جب مختلف گروہوں، مسلکوں اور جماعتوں کی نمائندہ شخصیات ایک اسٹیج پر جمع ہوتی ہیں، کوئی متحدہ پلیٹ فارم تشکیل دیتی ہیں، مشترکہ قرار داد جاری کرتی ہیں، تو یہ دراصل علامتی اتحاد ہوتا ہے۔ علامت کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ علامت جتنی زیادہ گہری اور سچی ہوتی ہے، اور علامت میں پنہاں پیغام جس قدر طاقت ور اور پر زور ہوتا ہے، عملی اقدام کے لیے وہ اتنی ہے زیادہ حوصلہ بخش ہوتی ہے۔ اس لیے اتحاد کا علامتی اظہار کرتے ہوئے اپنی کوشش اتنی طاقت ور بنانی چاہیے کہ اس کے ذریعے اتحاد کے گہرے نقوش امت کے دل ودماغ پر ثبت ہوجائیں۔
علامتی اتحاد بھی آسان اور غیر اہم نہیں ہوتا ہے۔ ایک اسٹیج پر جمع ہونے کی دعوت دینے اور دعوت قبول کرنے کے لیے سب لوگ آمادہ وپرجوش نہیں ہوتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ دیگر علامتوں کے دھندلے ہوجانے کا اندیشہ اتحاد کی علامت کو زیادہ نمایاں کرنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامتی اتحاد کا اظہار بھی وسیع تر پیمانے پر تسلسل کے ساتھ نہیں ہوپاتا ہے۔ دل ودماغ پر علامت کا گہرا نقش بٹھانے کے لیے وسیع تر اور بے توقف اظہار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ جب کسی طویل وقفے کے بعدمحدود سطح سے اتحاد کی صدا بلند کی جاتی ہے تو وہ نامانوس لگتی ہے۔
ہندوستان کی مسلم ملت کے کانوں کے لیے اتحاد کی آواز قدرے اجنبی ہے، دل ودماغ پر نقش ہونے کی بات تو دور کی ہے۔
٭٭٭
ضروری نہیں کہ علامتی اتحاد کی کوششوں کے بطن سے عملی اتحاد فوراً جنم لے، البتہ اس سے عملی کوششوں کے لیے تحریک ضرور ملتی ہے۔اس امر سے ناواقفیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ علامتی اتحاد کی کوششوں کو بے سود قرار دینے لگتے ہیں، کیوں کہ وہ ہر کوشش کا پھل اسی وقت عملی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ چناں چہ آپ اکثر یہ جملہ سنیں گے کہ اتحاد امت پر کانفرنسیں اور تقریریں تو بہت ہوتی ہیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تفرقہ و انتشار نے جب امت کا شیرازہ پارہ پارہ کردیا ہو، تو اتحاد کی بات کو بار بار دہرانے سے اتنا فائدہ تو ضرور ہوتا ہے کہ امت کے اجتماعی ضمیر کو کچوکے لگتے رہتے ہیں اور اس طرح تفرقہ وانتشار پر امت مطمئن نہیں ہوتی ہے۔ اتحاد ایک خواہش بن کر امت کے دل میں مچلتا رہتا ہے اور سازگار حالات کے انتظار میں بیتاب رکھتا ہے۔
٭٭٭
اتحاد کی علامت کو روشن اور بلند رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ امت میں انتشار وافتراق کا چرچا نہ ہو۔ چرچا بہرحال اتحاد واتفاق ہی کا ہو۔یہ عین ممکن ہے کہ کوئی جماعت، تنظیم یا ادارہ دولخت ہوجائے، لیکن یہ ضروری تو نہیں ہے کہ اس کی گونج دور تک سنائی دے۔ دو مکتب ہائے فکر کا باہمی فکری اختلاف اہل علم وفکر کے درمیان گفتگو کا موضوع بنے، بہت اچھی بات ہے، لیکن وہ عوامی مناظرے کی صورت اختیار کرلے، یہ کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ ملت کی موجودہ صورت حال تو یہ ہے کہ دو افراد کے درمیان کسی مسئلے میں اختلاف ہوجائے تو اس کا اتنا زیادہ چرچا ہوتا ہے گویاپوری امت دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ اختلاف کا شہرہ زیادہ ہو تو اس کا اثر گہرا ہوجاتا ہےاور اتفاق کی راہیں تنگ ہوجاتی ہیں۔
٭٭٭
علامتی اتحاد کو مستحکم بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انتشار وافتراق کی علامتوں کو مٹانے یا پھر دھندلا کرنے کی کوشش کی جائے۔ افتراق کی ایک علامت یہ ہے کہ مسجدیں مسلکوں میں تقسیم ہوگئی ہیں۔ اس تقسیم کو نمایاں کرکے دکھانے کے لیے مختلف علامتوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مسجدوں کی یہ تقسیم تو مسجدوں کی بےحرمتی ہے۔ مسجدیں امت کے اتحاد کی علامت ہیں ان کو افتراق وانتشار کی علامت بنانا ہرگز درست نہیں ہوسکتا ہے۔
افتراق کی ایک اور علامت یہ ہے کہ دینی تعلیم دینے والے مدرسے مسلکوں میں تقسیم ہیں۔ مدرسہ کسی مسلک کی تعلیم کو ترجیح دے، اس کی تو کچھ نہ کچھ تاویل کی جاسکتی ہے، لیکن مدرسے کے دروازے باقی سب کے لیے بندرہیں، یہ بات تعلیمی اداروں کے شایان شان نہیں ہے۔ دینی مدارس کے درمیان اگر طلبا واساتذہ کی آمد ورفت بے روک ٹوک ہو،تو یہی مدارس اتحاد ملت کی علامت بن سکتے ہیں۔
افتراق کو وہ تحریریں بھی غذا دیتی ہیں جو مختلف زمانوں میں لکھی گئیں۔ان تحریروں کے اثرات کو زائل کرنے والی تحریروں کو کثرت سے لکھنا مفید ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی دور میں ذات برادری کی بنیاد پر اونچ نیچ کو تسلیم کرنے والی تحریریں لکھی گئیں، تو اب مساوات کو فروغ دینے والی تحریریں زیادہ لکھی جائیں۔ کسی دور میں مسلکی شدت پسندی کو بڑھانے والی کتابیں زیادہ لکھی گئیں تو اب مسلکی رواداری کو فروغ دینے والی تحریریں زیادہ لکھی جائیں۔ قدیم کتابوں کو دریابرد نہیں کیا جاسکتا ہے، لیکن قدیم کتابوں کے زہر کا توڑ کرنے والی نئی کتابیں بہت مفید ہوسکتی ہیں۔
٭٭٭
امت میں علامتی اتحاد کے ساتھ ساتھ متوازی طور پر عملی اتحاد کے لیے بھی کوششیں ہونی چاہئیں۔ بسا اوقات علامتی اتحاد پر اکتفا کرلیا جاتا ہےاور اسے عملی اتحاد کا بدل سمجھ لیا جاتا ہے۔ عملی اتحاد اس وقت وجود میں آتا ہے جب کسی لائحہ عمل پر اتفاق ہوجائے۔جتنے بڑے لائحہ عمل پر اتفاق ہوجائے ، عملی اتحاد اتنا ہی عظیم ہوتا ہے۔ گویا عملی اتحاد کے دو عناصر ہیں، لائحہ عمل اور اس پر اتفاق۔
کم سے کم مشترکہ پروگرام (common minimum program) پر اتفاق عملی اتحاد کی سب سے چھوٹی اور آسان صورت ہوتی ہے۔ اس صورت میں لائحہ عمل کا حجم بہت چھوٹا ہوتا ہے اور عا م طور سے اس سے تمام شرکا کے مفادات ومصالح وابستہ ہوتے ہیں۔ اگر اس نوعیت کا اتفاق بھی نہ ہوسکے تو اس کا مطلب ہے کہ امت میں اتحاد کی اہلیت نہایت کم زور ہے اور انتشار وافتراق کی بیماری خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے۔
لائحہ عمل پر اتفاق کی مطلوبہ صورت یہ ہے کہ ملت کی تمام ضرورتوں کا ادراک کیا جائے۔ اور ان ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وسیع تر لائحہ عمل مرتب کیا جائے اور اسے بروئے کار لانے کی متحدہ کوشش کی جائے۔
٭٭٭
مقامی سطح پر اتحاد کی اہمیت سے مسلمان بہت کم واقف ہیں۔ ذہنوں میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ اتحاد وہی ہے جو قومی سطح کی شخصیات اور تنظیموں کے درمیان ہو۔ مقامی لوگ مرکزی قیادتوں اور ملکی سطح کی تنظیموں کی طرف دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ یہ تصور مقامی لوگوں کو اپنی ذمے داری سے غافل رکھتا ہے۔ قومی سطح پر اتحاد کی اہمیت مسلّم ہے، لیکن مقامی سطح کا اتحاد بھی ضروری ہے اور اس کی ذمے داری مقامی افراد پر عائد ہوتی ہے۔اس کی پوری گنجائش ہونی چاہیے کہ اگرقومی سطح پر قومی سطح کے مسائل کو لے کر اختلاف ہو تو بھی مقامی سطح پر مقامی سطح کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اتحاد ہوجائے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بالغ نظری کی علامت ہوگی۔
٭٭٭
مقامی سطح کا اتحاد علامتی سے زیادہ عملی ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے مقامی آبادی کی ضرورتوں کا ادراک ہو ۔ پھر ان ضرورتوں کی تکمیل کے لیے متحدہ کوششوں کی اہمیت کا ادراک ہو ۔ یہ خود اعتمادی بھی درکار ہے کہ مقامی ضرورتوں کا سارا بوجھ مقامی افراد آسانی کے ساتھ اٹھاسکتے ہیں، اگر وہ مل جل کر منصوبہ بند کوشش کریں۔ اس سلسلے میں قومی قیادتوں سے امید باندھنا اور جب تک ان کی طرف سے تعاون یا مہمیز نہ ملے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا اس بات کی علامت ہے کہ لوگ قومی قیادت کے محدود وسائل اور اپنے زبردست اور بھرپور وسائل دونوں ہی سے ناواقف ہیں۔
مقامی سطح محلہ بھی ہوسکتا ہے، پوری بستی بھی اور پورا ضلع بھی۔ جس سطح پر بھی متحدہ لائحہ عمل بن سکے ضرور بنانا چاہیے۔ دینی تربیت، تعلیم، صحت وصفائی، معاش و روزگار، بھلائیوں کا فروغ اور غلط رسومات کا ازالہ اور اخلاقی برائیوں کا علاج متحدہ لائحہ عمل کے خاص نکات ہوسکتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2021