ایك محترم عالم ومدرس (جو كسى وجه سے اپنا نام بتانا نہیں چاہتے) نے سوال كیا: مولانا! آپ فكر اسلامى كے مطالعه پر زور دیتے ہیں، برائے مہربانى بتائیں كه فكر اسلامى كیا ہے؟ اور اس كا مطالعه كس طرح كریں؟
یه سوال آپ كى سلامت طبع اور پختگى عقل كى دلیل ہے، نافع علوم كا بنیادی مقصد مثبت ہوتا ہے، یعنى ایك طالب ان علوم كى تحصیل كرتا ہے، تاكه حق تك رسائى كرے، اس سے خود فائده اٹھائے اور دوسروں كو بھى فائده پہنچائے، اس كے برعكس علوم ضاره كا بنیادى مقصد منفى ہوتا ہے، انہیں دوسروں كو نقصان پہچانے كے لئے حاصل كیا جاتا ہے، جیسے جادو اور عملیات، اسى قسم میں مناظره، جدل اور تردید وابطال داخل ہیں۔
تعریف
فكر ایك عقلى عمل ہے، فكر كو عقل سے جدا نہیں كیا جا سكتا، كوئى بات اسى وقت فكر كہلائے گى جب اس كى تشریح عقلى بنیادوں پر كى گئى ہو، فكر اسلامى كا مطلب ہے عقلى اصولوں كى روشنى میں ایمان، اسلام، عبادات، معاشرت، معاملات، تہذیب، اخلاق اور تاریخ وغیره كى تشریح كرنا، عقلى اصول جس قدر صائب اور پخته ہوں گے اسى قدر فكر مستحكم ہوگى، اسلام كى ہر وه تشریح جو عقل سے مستغنى ہو وه ناپائیدار ہوگى اور اسے ہرگز فكر نہیں كہا جاسكتا۔
اسلامی فکر کا مطالعہ صرف متون یا تاریخ کو سمجھنے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک جامع عمل ہے، اس كے دائرۂ كار میں تاریخی فہم، متنی تجزیے، خیالات، تصورات اور ثقافت کو ان کے زمانی اور اجتماعی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش اور معاصر مسائل کے ساتھ تعامل کے طریقے شامل ہیں، ایک كامیاب مفكر اسلامی فکر کی تجدید اور نئى دنیا میں اس کى افادیت کا تعین کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
اساس
اسلامى فكر كے بنیادى مقومات صرف دو ہیں: كتاب الہى اور سنت نبوى، یه دونوں مقدس ہیں، فكر اسلامى كى كوئى تشریح خواه كسى عالم وفقیه یا فلسفى ودانشور نے كى ہو، اور اسے كسى بھی تعلیمى یا فكرى اداره كى پشت پناہى حاصل ہو، نصوص كا درجه نہیں حاصل كرسكتى، بلكه ہر تشریح كے جانچنے كا معیار یہى دو چیزیں یعنى كتاب الہى اور سنت نبوى ہیں، جس تشریح كى دلیل نصوص میں ہو وه اسلامى ہے، اور واجب القبول والاذعان، اور جس كى دلیل نصوص میں نہیں وه غیر اسلامى ہے اور قابل رد وانكار۔
فكر اسلامى كے فہم كا نقطۂ آغاز یه ہے كه ان دونوں متون کا كلى، تجزیاتی اور عمیق مطالعہ كیا جائے، ان كى حكمتوں، تعلیلات اور مقاصد كا ادراك كیا جائے، زبان وادب، تہذیب وتاریخ، تفاسیر اور احادیث کی شروح کا مطالعہ متون کو ان کے لغوی اور شرعی اور معاشرتى سیاق میں سمجھنے میں معاون ہوتا ہے۔
تاریخ
اسلام كى تاریخ زریں تاریخ ہے، مختلف ازمنه وامكنه میں اسلام كى تشریح كس طرح كى گئى، اس كا جاننا فكر اسلامى كے ارتقا كو سمجهنے كے لیے لازمى عمل ہے، اسلامی فکر کو اس تاریخی پس منظر سے الگ کر کے نہیں سمجھا جاسکتا جس میں یہ پیدا ہوا، پروان چڑھا، اور جس میں اس كا ارتقا ہوا۔
اسلامی فکر کے بنیادی تصورات اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ارتقا پذیر ہوئے، اور اس وقت کی سیاسی اور سماجی حالتوں سے متاثر ہوئے، اسلامی تاریخ کا مطالعہ عہد نبوی، خلافت راشدہ اور اموى، عباسی وعثمانى اور دوسرے ادوار کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے کہ کس طرح بدلتے حالات نے اسلامی افکار کى تشکیل پر اپنا اثر چھوڑا۔
اسلامی فکر میں مختلف مکاتب ورجحانات پیدا ہوئے، جیسے معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیه اور صوفیہ وغیره، ہر مکتبۂ فکر توحید، رسالت، تقدیر، عبادات، معاملات اور اخلاقی اصولوں جیسے موضوعات پر منفرد نقطہ نظر پیش کرتا ہے، ان مکاتب کا مطالعہ اسلامی فکر کے اندر تنوع اور مختلف چیلنجوں کے ساتھ اس کے تعامل کو سمجھنے كے لئے ناگزیر ہے۔
اسلامی فلسفہ اسلامی فکر کا اہم حصہ ہے، مسلمان فلسفیوں جیسے فارابى، ابن سینا، اور ابن رشد کى تخلیقات اسلامی فکری ورثے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتى ہیں، اسلامی فلسفے کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ کس طرح اسلامی فکر نے یونانی فلسفہ اور دیگر علوم عقلیه کو اپنے اندر جذب کیا، كن چیزوں كو قبول كیا، كن چیزوں كو رد كیا اور كن چیزوں كے ساتھ مصالحت كى۔
تطهیر
مندرجه بالا تشریح سے یه بات واضح ہوگئى ہوگى كه فكر اسلامى كى تشریح منزل من الله نہیں، بلكه یه انسانوں كى كاوشوں كا نتیجه ہے، اس لئے اس میں حالات وماحول كى اثر اندازى یقینى ہے، فكر اسلامى كے ماہرین كى ذمه دارى ہے كه ہمیشه تطہیر وتنقیه كا عمل جارى ركھیں، ورنه لوگوں كے كلچر یعنى اعراف اور رسوم وعادات بھى اسلام كا حصه بن جائیں گے۔
تطہیر كے عمل میں كوتاہى كا نتیجه وه اسلام ہے جس میں طرح طرح كى ملاوٹیں كردى گئى ہیں، فقه اور كلام كے مفید پہلوؤں سے انكار نہیں، تاہم یه بھى حقیقت ہے كه ان دونوں میں بہت سى منفى چیزیں داخل ہوگئى ہیں جو دین كے اصول سے متعارض ہیں، اور اس سے زیاده خطرناك وه غیر عالمانه رجحان ہے جس كے تئیں فقه اور كلام كى كتابوں كو قرآن وسنت كے مساوى قرار دیا گیا، بلكه بسا اوقات ان سے بڑها دیا گیا۔
فقه، كلام اور تصوف كے ارتقاء كا ایك دردناك پہلو یه ہے كه تینوں روایتیں مسلكوں اور مشربوں میں منقسم ہوگئیں، نتیجتاً تینوں پر دوسروں كى تردید كا رنگ غالب آگیا، تردید كا رجحان جب غالب ہو جائے تو فكر منفى ہو جاتى ہے، مبالغه نہیں ہوگا اگر كہا جائے كه فقه وكلام كے بہت سے ابواب وفصول منفى ذہنیت كى عكاسى كرتے ہیں، ان كے ماہرین كا مقصد حق تك رسائى نہیں ہوتا، بلكه اپنے اپنے مسلك كے فتح وغلبه كا اعلان ہوتا ہے، جو لوگ ان میدانوں میں لگ جاتے ہیں وه كوئى مفید كام نہیں كرسكتے، تصوف كا سب سے زیاده نقصان ده پہلو یه رہا ہے كه اس كے ذریعه غیر اسلامى تصورات كو اسلام كا جامه پہنانے كى كوشش كى گئى، اس كى واضح ترین مثال احوال، مقامات، اعمال اور وحدت الوجود اور وحدت الشهود وغیره كے لا طائل، بلكه باطل مباحث ہیں۔
معاصر فكر اسلامى
معاصر اسلامی فکر کو سمجھنے کے لئے جامع طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے جو تاریخی، مذہبی، سماجی اور بین الاقوامى تناظرات کو مد نظر رکھے، جمہوریت، سیكولرزم، عدل، مساوات، عورتوں كا مقام اور انسانی حقوق جیسے مسائل کے ساتھ اسلامی فکر کے تعلق کا مطالعہ ان نظریات وخیالات کو حقیقی زندگی میں نافذ کرنے کے طریقے كو سمجھنے میں كار آمد ہوگا۔
آج کا اسلامی فکر مختلف چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے، جیسے عالمگیریت، جدیدیت، اور مذاہب کے باہمى تعلقات، اس لئے مطالعہ میں یہ شامل ہونا چاہئے کہ اسلامی فکر ان چیلنجوں کا کیسے جواب دیتا ہے۔
جامع مطالعہ کے لئے مختلف علوم، جیسے دینی علوم، تاریخ، سماجیات، اور فلسفہ کا امتزاج کرنے والے طریقے اپنانے چاہئیں، یہ طریقے اسلامی فکر کی ایک مکمل اور جامع تصویر پیش کرنے كى راه ہموار کرتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2025