جب اسلام پوری دنیا میں تیزی سے پھیلنے لگا اور اس کی مقبولیت روز بروز بڑھنے لگی تو لوگ جوق درجوق آغوش اسلام میں پناہ لینے لگے۔ اسلام کی حقانیت اور اس کی روشن تعلیمات عوام کے دلوں کو مسخر کرنے لگی اور سارا عالم عظمت اسلام کا قائل ہونے لگا۔ اس کے حیات آفریں پیغام نے دیگر ادیان و مذاہب اور اقوام و ملل کے ضابطہ حیات اور ان کی تعلیمات کی کشش و جاذبیت کو ختم کردیا۔ یہ ایک حقیقت بھی تھی کہ اس وقت کے مذاہب کے تمام دعوے انسانی سماج کے لیے کھوکھلے اور ناکارہ ثابت ہورہے تھے۔حیات انسانی میں پیش آمدہ مسائل کا تشفی بخش حل ان کے پاس موجود نہ تھا۔ ایسے موقع پر اسلام نے مسیحائے انسانیت کا اہم فریضہ انجام دیا اور اپنے آپ کو سب سے بہتر ضابطہ حیات انسانی کے طور پر پیش کیا لوگوں نے اس کی دعوت پر لبیک کہا اور اس کے گرویدہ ہوگئے۔ اسلام کی روزافزوں ترقی سے خائف دشمنان اسلام بالخصوص یہود و نصاریٰ نے اسلام، پیغمبر اسلام اور اسلامی تعلیمات میں شکوک و شبہات اور اعتراضات کی بوچھار کردی۔ ان کا یہ طرز عمل نیا نہیں تھا بلکہ اسلام سے ازلی و ابدی دشمنی پر مبنی تھا۔انہیں یہ کب گوارا کہ اسلام ہم پر غالب رہے۔ قرآن کہتا ہے:
وَلَن تَرْضَی عَنکَ الْیَہُودُ وَلاَ النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ قُلْ إِنَّ ہُدَی اللّہِ ہُوَ الْہُدَی وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء ہُم بَعْدَ الَّذِیْ جَاءکَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللّہِ مِن وَلِیٍّ وَلاَ نَصِیْرٍ ۱
’’آپ سے یہود و نصاریٰ ہر گز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مدد گار‘‘
یہود و نصاریٰ کی اسلام دشمنی ابتدائی ایام سے ہی جاری رہی ہے۔ اگر چہ خطوط کار، طریقہ کار اور لب و لہجہ کو حالات کے مطابق بدلا گیا ہے لیکن بنیادی مقاصد کو بروئے کار لانے میں کبھی کوئی تبدیلی گوارا نہیں کی گئی۔ مذہب اسلام اور اس کی جملہ تعلیمات کو یہودیت و عیسائیت کے لیے سم قاتل قرار دیا گیا۔ اور اسے قتل وغارتگری کرنے والا مذہب تصور کیا گیا۔ عداوت کی یہ آگ اس قدر بھڑکائی گئی کہ اسلام کو اس صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے صبح و شام جنگی اسکیمیں بنائی جانے لگیں اور یہیںسے صلیبی جنگوں (Crusade Wars) کا سلسلہ دراز شروع ہوجاتا ہے۔ معروف محقق ارنسٹ بارکر (Ernest Barker1874-1960) نے ابتدائی صلیبی جنگوں کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ پوپ اربن دوم (Pope Urban II)نے صلیبی جنگ کی تبلیغ کی اور اس جنگ کو ’’کفار‘‘ کے خلاف جذبہ جہاد قرار دیا۔۲؎ مذہبی ایوان سے پوپ نے اسلام کے خلاف جنگ کی کمان اپنے ہاتھوں میں لی۔ عالم عیسائیت کے مذہبی پیشوا اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ہم عالم اسلام کا مقابلہ فوجی و عسکری نظام قائم کرکے ہی کرسکتے ہیں اسلام کو عیسائیت کا دشمن خاص قرار دیا جاچکا تھا۔ یورپ کی عیسائی حکومتیں متحد ہو کر پوپ اربن ثانی کی اپیل پر اسلامی مشرقی وسطیٰ سے مسلسل دو سو سال تقریباً1096 سے1296 تک بر سر پیکار رہیں اور جن کا ظاہری مقصد مقامات مقدسہ کو مسلمانوں کے قبضے سے چھیننا تھا۔ بعض مستشرقین (مثلاً گروسیہ Grousset) نے اس اصطلاح کو وسیع تر مفہوم دینے کی کوشش کی ہے اور ملت اسلامیہ سے ہر تصادم کو صلیبی جنگوں کا نام دیا ہے۔۳؎ گروسیہ کی یہ رائے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہونے والی ہر جنگ صلیبی جنگ کہلائے گی ایسا نہیں ہے فلپ کے حتی (P.K.Hitti1886-1978)کے الفاظ میں ان لڑائیوں کو یہ نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں حصہ لینے والے سپاہی اپنے سینوں پر بیاج کے طور پر صلیب لٹکایا کرتے تھے۔۴؎ تیرہویں صدی تک یورپ اس خوش فہمی میں نظر آتا ہے کہ وہ جنگ و جدل کے ذریعہ اسلام کا وجود اس صفحہ ہستی سے مٹادے گا۔ اس نے ہر طریقے سے اپنی توانائیاں صرف کیں لیکن جب طویل جدوجہد کے بعد اسے اپنے عزائم ومقاصد اور سازشی اسکیموں میں کامیابی نہ ملی تو پھر تلوار اور میدان جنگ کے بجائے قلم اور علمی و تحقیقی اکیڈمیوں کے قیام پر زور دیا گیا۔ یہیں سے یورپ میں باقاعدہ اسلام پر لکھنے والوں کی ایک تحریک وجود میں آتی ہے۔ جسے تحریک استشراق (Orientalism) کا نام دیا گیا۔ جس نے اس تحریک میں حصہ لیا اسے مستشرق (Orientalist) کہا گیا۔ اردو زبان میں مستشرق (وہ فرنگی جو مشرقی زبانوں اور علوم کا ماہر ہو) ۵؎ کا لفظ عام طور سے استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ فارسی زبان میں استشراق کو شرق شناسی یا خاور شناسی کہتے ہیں اور انگریزی زبان میں “Orientalism” کی اصطلاح رائج ہے۔۶؎ مستشرقین کی تحریروں کا اگر غیر جانبداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انہوں نے عالم مشرق میں فکر اسلامی اور اسلامی تہذیب پر جتنا لکھا ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے موضوع پر نہیں لکھا ہے۔ اس لیے کہ مستشرق کی جو ایک خاص اصطلاح رائج ہے وہ دراصل اسلام اور مسلمانوں سے وابستہ ہے۔ گردش زمانہ نے جسے ایک منظم تحریک کی شکل میں ڈھال دیا۔ اگر چہ اس تحریک کو جلا بخشنے کے لیے دیگر مشرقی اقوام و ملل اور ان کے علوم و فنون اور تہذیب و تمدن، پر بھی وقتاً فوقتاً خامہ فرسائی کی جاتی رہی ہے تاکہ مستشرقین ،قارئین کو یہ باور کراسکیں کہ ہماری تحقیقات و تصنیفات کسی مذہبی، سیاسی ،اقتصادی یا مشنری مقاصد کی خاطر نہیں ہیں بلکہ یہ محض شوق علم جذبہ بحث و تحقیق اور مشترکہ ثقافت کو فروغ دینے سے وابستہ ہیں۔ نامور الجزائری مفکر و محقق مالک بن نبی 1905-1973کی رائے اس سلسلے میں بڑی درست معلوم ہوتی ہے وہ لکھتے ہیں ’’مستشرقین سے ہماری مراد وہ مغربی اہل قلم ہیں جو اسلامی فکر اور سلامی تہذیب پر خامہ فرسائی کرتے ہیں‘‘۔۷؎ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے عرب محققین نے استشراق اور مستشرقین کے بارے میں مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے جن میں نمایاں نام احمد حسن الزیات، محمد عبدالغنی، ڈاکٹر احمد عبدالرحیم السابح وغیرہ ہیں۔ مغربی اسکالروں کی بھی ایک طویل فہرست ہے ان میں سے چند اہم نام جیسے اے جے آربری (A.J.Arberry 1905-1969) رودی پارٹ (Rudi Paret 1901-1983) ایڈورڈ سعید(Edward W.Said 1935-2003) اور میکسیم روڈنسن (Maxime Rodinson 1915-2004) وغیرہ کے ہیںتحریک استشراق کے رمز شناس اور معروف محقق ایڈورڈ سعید (Edward W.Said) اپنی شہرہ آفاق تصنیف “Orientalism”میں لکھتے ہیں:
Orientalism is not only a positive doctrine about the orient that exists at any one time in the West, it is also an influential academic tradition (when one refers to an academic specialist who is called an Orietalist)”۸؎
(استشراق ــ۔شرق کے بارے میں محض ایک مثبت نظریہ سے عبارت نہیں ہے جو کبھی مغرب میں موجود رہا ہو بلکہ یہ ایک موثر علمی روایت بھی ہے۔(جب کوئی ایسے ماہر تعلیم کا حوالہ دیتا ہے تو اسے مستشرق کہا جاتا ہے)
میکسیم روڈنسن کی تحقیق کے مطابق استشراق کی ابتداء یہاں سے ہوتی ہے وہ لکھتے ہیں:
“The term Orientalist appeared in English around 1779 and in French in 1799. The French form Orientalisme, Found a place in the Dictionaire de l’ Acadmie francaise of 1838. The Idea of a particular discipline devoted to the study of the “Orient” was taking shape” ۹؎
’’مستشرق کی اصطلاح انگریزی زبان میں 1779 میں اور فرانسیسی زبان میں 1799کے دوران سامنے آئی۔ فرانسیسی زبان میں لفظ”Orientalisme” 1838 میں “Dictionaire de l Academie francaise”میں شامل ہوا۔ اس طرح سے مطالعہ شرق سے متعلق مخصوص شعبہ کا تصور جنم پایا‘‘
میکسیم روڈنسن کی ریسرچ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ استشراق کی اصطلاح اٹھارویں صدی میں منظر عام پر آئی جب کہ اس تحریک کے جو بنیادی اور اولین مقاصد تھے وہ بہت پہلے سے انجام دیے جاتے رہے ہیں۔
تحریک استشراق کے حوالے سے بیسویں صدی عروج و کمال کی صدی ثابت ہوئی اس دور میں تحقیقات اسلامی کا کام جن مستشرقین نے کیاان کی ایک طویل فہرست ہے البتہ ان میں چند مشہور نام یہ ہیں۔ سرتھامس ارنلڈ (Sir Thoms Arnold 1864-1930) ولیم مونٹگمری واٹ(W.Montgomery Watt 1909-2006) اسنوک ہرگرونج(Snouck Hergronje 1857-1936) اے جے ونسنک (A.J.Wensinck 1882-1939) کارل بروکلمان (Carl Brockelmman 1868-1956) ای سخاؤ (E.Sachau1845-1930) صموئیل زویمر(Samuel Zewemer 1867-1952) ایچ جی ویلز (H.G.Wells 1866-1946) مارماڈیوک پکتھال(M.Pickthall 1875-1936) سرہملٹن گب (Sir.H.A.RGibb 1895-1971) ولفریڈ کینٹویل اسمتھ (W.C.Smith 1916-2000) جوزف شاخت (Joseph Schacht 1902-1969) اور برنارڈ لیوس (Bernard Lewis 1916-) وغیر ہم اس عہد کے چند ایسے نامور مستشرقین ہیں جنہوں نے تحریک استشراق کو ایک نئی جہت اور رفتار عطا کی، جس طرح سے ابتدائی ادوار میں مستشرقین صرف اور صرف اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف تھے ساری جدوجہد اسلام کے رخ روشن کو داغدار کرنے کی تھی۔ اب بیسویں صدی میں حالات تبدیل ہوچکے تھے استعماری قوتیں کمزور ہوچکی تھیں یورپی کالونیاں خواب غفلت سے بیدار ہورہی تھیں۔ نئی نئی تحریکیں اور نظریات جنم لے رہے تھے۔ محکوم اور غلام ممالک نے آزادی و حریت کا نعرہ بلند کیا، سائنس و ٹکنالوجی کی غیر معمولی ایجادات و اختراعات نے معیار زندگی کو کافی بلند کردیا۔ سیاسی و عسکری انقلابات نے پر سکون زندگی میں ایک طوفان برپا کردیا معاشی نظریات نے عام و خاص کے درمیان ایک ہلچل پیدا کردی۔ کمیونزم و سوشلزم کا ہر طرف بول بالا تھا کارل مارکس (Carl Marx 1818-1883)کے نظریات نے انسان کو معاشیات کا خلیہ قرار دیا۔ سگمنڈ فرائیڈ (Sigmund Freud 1856-1939) نے جنس کے پاکیزہ پردے کو تار تار کردیا اور چارلس ڈارون (Charles Darwin 1809-1882) کے نظریات نے انسان کے اشرف المخلوقات ہونے پر سوال کھڑا کردیا کہ آدمی کو خدا نے نہیں پیدا کیابلکہ وہ تو انسان نما بندر سے ارتقاء پاکر آدمی بنا ہے۔ اتنے اہم تغیرات ہونے کے باوجود مستشرقین کے لیے یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ وہی پرانی روش اور طرز ادا اختیار کیے رہتے۔ اس لیے کہ اب قارئین کا ذوق مطالعہ و مشاہدہ بھی ان تبدیلیوں کے ساتھ عہد جدید میں تبدیل ہوا۔ نتیجتاً ایسے مصنفین و محققین منظر عام پر آئے جنہوں نے اپنے پیش روں پر سخت تنقید کی۔ اپنے انداز نگارش اور طرزہائے تحقیق سے بیسویں صدی کے مصنفین اپنے اسلاف سے ذرا مختلف نظر آئے لیکن مقاصد درپردہ وہی تھے یعنی اسلام کی تذلیل و تحقیر’’ اس دور میں ایک بات یہ بھی پیدا ہوگئی کہ بڑی حکومتیں خدا بیزاری اور مذہب سے نفرت کے اصول پر قائم ہوئیں۔ اس طرف توجہ 1925 کے بعد سے ہوئی اور 1945 کے بعد تو خدا بیزار مملکتوں کا مسلسل پروپیگنڈہ خود عیسائیت کے لیے بلکہ دنیا کے تمام مذاہب کے لیے ایک مستقل خطرہ بن گیا۔ اس لیے باستثائے چند مستشرقین یورپ کا لب و لہجہ اسلام کے خلاف یا وہ گوئی میں نسبتہ نرم ہوگیا اور اس وجہ سے مذاہب کی کانفرنسوں، تقریروں اور مقالات صلح و آشتی میں اضافہ ہوگیاہے۔ اگر چہ اس صورتحال کا اثر سب پر نہیں پڑا۔ پادری سموئیل زویمر اور ان کے ہمنوا پوری قوت کے ساتھ اسلام، قرآن اور رسول ﷺ کے خلاف لکھتے رہے وہ اپنے لب و لہجہ میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکے۔ مگر پھر بھی دیگر مستشرقین کا ایک بڑا طبقہ اس خطرہ کو محسوس کرکے اپنی تحریروں کو مصلحتاً کسی قدر نرم کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔۱۰؎
ارنلڈ جے ٹوائن بی(A.J.Toynbee 1889-1975) عہد جدید کا نامور مورخ ہے جس نے مذاہب کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اور اپنی عظیم الشان تصنیف مطالعہ تاریخ میں اسلام کے بارے میں عمومی طور پر معقول رویے کا اظہار کیا ہے۔ ٹوائن بی کے بارے میں جو ایک مثبت رائے قائم ہوئی تھی کہ اس نے اپنی عالمانہ تحقیق کے نمونے اپنی کتابوں میں پیش کیے ہیں اوراس کی شخصیت عالمی حوالہ جات کا منبع و ماخذ قرار پائی تھی۔ لیکن آپ ﷺ کے بارے میں اس کی یہ رائے بڑی ناقص معلوم پڑتی ہے اس لیے کہ اس نے نبی آخر الزماں کا موازنہ جنگجو سیزر سے کردیا اگر تعصب سے پرے اس نے دونوں شخصیتوں کا علمی و تحقیقی اور عقلی و استدلالی مطالعہ کیا ہوتا تو اسے نبی کریمﷺ کے بارے میں ایسی رائے دینے سے پہلے ہزار بار سوچنا پڑتا اس کا یہ طرز عمل نبیﷺ کی شان میں بدترین گستاخی اور تذلیل و تحقیر ہے۔ اسی دور کا ایک اہم فرانسیسی مستشرق آر بلاشیر(R.Blachere 1900-1973) جس نے قرآن کریم کا 1947 میں ترجمہ کیا سیرت نبویﷺ کے حوالے سے اس کی معروف کتاب :”Le Problems de Mahomet,Paris (1952)” ہے اس شخص نے ایک نیا فتنہ یہ کھڑا کیا کہ ’’آنحضرت ﷺ کی سوانح پر بحث کرنے کے بجائے، مصادر سیرت پر بحث شروع کی اور اعلان کردیا کہ ان مصادر کواس وقت تک استعمال نہیں کیا جاسکتا جب تک تنقید کے تکنیکی اصول ان پر منطبق نہ کرلیے جائیں۔ یہ سازش واضح طور پر اس بات کی دعوت تھی کہ مصادر اسلامیہ جدید تنقیدی اصولوں پرنہ پورے اتریں گے نہ ان کی ثقاہت ثابت ہوسکے گی۔۱۴؎ مستشرقین کو اپنی علمی و تحقیقی صلاحیتوں پر بڑا ناز ہے کہ وہ جو اصول تحقیق یا جدید تکنیک اختیار کرتے ہیں وہی پیمانہ ہے استناد و اعتبار کا جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ خود ان کے مفروضہ اصول و مبادی تغیر و تبدل کے مختلف مراحل اور کیفیات سے دو چار ہوتے رہے ہیں اور اس پیمانے کو مقرر کرنے والے انہیں کی جماعت کے افراد ہوا کرتے تھے۔ یہ رویہ ان کی کج فہمی کی ایک واضح دلیل ہے جس کا انکار انکار حق ہوگا۔
مستشرقین کی ایک معتدبہ تعداد دور جدید میں ایسی بھی رہی ہے۔ جنہوں نے اسلامی علوم و معارف کے مطالعہ میں اپنی ذہنی و علمی صلاحیتوں کا فیاضانہ استعمال کیا اور اپنی عمریں وقف کردیں ’’یہ ہٹ دھرمی اور ناانصافی ہوگی کہ ان کے اس پہلو کا اظہار و اعتراف نہ کیا جائے ان کی کوششوں سے بہت سے نادر اسلامی مخطوطات جو صدیوں سے سورج کی روشنی سے محروم تھے نشر و اشاعت سے آشنا ہوئے اور نادان و نااہل وارثوں کی غفلت اور کرم خوردگی سے بچ گئے۔ کتنے علمی ماخذ اور اہم تاریخی دستاویز یںاول اول انہیں کی کوششوں اور علمی دلچسپی اور شغف کے نتیجہ میں منظر عام پر آئیں جن سے مشرقی دنیا کے علماء، محققین کی آنکھیں روشن ہوئیں اور ان کا علم و تحقیق کا کام آگے بڑھا۔ ۱۵؎ تھامس آرنلڈ (T.WArnold 1864-1930)کی شہرہ آفاق تصنیف “The Preaching of Islam”ہے ۔ مستشرق اے جے ونسنک (A.J Wensinck 1882-1939) نے احادیث اور سیرت و مغازی پر مشتمل چودہ کتابوں سے تخریج احادیث کے لیے بڑا ہی مفصل انڈکس تیار کیا ہے۔ اسی طرح ’’المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی‘‘ احادیث نبوی کے الفاظ کی ڈکشنری کی ترتیب میں بھی نگرانی کا کام انجام دیا ہے۔ مستشرق جی لی اسٹرنج (G.L.Strange 1854-1933)اور ان کی کتاب”Lands of the Eastern Caliphate” (جغرافیہ خلافت مشرقیہ) بھی اسی ذیل میں آتی ہے۔ یہ تمام تصنیفات اور علمی و تحقیقی کوششیں اس بات کی دلیل ہیں کہ ان مصنفین و مرتبین نے اپنی جدوجہد میںکوئی کسر نہیں اٹھارکھی اور اس طویل جان گسل مطالعہ اور کاوش بحث و تحقیق میں اپنے موضوع کے ساتھ خلوص انہماک کا پورا ثبوت دیا ہے۔۱۶؎ مستشرقین کی اس اعلیٰ ظرفی اور علم دوستی کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں مگر ان کے علمی کارنامے کا دوسرا پہلو بھی ہمارے پیش نظر رہے کہ کس طرح انہوںنے دجل و فریب، افتراپردازی بہتان تراشی اور طنز نگاری کا سہارا لیا اور پھر اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں بھی پوری مہارت سے کام لیا ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر کا عظیم ترین مصنف سر ہملٹن گب (Sir H.A.R Gibb 1895-1971) علمی دنیا میں ایک معروف نام ہے جسے مسلمان اور مستشرقین بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسلام سے متعلق ان کی اہم کتابیں “Mohammedanism:1949” اور “Modern Trends in Islam”ہیں۔ ماڈرن ٹرینڈس ان اسلام نامی کتاب جو1947 میں لکھی گئی ’’براعظم ہندو پاک کی اسلامی تحریکات اور تحریک جدید سے بحث کرتے ہوئے مولف علی گڑھ اسکول اور سرسید کی تعریف کرتے ہیں۔ ساتھ ہی غلام احمد بانی قادیانیت اور قادیانی تحریک کی زور دار حمایت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ اسلام میں احمدیہ تحریک نے ہی تجدید کو آگے بڑھایا، ایک نئے مذہب کو وجود میں لایا اوررواداری کے ساتھ تحریک اصلاحات پر زور دیا، جو لوگ قدیم اسلام میں عقیدہ کھوچکے تھے، ان میں تازہ ایمان پیدا ہوا ۔ علامہ اقبال کسی بھی مسلم قاری کے لیے محتاج تعارف نہیں، نہ ہی کوئی تعلیم یافتہ علامہ کی اسلام دوستی یا فکر و نظر اور مغربی تہذیب پر نقد و جراحت سے ناواقف ہے، پروفیسر گب علامہ اقبال کو مجموعہ اضداد قرار دیتے ہوئے ان کی معروف تصنیف کی دھجی اڑاتے ہیں۔ اور اقبال کو مجموعہ تضاد( Mass of Contradiction)قرار دیتے ہیں‘‘۔۱۷؎
بیسویں صدی کے اواخر میں تحریک استشراق نے مغربی جامعات میں ایک خاص حکمت عملی کے تحت اسلامی علمی و تحقیقی مراکز قائم کیے اور عالمی رسائل و جرائد کو بھی بڑے پیمانے پر جاری کیا۔ جدید اور سائنٹفک طرز پر مطابع کھولے۔ کتابوں کی خوب اشاعت ہوئی۔ امریکہ سے شائع ہونے والے عالمی جرائد”The Journal of Near Eastern studies”اور ـ”The Muslim World Journal”مغرب کے ساتھ عالم اسلام میں بھی خوب مقبول ہیں۔ اس کے علاوہ عربی زبان میں بھی مستشرقین نے عربی مجلات جیسے ’’ مجلۃ شؤن الشرق الاوسط‘‘ اور ’’مجلۃ الشرق الاوسط‘‘ کو جاری کیا۔۱۸؎ مستشرقین نے عالم عرب میں اپنے افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کی انہوں نے عالم اسلام کو یہ پیغام دینا چاہا کہ ہم دراسات اسلامیہ کی تحقیق و تصنیف اور اس کی تبلیغ و اشاعت میں حد درجہ اخلاص کا مظاہرہ کررہے ہیں اور اپنی جدید جامعات کے دروازے مسلم طلباء کے لیے کھول رکھے ہیں۔ ان جامعات کے روشن خیال فضلاء جن میں ایک اہم تعداد مسلمانوں کی بھی ہے جو بڑی تعداد میں مشرق و مغرب میں پھیلے ہوئے ہیں اور اسلام کی تشکیل جدید اور اصلاح پر بہت زور دے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک آج کا اسلام فرسودہ اور رجعت پسند ہے۔ اور اسی کے ساتھ اس کے اندر عہد جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت مفقود ہے۔ اسلام کی تشریح و تعبیر کے لیے اب سائنٹفک طریقہ استدلال اختیار کیا جانا چاہیے۔ مستشرقین کے درپردہ مقاصد کو فروغ دینے کے لیے تجدد پسند مسلم اسکالر بھی اس ضمن میں ان کابھر پورا تعاون کررہے ہیں۔ عالم اسلام پر مستشرقین کے جو منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اس کے لیے لازم ہے کہ ایسے صالح الفکر مسلمان محققین و مصنفین تیار ہوں جو اسلامی موضوعات پر جدید طرز تحقیق اور ماخذ و مراجع کی صحت و استناد کے حوالے سے ریسرچ کریں اور ایسے علمی و تحقیقی اسلوب، استدلال و استنتاج اور طرز نگارش کو بروئے کار لائیں جو مستشرقین پر ہر لحاظ سے فوقیت لے جائیں ساتھ ہی ان کی علمی کوتاہیوں، دسیسہ کاریوں اور افترپردازیوں کا پردہ چاک کرکے واضح اور درست خطوط فراہم کریں۔ ایسا نہ کیاگیا تو جدید تعلیم یافتہ طبقہ مستشرقین کے مسموم افکار و خیالات اور ان کی فکری غلامی سے اپنے آپ کوزیادہ دیر تک آزاد نہیںرکھ سکتا۔ مغرب کی سیاسی و معاشی بالا دستی عالم اسلام کو ہر محاذ پر کمزور کرنے کی اپنی سازش میں پوری طرح کامیاب ہے وہ اپنے مشنری مقاصد کے فروغ کے لیے حیات انسانی کے ہر گوشے پر قابض ہیں اور اس کے لیے جس خاموش حکمت عملی کا مظاہرہ کررہے ہیں ہم پوری طرح اس سے نابلد ہیں۔وہ اسلام کے تئیں اپنے رویے میںلاکھ نرمی اور اخلاص کا اظہار کریں۔ شوق علم و تحقیق، ایثار و وفا اور انصاف پسندی کا خوب ڈھنڈورا پیٹیں لیکن قرآن کا یہ اعلان ہمہ وقت ہمارے پیش نظر رہے کہ ’’آپ سے یہود و نصاریٰ ہر گز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں‘‘(البقرۃ:۱۲۰)
حواشی
۱- القرآن الکریم،سورۃ البقرہ:۱۲۰، اس موضوع پر قرآن کریم کی دیگر آیات ملاحظہ فرمائیں، المائد:۵۱، حم السجدۃ:۲۶، آل عمران:۷۲، النساء:۱۵۰
۲- میراث اسلام، مرتبہ سرتامس ارنلڈ والفریڈ گیام (حروب صلیبیہ: ارنسٹ بارکر) اردو ترجمہ عبدالمجید سالک، مجلس ترقی ادب لاہور،۱۹۶۰، ص۶۳
۳- اردو دائرہ معارف اسلامیہ صلیبی جنگیں اظہر ظہور احمد ، دانش گاہ پنجاب لاہور،۱۹۷۳ء ج۱۲،ص۲۰۹
۴- تاریخ عرب، فلپ کے حتی، ترجمہ سید مبارزالدین رفعت، محمد معین خاںالبلاغ پبلیکشنز نئی دہلی اپریل ۲۰۰۷، ص۱۷۲
۵- فیروز اللغات اردو جدید الحاج مولوی فیروز الدین، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، ۱۹۹۲، ص۶۳۲
۶- آشناي بااستشراق واسلام شناسی غربیان، دکتر محمد حسن زمانی انتشارات بین المللی المصطفیٰ، قم ایران چاپ اول ۱۳۸۸ش/۱۴۳۰ق
۷- انتاج المستشرقین واثرہ فی الفکر الاسلامی الحدیث، مالک بن نبی ،دارالارشاد، بیروت، الطبعۃ الاولیٰ ۱۹۶۹ء ص۵
۸- Orientalism, Edward W. Said, Penguin Books India Pvt Ltd, NewDelhi 2001 p203
۹- Europe and the Mystique of Islam, Maxime Rodinson Translated by Roger veinus,IB,Tauris & co Ltd.London 2002 p57
۱۰- مجلہ الواقعہ، مستشرقین اور تحقیقات اسلامی، مولانا عبدالقدوس ہاشمی، کراچی، جنوری، فروری، ۲۰۱۳ء۔ ش۱۰، ص۳
۱۱- نقوش، رسولﷺ نمبر، مستشرقین اور مطالعہ سیرت، ڈاکٹر نثار احمد، ادارہ فروغ اردو لاہور، جنوری ۱۹۸۵ء ج یازدہم ش۱۳۰، ص۵۱۹
۱۲- مجلہ الواقعہ ص۵۲۰
۱۳- اسلام اور مستشرقین ، مرتبہ سید صباح الدین عبدالرحمن، اسلام اور مستشرقین، پروفیسر سید حبیب الحق ندوی، دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ، ۲۰۰۳ء ج سوم ص۴۳-۴۴
۱۴- اسلام اور مستشرقین ص۴۴
۱۵- اسلامیات اور مغربی مستشرقین و مسلمان مصنفین، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، ترجمہ سید سلیمان حسینی ندوی، دارالمصنفین ، شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ، ۲۰۰۹ء ص۷
۱۶- اسلامیات اور مغربی مستشرقین و مسلمان مصنیفین ص۷۔۹
۱۷- اسلام اور مستشرقین ص ۴۵-۴۶
۱۸- المبشرون والمستشرقون فی موقفہم من الاسلام، الدکتور محمد البہّی، الادارہ العامۃ للثقافۃ الاسلامیۃ الجامع الازہر ص۱۴
مشمولہ: شمارہ فروری 2015