ہندوستان کے وہ کروڑوں انسان، جو اب تک اسلام کے سایۂ رحمت سے اس وجہ سے محروم ہیں کہ ان تک اللہ کے دین کی دعوت یا تو نہیں پہنچی یا گوناگوں اسباب سے وہ اس دین کے سلسلے میں غلط فہمیوں کا شکار ہیں، اس پیغام ِ بندگی ِ رب کو پہنچانا اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی سعی کرنا آج کے ہندوستان میں رہنے بسنے والے ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اسی کام کو ہم اس مضمون میں’ دعوت‘ کا کام کہیں گے اور ان شاء اللہ اس بات پر غور کریں گے کہ بدلے ہوئے حالات میں ہمارا اسلوب ِ دعوت کیا ہونا چاہیے؟ اصولی طور پر یہ بات واضح ہے کہ اس دعوت کے مشمولات (Contents) میں کوئی تبدیلی زمان و مکان کی تبدیلی سے واقع نہیں ہوتی، البتہ حالات کے بدلنے سے اسلوب دعوت کو تبدیل ہوجانا چاہیے۔ ہم اس اصولی گفتگو کے حق میں قرآن اور سنت کے چند دلائل پر اکتفا کرتے ہوئے یہ جائزہ لیں گے کہ آج کے ہندوستان میں ماضی کے ہندوستان کے مقابلہ میں کیا تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، جو بدلے ہوئے اسلوب ِ دعوت کا تقاضا کرتی ہیں اور ان حالات کا لحاظ کرتے ہوئے اصل دعوت سے ذرہ برابر بھی انحراف (Compromise) کیے بغیر ہمیں اپنے اسلوب میں کیا تبدیلیاں لانی چاہئیں۔
اصولی گفتگو
اسلام کا بنیادی پیغام ’توحید‘ ہے۔ توحید اپنی اصل میں فطرت ِ انسانی کے لیے غیر مانوس یا اجنبی نہیں ہے۔ اس کی شہادت انسانی وِجدان (intuition) دیتا ہے۔ (اعراف: ۷:۱۷۲)۔ قران شاہدہے کہ پورے سلسلۂ انبیائی میں …خاتم النبین حضرت محمد ﷺ تک … تمام انبیاء و رُسُل نے اپنی اپنی دعوت میں یہی بنیادی پیغام پہنچایا اور اپنی قوموں کو اسی پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ قرآنی بیانات کے علاوہ اُسوۂ نبوی ؐ بھی اسی کا ثبوت فراہم کرتاہے۔ (یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ آخرت (معاد) اور رسالت کی دعوت بنیادی پیغام ِ توحید کی ضمنیات ہیں اور اسی حیثیت میں اسلام کے بنیادی عقائد ثلاثہ کا جُز ہیں)۔
اس بات کے ثبوت میں کہ اسلام کی دعوت ہر زمانہ اور ہر طرح کے حالات میں یکساں رہتی ہے، قرآن کریم سے متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اس موقع پر سورۂ ہود میں ذکر کیے گئے مختلف انبیاء کرام کے اپنی اپنی قوم سے کیے گئے خطابات سے چند مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کے اپنی قوم سے خطاب کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحاً اِلٰی قَوْمِہٖ ز اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلاَّ اللّٰہَ اِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ (۱۱:25-۲۶)
’’ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا۔ (اس نے کہا) میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتاہوں کہ اللہ کے سواکسی کی بندکی نہ کرو ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر ایک دردناک عذاب آئے گا۔‘‘
حضرت ہود علیہ السلام کے اپنی قوم کوخطاب کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے:
قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اِنْ اَنْتُمْ اِلاَّ مُفْتَرُوْن ( ۱۱:۵۰)
’’(ہودنے )کہا اے برادرانِ قوم ، اللہ کی بندگی کرو ،تمھارا کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے۔ تم نے محض جھوٹ گھڑ رکھے ہیں۔‘‘
قوم ثمود سے حضرت صالح علیہ السلام نے کہا:
قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (۱۱:۶۱)
مدین کی طرف اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا۔ ان کی دعوت بھی بنیادی طور پر یہی تھی۔
قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (۱۱:۸۴)
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تمام انبیاء نے اپنی قوموں کو یکساں دعوت دی ہے۔ اسی بات کا ثبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ طیبہ میں بھی ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوی زندگی کے تئیس برسوں میں مختلف قسم کے حالات میں رہے۔ انتہائی سخت حالات میں بھی اور نسبتاً کم سخت حالات میں بھی۔ آپ ؐ نے زمانۂ جنگ میں بھی اور امن کی حالت میں بھی ، اپنے خاندان ، اپنے شہر اور قریب کے لوگوں سے بھی باتیں کیں اور نئے افراد ، نئے قبائل اور اجنبی افراد تک بھی دین کی دعوت پہنچائی۔ زبانی بھی پیغام رسانی کی اور خطوط بھی بھیجوائے ۔ انفرادی گفتگو بھی کی اور چھوٹے اور بڑے اجتماعات سے بھی خطاب کیا۔ جامع الکلِم کی صفت کے مطابق چھوٹے چھوٹے جملوں میں بھی کلام کیا اور مخاطبین کی نفسیات کے پیش نظر تمثیلوں اور قصّوں کے ذریعہ بھی ذہنوں تک بات پہنچائی اور قلوب میں بات جاگزیں کرائی۔ یہ تمام باتیں احادیث کی کتابوں میں انتہائی معتبر طریقہ سے محفوظ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مواقع ومحل کے لحاظ سے بدلے ہوئے ہوسکتے ہیں، لیکن مضمون وہی ملے گا جس کا ذکر اوپر قرآنی آیات کے حوالہ سے کیاجاچکا ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔
مکہ میں دعوت کے ابتدائی زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے افراد کو کھانے کی دعوت دی۔ پہلے موقع پر ابو لہب کی بد تمیزی کے سبب گفتگو کا موقع نہیں مل سکا، البتہ دوسرے موقع پر آپ ﷺ تھوڑی سی گفتگو کرسکے۔ اپنے افراد خانہ سے خطاب کرکے آپؐ نے فرمایا:
’’ یا بنی عبد المطلب ، یا عباس، یا صفیۃ عمۃ رسول اللہ، یا فاطمۃ بنت محمد انقذوا انفسکم من النار فانی لا املک لکم من اللہ شیئا، سلونی من مالی ما شئتم۔‘‘
( ’’اے اولاد عبد المطلب، اے عباس، اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی، اے فاطمہ محمدؐ کی بیٹی، تم لوگ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ کیوں کہ میں اللہ کی پکڑ سے تم کو بچانے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا، البتہ میرے مال میں سے تم جو چاہو مجھ سے مانگ سکتے ہو۔ (سیرت سرور عالم، سید ابو الاعلیٰ مودودی۔ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،جلد دوم۔ ص: 405)
اس تقریر میں آپؐ نے اپنے رسول ہونے کا ذکر’ یاصفیۃ عمۃ رسول‘ کہہ کر کیا ہے، اللہ کا ذکر اور اس کی پکڑ کا ذکر بھی ہے۔ اس طرح اس میں دعوت کے تینوں اجزاء توحید، آخرت و رسالت آگئے ہیں۔
کوہ ِ صفا کے سب سے اونچے مقام سے آپؐ نے قریش کے تمام خاندانوں کوجمع کرکے جو تقریر کی اس میں یہ الفاظ بھی ہیں’’ میں اللہ کا سخت عذاب آنے سے پہلے تم کو خبردار کرتا ہوں۔ اپنی جانوں کو اس کی پکڑ سے بچانے کی فکر کرو۔ میں اللہ کے مقابلے میں تمھارے کسی کام نہیں آسکتا۔ قیامت میں میرے رشتہ دار صرف متقی لوگ ہوں گے۔‘‘ (سیرت سرور عالم، جلد دوم، ص: 406)
یہ تھی سیدنا محمدﷺ کی دعوت کی ابتداء۔ ہم پورے عرصۂ نبوت میں دعوت کو اس محور پر گھومتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ مثلاً صلح حدیبیہ کے بعد جب کچھ سکون میسر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بادشاہوں اور امراء کے نام خطوط لکھ کر انھیں اسلام کی دعوت دی۔ ان خطوط میں سے کئی کے متون کی عکسی نقول محفوظ ہیں۔ نجاشی عظیم حبشہ کے نام خط میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی موجود ہے:’’ میں تمھاری طرف اللہ کی حمد کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں… میں اللہ وحدہ لا شریک لہ کی جانب اور اس کی اطاعت پر ایک دوسرے کی مدد کی جانب دعوت دیتا ہوں اور اس بات کی طرف (بلاتا ہوں) کہ تم میری پیروی کرو اور جو کچھ میرے پاس آیا ہے اس پر ایمان لاؤ کیوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ (الرحیق المختوم، صفی الرحمن مبارکپوری۔ المجلس العلمی علی گڑھ، طبع پنجم۔ ص: 549)
شاہ فارس خسرو پرویز کے نام خط میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا :
سلام علی مَن اتبع الہدی وآمن باللّٰہ وشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وان محمداً عبدہ و رسولہ ، ادعوک بدعایۃ اللہ فانّنی انا رسول اللہ الی الناس کافۃ لا نذر من کان حیّا…
’’ سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی اختیار کرے اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں تمھیں اللہ کی طرف بلاتاہوں، کیوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں جسے تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہے تاکہ میں زندوں کو (آخرت سے ) ڈراؤں…۔‘‘ (کلام نبوت، مولانا فاروق خان، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، حصہ پنجم، ص: ۱۱۱)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری حج کے خطبہ میں اپنے ان ہی پیغامات کا اعادہ کیا اور فرمایا’’… لوگو!تمھارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے،تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے… میں تمھیںاللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتاہوں… میرے بعد نہ کوئی پیغمبر آنے والا ہے اور نہ تمھارے بعد کوئی امت ہوگی … تم اپنے رب سے ملو گے تو اللہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں (ضرور) باز پرس کرے گا۔‘‘ (خطبہ حجۃ الوداع، پروفیسر نثار احمد، کتابی دنیا، دہلی۔ ص: ۱۲,16,6)
اب تک کی گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ نفس دعوت کے لازمی اجزا یہی ہیں، جنھیں حالات کا لحاظ کیے بغیر پہنچا دینا ہی وہ کام ہے جو امت مسلمہ کے ذمہ کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بات اس طرح بھی کہی جاسکتی ہے کہ اگر ان بنیادی باتوں کی ترسیل نہیں ہوئی تو دعوت کا حق ادا نہیں ہوا۔ البتہ دعوت کے اسلوب پر زمانہ اور اس کے حالات کا اثر پڑنا فطری بات ہے اور اس بات کا ثبوت قرآن و سنت میں موجود ہے۔
اوپر سورہ ہود کے حوالہ سے حضرت نوح ، حضرت ہود، حضرت صالح اور حضرت شعیب علیہم السلام کی اپنے اپنے قوم کو خطاب کرنے کے الفاظ کا ذکر ہے۔ ہم قرآن میں ان مقامات کی طرف دوبارہ رجوع کرتے ہیں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نفس دعوت کی یکسانیت کے باوجو د اسلوب دعوت حالات کے فرق کے ساتھ بدل جاتا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام نے ایک طویل عرصہ تک اپنی قوم کو دعوت دی اور وہ مرحلہ آگیا کہ جو لوگ ایمان لاسکتے تھے، لے آئے اور جو بچے وہ متکبر لوگ تھے جنھوں نے اپنے نبی کی تحقیر کی اور کہا ’’ہماری نظرمیں تو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ بس ایک انسان ہو، ہم جیسے ہو اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس ان لوگوں نے، جو ہمارے یہاں اراذل تھے، بے سوچے سمجھے تمھاری پیروی اختیار کرلی ہے اور ہم کوئی چیز بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے کچھ بڑھے ہوئے ہو، بلکہ ہم تو تمھیں جھوٹا سمجھتے ہیں۔‘‘ (ھود:27)
قوم کے ان بڑے لوگوں کے جواب میں اللہ کے رسول ﷺ نے جو باتیں کہیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
’’میں اس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا۔میں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس خزانہ ہے، نہ یہ کہ غیب کا علم ہے اور نہ یہ کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں ان لوگوں کو اپنے پاس سے الگ نہیں کروں گا جو مجھ پر ایمان لائے۔تم جہالت برت رہے ہو۔جن لوگوں کو تم حقارت سے دیکھتے ہو ان کے نفس کا حال اللہ ہی جانتا ہے‘‘۔ (ھود:۲۸-۳۱)
یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک عزت و ذلت کا معیار تو نفس کی حالت پر ہے ، تم بظاہر زمین پر بڑے بنے رہتے ہو مگر آسمان والے کی نگاہ میں حقیر ہواور تمھاری نگاہ میں یہ اراذل ، اصلاً عزت والے ہیں۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تکبر و غرور میں مبتلا سرداران قوم کا رویہ کیسا ہے اور اان کے جواب میں نبی وقت کا اسلوب کیا ہے۔
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم عاد سے دیگر باتوں کے علاوہ یہ بات بھی فرمائی:
وَیٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَاراً وَیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ ۔ (ھود:۵۲)
’’اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو ، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔ مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو۔‘‘
اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ مخاطب قوم کو زمین پر قوت حاصل ہے اور وہ مزید قوت حاصل کرنے کی حریص ہے۔ وقت کے نبی نے حسنات دنیا کے حصول کا بھی نسخہ کیمیا تجویز کردیا اور یہ بات باور کرادی کہ اللہ کی طرف پلٹ کر آنے( توبہ) کی صورت میں آخرت کی کامیابی کے ساتھ دنیا کی کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک منفرد اسلوب ِ دعوت ہے۔
قوم ثمودکی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا۔ قوم نے ان کی دعوت کے جواب میں اس بات پر تعجب کیا کہ تو تو ہماری قوم کا ایسا فرد تھا جس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں:
یٰصٰلِحُ قَدْ کُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوّاً قَبْلَ ہٰذَآ۔ (ھود: ۶۲)
اور اب تم چاہتے ہو کہ ہم ان معبودوں کی پرستش چھوڑدیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے آئے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت صالح علیہ السلام حقیقتاً قوم کے ایک ’ مرد صالح‘ تھے۔ انھوں نے قوم کے جواب میں جو بات کہی وہ ایک خاص اسلوب ِ دعوت ہے :
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَئَیْتُمْ اِنْ کُنْتَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَاٰتٰنِیْ مِنْہُ رَحْمَۃً فَمَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰہِ اِنْ عَصَیْتُہْ فَمَا تَزِیْدُوْنَنِیْ غَیْرَ تَخْسِیْرٍ O (ھود: 63)
’’صالح نے کہا: اے میری قوم کے لوگو ! تم نے کچھ اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نواز دیا تو اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا ، اگر میں اس کی نافرمانی کروں؟ تم میرے کس کام آسکتے ہو سوائے اس کے مجھے اور زیادہ خسارے میں ڈال دو۔‘‘
اس طرح داعی ’حق یہ کہہ رہا ہے کہ تمھارے راستہ پر میرا نہ چلنا اور تمھیں اپنے راستہ کی طرف دعوت دینا میرا منصب ہے، کیوں کہ میرے رب نے اپنے فضل خاص سے مجھ پر حق کی راہ واضح کردی ہے۔ اب اگر میں اپنی منصبی ذمہ داری ادا نہ کروں تو مجھے اپنے رب کی سخت پکڑ کا خطرہ ہے۔ یعنی میں تمھارے رب کا پیغامبر ہوں اور میں اپنا کام اسی وجہ سے کررہا ہوں۔ تم نے اگر یہ بات قبول کرلی تو در اصل اپنے رب کا پیغام قبول کیا۔ نہیں قبول کیا تو میں اپنی ذمہ داری سے بری ہوں۔ میں اپنا کام کرکے اپنے رب سے اپنا معاملہ ٹھیک کررہا ہوں۔ اب اس پیغام کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ تم اور تمھارے رب کے درمیان کامعاملہ ہے۔
حضرت شعیب علیہ السلام مدین والوں کی طرف بھیجے گئے جنھوں نے بندگئ رب کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کو ایک نمایاں خرابی سے روکا:
… وَلاَ تَنْقُصُوْا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ اِنِّیْ اَرَاکُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابِ یَوْمٍ مُّحِیْطٍO وَیٰقَوْمِ اَوْفُوْ الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُوْا النَّاسَ اَشْیَآئَ ہُمْ وَلاَ تَعْثَوْا فِیْ الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَO بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَO وَ مَآ اَنَا عَلَیْکُمْ بَحَفِیْظٍ O قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصلٰوتُکَ تاْمُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا ط اِنَّکَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ O (ھود: ۸۴-۸۷)
’’ … اور نا پ تول میں کمی نہ کیا کرو۔ آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں، مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا ۔اور اے برادرانِ قوم! ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ اللہ کی دی ہوئی بچت تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم مومن ہو۔ اور بہرحال میں تمھارے اوپر کوئی نگرانِ کار نہیں ہوں۔ انھوں نے جواب دیا! اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنی منشا کے مطابق تصرف کا اختیار نہ ہو؟ بس تو ہی تو ایک عالی ظرف اور راست باز آدمی رہ گیا ہے‘‘۔
وقت کے نبی نے اپنی قوم کی ایک اخلاقی خرابی پر انگلی رکھ دی اور قوم کو اس بات پر تعجب ہے کہ ہمارے روز مرہ کے عمومی دنیاوی معاملات (mundane secular affairs)سے دین کا کیا لینا دینا ۔ اگر ہمارا لینے اور دینے کا پیمانہ الگ ہے تو اس سے ہمیں فائدہ ہورہا ہے، تم کون ہوتے ہو اس سے منع کرنے والے۔ کیا ہم اپنے اموال کے معاملہ میں اپنی مرضی نہیں چلاسکتے۔ متذکرہ اسلوب دعوت کا حسن یہ ہے کہ دنیاوی معاملات (secular/worldly dealings)کے معاملہ میں دین اسلام کا رویہ واضح ہوگیا اور اس کی وضاحت ہوگئی کہ مال اللہ کی طرف سے انسان کے پاس امانت ہے اور اس کے جمع و خرچ کے معاملہ میں انسان اللہ کی مرضی کا پابند ہے۔
دعوت کے نقطۂ نظر سے آج کا ہندوستان
ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے۔ ایک پوری دنیا یہاں آباد ہے۔ رنگ ، نسل، تہذیب ، زبان ، مذہب اور دیگر لحاظ سے مختلف قسم کے افراد یہاں بستے ہیں۔ ملک کی بڑی آبادی ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے جو دیگر مذاہب کی طرح متعینہ اور شفاف عقائد کی بنیاد پر کوئی مذہب نہیں ہے ، اسے ایک تہذیب کہاجاتا ہے، لیکن اس سے وابستہ افراد کسی تہذیبی اکائی کے حامل نہیں ہیں، البتہ جو چیزیں اس مذہب کے حاملین کے درمیان قدر مشترک ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(۱)آواگون کا عقیدہ(۲)ورن آشرم کی بنیاد پر ذات پات کی تقسیم(۳)مخصوص تاریخ اور ماضی کی مخصوص شخصیات سے تعلق۔ ہو سکتا ہے یہ تاریخ اور شخصیات فرضی ہوں اور داستان گو افراد کی وجہ سے انھیں شہرت ملی ہو۔(۴)شرک، بشمول اپنے ملک کی سرزمین سے اتنی عقیدت کہ اسے قابل پرستش سمجھنا۔(۵)آستھائیں (جو پیدا کی جاسکتی ہیں اور پیدا کی جاتی رہتی ہیں)۔
1947 میں ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اور ساتھ ہی تقسیم بھی ہوگیا۔ اس کے قبل سے مختلف تاریخی وجوہ سے غیر مسلمین کی بڑی تعداد مسلمانوں سے اجنبیت محسوس کرتی ہے اور انھیںغیر سمجھتی ہے۔ مزید برآںمسلم دشمنی کے بھی عناصر پنپتے رہے ہیں اور ان چیزوں کو ہوا دینے میںایک منظم گروہ جی جان سے لگا ہوا ہے۔ ملک آزاد ہونے کے بعد یہاں کی ہندو آبادی میں ایک قسم کا اعتماد پیدا ہوگیا ہے کہ جلد ہی یہ ملک دنیا کی ایک بڑی قوت بن جائے گا۔ سوپر پاور بننے کا یہ خواب اس آبادی کے لیے آواگون کے عقیدہ جیسا ہی اہم اور پختہ ہوگیا ہے۔ ملک کی بڑی آبادی ہندی زبان بولتی ہے اور ان افراد کو فطری طور پر اپنی زبان سے قلبی لگاؤ ہے۔ اکثر یہ قلبی لگاؤ دیگر زبانوں سے حسد کی راہ بھی اختیار کرلیتا ہے۔
ورن آشرم کی بنیاد پر سماجی تفریق سے اس بات کا امکان قوی رہا ہے کہ پس ماندہ طبقات اسلام کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ریزرویشن کی پالیسی کے ذریعہ اس کا نظم کیا گیا کہ کچھ مالی اور کچھ تمدنی فائدوں کی وجہ سے یہ لوگ ہندو مذہب سے باہر نہ جائیں۔ ساتھ ہی اسلام دشمنی کی لو کو تیز تر کیا جاتا رہا، تاکہ نگاہیں اسلام کی طرف نہ اٹھیں۔ دوسری طرف ان طبقات، خصوصاً ان کے لیڈروں کی نفسیات یہ بن گئی کہ وہ سسٹم سے جڑے رہ کر معاشی فائدے حاصل کرتے رہیں او راپنی سیاسی صف بندی کرکے سیاسی قوت کے حصول میں لگے رہیں۔
درج بالا تمام امور دعوت کے نقطۂ نظر سے قابل توجہ ہیں اور ان بدلے ہوئے حالات میں نئے اسلوب ِ دعوت کی تلاش میں ان میں سے کسی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
اسلوب ِ دعوت میں قرآن کی رہ نمائی
قرآن کریم میں سابقہ اقوام اور ان کے پاس بھیجے گئے انبیاء کی جو تاریخ بیان کی گئی ہے ان پر غور کیا جائے تو آج کے حالات میں اسلوب دعوت کی نشاند ہی ہوجائے گی۔ مثلاً پچھلے صفحات میں قرآن کریم کی سورہ ھود میں مذکور جن واقعات کا ذکر ہے ان پر غور کیا جائے تو درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں: (i) حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کے سرداروں کے درمیان کی گفتگو سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آج کے ہندوستان کے تمام طبقات کو دعوت کا مخاطب بنانا چاہیے اور اس عمومی دعوت کے نتیجہ میں کمزور طبقات کے افراد زیادہ قریب آئیں تو یہ عین سنت الٰہی ہے۔ یہ بات قوم کے مکبر افراد کو ناگوار گزرتی ہے تو گزرا کرے۔
اپنا تو کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
(ii) حضرت ھود علیہ السلام کی اپنی قوم کو دعوت کے حوالہ سے یہ اسلوب دعوت ابھر کر سامنے آتا ہے کہ قوم کو یہ باور کرایا جائے کہ جن حسنات کی دنیا کی تلاش میں وہ سرگرداں ہیں ان کے حصول کا ذریعہ بھی اسلام ہی ہے۔ یہاں آخرت مطلوب ہے تو دنیا نا مطلوب نہیں ہے۔ اسی اسلوبِ دعوت کے تحت اسلامی نظام حیات کے تمام شعبوں کی وضاحت کی ضرورت ہے۔ ہندوستانیوں کی نفسیات میں جس طرح ملک کی اتنی ترقی کا تصور سرایت کرگیا کہ یہ دیش جلد از جلد سپر پاور بن جائے اس کی نفی کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اسلا م کے نظام رحمت ہونے کی تشریح ہونی چاہیے کہ کس طرح اسی نظامِ رحمت کی پروردہ ، ایک (نہایت کمزور اور غیر متمدن) قوم کے حیرت انگیز حد تک سوپر پاور بن جانے کا واقعہ تاریخ میں محفوظ ہے۔(iii) جس طرح مدین والوں پر حضرت شعیب علیہ السلام نے یہ واضح کردیا تھا کہ قوم کے ناپ تول میں کمی کرنے اور لینے دینے کے پیمانوں میں فرق کے نتیجے میں پوری قوم تباہ ہوجائے گی، اسی طرح اس ملک عزیز کے باسیوں تک یہ پیغام پہنچانا ضروری ہے کہ کرپشن اور دیگر اخلاقی خرابیوں کے نتیجہ میں پورے ملک وقوم کی تباہی ہے۔ اللہ پر ایمان اور آخرت میں جواب دہی کے یقین کے ذریعہ ہی ان خرابیوں کی اصلاح ممکن ہے۔ اصلاح حال کی اور کوئی سبیل نہیں ہے۔(iv) اپنے منصب کی وضاحت ضروری ہے۔ اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ آخر کیوں ہم اپنے دین کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ’’ ہم بھی خوش رہیں، آپ بھی خوش رہیں، آخر ہمیں کیوں چھیڑتے ہیں‘‘۔ جس طرح قوم ثمود پر حضرت صالح علیہ السلام نے واضح کردیا تھا کہ وہ اس کام پر اللہ کی طرف سے مامور کیے گئے ہیں اور اگر وہ یہ کام نہ کریں تو اللہ کی پکڑسے انھیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ ویسے ہی امت مسلمہ ہند کو خوداپنا مقام ومنصب سمجھنا چاہیے اور اپنے قول و عمل سے اس کی وضاحت کردینی چاہیے کہ وہ اس کام پر مامور ہیں کہ وہ اخلاص کے ساتھ تمام بندگان خدا تک پیغام ِ رب پہنچاتے رہیں۔
نیا اسلوب ِ دعوت اور سیرت نبویؐ میں اس کے دلائل
۱- بحث نہیں محبت:
ہمارے زمانہ اور ہمارے ملک میں مناظرانہ طریقۂ دعوت کی بہت تشہیر ہوئی۔ ہوسکتاہے اس کی کوئی افادیت ہو ، لیکن سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ِ مبارکہ میں جو بات ہمیں ملتی ہے وہ بحث میں ہراکر چپ کردینے کی نہیں ہے بلکہ مخاطب کے عذاب میں مبتلا ہونے کا خوف اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے احساس کے تحت سوز و گداز کے ساتھ دعوت کا کام ہے۔ حدیث میں آپ ﷺ نے ایک تمثیل سے اس کی وضاحت کی ہے کہ لوگ آگ میں کودنے پر آمادہ ہیں اور آپؐ ان کی کمر پکڑ پکڑ کر انھیں ا س سے بچا رہے ہیں۔ ہندوستان کی عظیم اکثریت جوہمیں اپنا مد مقابل سمجھتی ہے اسے یہ باور کرانا چاہیے کہ ہمیں ان سے محبت ہے اور یہی جذبہ ہمیں انھیں پیغام حق پہنچانے پر آمادہ کرتا ہے۔
۲- ہمیں ہر طبقہ مطلوب ہے:
ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرو بن عبسہ نے دریافت کیا کہ ابتداء ً آپ ؐ کے ساتھ کون لوگ تھے۔ آپؐ نے جواب دیا ایک مرد آزاد اور ایک غلام ۔ (محسن انسانیت، ص: 102)۔ اس موقع پر راوی کے بیان کے مطابق حضرت ابو بکر صدیق اور حضر ت بلال رضی اللہ عنہما آپ ؐ کے پاس موجود تھے اور یہ جواب ان دونوں کی طرف اشارہ کرکے آپ ؐ نے دیا تھا۔یہ جواب در اصل خوبصورت انداز میں دین اسلام کی دعوت کا ذکر ہے۔ یہاں آزاد بھی مطلوب ہے اور غلام بھی۔ یہ دین سماج کے تمام طبقات کا دین ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسلام کی دعوت سب کے لیے عام ہے۔ قوم نوح ؑ نے جو شکایت کی تھی کہ نبی کی صحبت میں سماج کے کمزور طبقات کے لوگ بیٹھتے ہیں، وہی شکایت سرادرانِ قریش کو تھی۔ ان پر بھی یہ بات واضح کردی گئی کہ یہ صلائے عام ہے، یہاں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ یہ بات بالکل بدیہی ہے ، اس کے باوجود یہاں اس کا ذکر دو وجوہ سے کیا جارہا ہے۔ ایک یہ کہ ماضی میں ہندوستانی مسلمانوں کے رؤسا یہ غلطی کر چکے ہیں کہ انھوں نے یہاں کی اونچی ذات کے لوگوں کے ساتھ نشست وبرخواست رکھی اور کمزور طبقات کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ دوسری وجہ اس بات کو بیان کرنے کی یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسا اسلامی لٹریچر موجود ہے جس میں دعوت کی ترتیب یہ بتائی گئی ہے کہ پہلے سماج کے اونچے طبقات کو خطاب کیا جائے۔ یہ بات، ہوسکتا ہے کہ کسی زمانہ کے لیے درست ہو جب سماج کے یہ اونچے لوگ عوام الناس پر کوئی اثر رکھتے ہوں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہر شخص آزاد ہے۔(ماؤ ں نے تو انھیں آزاد ہی جنا تھا)۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یہ ہے کہ جو شخص بھی مل جاتا اس تک اپنی بات پہنچاتے اور جو قبول کرلیتا اسے اپنا لیتے ۔ جہاں یہ بات درست ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم طائف گئے اور وہاں کے سرداروں تک اسلام پیش کیا ، وہیں یہ بھی ایک تاریخی واقعہ ہے کہ حضرت خالد العدوانی نے ،جو طائف کے رہنے والے تھے آپ کو قرآن کی سورہ طارق پڑھتے سنا اور اس قدر متأثر ہوئے کہ حالت کفر ہی میں پوری سورہ یا د کرلی اور آخر اسلام لائے۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ (سیرت النبی، سید سلیمان ندوی، مطبع معارف اعظم گڑھ 1984 ،جلد چہارم، ص: 386)
اور وہیں وہ واقعہ بھی یاد رکھنے کا ہے کہ شہر کے باہر باغ میں نینوا کے باشندہ ، عیسائی غلام عداس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت نبی پہنچان لینے کے بعد آپؐ کے سر اور ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیا۔ (الرحیق المختوم، ص: 201)
۳- زبان کا مسئلہ:
ہندوستان کے ان علاقوں میں، جہاں مسلمان اور غیر مسلم دونوں کی زبان یکساں ہے۔ مثلاً کیرلہ، گجرات، بنگال وہاں کا یہ مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ ہندی بیلٹ میں جہاں مسلمان اردو بولتے ہیں اور غیر مسلم ہندی، وہاں زبان کا مسئلہ بہت بڑا اور اہم ہے۔ دعوت کے لیے تو مخاطِب کو مخاطَب کی زبان تمام عصبیتوں کو بالائے طاق رکھ کر اختیار کرنی ہوگی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے تمام قبائلی لہجوں سے واقف تھے۔ آپ ؐ ہر قبیلہ سے اسی کی زبان اور محاوروں میں گفتگو فرماتے تھے۔ آپ ؐ میں بدویوں کا زور بیان اور قوت تخاطب اور شہریوں کی شائستگی جمع تھی۔ (الرحیق المختوم، ص: 757)۔آپ ؐ کی عربی کا معیار اتنا بلند تھا کہ صحابہ کرام حیران رہ جاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فصیح العرب تھے۔ ایک موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تعجب سے کہا ’’ میں عرب میں گھوما پھرا ہوں اور فصحائے عرب کا کلام سنا ہے لیکن آپؐ سے بڑھ کر کلام فصیح کسی اور سے نہیں سنا ہے‘‘ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا’’ ادَّبنی ربی ونشأت فی بنی سعد‘‘ (میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور میں نے قبیلہ بنی سعد (کی فصاحت آموز فضا) میں پرورش پائی ہے)۔ (محسن انسانیت، ص: 100)
اسلوب دعوت کو یہی حسین امتزاج درکار ہے جہاں فصاحت بھی ہواور مخاطَب کی زبان ، لب و لہجہ اور استعاروں سے واقفیت بھی ہو اور ترسیل دعوت میں اس کا استعمال بھی ہو۔
۴- اپنی دعوت اپنے ماخذ کے حوالہ سے:
دعوت کے کام کرنے والوں کا یہ ذہن بن گیا ہے کہ ہمیں مدعو کے عقائد، افکار اور ان کی مذہبی کتابوں سے راست واقفیت ضروری ہے۔ مثلاً سنسکرت کے حوالہ جات، اپنے عقائد کو دوسری کتابوں سے ثابت کرنا وغیرہ۔ اسوہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ طریقہ متغائر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ عبرانی تو عبرانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو عربی بھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔در اصل اپنے ماخذ کی راست واقفیت اور ان کے حوالہ سے گفتگو کافی وشافی ہے۔
مذکورہ بالا بات کے فہم میں ایک دقت یہ پیش آتی ہے کہ ہمارے زمانہ میں احمد دیدات صاحب نے غیر مسلموں کے ساتھ اپنے مناظروں اور مجادلوں میں جس طرح بائبل کے عہد نامہ عتیق و جدید سے، اور ڈاکٹر ذاکر نائک نے مزید دیگر مذاہب کی کتب سے حوالہ جات کا استعمال کیا ہے اس کی افادیت لوگوں کے سامنے ہیں۔ اس سلسلہ میں چند باتیں نوٹ کرنے کی ہیں۔
(i) دین اسلام کے ان دونوں داعیوں کی کامیابی کا اصل راز قرآن کریم کی طرف ان کا رجوع کرنا ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ احمد دیدات کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ڈاکٹر ذاکر نائک کو اور زیادہ زورِ بیاں عطا کرے۔ آمین۔ ان لوگوں کی گفتگو کی تاثیر قرآنی آیات کے حوالوں کی مرہون منت ہے۔
(ii) تمام خوبیوں کے باوجود یہ بات بھی درست ہے کہ مناظروں کا ماحول دعوت کی فضا ہموار کرنے میں مانع ہوسکتا ہے۔ چند افراد کے لیے تو یہ مناسب ہوسکتا ہے کہ وہ ملت اسلامیہ کی طرف سے فرض کفایہ ادا کرنے کیلئے اس طریقہ کو اختیار کریں، لیکن اس کا عمومی استعمال مناسب نہیں ہے۔
(iii) جہاں تک بائبل کا تعلق ہے، عہد نامہ عتیق و جدید دونوں کویک گونہ تقدس حاصل ہے۔ تمام تر حذف و اضافہ کے باوجود ان میں حق کے اجزاء موجود ہیں اور ان کی تلاش میںغواصی کی معنویت ہے۔ ہمارے علماء بشمول احمد دیدات ؒ نے بائبل کے دونوں اجزاء میں موجود بگاڑ کی احسن طریقہ سے نشان دہی کردی ہے اور ان میں جو کچھ خیر ہے اس کی بھی وضاحت کردی ہے۔ لیکن یہ صورت حال وید، گیتا، پران اور مذاہب کی دیگر کتب کے سلسلہ میں نہیں ہے۔ اس لیے انھیں تقدس عطا کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے۔ عہد نامہ عتیق و جدید اصلاً مقدس ہیں جن میں بڑے پیمانہ پر حذف و اضافہ کیا گیا ہے، جب کہ دیگر مذہبی کتب کی اصلیت نا معلوم ہے۔
ہمیں اپنے ماخذ کے علاوہ دیگر مذہبی کتابوں کو تقدس عطا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ در اصل اس طرح کے حوالوں سے مخاطب کے ذہن میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مخاطِب جو اچھی بات کہہ رہا ہے وہ ان کے یہاں پہلے سے موجود ہے اس لیے اس دعوت کو قبول کرنے کی حاجت نہیں ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ یہ خیال کہ ہر اچھی بات ہمارے پاس پہلے سے موجود ہے، اس ملک میں دعوت کے کام میںایک بڑی رکاوٹ ہے۔
۵- قرآن و حدیث کے حوالہ سے دیگر عقائد کی نفی کریں:
دعوت کی راہ کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شرک اور آواگون کے عقیدہ کی نفی سے ذہن بھڑک سکتا ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ توحید اور معاد کے سلسلہ میں راست قرآن کی آیات کا ترجمہ اور احادیث کا مفہوم ان ہی حوالوں سے پیش کیا جائے۔ دونوں انداز میں بات بدل جاتی ہے۔ اور سامع (مدعو) پر اس کی تاثیر میں بھی فرق واقع ہوجاتا ہے۔ ایک یہ کہ ایک عام آدمی اپنے انداز سے کوئی دلیل دے اور دوسرے یہ کہ انسانوں کے رب اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام راست ان حوالوں سے پہنچا دیا جائے۔
۶- تالیف قلب:
مولانا سید سلیمان ندوی نے حکمت ِ تبلیغ بیان کرتے ہوئی تالیف قلب کا عنوان باندھا ہے اور لکھا ہے کہ ’’ اس سے مقصود اس شخص کے ساتھ جس کو اسلام کی طرف مائل کرنا ہو، لطف و محبت، امداد و اعانت، غمخواری وہمدردی کرنا ہے، کیونکہ انسان طبعاً شریفانہ جذبات کا ممنون ہوتا ہے‘‘(سیرت النبی جلد چہارم ،ص: 356) ۔ آگے اس کی مثال دیتے ہوئے حنین کے غزوہ کا ذکر کیا ہے۔ جب سارا مال مکہ کے بعض رئیسوں کے حوالہ کرکے ان کا دل جیت لیا گیا تھا۔ تالیف قلب کا تعلق صرف مال سے نہیں بلکہ اسلوب سے بھی ہے۔ ہم اس کی طرف متوجہ ہوں تو ہماری زبان اور ہمارے انداز (Gesture and body language) سب پر اس کا اثر پڑے گا۔
۷- مخاطب کو بحث میں ناکام کرنے کے بجائے بنیادی پیغام پہنچائیں:
گفتگوکے دو الگ الگ طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ جس سے گفتگو ہورہی ہو اس کو اپنی دلیل سے بے دلیل، بلکہ ذلیل کردیا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ گفتگو کا جو موقع ملا ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اساسیات دین میں سے کوئی بات بتانے کا موقع نکالا جائے۔ ایک مثال سے اس بات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اکثر گوشت خوری پر سوال ہوتا ہے۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ آپ جو سبزیاں کھاتے ہیں،ان میں بھی جان ہوتی ہے، یا ان کی مذہبی کتابوں کے حوالہ سے ثابت کیا جائے کہ گوشت خوری بلکہ گائے کا گوشت کھانے کا رواج قدیم زمانہ سے اس ملک میں رہا ہے اور اسے مذہبی تقدس حاصل ہے۔ یہ جواب چپ کردینے والا اور دندان شکن ہے۔ اسی سوال کاایک جواب وہ بھی ہے جس کا ذکر ایک دفعہ امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے اپنی ایک تقریر میں کیا تھا۔ ایک سفر میں ایک صاحب نے مولانا سے اعتراض کیا کہ آپ لوگ کوئی چیز کھاتے ہیں اور کوئی چیز نہیں کھاتے ، جیسے سور کا گوشت نہیں کھاتے ہیں،یہ کیا بات ہوئی؟ مولانا نے جواب میں کہا کہ اگر میں آپ سے مختلف چیزوں کا نام لے کر پوچھنا شروع کروں کہ کیا آپ وہ چیز کھاتے ہیں تو آپ کیا جواب دیں گے۔ مثلاً کیا آپ بلی کا گوشت کھاتے ہیں؟ شاید آپ ہاں کہہ دیں۔ اگلا سوال کتے کے گوشت کے بارے میں ہوگا، کسی چیز کے بارے میں تو آپ کہیں گے کہ آپ نہیں کھاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ہر چیز کھانے کی نہیں ہوتی ہے، بلکہ کوئی چیز نہیںکھانے کی بھی ہوتی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کھانے اور نہ کھانے کے فیصلہ کی بنیاد کیا ہو؟ اپنا ذوق، اپنی تہذیب یا کچھ اور ۔ ہم مسلمانوں کے سامنے اس کی بنیاد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے۔
۸- ذات رسولؐ کو دعوت کا محور بنائیے اور ذات رسولؐ کا پرتو بنئے:
اس ملک کا مزاج شخصیات سے متأثر ہونے کا ہے۔ سیرت ِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم یہاں دعوت کا بہترین ذریعہ ہے ۔ کسی دوسرے معاملہ کے بارے میں گفتگو کیجیے تو آپ سے اتفاق کرتے ہوئے کہہ دیا جائے گا کہ ہمارے یہاںیہ تعلیم موجو د ہے۔ سیرت ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کا یہ جواب نہیں دیا جاسکتا ۔ دوسری بات یہ کہ ملک میں افراد کے سلسلہ میں اعتماد ختم ہوگیا ہے۔ ماضی کے اچھے کردار کا ذکر متاثر ضرورکرتا ہے۔ اس کے ساتھ سیرت رسول ؐ کے کردار کا پرتو کوئی شخص چلتا پھرتا نظر آجاتا ہے تو انسانی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں اور قلب و ذہن مائل بہ قبول حق ہوجاتے ہیں۔
۹- گفتگو اعتماد کے ساتھ کیجیے:
قرآن وسنت میں باتیں یقین اور اعتماد کے ساتھ کہی گئی ہیں۔ یہ بات کہ خدا ایک ہی ہوسکتا ہے اور آخرت کا امکان ہے ، کے مقابلے میں گفتگو اس طرح کرنی چاہیے کہ خدا ایک ہے اور آخرت ہوگی۔
آخر میں ایک واقعہ نقل کرکے ہم اپنی گفتگو ختم کرتے ہیں۔ ’’ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر حارث (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضائی باپ) جب مکہ تشریف لائے تو قریش نے کہا:کچھ سنا ہے، تمھار ا بیٹا کہتا ہے کہ لوگ مر کر پھر زندہ ہوں گے، انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ، بیٹا یہ کیا کہتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی زوردار لہجے میں فرمایا:وہ دن آئے گا اور میں آپ کا ہاتھ پکڑ کربتادوں گا کہ جو کچھ میں کہتا تھا سچ تھا، ان پر اس کا یہ اثر پڑا کہ فوراً مسلمان ہوگئے اور یہ گہرا ہوا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر میرا بیٹا ہاتھ پکڑے گا تو جنت میں پہنچاہی کر چھوڑے گا۔(سیرت النبی جلد چہارم ،صفحات 396-397)
ہم سب اسی بات کے متمنی ہیں کہ درست اسوۂ دعوت کو اختیار کرکے احسن طریقہ سے دعوت کا کام کرکے سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام سکیں اور رضائے الٰہی اور اللہ کی جنت سے ہمکنار ہوں۔
اللہ حفیظ میرٹھی کو غریق رحمت کرے کہ انھوں نے ہماری اس تمنا کو خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنایا؎
ہم کو بھی اشارہ ہو کہ آ تو بھی حفیظؔ آ
جب دست مبارک میں شفاعت کا علم ہو
مشمولہ: شمارہ جنوری 2014