اشارات

راہِ حق کے لیے ایک تعبیر جو قرآنِ مجید میں استعمال کی گئی ہے وہ ’‘فطرت اللہ‘‘ کی ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿اسورة الروم: ۰۳ ۔ ۲۳﴾

’’﴿پس اے نبی اور نبی کے پیروو﴾ یک سو ہوکر اپنا رخ اِس دین کی سمت میں جمادو۔ قائم ہوجاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی۔ یہی بالکل راست اور درست دین ہے۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ ﴿قائم ہوجاؤ اس دین پر﴾ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور ڈرو اس اللہ سے اور نماز قائم کرو اور اُن مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ جنھوں نے اپنا اپنا دین الگ بنالیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے، اسی میں وہ مگن ہے‘‘۔

مندرجہ بالا آیات میں کئی اہم حقائق بیان کیے گئے ہیں:

﴿۱﴾ پہلی حقیقت جو بیان ہوئی ہے، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ دین ﴿جس کو اختیار کرنے کا انسانوں سے مطالبہ کیا جارہا ہے﴾ عین اس فطرت کے مطابق ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے اِن آیات کی تشریح میں اس پہلو کا تذکرہ کیا ہے، مولانا فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے آدمی کی ساخت اور تراش شروع سے ایسی رکھی ہے کہ اگر وہ حق کو سمجھنا اور قبول کرنا چاہے تو کرسکے۔ اس نے اپنی اجمالی معرفت کی ایک چمک اُس کے دل میں بطورِ تخمِ ہدایت کے ڈال دی ہے۔ اگر انسان گردو پیش کے احوال اور ماحول کے خراب اثرات سے متاثر نہ ہو اور اصلی طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تو یقینا دینِ حق کو اختیار کرے اور کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہو۔ ’’عہدِ الست‘‘ کے قصے میں اسی کی طرف اشارہ ہے اور احادیثِ صحیحہ میں تصریح ہے کہ ’’ہر بچہ فطرۃً ﴿اسلام پر﴾ پیدا ہوتا ہے، بعد میں اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بنادیتے ہیں‘‘۔ ایک حدیثِ قدسی میں ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو ’’حنفائ‘‘ پیدا کیا۔ پھر شیاطین نے اغوا کرکے انہیں سیدھے راستے سے بھٹکادیا۔ بہرحال دینِ حق، دینِ حنیف اور دینِ قیم وہ ہے کہ اگر انسان کو اس کی فطرت پر مخلّٰی بالطبع چھوڑ دیا جائے تو اپنی طبیعت سے اسی کی طرف جھکے۔‘‘ ﴿تفسیر از مولانا شبیر احمد عثمانی  ؒ﴾

﴿۲﴾ دوسری حقیقت جس کا تذکرہ ان آیات میں کیا گیا ہے یہ ہے کہ واقعے کے اعتبار سے انسان خدا کا بندہ ہے۔ اس واقعے کو نہیں بدلا جاسکتا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ان آیات کی تشریح میں فرماتے ہیں:

’’خدا نے انسان کو اپنا بندہ بنایا ہے اور اپنی ہی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ . انسان خواہ اپنے کتنے ہی معبود بنابیٹھے، لیکن یہ امرِ واقعہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے۔ انسان اپنی حماقت اور جہالت کی بنا پر جس کو چاہے خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دے لے اور جسے بھی چاہے اپنی قسمت کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ بیٹھے، مگر حقیقت نفس الامری یہی ہے کہ نہ الوہیت کی صفات اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل ہیں، نہ اُس کے اختیارات، اور نہ کسی دوسرے کے پاس یہ طاقت ہے کہ انسان کی قسمت بناسکے یا بگاڑ سکے۔‘‘ ﴿تفہیم القرآن، جلد سوم، سورہ روم، حاشیہ: ۶۴﴾

﴿۳﴾ تیسری حقیقت جو ان آیات میں بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ دینِ فطرت سے انحراف کا نتیجہ انسانوں کا باہم تفرقہ ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’دینِ فطرت کے اصول سے علیحدہ ہوکر لوگوں نے مذہب میں پھوٹ ڈالی اور بہت سے فرقے بن گئے۔ ہر ایک کا عقیدہ الگ اور مذہب و مشرب جدا۔ جب بھی کسی نے غلط کاری یا ہوا پرستی سے کوئی عقیدہ قائم کرلیا یا کوئی طریقہ ایجاد کردیا، ایک جماعت اسی کے پیچھے ہوگئی اور تھوڑے دن بعد ایک فرقہ بن گیا۔ پھر ﴿نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ﴾ ہر فرقہ اپنے ٹھہرائے ہوئے اصولوں و عقائد پر، خواہ وہ کتنے ہی مہمل کیوں نہ ہوں، ایسا فریفتہ… ہے کہ اپنی غلطی کا امکان بھی اُس کے تصور میں نہیں آتا۔‘‘﴿تفسیر جناب شبیر احمد عثمانی صاحب﴾

فطرت کے اثرات

گرچہ انسان اپنی تاریخ میں راہِ فطرت سے انحراف کرتا رہا ہے، لیکن فطرت کے اثرات انسانی سماج سے کبھی کلیتاً محو نہیں ہوئے ہیں۔ انسانی سماج میں جو خیر پایا گیا ہے یا آج پایا جاتا ہے، وہ اسی فطرتِ صالحہ کا اثر ہے۔ اس سلسلے میں مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے شاہ ولی اللہ ؒ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا ہے:

’’فطرتِ انسانی کی اسی یکسانیت کا اثر ہے کہ دین کے بہت سے اصولوں کو کسی نہ کسی رنگ میں تقریباً سب انسان تسلیم کرتے ہیں گو اُن پر ٹھیک ٹھیک قائم نہیں رہتے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں: .اللہ سب کا مالک وحاکم ہے، سب سے نرالا ہے، کوئی اس کے برابر نہیں، کسی کا زور اُس پر نہیں۔ یہ باتیں سب جانتے ہیں ﴿چنانچہ﴾ اُن پر چلنا چاہیے۔ ایسے ہی کسی کے جان و مال کو ستانا، ناموس میں عیب لگانا ﴿ایسے کام ہیں کہ اُن کو﴾ ہر کوئی برا جانتا ہے۔ اسی طرح اللہ کو یاد کرنا، غریب پر ترس کھانا، حق پورا دینا اور دغا نہ کرنا ﴿اِن کاموں کو﴾ ہر کوئی اچھا جانتا ہے۔ اِس ﴿راہ﴾ پر چلنا ہی دین سچا ہے۔ ﴿یہ امور فطری تھے﴾ مگر اُن کا بندوبست ﴿کرنے کے لیے﴾ پیغمبروں کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے سکھلادیا۔‘‘ ﴿ایضاً﴾

فطرت کے ان ہی اثرات کی بنا پر پیغمبروں کی دعوت کو تذکیر ﴿یاددہانی﴾ کہا گیا ہے۔ وہ کوئی نئی بات پیش نہیں کرتے جس سے انسانی فطرت نا آشنا ہو بلکہ اُن حقائق کو یاد دلاتے ہیں جن کا اجمالی شعور انسان کے اندر پہلے سے موجود ہے۔

ملحدانہ نقطہ نظر کی کمزوری

انسان کے متعلق الحادی فلسفے کا نقطۂ نظر اسلامی نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہے۔ فلسفہ الحاد کے مطابق انسانی رویے کی تشکیل محض اس کے سماجی ماحول سے ہوتی ہے۔ جیسا سماجی ماحول ہوتا ہے ایک فرد ویسا ہی رویہ اختیار کرلیتا ہے۔ اس کے سوچنے کا انداز، خوب و ناخوب کا معیار اور ردّ و قبول کے پیمانے سب کے سب سماجی ماحول سے متعین ہوتے ہیں۔ اس فلسفے کے مطابق کوئی ’’انسانی فطرت‘‘ موجود نہیں ہے جو فرد کے رویے کی تشکیل میں کوئی رول ادا کرتی ہو۔ اس فلسفے کی کمزوری واضح ہے کیونکہ یہ انسانوں میں پائی جانے والی اس اخلاقی حِس کی کوئی معقول توجیہ کرنے سے قاصر ہے جو ایک عالم گیر حقیقت ہے۔ اخلاقی حِس کی عالم گیر موجودگی کا انکار بہرحال ممکن نہیں ہے۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں:

’’انسان ایک اخلاقی وجود ہے . اللہ تعالیٰ نے اسے خیروشر کا امتیاز، اور خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا احساس الہامی طور پر عطا کیا ہے۔ یہ امتیاز و احساس ایک عالم گیر حقیقت ہے جس کی بنا پر دنیا میں کبھی کوئی انسانی معاشرہ خیروشر کے تصورات سے خالی نہیں رہا ہے۔ اور کوئی ایسا معاشرہ نہ تاریخ میں کبھی پایا گیا ہے نہ اب پایا جاتا ہے جس کے نظام میں بھلائی اور برائی پر جزا اور سزا کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار نہ کی گئی ہو۔ اس چیز کا ہر زمانے، ہر جگہ اور ہر مرحلۂ تہذیب و تمدن میں پایا جانا اِس کے فطری ہونے کا صریح ثبوت ہے۔ اور مزید برآں یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایک خالقِ حکیم و دانا نے اسے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے، کیوں کہ جن ﴿مادّی﴾ اجزائ سے انسان مرکّب ہے اور جن ﴿طبعی﴾ قوانین کے تحت دنیا کا مادّی نظام چل رہا ہے اُن کے اندر کہیں اخلاق کے ماخذ کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔‘‘ ﴿تفہیم القرآن، جلد ششم، سورہ شمس، حاشیہ ۵﴾

’’راہِ فطرت‘‘ ہی ’’معروف‘‘ ہے

’’راہِ فطرت‘‘ جن رویّوں پر مشتمل ہے اُن کا ہی دوسرا نام ’’معروف‘‘ ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید نے پیغمبروں کے کام کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ انھوں نے اپنی مخاطب قوموں کو ’’معروف‘‘ کی تلقین کی اور ہر اُس طرزِ عمل سے انہیں روکا جو’’معروف‘‘ کے خلاف ہو ﴿یعنی جس پر ’’منکر‘‘ کا اطلاق ہوتا ہو﴾ چنانچہ حضرت ہود علیہ السلام کی دعوت کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ ؐ وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ ؐ وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ ؐ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ    ﴿الشعرائ:۱۲۸۔۱۳۱﴾

’’﴿ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا:﴾ یہ تمہارا کیا حال ہے کہ تم ہر اونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بناڈالتے ہو اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو جبار بن کر ڈالتے ہو۔ پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘

حضرت صالح علیہ السلام نے قومِ ثمود کو اکڑنے اور بے لگام لوگوں کی اطاعت کرنے سے منع کیا:

وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا فَارِهِينَ ؐ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ ؐ وَلَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ ؐالَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَؐ        ﴿الشعرائ: ۱۴۹تا ۱۵۲﴾

’’﴿صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا:﴾ کیا تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ اُن میں عمارتیں بناتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اُن بے لگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو، جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے۔‘‘

حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی مخاطب قوم کو بے حیائی سے روکا:

أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ ؐ وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ عَادُونَؐ ﴿الشعرائ: ۱۶۵ تا ۱۶۶﴾

’’﴿لوط علیہ السلام نے اپنے مخاطبین سے کہا:﴾ کیا تم دنیا کی مخلوق میں سے مردوں کے پاس جاتے ہو اور تمہاری بیویوں میںتمہارے رب نے تمہارے لیے جو کچھ پیدا کیا ہے، اُسے چھوڑ دیتے ہو؟ بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزرگئے ہو۔‘‘

حضرت شعیب علیہ السلام نے اصحابِ ایکہ کو ناپ تول میں دیانت داری برتنے کی تلقین :

أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ ؐ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ؐ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ؐ وَاتَّقُوا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِينَؐ ﴿الشعرائ: ۱۸۱ تا ۱۸۴﴾

’’﴿شعیب علیہ السلام نے اصحابِ ایکہ سے کہا﴾ پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو۔ صحیح ترازو سے تولو اور لوگوں کو اُن کی چیزیں کم نہ دو۔ زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو اور اُس ہستی کا خوف کرو جس نے تمہیں اور گزشتہ نسلوں کوپیدا کیا ہے۔‘‘

پیغمبرانہ دعوتوں کی مندرجہ بالا رودادوں میں متعدد منکرات کا تذکرہ ہے، جن سے انبیائ علیہم السلام نے اپنے مخاطبین کو روکا ہے اور اُن کے مقابلے میں معروفات کی تلقین کی ہے۔ جن منکرات کا ذکر آیاہے، اُن میں فخر و غرور، ظلم و جبر، بے لگام لیڈروں کی اطاعت، بے حیائی اور فحش کام، ناپ تول میں کمی، بددیانتی اور فساد شامل ہیں۔ انبیائ علیہم السلام کی مساعی کے اس تذکرے میں درج ذیل امور قابلِ توجہ ہیں:

﴿الف﴾ توحید، رسالت اور آخرت کی بنیادی دعوت کے پہلو بہ پہلو انبیائ نے معروفات کی تلقین اور منکرات کی نفی کا التزام کیا۔ یہ اسوہ یقینا تمام داعیانِ حق کے لیے نمونہ ہے۔

﴿ب﴾ چونکہ معروف پر عمل اور منکر سے اجتناب کا رویہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے اس لیے انبیائ علیہم السلام نے منکر کے غلط اور قابلِ اجتناب ہونے پر کسی عقلی دلیل کے پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اُن کے نزدیک یہ امور ایسے نہ تھے جو دلیل کے محتاج ہوں۔ انسانی فطرت خوب جانتی ہے کہ اخلاق و معاملات میں بھلائی کیا ہے اور برائی کیا؟ چنانچہ بھلائی کو بھلائی کے طور پر رواج دینے اور برائی کو برائی ہونے کی بنا پر انسانی معاشرے سے عملاً مٹادینے کے لیے اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری قوت کے ساتھ اور انتہائی سوز و درد مندی کے ساتھ بھلائیوں کی تلقین کی جائے اور برائیوں سے منع کیا جائے۔ جن لوگوں میں کچھ صالحیت باقی ہوتی ہے اُن کے ضمیر اِس تلقین کو سن کر بیدار ہوجاتے ہیں اور وہ راہِ فطرت پر دوبارہ گامزن ہونے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ جن کی فطرت اُن کی غلط کاری کی وجہ سے بالکل مسخ ہوچکی ہوتی ہے وہ بالآخر اپنی بُری روش پر اصرار کی وجہ سے عذابِ الٰہی کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

امتِ مسلمہ کا فریضہ منصبی

انبیائ علیہم السلام کی سنت کے عین مطابق امت مسلمہ کا فریضہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر قرار دیا گیا ہے:

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ﴿آل عمران: ۱۱۰﴾

’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہلِ کتاب ایمان لاتے تو انہیں کے حق میں بہتر تھا۔ ﴿مگر صورتحال یہ ہے کہ﴾ گرچہ ان میں کچھ لوگ ایماندار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیش تر افراد نافرمان ہیں۔‘‘

معروف کا حکم دینا اور منکرسے روکنا اہلِ ایمان کی دائمی روش ہے۔ چنانچہ جب اقتدار اُن کو ملتا ہے تو وہ اسے اسی مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں:

الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ﴿الحج:۴۱﴾

’’﴿یہ اہلِ ایمان﴾ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے،زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

نبی کریمﷺ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ معروف کی تلقین کریں:

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿الاعراف:۱۹۹﴾

’’اے نبی! نرمی و درگزر کاطریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔‘‘

مولانا مودودیؒ نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے ’‘معروف‘‘ کے معنی بیان کیے ہیں:

’’دعوتِ حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی اُن سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنھیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام  کافی ہوتی ہے، جو ہر انسان کو حاصل ہے۔ اس طرح داعی حق کی اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتی ہے اور ہر سامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ آپ نکال لیتی ہے۔ ایسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ شورش برپا کرتے ہیں وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں کیونکہ عام انسان خواہ وہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں، جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلند اخلاق انسان ہے، جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کررہے ہیں، تو رفتہ رفتہ اُن کے دل خود بخود مخالفینِ حق سے پھرتے اور داعیِ حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ آخر کار مقابلے میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جن کے ذاتی مفاد نظامِ باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہوں، یا پھر جن کے دلوں میں تقلیدِ اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہ چھوڑی ہو۔‘‘  ﴿تفہیم القرآن، جلد دوم، سورہ اعراف، حاشیہ :۱۵۰﴾

معاشرے کے بگاڑ کے مراحل

کسی معاشرے کے بگاڑ کا ابتدائی مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ گرچہ معروف کو ’’معروف‘‘ ہی سمجھتے ہیں اور ’’منکر‘‘ کو برائی ہی ٹھہراتے ہیں مگر عملاً منکرات میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا معروف کو ﴿اچھا جاننے کے باوجود﴾ چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ یہ بگاڑ کی ابتدائ ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ابتدائی مرحلے میں لوگوں کے تصورات میں بگاڑ نہیں آتا، لیکن عمل میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ تصورات کی حد تک اُن پر خوب واضح ہوتا ہے کہ راہِ فطرت کون سی ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ راہِ فطرت ہی اختیار کیے جانے کے لائق ہے لیکن وہ شیطانی اغوا کا مقابلہ نہیں کرپاتے اور عملاً برائیوں کاشکار ہوجاتے ہیں۔ اگر بگاڑ کے اس ابتدائی مرحلے میں معاشرے کے ہوش مند عناصر اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائیں اور عملاً بھی اصلاح کی کوشش شروع کردیں تو بگاڑ اسی مرحلے میں رک سکتا ہے۔ لیکن اگر باشعور افراد غفلت برتیں توپھر بگاڑ بڑھنے لگتا ہے اور اس کا دوسرا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔

حدیثِ نبوی میں معاشرے کے بگاڑ کے مراحل کا تذکرہ ہے:

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا جب بنی اسرائیل خدا کی نافرمانیوں کے کام کرنے لگے تو اُن کے علمائ نے اُن کو روکا لیکن وہ نہیں رکے ﴿تو اُن کے علمائ ان کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے﴾ اُن کی مجلسوں میں بیٹھنے لگے اور اُن کے ساتھ کھانے پینے لگے۔ جب ایسا ہوا تو خدا نے اُن سب کے دل ایک جیسے کردیے اور پھر حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ ابن مریم ﴿علیہ السلام﴾ کی زبان سے خدا نے اُن پر لعنت کی۔ ایسا اس لیے ہوا کہ انھوں نے نافرمانی کی راہ اختیار کی اور اسی میں بڑھتے چلے گئے۔‘‘ ﴿راوی کہتے ہیں کہ اتنا کہنے کے بعد﴾ پھر نبیﷺ جو ٹیک لگائے بیٹھے تھے، سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا: ’’نہیں، اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم ضرور لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے رہو گے اور برائی سے روکتے رہوگے اور ظالم کا ہاتھ پکڑوگے اور ظالم کو حق کے آگے جھکاؤگے۔ اگر تم لوگ ایسا نہ کروگے تو تم سب کے دل بھی ایک ہی طرح کے ہوجائیں گے اور پھر خدا تمہیں اپنی رحمت اور ہدایت سے دور پھینک دے گا، جس طرح بنی اسرائیل کو اس نے محروم کردیا۔‘‘

اس حدیث نبوی میں حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی زبانی بنی اسرائیل پر لعنت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ؐ كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ؐ﴿المائدۃ: ۷۸،۷۹﴾

’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اُن پر داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے۔ انھوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا۔ برا طرزِ عمل تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔‘‘

بگاڑ کا عروج

مندرجہ بالا سطور میں معاشرے کے بگاڑ کے دو مراحل کا تذکرہ آیا ہے:

﴿الف﴾ پہلے مرحلے میں باشعور اور اہلِ علم افراد ابتدأ ً تو برائیوں سے روکتے ہیں لیکن جب برائیوں میں ملوث لوگ باز نہیں آتے تو اُن کا بائیکاٹ نہیں کرتے بلکہ سماجی قربت حسبِ سابق قائم رکھتے ہیں۔

﴿ب﴾ جب یہ ’’رواداری‘‘ پیدا ہوجاتی ہے تو پھر باشعوراور اہلِ علم افراد کے قلب و ذہن بھی برائی سے متاثر ہونے لگتے ہیں اور پورا سماج شر کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔

بگاڑ کے اس ہمہ گیر فروغ پر بھی اگر لوگ چوکنّے نہ ہوں اور اصلاح کی تدابیر اختیار نہ کریں تو خرابی اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ خرابی کا عروج یہ ہے کہ عمل کے بگاڑ سے آگے بڑھ کر تصورات، اور معیارات میں بگاڑ آجاتا ہے۔ لوگ منکر کو معروف سمجھنے لگتے ہیں اور معروف اُن کے لیے اجنبی ہوکر رہ جاتا ہے۔ اگر یہ صورتحال پیدا ہوجائے تو معاشرے میں ہر اصلاحی کوشش کی مزاحمت کی جانے لگتی ہے۔ اِس لیے کہ لوگ غلط روی کے خوگر ہوچکے ہوتے ہیں اوراسے گوارا نہیں کرتے کہ ان کی پسندیدہ روش سے کوئی اُن کو ہٹانے کی کوشش کرے۔

امتِ مسلمہ کے لیے چیلنج

اللہ کے فضل سے مسلم معاشرہ، اپنے تصورات اور اقدار کی حد تک، اب بھی معروف کو معروف ہی کہتا ہے اور منکر کو منکر تسلیم کرتا ہے لیکن عام انسانی معاشرے کی یہ صورتحال نہیں ہے۔ اب بعض منکرات کو اس معاشرے نے برا سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ اس تشویشناک صورتحال کے بعض نمایاں مظاہر یہ ہیں:

﴿الف﴾ بدکاری اور زنا اگر فریقین کی رضا مندی سے ہو تو اس کو برا فعل نہیں سمجھا جاتا۔

﴿ب﴾ خلافِ فطرت جنسی رجحانات اور رویّوں کو برا نہیںسمجھا جاتا۔ اس کے برخلاف اس طرح کے رجحانات پر نکیر کو فرد کی ’‘انفرادی آزادی‘‘ میں مداخلت سمجھا جاتا ہے۔

﴿ج﴾ غیر ساتر لباس کے استعمال اور بے حیائی کو فروغ دینے والے لٹریچر اور آرٹ کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔

﴿د﴾  Consumerism کی لہر سے متاثر اسراف پر مبنی طرزِ زندگی اور کلچر کو برا نہیں سمجھا جاتا۔

﴿ہ﴾  شراب، جوا، Speculation اور سود کے اندر کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔

اس پوری صورتحال کے مقابلے میں امتِ مسلمہ کے افراد یا تو خاموش رہتے ہیں اور اپنا دامن بچانے کو کافی سمجھتے ہیں یا اس فضا سے مرعوب اور متاثر ہوجاتے ہیں اور خود بھی خرابیوں میں مبتلا ہونے لگتے ہیں یا عملی خرابیوں سے تو بچ جاتے ہیں، لیکن دل میںیہ سمجھتے ہیں کہ ’’تہذیب‘‘ اور ’’ترقی‘‘ کا تقاضا یہی ہے کہ آدمی رائج الوقت برائیوں کے سیلاب میں بہنے لگے اور مسلم معاشرہ اگر ان برائیوں سے بچتا ہے تو یہ اُس کی ’’قدامت پسندی‘‘ اور ’’پس ماندگی‘‘ ہے۔

ان حالات میں مخلص اہلِ ایمان کی ایمانی حِس اور شعور کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پوری جرأت اور اعتماد کے ساتھ اٹھیں اور صاف الفاظ میں دنیا کو بتائیں کہ راہِ فطرت کی طرف واپسی ہی انسانیت کے لیے سلامتی کی واحد راہ ہے۔ اُن کو بتانا چاہیے کہ بے حیائی، بدکاری، اسراف، گھمنڈ اور حق تلفی بُرے افعال ہیں۔ اور ان کے بجائے پاک بازی، حیا، عدل، احسان، راست بازی اور خدا ترسی وہ بھلائیاں ہیں جو آفاقی ہیں اور جن کی قدر و قیمت حالات کی گردش سے متاثر نہیں ہوتی۔ آج امتِ مسلمہ کے سامنے یہ چیلنج ہے کہ اسے پوری انسانیت کو راہِ فطرت یاد دلانی ہے۔ جو دنیا معروف کو بھول چکی ہے اسے یاد دلانا ہے کہ معروف کیا ہے اور اسے اپنانے کی تلقین کرنی ہے۔ جن منکرات کو دنیا نے گلے لگالیا ہے۔ اُن کی قباحت اور شر سے اور اُن کے انجامِ بد سے دنیا کو آگاہ کرنا ہے اور دنیا کو منکرات کے چنگل سے نکالنے کی پوری کوشش کرنی ہے۔ حقیقی انسانی خدمت یہی ہے۔ امت کے ایجنڈے میں اس انسانی خدمت کی انجام دہی کو بلند ترین مقام حاصل ہونا چاہیے۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2010

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223