تحریک اجتماعی حرکت و عمل کا نام ہے۔ بطور اصطلاح اس کا رواج دور جدید میں عام ہوا۔ تحریک دراصل تبدیلی کی ایسی کوشش ہے جو کسی مقصد کے حصول کے لیے کی جائے اور جس میں شامل افراد ایک نظریہ، عقیدہ اور طریق کار پر متفق ہوکر ایک منفرد اجتماعی گروہ کی صورت اختیار کرلیں۔ عام طور سے تحریکیں اجتماعی سطح پر مطلوبہ تبدیلی کے لیے دو طریق کار اختیار کرتی ہیں: انقلابی اور تدریجی۔ بعض تحریکیں ہمہ گیر تبدیلی کی داعی ہونے کی بنا پر انقلابی لیکن طریق کار کے اعتبار سے تدریجی ہوسکتی ہیں۔ جب کہ بعض تحریکیں تبدیلی اور طریق کار دونوں اعتبار سے انقلابی ہوسکتی ہیں۔
اسلام اور تحریک : چند اصولی مباحث
تحریک اسلامی کا لفظ سادہ طور پر یہ مفہوم رکھتا ہے کہ ایک ایسی تحریک جس کا نظریہ، مقصد اور طریق کار اسلام پر مبنی ہو۔ لیکن خود اسلام کے بارے میں فہم و تصور میں اختلاف کا نتیجہ تحریک اسلامی کے رخ اور نوعیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے تحریک اسلامی کے بارے میں گفتگو کے دو پہلو قابل غور ہیں: اوّل، تبدیلی کے پہلو سے اسلام کا تصور کیا ہے جو امت کے سواد اعظم کے نزدیک مسلم تاریخ کے چودہ سو سالہ دور میں متفق علیہ رہا ہے۔ دوم، تحریک اسلامی اپنے نظریہ، مقصد، طریق کار اور سرگرمیوں کی بنیاد پر تبدیلی کے اجتماعی تصور سے کتنی مطابقت رکھتی ہے۔ میرے خیال میں ان دو پہلوؤں سے جائزہ لے کر تحریک اسلامی کے بارے میں معقول اور درست رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ “تحریک اسلامی کیا ہے، کیا نہیں ہے۔‘‘
پہلی بات کی وضاحت کے لیے یہ متعین کرنا ضروری ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام اجتماعی زندگی میں کس عقیدہ و فکر کی بنیاد پر، کس طریق کار کے تحت، کن تبدیلیوں کا، تقاضا کرتا ہے۔
اس سوال کے پہلے جز ’’کن تبدیلیوں‘‘ کا تعین کرنے کے لیے قرآنی آیات اور احادیث کو تحریک اسلامی کے لٹریچر میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن فی الحال تحریکی لٹریچر میں پیش کی گئی اس تشریح سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ سیرت نبوی سے متعلق چودہ سو سالہ علمی ذخیرے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح پیش کیا گیا ہے اس میں آپ کن ’’تبدیلیوں‘‘ کو روبعمل لانے کے لیے شب و روز ایک کرتے نظر آتے ہیں؟ اور اسوۂ رسول کی روشنی میں امت کا سواد اعظم دین کی بنیاد پر زندگی میں مطلوبہ تبدیلی کے کس تصور کا قائل رہا ہے؟ ان دونوں سوالوں کا مختصر جواب یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کی انفرادی زندگی کو بھی ہدایت الہی سے منور کرنے کی کوشش کی اور اجتماعی زندگی کو بھی ہدایت الہی پراستوار فرمایا۔ قرآنی تفاسیر، مجموعۂ احادیث، فقہی لٹریچر اور اسلام پر علمی کتب کا پورا سرمایہ اس پر گواہ ہے کہ اسلامی تعلیمات زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان تعلیمات کے اطلاق و نفاذ کی جو بھی درجہ بندی کی جائے لیکن امت کے نزدیک مطلوب یہی ہے کہ زندگی کا ہر پہلو ہدایت الہی اور اسوۂ رسول کے مطابق استوار ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ۲۳ سالہ نبوی زندگی میں فرد، سماج اور ریاست سب کو ایک نئی تبدیلی سے ہم کنار کیا اور ہدایت الہی کی روشنی میں ہمہ جہت تبدیلی کے عمل کو مکمل فرمایا۔ دین وہی ہے جسے آپ نے پیش فرمایا اور اس کی اقامت وہی ہے جسے آپ نے برت کر دکھایا۔
دوسرا جز عقیدہ و فکر سے متعلق ہے۔ اس کا جواب بھی امت کے نزدیک متفق علیہ ہے۔ توحید کے عقیدہ میں اللہ تعالی کی ذات و صفات کی یکتائی بھی شامل ہے اور اس کی تکوینی اور تشریعی حاکمیت بھی داخل ہے۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و محبت بھی اسلامی عقیدہ کا جز ہے اور آپ کی غیر مشروط اطاعت و پیروی بھی اس کا حصہ ہے۔ اللہ اور رسول کی اطاعت زندگی کے تمام معاملات میں دل و جان سے تسلیم کرنا سب کے نزدیک مسلّم ہے۔ اسلام کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔ خود اطاعت کرنا، دوسروں کو اطاعت کے لیے آمادہ کرنا اور عوامی آمادگی سے نظام عدل و قسط کو قائم کرنے کی کوشش کرنا، ان سب باتوں پر امت کا اتفاق ہے۔ اس طرح دوسرے سوال کا مختصر جواب یہ برآمد ہوتا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اصلاح و تعمیر اسلام کے مطابق کرنے کی کوشش امت کے نزدیک متفق علیہ ہے۔
سوال کے تیسرے جز یعنی تبدیلی کے طریق کار پر بظاہر تنوع نظر آتا ہے۔ لیکن تبدیلی کے دعوتی عمل اور نفاذ کے جبری عمل کے درمیان فرق کو اگر تحریک اور ریاست کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کوئی الجھن پیدا نہیں ہوتی۔ قرآن، سنت اور امت کا چودہ سو سالہ اپروچ واضح ہے۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں دائروں میں تبدیلی کا بنیادی طریق کار مسلمہ اخلاقی اصول، حکمت و نصیحت اور خیر خواہی و معقولیت پر مبنی ہونا چاہیے اور اسے جبر سے پاک ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے سواد اعظم نے اسلامی تبدیلی کے عمل کی بنیاد کے طور پر ہمیشہ قرآن کی اس ہدایت کو بطور اصول بیان کیا ہے کہ: اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو معقولیت اور خیرخواہی کے ساتھ اور ان سے بحث میں بہتر انداز اپناؤ ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [النحل: 125]۔ انفرادی زندگی میں تبدیلی کے طریق کار کا اصل اصول تذکیر و نصیحت ہے۔ اور اجتماعی زندگی میں تبدیلی کے لیے اصل اصول تدریجی طریق کار ہے۔ تدریجی تبدیلی کے عمل میں اولیت ذہن سازی کو حاصل ہے۔ جب کہ احکام کے نفاذ میں رائے عامہ، عمومی مفاد اور ریاستی امن و امان کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ چناں چہ قرآن میں وارد احکام سے متعلق آیات کی تشریح میں رخصت، تخصیص اور تنسیخ کے مباحث اصول تدریج کے مختلف پہلوؤں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس سوال سے متعلق بحث کا حاصل یہ ہے کہ تبدیلی کے طریق کار میں قوت و دباؤ کو نہیں بلکہ ذہن سازی و آمادگی کو اہمیت حاصل ہے۔
مندرجہ بالا گفتگو سے واضح ہے کہ اسلام انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں میں تبدیلی کا خواہاں ہے۔ اسلامی عقیدہ میں اللہ اور رسول کی غیر مشروط اطاعت کو تسلیم کرنا شامل ہے۔ اور اسلامی طریق کار کے رہ نما أصول میں انفرادی تبدیلی خود اختیاری پر قائم ہے اور اجتماعی تبدیلی رائے عامہ کی ہمواری پر استوار ہے۔
اب ہم زیر بحث موضوع کے دوسرے پہلو یعنی تحریک اسلامی کے حوالے سے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ: “تحریک اسلامی کیا ہے، کیا نہیں ہے؟‘‘ اس کی وضاحت کے لیے مناسب ہوگا کہ ہم تحریک اسلامی کا تعین کرلیں تاکہ کسی ابہام کے بغیر متعین تحریک کے بارے میں کسی نتیجے تک پہنچ سکیں۔ ہندوستان کے تناظر میں تحریک اسلامی سے ہماری مراد جماعت اسلامی ہند ہے۔ اس تعین کے بعد ہم کوشش کریں گے کہ جماعت اسلامی ہند کے نظریہ، مقصد، طریق کار اور سرگرمیوں کی بنیاد پر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ تحریک اسلامی کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔
تحریک اسلامی کا جائزہ
تحریک اسلامی کے بارے میں بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ ایک شدت پسند ٹولہ ہے جو انقلابی طریقے سے موجودہ نظام کو بدلنا چاہتا ہے۔ کبھی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ محض ایک اصلاحی گروہ ہے جو فرد اور معاشرے میں چند جزوی اخلاقی اصلاحات کے لیے کوشاں ہے۔ کبھی اس خیال کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ قدامت پسند مذہبی تنظیم ہے جو دور جدید کی ہر چیز سے بے زار ہے۔ کبھی یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک سیاسی جماعت ہے جس کے پیش نظر کسی بھی طرح حکومت کا حصول ہے۔
ان غلط فہمیوں کے جنگل میں، تحریک اسلامی کے بارے میں حقیقت واقعی تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ تحریک اسلامی کو اس کے نظریہ، مقصد، طریق کار اور سرگرمیوں کی بنیاد پر اور اس کے دستور، بنیادی لٹریچر اور پالیسی پروگرام کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ درست نتیجے تک پہنچنے کے لیے علمی طور پر یہی مناسب و معقول طریقہ ہو سکتا ہے۔ ذیل میں ہم متعین طور پر جماعت اسلامی ہند کے حوالے سے ان بنیادی أمور کو زیر بحث لائیں گے۔
نظریہ
جماعت اسلامی ہند کے نظریہ کی بنیاد ایمان باللہ اور ایمان بالرسول پر استوار ہے۔ یہ نظریہ جماعت کے دستور میں عقیدہ کی تشریح میں درج ہے۔ دستور میں درج تشریح کے مطابق:
’’اللہ ہم سب انسانوں کا معبود برحق اور حاکم تشریعی ہے، جو ہمارا اور اس پوری کائنات کا خالق، پروردگار، مالک اور حاکم تکوینی ہے۔ پرستش کا مستحق اور حقیقی مطاع صرف وہی ہے اور ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں۔‘‘
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ معبود برحق اور سلطان کائنات کی طرف سے روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو جس آخری نبی کے ذریعے قیامت تک کے لیے مستند ہدایت نامہ اور مکمل ضابطۂ حیات بھیجا گیا اور جسے اس ہدایت اور ضابطے پر عمل کرکے ایک مکمل نمونہ قائم کرنے پر مامور کیا گیا وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘(دستور جماعت اسلامی ہند: دفعہ۔۳)
بیان کردہ تشریح واضح ہے۔ اسلامی نظریۂ حیات کی جڑیں توحید، رسالت اور آخرت کے عقیدہ میں پیوست ہیں۔ اس کائنات کا جو خالق ہے وہی اس کا مالک ہے۔ جس نے انسان کو اس زمین پر بسایا ہے اسی نے رزق فراواں مہیا کیا ہے۔ جس نے انسان کو عقل و ارادہ بخشا اسی نے اس کی رہ نمائی کے لیے رسول بھیجا۔ ہر قوم میں، ہر زمانے میں۔ علم و ہدایت کا حقیقی سرچشمہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ کس قوم کو کس زمانے میں کس ہدایت کی ضرورت ہے تاکہ وہ دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرے اور آخرت میں کام یابی سے ہم کنار ہو۔ انسانی تاریخ کے اس مرحلے میں، جب اس کی بھیجی ہوئی آخری ہدایت کو سابقہ ہدایتوں کی حفاظت اور تکمیل کا ذریعہ بنایا گیا اور اس آخری پیغام کو قیامت تک محفوظ کر دینے کا موقع آن پہنچا، تو اسی رب کائنات نے اپنا آخری رسول منتخب کیا۔ آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی نازل کردہ ہدایت کو قرآن کی شکل میں انسانوں کے سامنے پیش کیا اور اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی میں عملا برت کر قیامت تک کے لیے نمونۂ زندگی پیش کر دیا۔ اس لیے انسان کی دنیوی اور اخروی کام یابی کا راستہ یہی ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اللہ اور اس کے آخری رسول کی ہدایت پر استوار کرے۔ روحانی پاکیزگی، اخلاق و کردار کی درستی اور اجتماعی زندگی میں عدل و قسط کا راستہ وہی ہے جو اللہ اور رسول کی ہدایت کی روشنی میں اختیار کیا جائے۔ بے شک انسان کو خود مختاری بخشی گئی ہے لیکن اصلا ًوہ اللہ کا بندہ ہے۔ اس لیے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرے اور دنیا میں زندگی بسر کرتے ہوئے اللہ کی حاکمیت تسلیم کرے۔ اللہ تعالی نے جو ہدایت نازل کی ہے اور اس کے رسول نے جو نمونۂ عمل پیش کیا ہے اس کی روشنی میں اپنی عقل استعمال کرے تاکہ زندگی راستی پر استوار ہو۔
اس نظریہ کے حوالے سے تحریک اسلامی ایک معنی میں مذہبی تحریک ہے کہ یہ نظریہ خدا اور انسان کے مابین رشتے کی وضاحت کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ ایک دنیوی تحریک بھی ہے کہ یہ نظریہ جہاں بینی اور تعمیر جہاں کا ایک مخصوص تصور پیش کرتا ہے۔ اس نظریہ کی وضاحت سے متعلق تحریکی لٹریچر کا ایک اہم اقتباس درج ذیل ہے:
’’اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ خدا کو خدا اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ تو مان لیا جائے مگر اس کے بعد اخلاقی و عملی اور اجتماعی زندگی ویسی کی ویسی ہی رہے جیسی خدا کو نہ ماننے اور اس کی بندگی کا اعتراف نہ کرنے کی صورت میں ہوتی ہے۔ اسی طرح خدا کی بندگی کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ خدا کو فوق الفطری طریقہ پر تو خالق اور رازق اور معبود تسلیم کر لیا جائے مگر عملی زندگی کی فرماں روائی و حکم رانی سے اس کو بے دخل کر دیا جائے۔ اسی طرح خدا کی بندگی کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ زندگی کو مذہبی اور دنیوی دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جائے۔‘‘ (روداد جماعت اسلامی سوم: ص-۵۵؛ ایڈیشن ۲۰۲۲ء: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی)
مقصد
مقصد کے اعتبار سے یہ تحریک ہمہ جہت تبدیلی کی تحریک ہے۔ دستور میں نصب العین کی وضاحت کرتے ہوئے جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ:
’’اس دین کی ’اقامت‘ کا مطلب یہ ہے کہ کسی تفریق و تقسیم کے بغیر اس پورے دین کی مخلصانہ پیروی کی جائے اور ہر طرف سے یکسو ہو کر کی جائے۔ اور انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام گوشوں میں اسے اس طرح جاری و نافذ کیا جائے کہ فرد کا ارتقا، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل سب کچھ اسی دین کے مطابق ہو۔‘‘ (دستور: دفعہ۔۴)
بلاشبہ یہ تحریک اس بات کی خواہاں اور اس کے لیے کوشاں ہے کہ فرد ہو یا معاشرہ یا حکومت، سب کو ہدایت الہی کی روشنی میں نکھارنے سنوارنے کی ضرورت ہے تاکہ فرد اخلاق و کردار کے اعتبار سے بلند ہو، سماج اچھائیوں کا گہوارہ بنے اور خرابیوں سے پاک ہو، اور ریاست عدل و قسط اور امن و امان کی ضامن ہو۔ اس مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے تحریک اسلامی کے بنیادی لٹریچر کا درج ذیل اقتباس قابل توجہ ہے:
’’جماعت اسلامی کے لیے دنیا میں کرنے کا جو کام ہے اس کا کوئی محدود تصور اپنے ذہن میں قائم نہ کیجیے۔ دراصل اس کے لیے کام کا کوئی ایک ہی میدان نہیں ہے، بلکہ پوری انسانی زندگی اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے دائرۂ عمل میں آتی ہے۔ اسلام تمام انسانوں کے لیے ہے، اور ہر چیز جس کا انسان سے کوئی تعلق ہے اس کا اسلام سے بھی تعلق ہے۔ لہذا! اسلامی تحریک ایک ہمہ گیر نوعیت کی تحریک ہے۔‘‘ (روداد جماعت اسلامی اوّل: ص-۸ ؛ ایڈیشن مئی ۲۰۲۲ء؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی)
طریق کار
دستور جماعت میں طریق کار کی وضاحت کرتے ہوئے بتا دیا گیا ہے کہ:
’’(۱) قرآن و سنت جماعت کی أساس کار ہوگی۔ (۲) جماعت اپنے تمام کاموں میں اخلاقی حدود کی پابند ہوگی اور کبھی ایسے ذرائع اور طریقے استعمال نہ کرے گی، جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کشمکش اور فساد فی الأرض رونما ہو۔ (۳) جماعت۔۔۔ تعمیری اور پر امن طریقے اختیار کرے گی۔‘‘ (دستور: دفعہ۵)
اس طریق کار سے واضح ہے کہ تحریک اسلامی کے نزدیک تبدیلی کے عمل میں بنیادی اہمیت ذہن سازی اور رائے عامہ کی ہمواری کے معروف ذرائع کو حاصل ہے۔ ایسا کوئی بھی طریق کار جو لوگوں میں نفرت، انتہا پسندی اور جذباتیت کو فروغ دے اور مختلف گروہوں اور طبقات کے درمیان دوری پیدا کرے یا انھیں تشدد کی طرف لے جائے قطعا ًناقابل قبول ہے۔ مزید برآں مقصد کے حصول کے لیے خفیہ سازش اور غیر اخلاقی حربوں کا طریقہ بھی تحریک اسلامی کے مزاج سے متصادم ہے۔ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ لوگ اپنی آزاد مرضی سے سمجھ بوجھ کر تحریک کے مقصد کا ساتھ دیں اور اس کے پیش کردہ نظام زندگی کو قبول کریں۔ تحریک اسلامی داروغہ بن کر زبردستی یا فریب کاری سے اپنی بات منوا لینے کی قائل نہیں ہے۔ چناں چہ اس طریق کار کی تلقین کرتے ہوئے مولانا ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمہ نے بارہا دو ٹوک الفاظ میں غیر جمہوری طریق کار سے اجتناب کا مشورہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں۔ میری یہ رائے کسی سے خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ میں سالہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخرکار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔ انھی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین و قانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتیٰ کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں، ان کو بھی میں نے آئینی و جمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے، مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔… یہی عقیدہ جماعت اسلامی کا بھی ہے۔ اس کے دستور میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ہم ایسے ذرائع اور طریقے کبھی استعمال نہیں کریں گے جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔ ہم جو کچھ کریں گے، جمہوری اور آئینی طریقوں سے کریں گے اور خفیہ طریقوں سے نہیں بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کریں گے۔‘‘(تصریحات، ص: ۹۲)
سرگرمیاں
جماعت اسلامی ہند کی سرگرمیوں کا احاطہ کرنے والی دستاویز اس کی میقاتی پالیسی پروگرام ہے جس میں تفصیل سے ان سرگرمیوں کو متعین کیا جاتا ہے جن پر پوری تحریک کاربند رہتی ہے۔ چناں چہ ہر میقاتی پالیسی پروگرام میں تحریکی سرگرمیوں کے بنیادی نکات میں بلا تفریق مذہب و ملت افراد کو بندگئ رب کی دعوت دینا، اخلاق و کردار کو سنوارنا، سماج میں بھلائیوں کو پروان چڑھانا، برائیوں کا ازالہ کرنا، انسانوں کے حقوق کی ادائیگی اور تحفظ کے لیے انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کرنا، ظلم، ناانصافی اور استحصال کے خلاف آواز بلند کرنا، بلا تفریق قوم و ملت رواداری، ہم آہنگی اور برادرانہ تعلقات کو فروغ دینا، تعلیم، خدمت خلق اور امداد باہمی کے لیے سماج کو متحرک کرنا اور وابستگان تحریک کو اپنی ذاتی تربیت پر متوجہ کرنا شامل رہے ہیں۔
جماعت کی پالیسی پروگرام کا اصل ہدف یہ ہے کہ فرد، معاشرہ اور ریاستی ادارہ خدائی ہدایت کی روشنی میں درستی کی طرف مائل ہوتا چلا جائے۔ جماعت کی عملی سرگرمیوں میں سست رفتاری یا تیز رفتاری کی نشان دہی تو کی جا سکتی ہے لیکن ان سرگرمیوں میں کسی تخریبی عنصر کی نشان دہی نہیں کی جاسکتی۔ تمام سرگرمیاں اصلاح و تعمیر کی منزل کی طرف فرد اور اجتماعیت دونوں کو متحرک رکھنے والی ہیں۔ جماعت نے اپنے پالیسی پروگرام میں واضح نقشۂ کار پیش کرتے ہوئے طے کر دیا ہے کہ:
’’دعوت دین، ہندوستانی سماج، اسلامی معاشرہ، امت کا تحفظ و ترقی اور تربیت و تنظیم سے متعلق کام، جماعت کے بنیادی کام ہیں—ملک میں عدل و قسط کا قیام، خدمت خلق اور تعلیم جیسے کام بھی جماعت کے اہم کام ہیں۔‘‘(میقاتی پالیسی اور پروگرام 2019-23: ص ۸)
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں تحریک اسلامی کے بارے میں رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ یہ تحریک کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔
انقلابی یا اصلاحی تحریک؟
جہاں تک تحریک اسلامی کے بارے میں اس کے مذہبی یا سیاسی، ملّی یا غیر ملّی، اور انقلابی یا اصلاحی ہونے، نہ ہونے کے ابہام کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں درج ذیل پہلو قابل غور ہیں۔
مذہب کے معروف تصور کے اعتبار سے تحریک اسلامی مذہبی تحریک نہیں ہے جو صرف مابعد الطبیعاتی امور سے بحث کرتی ہو۔ لیکن ان معنی میں یہ ایک مذہبی تحریک ہے کہ معاملات دنیا کو ہدایت الہی کی روشنی میں برتنے کی داعی ہے اور افراد کے فکر و عمل کو اخروی نجات کے نقطہ نظر سے سنوارنے کے لیے کوشاں ہے۔
اسی طرح یہ تحریک معروف معنی میں مسلمانوں کی قومی تحریک نہیں ہے جو قومی عصبیت کی بنیاد پر مسلمانوں کی طرفدار ہو۔ لیکن ان معنی میں اس تحریک کی شناخت مسلم قوم سے وابستہ ہے کہ اصلا یہ مسلمانوں ہی کے درمیان سے اٹھنے والی تحریک ہے جو مسلمانوں کو قولًا اور عملاً اسلام کا ترجمان بننے کی دعوت دیتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی دینی ذہن سازی میں تحریک کسی خاص مسلک یا کسی مخصوص اجتہادی رائے کی طرف دعوت نہیں دیتی بلکہ اصل دین جو قرآن و سنت میں بیان کیا گیا اسے اپنے فکر و عمل میں برتنے کی طرف مائل کرتی ہے۔ تحریک اسلامی اس موقف پر روز اوّل سے قائم ہے۔ چناں چہ تحریک اسلامی کے بنیادی لٹریچر ’’شہادت حق” میں تحریک اسلامی کے اس موقف کو واضح کرتے ہوئے کہا گیا:
’’اجتہادی مسائل میں ہم تمام، اُن مذاہب و مسالک کو برحق تسلیم کرتے ہیں جن کے لیے قواعدِ شریعت میں گنجائش ہے۔ ہم ہر ایک کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ ان مذاہب و مسالک میں سے جس کا جس پر اطمینان ہو، وہ اپنی حد تک اس پرعمل کرے۔ کسی خاص اجتہادی مسلک کی بنیاد پر گروہ بندی کو ہم جائز نہیں رکھتے۔‘‘ (ص: ۳۰)
’’ یہاں دعوت کسی شخص یا اشخاص کی طرف نہیں ہے، بلکہ اُس مقصد کی طرف ہے جو قرآن کی رُو سے ہر مسلمان کا مقصد ِزندگی ہے اور اُن اُصولوں کی طرف ہے جن کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔ جو لوگ بھی اس مقصد کے لیے، ان اصولوں پر ہمارے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیں وہ مساوی حیثیت سے، ہماری جماعت کے رکن بنتے ہیں۔‘‘(ص: ۳۱ )
نظریاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو تحریک اسلامی قوم پرستی، وطن پرستی، نسل پرستی کے برخلاف وحدت انسانیت کی علم بردار ہے جس میں رنگ، نسل، وطن کی بنیاد پر کسی انسان کو دوسرے پر فوقیت جتانے کا حق نہیں ہے۔ اس حقیقت کی اصل بنیاد خدا پرستی پر قائم ہے۔ خدا پرستی کے تصور میں تمام انسان خدا کے نزدیک برابر ہیں، اس کے سامنے جواب دہ ہیں اور اس کی ہدایت کے محتاج ہیں۔ انسانیت کا معیار خدا سے تعلق اور اس کی بندگی پر استوار ہے۔ تحریک اسلامی خدائی ہدایت پر مبنی آفاقی اصول و اقدار کی علم بردار ہے۔ نجی اور گروہی مفادات پر وسیع تر انسانی مفادات کے تحفظ پر زور دیتی ہے۔ کائنات میں موجود وسائل حیات پر سب کا یکساں حق تسلیم کرتی ہے اور اس کے ناروا استعمال اور اتلاف کے خلاف یہ اصولی موقف رکھتی ہے کہ یہ وسائل حیات صرف ہمارے لیے نہیں ہیں بلکہ سابقہ انسانی نسلوں کی طرح آئندہ کی نسلوں کے لیے بھی رب کائنات نے عطا کیے ہیں۔
یہ تحریک اس معنی میں ایک انقلابی تحریک ہے کہ یہ انسان کو ایک نئے فکر و نظریہ سے آشنا کرتی ہے اور فرد، سماج اور ریاست سب کو خدائی ہدایت پر استوار کرنے کے نشانات راہ سے آگاہ کرتی اور ان نشانات راہ کی روشنی میں نظام زندگی کو استوار کرنے کے لیے جد و جہد پر آمادہ کرتی ہے۔ لیکن یہ تحریک تبدیلی کے طریق کار میں نہ تو عجلت پسند ہے اور نہ انتہا پسند۔ یہ تحریک اصلاحی انداز کار اپناتے ہوئے جو خیر موجود ہے اسے پروان چڑھانے اور جو خرابیاں پائی جاتی ہیں ان کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ بہتر سے بہتر سماج کی تعمیر کے لیے کوشاں ہے۔ اصلاح احوال کے تدریجی عمل کو اختیار کرتے ہوئے یہ تحریک ایک طویل اور صبر آزما جد و جہد کی راہ پر گامزن ہے۔ اسی لیے اس تحریک کے نزدیک پیش نظر تبدیلیوں کے پیچھے کار فرما اصل محرکات کی بنیادی اہمیت ہے۔ اس تحریک کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے درج ذیل باتیں قابل غور ہیں۔
پہلی بات
خدا بے زاری سے خدا پرستی کی طرف پلٹنا اور آخرت فراموشی سے آخرت پسندی کا رخ کرنا کوئی معمولی تبدیلی نہیں بلکہ انقلابی تبدیلی ہے۔ نفس کی اسیری اور دنیوی غرض مندی سے رہائی اسی وقت ممکن ہے جب آدمی خود اختیاری کے باوجود اپنے رب کے سامنے سرنگوں ہو جائے۔ یہ ایک انقلابی تبدیلی ہے جو فکر و خیال میں برپا ہوتی اور اخلاق و کردار میں رونما ہوتی ہے۔ خدا بے زار، خدا فراموش یا سطحی مذہبیت کے ماحول میں لوگوں پر یہ واضح کرنا کہ سچی خدا پرستی محض کسی عبادت گاہ کی حاضری نہیں بلکہ اللہ تعالی کے سامنے مکمل خود سپردگی ہے، ایک انقلابی دعوت ہے۔ مذہب کے رائج الوقت محدود تصور اور عقلیت پرستی (rationalism) کے ماحول میں خدا پرستانہ نظام زندگی کا پیغام دینا، ایک انقلابی پیغام ہے۔ اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تحریک اسلامی ایک انقلابی تحریک ہے۔
دوسری بات
ماحول کو بدلنے کا طویل سفر جس تدریجی طریق کار کا تقاضا کرتا ہے یہ تحریک اسی صبر آزما راہ پر گامزن ہے۔ تحریک اسلامی اپنے کارکنوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ جلد بازی، شدت پسندی اور تخریبی سر گرمیوں سے دور رہیں۔ تبدیلی لے آنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے، ان کی ذمہ داری تو تبدیلی کے لیے کوشش کرنا ہے۔ پرامن اور جمہوری طرز عمل اور اصلاحی و تعمیری سرگرمیوں کے اعتبار سے یہ تحریک انقلابی تحریک نہیں ہے۔ یہ تحریک ذہن سازی کے ذریعے اجتماعی تبدیلی کے لیے پر امن کوشش پر یقین رکھتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ تحریک تدریجی تبدیلی کی تحریک ہے۔
جماعت اسلامی ہند اپنے نصب العین کے تحت عوامی ذہن سازی، سماجی ہم آہنگی اور خیر پسندی کی عملی صورت گری کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ ترجیحی سرگرمیوں کا تعین کرتی رہی ہے تاکہ محدود افرادی قوت زیادہ سے زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو سکے۔ اسی نقطۂ نظر سے کی گئی منصوبہ بندی اور ترجیحاتی سرگرمیوں کو جماعت اسلامی ہند کی پالیسی پروگرام کی شکل میں مرتب کیا جاتا ہے۔ مرکزی سطح پر طے کردہ پالیسی پروگرام کو روبعمل لانے کے لیے حلقہ سے مقام کی سطح تک سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔ اپنی تاسیس سے آج تک تحریک اسلامی ہندوستان میں تدریج کے ساتھ پرامن اور اخلاقی حدود کی پاسداری کرتے ہوئے رائے عامہ کی ذہن سازی کے لیے کوشاں رہی ہے۔ فرد، سماج اور ریاستی اداروں کی سطح پر جن إصلاحات اور تبدیلیوں کو ہدایت الہی کی روشنی میں تحریک اسلامی درست سمجھتی ہے، انھیں عام کرنے اور ان پر رائے عامہ اور رہ نماؤں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ جن حالات و مسائل کا سامنا ہے ان کے معقول حل کی تلاش میں تحریک اسلامی کا رویہ تعاون دینے اور تعاون لینے کا رہا ہے۔ جن معاملات کا تعلق نظریات، اصول اور قانون سازی سے ہے تحریک اسلامی ان پر اسلامی نقطۂ نظر کے ساتھ شریک مکالمہ ہوتی ہے اور جن کا تعلق عملی اقدام سے ہے ان پر حسب استطاعت انفرادی اور ادارہ جاتی سرگرمیاں سر انجام دیتی ہے۔
مندرجہ بالا معروضات صرف تحریری بیانیے نہیں ہیں بلکہ تحریک اسلامی کی اجتماعی سوچ، عمومی رویے اور عملی سرگرمیوں کے آئینہ دار ہیں۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2022