اکیسوی صدی میں جس طرح ہندوستانیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی لگن جاگ اٹھی ہے شاید اس سے قبل اتنی دلچسپی کبھی نہیں دیکھی گئی ۔آج بھی جب اعلی تعلیم کی باتیں کریں تو اس میں وہی عام ہندوستانی پیش پیش نظر آتا ہے جو سماج میں معاشی لحاظ سے انتہائی کمزور ہے۔ابھی حال ہی میں آئی اے ایس کے نتائج کا اعلان ہوا ہے جس میں کوئی چائے والے کا بیٹا ہے توکوئی سبزی والے تو کوئی چوڑی فروخت کرنے والی بیوہ کا بیٹا ہے ۔ان سب نے نئ سماج میں نئی تاریخ رقم کی ہے ۔وسائل کی کمی کے باوجود انہوں نے تعلیم کی انتہا کو چھونے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔آزادی سے قبل اگر کوئی نوجوان بی اے یا ایم اے کرنے کا ارادہ کرتا تھا تو سماج کے بااثر افراد اس پر بھپتیاں کستے تھے ۔یہاں تک کہ کبھی کبھی با اثر طبقہ اس کی تعلیم کو رکوانے کی بھی کوشش کرتا تھا ۔جب ملک آزاد ہوا اور لوگوں کے دلوں میں آزادی کا جشن راسخ ہوگیا تو انہوں نے تعلیم کی طرف بھی توجہ دی اور ملک میں ہی ایسے ایسے تعلیمی ادارے کھل گئے کہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے ولایت اور لندن جانے کی ضرورت نہیں رہی جو اس وقت صرف سماج کے با اثر طبقہ اور امیروں کے بس کا تھا ۔اس طرح ایکسوی صدی آتے آتے ملک میںتعلیم حاصل کرنے کا اس قدر رجحان پیدا ہوا کہ کیا امیر اور کیا غریب سب نے یہ سو چ لیا کہ اپنی زندگی اور بچوں کی زندگی بنانی ہے تو اس کا واحد حل تعلیم میں ہی پوشیدہ ہے ۔اس طرح مزدور طبقہ نے محنت و مزدوری کر کے اپنے اپنے بچوں کی تعلیم کا نظم کیا اور اس کے لیے غیرمعمولی کوشش کی گویا زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ بس کسی طرح بچے اعلی تعلیم حاصل کر لیں اور وہ اس مقصد میں بہت حد تک کامیاب ہیں ۔لیکن اس کے باوجود ہم ملک کے مسلمانوں کی تعلیمی ماحول پر گفتگو کریں گے ۔بد قسمتی سے ہندوستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں خواندگی کا تناسب تشویشناک حد تک کم ہے اور لازمی پرائمری تعلیم بدستور خواب بنی ہوئی ہے‘ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملک میں کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور سڑکوں پر پھر رہے ہیں۔ ایک جانب اسکول جانے والے بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہے تو دوسری جانب تعلیم ادھوری چھوڑنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ لازمی پرائمری تعلیم کے مقاصد آج تک حاصل نہیں ہو سکے حالانکہ پہلی جماعت سے میٹرک تک تعلیم کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ریاست تعلیم کو فروغ دینے کے لئے طرح طرح کے طریقے اپنا رہی ہے جس میں وہ ایک حد تک کامیاب ہیں لیکن کچھ خامیاں بھی ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
امتحانات کا زمانہ
فروری ،مارچ کا مہینہ کم و بیش پورے ملک میں سکنڈری اور ہائر سکنڈری کے بورڈامتحانات کا زمانہ ہوتا ہے،اس زمانے میں طلبہ اپنے کورس کی کتابوں کے مطالعہ میں غرق رہتے ہیں جس کا ثبوت ہم برادران وطن کے محلوں میں جاکر آسانی سے پاسکتے ہیں کہ جہاں سرشام ہی گویاسناٹا چھا جاتا ہے اور اس سناٹے میں بس گھروں سے بچوں کے پڑھنے کی آوازیں ہی سنائی دیتی ہیںلیکن جب آپ مسلم محلّوں کا رْخ کریں تو یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہوتی ہے،ہر طرف صرف شور شرابہ اور مائک پر بجنے والے گانوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں،حد تو یہ ہے کہ نماز کے اوقات میں بھی یہ شور وشر جاری رہتا ہے،بچے اپنے دوستوں کے ساتھ مٹر گشتیاں کررہے ہوتے ہیں اور جو بچے ان اوقات میں پڑھنا چاہتے ہیں وہ مطالعہ پر اپناذہن برقرار نہیں رکھ پاتے اور تھک ہار کر اپنی کتابوں کو پٹخ دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ انہیں امتحان میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوپاتے اور لازمی بات ہے کہ اس کا اثران مسلم طلبہ کے کیر ئر، گھر، خاندان اور معاشرہ پر منفی ا نداز میںپڑتا ہے۔ مسلم کمیونٹی میں تعلیمی ماحول کا نہ صرف فقدان پایاجاتا ہے بلکہ تعلیم وتدریس سے عدم دلچسپی بھی پائی جاتی ہے۔ہاں کچھ ایسے محلے اور علاقے بھی ہیں جو تعلیم گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہاں پڑھنے والے بچے اکھٹے ہوتے ہیں کوئی ہاسٹل میں رہتا ہے تو کوئی کرایہ پر کمرے لیکر اپنی پڑھائی کرتا ہے ۔لیکن ایسے تعلیمی محلے اور کالونیاں صرف یونیورسٹی کے ارد گرد ہوتے ہیں جیسے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے علاقے کو ہم جامعہ نگر کے نام سے جانتے ہیں یہاں ملک کے کونے کونے سے طلبہ آتے ہیں اور اپنی تعلیم کو مکمل کرنے کے لئے اقامت پذیر ہوتے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے مسلم خاندان ایسے بھی ہوتے ہیں جو اسی علاقے میں اپنا آشیانہ صرف بچوں کی تعلیم کے لئے بنا لیتے ہیں ۔ اس طرح کا ماحول ہر یونیورسٹی کے آس پاس علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔چاہے وہ مسلم محلے ہوں یا پھر غیر مسلم ،وہاں صرف پڑھنے پڑھانے والے ہی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔
مسلم طلبہ کے مسائل
سچر کمیٹی نے اس حقیقت کو برسر عام آشکارا کر کے رکھ دیا کہ مسلمانوں کے صرف 4فیصد بچے ہی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں،بقیہ 66%فیصد سرکاری اسکولوں میں جب کہ 30فیصد پرائیویٹ اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔اس رپورٹ کی توضیحات کے بعد بھی جو لوگ مسلمانوں کی ناخواندگی کے اسباب کے بارے میںباتیں کرتے پھرتے ہیں،ان کے بارے میںیہی سمجھناچاہئے کہ ایسے لوگ صرف ملت کی پسماندگی کا ماتم کرنا ہی جانتے ہیں،یہ پسماندگی کس طرح دور کی جائے اس سے وہ نابلد ہوتے ہیں۔جہاں تک مدارس کی بات ہے وہ ہندوستان میں غیر حکومتی سطح پر سب سے بڑاتعلیمی نیٹ ورک ہیں ،جہاںجدید تعلیم گاہوں کے برعکس تعلیم کا ماحول اپنی آب و تاب کے ساتھ پایاجاتاہے۔یہ حقیقت ہے کہ مدارس مسلمانوں میں خواندگی کی شرح کو بڑھانے میں بہت بڑا کردار ادا کررہے ہیں ، پورے ملک میں تیس ہزار سے زائد مدارس ہیں جو کہ معاشی طور پر کمزور افراد کے تعاون سے تعلیم و تدریس کے فروغ کے لئے چلائے جاتے ہیں کہ ان کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔بیشتر مدارس غریب طلبہ کے قیام ،طعام،کتابیں اور ان کے گھر واپس جانے کے خرچ بھی برداشت کرتے ہیں‘‘۔یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ ہندوستان میں جدید تعلیم کے فروغ کے لئے ان ہی مدارس کے تربیت یافتہ افراد نے سب سے زیادہ رول ادا کیا ہے ،جن کی لامتناہی جدوجہد اور مشقت کے نتیجے میں مسلمانان ہند کواعلیٰ تعلیمی ادارے مل سکے۔ماضی میں جہاںملک کے دیگر خطوںمیں اہلِ خیر نے جدید تعلیم گاہیں قائم کیں ،وہیں آج بھی یہ لوگ تعلیم کے فروغ کے لئے دیوانہ وار کام کررہے ہیں ،چاہے وہ تکنیکی و انجینئرنگ ادارے ہوں یا دینی ادارے۔ مثال کے طور پر تمل ناڈو کی مسجد میں قائم سول سروس کی تیاری کرانے والا کوچنگ سنٹر،یا زکوۃْ فائونڈیشن کے ذریعے چلائے جانے والے کوچنگ سینٹرکا ذکر کیاجاسکتا ہے ۔
مسلمانوں میں تعلیمی ماحول کے فقدان کے سبب طلبہ کا دھیان تعلیمی سرگرمیوں کی طرف سے کم ہوجاتا ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ گھروں میں تعلیمی مزاج کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے تعلیم کا ماحول پروان نہیں چڑھ پاتا ہے۔ پھر یہ کہ ہمارے محلوں میںلائبریری یادارالمطالعہ کا وجود ہی نہیں ہے جہاں وہ چند گھنٹے سکون سے مطالعہ کرسکیں، اورکیرئر گائڈنس کا کوئی مرکز نہیں ہے جہاں سے وہ معلومات حاصل کرکے اپنے مستقبل کو روشن کر سکیں۔جس کی وجہ سے مسلم طلبہ مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت سے گھبراتے ہیں۔ تعلیم میں پیچھے رہ جانے کے سبب آج مسلمان اقلیت کے افرادسرکاری نوکریوں میں برائے نام ہی رہ گئے ہیں،سول سروسز میں حاشیہ پر مسلم آبادی ہے۔ محض۳۳یا ۳۴مسلم کے کامیاب ہونے پر جہاں ایک طرف خوشیوں کے شایادنے بجائے جاتے ہیں اور مضامین پر مضامین لکھے جاتے ہیں لیکن اس کامیابی کے با وجود ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کےفیصد میںاضافے کے باوجود وہ اس مقابلہ میں بری طرح ناکام ہیں بلکہ اس امتحان میں شرکت ہی انتہائی قلیل ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کا تناسب چالیس پچاس سال سے یہی ہے ۔اس طرف ملک کے بہی خواہوں کو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔اس میں جہاں سرکاری پالیسیوں کا عمل دخل ہے وہاںمسلمان خود بھی ذمہ دار ہیں جنہیں اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی فکر نہیں کی ،وہ خطیب حضرات بھی ذمہ دار ہیں جو مسجد کے منبرسے فروعی اختلا فا ت پر تو بڑی لمبی چوڑی بات کرتے ہیں لیکن تعلیم کے موضوع پر چند لمحے بھی گفتگو کرنا گوار ا نہیں کرتے ،وہ سیاسی لیڈران بھی ذمہ دار ہیں جو اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کے لئے نوجوانوں کا جذباتی استحصال تو کرتے ہیں مگر ان کے بہتر مستقبل کے لئے کوئی اقدام نہیں کرتے،وہ علماء بھی ذمہ دار ہیں جو اصلاح معاشرہ کی باتیں کرتے ہیں ،اصلاح ِ احوال کے لئے تعلیم وتعلم کو ضروری خیال کرتے ہیں مگر تعلیمی ماحول کیسے پیدا ہو اور پروان چڑھے اس کے لئے کوئی مہم نہیں چلاتے ، وہ لوگ بھی اس بابت ذمہ دار ہیں جو مسلم تعلیمی اداروں یاملّت کالج کے منتظم ہیں مگر وہاں موزوں تعلیمی وتدریسی فضاپیدا نہیں کرپاتے ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بیشتر طالب علم تعلیمی ماحول سے فائدہ نہیں کر اُٹھاپاتے اور ترقی و کامیابی کی دوڑ میں برادران وطن سے کافی پیچھے رہ جاتے ہیں۔
ایسے ماحول میںملّی تعلیمی اداروںکے ذمہ داران کو اپنی مالی منفعت کو بالائے طاق رکھ کر طلبہ کے بہتر مستقبل کے لئے فکر مند ہونا ہوگا ،کیونکہ بہتر کاردگی اور تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے ایسے تعلیمی ماحول کا ہونا ناگزیر ہے جو کالج سے شروع ہو کر محلے تک پہنچتا ہو۔
مدارس کا نصاب تعلیم
ہندوستان میں فی زمانہ سب سے زیادہ نشانہ مدارس کے نصاب کو بنایا جا رہا ہے ۔سرکاری اور غیر سرکاری این جی اوز کی طرف سے اس میں تبدیلی کا مطالبہ زور و شور سے ہو رہا ہے بلکہ اس سے قبل تو سرکار نے مدارس کو قومی دھارے سے جوڑنے کے لئے کل ہند مدارس بورڈ بنانے کی بھی وکالت کر رہی تھی ۔ جب مسلمانوں کی طرف سے اس کی پرزور مخالفت ہوئی تو مدارس کو یہ اختیار دیدیا گیا کہ یہ ان کی مرضی پر ہے کہ وہ مدارس بورڈ میں شامل ہوں یا نہ ہوں ۔ دلیل یہ دی جارہی تھی کہ مدارس کا نصاب تعلیم پرانا ہے اس لئے اسے جدید ٹکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ایک بورڈ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مدارس کو قومی دھارے سے منسلک کیا جائے ۔مسلمانوں ، علماء کرام اور دانشوروں نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا ۔جس کے نتیجے میں حکومت بھی اپنے اس منصوبہ کو پشِ پشت ڈالنے میں عافیت سمجھی اور یہ شگوفہ فی الحال ختم ہو گیا ۔
اب خود بعض مسلمانوں کی طرف سے مدارس کے نصاب تعلیم میں تبدیلی کی بات گاہ بگاہے کی جاتی ہے ۔جس کے مختلف نکتہ نظر ہوتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ علم جس کے دم سے دنیا میں روشنی ہے اسے فرسودہ کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے؟ اس نصاب میں کون سی کمی ہے جس کی بنیاد پر انگلی اٹھائی جا رہی ہے ۔ یہی قرآن و حدیث ہیں جن پر غورو فکر کرنے کے بعد مسلمانوں نے ستاروں پر کمندیں ڈالنا سیکھا ،یہی قرآن ہے جس نے انسانوں کو دریائوں اور سمندروں کی تسخیر کا اہل بنایا نہیں تو یہ نادان اسے خدا مان کر کنارے پران کی پرستش میں محو رہتے تھے ۔ اسلام نے انسانوں کو کائنات کی ہر چیز میں غوروفکر کرنے کی دعوت دی انسانوں کی خدائی سے انسانوں کو نجات دلائی تب جا کر انسانوں نے غوروفکر کرنا شروع کیا ۔اور دنیا ترقی کے منازل طے کرتی ہوئی یہاں تک پہنچ سکی ہے ۔یہ سب اسلام اور قرآن کی ہی دین ہے کہ اس نے دنیا کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں پہنچادیا، اتنی بڑی تعلیم اور مسائل کی کلید ہونے کے باوجود آج قرآن وحدیث اورفقہ کو نامکمل قرار دیا جا رہا ہے ۔اس میں ہم مسلمانوں کی غفلت کا دخل ہے ۔
انتہائی حیرت ہوگی کہ قرآن اور حدیث کو کماحقہ اکثر مدارس نے نصاب تعلیم میں شامل نہیں کیا ۔ حقیقت یہی ہے ۔ہم نے پڑھانا اور درس دینا تو سکھا دیا، خالص قرآن وحدیث کی کلاسیں تو شروع کی لیکن اس کے مضامین کی تدوین وتحقیق سے غافل رہے۔ حدیث کی ترتیب اور فقیہ کی ترتیب میں ابواب کا خیال رکھا گیا ہے اور موضوع کے لحاظ سے ابواب کی تقسیم کی گئی ہے۔ضرورت کے مطابق کتابیں تیار نہیں ہوسکی ہیں جن کی دنیا کو ضرورت ہے ۔
مسلمان غور کریں کہ قرآن و حدیث میں ہم کیا علوم حاصل کرتے ہیں ۔کیا دیگر مذاہب کی طرح محض طریقِ عبادت سیکھایا جاتا ہے یا ہماری پوری زندگی کے لئے رہنمائی موجود ہے ۔و اقعہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ہم وہ مضامین پڑھتے ہیں جو دنیا میں زندہ رہنے کے لئے ضروری ہیں ۔ہم کو ہدایت دی گئی ہے کہ تجارت کس طرح کریں ،زراعت کس طرح کریں،حکمرانی کس طرح ہو ،فیصلے کس طرح کریں ، غور کرنے کے لیے کہا گیا ہے کہ چاند ،تارے اور زمین کس طرح گردش کر رہے ہیں ؟،زمین کے اندر کیا ہے؟،سمندر کے اندر کیا ہے اور ہم اسے کیسے حاصل کریں ،ہوا کس طرح چلتی ہے ،بارش کس طرح ہوتی ہے ،اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں ؟،علاج و معالجہ کا طریقہ کیا ہو ،کیسے ہو ؟،گویا کہ قرآن و حدیث علم کا منبع ہیں۔ پھر ہم نے اِس علم سے دنیا کو متعارف کیوں نہیں کرایا ؟کیوں ہم نے اسے محض عبادت تک محدودکر لیا؟اسلام آیا تھا دنیا میں نظام قائم کرنے کے لئے ایک ایسا نظام جو دنیا میں امن اور انصاف قائم کرتا ہے۔ اس کےمطابق زندگی گزارنے پر انعام کے طور پر جنت کا وعدہ ہے۔اس دنیا کو دارالامتحان کی حیثیت سے اللہ نے ہمیں عطا کیالیکن ہم نے صرف رسمی عبادت تک اپنے کومحدود کرلیا۔ یہ ظلم ہی نہیں نا انصافی بھی ہے ۔
اب ہمیں وہ کام کرنا ہے جوماضی میں نہیں کیا ۔ دنیا میں مسلم حکمراں ہیں لیکن افسوس کہ انہوں نے قرآن و حدیث کو اسلامیات میں شمار کر کے لازمی مضامین کی حیثیت سے نصاب میں توشامل کیا ۔لیکن انسانوں کےخیالات ونظریات کو اصل اہمیت دی جو زمانے میں رائج ہیں ۔آدم اسمتھ کو بابائے معاشیات کی حیثیت دی اور ارسطو ،سقراط اور افلاطون کو ماہرین فلاسفہ تسلیم کیا ۔لیکن اپنے ہادی و رسول ﷺ کی تعلیمات کو محض ثواب حاصل کرنے کا وسیلہ بتایا ۔ڈارون ،کارل مارکس کو نظریہ ساز کی حیثیت دی لیکن انبیاء علیہ السلام کو ہادی کی حیثیت نہیں دی ہے ۔گویا کہ ہمارے پاس تمام علوم اور مضامین موجود ہونے کے باوجود ہم نے گمراہ انسانوں کو اپنا رہنما بنا لیا اور خدا اور رسول کی باتوں کو ثواب حاصل کرنے کا صرف ذریعہ سمجھا ۔
اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے ہم جب کوئی مضمون لکھتے ہیں کسی عنوان کے تحت اظہار خیال کرتے ہیں توان ساری باتوں کو ذکر کرتے ہیں جو کسی نے لکھی ہوں۔ اس سے متعلق قرآن و حدیث میں نص موجود ہو یا اہل علم کا کوئی مقولہ یا اقوال ہو ،ہم ان تمام کو شامل کر تے ہیں اور اپنے مضمون مکمل کرتے ہیں ۔اسے پڑھ کر تمام ضروری باتیں سامنے آجاتی ہیں کہ قرآن اس سلسلے میں کیا کہتا ہے حدیث میں اللہ کے رسول نے اس سلسلے میں کیا کہا اور کسی دانشور نے اس سلسلے میں کیا کہا ہے ۔
اسی طرز پر ہمارا نصاب تعلیم مرتب ہونا چاہئے ۔سائنس کی کتابیں ہیں تو اس میں سائنس سے متعلق احادیث اور قرآن کی آیات کو یکجا بیان کرنا چاہئے پھربڑے سائنس دانوں کے فکر کو نصاب میں شامل کریں۔ اس طرح سائنس کی کتاب کو ترتیب دینا چاہئے ۔ایک اور مثال زراعت کی ہے۔ا س سے متعلق آیات موجود ہیں اور حدیث میںہدایات ملتی ہیں۔فقہ میں باتیں ملتی ہیں پھر دنیا کے ماہرین نے جو تحقیق کی ہے ان کو شامل کر کے زراعت کی کتاب ترتیب دےسکتے ہیں ۔
اسی طرح ہر شعبہ علم میں ہم قرآن کی آیات کو یکجا کر کے پیش کریں۔ تفسیر اور حدیث و فقیہ سے مدد لیں اور ماہرین کی فکر کو شامل کر کے جامع نصاب تعلیم مرتب کریں اس کے پڑھنے اور پڑھانے سے نہ صرف دنیا میں کامیابی حاصل ہوگی بلکہ اخلاقی تعلیم کامقصد پورا ہوگا۔ اور تصور آخرت طلبہ میں پیدا ہوگا۔ انہیں اپنے مقصد وجود سے آگہی ہوگی وہ ہر میدان میں ماہر ڈاکٹر ، سائنس داں ،ماہر معاشیات اور ماہر سیاست داں بن کر دنیا میں خدمت انجام دے سکیں گے ۔
لیکن ہم نے تعلیم میں بٹوارے کو تسلیم کر لیا، سیاست پڑھ لی لیکن اسلامی سیاست کیا ہے اس کا کوئی ذکر کتاب سیاست میں موجود نہیں ۔یہ تو ادھوری تعلیم ہوئی ۔آج جو انگلی اٹھائی جا رہی ہے وہ ہماری اسی غفلت کا نتیجہ ہے ورنہ دنیا کو تاریکی سے نکالنے والی تعلیم پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی بلکہ اسے پڑھنے پر سب مجبور ہوتے ۔آج ہر کو ئی یہ کہتا ہے کہ تعلیم تو حاصل کر لی لیکن طلباءاخلاق سے عاری ہیں جذبہ خدمت خلق تو ہے ہی نہیں ۔اس لئے کہ ہم نے سیاست میں پی ایچ ڈی تو کر لی لیکن اسلامی سیاست کیا ہے اس سے واقفیت حاصل نہیں کی ۔ اس طرح کا ہمارا نصاب تعلیم ہے ہی نہیں ۔ہم نے جغرافیہ تو پڑھ لیا لیکن قرآن نے تعمیر عالم کا جو نقشہ بتایا ہے اس کو سمجھا ہی نہیں،ہم ایم بی اے اور بی بی اے توہوگئے لیکن قرآن نے جو تجارت کے اصول متعین کئے ہیں اس سے واقفیت حاصل ہوئی ہی نہیں ۔اس طرح ہماری تعلیم ادھوری تعلیم ہے جس کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے ۔
سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا میں اسلامی تحریکات موجود ہیں اور ۵۶ مسلم ممالک بھی ہیں عموماً تنظیموں اورحکومتوںنے یہ کام نہیں کیا البتہ جماعت اسلامی ہند نے مختصر مدت میںپیش رفت کی ہے۔ ثانوی درجہ تک کا نصاب تعلیم جو قرآن و حدیث اور اسلامی تعلیمات پر مبنی ہے موجود ہے ۔بعض کتابیں یہ ہیں تاریخ کی آئینہ تاریخ ،جغرافیہ کی ہماری دنیا ،ہندی کی ،ہماری پوتھی ،ساہتیہ سومن اور ساہیتہ پربھا،اردو کی ہماری کتاب ،تعمیری ادب نظم و نثر عربی کی منہاج العربیہ ،اسلامی فکر کی رسالہ دینیات ،حساب کی ریاضی ۔ اس طرح جماعت اسلامی ہند نے تعلیم کے مسئلے کو سمجھا اور اسے اپنے اداروں کے لئے نصاب ترتیب دیا آج ثانوی درجہ تک کی نصاب کی یہ کتابیں موجود ہیں اور پڑھائی جا رہی ہیں بچوں کی پڑھائی کا معیار کسی بھی شکل میں قومی معیار سے الگ نہیں ہے ۔ اس کا نصاب تعلیم اس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ موجودہ دور کے تمام مضامین کو شامل کرتے ہوئے اسلامی تعلیم کو جگہ دی گئی ہے ۔اسی کی دنیا کو ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے یہ کام شروع کیا ہے۔ اور کامیاب نصاب کی حیثیت سے ہزاروں تعلیم گاہوں میں یہ کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں ۔اس کے لئے باضابطہ جماعت اسلامی ہندنے روز اوّل سے ہی شعبہ تعلیم قائم کر رکھا ہے جس میں ماہرین تعلیم کی خدمات لی جاتی ہیں اور نئے نئے تجربات کی روشنی میں نصاب تعلیم میں ردو بدل کا کام جاری ہے ۔
مسلم ممالک کو اِس جانب توجہ دینی چاہیے تاکہ آج ہر علم اور نصاب میں اسلامی جھلک ملتی ،دنیا ہمارے نصاب تعلیم پر فخر کرتی اور قرآن وحدیث عملاً دنیا میں نافذ ہو جاتے لیکن افسوس کہ مسلم حکمرانوں نے اس جانب توجہ نہیں کی ہے۔ آج ہمارے مدارس کے نظام تعلیم کو فرسودہ قرار دیا جا رہا ہے تو اس کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔اس کی تلافی اسی وقت ممکن ہے جب تمام مکتبہ فکر اور تمام مسالک کے اہلِ علم مل کر نصاب تعلیم کو مر تب کرنے کی جانب پیش رفت کریں ۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2016