risk of drug abuse was found to be three times higher in girls and four times in boys from single parents house” 25 January 2003-

(Available online-www Theage.com.au/articles / 2003 / 01/241)

یعنی ایسے بچے جوسنگل پیرنٹس کے تحت پرورش پارہے ہیں ان میں ذہنی بیماریوں خود کشی یا منشیات سے ہونیوالی بیماریوں کا شکار ہونے کا تناسب ماں اورباپ کے سایہ میں پرورش پانیوالے بچوں کے مقابلہ میں دوگنا ہوتا ہے۔

سنگل پیرینٹس گھروں میں پرورش پانیوالی لڑکوںمیں منشیات کے استعمال کا تناسب تین گنا اورلڑکیوں میں چارگنا زیادہ ہوتا ہے ۔ اس کےعلاوہ سنگل پیرینٹس (اکیلے مرد یا عورت) پر مشتمل خاندان میں غربت وبےروزگاری کی شرح بھی زیادہ پائی جاتی ہے ۔

جرمن ایکوئین ویلفیئر  ایسوسی ایشن کے مطالعہ کے مطابق ۲۰۱۳ء میں جرمن میں 12.5ملین افراد غریب تھے ، جن کی تعداد میں اب کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے ،رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی کے ۶۰ فیصد سنگل پیرینٹس بے سہارا اور غریبوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ (www.app.com.pk/up)

ہندو معاشرہ

ہندو معاشرہ  غیر واضح تصورات پر مبنی طرز عمل کا نام ہے ۔ جس کی ابتداء وانتہا نہایت پیچیدہ اورمشتبہ ہے ، جس کا نہ کوئی تاریخی ثبوت موجود ہے اورنہ قابل اعتماد معلوماتی شواہد ہیں ، جنکے ذریعہ اس معاشرہ کا تاریخی تعین کیا جاسکے ۔ چنانچہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اپنی مایہ ناز تصنیف “The Discovery of india” میں ہندومعاشرہ کی تاریخی حقیقت کاانکار کرتے ہوئے کہا کہ:۔’’ ہندو قوم کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ اس کے اکابرین کے حالات قابل تعین انداز میں جمع نہیں کئےگئے ۔ (تلاش ہند ، ص :۲۰)

متعد د تاریخ نویسوں نے ہندوؤں کی تاریخی حقیقت کونہایت مبہم اور فرسودہ قرار دیا ہے مشہور فرانسیسی مؤرخ ’’لیبان ‘‘ تو ہندو ؤں کی تاریخ کا ہی انکار کرتے ہیں ، وہ اپنی کتاب “India’s culture” رقمطراز ہیں:۔’’قدیم ہندوؤں کی کوئی تاریخی کتاب ہی نہیں ہے ، اورنہ کوئی دیگر شواہد و آثار ہیں جن کے ذریعے ان کی تاریخ کومتعین کیا جاسکتا ہے ، بلکہ  ہندوستان کی تاریخ مسلمانوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ (بحوالہ : تمدن ہند، ص ، ۱۴۴)

ایک انگریز مؤرخ ’مسٹر انفسٹن ‘‘ جوطویل عرصہ تک بمبئی کے گورنر بھی رہے لکھتے ہیںکہ :۔ ’’ کوئی قوم کتنی ہی جاہل اورغیر تہذیب یافتہ کیوںنہ ہو، اپنے آباء واجداد کی کوئی نہ کوئی تاریخ ضرور لکھتی ہے ، لیکن ہندوؤں کے بارے میں تعجب ہوتا ہے کہ ان کے پاس تاریخی شواہد کے طور پر پیش کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔یہی وجہ رہی کہ  ہندو معاشرہ مبہم اور بے ربط اصولوں پر چل پڑنے والا ایسا طرز حیات بن کر رہ گیا جس سےنہ کوئی منطقی اصول کارفرما ہے اورنہ متعین ضوابط درست راہوںکی طرف رہنمائی کررہے ہیں ، بلکہ متضاد توھمات اورغیر معقول افکارو نظریات کا مجموعہ بن کر رہ گیا ہے ، چنانچہ ہندو معاشرہ کی بے ترتیبی ، شدید ، ابہام اورواضح تضادات کا ذکر کرتے ہوئے ’’پنڈت جواہر لال نہرو‘‘ اپنی کتاب “The discovery of india’s”میں لکھتے ہیں :۔

’’ہندو مت ایک عقیدہ ومذہب کی حیثیت سے غیر مرتب، مبہم اور بہت سے پہلو رکھنے والا ہے ، وہ تمام انسانوں کیلئے سب طرح کی چیز ہے ، اس کی تعریف بیان کرنا یا مذہب کے عام مفہوم کے اعتبار سے متعین طورپر کہنا کہ وہ مذہب ہے یا نہیں، مشکل ہی سے ممکن ہے ، وہ اپنی موجودہ شکل میں اورماضی میں بھی بہت سے بلند اور پست ترین معتقدات واعمال پر مشتمل رہا ہے ، جوایک دوسرے سےمتصادم اور متضاد رہے ہیں‘‘۔ (تلاش ہند، ص : ۳۷)

چنانچہ موجودہ ہندو سماج میں دو سوسے زائد فرقے ہیں ، لا تعداد چھوٹے بڑے با اختیار ، بے اختیار دیوی دیوتاؤں کا تصور اورعلم وہنر ، مال ودولت ، نفع وضرر موت وحیات وغیرہ مختلف  شعبہ ہائےحیات کے مختلف خداؤں کے اختیارات کا نظریہ ہے رگ  ویدمنڈل ۳،  عشیرمیں دیوتاؤں کی تعداد ۳۳۲۰ بتائی گئی ہے۔(سوامی دیا نند سرسوتی ، رگ وید ایک مطالعہ ، مترجم : نہال سنگھ ، نگارشات پبلشرز لاہور ، ۲۰۰۵ء)

یہاں نجومیوں ، کاہنوں اورقنافہ سناتنوں کی پیشین گوئیوں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے ، ہر طبقے میں باباؤں تیسویوں کی بھواشوانیوں کے مطابق ہی تمام امور طے کئے جاتےہیں ،تاریخ فیروز شاہی میں برنی کے حوالہ سے بیان کیا گیا کہ : ’’اشراف شہر کی یہ موروثی رسم ہے کہ بغیر نجم سے دریافت کئے کوئی کا ر خیر انجام نہیں دیاجاتا ہے اور کوئی معاملہ خواستگاری بغیر منجم کے استصواب رائے کے نہیں ہوتا تھا۔ (تاریخ فیروز شاہی ، ص: ۳۶۳) آج بھی جوتشیوں اورنجومیوں کا جال بچھا ہوا ہے ،جگہ جگہ آشرموں اورمندروں میں اس طرح کے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں ، ہندوستانی معاشرہ میں قدیم زمانہ سے یہ سلسلہ جاری ہے ، ’’درگاہ قلی خاں‘‘ مرقع دہلی میں لکھتے ہیں کہ :۔ ’’ آگے بڑھئے تو آپ کو نجومیوں اورجوتشیوں کی جماعت کا جال بچھا نظر آئے گا ، جن کے پھندے سے نکل جانا مشکل ہے ، یہاں خلقت اپنی تقدیر کے نوشتے کومعلوم کرنے کے لئے بیٹھی ہے ، کوئی ہے جوخوش آئند واقعات سن کر مسرور ہورہا ہے ، کوئی آئندہ کی پریشانی سن کر متفکر ہے‘‘ ۔(محمد عمر ، ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر، ص: ۲۸۵، طبع سکائی لارک پرنٹر، ۱۱۳۵۵، نئی دہلی ، ۱۹۷۵ء)

ہندو  معاشرہ اور خدا کا تصور

ہندو معاشرہ میں خدا کا  واضح تصور موجود نہیں ہے ، یہاں متعدد دیومالائی قوتوں کومان کر اصل خالق کو ثانوی یا بالکل نامعلوم درجہ دیا جاتاہے ۔ ہندد مذہب کی اہم کتاب منوسمرتی میں اصل خدا کی بس اسقدر اہمیت ہے کہ وہ پا نی سےاچانک پیدا ہو ا جس کوپر ماتما کہا جاتا ہے ، پرماتما نے برہما کو پیدا کیااور خود معطل ہوکر سارے اختیارات برہما کودے دئیے ، اورکائنات کی تمام چیزوں کی تخلیق برہما کے ذریعہ ہوئی ، منوسمرتی میں ہے :۔’’جوپر ماتما اندریوں سے الگ وباریک پوشیدہ ، ہمیشہ بےفکر اورسب مخلوق کی جان ہے، آپ سے آپ ظاہر ہوا ، اور اس کے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ اپنے بدن سے ایک قسم کی خلقت پیدا کرنا چاہئے، تو اس نے پہلے پانی کوپیدا کیا ، پھر اس میں بیج ڈالا، تب وہ بیج مثل آفتاب کے صورت بیضہ بن گیا ، پھر اس بیضہ سے برہما جی جو تمام مخلوقات کے پیدا کرنے والے ہیں آپ سے آپ پیدا ہوئے،——— پر ماتما نے جس شخص کو دنیا میں سب سے پہلے پیدا کیا اسی کو سب لوگ برہما کہتے ہیں ۔(منوسمرتی ، ادھیائے :۱، سنسکرت مع ترجمہ اردو ، مرتبہ: لالہ سوامی دیال صاحب طبع بار دوم، مطبع: منشی نول کشور، مقام کانپور، سنہ موجود نہیں ہے ) ص : ۲)

اگلی عبارتوں میںتفصیل سے متعدد اشیاء کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ان تمام چیزوں کا خالق برہما کوقرار دیا گیا ۔ منوسمرتی میں ایک جگہ ہے :۔’’برہما نے اس انڈے میں اپنے ایک بر س رہ کر اور پرماتما کا دھیان کرکے اس انڈے کے دوٹکڑے کئے، ان دو ٹکڑوں سے برہما نے سورگ اور پرتھوی کو بنایا ، پھر ان دونوں کے بیچ میں آکاش (آسمان اورآٹھوں دِشا (جوانب) اوراچل (جاری) سمندر بنایا ۔‘‘(حوالہ سابق)

تری مورتی

یجروید میں برہما کوابدی اورتمام چیزوں کا خالق قرار دیاگیا ہے ، نیز برہما کے ساتھ ایسے تین خداؤں کا بھی تصور ہے ، جن کو ہند وتہذیب  میں بااختیار تسلیم کیا جاتا ہے ، ان میںسے برہما کوتمام کائنات کا خالق ، وشنو کوکائنات کی بقا اور استحکام کا ذمہ دار مانا جاتا ہے ، جبکہ کائنات کو اپنےوقت پرتباہ وبرباد کرنے کا اختیار  شیو کو دیا گیا ہے ، اسی کوہندو معاشرہ میں تری مورتی کا عقیدہ کہا جاتا ہے ۔

 موہوم نظریات

یہاں مافوق الفطرت قوت اور حقیقی خالق کے تئیں موہوم نظریات اورمختلف خداوؤں ودیوی دیوتاؤں کے درمیان عملی قوتوں کی تقسیم در تقسیم سے اصل خدا کا تصور اوجھل ہی نہیں بلکہ اس کا صحیح تصور معدوم ہوجاتا ہے ، ساتھ ہی برہما جوکہ اپنے سوا تمام چیزوں کا خالق ہے اس کی خدائی بھی اسی وقت تک باقی رہتی ہے جب تک وہ بیدار ہے ،جب وہ سوجاتا ہے تواس کا اختیار ختم ہوجاتا ہے ، منوسمرتی میں برھما کا دائرہ اختیار بیان کرتےہوئے کہا گیا کہ :۔

’’جب تک برہما جاگتے رہتے ہیں تب تک یہ جگت دیکھ پڑتی ہے ، اورجب وہ شانت پرش یعنی برھما جی سوجاتے ہیں تب پرلے ہوجاتی ہے ، جب برہما جی نچنت (بے فکر ) ہوکر سوتے ہیں تب جیواور من  (سارے جاندار ) اپنے کرموں سے چھوٹ جاتے ہیں ‘‘۔ (منوسمرتی ، ادھیائے : ۱، شلوک : ۵۳۔۵۲)

اسی کتاب میں اس کی بھی وضاحت ہے کہ برہما جی رات میں سوتے ہیں اوردن میں اپنا کام کرتے ہیں ، ملاحظہ کیجئے منوسمرتی کا یہ شلوک :۔ ’’ وہ برہما اپنے دن میں کام کرتے ہیں اور رات میں سو تے ہیں ، جب جاگتے ہیں تب شکلپ ، بکلپ روپ من کو سرتنٹ رچنے کے واسطے آگیا دیتے ہیں۔‘‘ (ادھیائے :۱، شلوک : ۷۴)

توہین انسانی

برہمنوں کے  ذریعہ تشکیل شدہ ہندو معاشرہ کی بنیاد برہمنوں کی تعظیم وتکریم پر رکھی گئی ، برہمنوں نے  فلسفوں کے سہارے اپنی عظمت وتقدس کولوگوں کے عقیدہ میں شامل کردیا اور اس تفریق کوتسلیم کرنے پر مجبور کیا ، چنانچہ غیر برہمن عزت وعظمت کے مستحق نہیں ہیں ، نہ تو انہیں دنیا کی کسی چیز پر ملکیت کا حق حاصل ہے اور نہ انسانی آبادی میں آزادانہ رہنے کا اختیار ہے ، بنیادی طورپر انہیں ایشورکے پیر سے پیدا ہونے والا انسان تصور کیا جاتا ہے ،  منوسمرتی میں شدرکی ذمہ داریوں کاتعین ان الفاظ میں کیا گیا ہے :۔

’’ترجمہ:۔ شدر کوواجب ہے کہ مذمت، حسدو غرور کوچھوڑ کر برہمنوں ، کشتریوں اور ویشو ں کی بطریق احسن خدمت کریں اور اسی کوا پنا ذریعہ معاش بنائے، بس یہی شدر کا وصف اورفرض ہے ‘‘۔ (ادھیائے : ۱، شلوک : ۹۱)

متعین ورن سے خارج لوگوں کا حال

اس معاشرہ میں برہمنوں کے علاوہ  انسانیت کی بڑی تعداد کے لیے دنیا کی کسی بھی نعمت کے استعمال پر سخت پابندی ہے ، کتا اوربلّی کے علاوہ کسی قابل تعظیم اشیاء، پر ملکیت کا اختیار حاصل نہیں ہے ، منوسمرتی میں یہ قانون بھی درج ہے :۔ ’’چانڈال ، وسو یچ یہ دونوں گاؤں کے باہر قیام کریں، برتن وغیرہ سے محروم رہیں، ان کی دولت صرف سنگ وخر یعنی کتا اورگدھا ہے ۔ (ادھیائے : ۱۰، شلوک : ۵۱)

منوسمرتی میں ہی آگے یہ قانونی پابندیاں بھی درج ہیں:’’ مرد ے کے کپڑے پہنیں ، پھوٹے ہوئے برتن میں بھوجن کریں ،زیور آہنی زیب بدن کریں ہمیشہ گشت کرتے پھریں ،—— دھر ماتما آدمی ان لوگوں سے درشن یا بیوپار وغیرہ نہ کریں، ان کی خوراک دوسروں کے اختیار میں ہے ، پھوٹے برتن میں اَنّ دینا چاہئے، اوریہ لوگ رات کے وقت گاؤں شہر وغیرہ میں پھرنے نہ پاویں ۔ (ادھیائے : ۱۰، شلوک :۵۲ تا ۵۴) نیز یہ قانون بھی درج ہے کہ برہمن کے جھوٹوں پر ہی شدروں کواکتفا کرنا چاہئے، انہیں الگ سے دولت حاصل کرنے اور دنیاوی لذات سے فائدہ اُٹھانے کی اجازت نہیں ہے ۔

منوسمرتی میں ہے کہ :۔ ’’ نیائے سے رہنے والے شودر کومہینہ کے اندر ایک بار حجامت کرانا چاہئے ، اس کی طہارت ویس کے مانند ہے ، اوربرہمن کا پس خوردہ ان کی غذا ہے ۔‘‘ (ادھیائے : ۵، شلوک : ۱۴۰)

پیدا ہونے والے بچوں کے نام رکھنے میں  جواحکامات و ہدایات درج ہیں ان میں اس کا بھی تذکرہ ہے:۔ برہمن کے نام میں لفظ ’’ منگل‘‘ یعنی خوشی، اورکشتری کے نام میں لفظ ’’بل‘‘ یعنی طاقت، ویشیہ کے نام ہیں لفظ ’’ دھن‘‘ یعنی دولت اورشودر کے نام میں لفظ ’’نیندا‘‘ یعنی تحقیر شامل کرنا چاہئے ۔ (ادھیائے : ۲، شلوک : ۳۱)

قتل انسانی

اوہام وخرافات پر مبنی اس معاشرہ میں  جادو، ٹونا ، ٹوٹکا کوجہاں خاص مقبولیت حاصل ہے ، موہوم مقاصدکیلئے انسانوں کی قربانی کا رواج بھی پایا جاتا ہے مال ودولت کوبڑھانے ، ہرطرح کی خوشحالی اورروحانی قوتوں کے اضافہ کیلئے انسانی بچوں بلکہ خود اپنے بچوں کی قربانی پر یقین رکھا جاتا ہے ۔

مصنف ’’راجندر لال شرما نے متعدد دلائل وشواہد کے ذریعہ ثابت کیا کہ انسانوں کی قربانی ویدک دور سے اب تک لگاتار کی جاتی رہی ہے ۔‘‘

تفصیل کیلئے دیکھئے :

(Bremmer.J.N: The strange world of human sacrifice, Leuven: Pecters Academic-2007,P:159)

ساتویں صد ی میں انسانی قربانی عام تھی ، مشہور مؤرخ ’’مان بھٹ‘‘ اور ’’ہری بھدر‘‘  نے ریاست  اڑیسہ میں واقع چنڈیکا کے ایک مندر کے بارے میں لکھتے ہوئے وہاں انسانی قربانی کے طویل سلسلہ کا ذکر کیا ہے ۔  ملا حظہ ہو :۔

Hastings, James (ed), Encylopedia of ethics, Kessenger publishing,2003, vol:9, P:185)

اسی طرح کرناٹک کے کنکور قصبے میں ایک مشہور کالی مندر ہے ، جسکی تاسیس آٹھویں صدی میں ہوئی، اس مندر میں انسانوں کی قربانی کی مشہور تاریخ رہی ہے ۔ (حوالہ سابق)

یجروید میں ہے کہ :۔ ’’ جوبرہمن یا چھتری دیوتاؤں سے بھی اونچے استر (درجہ) پر پہنچنا چاہتے ہیں انہیں پُروش میدھ( انسانوںکی قر بانی ) کا یگ (عمل ) کرنا چاہئے ۔ (ادھیائے : ۳۰، منتر:۲ پر مہندر بھاشا) یجروید کا تیسواں ادھیائے  انسانی قربانی کی فضیلت پر مشتمل ہے ۔

(جاری)

مشمولہ: شمارہ جنوری 2017

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223