سورۃ النجم کی ترجمانی

آسمان کے افق پر جھلملاتا تارہ رات ختم ہوتے ہوتے یہ پیغام دے کر غائب ہوجاتاہے کہ اس کی مدھم روشنی اوٹ میں جارہی ہے اور سورج کی روشنی اپنی آب وتاب کے ساتھ نمودار ہونے والی ہے۔ یہ فطری مظہر اس بات کو بتارہاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت جنھیں اب تم بھٹکاہوا اور گمراہ کہہ رہے ہو ، اس وقت بھی روشن تھی، جب کہ آپ ابھی نبی نہیں ہوئے تھے۔ تمھارا یہ ساتھی جس سے تم بچپن سے واقف ہو کسی گندگی اور برائی میں کبھی بھی ملوث نہیں رہا۔اس وقت بھی وہ سادہ فطرت پر اچھے کردار اور صاف حالت میں تھا۔ اس وقت بھی انھیں امانت دار اور دیانت دار ماناجاتاتھا۔ وہ بھٹکاہوا اور گمراہ نہیں تھا۔ اب تو وہ خدا کا منتخب بندہ ہے۔ اس کا اندرون ایسا شفاف ہے کہ اس کی زبان سے خدا کاکلام ابل رہاہے اور اس کے کردار سے سچائی ٹپک رہی ہے۔ وہ اس قادر مطلق کا نمائندہ ہے، جس نے جھلملاتے تارے کو پیدا کیا۔ اسی خدا کا وحی کیا ہوا کلام بڑے اہتمام سے اس تک پہنچ رہاہے اور وہ اسے پیش کررہاہے۔ یہ من گھڑت اور انسانی کلام نہیں ہے۔

انتہائی اہم بات یہ ہے کہ اس پیغام کو پہنچانے کے لیے اللہ نے بڑا مہتم بالشان طریقہ اختیارکیا ہے۔ اس نے اپنے معزز فرشتے حضرت جبریل علیہ السلام کو، جو اپنی جسمانی طاقت اور عقل و دماغ کے کمالات میںانتہائی درجے پر ہیں، اپنے اس پیغام کی ترسیل و تعلیم کے لیے مامور کیا ہے۔ وہ فرشتہ بنفس نفیس نمودار ہوا۔ آسمان کے پھیلے ہوئے اونچے افق پر اپنے پورے وجود اور پوری شکل وہیئت کے ساتھ سامنے آیا۔ پھر اپنی پھیلی ہوئی مکمل ہیئت کو سمیٹ کر قریب ہوا اور نیچے اتر آیا اور اتنا قریب ہوگیاکہ اس کا فاصلہ نبی اسے صرف دو کمان کے برابر رہ گیا۔ یہ پیمانہ بھی زیادہ ہے، بلکہ اس سے بھی قریب تر فاصلے پر آموجود ہوا۔ اس طاقتور اور فہیم فرشتے نے خدا کے منتخب بندے محمدﷺ پر وحی نازل کی اور انھوں نے اسے روشنی کی طرح اخذ کیا۔ اس وحی کی شان یہ ہے کہ وہ اُس مادّی روشنی سے زیادہ روشن اور منور ہے، جو سورج کی شکل میں دنیا کو ملی ہے۔ مادی دنیا کے لیے پورے طورپر جب تارے کی جھلملاتی روشنی ناکافی ہے تو باطنی ظلمتوں ، بھٹکائو اور گمراہیوں کے لیے صرف خواہشات نفس یا انسانی عقل و دماغ کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے ایک ایسی حقیقی روشنی کی جو ساری گمراہیوں اور ظلمتوں کو غائب کردے۔ الحمدللہ یہ قرآن دن کی روشنی بن کر نمودار ہوگیا ہے۔ اب ظلمات اور گمراہیوں کاخاتمہ یقینی ہے۔ یہ نبی اپنے الٰہی علم کے ذریعے ان تاریکیوں کو چھانٹنے کے لیے آیاہے۔ تم اسے گمراہ اور بھٹکاہوا کہہ رہے ہو اور اس کی واضح اور روشن باتوں میں شک کررہے ہو۔ ان حقائق کو اس نے دیکھاہے۔ معزز فرشتے کی القائ کی ہوئی وحی کو اپنے کانوں سے سناہے، قریب سے اس حقیقت کو پایاہے اور اس کے دل و دماغ نے ان حقیقتوں کی تصدیق کی ہے۔ جب حقائق اس طرح اخذ کیے گئے ہوں اور ان کو اس طرح حاصل کیاگیاہو، تو کیا اس میں کسی شبہ کی گنجایش ہوسکتی ہے؟

نبی انے اس معزز فرشتے کو اپنی اصل حالت و کیفیت میں ایک بار اوراس وقت دیکھاجب وہ عالم بالا تک اس کا مصاحب اور ہم سفر تھا۔ یہ مشاہدہ الگ نوعیت کاتھا۔ عالم بالا میں ایک ساتھ سفر کے دوران سدرۃ المنتہیٰ پر، جو عالم زیریں کی انتہا اور عالم بالا کا سرا ہے، نبی ا نے  اسے آسمان کے انتہائی اونچائی والے اور انتہائی پھیلائو والے افق پر بے انتہا طاقت و قوت، رفعت وعظمت اور وسعت اور پھیلائو کے ساتھ دیکھا۔ وہیں پاس جنت الماویٰ ہے، جو اچھے انسانوں اور خدا کے مقرب بندوں کامسکن ہے اور عالم بالا کے حدود کے اندر ہے۔ بس نہ پوچھو اس جنت الماویٰ کا حال۔ خواب اور بیان سے باہر ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ پر جو بیری کا درخت ہے، اس پر رب العالمین کی انوار وتجلیات کی جو برسات ہورہی تھی اور اس کے جو نقوش مرتسم ہورہے تھے، وہ بھی بیان و گمان سے باہر ہے۔ جس عالم تک پہنچنا ہر بندہ خدا کی منزل ہے، اس کامشاہدہ نبی اکو کرایاگیا۔ اسی عالم میں پیش ہوکر سب کو رب العالمین کے پاس جانا ہے۔ وہاں پہنچ کر آپ کو کوئی حیران لاحق نہیں ہوئی۔ کیونکہ یہ سب یقینی درجے میں پہلے سے آپ کے علم میں تھا۔ اب اس کا عینی مشاہدہ ہورہاتھا۔ نہ آپ ﷺ کی نگاہ ان انوار کو دیکھ کر پھسلی اور نہ حد سے متجاوز ہوئی۔ آپ کے قلب و دماغ کی حالت ایسی تھی کہ اس مشاہدے کے وقت نگاہوں میں ٹکائو اور ارتکاز تھا۔ مشاہدے کی وسعت اور اخذ و ادراک کاحال نہ پوچھو۔ جہاں پہنائیاں سمٹ آئی ہوں، فاصلے ختم ہوگئے ہوں اور وقت کی رفتار تھم گئی ہوئ تو اخذ و ادراک کی محدودیتیں خود بخود ختم ہوجاتی ہیں۔ اس حالت کمال میں نبی ا نے خدا کی عظیم نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔ ایک بندہ جو اپنے دل و دماغ اور کردار وعمل کو اِس طرح تھامے ہوئے ہو اور خدا کے انتہائی قرب کو اس طرح پایاہو، بھلا وہ بھٹکاہوا اور گمراہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔

جو خدا اپنی طاقت سے اس کائنات کو محکم طریق پر چلارہا ہے، جس نے بڑے اہتمام کے ساتھ ہدایت بھیجنے کا انتظام کیا ہے اور اپنے طاقتور فرشتوں کو اس کائناتی نظام کو سنبھالنے کے لیے مامور کیاہے، اس خدا کے بارے میں تم نے یہ فرضی عقیدہ گڑھ لیاہے کہ فرشتے اس کی بیٹیاں ہیں اور اس کے ساتھ خدائی میں شریک ہیں۔ لات و عزی اور تیسری دیوی منات کے بارے میں کیا تمہیں ایسا لگتاہے کہ ان کے اندر کوئی خدائی طاقت ہے۔ کیا ایسا ہے کہ ان کو خدا نے منتخب کرکے اپنا نمایندہ بنایاہو اور انھوں نے کسی شخص کو خدا کا پیغام پہنچایاہو یا اس کی تعلیم دی ہو۔

یہ کیسی بے تکی اور غیرمعقول بات ہے کہ تم فخراور بڑائی کے اظہار کے لیے بیٹوں کے خواہش مند ہو اور بیٹیوں سے تنفر ہے اور ان کے وجود کو اپنی طاقت و قوت اور شان وعظمت کے منافی تصور کرتے ہو اور خدا کے ساتھ تم یہ عیب لگارہے ہو۔ یہ کیسی ظالمانہ تقسیم ہے، جن کو تم نے معبود ولائق پرستش بنارکھاہے وہ تو حقیقت میں صرف چند نام ہیں جن کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔ یہ محض تم نے اور تمہارے آباو اجداد نے فرض کرلیے ہیں ۔ جس خدا سے منسوب کرکے تم ان کی بڑائی اور عظمت کی دُہائی دے رہے ہو، اس نے ان کے بارے میں کوئی دلیل اور سند نہیں اتاری۔ تم نے تو محض اندازے اور اٹکل سے بلادلیل یہ باتیں گڑھ لی ہیں، کسی حقیقی بات کو نہ ماننے کے لیے اور باطل پر جمنے کے لیے۔ خواہش، من مانی چاہت اور خوش گمانی کو بنیاد بنایاہے۔ ‘ظن’ گمان اور اٹکل اور محض اندازے پر، ’’ہویٰ‘‘ یعنی بے بنیاد اور بلادلیل خواہش و خوش گمانی پر اتنی اہم زندگی کو اٹھایا ہے۔ یہ بڑے خطرے کی بات ہے۔ کسی حقیقی فارمولے اور کسی متعین دلیل پر اگر زندگی کو نہیں اٹھایا تو تباہی یقینی ہے۔ اس وقت تک تو یہ عذر قابل قبول ہوسکتاتھا، جب کہ اس کے مقابلے میں ‘ھُدیٰ’ یعنی واضح رہنمائی اور روشن راہ نہ آئی ہو۔ اب تو رب کائنات کی طرف سے ہدایت آگئی ہے، حق اور دلیل نازل ہوگئی ہے۔ کیا معاملہ اتنا سادہ ہے۔ بلاکسی حقیقی بنیاد کے محض تمنائوں اور آرزوئوں کے سہارے سب کچھ مل جائے گا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ آخرت میں جو کچھ انجام سامنے آئے گا، وہ خدا کے اختیارمیں ہوگا۔ دنیا میں جو ہوتا ہے، وہ بھی خدا کے بتائے اصولوں پر ہوتا ہے۔ دنیا و آخرت کامعاملہ خدا سے جڑا ہوا ہے۔ دنیا میں خدائی ہدایت کو ماننا گویا یہاں خدا کو اپنے ساتھ لینا ہے۔ تبھی آخرت میں نتیجہ، جو خدا کے ہاتھ میں ہے، وہ بندے کے حق میں ہوگا۔ کسی من گھڑت تصور اور خواہش پر مبنی بے تکے انداے کے بنیاد پر ایسا نہیں ہوگاکہ کوئی فرشتہ سفارش کرے گا۔ فرشتے کی سفارش صرف اس صورت میںکام آسکتی ہے، جب ایسے شخص کے بارے میں خدا کی اجازت ہوجائے جس سے وہ راضی ہو کہ یہ بندہ دنیا میں ویسا جی کر آیاہے، جیسا میں نے اسے آگاہ کردیاتھا۔ اب یہ اعزاز و اکرام کا مستحق ہے۔ اس وقت فرشتے بھی چاہیں گے کہ اس کے اعزاز میں اضافہ ہو۔اس صورت میں اللہ کی اجازت سے سفارش کرائی جائے گی۔ دوسری ایک اور صورت ہے جس میں کوئی شخص سفارش کا مستحق قرار پائے گا، اس سے کوئی لغزش اور وقتی گناہ ہوگیا ہو، جو اسے اگلے مراتب تک پہنچانے میں حارج ہو تو اس حرج کے خاتمے کے لیے اللہ کی نوازش و کرم کی ایک شکل یہ بھی ہوگی کہ خدا کی اجازت سے کوئی فرشتہ سفارش کرے گا اور خدا کی جناب میں یہ سفارش بار قبول پائے گی۔ کیا ایسے لوگ بھی سفارش اور خدا کی کرم فرمائیوں کے مستحق قرار پائیں گے، جنھوں نے آخرت کے ان اہم معاملات کو اہمیت نہیں دی۔ نہ ان باتوں کو مانا اور نہ ان کو سنجیدگی سے لیا۔ وہ بے تکی باتیں کرتے ہیں اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیوں کا نام دے رکھا ہے۔

لوگوں نے زندگی جینے کو اتنا سادہ اور غیراہم بنالیا ہے کہ اس کی تعمیر کے لیے محض اٹکل، اندازے، بے دلیل دعوے کو بنیادبنالیا ہے۔ حیات و زندگی ، جسے وجود میں لانے کے لیے خدا نے بڑا اہتمام کیا ہے۔ کیا ایسا سوچنا درست ہے کہ زندگی گزارنے کاکوئی پلان اور منصوبہ خدا کے سامنے نہیں ہے؟ کیا یہ اہم زندگی محض بے ڈھب طریقے اور Hag Zag انداز میں گزارنا ہے یا کسی متعین ضابطے اور ایک محکم اصول اور ضابطے سے بندھی ہوئی ہے۔ اسی طرح زندگی جیسی قیمتی شے بھی اپنے نتیجے سے ہم کنار ہونے کے لیے ایک محکم اصول ‘حق’ کی محتاج ہے۔ قرآنی الفاظ میں کہاجاسکتا ہے کہ ’’باطل‘‘ یعنی جھوٹ اور بے بنیاد اصول پر مبنی تصور، ’’ظن‘‘ یعنی اندازے اور اٹکل پر مبنی خیال اور ’’ہَویٰ‘‘ یعنی خواہش اور چاہت پر کسی چیزکاپانا اتنی سنجیدہ زندگی کی یہ بنیاد؟ اس کے مقابلے میں ’’حق‘‘ یعنی محکم اور اٹل ضابطے پر مبنی تصور، ’’علم‘‘ یعنی دلیل پر مبنی خیال اور’’ھُدیٰ‘‘ یعنی روشن اور واضح راہ کا پایا جانا یہ بنیاد ہے اعلیٰ تر حیات و زندگی کی۔ باطل اور بے بنیاد تصور سے جو زندگی وجود میں آتی ہے، اس میں نہ کوئی سنجیدگی ہوتی ہے اور نہ خدا کی دی ہوئی عقل و فہم کا ذرااستعمال۔ جس نے اس طرح کم فہمی اور غیرحقیقی بنیاد پر جینے کاانداز اختیار کررکھا ہو، جو ہمارے بنائے ہوے حقیقی اصولوں سے روگرداں ہو، جو ہماری یاد دہانی سے گریزاں ہو اور صرف مال و دولت کا بندہ بناہوا ہو، جسے زندگی کی صرف ظاہری شکل ہی دِکھ رہی ہو اور اسی کو بہتر انداز میں جینا اس کامطمح نظرہو اور ان کے فہم اور سمجھ کی رسائی بس اتنی ہی ہو تو ایسے لوگوں کے سامنے ان حقائق کو پیش کرنا بیکار ہے۔

کون ہدایت پر ہے اور کون گمراہی پر، اس کا فیصلہ محض پھبتی کسنے سے، بے دلیل باتیں گاٹھنے سے اور محض اندازے اور اٹکل کے تیر چلانے سے نہیں ہوگا۔ بل کہ یہ فیصلہ خدا ان اصولوں کی بنیاد پر کرے گا ،جس سے اس نے آگاہ کردیا ہے۔ خدائی طاقت کا حال یہ ہے کہ آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سارا کا سارا اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ اس کلی اختیار اور مکمل علم کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔ جنھوں نے مذکورہ حقیقتوں سے گریز کرکے گندگی اور برائیوں میں اپنے آپ کو ملوث کیا ہوگا تو ان کے ان فاسد اور گندے اعمال کی بنیادپران کے خلاف فیصلہ ہوگا۔ ہاں! جنھوںنے حق اور محکم اصولوں کی بنیادپر اس قیمتی زندگی کو بتایاہوگا، خیرپسندی، انسانیت اور اچھائیوں کے کاموں کو انجام دیاہوگا، ان کے حق میں کامیابی کا فیصلہ ہوگا۔ یہ وہ نیک بندے ہوںگے، جنھوں نے کبائر یعنی شرک سے ، طغیان سے، قتل و غارت گری اور باطل اور بے جا طریقے سے مال کھانے سے گریز کیاہوگا اور فواحش، بے حیائیوں ، زنا اور اس کے لوازمات سے بچے ہوں گے۔ البتہ اگر چھوٹی موٹی لغزشیں ہوگئی ہوں تو اللہ بڑا مغفرت کرنے والا ہے۔ انسان کبھی متقی ہوتے ہوئے وقتی جذبے سے اصرار نہ کرتے ہوئے کوئی گناہ کربیٹھتا ہے۔ اس کا ازالہ ندامت و شرمندگی، توبہ اور حسنات میں اضافے سے ہوجاتا ہے۔ بس یہ دھیان میں رہے کہ سب کچھ خدا خوب جانتاہے۔ وہ تمہاری رگ رگ سے واقف ہے۔ سارے مراحل حیات اس کے علم میں ہیں۔ ابھی جب تم زمین کے اجزا میں جماداتی شکل میں تھے اور جب تم ماں کے پیٹ میں حیاتیاتی شکل میں آئے اور پھر تمہارے اندر جو کمالات و دیعت ہوئے، سب خدا کے علم میں ہیں۔ اس لیے اپنے آپ کو ایسا پاک سمجھناکہ کوئی کیچڑ لگ نہیں سکتی غلط ہے۔ اصل بات یہ ماننا ہے کہ ہم اتنے پاکیزہ نفس نہیں ہیں۔ خواہ یہ ناپاکی کسی کی ناپ میں آئے یانہ آئے۔ کرنے والے کے سمجھنے میں اور اللہ کی گرفت میں آتی ہے۔ اس لیے عمل کرگزرنے پر نہ گھمنڈ میں مبتلا ہونا ہے اور نہ ان گندگیوں کو بہت معمولی سمجھنا ہے۔ ہر طرح خدا پرست رہنا ہے کہ اس کو معلوم ہے کون متقی ہے۔

خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا یہ حال ہے کہ اس نے زندگی کے سارے مادی اور عقلی کمالات دیے۔ اس نے ہدایت و نور کی کرنیں جاری کردیں۔ لیکن لوگوں کاحال یہ ہے کہ بے نیاز بنے ہوئے ہیں۔ ان نعمتوں میں اگر کسی کو شریک بھی کیا تو ذرا سا پھرروک لیا۔ کیا ان کے پاس غیب کاعلم آگیا ہے جس کے سہارے انھوںنے پتا لگالیا ہے کہ آیندہ انجام ان کے حق میں ہوگا۔ کیا انھیں انبیائ کی زبانی یہ حقیقتیں نہیں معلوم ہوئیں جو قرآن بتارہا ہے۔ کیا موسیٰ علیہ السلام کی پیش کردہ تورات کے اوراق میں اور باکردار اور وفاشعار ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں میں یہ سب کچھ نہیں ہے؟ ابراہیمؑ نے ان اصولوں پر اپنی زندگی کی تعمیر کی اور یہ اصول اپنی نسل میں جاری کرکے عملی شکل میں چھوڑگئے۔

ان دونوں نبیوں کی دستاویزات میں جو اصول درج تھے اس کا خلاصہ یہ ہے:

٭ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ہر ایک کو خود اپنا بوجھ اٹھانا ہے۔ نتیجے کا معاملہ اپنی ذات سے متعلق ہے۔ دوسرا نہ کوئی مدد کرے گا اور نہ کسی پر الزام دھرے گا۔

٭ انسان کے لیے تو بس وہ ہے جو اس نے کمالیا۔ کسی دوسرے کا کمایا کام نہیں آئے گا۔ جانچ پڑتال صرف اس کی کوشش کی ہوگی۔ دیکھاجائے گا کہ وہ کیاکرکے آیاہے ۔اُسی بدلہ دیاجائے گا۔

٭ اس نتیجے کو یقینی طورپر پانے کے لیے خدا کے حضور پیش ہونا ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ دنیا کی زندگی پر معاملہ ختم ہے۔ دوسری دنیا بھی آئے گی۔ سب کو وہاں کے انجام سے دوچار ہونا ہے۔

٭ ایک ایک فرد کی زندگی پر خدا اس طرح اثرانداز ہے کہ خوشی و راحت کے احساسات ہوں یا حزن و ملال کے لمحات، منفعت اور مضرت کی باتیں ہوں یا زندگی کو وجود میں میں لانے اور اس کو فنا سے دوچار کرنے کے واقعات ، سب خدا کے اختیار کے تحت وجود میں آتے ہیں۔

٭ اس کی خلاّقی کا یہ کمال ہے کہ ایک ہی نطفہ جو اچھل کر نکلتاہے اور رحم ماد ہ میں چپک جاتاہے، اس کو کس طرح مرد یا عورت کی شکل میں ڈھال دیتا ہے۔ پھر یہ زندگی جو ایک فرد کے اندر اکائی بن کر نمودار ہوتی ہے، وہ سلسلہ حیات بن جاتی ہے اور یہی محیط اور پھیلی ہوئی زندگی بن کر اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ پھر دفعتہ اس کی خلاّقی دوسری شکل میں ظاہر ہوگی وہ سب کچھ دوبارہ پیدا کردے گا۔ ایسے طاقتور خدا کے لیے یہ سب کیا مشکل ہے۔ بل کہ یقینی طورپر یہ بات لازم ہے کہ وہ دوبارہ زندگی دے۔ تاکہ زندگی اپنے انجام تک پہنچ کر مکمل اور بامعنی ہو۔

٭ خدا کا معاملہ فرد اور قوم، دونوں کے ساتھ یکساں ہے۔ مالداری اور فقر کا اختیار کلی طورپر اسی کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی فرد اور قوم یہ نہ سمجھے کہ وسائل کی قلت اور کثرت کسی کے لیے کوئی معنی رکھتی ہے۔ کبھی کوئی فرد یا کوئی قوم اس غلط فہمی میں پڑجایاکرتی ہے کہ وہ ان چیزوں کو خود اپنے کمال سے یا کسی فرضی ذریعے سے حاصل کررہے ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ نہ خود تمہارے اندر کوئی ذاتی کمال ہے اور نہ ان اجسام اور اجرام کے اندر، جن کو تم پوجتے ہو۔ تمہارا، ان سب کا اور شِعریٰ کا رب وہی ہے۔

٭ قوموں کا انجام تاریخ میں اس طرح رقم ہے کہ اس نے عاداولی کو ہلاک کیا۔ ثمود کو بھی اس نے باقی نہیں چھوڑا۔ قوم نوح جو ظلم وستم اور سرکشی میں سب سے زیادہ بڑھی ہوئی تھی، اس کا ستھرائو کردیا اور جھاڑی والوں کو اس نے اٹھاکر پٹک دیا۔ ان پر خدا کا غصب ایسا چھایاکہ بیان سے باہر ہے۔ خدا کی کون کون سی نوازشوں اور قدرتوں میں تم شک کروگے۔

یہ ایک ڈراوا اور آگاہی ہے جیسے ڈراوے اور چیتاونیاں پہلے کی جاتی رہیں۔ تاکہ فائدہ اٹھانے والا ڈرجائے، سنبھلنے والا سنبھل جائے اور جو نہ سنبھلے اس پر یہ عذر ختم ہوجائے کہ اسے اس صورت حال کا پتا نہیں تھا۔

پکڑکا وقت قریب آلگا ہے۔ قیامت تاک میں ہے کہ اشارہ ملے اور وہ آدبوچے۔ اللہ کے علاوہ کوئی اسے ہٹانے والا نہیں۔ اس سے بچائو صرف خدا کی پناہ پکڑنے سے ممکن ہے، لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ ان حقائق ، یاددہانیوں اور ڈراوے سے بھرے ہوئے کلام کی ناقدری کررہے ہو، حیرت و تعجب میں مبتلا ہو۔ ان باتوں کو ہنسی مذاق میں اڑارہے ہو۔ ایسی باتیں سن کر رونگٹے نہیں کھڑے ہوتے اور رونا نہیں آتا۔ غفلت و مستی میں پڑے ہوئے ہو اور اتنے لاپروا بنے ہوئے ہو۔ خدا را! ایسے عظیم خالق کو پہچانو، اس کے آگے سرنگوں ہوجاؤ، اسی کو سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2010

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223