اسلامی امت کی سب سے بڑی روحانی قوت ایمان ہے، جس کا عملی مظہر نماز ہے، اورسب سے بڑی عملی قوت صبر ہے، جس کے حصول کا بہترین موقع ماہ رمضان ہے۔ نماز اور صبر کی مدد سے امت اپنے مشن کو بخوبی انجام دے سکتی ہے۔ ادارہ
رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے۔ انسان کا تعلق انسانوں سے ہے زندگی میں کتنی بار اس طرح کے مراحلے آتے ہیں کہ اس کو دوسروں کی باتوں اور حرکتوں سے ناخو ش گواری اور تکلیف پہونچتی ہے۔کسی کی طرف سے کوتاہی تو کسی کی جانب سے زیادتی ہوجاتی ہے ایسے موقع پرنامناسب ردعمل سے بچنا صبر ہے۔ زندگی میںبار بار نقصان ہوتے ہیں اور پریشانیاں آتی ہیں، ان پر آدمی شکوہ گلہ نہ کرے اور ہمت نہ ہارے یہ بھی صبر ہے۔دین اسلام کے احکامات کی ادائیگی میں کبھی دشواریاں پیش آتی ہیں،انھیں برداشت کرنا ، رضاے الہی کی خاطر ہر قسم کی دقتوں ،مصیبتوں کو جھیلتے ہوئے اپنے موقف پر ڈٹے رہنا بھی صبر ہے۔
روزہ مومن کے اندر صبر و تحمل پیدا کرتا ہے۔ روزے دار کھانے ،پینے اور ازدواجی تعلقات سے پورے ایک ماہ تک دن بھر رکا رہتا ہے۔اپنی خواہشات ، اور نفسانی ترغیبات پر کنٹرول کر تا ہے، اپنے جذبات کو ضبط میں رکھتا ہے۔ روزے میں لڑنا ، جھگڑنا، جھوٹ بولنا ، غیبت کر نا، بد نگاہی اور بے شرمی کی باتوں سے اپنے آپ کوبچا کر رکھتا ہے۔ اسی طرح رات میں تراویح اور پھر تہجد میں تھکتا ہے، سحری کے وقت اپنی گہری نیند سے مقابلہ کر تا ہے، اور یہ مقابلہ فجر کی نماز ہونے تک جاری رہتا ہے۔
انسان کی بنیادی ضروریات (۱) کھانا پینا (۲) سونا اور آرام کرنا (۳) جنسی خواہشات کو روک رکھنے سے انسان کے اندر صبر کا ملکہ پیداہوتاہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا:روزہ ڈھال ہے ، تم میں سے جو روزہ دار ہو وہ بد کلامی نہ کرے اور نہ شور شرابا کرے، اگر کوئی اس کو گالی دے یا جھگڑے تو یہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔(بخاری)
صوم کے اصل معنی کسی چیز سے رکے رہنے کے ہیں۔ جو شخص کھانے پینے اور گفتگو کرنے سے رکا رہے اسے عربی میں صائم کہتے ہیں ، روزے کے اسی مفہوم کے مطابق روزے میں جہاں روزے دار کھانے پینے سے رکتا ہے، وہیں زبان کے غلط استعمال سے بھی رکتا ہے۔ زبان کی حفاظت ،پیٹ کی حفاظت ،شرم گاہ کی حفاظت ایسے عمل ہیں جو انسان کو جنت لے جانے والے ہیں۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے ملا قات کی اور عرض کیا: نجات کا ذریعہ کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا :ا پنی زبان پر قابو رکھو ( احمد،تر مذی)
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:جو شخص اپنے دو نو ںجبڑوں اور اپنی دو نوں ٹا نگوں کے درمیان کی چیزوں کی ضمانت دے تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔(بخاری)
نفسانی خواہشوں اور شہوتوں سے مغلوب ہو کر انسان حلال و حرام ، حق وناحق صحیح وغلط کی تمیزسے غافل ہو جاتا ہے۔اس فکر سے آزادی کے بعد انسان کا طرز عمل اسے جہنم کی طرف لے جانے والا ہوجاتا ہے۔ جب کہ حق و نا حق میں امتیاز کرتے ہوئے انسان درست عمل اختیار کر تا ہے،حرام اور غلط چیزوںسے بچنے میں صبر کر تا ہے، تکلیف برداشت کرتے ہوئے حق و صداقت کی راہ اختیار کر تا ہے، تو وہ جنت کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا:دوزخ کی آگ نفسانی مر غوبات سے ڈھانکی گئی ہے اور جنت ان چیزوں سے ڈھانکی گئی ہے جو نفس کو ناگوار ہو تی ہیں۔(بخاری ومسلم)
جنت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ کی فر ماں برداری کرے اور نافر مانی سے بچے۔ یہ عمل صبر کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے اور روزہ انسان کے اندر اس صفت کا اضافہ کر تا ہے۔ اسی لیے حدیث پاک میں رمضان کے ماہ کو صبر کا ماہ قرار دیا گیا: اور رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔( بیہقی)
روزہ دن بھر روزدار کو پابند بناتا ہے اور رات میں بھی اس کی فطری خواہشات پر لگا م لگا تا ہے۔ سحری میں وقت پر اٹھنا وقت ختم ہونے پر کھانے سے رکنا ، دن بھر کھانے پینے سے رکے رہنا ، افطار کے وقت دستر خوان پر سب کچھ ہو نے کے باجود رکے رہنا اور وقت ہوتے ہی کھانا پینا شروع کرنا۔ پھر رات کو تراویح پڑھنا ،مزید دن میں ان باتوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا جو ممنوع ہیں۔اس طریقہ سے روزہ مسلسل ایک ماہ تک صبر کی کیفیت کو پیدا کر تا ہے۔اس صبر کے ذریعہ انسان اس لائق ہو تا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اطاعت گزار بن جائے۔ جب بندہ صبر کی صفت کا خوگر ہو جاتا ہے تو باری تعالی اس کے بدلے جنت عطا فر ماتا ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فر مایا : روزہ ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ (جہنم کی ) آگ سے بچتا ہے۔(مسنداحمد)
مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ شہادت علی الناس ،اور اقامت دین کے لیے جدوجہد کریں۔یہ عظیم مشن بڑا ہی صبر آزما ہے، اس کی راہ طویل اور بڑی پر مشقت ہے، قدم قدم پر مخالفتیں، مزاحمتیںاور آزمائشیں ہیں، اس راہ کو سر کرنے کے لیے صبر کی صفت بہت ضروری ہے۔اسلامی تعلیمات میں صبر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن کریم میں ۱۰۰ سے زائد مقامات پر صبر اور اس سے بنے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔تما م انبیا ء ؑ اور ان کے ماننے والوں کو اللہ نے صبر کی ہدایت دی ہے۔ نبی اکرم ﷺ اور آپ کی امت کو بھی صبر اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (مدثر:۷) اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا یقُولُونَ (مزمل:۱۰) اور جو باتیں لو گ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو۔ یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ (بقرہ: ۱۵۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر سے مد د لویا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا( آل عمران: ۲۰۰) اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو۔
صبر کے ثمرات
صبر ایمان و تقوی کی علامت ہے: جب کوئی مومن دین کو غالب کرنے کی کوشش کر تا ہے، اس راہ میں مصیبتیں آتی ہیں ،تو وہ انھیں برداشت کر تا ہے، اس صبر کو قرآن نے ایمان و تقوی کی علامت بتا یاہے۔وَالصَّابِرِینَ فِی الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِینَ الْبَأْسِ ۗ أُولَـٰئِكَ الَّذِینَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (بقرہ:۱۷۷) تنگی و مصبیت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کرنے والے، یہی ہیں راست باز اور متقی۔ نبی اکرم ﷺ سے پو چھا گیا ایمان کیا ہے تو آپ ﷺ نے فر مایا : ایمان نا م ہے صبر اور فراخ دلی کا ( بیہقی)۔
صبر کا بدلہ جنت: صبر کرنے والوں کو آخر ت میں جنت نصیب ہو گی، اور مزید جنت کی اونچی منزلیں و بلند بالا عمارتیں نصیب ہو ں گی۔أُولَـٰئِكَ یجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا( فرقان:۷۵) یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل منزل بلند کی شکل میں پائیں گے۔
بھرپور بدلہ ملے گا: جب مومن زندگی میں آنے والی پریشانیوں اور راہ خدامیں آنے والی تکلیفوں کلفتوں کو برداشت کرتا ہے تو اللہ اس کوبھر پور اجر عطا فرماتا ہے۔إِنَّمَا یوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَیرِ حِسَابٍ (زمر:۱۰) صبر کرنے والوں کو تو اجر بے حساب دیا جائے گا۔
کامیابی ملتی ہے: صبر ایک ایسی صفت ہے کہ اس کے اختیا کرنے سے مو من کو کامیابی و سرخ روئی ملتی ہے یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(آل عمران:۲۰۰) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو صبر سے کام لو باطل پرستوں کے مقابلے میںپامردی دکھا ؤ حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو امید ہے کہ فلا ح پاو گے۔
مغفرت نصیب ہوتی ہے: جو لوگ صبر اختیار کرتے ہیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا۔ إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَـٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِیرٌ(ھود:۱۱)وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکو کار ہیں وہی ہیں جن کے لیے در گزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔
طاقت میں کئی گنااضافہ ہوتا ہے: صبر و استقامت کے نتیجے میں مومن اس لائق ہو جاتا ہے کہ دشمن پرغالب ہو سکے۔یا أَیهَا النَّبِی حَرِّضِ الْمُؤْمِنِینَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن یكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یغْلِبُوا مِائَتَینِ ۚ وَإِن یكُن مِّنكُم مِّائَةٌ یغْلِبُوا أَلْفًا (انفال: ۶۵) اے نبی مومنین کو جنگ پر ابھارو۔اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکر ین حق میں ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے۔
اللہ کی معیت حاصل ہو تی ہے: ایک مومن جب صبر کی صفت سے متصف ہو جاتا ہے تو اس کو اللہ کی معیت حا صل ہوجاتی ہے۔ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِینَ( انفال:۶۶) اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
صبرکے بہت سے پھل ہیں اور ہر پھل نہایت شیریں ہے۔صبر انسان کو اعلی اخلاق کا حامل بناتا ہے۔ جنت والے اعمال سے کو مزین کرتا ہے۔ اور صبر کی اس عظیم صفت کو پروان چڑھانے میں روزہ زبردست رول ادا کر تا ہے۔ اسی لیے رمضان المبارک کواللہ کے رسول ﷺ نے صبر کا مہینہ قرار دیا ہے۔ ضرورت ہے کہ روزہ رکھتے وقت ہم کو اس کا شعور و ادراک رہے تاکہ ہماری کو شش اس صفت کو ابھارنے کی طرف بھی رہے۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2020