سائنس اور فنون
سائنس، سائنسی مطالعہ اور سائنسی طرز تحقیق میں غلو کا ایک نقصان یہ ہوا کہ انسان کائنات کے مطالعے میں محدودیت کا شکار ہو گیا اور بس انہیں چیزوں پر اکتفا کرنے لگا جن کا وہ حواس خمسہ کے ذریعے ادراک کرسکتا ہو۔ یہ کائنات کا ایک معروضی مطالعہ ہے۔ اس کا سقم یہ ہے کہ انسان اجزائے کائنات کا مطالعہ تو کرتا ہے مگر ان اجزا میں پائے جانے والے حسن کی تحسین اس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ وہ سورج چاند ستاروں کا دوربینوں کے ذریعے مشاہدہ تو کرسکتا ہے مگر ان کے حسن، راتوں میں ان کا آسمان ِدنیا کے لیے زینت ہونا، چاند کی خنکی اور چاندنی کی دل ربائی کا بیان اس کے علم کا حصہ نہیں ہے۔ پہلی قسم کے علم کو ہم معروضی علم (objective study)کہتے ہیں او دوسری قسم کو ہم ذاتی مطالعہ (subjective study)کہتے ہیں۔ معروضی طرز بیان حقیقت کی مکمل ترجمانی نہیں کرتا۔ انسان حسین کلیوں، رنگ برنگ کی تتلیوں، خوب صورت پھولوں اور دل ربا پھلوں کو دیکھ کر جو تاثر لیتا ہے، معروضی مطالعہ اس پر جابرانہ تعطل عائد کر دیتا ہے۔ ہم جس زمانے میں جی رہے ہیں اسے گوئٹے prosaic age کا نام دیتا ہے[1] یعنی نثری زمانہ۔ جدید زمانے کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں در اصل صلاحیتوں کی اہمیت ہے اور اظہار بیان صرف نثری ہوتا ہے۔ جب کہ تمثیلات ،تشبیہات ،تخیلات اور لطیف احساسات، انسان، انسانی مزاج، انسانی سماج اور انسانی نفسیات کی حقیقت کی عکاسی کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔
بقول نٹشے عصری فطری سائنس (contemporary natural sciences)کے غیر منطقی نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ صنعت کاری اور کارخانوں کی دوڑ میں آخر کار انسان بکھر گیا، مخالفت اس کے مزاج کا حصہ بن گئی اور اس کے نتیجے میں غیرسائنسی ذہنیت کا وہ حامل ہو گیا۔[2]
سائنسی مطالعے کی سب سے بڑی کم زوری یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے کائنات میں پائی جانے والی کاری گری (artistry)، ذہن میں ابھرنے والے سوالات، شعور، تحت الشعور کے خیالات، انسانی فطرت اور جذبات کا مطالعہ نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ وہ ’’معروضی مطالعے‘‘ کی گرفت میں نہیں آتے۔ صرف سائنسی طریقہ مطالعہ پر اصرار کی وجہ سے سوچ کا ایک منقسم نظام نظر آتا ہے، ’’جہاں معروضی طریقوں اور اوزاروں کا استعمال کرتے ہوئے معروضی ڈیزائن کا مطالعہ کیا جاتا ہے، اس طرح حقیقت کی بہت سی موضوعی اور نجی خصوصیات کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پھر سائنس حقیقت اور کائنات کا مطالعہ ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے، جب کہ اس کے پاس حقیقت کے سب سے بنیادی جز یعنی نفس کا مطالعہ کرنے کے اوزار نہیں ہیں؟‘‘[3]
جب ہم کلچر، آرٹ اور فنون لطیفہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں تو وہ معروضی کے بجائے موضوعی مطالعہ ہوتا ہے جس میں انفرادی احساسات کا اظہار ہوتا ہے۔ کلچر، آرٹ اور فنون لطیفہ کا تعلق کسی فرد یا معاشرے کے کسی خاص وقت کے موضوعی اور اندرونی احساسات سے ہوتا ہے۔ اور فنون کی سطح پر اصل میں شے اور موضوع ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔ اس لیے اسلام کے نزدیک آرٹ اور سائنس دو جداگانہ علوم کے شعبہ جات نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ہیں اور ان دونوں میں قدر مشترک توحید ہے۔ مغربی تصور علم کی طرح نہیں کہ آرٹ اور فنونِ لطیفہ سائنس کی صف سے الگ کھڑے ہوتے ہوں، بلکہ جمالیاتی حس کے ساتھ جب کائنات کا مطالعہ اور سماج کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو کائنات اور سماج کی حقیقتیں بھی سامنے آتی ہیں اور احساسات و تاثرات بھی ذہن میں ابھرتے ہیں۔
اسلام کا تصور جمالیات
اسلام اپنی بنیادی فکر اور عقیدے میں دیگر مذاہب سے مختلف ہونے کے سبب بعض تصورات میں بھی (جیسے کہ تصور جمالیات) دیگر تہذیبوں میں پائے جانے والے تصور سے مختلف ہے۔ حالاں کہ بعض مغربی مصنفین نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ جمالیات کو فی نفسہٖ دیکھنا چاہیے اور اسے کسی مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔[4]
جب کہ صورت واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے تصور جمالیات نے اسلامی تشخص کی تشکیل اور غیر شعوری طور پر مسلمانوں کے ادراک اور طرز عمل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
تصور جمالیات کے تین پہلو
اسلامی تصور جمالیات تین اہم ذیلی زمرہ جات کی تشکیل کرتے ہیں:
قرآنی جمالیات: قرآن پر مبنی مذہبی جمالیات
نظریاتی جمالیات: اسلامی فلسفہ، ادب،شاعری اور سائنس میں جمالیات کا آئیڈیا
فن کارانہ جمالیات : اسلامی فن کارانہ تخلیق میں جمالیات[5]
قرآنی جمالیات
اسلام میں جمالیات کے مطالعے کا آغاز قرآن سے ہوتا ہے۔ قرآن ایک حسین اور خوب صورت ترین کلام ہے۔ قرآنی زبان کی جاذبیت، اس کے بیان کی دل کشی، اس کے اسالیب کی خوب صورتی اور اس کے فنی محاسن کا مقابلہ دنیا کی کوئی اور کتاب نہیں کر سکتی۔ اس کتاب کو خوب صورتی کے ساتھ پڑھنے کا جو فن پا یا جا تا ہے اس طرز پر دنیا کی کوئی اور کتاب نہیں پڑھی جاتی یہاں تک کہ کتب احادیث بھی نہیں۔[6]
پوری تاریخ میں مسلم علما نے قرآن کی معجزاتی زبان کے جمالیاتی عناصر پر لٹریچر کا ایک انبار تیار کیا ہے۔ اس کے ادبی عوامل، مواد اور حیران کن سائنسی آیات، اس کے انوکھے اسالیب اور اس کے فنی محاسن اصل میں وہ ماخذ ہے جس نے پوری امت کے جمالیاتی ذوق کو ایک منفرد سانچے میں ڈھالا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ قرآن ایک ادبی شاہ کار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن بے مثال، کمال درجے کا، اپنی زبان، اسلوب، فصاحت اور طاقت میں منفرد کلام ہے۔ ساتویں صدی کے جزیرہ نما عرب کے لوگوں کا اس طرح کے حسین کلام کا اس سے پہلے کبھی سامنا نہیں ہوا تھا، نہ اس کے بعد سامنا ہوا ہے۔ جس حسین ترین کلام نے اس اُمت کی پرورش کی ہو اس سے یہ بعید تر ہے کہ ایک ایسی تہذیب کو وجود بخشے جس میں جمال کا کوئی تصور نہ ہو۔ مشہور مصری صاحب طرز مصنف و ادیب طٰہٰ حسین نے قرآن کی جمالیاتی تعبیر کچھ اس طرح سے بیان کی ہے:
’’لیکن آپ جانتے ہیں کہ قرآن نثر نہیں ہے اور یہ شاعری بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ قرآن ہے اور اسے کسی اور نام سے نہیں پکارا جا سکتا۔ یہ شاعری نہیں ہے، اور یہ واضح ہے؛ کیوں کہ یہ خود کو ردیف و قافیہ کا پابند نہیں کرتا اور اپنے آپ کو شاعری کی بندشوں میں نہیں جکڑتا۔ اور یہ نثر بھی نہیں ہے، کیوں کہ یہ ان بندھنوں سے بندھا ہوا نہیں ہے جو نثر کے متقاضیات ہیں۔ یہ اپنے آپ میں منفرد ہے، کہیں اور اس کی مثال نہیں پائی جاتی۔ اس کے اپنے منفرد اصول ہیں جس کا یہ پابند ہے۔ اس کی آیات کے اختتام میں، جسے فواصل کہا جاتا ہے، خاص حسن پایا جاتا ہے۔ اور کچھ اس موسیقی کی آواز سے متعلق اپنے قوانین ہیں جو اس کے اپنے ہیں. اس لیے یہ نہ شاعری ہے اور نہ ہی نثر، بلکہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں پھر خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے ان کی تفصیل کی گئی …اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نثر ہے، جب کہ اس کا متن خود کہتا ہے کہ یہ شاعری بھی نہیں ہے۔ یہ کلام اپنے حسن میں اپنی مثال آپ ہے۔ ایسا کلام دنیا نے اس سے پہلے نہ کبھی دیکھا تھا اور نہ بعد میں کبھی دیکھے گی۔ ‘‘[7]
قرآنی جمالیات پر گفتگو کرتے ہوئے یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ قرآن کے ادبی ڈھانچے میں سجاوٹی عناصر نہیں ہیں اور استثنائی صورتیں بھی نہیں ہیں، بلکہ وہ اس کے معنی کا حصہ اور پارٹ اینڈ پارسل ہیں۔[8] قرآنی جمال، قرآنی کلام الفاظ اور معنی میں یکجا ہے اور اس کے بغیر وہ ایک سپاٹ کلام کے برابر ہو جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ قرآن کے متن کا اس جمالیاتی تناظر میں مطالعہ کیا جائے جیسا کہ وہ نازل ہوا ہے اور جیسا کہ مسلمانوں نے عالمی طور پر صدیوں سے اس پر علمی کوششیں کی ہیں۔
نظریاتی جمالیات
ہم آگے کے سلسلے مضامین میں فنون لطیفہ پر گفتگو کریں گے جس کے لیے تصور جمالیات کا سمجھنا کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ جمال بطور اسم اور جمیل بطور صفت عربی میں استعمال ہوتا ہے۔ اسلام نے جس تہذیب و تمدن کی بنا ڈالی اس میں تصور جمالیات کا بڑا اہم رول ہے اس لیے اسے گہرائی میں جا کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جمال بطور ایک آئیڈیا کے اور جمال بمعنی سرور نظر میں ایک گہری مناسبت پائی جاتی ہے[9] جس کا اظہار اسلام کے تمام فنون لطیفہ اور معاملات و معاشرتی زندگی میں ہوتا ہے، جس کی تفصیل قرآن کی روشنی میں آگے بیان کی جائے گی۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، اسلام کے تصور جمالیات کو سمجھنے کا بنیادی ماخذ قرآن ہے، جس میں جمال اور جمیل کے علاوہ اور بھی بہت سی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔ لفظ جمال اور جمیل قرآن میں آٹھ مرتبہ آئے ہیں، موقع و محل کے لحاظ سے سے ان کا تجزیہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
حواس باختگی کے وقت اعصاب پر کنٹرول کا ایک خوب صورت رویہ: انتہائی صدمہ کے موقع پر جزع فزع، شکوہ شکایت اور نوحہ و ماتم کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے اعصابی توانائی کو ضائع کیے بغیر تحمل و صرف نظر کا رویہ اختیار کرنے کو قرآن صبر جمیل کہتا ہے۔ اس لیے کہ اس رویہ میں شرافت و لطافت پائی جاتی ہے۔ ہنگامہ خیزی اور پستی کا رویہ صبرجمیل کے خلاف ہے۔
وَجَاءُوا عَلَى قَمِیصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ [یوسف: 18]
(اور وہ اس کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا لائے۔ اس نے کہا کہ بلکہ یہ تو تمھارے جی کی ایک گھڑی ہوئی بات ہے تو صبر جمیل کی توفیق ملے اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو اس میں خدا ہی سہارا ہے)
شائستہ اختلاف: ناقابل یقین باتوں پر تو تکرار کی نوبت آئے بغیر وقار اور شائستگی کے ساتھ معاملات کو خدا کےحوالے کرنے کا رویہ بھی اپنے اندر حسن و کشش رکھتا ہے۔ ایک دکھی بوڑھا باپ اپنے جوان بیٹوں کو دیکھتا ہے کہ وہ اپنے ایک چھوٹے بھائی کے ساتھ حاسدانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ شائستہ اسلوب میں ان سے اختلاف کرتا ہے۔ اس حسین منظر کی قرآن عکاسی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس اسلوب صبر میں خوب صورتی پائی جاتی ہے۔
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ عَسَى اللَّهُ أَنْ یأْتِینِی بِهِمْ جَمِیعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَكِیمُ [یوسف: 83]
(اس نے کہا بلکہ تمھارے دل نے یہ بات گھڑ لی ہے تو صبر جمیل ہی اولیٰ ہے۔ امید ہے اللہ ان سب کو میرے پاس لائے گا، بیشک وہی علیم و حکیم ہے)
داعی کا حسین رویہ: اختلافات کے ہجوم میں داعی کا رویہ حسین ہوتا ہے۔ اختلافات کرنے والے کسی بھی پستی پر جا کر دشمنی کا اظہار کر سکتے ہیں مگر ایک داعی کا رسپانس دلنشین ہونا چاہیے۔ نا معقول لوگوں کے استہزا کے نتیجے میں نہ دل شکستہ ہو اور نہ مایوس۔ کوئی عاجلانہ اقدام ہرگز نہ ہو بلکہ داعی کا رویہ اس کی دعوت کے شایان شان حسین و جمیل ہونا چاہیے۔ یہی تعلیم رسول اللہ ﷺ کو دی گئی۔
فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیلًا. إِنَّهُمْ یرَوْنَهُ بَعِیدًا. وَنَرَاهُ قَرِیبًا [المعارج: 5–7]
(تو تم خوب صورتی سے صبر کرو۔ وہ اس کو بہت دور خیال کر رہے ہیں اور ہم اس کو نہایت قریب دیکھ رہے ہیں۔)
مخالفتوں کا جواب خوب صورتی سے کنارہ کشی:
وَاصْبِرْ عَلَى مَا یقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِیلًا [المزمل: 10]
(اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کر اور ان کو خوب صورتی سے نظر اندازکر)
اس پر مولانا امین احسن اصلاحی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
اپنے جھٹلانے والوں کی بے ہودہ گوئیوں پر صبر کرو اور اپنے موقف پر ڈٹے رہو نہ ان کی باتوں کا غم کرو اور نہ زیادہ ان کے درپے ہو، بلکہ ان کو خوب صورتی کے ساتھ چھوڑو۔ وہ اپنی اس روش کا خمیازہ خود بھگتیں گے۔
چھوڑنا دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک چھوڑنا تو وہ ہے جو فضیحتا ًاور لعن طعن کے بعد، عناد و انتقام کے جذبے کے ساتھ ہو۔ اس طرح کا چھوڑنا عام دنیا داروں کا شیوہ ہے۔ اخیار و صالحین یہ طریقہ نہیں اختیار کرتے۔ وہ خلق کی اصلاح کی کوشش اپنی کسی ذاتی منفعت کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کی ہدایت اور اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔ لوگ ان کی ناقدری اور دل آزاری کرتے ہیں تو انھیں غصہ یا نفرت کے بجائے ان کے حال پر افسوس اور ان کی محرومی و بد انجامی پر صدمہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں وہ ان کے رویہ سے مجبور ہو کر ان کو چھوڑتے تو ہیں لیکن یہ چھوڑنا اسی طرح کا ہوتا ہے جس طرح ایک شریف باپ اپنے نالائق بیٹے کے رویہ پر خاموشی اور علیحدگی اختیار کر لیتا ہے۔ اس طرح کے چھوڑنے کو یہاں ’ہجر جمیل’ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس طرح کی علیحدگی بعض اوقات مفید نتائج پیدا کرتی ہے۔ جن کے اندر خیر کی کوئی رمق ہوتی ہے وہ اس شریفانہ طرز عمل سے متاثر اور اپنے رویہ کا جائزہ لینے کی طرف مائل ہوتے ہیں ورنہ کم سے کم انھیں یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ شخص ان کے باطل پر راضی ہونے والا نہیں ہے خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے۔ جب تک پیغمبر اپنی قوم کے اندر رہتا ہے قوم کی زیادتیوں کا مقابلہ وہ اسی ’ہجر جمیل’ سے کرتا ہے۔ البتہ جب قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو وہ اس کو اعلان براء ت کے ساتھ چھوڑتا ہے اور اس کا یہ چھوڑنا قوم کی موت کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ [10]
بغض سے سینہ پاک: کار دعوت کے کارکنوں کا سینہ بغض و عداوت سے پاک ہونا اپنے اندر ایک کشش رکھتا ہے۔ سچ جتنا خوب صورت ہے اس کے مبلغین کا رویہ بھی اتنا ہی خوب صورت ہونا چاہیے۔
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَینَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِیةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیلَ [الحجر: 85]
(اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے غایت کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے اور بلاشبہ قیامت شدنی ہے تو ان سے خوب صورتی کے ساتھ درگزرکرو)
جدائی کی صورت میں رخصتی بھی خوب صورت طریقے سے: رسول اللہ ﷺکو تعلیم ہوئی کہ اگر اپنی بیویوں کو رخصت کرنے کی نوبت آئے تو خوب صورتی کے ساتھ رخصت کریں۔
یاأَیهَا النَّبِی قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیاةَ الدُّنْیا وَزِینَتَهَا فَتَعَالَینَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیلًا [الأحزاب: 28]
(اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینتوں کی طالب ہو تو آؤ، میں تمھیں دے دلاکر خوب صورتی کے ساتھ رخصت کردوں)
عام مومنوں کے میاں بیوی میں جدائی کی نوبت آئے تو خوب صورتی کے ساتھ ہو۔ فریقین کے لیے کسی فضیحت کا موجب نہ ہو۔ [11]
یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِیلًا [الأحزاب: 49]
(اَے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمھاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو لہٰذا انہیں کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کر دو۔)
سامان سرور نظر: کائنات کےچپے چپے میں حسین مناظر قدرت کی جو بوقلمونی نظر آتی ہے، ان مناظر کی دید سے حساس دل کو سرور اور آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے۔ قرآن بار بار مشاہدہ کائنات کی ترغیب دیتا ہے اور آمادہ کرتا ہے کہ اپنے ذوق لطیف کی تسکین کا سامان پائیں اور صانع عظیم کی کاریگری کے مشاہدے کے ذریعے خدا کو پائیں۔ اس کی ایک مثال قرآن پیش کرتا ہے:
وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِیهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ. وَلَكُمْ فِیهَا جَمَالٌ حِینَ تُرِیحُونَ وَحِینَ تَسْرَحُونَ. [النحل: 5، 6]
(اور چوپائے بھی اس نے تمھارے لیے پیدا کیے جن کے اندر تمھارے لیے جڑاول بھی ہے اور دوسری منفعتیں بھی اور ان سے تم غذا بھی حاصل کرتے ہو اور ان کے اندر تمھارے لیے ایک شان بھی ہے جب کہ تم ان کو شام کو گھر واپس لاتے ہو اور جس وقت کہ ان کو چرنے کو چھوڑتے ہو۔)
مذکورہ بالا آیتوں کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام جمالیات کا اپنا ایک آئیڈیا رکھتا ہے۔ غم و اندوہ میں، اختلافات کے شدید ماحول میں، حوصلہ شکن مخالفتوں کے جواب میں، ازدواجی زندگی جب تلخیوں سے گزرے ان سب مرحلوں میں شائستگی، وقار، سلیقہ مندی، حسن اور خوب صورتی کے ساتھ معاشرتی رویے اپنانے کو اسلام جمال سے تعبیر کرتا ہے۔ جب انسان ان جذبات کی عکاسی نثر، نظم، شاعری و نغمہ گوئی، آرٹ اور پینٹنگ وغیرہ سے کرے تو اس میں بھی شائستگی اور حسن کا جھلکنا اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔
قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ ایک آئیڈیا کو پیش کرنے کے لیے بعض مرتبہ کئی الفاظ کو سامنے لاتا ہے۔ تصور جمال کو پیش کرنے کے لیے بھی قرآن میں کئی اور الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے جمالیات کے مختلف پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مثلاً زین اور حسن۔ حسن بطور اسم اور حَسَن و اَحسَن بطور صفت استعمال ہوئے ہیں۔
قرآنی تصورات کی تعبیرات کا ایک اہم ذریعہ احادیث ہیں۔ اسلامی تہذیب جن بنیادوں پر کھڑی ہے ان میں قرآن کے بعد حدیث کا مقام آتا ہے۔ حسن، جمال، کمال، کاموں کی بہترین طریقے پر انجام دہی کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی تعلیمات ہمیں ملتی ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث ذیل میں درج ہے:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے نبی کریمﷺ سے روایت کی، آپ نے فرمایا: ’’جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا، وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔‘‘ایک آدمی نے کہا: انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ خود جمیل ہے اور وہ جمال کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر، حق کو قبول نہ کرنا اورلوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔‘‘[12]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی انسان کے ہر طرح کے ذوق جمال کے لیے کسوٹی کا درجہ رکھتا ہے۔
فن کارانہ جمالیات
اسلامی تہذیب و تمدن جمال سے مزین ہے۔ یہاں عبادات میں سنجیدگی، کلام میں شائستگی، سلام میں متانت، اکل و شرب میں توازن، مسجد و مینار میں اسلامی فنون کی عکاسی، اسلامی طرز تعمیر کی فن کاری، ادب میں رفعت و پاکیزگی کا نظارے ملتے ہیں۔ اس پر تفصیل سےآگے کے سلسلے مضامین میں گفتگو ہوگی۔ یہاں صرف اس پر اکتفا کرنا ہے کہ فن کارانہ جمالیات کے حسین و دل کش رنگوں کی ابتدا بھی قرآن ہی سے ہوتی ہے۔
اسلامی تہذیب میں علوم و فنون کا ابجد قرآن کی خطاطی سے شروع ہوا۔ قرآن کے لکھنے میں انسانی ذہن کی اختراع و ایجاد کے اعلی ترین نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ خطاطی نقش و نگاری، جیومیٹری، رنگوں کا حسین امتزاج، پتھر کی سلوں، چمڑے، کاغذ، سونے چاندی کے زیورات تلوار کا دستہ، جنگی لباسوں سے لے کر چاول کے دانوں تک میں قرآنی آیات کندہ ملیں گی۔ مسجد و محراب، گنبد و مینار، مقبروں اور مزاروں کی زینت قرآنی آیات کی خطاطی اور نقش و نگاری سے ہوتی ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں قرآن کی قرأت اور اس کے مقابلے کی محفلیں اسلامی تہذیب کی زندہ اور نمایاں علامات ہیں۔ قرآنی آیات کی خطاطی کے حسین ڈیزائن، خوب صورت طغرے، فنی شہ پارے، مہتمم بالشان یادگار طمغوں کے وساطت سے قرآنی ذوق و شوق نمایاں ہوتا ہے۔
حوالہ جات:
[1] The Prose of Society: Narrative Forms and Social Communications in Goethe‘s Unterhaltungen deutscher Ausgewanderten, Institute for German cultural studies, https://igcs.cornell.edu/prose-society-narrative-forms-and-social-communications-goethe%E2%80%99s-unterhaltungen-deutscher
http://nietzsche.holtof.com/Nietzsche_the_will_to_power/the_will_to_power_book_I.htm
[2] Nasim, Omar. “Toward an Islamic aesthetic theory.” American Journal of Islam and Society 15, no. 1 (1998): 71-90.
[3] Gonzalez, Valerie, and Valentin R. Gonzalez. “Beauty and Islam: Aesthetics in Islamic art and architecture.” (2001).
[4] Islamic Aesthetics V Gonzalez – 2016 – academia.edu
[5] Bassam Saleh, The miraculous language of the Quran, evidence of divine origin. International institute of Islamic thought, London, 2015
[6] From a lecture entitled “Prose in the Second and Third Centuries after the Hijra,” delivered at the Geographical Society in Cairo on December 20, 1930, and published in TaM Busayn, Min lfadzth al-Shi’r wa ‘l-Nathr, 10th printing Cairo: Dar al-Ma’arif, 1969. First printing, 1936), 25
[7] Boullata, Issa J., ed. Literary Structures of Religious Meaning in the Qurʾan. London and New York: Routledge, 2009.
[8] Alzahrani, Mojib. “The Concept of Esthetics and Beauty in Islam as one of the components of Islamic art.”
[9] المجلة التربویة لکلیة التربیة بسوهاج 88.88 (2021): 54-75.
[10] تدبر القرآن سورہ المزمل آیت 10
[11] تدبر قرآن ، مولانا امین احسن اصلاحی، سورہ احزاب آیت 49
[12] صحیح مسلم حدیث: 265
مشمولہ: شمارہ اگست 2022