اللہ تعالی نےبندوں کو نبیوں کی اتباع کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِی رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ یرْجُو اللَّهَ وَالْیوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِیرا [الاحزاب: 21]، (اللہ کے نبی کی ذات ان لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ہے جنھیں اللہ تعالی کی ملاقات اور یوم آخرت کا یقین ہے اور جو کثرت سے اللہ کو یاد کرتے ہیں) اور فرمایا: أُولَئِكَ الَّذِینَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ [الأنعام: 90] (یہی وہ نفوس ہیں جنھیں اللہ جل جلالہ نے ہدایت عطافرمائی، پس ان کے نقش قدم کی پیروی کرو) اس فریضے کی ادائیگی میں علما کو انبیا کا وارث قرار دیا گیا ہے، اس پہلو سے عوام اپنے علما کی اتباع و پیروی پر مامور ہیں۔ اس مضمون کا تعلق انھی علما اور دینی قائدین سے ہے جنھیں عوام لائقِ اتباع و اقتدا سمجھتے ہیں۔ امام شاطبیؒ فرماتے ہیں: “ہ بات اصولًا ثابت ہے کہ عوام کے درمیان علما کی حیثیت انبیائے کرام کے قائم مقام کی ہے، وہ انبیا کے جانشین ہیں، لہذا جس طرح نبی کریم ﷺ اپنے اقوال و افعال اور اقرار سے احکام شریعت کی رہ نمائی کرتے ہیں، آپ کے وارثین (علما) بھی اپنے اقوال و افعال اور اقرار سے احکام شریعت کی رہ نمائی کرتے ہیں۔”
جب آپ دوسروں کےلیے اسوہ و نمونہ بن جاتے ہے، اس طرح کہ وہ آپ کے ہر ہر عمل اور حرکت پر نظر رکھنے لگتے ہیں،آپ کےہر طرز عمل کی پیروی کرنا شروع کردیتے ہیں، تو پھرضروری ہے کہ آپ کو اِس عظیم ذمہ داری کی اہمیت اور نتائج کا احساس ہو۔ آپ کسی کے لیے قابلِ تقلید ہیں، اس کا مطلب ہے کہ آپ پر ایک نئی ذمہ داری عائد ہوگئی ہے۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ جن لوگوں کے اندر دوسروں کے لیے قابلِ تقلید اور نمونہ بننے کی صلاحیت ہے اور جن لوگوں کے اندر نہیںہے شریعت کے جملہ احکام دونوں کے لیے برابر ہیں، مگر ان کے درمیان جو وجہِ امتیاز ہے وہ عزیمت اور رخصت پر عمل ہے۔
پہلا نکتہ: اجتہاد پر عمل کے حوالے سے خاص پابندیاں
فقہِ اسلامی کی جزئیات اور اس کی پہنائیوں میں غوطہ زنی کےبعد اس بات میں کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ فقہا اور مجتہدینِ اسلام نے اجتہاد اور استنباطِ احکام کے وقت دینی رہ نما و پیشوا شخصیات کے مقام ومرتبہ اور معاشرے میں ان کے اثر کو ملحوظ رکھتے ہوئےان پر بعض قسم کی پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں جن میںسےبعض یہاںدرج کی جارہی ہیں:
“عروہ بن زبیرؓسے مروی ہے وہ فرماتے ہیں: مجھے معلوم ہوا کہ حضرت تمیم داریؓ عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھ رہے تھے، حالاں کہ حضرت عمرؓ اس کی ممانعت فرماچکے تھے۔حضرت عمر ؓ ان کے پاس آئے اور انھیں درے سے مارا۔ تمیم داریؓ نے انھیں بیٹھنےکا اشارہ کیا یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہو جائیں۔ عمرؓ بیٹھ گئے۔ نماز سے فارغ ہوکر تمیم داری نے پوچھا:عمر! آپ نےمجھے کیوں مارا؟فرمایا: کیوں کہ میرے منع کرنے کے باوجود آپ یہ دو رکعتیں اداکر رہے تھے۔ تمیم داریؓ نے فرمایا: میں نے یہ دو رکعتیں ان کے ساتھ ادا کی ہیں جو آپ سے بہتر ہیں، یعنی نبی کریم ﷺ کے ساتھ۔ حضرت عمرؓ فرمایا: میری اس تنبیہ کی وجہ کوئی ذاتی پرخاش نہیں ہے، بلکہ مجھے ڈر ہے کہ آپ کےبعد لوگ عصر و مغرب کے درمیان نماز پڑھتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ اس وقت کا بھی خیال نہیں رکھیں گے جس وقت میں آپ ﷺ نے لوگوں کواس طرح سے نماز پڑھنے سے منع فرمایا، اور اسی طرح اس وقت بھی پڑھنے لگیں گے جس طرح وہ ظہر اور عصر کے درمیان پڑھتے ہیں، پھر وہ کہتے پھریں گے کہ ہم نے تو فلاں اور فلاں کو عصر کے بعد نماز پڑھتے دیکھا ہے۔”
حضرت عمر ؓ نےاس مسئلے میں تمیم داریؓ کے عمل کوایک خاص اجتہادی زاویۂ نگاہ سے دیکھا اور ان کو خاص طور سے ان دو رکعتوں سے منع فرمایا تاکہ ایسے لوگ جو ان کو مقتدیٰ سمجھتے ہیں اور جن کے پاس علم نہیں ہے وہ بھی ان کی اقتدا میں ان دو رکعتوں کی پابندی نہ کرنے لگیں،اور حالت یہاں تک پہنچ جائے کہ انھیں ممنوع وقت کا بھی خیال نہ رہے۔
اسی قبیل سے امام شاطبی ؒ کا یہ موقف ہے کہ اہل اقتدا کو بعض وقت مستحبات کی پابندی سے گریز کرنا چاہیے کہ مباداعوام انھیں فرض نہ سمجھ لیں۔ وہ لکھتے ہیں: “وہ لوگ جو بعض جسمانی مستحب عبادتوں کی پابندی کے عادی ہیں انھیں ان مستحبات کی اس طرح پابندی نہیں کرنی چاہیے کہ جس سے عوام کو ان مستحبات کے فرض ہونے کاگمان ہونےلگے، بالخصوص جب عوام انھیں اپنا مقتدا و پیشوا سمجھتے ہوں، بلکہ کبھی کبھی انھیں ترک کردینا چاہیے تاکہ لوگوں کے لیے یہ واضح ہوجائے کہ یہ عبادتیں فرض نہیں ہیں۔ کیوں کہ فرضِ مکرر کی خاصیت مقررہ اوقات میں اس کی دائمی پابندی ہے، جب کہ مندوب و مستحب کی خصوصیت اس کا التزام نہیں کرنا ہے، تو اگر مستحبات کی بھی فرض کی طرح دائمی پابندی ہونے لگے تو عوام مستحب کو بھی فرض کی طرح ضروری سمجھنے لگیں گے اور اس کی پابندی شروع کردیں گے،اور گمرہی کا شکار ہوجائیں گے۔”
دوسرا نکتہ: دینی رہ نماؤں کے لیے عزیمت پر عمل کی شرعی حیثیت
دینی رہ نماؤں کو معاشرے میں بلند حیثیت اور مقام حاصل ہوتا ہے، لوگ انھیں احترام اور قدر کی نظروں سے دیکھتے ہیں، انھیں اپنی آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ نیکو کاری، بلند اخلاقی، بلند کرداری،بدی سے دوری انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے،اسی وجہ سے ضروری ہے کہ دینی اور دنیوی دونوں سطح پر ان کا کردار ان کے مقام و مرتبے کے مناسب ہو۔وہ ہمیشہ صفِ اول میں رہتے ہوں، لوگوں کی قیادت کرتے ہوں۔ یہ مثل مشہور ہے کہ “اگر تمھیں میرا مام بننا ہے تو مجھ سے آگے رہو۔”ایک اور مقولہ ہے کہ “جو اپنے آپ کو لوگوں کا قائد سمجھے اس کا کردار ایک عام فرد کی طرح نہیں ہوسکتا۔”
اسی مقام و منزلت کی بناپر جو ایک دینی رہ نما کو معاشرے میں حاصل ہوتی ہے اس کے لیے یہی زیبا ہے کہ وہ عزیمت پر کاربند ہو، کیوں کہ وہ خواص اور اہلِ عزم و ثبات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ(الاحقاف: ۳۵) آپ اسی طرح صبر کیجیئے، ثابت قدم رہئے جیسے اولو العزم انبیا اپنے راستے پرڈٹے رہے۔
علما کے نزدیک عزیمت پر عمل کرنے پر بھی پانچوں تکلیفی احکام منطبق ہوتے ہیں یعنی ایسا کرنا کبھی واجب یا مستحب یامباح یا مکروہ یا حرام ہوسکتا ہے۔امام شاطبی ؒ فرماتے ہیں: “اہم جو لوگ اپنی نجات اور گلو خلاصی کے آرزومند ہیں انھیں عزیمت کے دامن کو تھام لینا چاہیے، البتہ عزیمت پر عمل کا بہتر ہونا کبھی واجب کے درجے کا ہوگا اور کبھی مستحب کے درجے کا، واللہ اعلم۔”
امام شاطبی کی موافقات میں ایک پوری فصل (مجتہد خود پر اوسط سے اوپر کے اعمال کو لازم کرسکتا ہے) کے عنوان سے خاص ہے۔ یہی رہبری کے مقام کے لیے زیبا بھی ہے کہ شرعی احکام کے سلسلے میں اس کا فتوی اور عمل اس کے مقام اور مرتبے کے مطابق ہو۔ اس طرزِ عمل کی مشروعیت اور مقتدیٰ کے لیے اس طرزِ عمل کو اپنانے کی اہمیت پر بے شمار دلائل ہیں:
پہلی دلیل: اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
یا نِسَاءَ النَّبِی مَنْ یأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَینَةٍ [۱۱] یضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَینِ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ یسِیرا * وَمَنْ یقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَینِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقا كَرِیما * یا نِسَاءَ النَّبِی لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَیتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیطْمَعَ الَّذِی فِی قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلا مَعْرُوفا [الاحزاب: 30-31-32]۔
(اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرے، اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا اور اللہ کے لیے یہ نہایت آسان ہے۔ اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے اور نیک عمل کرے تو ہم اسے اس کا اجر دوگنا دیں گے اور اس کے لیے ہم نے عزت کا رزق تیار کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو! تم دوسری عورتوں کی جیسی نہیں ہو،اگرتم اللہ سے ڈرتی ہو تو بات کرنے میں ایسی نرمی نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہے طمع کر بیٹھے اور وہ بات کہو جو اچھی ہو۔)
ان آیات میں اس بات کی واضح صراحت ہے کہ شرعی احکام کی تطبیق میں بندوں کے انفرادی فرق کا لحاظ ہوسکتا ہے، اور یہ کہ مقتدیٰ کی حیثیت عوام سے مختلف ہے، اسی بنا پر ازواج مطہرات کے لیے بعض شرعی احکام سے متعلق ثواب و عقاب کی نوعیت بقیہ خواتین سے الگ تھی۔
شیخ شعراوی ازواج مطہرات اور دیگر خواتینِ اسلام کے درمیان اس تفریق کی ایک وجہ یہ بیان کرتے ہیں: “یہ فرق اس لیے ہے کیوں کہ ان کا تعلق خاندانِ نبوت سے ہے وہ مومنوں کی مائیں ہیں، دیگر خواتین کے لیے ان کی زندگی اسوہ اور نمونہ ہے،اورمنصبِ دعوت میں جس کا مقام جتنا اونچا ہوگا اس کے لیے شبہات سے دور رہنا اتنا ہی ضروری ہوگا، کیوں اس کا عمل دوسروں کے لیے نمونہ ہوگا، تو اگر اس نے غلطی کی تو اس کا اثر صرف اس تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی اس غلطی اور گمرہی میں شامل ہو جائیں گے۔”
دوسری دلیل: نافع بن سرجس سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ہم ابو واقد بکری کے مرض الموت میں ان کی عیادت کے لیے گئے تومیں نے انھیں کہتے ہوئے سنا: نبی کریم ﷺ لوگوں کی امامت کرتے تو مختصر نماز پڑھاتے، مگر خود لمبی لمبی نماز پڑھا کرتے۔
اس حدیث کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ عزیمت پر عمل کرتے ہوئے خود تو طویل نمازیں پڑھتے اور جب لوگوں کے امام ہوتے تو رخصت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نماز کو مختصر رکھتے۔ عزیمت پر عمل آپ کے اس مقام و منصب کے مطابق تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سرفراز فرمایا تھا، آپ پوری انسانیت کے امام اور تمام لوگوں کے لیے اسوۂ حسنہ تھے۔
تیسری دلیل: جعفر بن عمرو بن امیہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ان کے والد نےبیان کیا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا وہ بکرے کے دست کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے، تبھی نماز کا وقت ہوگیا، تو آپ کھڑے ہوگئے، چھری رکھ دی اور نماز ادا کی، آپﷺ نے وضو نہیں کیا۔
نبی کریم ﷺ نے عزیمت کو اختیار کیااور کھانے پر نماز کو ترجیح دی حالاں کہ آپ نے دوسروں کو رخصت یعنی کھانا ختم کرنے کے بعد نماز ادا کرنے کی رخصت پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے۔ کیوں کہ آپ ﷺ کی طرح کوئی بھی اپنی خواہش پر قابو نہیں رکھ سکتا۔
چوتھی دلیل: حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں :
“ایک شخص نبی کریمﷺ کی موجودگی میں حضرت ابوبکرؓ کو سب و شتم کرنے لگا، آپ ﷺ حیرت سے مسکراتے رہے۔ جب وہ شخص حد سے تجاوز کرنے لگا تو حضرت ابو بکرؓ نےایک دو باتوں کا جواب دے دیا۔ نبی کریم ﷺ خفا ہوکر اٹھ گئے۔ حضرت ابوبکرؓ آپﷺ کے پیچھے پیچھے آگئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی! وہ شخص مجھے گالیا ں دیتا رہا اور آپ خاموش بیٹھے رہے، مگر جب میں نے اس کی کچھ باتوں کا جواب دیا تو آپ ناراض ہوگئے اور مجلس سے نکل آئے، کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمھارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمھاری طرف سے اسے جواب دے رہا تھا، مگر جب تم نے جواب دینا شروع کردیا تو بیچ میں شیطان آگیا، میں اس محفل میں کیسے رہ سکتا ہوں جس میں شیطان شامل ہو!”
نبی کریم ﷺ حضرت ابو بکر ؓ کے رد عمل سے خفا ہوئے کیوں کہ حضرت ابو بکرؓ خواص میں سے تھے، لوگوں کے مقتدیٰ تھے، ان کےلیے بہتر یہ تھا کہ وہ صبر کی عزیمت پر عمل کرتے اور بدلہ لینے کے جذبے پر قابو رکھتے، یہ درجۂ کمال ہے جو ان کے مقام صدیقیت کے مناسب تھا۔ حالاں کہ ایسے موقعوں پر رخصت پر عمل کرکے بدلہ لینا بالکل جائز ہے، مگر یہ عامة الناس کے لیے مناسب ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خواص کو جنھیں لوگ اپنا پیشوا سمجھتے ہیں عزیمت پر عمل کرنازیادہ زیب دیتا ہے۔ عزیمت و رخصت کی اس تقسیم کی بنیاد فرمانِ الہی میں موجود ہے: وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَیهِمْ مِنْ سَبِیلٍ. إِنَّمَا السَّبِیلُ عَلَى الَّذِینَ یظْلِمُونَ النَّاسَ وَیبْغُونَ فِی الْأَرْضِ بِغَیرِ الْحَقِّ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ. وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ. [الشورى: 41-42-43]
اور بے شک جس نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لیا ان پر کوئی پکڑ نہیں ہے،گرفت صرف ان لوگوں پر ہے جولوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی پھیلاتے ہیں، ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اور بیشک جس نے صبر کیااورمعاف کر دیا تو بے شک یہ ہمت و عزیمت کا کام ہے۔
پانچویں دلیل: ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ نےحضرت طلحہ ؓکواحرام کی حالت میں رنگین کپڑے میں دیکھا تو پوچھا: آپ کے اوپر یہ رنگین کپڑا کیسا؟ حضرت طلحہؓ نے جواب دیا کچھ نہیں، خشک مٹی لگ گئی ہے، تو حضرت عمرؓ نے فرمایا آپ لوگ ائمہ دین ہیں، لوگ آپ کی اقتدا کرتے ہیں، کوئی نا واقف شخص آپ کو اس لباس میں دیکھے گا تو کہے گا کہ طلحہ احرام کی حالت میں رنگین کپڑا زیب تن کرتے تھے۔ آپ لوگ احرام کی حالت میں کسی بھی طرح کے رنگین کپڑے سے پرہیز کریں۔
احرام کے لیے رنگین کپڑے کی ممانعت نہیں ہے، تاہم اس واقعہ میں سدِ ذریعہ کے طور پر احرام کی حالت میں رنگین کپڑے زیب تن کرنے سے منع کیا گیا، تاکہ دیکھنے والوں کے لیے التباس نہ پیدا ہو۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ لوگ علما کے ہر ہر عمل کی اتباع کرتے ہیں، اس لیے ہر اس عالم کو جو لوگوں کے لیے اسوہ اور مقتدیٰ کا درجہ رکھتا ہے چاہیے کہ وہ اپنے ہر ہر عمل پر نظر رکھےاور ان چیزوں سے پرہیز کرے جن سے التباس کا خطرہ پیدا ہوتا ہو۔ابن عبد البر لکھتے ہیں: “حضرت عمرؓ کا حضرت طلحہؓ کو رنگین لباس سے منع کرنا قطعِ شبہات کے قبیل سے تھا، ورنہ رنگین کپڑے کے سلسلے میں علما کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف اس رنگ میں ہے جس میں خوشبو ہو”۔
علامہ ابوالولید الباجی لکھتے ہیں:
“وہ امام جس کی اقتدا کی جاتی ہے اس پر لازم ہے کہ وہ بعض ایسے مباحات سے بچے جو ممنوعات سے مشابہ ہوتے ہیں، اور جن میں اہل علم کے سوا کوئی فرق نہیں کرپاتا ہے، اور اس پر واجب ہے کہ وہ دوسروں کو بھی ان سے روکے۔ شیخ ملا علی قاری لکھتے ہیں: دنیا میں بگاڑ عالم کے بگاڑ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ علما اپنے بلند رتبے پر ہوتے ہوئے جب مباحات کے پیچھے پڑتے ہیںتو جاہل عوام مشتبہ چیزوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ جب بڑے مشایخ مشتبہ کھانوں کا لطف اٹھانے لگتے ہیں تو نا سمجھ عوام حرام خوری تک جا پہنچتے ہیں، اور اگر علما و مشایخ نے کسی حرام چیز کا ارتکاب کیا تو بے وقوف قسم کے مال دار اور نادار لوگ انھیں حلال قرار دے کر کفر کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں، اور وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ حلال نہیں ہوتا تو یہ علما اور مشایخ اس کا ارتکاب نہیں کرتے”۔
چھٹی دلیل: مصعب بن سعد بن ابی وقاص ؓسے مردی ہے وہ فرماتے ہیں:
“میرے والد جب مسجد میں نماز ادا کرتے تو رکوع و سجود مکمل مگر مختصر کرتے، اور جب گھر میں نماز ادا کرتے تو رکوع و سجود طویل کرتے۔ میں نے پوچھا، والدِ محترم، آپ مسجد میں تو نماز مختصر پڑھتے ہیں مگر گھر میں لمبے لمبے رکوع و سجود کرتے ہیں، کیوں؟ فرمایا:بیٹے، ہماری حیثیت پیشواؤں کی ہے، لوگ ہماری اقتدا کرتے ہیں۔”
سعد بن ابی وقاصؓ کا گھر میں طویل نمازیں پڑھنااپنے آپ کو عزیمت کا پابند کرنا تھا، مگر لوگوں کے سامنے انھوں نے سنن و ارکان میں کسی کوتاہی کے بغیر رخصت اور تخفیف کا راستہ اختیار کیا، اور اپنے اس عمل کی یہ توجیہ کی کہ لوگ ا ن کی اقتدا کرتے ہیں۔
ساتویں دلیل: نافع روایت کرتے ہیں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ تنہائی میں ایسی چیزوں پرعمل کرتے تھے لوگوں کے بیچ جن پر عمل نہیں کرتےتھے۔
آٹھویں دلیل: ربیعہ بن ابی عبد الرحمن فرماتےتھے: “فقیہ وہ ہوتا ہے جو خودایسی چیزوں سے اجتناب کرتا ہے، جن سے اجتناب کو عوام کے لیے ضروری نہیں سمجھتا، اور وہ لوگوں کو ان سے اجتناب کا فتوی نہیں دیتا۔”
نویں دلیل: رویم بن احمدکا قول ہے:
“فقیہ کی فقاہت یہ ہے کہ وہ احکام میں لوگوں کے لیے وسعت اور خوداپنے لیے سختی کی راہ اختیار کرے۔ لوگوں کو وسعت کی راہ بتانا علم کا تقاضا ہے اور خود پر سختی کرنا تقویٰ کا تقاضا ہے۔” محمد خضر شنقیطی اس پر تبصرے کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں : “میں نے اپنے والد کو پایا کہ عبادات میں وہ اسی طریقے پر کاربند تھے، اپنے آپ سے سختی کا معاملہ کرتے،کہیں بھی رخصت کا گزر نہیں تھا، بلکہ مشکل ترین پر عمل کی کوشش کرتے….. مگر لوگوں کو ہمیشہ رخصت کا فتوی دیتےکہ مبادا عزیمت پر عمل کرنے کی ان میں سکت نہ ہو اور وہ سرے سے عمل ہی چھوڑ دیں۔”
دسویں دلیل: مالکی مسلک کی کتابوں میں قارئین وباحثین کو کبھی کبھی “امام مالک کا مسلک”اور “امام مالک کا طریقہ”کی اصطلاحیں ملتی ہیں وہ اسی سیاق سے متعلق ہیں۔ مالکی علما نے ان دونوں اصطلاحات کے درمیان کے فرق کوکئی شکلوں میں واضح کیا ہے ان میں ایک فرق درج ذیل ہے:
“امام مالک کا مسلک”ے مراد مفتی بہ قول ہے، اور عام طور سے یہ شرعی رخصتوں پر مبنی یا مختلف فیہ مسائل میں زیادہ آسان احکام پر مشتمل ہوتا ہے، لوگ آسانی سے جن پرعمل کرسکتے ہیں۔ جب کہ“امام مالک کا طریقہ”ے مراد امام مالکؒ کا اپنا مخصوص عزیمت اور تقوی پر مبنی عمل ہے، کیوں کہ بعض اعمال کو وہ اپنے لیے تو لازم سمجھتے تھے مگر دوسروں کو اس کے برخلاف فتوی دیتے تھے۔بہت سے فروعی مسائل میںامام مالکؒ کے اس طرزِ عمل کی مثالیں ملتی ہیں، مثلا مردار کی دباغت شدہ کھال سے پانی پینا یا وضو کرنا، امام مالکؒ اپنے لیے مکروہ سمجھتے تھے مگر لوگوں کے لیے اسے جائز قرار دیا تھا۔اسی طرح ان کے بارے میں مروی ہے کہ وہ مدینے میں سواری نہیں استعمال کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس سرزمین کو سواری کے کُھروں سے روندوں جس میں رسول اکرم ﷺ مدفون ہیں۔انھی کے بارے میں مروی ہے کہ وہ احترامًا رسول اکرم ﷺ کی کوئی حدیث بغیر وضو نہیں سناتے تھے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر مسائل میں امام مالکؒ نےخودعزیمت، تقوی اور احتیاط کا التزام کیا، مگر عوام کو اس کا فتوی نہیں دیا۔
ہمارے سامنے اس کی بے شمار مثالیں ہیں کہ رہبری کے منصب پر فائز لوگ خود کے لیے تو سخت عمل اور مشکل حکم کو ترجیح دیتے، مگر لوگوں کو آسان اور پر سہولت حکم کا فتوی دیتے۔ اولو العزموں اور عالی ہمتوں کا یہی اسوہ رہا ہے، حضرت امام مالکؒ بھی اسی اسوہ پر کار بند تھے، ان کا کہنا تھا: “ایک عالم اسی وقت عالم کہلانے کے لائق ہے جب وہ خود تو ایسی چیزوں کا التزام کرے جن پر عمل نہ کرنے میں اس پر کوئی گناہ نہیں، مگر دوسروں کو ان کی پابندی کا مکلف نہ سمجھے اور نہ اس کا فتوی دے۔”
آج کل نفس پروری کے پیچھے اور دینی جذبے کی کم زوری کے باعث اہل علم کہلانے والے بعض لوگوں نے اس اصول کو ہی الٹ کر رکھ دیا ہے، وہ عام لوگوں کو تو مشکل فتوے دیتے ہیں مگر خود کے لیے یا اہل ثروت اور اصحاب جاہ منصب کے لیے آسانی کو پسند کرتے ہیں۔ ابن قیمؒ فرماتے ہیں: مفتی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے لیے رخصت کا فتوی دے مگر دوسروں کو اس سے منع کرے۔ اسی طرح اس کے لیے درست نہیں ہے کہ مختلف فیہ مسائل میں جن میں جواز اور عدم جواز دونوں طرح کے اقوال ہوں، اپنے لیے جواز اور دوسروں کے لیے عدم جواز کو اختیار کرے۔
تیسرا نکتہ: دینی رہ نماؤں کا عزیمت پر عمل، کچھ مثالیں
جو لوگ دینی رہ نما اور امام کے مرتبے میں ہوتے ہیں ان سے متعلق احکام و مسائل کے استقراء سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عزیمت پر عمل بعض حالات میں ان کے لیے واجب ہوتا ہے، بلکہ وجوب ہی اصل ہے اور انھیں چاہیے کہ وہ عزیمت پر عمل کو ضروری سمجھیں جو کہ ان کے عالی مقام اور عظیم مرتبت کے شایان شان ہے۔ دینی رہ نماؤں کے عزیمت پر عمل کے فائدے اور رخصت کی پیروی کے نقصانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بسا اوقات ان کے لیے رخصت پر عمل کرنا جائز نہیں ہوتا۔ دینی رہ نماؤں کو ہمیشہ اس نکتے کا استحضار رکھنا چاہیے۔ اس کی نظیریں درج ذیل مسائل میں ملیں گی:
مسئلہ (۱) کلمہ کفر ادا کرنے پر مجبور ہونا
امام نوویؒ فرماتے ہیں: “اگر کسی مسلمان کو کلمۂ کفر ادا کرنے پر مجبور کیا جائے اور وہ اسے ادا کردے مگر اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو وہ کافر نہیں ہوگا۔ اللہ ﷻ کا ارشاد ہے: إلا من أكره وقلبه مطمئن بالإیمان [ النحل: ۱۰۶]، اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ مگر کیا اپنی جان بچانے کے لیے کلمۂ کفر ادا کرنا بہتر ہے؟ اس کے سلسلے میں ہمارے اصحاب کے یہاں پانچ رائیں ہیں:
صحیح رائےیہ ہےکہ بہتر ہے کہ کلمۂ کفر ادا نہ کرے خواہ جان چلی جائے۔ صحیح احادیث اور صحابہ کرام کی زندگی میں اس کے دلائل مشہور ومعروف ہیں۔
بہتر ہے کہ کلمہ کفر کہہ کر اپنی جان بچا لے۔
اگر اس کے زندہ بچنے میں مسلمانوں کا فائدہ ہے کہ وہ دشمنوں کی صف الٹنے کی امید رکھتا ہے یا شرعی احکام کا قیام اس سے وابستہ ہے تو اس کے لیےافضل ہے کہ کلمۂ کفر کہہ دے، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو کلمہ کفر نہ کہنے اور اس کے نتیجے میں قتل ہوجانےکا راستہ اس کے لیے زیادہ بہترہوگا۔
ا گر اس کا شمار علما یا ان لوگوں میں ہوتا ہے عوام جن کو نمونہ خیال کرتے ہیں، تو اس کے لیے کلمہ کفر نہ کہنے اور اس کے نتیجے میں قتل ہوجانے والا راستہ ہی بہتر ہے، تاکہ عوام کو دھوکہ نہ ہو۔
کلمہ کفر کہنا واجب ہے، اللہ تعالی کے اس فرمان کی وجہ سے: وَلَا تُلْقُوا بِأَیدِیكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ [البقرہ: ۱۹۵] ۔ لیکن یہ بے حد کم زوررائے ہے۔”
کلمہ کفر کہنے پر مجبور کیے جانے والا شخص اگر امام اور دینی رہ نما ہو، لوگ اس کے اقوال و افعال کی پیروی کرتے ہوں تو دفعِ فساد کے لیے اور تاکہ عوام اس میں مبتلا نہ ہوجائیں حکم یہ ہے کہ اس کے لیے رخصت پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا۔ کیوں کہ اس کے اس عمل سے لوگ، خاص طور سے جہلاجو عذر اور غیرعذر میں فرق نہیں کرسکتے، اپنے عقائد میں فتنے کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ابو جعفر الانباری بیان کرتے ہیں:
“جب احمد بن حنبلؒ کو مامون کے پاس لے جایا گیا، تو مجھے اس کی خبر ملی، میں فرات کو پار کرکے بھاگا ہوا آیا۔ وہ بیٹھے ہوئے تھے، میں نے سلام کیا تو فرمایا : ابو جعفر بڑی مشقت برداشت کرکے آئے ہو۔ عرض کیا: آپ کی حیثیت آج سردار کی ہے، لوگ آپ کی اقتدا کرتے ہیں، اللہ کی قسم آج اگر آپ اس خلق قرآن کے مسئلے میں جھک گئے اوراسے مان لیا، تو بہت سے لوگ اسے مان لیں گے، لیکن آپ اگر اٹل رہے، تو بہت سے لوگ اپنے انکار پر قائم رہیں گے۔ آپ جھک گئے اور انھوں نے آپ کو نہیں مارا، تو کبھی نہ کبھی موت تو آنی ہی ہے۔اس لیےاللہ سے ڈریے اور اٹل رہیے۔ احمد بن حنبلؒ ماشاء اللہ کہتے ہوئے رونے لگے پھر فرمایا : ابو جعفر دوبارہ کہو، میں نے دوبارہ وہی کہا اور وہ ماشاء اللہ دہراتےرہے۔”
اسی طرح کا واقعہ محمد بن نوح سے بھی مروی ہے۔ وہ بھی خلق قرآن کی آزمائش میں مبتلا ہوئے۔ مامون، امام احمد بن حنبلؒ کے ساتھ انھیں بھی ایک ہی اونٹ پر رقّہ لے گیا۔ محمد بن نوح راستے میں بیمار پڑ گئے اور امام احمدؒ کو یہ وصیت کی: ابو عبد اللہ! اللہ کو حاضر و ناظر رکھیں۔ آپ میرے جیسے نہیں ہیں۔ آپ امام اور دینی رہ نما ہیں۔ لوگوں کی نظریں آپ پر ٹکی ہوئی ہیں کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ لہذا اللہ سے ڈرتے رہیں اور اللہ کے حکم پر ثابت قدم رہیں، یا اسی طرح کچھ کہا۔
کسی مقتدیٰ اور دینی رہ نما کوایسے حالات میں جبر و اکراہ کا سامنا ہوجب امت کو اس بات کی ضرورت ہو کہ وہ حق کا اظہار کرے،کیوں کہ اب تک حق پر خفاء یا التباس کا پردہ پڑا تھا، تو رہبرو مقتدیٰ پر اس حق کا اظہار واجب ہوگا، کیوں کہ امت کی مصلحت عالم کی ذاتی مصلحت یعنی جان کی حفاظت سے زیادہ ضروری ہے، اور کیوں کہ اگر امت اس باطل کی اتباع کرنے لگے تو اس سے جو نقصان ہوگا وہ کہیں زیادہ سخت ہوگا۔ اس مسئلے میں اذیتِ قتل پر صبر کرنا صبرِ واجب اور جہاد فی سبیل اللہ کے حکم میں ہوگا۔
مسئلہ (۲) : بیک وقت دو خلیفہ کے لیے بیعت
سعید بن مسیبؒ سے مروی ہے کہ انھیں عبد الملک بن مروان کے بعد ولید اور سلیمان کی بیعت کے لیے بلایا گیا تو انھوں نے انکار کرتے ہوئے فرمایا: دن اور رات ادھر سے ادھر ہوجائیں مگر میں ایک ساتھ دو خلیفوں کی بیعت نہیں کروں گا۔ ان سے کہاگیاکہ آپ ایک دروازے سے آئیں اور دوسرے سے نکل جائیں، تو فرمایا: بخدا میں نہیں چاہوں گا کہ لوگ میری اتباع کریں۔ اس انکار پر انھیں سو کوڑے لگائے گئے۔
یہ ایک متفقہ شرعی موقف ہے کہ ایک وقت میں دو خلیفوں کی بیعت جائز نہیں ہے۔ اسی لیے سعید بن مسیبؒ نے محل کے ایک دروازے سے داخل ہونے اور دوسرے سے نکلنے سے منع کردیا کیوں کہ اس سے عوام کو یہ دھوکہ ہوتا کہ انھوں نے ایک وقت میں دو خلیفوں کی بیعت کر لی ہے اور پھر وہ بھی ان کی اتباع میں ایسا کرنے لگتے۔ ان کی حیثیت نمونے کی تھی اور اسی لیے اپنے فقہی اجتہاد سے انھوں نے ضروری سمجھا کہ عوام ان کے عمل سےدھوکہ نہ کھائیں، اس اندیشے کا سدِّ باب کردیں اور امت کو دینی نقصان سے بچانے کے لیے خود اذیت برداشت کرلیں۔
مسئلہ (۳)اہل بدعت کے ساتھ کھانا کھانا
فضیل بن عیاضؒ سے مروی ہے انھوں نے فرمایا:
“میں کسی یہودی یا نصرانی کے یہاں کھانا کھالوں یہ میرے لیے اس سے بہتر ہے کہ میں کسی اہل بدعت کے یہاں کھانے میں شریک ہوں۔ یہودی یا نصرانی کے یہاں میرے کھانا کھانے کی پیروی نہیں کی جائے گی، مگر اہل بدعت کے یہاں میں نے کھانا کھایا تو لوگ میرے اس عمل کی پیروی کرنے لگیں گے۔”
عوام کو معلوم ہے کہ کسی نصرانی یا یہودی کے یہاں کھانا کھانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ان کے عقیدے اور دین کو پسند کرتے ہیں، مگر کسی اہل بدعت کے یہاں ان کے کھانا کھانے سے عوام کو یہ گمان ہوسکتا ہے کہ وہ ان کی بدعت کو پسند کرتے ہیں، اس کی توثیق کرتے ہیں، اور پھر وہ ان کی اتباع میں اس کی بدعت کے عمل کو جائز سمجھنے لگیں گے اور اس پر نکیر نہیں کریں گے۔ سدِّ ذریعہ کے اسی نکتے کو پیش نظر رکھتے ہوئے فضیل ابن عیاضؒ اہل بدعت کے یہاں کھانا کھانے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔
ان مسئلوں سے واضح ہے کہ درج بالا وجوہات کی بنا پر بعض حالات میں عزیمت پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے۔ استقراء سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی شریعت نے عزیمت و رخصت پر عمل کا ایک اصول مقرر کیا ہے اور ایک نظام طے کردیا ہے جو درج ذیل بنیادوں پر قائم ہے:
جو لوگ اسوہ اور رہبری کے مرتبے میں ہیں ان کے لیے اصل حکم عزیمت پر عمل کا ہے۔
اور عوام جو اقتدا کرتے ہیں ان کے لیے شرعی حکم رخصت پر عمل کا ہے۔
اس نظام میں دونوں کے مقام و مرتبے کی رعایت ہے۔ اس نظام کو الٹا نہیں جاسکتا کہ کوئی حکم عوام کے لیے واجب ہو مگر مقتدی کے لیے مستحب، عوام تو عزیمت پر کار بند ہوں اور امام و مقتدی رخصت پر عمل پیرا ہوں۔ اللہ ﷻ ہمیں اپنے اقوال، افعال اور احوال میں رشد و ہدایت عطا فرمائے اور ہمیں خلوص نیتِ اور اپنی رضا سے سرفراز فرمائے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2023