زیر نظر مضمون اولین اسلامی تاریخ کے بعض اہم گوشوں پر تحقیقی نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔ اس کے بعض نکات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، اور بعض نکات پر بحث کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔توقع کی جاتی ہے کہ اس طرح کی تحریروں سے اسلامی تاریخ اور اسلامی سیاسیات کی کچھ گتھیوں کو سلجھانے میں مدد ملے گی اور معتدل تحقیقات کے لیے راہیں ہم وار ہوں گی— مدیر)
امویوں کے خلاف انقلابی تحریک برپا کی، انھوں نے چار سال تک سولی پر لٹکائے رکھا۔ عباسیوں کی کام یابی کے لیے راستہ ہم وار کیا اور ایک فقہی مسلک کی داغ بیل ڈالی جس کی رو سے انقلاب ایک مسلسل تحریک کے طور پر مطلوب ہے۔
اسلام کے اولین چشموں سے واقف ہونے کے لیے اہل بیت کی اکابر شخصیات کی تاریخ، ان کے افکار اور اصول ومبادی ، اور ان کی خاطر ان کی جدوجہد کو جاننا ضروری ہے۔ اہل بیت کے اولین اکابر کے تذکروں کو غور سے پڑھنے پر یہ بھی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت، گروہ علما اور رائے عامہ ان تینوں پر مشتمل پیچیدہ ترین مثلث کے ساتھ ان کا تعلق کس طرح کا تھا۔
ان سطور کے ذریعے امام زیدؒ کے زمانے میں برپا ہونے اہم واقعات کے پس منظراور ان واقعات میں ان کے کردار کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے، کیوں کہ ہمارا یہ خیال ہے آج بھی جب کہ دور حاضر کی جدید نسل عملی سیاست کے میدان میں قدم رکھ رہی ہے، زید کے کردار میں موزوں اورحوصلہ بخش نمونہ ہے۔ امام زیدؒ نے نظری اعتبار سے اپنا سیاسی منصوبہ اُس نقطہ نظر سے تیار کیا تھا جس میں لچک دار واقعیت اور بلند مثالیت دونوں پائی جاتی تھیں تاکہ یہ منصوبہ سب کے لیے مناسب رہے، اگرچہ قسمت نے اس پہلو سے یاوری نہیں کی کہ انھیں اطمینان کے ساتھ پوری تیاری کرنے اور انقلابی سرگرمیوں کے لیے مناسب جغرافیائی ماحول مل پاتا۔
یہاں اس مضمون میں ہمارے پیش نظر جو چیز ہے وہ امت کے اندر، نہ کہ فرقے کے اندر، امام زیدؒ کا مقام ومرتبہ ہے اور یہ مقام و مرتبہ بھی عمومی حیثیت میں ہے نہ کہ خصوصی حیثیت میں۔ البتہ عقیدے کے اعتبار سے ایک فرقے اور فقہی مسلک کے اعتبار سے فرقۂ ’’زیدیہ‘‘ [جو کہ امام زید بن علی ہاشمی سے ہی منسوب ہے]کی جہاں تک بات ہے تو اس پر گفتگو کا یہ موقع نہیں ہے۔
خاص نشوونما
امام زید بن علی ۸۰ ھ/۷۰۰ء میں پیدا ہوئے اور ایک ایسے گھرانے میں پرورش پائی جسے علم کی امامت اور دین پر استقامت کا شرف حاصل تھا۔ ان کے والد علیؒ(م:۹۴ھ/۷۱۴ء) بن حسین بن علی بن ابی طالب تھے، جو زین العابدین کے نام سے معروف تھے۔
ابھی زید بن علیؒ کی عمر کا چودہواں سال مکمل نہیں ہوا تھا کہ والد محترم زین العابدین کی وفات کے غم سے دوچار ہو گئے، جن کی شہرت علم کے ایک سمندر اور زہد و تقویٰ کے امام کی حیثیت سے تھی۔حتی کہ امام ذہبیؒ (م:۷۴۸ھ/۱۳۷۴ء) نے ’سیر اعلام النبلاء ‘میں ان کے تعلق سے کہا ہے: ’’وہ ایک ثقہ اور قابل اعتماد شخصیت کے مالک تھے، کثرت سے حدیثیں یاد تھیں، رفیع و بلند اور متقی انسان تھے۔‘‘
علامہ ابن کثیرؒ (م:۷۷۴ھ/۱۳۷۲ء) نے ’البدایہ والنہایہ‘ میں امام محدث ابن ابی شیبہ(م:۲۳۵ھ/۸۴۹ء)کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’تمام سندوںمیں صحیح ترین سند زہری عن علی بن الحسین عن ابیہ عن جدہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ہے۔اس کے بعد علامہ ابن کثیر نے بعض ان روایات کا ذکر کیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام زید بن علی کے تعلقات اپنے زمانے کے تابعی علما سےمضبوط و مستحکم تھے۔
انھوں نے علم، جیسا کہ علامہ ذہبی نے ’’سیر اعلام النبلاء‘ میں لکھا ہے، علما کی اس جماعت سے حاصل کیا تھا جس میں سرفہرست نام ان کے والد حضرت زین العابدین، بڑے بھائی محمد الباقر (م:۱۱۴ھ/۷۳۳ء)، اورعُروہ بن زبیر (م:۹۴ھ/۷۱۴ء) کا آتا ہے جو کہ مدینہ منورہ کے سات بڑے فقہا میں شمار کیے جاتے تھے۔
انھی ائمہ سے زید بن علیؒ نے علم کی تحصیل کی اور اپنی مضبوط علمی بنیاد حاصل کی تھی۔ یہ وہ علمی دولت تھی جس کی بعض تفصیلات مورخ و فقیہ المقریزی (م:۸۴۵ھ/۱۴۴۱ء) ’المواعظ والاعتبار‘میں اس طرح نقل کرتے ہیں:
’’زید (بن علی ہاشمی) نے ایک روز اپنے انقلابی پیرؤوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: خدا کی قسم میں نے جب تک قرآن کو پڑھ نہیں لیا، فرائض میں مہارت حاصل نہیں کرلی، سنن و آداب کو مضبوطی سے نہیں پکڑ لیا اور جب تک تنزیل کی ہی طرح تاویل کو بھی جان نہیں لیا، ۔۔۔ اور جب تک میں نے ان ناگزیر چیزوں کو نہیں جان لیا جن کی امت کو ضرورت ہے اور جن سے امت بے نیاز نہیں رہ سکتی، میں (بغاوت) کے لیے نہیں نکلا اور نہ یہاں اس جگہ آکر کھڑا ہوا ہوں۔ مجھے اپنے رب کی طرف سے[اس معاملے میں] شرح صدر حاصل ہے۔‘‘
تعلیم کے متنوع سرچشمے
ابوالفتح شہرستانی (م:۵۴۸ھ/۱۱۵۳ء) ’المِلَل والنِحَل‘ میں کہتے ہیں:
حضرت زید بن علی نے ’’علم اصول (عقائد) اور علم فروع (فقہ) کی تعلیم حاصل کرنےکا فیصلہ کیاتاکہ علم کے زیورسے آراستہ ہو جائیں۔ چناں چہ عقائد کی تعلیم کی لیے انھوں نے واصل بن عطاء (م:۱۳۱ھ/۷۵۰ء) کی شاگردی اختیار کی، جو معتزلیوں کے سربراہ اور سردار تھے— چناں چہ ان کے ذریعے ان کے اندر اعتزال آیا اور ان کے تمام کے تمام اصحاب معتزلی ہو گئے۔
المقریزی اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ زیدیہ تمام اصولوں میں معتزلیوں سے اتفاق رکھتے ہیں سوائے امامت کے مسئلے کے زید بن علی کا مسلک واصل بن عطاء سے ماخوذ ہے۔‘‘
حصول علم کے سلسلے میں یہ تنوع اور متعدد علمی مآخذ سے علم کے حصول نے ان کا رشتہ تمام علمی جماعتوں سے جوڑ دیا تھا اور عام معاملات میں انھیں غیر جانب دار بنا دیا تھا۔ اسی طرح یہ چیز اُن کے لیے صحابہ کرام اور اسلافِ امت کے سلسلے میں مثبت موقف کو پختہ کرنے اور اس وقت جو فرقے اور جماعتیں ابھر کر نمایاں ہو رہی تھیں، ان کے درمیان متوازن موقف قائم رکھنے کا سبب بنی۔
اسی لیے علامہ ذہبیؒ نے امام زید بن علی کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’ابوبکر (الصدیق م:۱۳ھ/۶۳۵ء) رضی اللہ عنہ شکرگزاروں کے امام تھے۔ پھر انھوں نے یہ آیت تلاوت کی وسیجْزِی اللهُ الشاكرین (اور اللہ عن قریب شکرگزاروں کو بدلہ دے گا۔)، پھر فرمایا: ابوبکرؒ کی برأت بالکل حضرت علیؓ کی برأت کی طرح ہے۔‘‘
امام ابن تیمیہ (م:۷۲۸ھ/۱۳۲۸ء) ’مناہج السنۃ النبویۃ‘ میں فرماتے ہیں کہ آل بیت میں سے غالی قسم کے لوگ اپنے بعض ائمہ کی [بھی]تکفیر کیا کرتے تھے۔ یہ اہلِ سنت ائمہ تھے جن میں وہ ائمہ بھی شامل تھے جو ابوبکر اور عمر [رضی اللہ عنہما] سے محبت رکھتے تھے، مثلاً زید بن علی بن حسین وغیرہ جن کا تعلق حضرت فاطمہ (م:۱۱ھ/۶۳۳ء)کی ذریت سے تھا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اُس وقت امام زیدؒ علماے اسلام سے الگ نہیں تھے اور نہ ان سے منسوب فرقہ ’’زیدیہ‘‘ اپنے اصول و عقائد کی بنیاد پر پروان چڑھا تھا جیسا کہ بعد میں اس کے بارے میں یہ معروف کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شہادت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی اُن کا شمار ان ائمہ اسلام میں ہوتا رہا جن کی امامت پر سب کا اجماع تھا اور وہ اسی بات کے اہل تھے کہ ان کی تحریک انقلاب کو فقہا و محدثین اور مفسرین میں سے ہر ایک کی متفقہ حمایت حاصل ہو، حتی کہ ان کی علمی آراء پر مختلف مسلکوں کے ائمہ اور بڑے بڑے محدثین نے اعتماد کیا۔
تحریک کا پس منظر
خلافت امیہ کے خلاف امام زید بن علی کی تحریک کے محرکات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے یہ بات ذہن میں بٹھا لیں کہ امام کی پیدائش مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔مدینہ منورہ کے باشندوں اورمعززین یعنی صحابہ کرام اور تابعین عظام سے امویوں نے بظاہر یزید بن معاویہ (۶۴ھ/۶۸۵ء)کے ہاتھ پر زبردستی بیعت لی تھی، کیوں کہ امام سیوطی (م:۹۱۱ھ/۱۵۰۵ء) کی کتاب ’تاریخ الخلفاء‘ کی ایک عبارت کے مطابق ’’ اس کے والد نے اسے اپنا ولی عہد مقرر کر لیا تھا اور لوگوں کو یہ فیصلہ ماننے پر مجبور کر دیا تھا۔‘‘
اس کی تفصیلات اس طرح ہیں کہ حضرت معاویہؓ نے مدینہ میں اپنے گورنر مروان بن حکم (م:۶۵ھ/۶۸۶ء) کو خط لکھ کر حکم دیا کہ وہ ان کے جوان بیٹے یزید کے لیے بیعت لیں۔ مروان نے مدینہ کے رہ نماؤں کو جمع کیا اور ان کے درمیان خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’امیر المومنین کی رائے ہے کہ ابوبکر اور عمر [رضی اللہ عنہما] کی سنت کے مطابق یزید کے لیے آپ لوگوں سے بیعت لیں۔‘‘ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر صدیق (م:۵۳ھ/۶۷۴ء) کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’بلکہ کسریٰ اور قیصر کی سنت کے مطابق، کیوں کہ ابوبکر اور عمر نے خلافت کو اپنی اولاد کی طرف منتقل نہیں کیا، نہ اپنے گھر والوں میں سے کسی کی طرف منتقل کیا۔‘‘
اس کے بعد حضرت معاویہؓ خود مدینہ تشریف لائے اور اپنے بیٹے یزید کے لیے لوگوں کی رضامندی کے بغیر بیعت حاصل کر لی۔ امام سیوطی کی روایت کے مطابق اس پر عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ نے صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے فرمایا: ’’خدا کی قسم آپ کی خواہش یہ ہے کہ اپنے بیٹے کے معاملے میں ہم آپ کا حال اللہ پر چھوڑ دیں، حالاں کہ بخدا ہم ایسا نہیں کریں گے۔ قسم خدا کی آپ کو یہ معاملہ مسلمانوں کے درمیان شوری میں رکھنا ہوگا، ورنہ ہم نئے سرے سے آپ کے خلاف بیعت کریں گے۔‘‘
یعنی شوریٰ کو اس وقت مرکزی اہمیت حاصل تھی جو طاقت کے ساتھ صحابہ وتابعین کے اجتماعی ذہن و دماغ میں موجود تھی۔ اسی لیے تمام صحابہ و تابعین حضرت معاویہؓ کے اس رویے پر ناراض ہو گئے اور پیشگی طور پر انھوں نے یہ محسوس لیا کہ یہ رویہ ایک ایسی چیز کی بنیاد ڈالنے والا ہے جو بعد میں شوری کی قدر و قیمت کو ضائع کر دے گا اور امت کی سیادت و قیادت کا مقام کھو دے گا۔ اسی لیے بعد کے دور میں حضرت حسن بصری (م:۱۱۰/۷۲۹ء) نے حضرت معاویؓہ کی جانب سے اپنے بیٹے کو حکومت کا وارث بنانے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’یہی وجہ ہے کہ ان [امراء]نے اپنے بیٹوں کے لیے بیعت لی، حالاں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو شوری [کانظام] قیامت تک موجود رہتا۔‘‘
حضرت معاویہؓ کے اس اقدام کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ یزید کی ولایت نے صالحین کے دلوں کو یزید سے متنفر کر دیا۔ چناں چہ۶۰ھ/۶۸۱ء میں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے عراق کے اندر اس کے خلاف خروج کیا اور اہلِ مدینہ نے بھی ۶۳ھ/۶۸۴ء میں آزادی کی تحریک چھیڑ دی۔ اس تحریک کےبعد ۷۳ھ/۶۹۳ء میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے بھی مکہ مکرمہ میں مسندِ خلافت سنبھالنے کا اعلان کر دیا۔ پھر ۸۴ھ/۷۰۴ء میں وہ سخت تحریک شروع ہو ئی جسے فوجی کمانڈر عبدالر حمن بن اشعث الکِندی کی قیادت میں عراق کے سینکڑوں علما نے برپا کیاتھا۔۸۱۔۸۳ھ/۷۰۱۔۷۰۳ء کے دوران دو سال تک مسلسل اس سلسلے کے واقعات پیش آتے رہے۔
انتقام سے سرشار نسل
اس سیاسی اتھل پتھل اور تقریباً ربع صدی تک بنی امیہ کے خلاف مسلسل خروج کی تحریکوں نےبلاشک و ریب نئی نسل پر اثرات اپنے مرتب کیے۔ مثال کے طور پر امام زید بن علیؒ کی نسل پر اثرات مرتب کیے جن کی پیدائش اس زمانے میں ہوئی جب ایک دوسری تحریک، یعنی فقہا اور ابن الاشعث کی تحریکِ انقلاب کا آغاز ہورہا تھا۔
اس طرح نئی نسل کو بنی امیہ سے نفرت و ناراضی، ان کی حرکتوں اور منصب خلافت کو اپنے لیے روک رکھنے کی حرکت سے ناپسندیدگی اپنے آباء واجداد یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام سے ورثے میں ملی تھی۔[بنو امیہ کے خلاف]باغیوں کے مطالبات خاص طور سے دو باتوں پر مشتمل تھے: خلیفہ مقرر کرنے کے لیے شوری کی طرف رجوع، اور ریاستوں کاگورنر مقرر کرنے میں عام لوگوں کی شراکت۔
جب بنو امیہ کے وسائلِ قوت حالات کے پس منطر میں کام کرنے والے واقعات و حوادث کو تقریباً چار عشروں تک اپنے بس میں کیے رہے تو انھی حوادث سے پیدا ہونے والے نتائج کے تحت ۱۲۲ھ/۷۴۱ء میں ہشام بن عبدالملک (م:۱۲۵ھ/۷۴۴ء) کے خلاف زید بن علی کی تحریک سامنے آئی۔
حقیقت یہ ہے کہ امام زیدؒ ہی تھے جنھوں نے اپنی انقلابی تحریک کو گذشتہ شدید تحریکوں کے ضمن میں درج کرایا تھا، اسی لیےجیسا کہ عبدالقاہر جُرجانی (م:۴۲۹ھ/۱۰۳۹ء) نے ’الفَرْق بین الفِرَق‘ میں لکھا ہے، انھوں نےفرمایا: ’’میں توبنی امیہ کے خلاف نکلا ہوں جنھوں نے میرے دادا حسینؓ کو قتل کر دیا تھا، جنگِ حَرّہ [حَرّہ مدینہ منورہ کے باہر ایک میدان کا نام ہے، جہاں یزید بن معاویہ کے زمانے میں جنگ ہوئی تھی، جسے وقعۃ الحرّۃ بھی کہا جاتا ہے۔]کے موقِع پر مدینہ منورہ پر چڑھائی کر دی تھی، اور [ابن زیبرؓ کے خلاف جنگ کے دوران]منجنیق اور آگ کے گولوں سے بیت اللہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔‘‘
اسی لیے امام زید کی انقلابی تحریک محرکات، طریقہ کار اور نتائج کے اعتبار سے [بنی امیہ کے خلاف] سابقہ انقلابی تحریکات کا ہی تسلسل تھی۔ کیوں کہ اس تحریک نے بھی وہی مطالبات اٹھائے تھےجو اقتدار تک رسائی کے لیے شوری پر انحصار، خلیفہ و گورنر کے انتخاب میں مسلمانوں کی رائے عامہ پر انحصار اور لوگوں پر ہونے والے مظالم کو ختم کرکے عدل و انصاف کے قیام کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔
نظریاتی تشکیل
مسلک زیدیہ کے عقائدی افکار دو اہم مسئلوں میں عام طور شیعہ فرقوں، خاص طور سےاثنا عشریوں کے یہاں پائے جانے والے افکار و عقائد سے مختلف ہیں۔ ان دو مسائل کا ذکر امام ابوالحسن اشعری (م:۳۲۴ھ/۹۳۶ء) نے اپنی کتاب ’’مقالات الاسلامیین‘‘ میں کیا ہے: ’’البتہ اِن (زیدیہ) کا اُن لوگوں (اثنا عشریوں) سے دو چیزوں میں اختلاف ہے: ایک یہ کہ زیدیہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی تائید و حمایت کی تھی اور دونوں کو اپنی بیعت دی تھی، اور دوسری یہ کہ زیدیہ اہلِ بیت کو اس طرح معصوم نہیں سمجھتے جس طرح یہ لوگ (اثنا عشری) سمجھتے ہیں۔‘‘
حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ اور عام صحابہ کرامؓ کے تعلق سے امام زید بن علیؒ کے موقف کے بارے میں امام اشعری کہتے ہیں: ’’امام زید رسول اللہﷺ کے تمام صحابہؓ سے حضرت علیؓ کو افضل مانتے تھے اور [اس کے باوجود] ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتے تھے اور ائمۂ ظلم و جور کے خلاف خروج کو جائز سمجھتے تھے۔‘‘
حضرت ابوبکر اور حضرت عمررضی اللہ عنہما کے بارے میں امام زید کا یہ موقف قابل تعریف ہے۔ جس وقت امویوں کےساتھ کشمکش عروج پر تھی اور امام زید کو شیعانِ آل بیت کی حمایت کی ضرورت تھی، اس وقت بھی انھوں نے آلِ بیت کے سامنے اپنے اس موقف کو واضح طور پر بیان کر دیا تھا اور انھیں اپنی صفوں میں لانے کے لیے ’تقیے‘ کا سہارا نہیں لیا تھا۔ اسی وجہ سے جب امام زیدؒ نے بعض شیعوں کو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو برا بھلا کہتے ہوئے سنا تو انھیں سخت سست کہا، جس کی وجہ سے وہ سب لوگ ان سے علیحدہ ہوگئے۔ اس پر امام زید نے ان سے کہا: رَفَضْتُمُوْنِی (تم نے مجھے مسترد کر دیا)۔ یہیں سے شیعوں کا نام رافضہ(مسترد کرنے والے) پڑ گیا۔
ابن الاثیر (م:۶۳۰ھ/۱۲۳۳ء)نے ’تاریخ الکامل‘ میں یہ روایت نقل کی ہے کہ ’’شیعوں کے رؤسا کی ایک جماعت امام زید بن علیؒ کے پاس آئی اور کہا:اللہ آپ پر رحم کرے، ابوبکر اور عمر [رضی اللہ عنہما]کے بارے میں آپ نے کیا کہہ دیا ؟ امام زید نے فرمایا: اللہ ان دونوں پر رحم فرمائے اور ان کی مغفرت فرمائے، میں نے اپنے گھر والوں میں سے کسی کو بھی ان دونوں ہستیوں کے بارے میں سوائے خیر کے کوئی اور بات کرتے ہوئے نہیں سنا۔ تم نے امامت کو جو ذکر کیا ہے اس کے سلسلے میں میرا سخت ترین موقف یہ ہےکہ ہم تمام انسانوں سے زیادہ سلطنت رسول اللہﷺ کے مستحق تھے، لیکن لوگوں نے ہمیں اس سے دور کر دیا، لیکن یہ چیز ہمارے نزدیک انھیں درجۂ کفر تک نہیں پہنچاتی، کیوں کہ انھوں نے زمام اقتدار سنبھالی اور لوگوں کے درمیان عدل سے کام لیا اور کتاب و سنت پر عمل کیا۔‘‘
علامہ شہرستانی المِلَل والنحل میں منصبِ خلافت سنبھالنے کے سلسلے میں امام زید کی رائے کی وضاحت کرتے ہیں: ’’ان کا مسلک افضل کے کھڑے ہونے کے باوجود مفضول کی امامت کے جواز کا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالبؓ افضل ترین صحابی تھے، لیکن لوگوں کے کسی مصلحت کے خیال سے، ایک دینی اصول کے تحت جس کا انھوں نے لحاظ کیا تھا، خلافت ابوبکرؓ کو سونپ دی۔ وہ مصلحت اور دینی اصول یہ تھا کہ فتنے کی آگ کو ٹھنڈا کر دیا جائے اور عوام الناس کی چارہ جوئی کی جائے۔‘‘
مقصد پر مبنی داعیہ
فتنوں کی آگ کو بجھانا اور عوام الناس کے دلوں کی چارہ جوئی کرنا امام زیدؒ کے نزدیک سیاسی فقہ کے اندر قابل اعتبار سمجھا جانے والے مصالح میں سے تھا، اس لیے کہ عوام الناس کی رائے اور رضامندی کو نظر انداز کرنا جائز نہیں ہے۔ اس معاملے میں ان کا موقف وہی ہے جو ان کے پردادا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا تھا جنھوں نے آزادی و شفافیت سےمعمور عوام الناس کی علی الاعلان بیعت کے بغیر منصبِ خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
کیو ں کہ امام زیدؒ فاضل تر یا افضل ترین کی موجودگی کے باوجود اس سے کم تر (مفضول) کی امامت کو جائز قرار دیتے ہیں، اسی لیے وہ اللہ کے رسولﷺ کے بعد کسی کو بھی معصوم نہیں سمجھتے۔ امت کو امن و قرار اور انتخاب خلیفہ میں اہلِ ایمان کے حق کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں، خواہ اہلِ ایمان نے افضل ترکے مقابلے میں کم تر کو ہی منتخب کر لیا ہو۔ اپنی اس رائے کے حق میں وہ اپنے پردادا حضرت علی بن ابی طالبؓ کی مثال دیتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد امت نے انھیں خلیفہ منتخب نہیں کیا، بلکہ نبی ﷺ کے تین خلفاء کے گزر جانے کے بعد انھیں خلافت کا منصب عطا کیا۔
علامہ شہرستانی کی روایت کے مطابق امام زیدؒ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت خلافت کے عہدے پر اپنے پردادا حضرت علیؓ کے فائز نہ ہونے کی توجیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ایام نبوت میں ہونے والی جنگوں کا زمانہ گزرے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ امیر المومنین علیہ السلام کی تلوار پر مشرکینِ قریش کاجو خون لگا ہوا تھا وہ ابھی خشک نہیں ہوا تھا۔ مشرکین کے دلوں میں خون کا بدلہ لینے کی وجہ سے جو بغض تھا وہ ابھی بھی جوان تھا۔ اس وجہ سے دل ان [حضرت علیؓ]کی طرف پوری طرح مائل نہیں ہو پا رہے تھے اور نہ سر پوری طرح ان کے سامنے خم ہو پا رہے تھے۔ اس وقت مصلحت کا تقاضا یہ تھا کہ اس ذمہ داری کو ایک ایساشخص اٹھائے جو نرمی و شفقت میں معروف ہو، عمر دراز ہو اور قبولِ اسلام میں جسے سبقت حاصل ہونے کے علاوہ اللہ کے رسولﷺ کا قرب بھی حاصل رہا ہو۔‘‘
یہ عبارت عوام الناس کے معاملات کی ذمہ داری سنبھالنے سے متعلق امام زیدؒ کے بنیادی اصولوں کو بیان کرتی ہے۔ اس عبارت کی رو سے وہ حاکم کی تولیت کی شرط کے طور پر عوام کی رضامندی کو اولیت دیتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’فاضل تَر کی موجودگی میں کم تر کی امامت کے جواز‘‘ کا جو اصول امام زید نے بیان فرمایا ہے، وہ’کلمۂ سواء‘اور مسئلہ خلافت سے متعلق پائے جانے والے متنازعہ گروہوں کے مابین نقطۂ اتحاد کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہم آہنگ نقطہ نظر
امام زیدؒ کا یہ موافقانہ نقطۂ نظراولین تاریخی نقطۂ نظر اور ان اتحادی نظریات کی بنیاد سمجھا جاتا ہے جنھوں نے بعد کے ادوار میں پوری امت کے نظریات و رجحانات کو اعتدال کے موقف پر جمع کر دیا تھا۔ یہ مواقف لوگوں نے بڑے منہجی مسائل کے تعلق سے اختیار کیے تھے۔ مثال کے طور پر امام شافعیؒ نے اپنی دانش مندی سے اہل الرائے اور اہل اثر کے درمیان موافقت پیدا کر دی تھی۔امام اشعریؒ نے عقیدے کے مسائل میں اہلِ حدیث اور علمائے کلام کے درمیان کام یابی کے ساتھ اتحاد پیدا کر دیاتھا اور امام غزالیؒ (م:۵۰۵ھ/۱۱۱۱ء) نے فقہا اور صوفیائے کرام کے درمیان تاریخی مصالحت کا کارنامہ انجام دیا تھا۔
اسی نقطۂ نظر کی وجہ سے امام زیدؒ اس قابل ہو سکے کہ انھوں نے علویوں ( جنھیں بعد میں شیعہ کہا جانے لگا) اورعظمت صحابہ کے ماننے والوں (جنھیں بعد میں اہلِ سنت کہا جانے گا) کے درمیان امامت کے مسئلے پر تاریخی نزاع کا ایک عملی حل پیش کیا ہے تاکہ اس خلیج کو پاٹا جا سکے جس نے اس وقت لوگوں کو باہم تقسیم کر رکھا تھا۔ اس طرح امام زیدؒ نے اپنی انقلابی تحریک پر تمام لوگوں کےاتحاد کو بھی یقینی بنا لیا تھا، اگرچہ محسوس یہ ہوا ہے کہ ان کی اس کوشش کا نتیجہ اس گروہ کے ظہور کی شکل میں نکلا جسے امام زید نے ’رافضہ‘ کا نام دیا تھا۔
جن اہم گروہوں کوامام زیدؒ نے اپنے اتحادی نعرے کے ذریعے انقلابی پرچم تلے متحد کرنے کی کوشش کی تھی، ان کی تعدادتین تھی: پہلا وہ گروہ جو حضرات ابوبکر و عمرؓ کی ولایت کا انکار کر تا تھا اور یہ خیال کرتا تھا کہ امامت صرف حضرت علی اور ان کی اولاد کا حق ہے کسی اور کا نہیں، کیوں کہ نبی صلی اللہ کی وصیت موجود ہے۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو حضرت ابوبکرؓ کو [خلافت کا]حق دار مانتا تھا، بلکہ اس گروہ کے بعض لوگوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کےمستحقِ خلافت ہونے پر نص موجود ہے۔ تیسرا گروہ وہ تھا جو [خلافت کے مسئلے میں] انتخاب اور شوری کا قائل تھا، خواہ اس انتخاب اور شوری کا نتیجہ ابوبکرؓ کے حق میں آئے یا علیؓ کے حق میں۔
عملی پہلو سے امام زید بن علیؒ اس گروہ سے قریب تر تھے جو شوریٰ کے راستے خلافت تک پہنچنے کا قائل تھا، اگرچہ دوسروں پر حضرت علی کی افضلیت کے معاملے میں ان کے درمیان اختلاف رہا۔ لیکن یہ اختلاف عملی طور پر بہت زیادہ اثر انداز ہونے والا نہیں ہے، کیوں کہ یہ اختلاف نظریاتی اختلاف جیسا ہے، خاص طور سے اس لیے بھی کہ امام غزالیؒ نے اپنی کتاب ’الاقتصاد فی الاعتقاد‘ میں امت کے جمہور علما کا یہ موقف بیان کیاہے کہ خلفائے اربعہ کے درمیان افضلیت کی ترتیب صرف ظاہری ہے نہ کہ حقیقی، کیوں کہ افضلیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’آخرت میں فلاں کا مرتبہ اللہ کے نزدیک زیادہ بلند ہے، حالاں کہ یہ غیب کی بات ہے جس سے صرف اللہ واقف ہے اور اس کا رسول واقف ہے اگر اس نے اپنے رسول کو اس کی خبر دی ہوگی۔‘‘ امام غزالیؒ کا یہ موقف ہمیں خلافت کے مسئلے میں بہت حد تک امام زیدؒ کے موقف کے قریب لے جاتا ہے۔
ا س کا مطلب یہ ہوا کہ امام زیدؒ نے اپنی اس فکر کے ذریعے مختلف گروہوں کو ایک ایسے تاریخی قضیے پر متحد کرنے کی کوشش کی تھی جو لازمی طور پر انھیں غم ناک حالات سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نبردآزما ہونے سے غافل کر دیتا۔ انھوں نے زیرکی کے ساتھ امامت /خلافت کے مسئلے میں ’’سیاسی معیار‘‘ اور ’’دینی معیار‘‘ کے درمیان فرق کر دیا تھا۔ سیاسی معیار وہ تھا جس کے سہارے لوگوں کو چنا اور ان کا انتخاب کیا جاتا تھا، یہاں تک افضل تر کے مقابلے کم افضل تر کو بھی منتخب کر لیا جاتا تھا۔ دینی معیارکسی شخصیت کی افضلیت سے متعلق تھا جس میں لوگوں کو فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں تھا او رنہ اس کی صلاحیت ان کے اندر تھی، کیوں کہ افضلیت کا معاملہ صرف اللہٰ کی ذات پر ہے جو دلوں کے حال سے واقف ہے۔
اسی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومت و ریاست کے سلسلے میں امام زیدؒ کا منہج و مسلک وہی تھا جو ان کے پردادا حضرت علی بن ابی طالبؓ کا تھا۔ حضرت علیؓ حاکم کے لیے اہلِ ایمان کی بیعت کے لازمی ہونے پر یقین رکھتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے اہلِ ایمان کی علی الاعلان اور بلاجبر بیعت کے بغیر خلافت کا بار اپنے کندھوں پر سنبھالنے سے انکار کر دیا تھا اور اپنے لیے عصمت یا وصیت نبوی کو دعویٰ نہیں کیا تھا۔
بھڑکتی ہوئی کشمکش
امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعداہلِ بیت مدینہ میں رہے اور وہاں سے نکلے نہیں۔ ان کی شخصیات علم کے حصول اور اس کی ترویج کے مشغلے سے وابستہ ہوئیں۔ سیاست میں ان کا رجحان امن و صلح اور امویوں کے خلاف بغاوت سے دوری اختیار کیے رکھنے کا تھا۔ امویوں نے بھی بدلے میں ان کے جیسے ہی امن و صلح کا مظاہرہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مواقع پر اہلِ بیت کو ان سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ یہ وہ بات ہے جس کی تائید علامہ ابن تیمیہؒ نے بھی ’مجموع الفتاویٰ‘ میں کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’بنو مروان نے بالعموم بنو ہاشم۔ بشمول آلِ علی اور آلِ عباس میں سےسوائےزید بن علیؒ اور ان کے بیٹے یحیٰ (م:۱۲۵ھ/۷۴۴ء) کےکسی کو قتل نہیں کیا۔‘‘
یہ صلح و امن پسندی اس زمانے میں ان تمام علمائے مسلمین کا طریقہ تھا جنھوں نے پہلی صدی ہجری کے نصف ثانی میں برپا ہونے والی انقلابی تحریکوں کے بعد جابر و ظالم امراء کے ظلم پر صبر کا راستہ اختیار کیا تھا۔اس لیے کہ طاقت و مزاحمت کے ذریعے انقلاب کی کام یابی ناممکن تھی۔ اموی حکم راں اپنے دشمنوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے سے باز نہیں رہتے تھے۔ البتہ اہم بات جس کی طرح اشارہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ علما کا یہ رجحان واقعاتی تھا، نہ کہ اصولی۔
اسی پس منظر میں امام زید بن علی اور ان کے بھائی محمد الباقرؒ کے درمیان اہل بیت کی سیاست وانقلاب سے کنارہ کشی نیز عوامی مسائل اور ان کے تقاضوں سے پہلو تہی برتنے کے مسئلے پر کئی بار بحثیں ہوئیں، حالاں کہ اس وقت امام زیدؒ جوان تھے اور عمر کے تیسویں برس کی دہلیز پر قدم ہی رکھا تھا۔
علامہ شہرستانی دونوں بھائیوں کے درمیان ہونےوالی بحثوں کا ایک پہلو ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اُن (زیدؒ) اور ان کے بھائی باقر محمد بن علی کے درمیان مناظرے ہوئے،مناظرے اس پہلو سے ہوئے کہ زیدؒ واصل بن عطاء کے شاگرد تھے اور ان لوگوں سے کسب علم کیاکرتے تھے جو ان کے پردادا (حضرت علی بن ابی طالبؓ) سے اچھل کود مچانے والوں (غدر مچانے والوں) اور ناانصافیاں کرنے والوں کے خلاف جنگ و قتال کے معاملے میں غلطیوں کے صدور کو جائز قرار دیتے تھے، اور اس پہلو سے ہوئے تھے کہ وہ کسی امام کے امام ہونے کے لیے خروج (انقلاب) کو شرط مانتے تھے۔ اسی لیے ایک دن امام باقر نے ان سے کہا کہ ’’تمھارے مسلک کی رو سے تمھارے والد (یعنی زین العابدین) امام نہیں تھے، کیو ں کہ انھوں نے کبھی بنی امیہ کے خلاف خروج نہیں کیا!!‘‘
ان مناظراتی بحثوں سے ہماری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ امام باقرؒ اپنے بھائی زید کے اس موقف سے مطمئن نہیں تھے جو انقلاب کے جوازکی طرف رجحان رکھتا تھا۔ خاص طور سے یہ کہ امام زیدؒ کو عوام الناس میں سے سوائے اہلِ بیت کے کوفی حامیوں کے کوئی انقلاب کا طرف دار نہیں ملا۔حالاں کہ ان کا سابقہ رویہ یہ تھا کہ انھوں نے اموی حکم رانوں سے مسلح کشمکش میں اہلِ بیت کو گھسیٹا اور پھرانقلاب کے فیصلہ کن مرحلے میں ان سے پلّہ جھاڑ کر الگ ہو گئے۔
اسی لیے مورخ علامہ مسعودی (م:۳۴۶ھ/۹۵۷ء) اپنی کتاب ’’مروج الذہب‘‘ میں لکھتے ہیں: امام زیدؒ نے کوفیوں پر اعتماد کے سلسلے میں اپنے بھائی (امام) باقرؒ سے مشورہ کیا تو امام باقر نے ’’مشورہ دیا کہ اہل کوفہ کی طرف رجحان نہ رکھیں، کیوں کہ وہ دھوکے باز اور مکار لوگ ہیں۔ وہیں تمھارے پردادا حضرت علیؓ کو شہید کیا گیا تھا، وہیں تمھارے چچا حضرت حسنؓ کو چوٹ پہنچائی گئی تھی، اور وہیں تمھارے بابا (دادا) حضرت حسینؓ کو شہید کیا گیا تھا۔ لیکن انھوں (زیدؒ) نے حق کے مطالبے کے سلسلے میں جو فیصلہ کر لیا تھا وہی کیا۔‘‘
انقلابی روح
دو مورخین، علامہ طبری اور علامہ ابن اثیرنے اپنی تاریخ کی کتابوں میں اس بیعت کو محفوظ کر دیا ہے جو امام زیدؒ نے اپنے پیرؤوں اور انقلاب کے حامیوں سے لی تھی۔ ابن اثیر کے مطابق بیعت کا مضمون اس طرح تھا: ’’ہم آپ کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، ظالموں سے جہاد، کم زوروں کے دفاع، اور محرومین کو نوازنے، مستحقین کے درمیان شوری کے مشورے سے مالِ غنیمت کی تقسیم، مظالم کو ختم کرنے، اوراہل بیت کی مدد کی دعوت دیتے ہیں۔ کیا آپ لوگ اس پر بیعت کرتے ہیں؟‘‘
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بیعت کے الفاظ اپنے مفہوم میں واضح تھے۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ یہ الفاظ ’’انقلاب کےپروگرام‘ پر مشتمل تھے۔اس پروگرام کا مضمون کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو حکم بنانے کی بات کہتا ہے۔جن ظالم حکام کے لیے عوام الناس کی بیعت جبراً لی گئی تھی ان کے مظالم کو روکنے کی بات کرتا ہے۔ کم زور اور محروم طبقوں کی حماعت و دفاع کی بات کرتا ہے، جن میں ہر طبقے اور گروہ کے لوگ شامل ہیں، اور اہل بیت کے خلاف زیادتی کرنے والوں کے خلاف اہلِ بیت کی حمایت و مدد کی بات کہتا ہے، جو کتاب و سنت پر مشتمل اہم اصولوں مثلاً عدل، شوری، حریت وآزادی، مساوات کو عمل میں لاکر کیا جانا تھا۔
بیعت کی اس عبارت کے ساتھ انقلاب میں شریک ہونے والے ان لوگوں کی ذاتی تائید بھی تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ یعنی [اس مضمون پر]بیعت کرنے والے ہر شخص سے وہ یہ پوچھتے تھے: ’’کیا تم اس پر بیعت کرتے ہو؟ جب وہ کہتا کہ ہاں، تو اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھ دیتے۔ پھر امام زیدؒ اس سے کہتے: تم پر اللہ کے عہد ومیثاق اور اللہ اور اس کے رسول سے عہد و پیمان کی حفاظت لازم ہے۔ تم لازماً میری بیعت کو بنھاؤگے، میرے دشمن سے جنگ کرو گے اور کھلے چھپے ہر حال میں مخلص رہوگے؟ جب وہ کہتا کہ ہاں، تو امام زیدؒ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر پھیرتے اور کہتے: ’’اے اللہ گواہ رہنا۔‘‘ کیوں کہ امام زیدؒ اپنے پیروکاروں کی جانب سے کیے جانے والے ان عہد و پیمان کا احترام کرتے تھے، اس لیے ان کے ساتھیوں کی سنجیدگی و اخلاص پر شک کرنے والوں کی باتوں کو وہ مسترد کر دیا کرتے تھے۔ ایسے لوگو ں کو وہ یہی جواب دیا کرتے تھے: ’’ان لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔ یہ بیعت میری اور ان کی گردنوں پر لازم ہو گئی ہے۔‘‘
یہاں قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ بیعت کی یہ عبارت وصیت کے ذریعے خلافت کے استحقاق یا تحریک انقلاب[ کی رہ نمائی کرنے والے] امام کی عصمت یا مہدویت کے دعوے سے خالی ہے۔ اسی طرح ہمیں اس بیعت کی شقوں کے درمیان ’اہلِ سنت ‘کے مطالبات اور ’شیعوں‘ کے نقطۂ نظر کا دانش مندانہ سنگم بھی ملتا ہے۔ کیو ں کہ امام زیدؒ نے بیک وقت دو باتوں کا عہد کیا تھا: ایک علویوں کے خون کے بدلے کا علم بلند کرنا اور دوسرے عام لوگوں سے بنی امیہ کے مظالم کو ختم کرنے کا عزم تاکہ ان کی پالیسیوں سے نقصان اٹھانے والے تمام لوگوں کی حمایت حاصل ہو جائے خواہ ان کا موقف و موقع کچھ بھی ہو۔
یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ بیعت کے اندر آل بیت سے متعلق جو شق ہے اس کے مخاطب امام کے چچا زاد بھائی امام جعفر صادق (م:۱۴۸ھ/۷۶۶)کےوہ مؤیدین تھے جنھوں نےامویوں کے ہاتھوں پکڑے جانے کے ڈر سے امام زیدؒ کے ساتھ مل کر خروج کرنے یا ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔گویا وہ ان سے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ انقلابی کوشش حالات کو صحیح ڈھب پر لانے کے لیے کی جاری ہے۔ اس شق کے مخاطب وہ لوگ خاص طور سے اس لیے بھی تھے، کیوں کہ اس مرحلے میں بھی شیعہ ان سے نسبت رکھتے تھے اور ان کی تعظیم کرتے تھے، جیسا کہ امام ابن تیمیہؒ نے ’منہاج السنۃ النبویہ‘ میں لکھا ہے۔
اسی لیے امام زیدؒ ان شیعوں کو قریش کے اندر اپنا مقام و مرتبہ یاد دلاتے ہیں۔ اگر قریش عربوں کا اعلی ترین قبیلہ تھا، تو آلِ بیت قریش کے بھی اشرف ترین لوگ تھے اور اس خاندان کی شخصیات میں امام زیدؒ چوٹی کے لوگوں میں تھے، کیو ں کہ وہ ’’اہلِ بیت کے علما وفضلا‘‘ میں سے تھے، جیسا کہ علامہ ابن تیمیہؒ کہتے ہیں: ’’زید بن علی ؒبن حسینؓ نے جب ہشام کی خلافت کے خلاف خروج کیا — اور اس کو اپنے لیے طلب کیا — تو وہ ان لوگوں میں شمار ہوتے تھے جنھوں نے ابوبکر و عمر[رضی اللہ عنہما]سےولایت و محبت کا اعلان کیا تھا۔
علامہ ذہبیؒ ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ میں اہلِ بیت کے درمیان امام زید کے مقام و مرتبے سے متعلق امام جعفر صادق کا بیان نقل کرتے ہیں، جس میں وہ امام زید کی مدافعت کرتے ہوئے ان سے نفرت کرنےوالے غالی [شیعوں] سے کہتے ہیں: ’’خدا کی قسم وہ ہم میں سب زیادہ قرآن پڑھنے والے، اللہ کے دین کو ہم سے زیادہ سمجھنے والے، ہم سے زیادہ صلہ رحمی کا پاس رکھنے والے تھے۔ وہ ہم سے جدا ہوئے تو ہم ان کے جیسے نہ تھے نہ ہمارے درمیان کوئی ان کے جیسا تھا!!‘‘
لشکر جرار
سیاسی و اخلاقی اعتبار سے اس ٹھوس زمین پر امام زید نے انقلابی منصوبے کے لیے اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کو جمع کیا، یہاں تک کہ علامہ طبری کے مطابق ان جنگجؤوں کی تعداد پانچ ہزار افراد ریکارڈ کی گئی ہے۔ دس ماہ تک انھوں نے کوفہ میں قیام کیا تھا۔۔۔ تقریباً دو ماہ بصرہ میں بھی قیام کیا تھا۔‘‘
امام زیدؒ کوخروج کے لیے طے شدہ وقت یعنی ماہِ صفر ۱۲۲ھ/۷۴۱ء کے آنے سے پہلے ہی خروج کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ انھیں ڈر تھا کہ ان کے منصوبے کی خبر امویوں کی خفیہ ایجنسی کو نہ لگ جائے۔ پھر انھوں نے ’’اپنے ساتھیوں کو تیار ہوکر مستعد رہنے کا حکم دیا تو ان کے معاملے کا چرچا لوگوں کے درمیان ہونے لگا۔‘‘
چناں چہ انقلابی معرکے شروع ہوگئے۔ جنگ کی ہوا ابتدا میں امام زید ؒ اور ان کی فوجی کیمپ کے حق میں تھی، کیوں کہ جنگ کی ہَوا نے ’’دشمنوں کے گھوڑوں کو ان کے گھوڑے کے سامنے ٹکنےنہیں دیا’’ جس کی وجہ علامہ ابن اثیرؒ کے مطابق ان کی جنگجوانہ قوت اور جرأت و ہمت تھی۔ لیکن پھر کوفیوں کی اکثریت — حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو صحیح قرار دینے والے موقف کی وجہ سے — ان سے الگ ہوگئی۔ اس کی وجہ سے جنگ کا نیتجہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا، خاص طور سے ایسا اس لیے ہوا کہ ان کی فوج میں سے سوائے ’’دو سو اٹھارہ (۲۱۸) لوگوں میں سے کسی نےبھی بیعت کا پاس و لحاظ نہیں رکھا۔ یہی دو سو اٹھارہ تھے جو آخر تک ان کے ساتھ لڑتے رہے تھے۔
اپنے ساتھ رہ جانے والے [انھی چند سو] لوگوں کے ساتھ انھوں نے جنگ اس وقت تک جاری رکھی جب تک ایک تیر لگنے کی وجہ سے ان کی شہادت نہیں ہوگئی۔ بعد میں والی عراق یوسف بن عمر ثقفی (م:۱۲۷ھ/۷۴۶ء)نے ان کے جسدِ خاکی کو کوفہ کے اطراف میں سولی پر ٹانگ دیا۔ پھرصفدی (م:۷۶۴ھ/۱۳۶۳ء) کی ’الوافی بالوفیات‘ کی روایت کے مطابق ’ چار سال بعد انھیں سولی سے اتارا گیا۔‘‘
امام زیدؒ کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے یحیٰ نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امویوں کے خلاف اپنی کوشش کو جاری رکھا، لیکن انھوں نے اپنی کوشش ایک دوسرے علاقے اور ایک نئے عوامی طبقے کے درمیان رہ کر جاری رکھی۔ ان کے والد کے متبعین یحیٰ کو اموی اہلِ اقتدار کی آنکھوں سے بچائے رکھنے میں کام یاب رہے جو انھیں ہر جگہ تلاش کرتی پھر رہی تھیں۔ پھرعلامہ ابن اثیر (الکامل ) کے مطابق ’’ جب [اُن کی ]تلاش و جستجو کا سلسلہ تھم گیا تو زیدیو ں کے ایک گروہ میں شامل ہو کر خراسان کی طرف چلے گئے۔‘‘
علما کی تائید ونصرت
امراء بنو امیہ کی سرگرمیوں کے تعلق سے اکثر علمائے اہلِ سنت کا موقف منفی اور ناقدانہ تھا، اگرچہ بنو امیہ کی حکومت کے سر بڑی بڑی فتوحات کا سہرہ تھا جس کی وجہ سے مشرق و مغرب میں دین کا بول بالا ہوا تھا اورمسلمان ایک جامع اتحاد کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔
علما کے اس ناقدانہ موقف کی ترجمانی شاید وہ روایت کرتی ہے جو علامہ طبری نے تابعی امام سعید بن جبیر (م:۹۵ھ/۷۱۵ء) کے تعلق سے نقل کی ہے کہ انھوں نے ابن الاشعث کے ساتھ مل کر اپنے ہم عصر علما کو انقلاب پر اکسایا تھا: ’’انھوں (علما) نے اُن (امویوں) سے جنگ کی، ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کے خلاف جنگ پر علما کسی قسم کا احساس گناہ نہیں تھا۔ حکومت و اقتدار میں رہتے ہو ئے ان کے ظلم وجور کے خلاف، دین میں ان کی زور زبردستی، کم زورو ں کو ذلیل و رسوا کرنے اوراُن کی طرف سے نظامِ صلوٰۃ کو ختم کردینے کے خلاف انھوں نے جنگ کی۔‘‘
اسی طرح عامر الشعبی (م:۱۰۶ھ/۷۲۵ء) کا قول بھی اس بارےمیں ہے: ’’اے اہلِ اسلام، اُن (امویوں) کے خلاف جنگ کرو اور ان کے خلاف جنگ پر تم خود کو پشیمان محسوس نہ کروکیوں کہ خدا کی قسم میں سطحِ زمین پر ایسی کسی قوم کو نہیں جانتا جو ان سے زیادہ ظلم کرنے والی اور حکومت میں رہ کر ان سے زیادہ جبر کرنے والی ہو۔ ان کا مقدر ہی تباہی ہونا چاہیے۔‘‘
علما کی تنقیدوں کو مزید شدت عطا کر نے والی بات یہ تھی کہ بنو امیہ کے امراء کے پاس ایسے درباری علما کی کمی نہیں تھی جو حکومت کے حوالے سے بنو امیہ کے انحرافات کو ہلکا کرکے پیش کرتے تھے، بلکہ ایسے بعض علما نے تو [اموی حکم رانوں] کو آخرت کی بازپرس سے ہی بری کر دیا تھا۔ چناں چہ علامہ ذہبیؒ ’تاریخ الاسلام‘ میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں: ’’یزید بن عبدالملک (م:۱۰۵ھ/۷۲۴ء) نے جب ۱۰۱ھ/۷۲۰ء میں منصب خلافت سنبھالا تو اس نے کہا کہ ’’عمر بن عبدالعزیز (م:۱۰۱ھ/۷۲۰ء) کے نقش قدم پر چلیں، [وہ چالیس دن تک اس پر قائم رہا ]پھر چالیس ایسے علما لائے گئے جنھوں نے اس کے سامنے گواہی دی کہ ’’خلفائے (بنی امیہ) کا نہ حساب ہوگا نہ ان پر عذاب ہوگا۔‘‘
اموی اقتدار کے خلاف اسی شدید ترین غصے کےپس منظر میں بیش تر علما (فقہا و محدثین)اور متعدد فرقوں اور گروہوں نے امام زید بن علی اور ان کے بیٹے یحیٰ بن زید کی تحریکِ انقلاب کی حمایت کی تھی۔ان دونوں کے بعد ان کے نامزد کردہ محمد ’نفس زکیہ‘ اور ان کے بھائی ابراہیم کی بھی حمایت کی تھی۔
علما کی اس حمایت میں اس بات کا جانب اشارہ تھا کہ ہر گروہ کے علما کی طرف سے اسے مقبولیت حاصل ہوئی تھی اور یہ انقلابی کوششیں گروہی یا مسلکی نہیں رہ گئی تھیں، بلکہ اموی حکم رانوں کے ظلم و جور کے خلاف امت و جماعتِ مسلمہ کی بغاوت بن گئی تھی۔ دوسری طرف امام زید کی انقلابی کوشش اسی طرز کی تھی جس طرز کی حضرت حسینؓ [بن علیؓ]، حضرت ابن زبیر اور ابن اشعث وغیرہ کی تھی، یعنی کسی بھی قسم کے ڈھُل مُل ہوتے ہوئے رجحان سے آزاد۔چناں چہ ابن تیمیہؒ (منہاج السنہ) کے مطابق ’’اُن (امام زیدؒ) کا قتال اُس امامت کے اصولوں پر مبنی نہیں تھا، جس کا ذکر رافضی کرتے ہیں۔‘‘
امام ابوحنیفہؒ (م:۱۵۰ھ/۷۶۸ء) کا نام ان فقہا کی فہرست میں سب سے اوپر تھا جو اپنے فتووں اور مال دونوں سے تحریکِ انقلاب کی مدد کر رہے تھے۔امام ابوحنیفہؒ مال سے اس لیے مدد کر سکے کیوں کہ ان کا تعلق علما کے اس طبقے سے تھا جن کا پیشہ تجارت تھا۔ اس سلسلے میں امام ابوبکر جصّاص حنفی (م:۳۷۰ھ/۹۸۱ء)’احکام القرآن‘ میں فرماتے ہیں: ’’[امام] زید بن علی کے معاملے میں، انھیں مال فراہم کرنے، ان کی مدد اور ان کے ساتھ مل کر جنگ کو واجب قرار دینے کے سلسلے میں اُن (ابوحنیفہؒ) کا قضیہ معروف و مشہور ہے۔ ظالموں اور ائمۂ ظلم و جور سے جنگ کرنے کے سلسلے میں ان کا مسلک معروف ہے۔‘‘
امام جصاص مزید فرماتے ہیں کہ خروج کے سلسلے میں امام ابوحنیفہ کے اس مسلک کو ’’اہلِ حدیث کی اکثریت نے نا پسند کیا ہے جنھیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یاد نہیں رہا خواہ ظالم اسلام کے معاملات پر غالب آ جائیں۔‘‘
اس بات کی تائید، اسی سے ملتی جلتی عبارتوں کے ساتھ، علامہ زمخشری حنفی اور علامہ فخر رازی شافعی کی تفسیروں میں بھی ہوتی ہے جو انھوں نے ارشادِ باری تعالی ’’لا ینال عہدی الظالمون‘ کے ضمن بیان کی ہیں۔ علامہ زمخشریؒ تفسیر الکشاف میں فرماتے ہیں: ’’امام ابوحنیفہ خفیہ طور پر امام زید بن علیؒ کی مدد، انھیں مالی مدد کی فراہمی اور ان کے ساتھ مل کر اس غالب چور کے خلاف جنگ کے واجب ہونے کا فتوی دیا کرتے جس نے اپنا نام امام اور خلیفہ رکھ لیا تھا۔‘‘
محسوس یہ ہوتا ہے کہ امام زیدؒ کی شہادت نے بھی امام ابوحنیفہ کو خروج کے سلسلے میں اپنے موقف سے باز نہیں رکھا تھا، کیوں کہ علامہ زمخشریؒ فرماتے ہیں :’’ایک عورت نے ان سے کہا:میں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی ہے کہ وہ عبداللہ بن حسن کے بیٹوں ابراہیم اور محمد کے ساتھ خلوص کے ساتھ خروج کریں، خواہ قتل کر دیے جائیں۔ اس پر امام ابوحنیفہ نے فرمایا: ’’کاش میں تمھارے بیٹے کی جگہ ہوتا۔‘‘ اپنے اسی موقف کی وجہ سے امام ابوحنیفہؒ کو عباسی خلیفہ ’المنصور‘ کے ہاتھوں سخت اذیتیں برداشت کرنی پڑیں۔یہاں تک کہ علامہ سیوطی (تاریخ الخلفاء) کے مطابق المنصور نے انھیں اس لیےزہر دے کر قتل کر دیا کہ انھوں نے اس کے خلاف خروج کا فتوی دیاتھا۔‘‘
اس میں شک نہیں کہ امام ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ فقہ کا یہ موقف اس قول کو بے دلیل کر دیتا ہے کہ اہلِ بیت ایک پالے میں تھے اور اہلِ سنت دوسرے پالے میں۔ اس کے برعکس یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام زیدؒ کا ساتھ دینے والے اکثر لوگوں کا تعلق فقہا کے اس گروہ سے تھا جو بعد میں ’اہلِ سنت‘ کے نام سے ظاہر ہوا۔ اس کے برخلاف جن بعض شیعوں نے امام زیدؒ کی مخالفت کی انھیں خود امام زیدؒ نے ’رافضہ‘ (رافضی) کا نام دیا۔ اسی لیے امام زیدؒ کی تحریک کا زمانہ وہ زمانہ تھا جب خود شیعوں کی صفوں کے درمیان بھی فاصلے قائم ہوئے، کیوں کہ ’’امام زیدؒ کے خروج کے وقت ہی شیعہ ’رافضہ‘ اور ’زیدیہ‘ فرقوںمیں تقسیم ہوئے تھے۔ (امام ابن تیمیہ: منہاج السنۃ)
فقہائے کرام کے اسی عمل کی اقتدا کرتے ہوئے محدثین کے ایک طبقے نے تحریکِ انقلاب میں امام زید کی مدد کی تھی۔ تابعی امام منصور بن معتمر (م:۱۳۳ھ/۷۵۲ء) نے ان کی حمایت و مدد کی تھی۔ منصور بن معتمر وہی ہیں جن کے بارے میں علامہ ذہبیؒ نے ’’السِیر‘‘ میں لکھا ہے: ’’حافظ حدیث، ثابت قدم، نمونہ، نمایاں ترین شحصیات میں سے ایک تھے۔ وہ علم کا سمندر تھے، خوبیوں سے آراستہ اور عبادت گزار تھے۔‘‘ امام منصور اپنے اس علمی مقام ومرتبے کے ساتھ ساتھ بنو امیہ کی عسکری فوج کے ریگولر سپاہی تھے۔ اور جب ’’ان کی باری آتی تھی تو فوجی کپڑے زیب تن کرتے اور سرحد کی حفاظت پر چلے جاتے تھے۔‘‘
علامہ ذہبی بھی امام زید کی تحریکِ انقلاب میں علما کو لانے کے سلسلے میں امام منصور کے کردار کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’امام منصور بن معتمر زبید بن حارث (الیامی تابعی م:۱۲۲ھ/۷۴۱ء) کے پاس آیا کرتے تھے۔ زید بن علیؒ کے دور میں وہ ان سے خروج کی درخواست کیا کرتے تھے۔‘‘
بعض علما نے امام منصور بن معتمر پر شیعہ ہونے کی تہمت عائد کی ہے۔ علامہ ذہبی نے اس تہمت سے ان کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’میں نے کہا: ان کا تشیع اہل بیت سے محبت و ولاء کی حد تک ہے، نہ کہ اس حد تک کہ وہ صحابہٍؓ کرام کے خلاف طعن و تشنیع کرتے ہوں۔‘‘ علامہ ذہبی نے ائمہ جرح و تعدیل کے حوالے سے یہ بات بھی نقل کی ہے کہ امام منصورؒ اہل کوفہ میں سب سے قابل اعتماد شخص تھے۔
امام زید کے زمانے میں بھی اور بعد میں بھی ظلم کو رفع کرنے اور عدل قائم کرنے کے لیے ان کی تحریکِ انقلاب کی تعریف بہت سے علما نے کی ہے۔ یہاں تک کہ امام ابن تیمیہؒ نے منہاج السنہ میں لکھا ہے کہ جب امام زید کو ’’صلیب پر چڑھادیا گیا تو رات کے وقت عبادت گزار اس لکڑی کے پاس آتے جس پر انھیں لٹکایا گیا تھااور اس کے پاس بیٹھ کر عبادت کیا کرتے تھے۔‘‘
اور امام ذہبی کا تو یہ حال ہے کہ خروج کے اسباب و نتائج کو لے کر انھوں نے اس تحریک پر اپنے تحفظات کا اظہا رکیا ہے، لیکن ا س کے باوجود انھوں نے امام زید ؒکو اپنی کتابوں میں متعدد بار ’شہید‘ کے لقب سے ملقب کیا ہے، بلکہ اہداف و مقاصد کے اعتبار سے ان کی تحریک کو انھوں نے صحیح سمجھا تھا اس لیے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’انھوں نے دلیل کی بنیاد پر خروج کیا، شہید کی حیثیت سے موت پائی، اور کاش انھوں نے خروج نہ کیا ہوتا۔‘‘
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2021