تحریکِ اسلامی کی شناخت

تحریک اسلامی اس تحریک کو کہاجائے گاجو انبیاے کرام کے منہاج پر قائم ہو،جس کی آخری کڑی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تحریک کے ہرفرد کو اس بات کا اچھی طرح استحضار ہوکہ ہمارا تعلق اس تحریک سے ہے، جس کے رہبرو رہنما انبیاے کرام ہیں اور تحریک اسلامی اپنے طریقۂ کار و نظام فکر کے لیے صرف انبیاے کرام کی سیرتوں کی محتاج ہے۔ تحریک خواہ کسی ملک اور کسی زمانے کی ہو، اس کے لیے صحیح و درست راستہ وہی ہوگا جس پر انبیاے کرامؑ چلتے رہے۔ ہمارے لیے اللہ رب العالمین کایہی حکم ہے : یہ ﴿انبیاء﴾ وہ لوگ ہیں، جن کو اللہ نے ہدایت دی تھی تو تم انھی کی پیروی کرو۔ ﴿انعام:۰۹﴾ پس انبیاے کرام کے طریق کو چھوڑکر کسی اور راہ کی تلاش وجستجو حکم خداوندی کی نافرمانی اور بدترین گمراہی ہوگی۔ اس لیے زندگی کے مسائل و معاملات اور حالات کیسے ہی ہوں تحریک کو صبرو استقامت کا ثبوت دیناہوگا۔ ‘قل اٰمنت بااللّٰہ ثم اسْتَقِمْ’ اور جب حضرت خبابؓ نے آگ پر لٹائے جانے کاواقعہ سناکر دعا کی درخواست کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نصیحت کی کہ صبرکرو۔ تم سے پہلے جو لوگ اس کام کے لیے اٹھے، انھیں آروں سے چیرا گیا۔ فرار ورخصت اور فتاویٰ و فقہی رخصتیں عام مسلمانوں کے لیے جائز ہوسکتی ہیں، لیکن جو تحریک انبیائی مشن کے لیے وجود میں آئی ہو، اس کے لیے رخصتوں کی راہ انتہائی مضر ثابت ہوگی۔

فکر کی آبیاری

جس مقصد یاشعبے کے لیے ،جو لوگ کام کرتے ہیں، وہ اپنے کام کے آدمی تربیت کے ذریعے بناتے ہیں ہر کام کے لیے تربیت کی اہمیت مسلّم ہے۔ مختلف نظریات کے حامل اپنے ذہن و مزاج کے مطابق افراد کو ڈھالتے رہتے ہیں اور اپنے اپنے نظریات میں مسلسل پختہ ترکرتے رہتے ہیں۔ جو گروہ جتنا منظم و باشعور ہوتاہے، اتنے ہی ہم خیال وہم آہنگ افراد داخل ہوتے رہتے ہیں اور جو گروہ اس کام میں غفلت اور کوتاہی کرتاہے، اس کے اندر اسی تناسب سے خام افراد داخل ہوتے رہتے ہیںاور بتدریج اس نظام اورمشن کو غیرموثر بنادیتے ہیں۔ گویا دنیا کی کوئی مہذب وباشعورسوسائٹی تربیت جیسی بنیادی ضرورت سے کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتی۔ لیکن تحریک اسلامی جیسی باشعور تحریک کے لیے تو تربیت کی اہمیت کئی گنابڑھ جاتی ہے۔ بلکہ تربیت پر تو اس کی زندگی اور موت موقوف ہے۔ دوسرے نظام فکر کے مقابلے میں انبیائی فکرکے حاملین کی راہ بڑی پُرصعوبت اور دشوار ہے۔ اس راہ پر چلنا گویا انگاروں پر چلنا ہوتاہے۔ اس لیے اس کام کے لیے افراد سازی دوسروں کی بہ نسبت کہیں زیادہ دشوار ہے۔ یہاں ہر قدم پرنفس انسانی فرار و رخصت طلب کرتاہے اور شیطان مختلف خوش نما حیلے بہانے پیش کرتارہتا ہے۔ ملت اسلامیہ کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد سے اب تک یہ قافلہ اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ پایا۔ دنیا میں تقریباً ہر جگہ تحریکات اسلامی اٹھیں، لیکن افراد سازی یا تربیت میں کمی کے باعث ‘تحریک’ کی بہ جاے اسلامی کام کرنے والی ایک پارٹی بن کر رہ گئیں۔ کیوں کہ عافیت پسند اور رخصتوں کے دلدادہ اس میں داخل ہوکر اس تحریک کو مختلف وادیوں میں بھٹکاتے ہوئے بالکل غیرموثر اور اصل مشن سے دور کردیتے ہیں۔ لیکن اپنے ہر فعل ناروا کے لیے دلیل و جواز قرآن وسنت سے پیش کرکے یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ یہ وہی ‘‘تحریک‘‘ ہے۔ ’’اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں، جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرنا پسندکرتے ہیں۔ اگر انھیں کوئی دُنیوی فائدہ پہنچے تو اس کے سبب مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی آفت پڑے تو منہ کے بل لوٹ جائیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں بھی نقصان ہے اور آخرت میں بھی وہ صریح نقصان سے دوچار ہوںگے۔﴿الحج:۱۱﴾

انبیائی ادوار

مطالعۂ قرآن سے پتا چلتاہے کہ انبیائی مشن کے چار ادوار گزرے ہیں اول آدمؑ سے نوحؑ تک، دوم نوحؑ سے ابراہیمؑ تک، سوم یوسف ؑ سے عیسیٰؑ تک ﴿انبیائ بنی اسرائیل﴾ اور آخری حضرت محمدﷺ  کا دور ہے۔ یہ جتنے بھی انبیائ کرام آئے خواہ وہ کوئی بھی ملک و قوم ہواور وہ ترقی یافتہ ہو یا پسماندہ وخستہ حال اور ان کے اخلاقی، معاشرتی، تمدنی، معاشی اورسیاسی مسائل وحالات کچھ بھی رہے ہوں، انھوںنے کام کی ابتدا معاشرتی اصلاح، خدمت خلق یا سیاسی اصلاح کی کوشش جیسے کسی پروگرام کی دعوت یا کسی دوسرے ہیرپھیر کی بہ جاے ایک ہی دعوت سے کی کہ:یقوم اعبداللّٰہ مالکم الہ غیرہ﴿ہود:۰۵﴾ ‘اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی اختیار کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔’ اور‘ ابراہیم ؑ نے اپنی قوم سے صاف صاف کہہ دیاکہ شرک کی آلودگی کے ساتھ تمھارے ساتھ میرا کوئی تعاون اور اشتراک عمل نہیںہوسکتا۔’ ﴿الممتحنہ:۴﴾ انبیاے کرام پر روز روشن کی طرح عیاں تھاکہ ام الخبائث حاکمیت الہ کا انکارہے اور یہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس خرابی کے ساتھ کوئی دوسرا اصلاحی کام کارگر نہیں ہوسکتا۔ ایک شاخ کو کاٹ بھی دیاجائے تو دوسری بے شمار شاخیں نکل پڑیںگی اور حاصل کچھ بھی نہ ہوگا اس لیے تمام انبیاے کرام کامشن یہی رہاکہ بغیر کسی لاگ لپیٹ اور تمہید کے دعوت توحید کی پیش کی جائے۔

پہلا دور

حضرت آدمؑ اس دنیا میں پہلے انسان اور سب سے پہلے نبی بھی تھے ان کو دنیا میں بھیجتے وقت جو ہدایت دی گئی تھی، وہ نسل انسانی کے حق میں ابتداے آفرینش سے قیامت تک کے لیے ایک مستقل فرمان ہے ۔ اس فرمان کو قرآن مجید میں ‘عہد’ کے لفظ سے تعبیر کیاگیاہے۔ ان کو ہدایت دیتے ہوئے دعوت اسلامی کو دوآیتوں میں سمیٹ دیاگیاہے: ‘ہم نے کہاکہ تم سب یہاں سے اتر جائو پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریںگے، ان کے لیے رنج اور خوف کا موقع نہ ہوگا اور جو اس کو قبول کرنے سے انکارکریںگے اور ہماری آیات کو جھٹلائیںگے وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیںگے۔’ ﴿البقرہ:۹۳،۸۳﴾ ہر نبی نے اپنے عہد میں ہدایت الٰہی کی پیروی کی دعوت دی ہے اور اس سے روگردانی کے انجام بد سے ڈرایاہے۔ سلسلۂ دعوت انبیا کی پہلی کڑی یہی فرمان ہے جو حضرت آدمؑ اور ان کی اولاد کو دیاگیاتھا۔ حضرت آدمؑ نے بڑی لمبی عمر پائی اور اللہ کی ہدایت و احکام کے مطابق زندگی بسر کرتے رہے۔ ان کی اولاد بھی اسی کی پیروی کرتی رہی ، وہ اپنی اولادکو اسلام کی صراط مستقیم پر چھوڑکر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی اولاد نے بعض معصیتوں کا ارتکاب کیاجس کا ذکر قرآن میں ہے۔ لیکن وہ عقیدۂ توحید سے منحرف نہیں ہوئی اور حضرت آدمؑ کی وفات تک ان کی تمام اولاد مسلم تھی۔

دوسرا دور

حضرت نوحؑ سے پہلے اولاد آدم میں عقیدے کا بگاڑ کب پیداہوا؟ اس کی صحیح تاریخ نہیں معلوم۔ البتہ قیاس سے پتا چلتاہے کہ اولاد آدمؑ بتدریج بگڑتے بگڑتے عہد نوحؑ تک بالکل بگڑچکی تھی اور پوری قوم شرک وکفر اور فسق وفجود میں مبتلاہوچکی تھی۔ حضرت نوحؑ پہلے نبی ہیں جن کے واقعات کی تفصیل قرآن میں نازل کی گئی ہے اور حضرت نوحؑ پہلے نبی ہیں جن کی بعثت ایک کافر قوم اور کفر و شرک کے ماحول میں ہوئی۔ ان کی دعوت اور ان کی قوم کے واقعات کا مطالعہ دو جہتوں سے بے حد اہم ہے: ایک یہ کہ وہ ایک کافر قوم میں مبعوث کیے گئے اور دوسرے یہ کہ ان کے بعد سیّدنا محمدﷺ  تک تمام انبیاے کرامؑ کی دعوت یکساں رہی۔ اس میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت

انھوں نے کفر وشرک اللہ سے بغاوت اور ہر طرح کی معاشرتی، اخلاقی، سیاسی و تمدنی بگاڑ کے ماحول میں اپنی دعوت کا آغاز کیا اور قوم کو خطاب کرکے فرمایا:

ٰیقَوْمِ اعْبُدُواْ اللّٰہَ مَا لَکُم مِّنْ اِلَہٍ غَیْْرُہ ﴿اعراف: ۵۹﴾

’’اے برادرانِ قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہاراکوئی الٰہ نہیں‘‘

اِنِّیْ لَکُمْ رَسُولٌ أَمِیْنٌo فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَطِیْعُونِ o    ﴿الشعرا:۱۰۷۔۱۰۸﴾

’’میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘

یَا قَوْمِ اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ oأَنِ اعْبُدُوا اللَّہَ وَاتَّقُوہُ وَأَطِیْعُونِo  ﴿نوح:۲،۳﴾

’’اے میری قوم کے لوگو! میں تمہیں کھلے طور نصیحت کرتاہوں کہ اللہ کی اطاعت کرو اور اسی سے ڈرو اور میرا کہامانو‘‘

یہ تھی حضرت نوحؑ کی دعوت اور پیغام۔ وہ ساڑھے نوسوسال تک قوم کو بندگی رب کی اور بحیثیت رسول اپنی اطاعت قبول کرنے کی دعوت دیتے رہے۔ اس مدّت میںحالات نے نہ جانے کتنی کروٹیں لی ہوںگی اور کیسی کیسی دشواریاں اور رکاوٹیں آئی ہوںگی، لیکن ان کی دعوت میںکوئی تبدیلی نہیں آئی۔آخر جب وحی الٰہی کے ذریعے انھیں معلوم ہوگیاکہ جو تھوڑے سے لوگ ایمان لاچکے ہیں ان کے بعد اب کوئی ایمان لانے والا نہیں تو انھوںنے بددعا کی اور قوم ہلاک کردی گئی۔

حضرت نوح علیہ السلام کاطریقۂ کار

عہدنوحؑ میں قول وعمل کے علاوہ دعوت پہنچانے کاکوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا، اس لیے انھوںنے یہی دو ذرائع اختیار کیے۔ انھوںنے جلوتوں اور خلوتوں میں اپنی قوم کو ہرطرح سمجھانے، ترغیب دینے اور ڈرانے کی سعی بلیغ کی۔ جس کا تذکرہ سورہ نوح میں ہے۔ یہ چھوٹی سی سورہ پوری کی پوری وہ آخری روداد ہے جو انھوںنے اپنی قوم کی ہلاکت سے پہلے اپنے رب کے سامنے عرض کی تھی۔ طوفان نوح ؑکے بعد کشتیٔ نوحؑ پر جو مسلمان بچے تھے ان سے ایک ہیئت اجتماعیہ اور ایک اسلامی معاشرہ وجود میں آیا، جس کے سربراہ حضرت نوحؑ تھے۔

حضرت ہود علیہ السلام کی دعوت

حضرت نوحؑ کاقائم کردہ اسلامی معاشرہ پھر کب بگاڑ کاشکارہوکر کفرو شرک میںمبتلا ہوا؟ اس کی تفصیلات معلوم نہیں، لیکن لوگوں میں جب پھر شرک کی گمراہی پھیلی تو حضرت ہودؑ مبعوث کیے گئے۔ ان کی قوم تہذیب وتمدن اور فن جہانبانی کے ساتھ شان وسطوت اور ڈیل ڈول میں قوم نوحؑ سے بہت آگے ترقی کرچکی تھی لیکن انھوںنے اپنی قوم کو ٹھیک وہی دعوت دی جو نوحؑ نے اپنی قوم کو دی تھی۔ ﴿الشعرا: ۱۲۵۔۱۲۶﴾ قوم عاد کے قد وقامت میں جو اضافہ ہواتھا، حضرت ہودؑ نے انھیں اللہ کی نعمت کے طورپر یاد دلایا ﴿اعراف:۶۹﴾ ان کی تمدنی اور معاشرتی ترقی کی طرف بھی متعدد آیات میں اشارے کیے گئے ہیں ﴿الفجر﴾ ان کی مادّی ترقی کاذکر سورہ الشعرائ میں تفصیل سے ہے۔ ﴿۱۲۸۔۱۳۵﴾ حضرت ہودؑ کاطریقۂ کار بھی وہی تھا جو حضرت نوحؑ کاتھا۔ تبلیغ، مکالمہ، ان کے الزامات واتہامات اور دھمکیوں کا جواب اور اللہ پر توکل کااظہار۔ لیکن قوم باز نہ آئی، نتیجۃً ہلاک ہوگئی۔

حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت

قوم عاد کے بعد قوم ثمود میں صالحؑ مبعوث کیے گئے، ان کی قوم تہذیب وتمدن ، علوم وفنون اور سیاسیات وعمرانیات میں قوم عاد سے بھی آگے تھی، لیکن انھوں نے بھی اپنی قوم کو وہی دعوت دی جو نوحؑ نے اپنی قوم کو دی تھی مگر اپنی سرکشی سے اللہ کی نشانی اونٹنی کو شہیدکرکے فنا کے گھاٹ اترگئی۔

حضرت ابراہیم ، لوط اور شعیب علیہم السلام کی دعوت

قوم ثمود اور قوم ابراہیمؑ کے درمیان ایک طویل عرصے کا فصل ہے۔ اس طویل زمانے کے بعد جب ابراہیمؑ اپنی متمدن قوم میں مبعوث کیے گئے تو انھوںنے بھی اپنی قوم کو ٹھیک وہی دعوت دی، جو حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو دی تھی ﴿العنکبوت:۶۱، مریم:۳۴﴾ حضرت لوطؑ اور شعیبؑ نے بھی اپنی قوم کو وہی دعوت دی تھی، اس کے ساتھ ان قوموں میں جو نمایاں عملی بُرائیاں تھیں، ان پر بھی تنقید کرکے اصلاح کی کوشش کی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ کی جو سرگزشت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے، اس کامطالعہ بھی ہمارے لیے بڑا اہم ہے۔ اس لیے کہ تمام انبیاے کرام میں تنہا یہی ایک نبی ہیںجن کی ملت کے اتباع کا صریح حکم نبیﷺ  کو دیاگیا۔ حضرت اسمعیلؑ واسحاقؑ اور یعقوبؑ جہاں وہ آباد تھے ان مقامات پر وہی کام انجا م دیتے رہے، جو حضرت ابراہیمؑ عراق سے ہجرت کے بعد انجام دے رہے تھے۔ کار نبوت انجام دینے میں ان حضرات کی حیثیت وہی تھی جو ہارونؑ کی موسیٰؑ کے ساتھ تھی۔ انبیاے کرام کی اس پوری ملت میں یہ بات بھی خاص طور سے نوٹ کرنے کی ہے کہ ان میں سے کسی نے کبھی اپنے یا اپنے ماننے والوں کے کسی حق کے لیے کشکول مطالبہ نہیںپیش کیا۔ اس کے برعکس وہ یہ کہتے رہے : ‘میں تم سے کسی اجر کاطالب نہیں میرا اجر تو الہ کے ذمّے ہے۔’

تیسرا دور

انبیائ بنی اسرائیل میں سب سے پہلے نبی حضرت یوسفؑ تھے، جن کی دعوت دین کا صریح ذکر صرف ایک جگہ ملتاہے۔ جب انھوں نے اپنے جیل کے دو ساتھیوں کو دی تھی۔ یہ دعوت بھی وہی توحید اور بندگی رب کی دعوت ہے، جو حضرت نوحؑ سے لے کر ابراہیمؑ تک تمام انبیاے کرام دیتے آرہے تھے۔ ﴿یوسف:۳۷-۴۰﴾ توحید اور بندگی رب پر یہ ایک مدلّل ، معقول اور جامع تقریر ہے، جس سے معلوم ہوتاہے کہ یوسفؑ جس پیغمبرانہ مشن پر مامور تھے اسے انجام دینے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ انھوںنے عزیز مصر کے گھر سے لے کر ایّام اسیری کی طویل مدّت میں صبرو استقامت ، پاک دامنی، تقدس وطہارت، حلم وبردباری، رحمت ورافت، بے مثال اخلاق و کردار اور اپنی صلاحیتوں کاجو ثبوت دیاتھااس نے انھیں پورے مصر میں مشہور کردیاتھااور وہ ایک ایسی منفرد شخصیت بن کر ابھرے تھے، جس کی کوئی نظیر مصری معاشرہ پیش کرنے سے قاصر تھا۔ رہی سہی کسر اس خواب نے پوری کردی جو بادشاہ مصر نے دیکھاتھا۔ اس طرح حکومت مصر کا تخت ان کے خیرمقدم کے لیے پوری طرح تیار ہوچکاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بادشاہ مصر نے ان کے سامنے ملک کا نظم ونسق سنبھالنے کی پیش کش کی اور تجویز رکھی تو انھوں نے اس شرط کے ساتھ اسے قبول کرلیاکہ سرزمین مصر کا کلّی اختیار واقتدار ان کے حوالے کردیاجائے۔ بادشاہ پہلے ہی سے اس کے لیے تیار تھا اور اس نے انھیںمصر کا مختار کل بنادیا۔ سیّدنا یوسفؑ کے اس طرزعمل سے زیادہ سے زیادہ اگر کوئی بات ثابت ہوتی ہے تو وہ یہ ہے کہ کسی مقبول خاص و عام داعی دین فرد یا جماعت کو کسی ملک کابلاشرکت ِ غیرے اور بلاکسی شرط کے کلی اختیارمل رہاہو تو اسے قبول کرسکتا ہے۔ کچھ لوگوں نے سورہ یوسف کی من مانی تفسیر کرکے حضرت یوسفؑ جیسے جلیل القدر اور اوالعزم رسول کا یہ نقشہ پیش کیاہے کہ انھوں نے ایک غیراسلامی نظام کے تحت ایک عہدے یا منصب کی درخواست پیش کی جو بادشاہِ مصر نے قبول کرلی اور وہ زندگی بھر وزیر مالیات یا وزیر غذا کی حیثیت سے نظام باطل کی چاکری کرتے رہے نعوذباللہ من ذلک۔ جماعت اسلامی جب قائم ہوئی تھی تو اس وقت معترضین کی طرف سے یہ بحث بڑے زور و شور سے اٹھائی گئی تھی لیکن جماعت کے رہنمائوں نے عقلی ونقلی دلائل سے مسکت جواب دے کر یہ ثابت کردیاتھاکہ حضرت یوسفؑ کو جو اقتدار ملا تھاوہ کوئی جزوی اقتدار نہ تھا ۔بلکہ وہ پورے مصر کے مختار کل تھے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت

حضرت یوسفؑ اور حضرت موسیٰؑ کے درمیان کئی صدیوں کا فاصلہ ہے لیکن اس درمیان میں کوئی نبی مبعوث نہیں کیاگیا۔ حضرت موسیٰؑ ان پانچ انبیائ میں سے ہیں جنھیں انبیاے اوالعزم کہاجاتاہے۔ انھیں اللہ نے فرعون اور بنی اسرائیل دونوں کی طرف بھیجاتھا۔ مقصد یہ تھا کہ فرعون شرک و بغاوت چھوڑکر راہ راست پر آجائے اور اگر وہ موسیٰؑ کی نبوت و رسالت پر ایمان نہ لائے تو اس سے مطالبہ کیاجائے کہ وہ بنی اسرائیل کو مصرسے ہجرت کرجانے دے۔ قرآن کی مختلف سورتوں میں کہیںایک بات کا ذکر ہے کہیں دونوں باتوں کا۔ سورہ النازعات میں صرف تبلیغ اسلام کاذکر ہے۔ اللہ نے انھیں حکم دیاکہ: ‘فرعون کے پاس جائو وہ سرکش ہوگیاہے اور اس سے کہو کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیارکرے اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تاکہ اس کاخوف تیرے دل میں پیدا ہو۔’ ﴿۱۷۔۱۹﴾ ان آیات میں ‘تزکّی’ کاجو لفظ آیاہے، اس کی تفسیر تمام مفسرین نے کفر وشرک سے پاک ہوکر اسلام قبول کرلینے سے کی ہے۔ بیہقی نے حضرت ابن عباسؓ سے اس لفظ کی جو تفسیر نقل کی ہے وہ لاالہ الااللہ کی شہادت دیناہے۔ آیات کامطلب یہ ہے کہ کیا تو تیار ہے کہ کفرو شرک سے توبہ کرے اور تمام معبودان باطل کا انکارکرکے الہ واحد کااقرار کرے۔ رب کی طرف رہ نمائی کا مطلب اس کے عظمت وجلال کی معرفت پیداکرناتاکہ اس کا خوف دل میں پیدا ہو اور فرعون اپنی خدائی کے خبط سے بازآجائے۔ ‘اِنّی لکم رسولٌ امین’ کانعرہ ٹھیک وہی ہے جو حضرت نوح ،ہود اور صالح علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم سے کیے تھے۔ حضرت موسیٰؑ کے ذمّے دو کام تھے: ایک یہ کہ فرعون اور قومِ فرعون تک حق کی دعوت پہنچادیں اور دوسرا یہ کہ بنی اسرائیل کی اصلاح کریں، اللہ سے ان کا تعلق جوڑیں اور ان کو مصر سے ہجرت کے لیے یکسوکردیں۔ انھوں نے بنی اسرائیل کے لیے اس طرح کاکوئی مطالبہ نہیں کیا جسے ‘قومی حقوق’ کہاجاتاہے۔ بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لے جانے کامطالبہ تو تمام قومی و شہری حقوق کو ختم کرنے کا اور اس بات کااعلان تھاکہ فرعون کی کافر وجابر حکومت میں بنی اسرائیل کا قیام ہی درست نہیں ہے۔ کیونکہ نظام کفر کی اطاعت کے ساتھ اللہ کی اطاعت و فرمانبردار ی کا حق ادا نہیں ہوسکتا اور یہ مطالبہ تو دراصل اس بات کااعلان تھا کہ حضرت موسیؑ فرعون کی حکمت کو جائز حکومت تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بعض لوگ ان کے قول ‘ولاتعذبہم’ کو بھی ایک قومی مطالبہ قرار دیتے ہیں۔ حالاں کہ یہ بالکل غلط اور نبی کے شایان شان بات نہیں ہے کیوں کہ اس قول کا تعلق تو نہی عن المنکر سے ہے نہ کہ کسی قومی مطالبے سے۔ کسی ظالم کو یہ کہنا کہ ظلم نہ کرکسی قومی حق کامطالبہ کس طرح قرار دیاجاسکتاہے یہ تو دو ٹوک انداز میں ایک منکر وبدی اور زیادتی کی نشان دہی کرکے روکنے کی تلقین ہے۔ ظلم کسی پرہورہا ہو اس کوروکاجائے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت

حضرت عیسیٰؑ بھی ان پانچ انبیاے کرام میں سے ہیں جنھیں اوالعزم کہاجاتاہے۔ ان کی بعثت بنی اسرائیل کی طرف ہوئی تھی۔ یہ قوم چوں کہ کفرو شرک اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلاہوگئی تھی اس لیے حضرت عیسیٰؑ نے ان کو وہی دعوت دی جو حضرت نوحؑ و ہود صالح وابراہیم علیہم السلام نے دی تھی۔ انھوںنے بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمایا: ‘اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی بندگی کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی اور جان رکھو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرے گا اللہ اس پر جنت حرام کردے گا ،اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ایسے ظالموں کاکوئی مددگار نہیں۔’ ﴿المائدہ:۱۷﴾‘قیامت میں وہ اللہ کے حضور میں کہیںگے: ‘میں نے ان سے اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے مجھے حکم دیاتھا ۔وہ یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی۔﴿المائدہ:۱۱۷﴾

سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت

سیّدنا حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہی دعوت پیش کی جو انبیاے سابقین نے دی تھی۔ تمام انسانوںکو مخاطب کرکے فرمایا: ‘لوگو! بندگی اختیارکرو اپنے اس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا رب ہے۔ تمہارے بچنے کی توقع اسی صورت سے ہوسکتی ہے۔’ ﴿البقرہ:۲۱﴾ آپﷺ  نے مکہ کے پُرآشوب اور ظلم وستم بھرے ماحول میں بھی کوئی ہیرپھیر کاراستہ نہیں اختیار کیا کہ قریش کی پارلیمنٹ کاسردار ابوجہل و ابولہب کی جگہ ابوسفیان کو بنایاجائے یا جو مسلمان اس پارلیمنٹ کے ممبر تھے خصوصاً ابوبکرؓ وعمرؓ انھیں اس منصب پر برقرار رہنے کی تلقین کی جائے اور ان کے اثرو رسوخ سے کچھ اور ممبران کااضافہ کرکے حالات کو اپنے موافق بنانے کی کوشش کی جائے یا کم از مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی شدت ہی کو کم کیاجائے یا خدمت خلق کاپروگرام شروع کرکے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں یا معاشرتی و اخلاقی برائیوں کی اصلاح کابیڑا اٹھاکر لوگوں کی وجہ اپنی طرف مبذول کرائی جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کاکوئی پروگرام حضرت محمدﷺ  نے نہیں شروع کیا حالاں کہ ایسے بہت سارے کام آپﷺ  نبوت سے پہلے بھی انجام دیتے رہے تھے۔ مدینہ آنے کے بعد بھی اسلام کی اصل دعوت میںکوئی فرق نہیں آیا۔

مکی دور میں آپﷺ  نے طاقت کے استعمال کے سوا دعوت کا ہر صحیح و مناسب طریقہ اختیار کیااور مدنی دور میں دین حق کے غلبے کے لیے اللہ نے آپﷺ  کے استعمال کی بھی اجازت دے دی۔ اس کے علاوہ آپﷺ  نے آس پاس کے بادشاہوں اور رئیسوں کو تحریری فرامین بھی جاری کیے۔

ہمیں بنیادی اور اصولی طورپر یہ بات ذہن نشیں رکھنی چاہیے کہ اب تاقیامت تحریکِ اقامت دین کے لیے اسوہ ونمونہ سیّدنا محمدﷺ  ہیں۔ ایک طرف ہم غیرمسلم بھائیوں تک اسلام کی دعوت پہنچاتے رہیں ، دوسری طرف مسلمانوں کی اصلاح کرکے انھیں داعی گروہ بنانے کی کوشش جاری رکھیں۔تحریک اسلامی کو پروان چڑھانے کے لیے جس خاص قسم کے تدبر اور حکمت عملی کی ضرورت ہے ،اس کا تقاضا ہی یہی ہے کہ کسی ہیرپھیر کی بہ جاے کام کاآغاز دعوت توحید سے کیاجائے۔ کیوں کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اور جتنی بھی بُرائیاں پائی جاتی ہیں ان کی جڑبنیاد ہی حاکمیت الٰہ کا انکار ہے۔ اس لیے کوئی اوپری اصلاح کی کوشش انفرادی واجتماعی خرابیوں اور بگاڑ کو دور کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمام دوسرے اہم کاموں کانکار کیاجارہاہے۔ بلکہ ہمارا اصل کام یہی ہے اور جہاں تک یہ اجازت دے بس اتنا ہی مہم اپنی توانائیاں دوسرے کاموں میں صرف کریں گے اور جہاں یہ اصل کام متاثر ہوگا اس طرف ہم رخ بھی نہیں کریں گے ورنہ ہماری غلط ترجیحات ناکارہ بناکر رکھ دیں گی۔

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2010

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223