قرآن مجید کیا ہے؟
قرآن مجیداﷲ تعالیٰ کا کلام ہے جو ساری انسانیت کے لیے دنیا تک کے لیے نازل کیا گیا ہے ۔ زمین پر یہی ایک آسمانی کتاب ہے جو اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے۔دنیا میں اﷲ کی مرضیات کو جاننے کا راست ذریعہ یہی قرآنِ مجیدہے۔قرآن حکیم ہدایت، رحمت ، نور ، فرقان اوربرہان، اس میں تذکیر و موعظت ہےیہ شفاء لما فی الصدور ہے، ذکر للعالمین اور، ھدی للناس یہ، بشریٰ للمؤمنین ہے، تبیاناً لکل شئی ہے، یہحبل اﷲ اوراحسن الحدیث ہے۔ یہ فتنوں سے بچانے والی کتاب ہے، اس میں ماضی کا تذکرہ ہے، مستقبل کی خبریں ہیں، باہمی معاملات کے لیے احکام و فیصلے ہیں، اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوسکتے ، علماء اس سے سیر نہیں ہوتے،اس کی تاثیر کبھی ختم نہیں ہوسکتی، جو اس کتاب کو چھوڑدے، اﷲ اسے برباد کردیتا ہے، اسے چھوڑ کر راستہ تلاش کرنے والا گمراہ ہوجاتا ہے۔ جس نے قرآن کی بنیاد پرگفتگو کی اس نے سچ کہا، جس نے اس پر عمل کیا اس کو اجر دیا جائے گا، جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے عدل کیااور جس نے اس کی طرف لوگوں کو دعوت دی اس نے دراصل صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی۔
درس قرآن کی اہمیت، ضرورت و فضیلت
اس عظیم کتاب کو اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے۔ یہ ایک انقلابی کتاب ہے، نظام حیات ہے اور اخروی نجات کی ضامن ہے۔ اس کتاب کو سمجھنا اور سمجھانا ،اس پر عمل کرنا ، اسے قائم کرنا اور ساری انسانیت تک پہنچانا امت مسلمہ پرعائد کردہ فریضہ ہے۔ قرآن مجید نے رسول اﷲ کے فرائضِ منصبی میں تلاوتِ آیات کو ایک اہم ذمہ داری کے طور پر پیش کیا ہے(الجمعہ۔۲)آپ ﷺ کے پاس قرآن کے بھیجے جانے کا مقصد یہ بیان کیا گیاکہ اس کی تشریح لوگوں کے سامنے پیش کریں ۔ (النحل۔۴۴)آپ ؐ کو تلقین کی گئی کہ قرآن کے ذریعے تذکیر فرمائیں(سورۂ ق۔۴۵) ۔ قرآن کو سمجھنے سمجھانے اور پھیلانے کے لیے رسول اﷲ ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے جو کوشش کی وہ سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ وہ کفار کے سامنے حضورؐ کا قرآن کی تلاوت کرنا ہویااصحاب صفہ کی قرآنی مجالس ہوں ۔مختلف قبائل کی رہنمائی کے لیے منتخب صحابہ ؓ کو معلم بنا کر بھیجنا ہو یاخطبوں میں قرآن کی آیات کا درس پیش کرنا ہو ، تمام ممکنہ ذرائع سے قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے کا ماحول قائم کیا گیا تھا۔
قرآن قیامت تک کے لیے ہے، اسے ساری انسانیت تک پہنچنا تھا، لہٰذا ، حضور ﷺ نے اس امت کو حکم دیا کہ میری بات دوسروں تک پہنچادوخواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔ آپؐ نے حجّۃ الوداع کے موقع پر امت کو راہ راست پر قائم رکھنے کے لیے قرآن و سنت کو تھامنے کی ہدایت فرمائی۔آپ ؐ نے اس شخص کو بہترین فرد قرار دیا جو خود قرآن سیکھے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔(بخاری)آپؐ نے اصحاب صفہ کو یہ بشارت سنائی کہ ان کا مسجد جا کر دو آیتیں سیکھنا، اس سے بہتر تھا کہ ان کے لیے دو اونٹنیاں میسر آجائیں۔(مسلم)آپؐ نے ماہرِ قرآن کو معزز فرشتوں کی معیت کی خوشخبری سنائی (متفق علیہ)۔آپؐ نے جن دو لوگوں کو قابل رشک قرار دیا ، ان میں ایک وہ تھا جسے اﷲ نے قرآن کا علم دیا ہو اور وہ اس کی تعلیم و تبلیغ میںمصروف رہے(متفق علیہ)۔دنیا میں قرآن کی خدمت میں مصروف رہنے والے کو بشارت دیتے ہوئے رسول اﷲؐ نے فرمایا کہ آخرت میں اس سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور بلندی کی طرف چڑھتا جا۔ (ترمذی)قرآن کو پڑھنے اورسمجھنے پر زور دیتے ہوئے حضورٔ نے فرمایا کہ اے اہلِ قرآن ! قرآن کو تکیہ نہ بنالو، بلکہ اس کی تلاوت کرو جس طرح سے اس کی تلاوت کا حق ہے، رات اور دن کے اوقات میں، اور اسے علانیہ پڑھو، خوش آوازی کے ساتھ پڑھو اور جو کچھ مضامین اس میں ہیں، ان پر غور کرو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔(بیہقی) خیر کی طرف دوسروں کی رہنمائی کرنے والے کو عمل کرنے والے کے برابر ثواب کا تیقن دیا گیا ہے۔(مسلم)
اﷲ کے رسول ﷺ اور صحابہ اکرام ؓ کی مادری زبان عربی تھی۔ لہٰذا ان کے لیےمحض اس قرآن کی تلاوت ہی کافی تھی۔لیکن جہاں تک موجودہ مسلمانوں کا تعلق ہے (خصوصاً بر صغیر میں) ان میں بہت سے عربی زبان سے ناواقف ہیں۔ ان کے سامنے محض تلاوت آیات کافی نہیں ۔مسلمانوں میں قرآن فہمی کے لیے تفاسیر کا مطالعہ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ دروسِ قرآن اجتماعی مطالعۂ قرآن کی مجالس کا اہتمام بھی مفید ذرائع ہیں۔اس مضمون میں اسی کے طریقۂ کار پر گفتگو کی گئی ہے۔
درسِ قرآن دینے کے لیے چند بنیادی امور کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ ذیل میں ان نکات کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔
(۱)درس قرآن کے مقصدکا تعین
اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتاہے۔ لہٰذا سب سے پہلے اپنی نیت کو خالص کر لینا چاہیے ۔ درس قرآن شہرت کے لیے اورعلمی نکات بیان کرکے فوقیت جتانے کے لیے ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ یاد رہے شیطان ساتھ لگا ہوا ہے۔ اﷲ کا کلام اﷲ کے بندوں کو سنانے سے صرف اﷲ کی رضا مقصود ہونی چاہیے ۔ قرآن کا پیغام واضح انداز میں اور مؤثر زبان میں پیش ہونا چاہیے۔ درس قرآن کا مقصد یہ ہوکہ اﷲ کے کلام کو خود سمجھنا ہے اور دوسروں کو سمجھانا ہے۔ اس کے احکام پر خود عمل کرنا ہے اور دوسروں کو بھی عمل پر ابھارنا ہے۔ مدرس قرآن اﷲ کے کلام کے ذریعے اﷲ کے بندوں کو اﷲ سے جوڑے۔دین کے صحیح تصور سے لوگوں کو واقف کرائے۔لوگوں کو نیک کاموں کی طرف راغب کرے۔ برائیوں کے ازالے کے لیے آمادہ کرے۔ان کے اندر انقلابی اسپرٹ پیدا کرے۔ اجتماعی جدوجہدکا مزاج پیدا کرے۔اتحاد و اتفاق کی فضا ہموار کرے۔ ایک دوسرے کو خیر خواہی پر ابھارے۔قرآن سمجھنے اور سمجھانے کا ماحول فروغ دے۔
۲))اپنی صحیح حیثیت کا تعین
درس دینے والے داعی، مصلح اور مبلغ ہوتے ہیں۔ انہیں خود کو طالب علم سمجھنا چاہیے۔ ان کی حیثیت مفسر یا محدث کی نہیںہوتی۔ یہ تصور ہر مدرس کو علم کے آفات سے محفوظ رکھے گی اور ان کے اندرعلم کا زعم اور فخر و تکبر نہیں پیدا ہوگا۔
(۳)تیاری کے بغیر درس نہ دیں
درس قرآن پیش کرنا ایک ذمہ دارانہ کام ہے، کوئی سہل کام نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ غیر مستند یا غیر اہم باتیں بیان ہوجائیں۔یاد رہے کہ اس پورے عمل میں بے انتہا اجر ہے۔ لہٰذا اس پر محنت کرنا ثواب سے خالی نہیں ۔ البتہ لاپرواہی پر گرفت کا اندیشہ ہے۔
(۴)غیر ضروری تفصیلات سے گریز
درس قرآن پیش کرتے ہوئے بسا اوقات مدرس بہت دور نکل جاتے ہیں۔لہٰذا کوشش اس بات کی ہو کہ جملۂ معترضہ طویل نہ ہونے پائے۔اصل موضوع سے نہ ہٹاجائے۔ جو مضامین پیش کیے جائیں وہ موضوع کے تابع ہوں۔
(۵)تصنع اور دکھاوے سے اجتناب
درس قرآن گا کر نہ دیا جائے۔ زبان آسان ہو، پُر تکلف جملے استعمال نہ کیے جائیںدرس کا مقصد تفہیم ہو(سمجھانا ہو)، محظوظ کرنا نہیں۔
(۶)گفتگو کی نکات میں تقسیم
اس سے نکات لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہو جائیں گے۔ حضور ﷺ کا یہی طرز عمل رہا ہے۔
یہ بھی حضور ﷺ کا طریقہ رہا ہے کہ آپؐ اہم بات کو تین مرتبہ دہراتے یہاں تک کہ وہ بات صحابہ ؓ پر واضح ہوجاتی۔
(۷)ظاہر کو شائستہ بنائیں
مدرس کا ظاہر (وضع قطع)بھی بہتر و باوقار ہونا چاہیے۔اس سے سننے والوں میں آمادگی پیدا ہوگی۔ بہترین درس پیش کرنے والے اگرغیر شائستہ لباس میں درس دیں تو سامعین پرکو ئی اچھا تاثر نہیں قائم کریں گے ۔
البتہ ظاہر کی شائستگی سے بہترسیرت و کردار ہو۔ قول و عمل اور ظاہر و باطن میں مطابقت اور یکسانیت ہو ، تضاد ہر گز نہ ہو۔
(۸)قرآن کی اساسی حیثیت
قرآن اپنی تفسیر خود کرتا ہے۔ قرآن کی تشریح میں قرآن کے حوالےدیے جائیں۔ وضاحت میں مدرس کے جملے اتنے طویل نہ ہوجائیں کہ لوگ اصل آیت ہی کو بھول جائیںجس کی وضاحت کی جارہی تھی۔اپنے جملے بقدر ضرورت ہی استعمال کریں۔ درس قرآن کے دوران اپنی گفتگو لمبی کرنا اور قرآنی آیات پیش نہ کرنا گویا قرآن سے فائدہ نہ اُٹھانا مدرس کو چاہیے کہ وہ قرآن اور سامعین کے درمیان حائل نہ ہو، بلکہ دونوں کو جوڑنے کا کام کرے۔
(۹)حالات حاضرہ پر انطباق
قرآن قیامت تک کے لیے رہنما ہے۔لہٰذا اس کی عصری معنویت واضح کرنا بھی ضروری ہے۔آج کے حالات میں منتخب شدہ آیات کیا پیغام رکھتی ہیں، وضاحت کی جائے اور پیش نظر درس کو موزوں RELEVANT نابنایا جائے۔
ان سب کے ساتھ یہ بات بھی واضح رہے کہ درس کا کوئی متعین طریقہ نہیں ہے کہ اس پر اصرار کیا جائے کہ درس اسی طرح ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ درس کا مقصد واضح رہے۔ طریقہ عمدہ اور مفید اختیار کیا جائے۔ یہی مطلوب ہے۔
درس قرآن کے مراحل
درسِ قرآن پیش کرنے کے لیے تین مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔۱) انتخاب اور مخاطب کا تعین۔ ۔ ۲) فہم ۳) تقریر یا درس۔
پہلا مرحلہ۔ انتخاب اور مخاطب کا تعین
درس قرآن کی تیاری کا پہلا مرحلہ آیات یا سورت کا انتخاب ہے ۔ اور اس انتخاب کے لیے جو چیز ضروری ہے وہ مخاطب کا تعین ہے۔
(۱)اس مرحلے میں اس بات کا تعین ہونا چاہیے کہ درس کن لوگوں کے سامنے دیا جانا ہے۔حاضرین کون ہیں؟مرد ہیں یا خواتین ، بچے ہیں یا بڑے۔ سامعین مختلف نوعیت کے ہوسکتے ہیں۔ مثلاً نوجوان، طلبہ، طالبات، اساتذہ، معززین، پڑھے لکھے لوگ، عوام الناس، عام مسلمان، ملی جلی محفل، وابستگان تحریک و تنظیم، ارکان، کارکنان، ذمہ داران، وغیرہ۔
(۲)مخاطب کے تعین کے بعد ان کی نفسیات و ضـروریات کے مطابق درس کے لیے آیات یا سورت کا انتخاب ہو اور گفتگو میں اس کا خیال رکھا جائے۔بزرگوں کی محفل میں والدین کے حقوق کے ساتھ چھوٹوں کے حقوق پر محیط انتخاب مناسب محسوس ہوتا ہے۔موقع و حالات کی مناسبت سے بھی انتخاب ہوسکتا ہے۔
(۳) بسا اوقات منتظمین کی جانب ہی سے موضوع یا سورت یا آیات کی نشاندہی کی گئی ہوتی ہے۔ اس موقع پر منتظمین سے یہ معلوم کر لیا جائے کہ اس انتخاب کے تحت کیا امور تفہیم کے لیے پیش نظر ہیں؟ کن باتوں پر زور دینے کی ضرورت ہے؟اگر کوئی متعین نکات (synopsis) کی شکل میں ہیں تو انہیں معلوم کرلیا جانا چاہیے۔
دوسرامرحلہ۔فہم
درس قرآن کی تیاری کا دوسرا مرحلہ اس انتخاب کا فہم ہے جو درس کے لیے پیش نظر ہے۔ اس مرحلہ کو مکمل کیے بغیر درس نہ دیا جائے ۔
(۱)اس مرحلے میں بہتر یہ ہے کہ منتخب شدہ آیات یا سورت کو حفظ کرلیں۔ بصورت دیگر اس حصہ کو اتنی مرتبہ پڑھا جائے کہ ذہن پر وہ آیات نقش ہوجائیں۔
(۲)اس کے بعد متعلقہ سورت کا خاکہ اور مباحث معلوم کرلیں۔ مثلاً سورۂ فاتحہ دعائیہ انداز میں ہے۔ سورۂ عصر میں کامیابی کا راز بتایا گیا ہے۔ سورۂ انفال میں جنگ بدر پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ وغیرہ۔ مزید یہ کہ متعلقہ سورت میں کتنے حصے ہیں، سمجھ لیا جائے۔ مثلاً سورۂ فاتحہ میں تین حصے ہیں۔ ۱) تعریف و توصیفِ خداوندی ۔۲) استعانت و اقرار۔ ۳)ہدایت کی طلب ۔
(۳)متعلقہ انتخا ب میں کلیدی الفاظ تلاش کیے جائیں۔ ہر سورت اور آیت میں کچھ الفاظ ہوتے ہیں جن کی کلیدی حیثیت ہوتی ہے۔جن کی وضاحت پر آیت کی تشریح منحصر ہوتی ہے۔ ان الفاظ کو پہچاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔ مثلاً سورۂ فاتحہ میں یہ الفاظ کلیدی ہیں:۔ حمد، رب، رحمن، رحیم، دین، عبادت، استعانت، صراط المستقیم، انعمت علیہم، مغضوب علیہم اور ضالین۔ سورۂ عصر میں :۔ عصر، خسر،ایمان، عمل صالح، تواصی، حق اور صبر۔
(۴)قرآن کوسب سے پہلے قرآن ہی سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔اس لیے کہ قرآن خود ’’القرآن یفسر بعضہ بعضا‘‘ کے مصداق اپنی وضاحت کرتا ہے۔ مثلاً قصہ آدم و ابلیس قرآن میں سات الگ الگ مقامات پر الگ الگ تفصیلات کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ان تمام مقامات کو ملا کر پڑھنے سے مضمون مکمل ہوتا ہے۔ سورۂ فاتحہ میں جن انعام یافتہ لوگوں کے راستے کی ہدایت طلب کی گئی ہے اس کی وضاحت بطور مثال سورۂ نساء میں ہے کہ وہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کا راستہ ہے۔
(۵)قرآن کو قرآن سے سمجھنے کے ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ حدیث میں اس سے متعلق کیا ہدایات اور وضاحتیں موجود ہیں۔ پھر یہ دیکھا جائے کہ سیرت رسول ﷺ اور سیرت صحابہ میں اس معاملہ میں کیا رہنمائی موجود ہے۔پھر عصر حاضر کے تناظر میں ان آیات کا انطباق کیا جائے۔
(۶)تفاسیر کے مطالعہ کے علاوہ خود ان آیات پر غور و تدبر کریں، یہاں تک کہ آپ پر منتخب شدہ سورت یا آیت کا مدعا واضح ہوجائے۔ ایسا نہ ہو کہ دوران درس آپ پر یہ واضح نہ ہوکہ آخر اس سورت یا آیت میں کیا بیان کیا گیا ہے؟
تیسرامرحلہ۔ تقریر یا درس
درس قرآن کی تیاری کاتیسرا مرحلہ خود درس ہے۔
(۱)درس قرآن پیش کرنے کے لیے پہلی چیز عمدہ تلاوت ہے۔ قرآن کو خوش الحانی سے تلاوت کرنا چاہیے ۔منتخب شدہ آیات یا سورت کی عمدہ تلاوت کی مشق کی جائے۔کسی حافظ و قاری کے روبرو تلاوت کی تصحیح کرالی جائے۔ انٹرنیٹ پر دنیا بھر کے قراء کی تلاوت موجود ہے۔مختلف قراء کی تلاوت(متعلقہ حصے کی )مکرر سنی جائے اور حسن صوت کے ساتھ تلاوت کی جائے۔قرآن کی تلاوت میں خود ایک کشش ہے جسے سننے والے کے دل پر عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اگر تلاوت روکھی پھیکی رہے، تو سننے والے مثبت اثر قبول نہیں کریں گے۔ بہتر سے بہتر انداز میں تلاوت کی جائے۔
۲)تلاوت کے بعد جو ترجمہ پڑھا جائے وہ معیاری ہو۔ گنجلک ترجموں سے احتراز کیا جائے جو واضح نہ ہوں۔قرآن اﷲ کا کلام ہے۔ ترجمہ پڑھنے کا انداز بھی باوقار ہو۔
۳)درس کے دوران زبان آسان استعمال کی جائے۔ پُر تکلف اور مصنوعی انداز اختیار نہ کیا جائے۔انگریزی میں کہا جاتا ہے:
“speak to express, and not to impress” یعنی سمجھانے کے لیے تقریر کی جائے یا درس دیا جائے، اپنی خطابت کالوہا منوانے کے لیے نہیں۔ اور یہ بات یقینی ہے کہ ’’دل سے جو بات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے‘‘۔ سمجھانے کی غرض سے درس دیا جائے تو اس کے اندر تاثیر بھی پیدا ہوگی۔مصنوعی انداز میںدرس دینے کی وجہ سے مدرس کا وقار مجروح ہوسکتا ہے۔درس کے دوران اس بات کی فکر ہو کہ متعلقہ حصہ کی بہترین تفہیم ہوجائے۔
(۴)’’باتیں کئی ہیں اور وقت کم ہے‘‘۔ اس طرح کے جملے بعض مقررین و مدرسین کی زبانی سنے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دراصل مقرر کاکمزور ترین جملہ ہے۔اس لیے کہ جس مدرس یا مقرر کو اپنے موضوع اور زبان پر گرفت ہوگی وہ کوئی بھی درس کسی بھی متعین وقت میں دے سکتا ہے۔ وہ اس موضوع کا مختصر وقت میں بھی احاطہ کرسکتا ہے اورزیادہ وقت میں بھی بیان کرسکتا ہے۔ ایک اچھا مقرر وقت کی مناسبت سے اپنے درس کو منصوبہ بند انداز میں پیش کرسکتا ہے۔ایک گھنٹے میں جو درس پیش کیا جائے ، اس کا خلاصہ پانچ منٹ میں بھی بیان کرسکتا ہے۔لہٰذا جتنا وقت مقرر ہو، اسی کے اعتبار سے نکات کا احاطہ بھی کیا جائے۔وقت کے مطابق اپنے درس کے متعلقات تقسیم کیے جائیں اور حسب ضرورت اختصار اور تفصیل سے کام لیا جائے۔
درس قرآن یا کسی بھی اظہار خیال کے لیے چار عمومی اصول
(۱) Planningدرس کی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔انتخاب ،مخاطب کا تعین، مجلس کے مقاصد سے واقفیت ،
(۲) Preparationیعنی تیاری۔ منصوبہ بندی کے بعدمختلف تفاسیرکے مطالعہ اور غور و فکر کے ساتھ بھرپور تیاری ہونی چاہیے۔
(۳) Practiceیعنی مشق جو تیاری کی گئی ہے اس کے استحضار کے لیے مشق بھی ضروری ہے ۔
(۴) Presentation یعنی پیش کش منصوبہ بندی ،تیاری اور مشق کے ساتھ بہترین پیش کش بھی درس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
درس قرآن میں ترتیب
پہلے حسن صوت کے ساتھ بہترین تلاوت کی جائے اور قرآن کے شایان شان معیاری ترجمہ پیش کیا جائے۔ اس کے بعد مختصر انداز میں پیش نظر حصہ کا پس منظر یا زمانۂ نزول پیش کیا جائے ۔پھر مرکزی موضوع و مضمون کا خلاصہ بیان کیا جائے۔اس کے بعد قرآن، حدیث اور سیرت کی روشنی میںآیات کی مفصل تشریح کی جائے۔اس دوران مشکل اور کلیدی الفاظ کی وضاحت کی جائے۔جامع انداز میں خلاصۂ کلام پیش کیا جائے۔پیش کردہ انتخاب کی عصری معنویت relevance کو واضح کیا جائے ۔ موجودہ انسانوں کے لیے اس میں کیا پیغام ہے، بتایا جائے۔ دعائیہ کلمات سے درس کو مکمل کیا جائے۔یاد رہے کہ دیے گئے وقت میں اپنے درس کو پورا کرلینا چاہیے۔
موضوعاتی درسِ قرآن
بسا اوقات کسی ایک موضوع کے تحت بھی درس دینے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ یہ موضوع دوسروں کی جانب سے بھی دیا جاسکتا ہے یا خود متعین کرنا ہوتا ہے۔بہرحال موضوع موزوں relevant ہو، عملی ہو، تعمیری واصلاحی ہو۔ موضوع قرآنیات میں سے بھی ہوسکتا ہے۔مثلاً قرآن کی کسی اصطلاح پر درس( جیسے صبر، شکر، احسان، وغیرہ) موضوعاتی درس کے لیے دوسرا مرحلہ مناسب آیات کی تلاش ہے۔ اس کام کے لیے تفاسیر کے انڈکس کا مطالعہ کیا جائے ، جو لوگ عربی سے واقف ہیں وہ المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریمسے استفادہ کر سکتے ہیں۔اس تلاش کے بعد جو آیات موضوع سے متعلق معلوم ہوجائیں ان کا تفسیر کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔ موضوع سے متعلق معلومات کے لیے حدیث اور سیرت کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جائے۔مطالعہ کے دوران ملنے والی معلومات کے (حوالوں کے ساتھ) نوٹس بنائے جائیں۔نوٹس میں ذیلی عنوانات قائم کیے جائیں۔پھر نکات کی صحیح ترتیب قائم کی جائے۔ اس طرح ایک خاکہ درس کے لیے تیار کیا جائے جس کے استحضار اور مشق کے بعد بہتر انداز میں اجتماع میں پیش کیا جائے۔
اجتماعی مطالعۂ قرآن
قرآن کو سمجھنے کے لیے اس کا اجتماعی مطالعہ بھی مفیدہے۔ایک جگہ جمع ہو کر اس طرح مطالعہ کریں کہ ہر شریک اس مطالعے میں سرگرمی سے حصہ لے، اور کوئی صاحبِ علم نگرانی و رہنمائی کرے، اسے اجتماعی مطالعۂ قرآن کہا جاتا ہے۔اجتماعی مطالعۂ قرآن کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر شریک مجلس متعلقہ حصہ کا خوب مطالعہ کر کے آئے۔اس نشست میں شرکت قرآن فہمی کی نیت سے ہونی چاہیے۔اس محفل کے لیے کسی ایک صاحب فہم عالم کو نگرانی کی ذمہ داری دی جائے۔ اجتماعی مطالعۂ قرآن کا آغاز بھی تلاوت سے ہو۔ کوشش کی جائے کہ ہر شریک مجلس اس تلاوت میں حصہ لے، خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔تلاوت کی درستی بھی اس محفل کے مقاصد میں شامل ہے۔اس کے بعد ترجمہ پڑھا جائے۔ مجلس میں موجودشرکاء کی زبانوں کے اعتبار سے دو یا تین زبانوں میں بھی ترجمہ پڑھوایا جاسکتا ہے۔مثلاً اردو، انگریزی اور علاقائی زبان۔ ایک ایک آیت لیں یا چند آیات یکجا لیں، جیسے چاہیں ترجمہ و تشریح بیان کریں۔ اجتماعی مطالعہ میں شرکاء کو گفتگو کا پورا موقع دیا جانا چاہیے۔ ان میں سے بہرحال ایک فرد ایسا ہو جو صاحب علم ہواور وہ شرکاء کی گفتگو کے آخر میں بولے۔ تاکہ دوسروں کے غور و تدبر کے لیے بھی گنجائش رہے۔ جو پہلو آنے سے رہ جائے اس کی نشاندہی کرے۔نگران کو چاہیے کہ وقت کا خاص خیال رکھے۔نگران یہ دیکھے کہ گفتگو کا رخ کہیں بدل تو نہیں رہا ہے۔کوشش اس بات کی ہو کہ گفتگو آیات پر مرکوز ہو۔ شرکاء کو یہ محسوس ہو کہ ہم نے آج قرآن کا کچھ حصہ سمجھا ہے۔نگران متعلقہ انتخاب کا خلاصہ اور پیغام بھی پیش کرے۔ بہرحال نگران کو سب سے زیادہ صاحب علم ہونا چاہیے اسےسب سے زیادہ تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
درس قرآن کے لیے مفید کتابیں
درس قرآن کی تیاری کے لیے ان مفید کتابوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
(۱) مقدمہ تفہیم القرآن۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ
یہ تفسیرتفہیم القرآن کا مقدمہ ہے۔ مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے اس مقدمہ میں قرآن سے استفادہ کے لیے جو رہنمائی کی ہے اس کا استحضار ایک مدرس قرآن کے لیے بہت ضروری ہے۔مولانا نے اس میں فہم قرآن کو قرآن کے مشن کے ساتھ مربوط قرار دیا ہے۔اس نکتے کو سمجھ لینے والے احباب بہتر انداز سے قرآن کو اپنے دروس میں سمجھاسکتے ہیں ۔
(۲) قرآن کا راستہ۔ خرم مرادؒ
یہ کتاب دراصل مولانا خرم مرادؒ کی مشہور کتاب The Way to the Quranکا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب قرآن فہمی پر آمادہ کرنے والی بہترین کتاب ہے ۔ اس کے مطالعہ سے قرآن سے تعلق میں اضافہ ہوگا۔اس کو سمجھنے اور سمجھانے کی دلچسپی بڑھے گی۔
(۳) درس قرآن کی تیاری کیسے کی جائے؟ ۔ خلیل الرحمن چشتی
اس کتاب کے مصنف نے نہایت آسان انداز میں درس قرآن کے مبارک عمل کی طرف رہنمائی کی ہے۔گویا یہ مدرس قرآن کے لیے ایک گائیڈ بک ہے۔
(۴) درس قرآن کی علمی تیاری۔ عمر اسلم اصلاحی: اس کتابچہ میں درس قرآن کی علمی تیاری کے لیے رہنما خطوط ہیں۔ یہ کتابچہ علماء کے لیے تحریر کیا گیا ہے۔
(۵) مفردات القرآن۔ امام راغب اصفہانی
اس کتاب میں قرآن مجیدکے مختلف الفاظ کی تشریح ملتی ہے۔ ایک ہی لفظ کے مختلف قرآنی استعمالات کی وضاحت بھی ملتی ہے۔ مدرس قرآن کے لیے یہ کتاب مفید ہے۔
(۶) مترادفات القرآن۔ عبد الرحمن کیلانی
اس کتاب میں قرآن مجید میں استعمال ہونے والے ملتے جلتے ہم معنی الفاظ کا بیان ہے۔اور ان ہم معنی الفاظ میں پائے جانے والے لطیف فرق کو بھی واضح کیا گیا ہے۔
(۷) المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم۔ محمد فؤاد عبد الباقی
اس کتاب سے استفادے کے لیے عربی زبا ن کا علم ضروری ہے۔ اور عربی جاننے والے کے لیے گویا یہ کتاب ایک انڈکس ہے جس کی مدد سے کسی بھی موضوع کی آیا ت آسانی کے ساتھ تلاش کی جاسکتی ہیں۔ریسرچ و تحقیق کے لیے تو یہ نہایت ہی ضروری اور مفید کتاب ہے۔
(۸) درس قرآن کی تیاری کے لیے مفید ویب سائٹش اور موبائل ایپس
(الف)www.daroos.com
اس ویب سائٹ میں تحریکی ذمہ داروں کے دروس اور تقاریر کی آڈیوز موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
(ب) www.quranhive.com
اس ویب سائٹ کی مدد سے قرآن کے کسی بھی موضوع پر بہ آسانی تحقیق کی جاسکتی ہے۔ اس کا Android App بھی ہے جس کا استعمال بہت آسان ہے۔
(ج) www.understandquran.com
اس ویب سائٹ میں قرآن فہمی کے لیے بہت سارا مواد موجود ہے۔عربی زبان سیکھنے کے لیے کتابیں اور ویڈیوز بھی موجود ہیں۔
(د)Usman Parvezکی mobile applications
google play store میں usman parvez ٹائپ کریں اور اپنی پسندیدہ تفسیر حاصل (ڈاؤن لوڈ )کریں۔ انہوں نے بڑی خدمت انجام دی ہے۔ مختصر سائز میں مفصل تفاسیر موبائل میں محفوظ کی جاسکتی ہیں جن سے استفادہ سفر و حضر میں بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔
(ر)القرآن۔ ابحث application
اس ایپ کے ذریعے قرآن کے کسی بھی لفظ کو ڈھونڈنابہت آسان ہے۔ قرآن میں جتنے مقامات پر وہ لفظ موجود ہے ان تمام مقامات کی نشاندہی بہ آسانی اس ایپ کے ذریعے ممکن ہے۔عربی کی بورڈ کے ذریعہ الفاظ تلاش کیے جائیں۔
ان سب کے علاوہ بھی بہت سارا مواد انٹرنیٹ پر قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کے لیے موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان جدید سہولیات سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے۔ اس کے کلام کی تفہیم کی توفیق و صلاحیت سے نوازے ۔ قرآن کے مشن کے لیے امت مسلمہ تیار ہوجائے تو اللہ کا دین دنیا میں قائم ہوسکےگا۔ انشاء اللہ۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2018