ارشادِ نبویؐ ہے:
من دعا الی امارۃ نفسہ او غیرہ من غیر مشورۃ من المسلمین فلا یحلّ لکم ان لا تقتلوہ (کنز العمال، ج:۵،ح:۱۴۳۵۹ بحوالہ عبدالرزاق فی الجامع۔ نسائی)
’’جو شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر اپنی یا کسی اور شخص کی امارت کے لیے دعوت دے تو تمھارے لیے حلال نہیں ہے کہ اسے قتل نہ کرو۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کا اسلامی حکومت پر زبردستی مسلط ہونا ایک سنگین جرم ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں:
’’امارت (اسلامی حکومت) وہ ہے جو مشورے سے بنائی گئی ہو اور بادشاہت وہ ہے جو تلوار کے زور سے حاصل کی گئی ہو۔‘‘(طبقات ابن سعد، ج:۶،ص،۱۱۳، قول ابو موسی اشعری،مسروق ابن الاجدع سے مروی)
امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں :
’’خلافت مسلمانوں کے اجتماع اور مشورے سے ہوتی ہے ۔‘‘ (الخیرات الحسان فی مناقب الامام اعظم ابی حنیفتہ نعمان از علامہ ابن حجر مکّی)
اولی الامریا اصحاب امر کے لئے ضروری اوصاف
علماء اور فقہاء اسلام کے نزدیک اولی الامر میں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ، تینوں شعبے شامل ہیں۔ نیز تمام قسم کے اصحاب امر ہیں، خواہ وہ علمی وفقہی رہنمائی کرنے والے ہوں یا سیاسی قائد ہوں، یا ملک کا نظم ونسق چلانے والے حکام ہوں یا فوجی نظم ونسق کی قیادت کرنے والے افسر ہوں، یا عدالتوں کے جج ہوں یا معاشرتی وسماجی امور میں بستیوں اور محلوں کی سربراہی کرنے والے نمائندے اور سماجی کارکن ہوں۔ بہرحال جو جس حیثیت میں اور جس سطح کا بھی صاحبِ امر یا ذمہ دارمقررکیا جائے وہ اس کا اہل اور مستحق ہونا چاہیے۔
(۱) وہ کسی بھی منصب یا پوزیشن کا حریص یا طالب نہ ہو۔
تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا(القصص:۸۳)
’’وہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کو دیں گے جو زمین میں نہ اپنی بڑائی کے طالب ہوتے ہیں اور نہ فساد برپاکرنا چاہتے ہیں ‘‘۔
رسول کریمﷺ فرماتے ہیں:
انا واللہ لا نولّی علی عملنا ہذا احداً سألہ اوحرص علیہ (بخاری، کتاب الاحکام، باب۔۷۰)
’’بخدا ہم اپنی اس حکومت کا منصب کسی ایسے شخص کو نہیں دیتے جو اس کا طالب ہو یا اس کا حریص ہو۔‘‘
ان اخونکم عندنا من طلبہ (ابو دائود، کتاب الامارۃ، عن ابی موسی اشعریؓ)
’’ تم میں سب سے بڑھ کر خائن ہمارے نزدیک وہ ہے جو اسے خود بڑھ کر طلب کرے۔ ‘‘
انّا لا نستعمل علی عملنا من ارادہ (کنز العمال، ج:۶، ح:۱۴۷۸۵، ایضا)
’’ہم اپنی حکومت میں کسی ایسے شخص کو عامل نہیں بناتے جو اس کی خواہش کرے۔‘‘
(۲) وہ ایمان دار، خدا ترس اور نیکوکار امانت دار ہوں اور حد سے گزرنے والے فسادی نہ ہوں۔
اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ(ص:۲۸)
’’کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان لوگوں کی طرح کر دیں جو زمین میں فساد کرتے ہیں؟ کیا ہم پرہیزگاروں کو فاجروں کی طرح کر دیں؟‘‘
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا(الکہف:۲۸)
’’اور تو اطاعت نہ کر کسی ایسے شخص کی جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کی ہے اور جس کا کام حد سے گزرا ہوا ہے۔‘‘
(۳)وہ ذی علم، دانا اور معاملہ فہم ہوں اور کاروبار حکومت کی انجام دہی یا متعلقہ کام کے لیے مطلوبہ ذہنی اور جسمانی اہلیت رکھتے ہوں۔
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَآئَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا (النساء:۵)
’’اپنے اموال جنھیں اللہ نے تمھارے لیے ذریعہ قیام بنایا ہے نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو۔‘‘
قَالُوْٓا اَنّٰی یَکُوْنُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ (البقرۃ:۲۴۷)
’’(بنی اسرائیل نے کہا:اس کو(یعنی طالوت کو)ہم پر حکومت کا حق کہاں سے حاصل ہو گیا حالانکہ ہم اس کی بہ نسبت بادشاہی کے زیادہ حق دار ہیں اور اسے مال میں کوئی کشادگی نہیں دی گئی ہے۔ نبی نے کہا اللہ نے اسے تمھارے مقابلے میں برگزیدہ کیا ہے اور اسے علم اور جسم میں کشادگی دی ہے۔ ‘‘
وَشَدَدْنَا مُلْکَہٗ وَاٰتَیْنٰہُ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ (ص:۲۰)
’’اور داؤد کی بادشاہی کو ہم نے مضبوط کیا اور اسے حکمت اور فیصلہ کن بات کرنے کی صلاحیت دی۔‘‘
وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓی اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ(النساء:۸۳)
’’اور اگر یہ لوگ (افواہیں اڑانے کی بجائے)اس خبر کو رسول تک اور ان لوگوں تک پہنچاتے جو ان میں سے اولی الامر ہیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجاتی جو ان کے درمیان بات کی تہ تک پہنچ جاتے۔‘‘
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا (النساء:۵۸)
’’اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے حوالے کرو۔‘‘
’’امانتیں اہل امانت کے حوالے کرو‘‘ میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ ذمہ داریوں کے مناصب پر ان افراد کو فائز کیا جانا چاہیے جو مفوضہ ذمہ داریاں و فرائض انجام دینے کے لیے مطلوبہ صالحیت اور صلاحیت کے حامل ہوں۔خلافت و حکومت ایک امانت ہے ،جسے نااہلوں کے سپرد کرنا تباہی کا موجب ہے۔
ارشاد رسولﷺہے:اذا ضیّعت الامانۃ فانتظرالساعۃ۔قال کیف اضا عتھا یا رسول اﷲﷺ؟ قال اذا اسندالامر الیٰ غیر اھلہ فانتظرالساعۃ۔(بخاری عن ابی ہریرہؓ)
’’جب امانت ذائع کردی جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرنا۔عرض کیاگیا کہ یارسول اللہ، وہ کیسے ضائع کردی جائے گی؟ آپﷺنے فرمایا : جب حکومت کی زمام نااہلوں کے سپرد کردی جائے توپھر قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘
عدل و انصاف کا نظم
فقہاء اسلام کے نزدیک عدلیہ کے قیام اور قاضیوں یا ججوں کے تقررکے فرض کفایہ ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ عہد رسالت میں مدینہ واطراف سے باہر کے علاقوں میں آپﷺ امیر، عامل اور قاضی مقرر فرماتے تھے۔اسی طرح خلفائے راشدین کے عہد میں بھی ہر علاقے میں قاضی مقرر کیے جاتے تھے۔بہر حال، اسلامی ریاست میں عدلیہ بے لاگ اور ہر قسم کی مداخلت اور دبائو سے آزاد ہوتی ہے جو عوام اورحکّام اور حکومت کی باہمی نزاعات میں خدا ورسولﷺ کے بالاتر قانون کے مطابق ٹھیک ٹھیک فیصلے دیتی ہے۔
ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِذٰلِکَ خَیْر وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً (النساء:۵۹)
’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک اچھا طریقۂ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہترہے۔‘‘
اس آیت میں رفع نزاعات کے لیے قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ سے رجوع ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ظاہر ہے جب نزاع کے فریقین عوام میں سے کوئی فرد یا گروہ اور حکام اور حکومت ہوںتو فیصلہ کرنے والے فریقین خود نہیں ہو سکتے، ان کے سوا تیسرا آزاد اور غیر جانب دار شخص یا ادارہ یعنی جج اور عدالت ہونا چاہیے،جو ان کے درمیان کتاب وسنت کی بنیاد پر فیصلہ کرے۔جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ رسول کریم ﷺ مدینہ اور اطراف کے باہر کے علاقوں میں قاضی مقرر فرماتے تھے اور آپﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا اور باقاعدہ عدالتی نظام قائم کر دیا تھا۔ ان کے دور میں عدلیہ نہ صرف عوام کے باہمی نزاعات کا فیصلہ کرنے کی مجاز تھی بلکہ انتظامیہ کے خلاف بھی وہ لوگوں کے مقدمات کے فیصلے کرتی تھی۔اس عدالت میں پیش ہونے سے کوئی بھی مستثنیٰ نہ تھا حتیّٰ کہ خلیفۂ وقت بھی۔ اسی طرح خلیفۂ وقت اور خود حکومت کو بھی اگر کسی کے خلاف کوئی ذاتی یا سرکاری دعویٰ کرنا ہوتا تھا تو اسے عدالت میں جانا ہوتا تھا اور عدالت ہی خدا ورسولؐ کے قانون کے مطابق اس کا فیصلہ کرتی تھی۔
ریاست کے مقاصد وفرائض
اسلامی ریاست ایک مقصدی ریاست ہوتی ہے۔ اس ریاست کے دوبڑے مقاصد ہیں:
۱۔ عدل کا قیام اور ظلم وجور کا خاتمہ۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْس شَدِیْد وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ (الحدیْد:۲۵)
’’ہم نے اپنے رسولوں کو واضح ہدیات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب ومیزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں سخت قوت اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔‘‘
اس آیت میں انسانی معاشرے میں قیام عدل کو انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد اور ان کا مشن بتایا گیا ہے۔ قیام عدل کے لیے سیاسی وجنگی قوت درکار ہے، جیسا کہ مولانا مودودیؒ بجا طور پر اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’انبیاء علیہم السلام کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا کہ ہم نے لوہا نازل کیا جس میں بڑا زورہے‘ ‘ خود بہ خود اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے، اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیام عدل کی محض ایک اسکیم پیش کردینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ قوت فراہم کی جائے جس سے فی الواقع عدل قائم ہو سکے، اسے درہم برہم کرنے والوں کوسزا دی جاسکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جاسکے۔‘‘(تفہیم القرآن)
۲۔ اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کے نظام کا قیام نیز بھلائیوں و نیکیوں کا فروغ اور برائیوں کا خاتمہ:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ (الحج: ۴۱)
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے ،
ایتائے زکوۃ کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے۔‘‘
یعنی حکام خودکو بھی اور عوام کو بھی اقامت صلوٰۃ کا پابند کریں گے تاکہ ان کے اندر احساس بندگی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا نیز فسق وفجور اور کبر وغرور سے محفوظ رہنے کا احساس اور داعیہ ہمیشہ زندہ رہے۔اسی طرح ایتائے زکوۃ کے ذریعے مال کی محبت اور مادہ پرستی، بخل وفضو ل خرچی سے وہ محفوظ رہیں۔مزید یہ کہ وہ بھلائیوں کو فروغ دینے اور برائیوں کو مٹانے کی طرف سے کبھی غافل نہ رہیں۔ان مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی حکومت کا فرض ہوگا کہ وہ اسلام کے عبادتی نظام، روحانی واخلاقی نظام، معاشی واقتصادی نظام، خاندانی و معاشرتی نظام، عدالتی نظام کو قائم کرے اور بین الاقوامی امور اور جنگ و صلح نیز سیر تفریح اور کھیل کود وغیرہ سے متعلق اسلام کے اصول وضوابط کو قائم کرنے ، رکھنے اور انھیں مستحکم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔
رعایا کے حقوق
اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ریاست کے عوام مسلم وغیر مسلم ، مرد و عورت تمام کے درج ذیل بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے:
۱۔ جان کا تحفظ
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ (بنی سرائیل: ۳۳)
’’کسی جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے، حق کے بغیر قتل نہ کرو۔‘‘
۲۔ مال کا تحفظ
لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ(البقرۃء ۱۸۸)
’’اپنے مال آپس میں ناجائز طریقوں سے نہ کھائو۔‘‘
۳۔ عزت وآبرو کا تحفظ
لَا یَسْخَرْ قَوْم مِّنْ قَوْمٍ ۔۔ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۔۔۔ وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا (الحجرات:۱۱۔۱۲)
’’کوئی گروہ دوسرے کا مذاق نہ اڑائے۔۔۔ اور نہ تم ایک دوسرے کو عیب لگائو، نہ ایک دوسرے کو برے لقب دو۔۔۔ نہ تم میں سے کوئی کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی بدی کرے۔‘‘
وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا (الأحزاب:۵۸)
’’اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں انھوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا۔‘‘
اس آیت کی رو سے بہتان ایک اخلاقی گناہ ہی نہیں ہے جس کی سزا آخرت میں ملنی ہے بلکہ اس آیت کا تقاضا ہے کہ اسلامی ریاست کے قانون میں بھی جھوٹے الزامات لگانے کو (خواہ یہ فعل عوام کرے یا حکمراں) جرم مستلزم سزا قرار دیا جائے۔
۴۔ نجی زندگی یعنی Privacy کا تحفظ
لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا (النور: ۲۷)
’’اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میںداخل نہ ہو جب تک کہ اجازت نہ لے لو۔‘‘
وَّلَا تَجَسَّسُوْا (الحجرات: ۱۲)
’’اور لوگوں کے بھید نہ ٹٹولو، اُن کی جاسوسی نہ کرو۔‘‘
۵۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق
لَایُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ (النساء: ۱۴۸)
’’اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے الّا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو۔‘‘
واضح ر ہے کہ اسلام کا عام قانون اور اخلاقی ضابطہ تو یہی ہے کہ کسی کے خلاف بدگوئی یا بدزبانی ناجائز ہے، لیکن مظلوم کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اوپر کئے گئے ظلم کے خلاف آواز اٹھائے اور ایک حد تک ظالم کی بدگوئی بھی کرے۔ یہ ایک استثناہے جو صرف مظلوم کے سلسلے میں ہے۔ وہ صرف اس قدر برے الفاظ استعمال کر سکتا ہے جن سے ظالم کے حقیقی ظلم کا اظہار ہو رہا ہو۔ (فی ظلال القرآن،سید قطب شہیدؒ)
۶۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا حق جس میں تنقید اور اظہار خیال کی آزادی کا حق بھی شامل ہے۔
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (التوبہ: ۷۱)
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔‘‘
رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
’’میرے بعد کچھ لوگ حکمراں ہو نے والے ہیں، جو ان کے جھوٹ میں ان کی تائید کرے
اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کرے وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں۔ ‘‘(کنز العمال ج: ۶، ح:۱۴۸۹۱، بحوالہ نسائی کتاب البیعۃ عن کعب بن عجرۃ ؓ)
’’عن قریب تم پر ایسے لوگ حاکم ہوں گے جن کے ہاتھ میں تمھاری روزی ہوگی، وہ تم سے بات کریں گے تو جھوٹ بولیں گے اور کام کریں گے تو برے کام کریں گے۔ وہ تم سے اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کی برائیوں کی تعریف اور ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کرو۔پس تم ان کے سامنے حق پیش کرو جب تک وہ اسے گوارا کریں، پھر اگروہ اس سے تجاوز کریں تو جو شخص اس پر قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔‘‘( کنز العمال، ج: ۶، ح: ۱۴۸۸۸ بحوالہ طبرانی عن ابی سلالۃؓ)
’’جس نے کسی حاکم کو راضی کرنے کے لیے وہ بات کی جو اس کے رب کو ناراض کردے، وہ اللہ کے دین سے نکل گیا۔‘‘
’’سب سے افضل جہاد ظالم حکمراں کے سامنے انصاف (یا حق) کی بات کہنا ہے۔‘‘ (ابودائود)
واضح رہے کہ تنقید و اظہار خیال کی یہ آزادی بے لگام نہیں ہے بلکہ شرعی حدود کی پابند ہے۔
۷۔غیرمسلموں کو ضمیر واعتقاد اور مذہب کی آزادی کا خصوصی حق
لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ(البقرہ: ۲۵۶)
’’دین میں جبر نہیں ہے۔‘‘
افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مومنین (یونس: ۹۹)
’’کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں۔‘‘
یعنی انھیں بزور مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ اسلام قبول کریں۔ انھیں مذہبی اعتقاد کی اور اپنے مذہبی رسوم کی ادائیگی کی اور اپنے پرسنل لا پر چلنے کی مکمل آزادی حاصل ہوگی اور ان کے تحفظ کا حق حاصل رہے گا۔
عہد رسالتﷺ اور خلافت راشدہ میں بالخصوص اور بعد کے مسلم حکمرانوں کے دور میں بالعموم ان کے اس حق کو تحفظ حاصل رہا۔
۸۔ ہر شہری اور گروہ کا یہ حق ہوگا کہ اس کے خلاف کوئی کارروائی ثبوت کے بغیر اور انصاف کے معروف تقاضے پورے کیے بغیر نہ کی جائے۔
اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِق بِنَبَاءٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْاعَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ (الحجرات:۶)
’’اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو بے جانے بوجھے نقصان پہنچا دو اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔‘‘
وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْم’‘ (بنی اسرائیل: ۳۶)
’’کسی ایسی بات کے پیچھے نہ لگ جائو جس کا تمھیں علم نہ ہو۔‘‘
وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْابِالْعَدْلِ (النساء: ۵۸)
’’اور جب لوگوں کے معاملات میں فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔‘‘
۹۔ ہر حاجت مند اور محروم شہری کا یہ حق ہوگا کہ اس کی ناگزیر ضروریات زندگی کی فراہمی کا انتظام ہو۔
وَفِیْ ٓ اَمْوَالِھِمْ حَقّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الزارایات: ۱۹)
’’اور ان کے مالوں میں حق ہے مدد مانگنے والے اور محروم کا۔‘‘
رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے :
’’جوشخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار (خلیفہ یا امیر) ہو تو اللہ اس کی حاجت پوری نہیں کرے گا ، جب تک وہ لوگوں کی حاجتیں پوری نہ کرے۔ ‘‘
۱۰۔ انسانی مساوات یعنی یہ حق کہ پیدائشی طور پرتمام انسان یکساں ہیں۔ رنگ ونسل وزبان و صنف و وطن کی بنیاد پر کسی کو حقیر و کم تر نہ سمجھا جائے، اس بنیاد پرکسی فرد، گروہ و طبقے کو امتیازی حقوق حاصل نہ ہوں اور نہ کسی کی حیثیت دوسرے کے مقابلے میں فروتر سمجھی جائے۔
ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّاخَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰئکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْم خَبِیْر (الحجرات:۱۳)
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھیں قبیلوں اور قوموں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ ‘‘
حضورﷺ کا ارشاد ہے:
’’لوگو! سن لو، تمھارا رب ایک ہے، کسی عربی کو عجمی پر یاکسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ،نہ کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت ہے مگر تقویٰ کے لحاظ سے۔‘‘
(بیہقی عن جابر بن عبداللہؓ)
’’لوگو! تمام انسان بس دو ہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک نیک اور پرہیز گار جو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے اور دوسرا فاجر اور شقی جو اللہ کی نگا ہ میں ذلیل ہے۔ ورنہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے۔‘‘ (ترمذی، عن ابی ہریرۃ ؓ)
رعایا پر حکومت کے حقوق
۱۔ اطاعت فی المعروف
اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ (النساء:۵۹)
’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے اولی الامر ہوں۔ پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اوررسول کی طرف پھیر دو۔‘‘
وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ (الممتحنہ: ۱۲)
’’اور یہ کہ وہ کسی امر معروف میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی۔‘‘
رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے :
’’ایک مسلمان پر اپنے امیر کی سمع واطاعت فرض ہے۔ خواہ اس کا حکم اسے پسند ہو یا ناپسند تا وقتیکہ اسے معصیت کا حکم دیا جائے۔ اور جب معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر کوئی سمع وا طاعت نہیں۔‘‘ (بخاری)
’’اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں۔ اطاعت صرف معروف میں ہے۔‘‘ (مسلم)
۲۔ قانون کی پابندی اور نظم میں خلل نہ ڈالنا۔
لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا (الاعراف: ۸۵)
’’زمین میں فساد نہ کرو اس کی اصلاح ہو جانے کے بعد۔‘‘
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا (المائدۃ:۳۳)
’’جو لوگ اللہ ورسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں یا صلیب دیے جائیں۔‘‘
فقہاء کا تقریباً اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد دراصل وہ لوگ ہیں جو رہزنی اور ڈاکہ زنی کریں یا مسلح ہو کر ملک میں بدامنی پھیلائیں۔ (الجصاص، ج: ۲، ص: ۴۹۳)
۳۔ تمام بھلے کاموں میں تعاون کرنا۔
تَعَاوَنُوْاعَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (مائدہ: ۲)
’’نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرو اور گناہ و زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔‘‘
۴۔ دفاع کے کام میں جان اور مال سے پوری مدد کرنا۔
مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ۔۔۔ اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا ۔ اِنْفِرُوْاخِفَافًاوَّ ثِقَالًا وَّجَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذٰلِکُمْ خَیْر لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (التوبۃ:۳۸۔۴۱)
’’تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم کو خدا کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا جاتا ہے تو تم زمین میں جم کر بیٹھ جاتے ہو۔۔۔ اگر تم نہ نکلو گے تو اللہ تمھیں دردناک سزا دے گا اور تمھاری جگہ کوئی دوسری قوم لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔۔۔ نکلو، خواہ تم ہلکے ہو یا بھاری اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے، یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔‘‘
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَان مَّرْصُوْص (الصف:۳)
’’اللہ کو وہ لوگ محبوب ہیں جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں۔‘‘
جنگ و صلح سے متعلق خارجہ پالیسی
۱۔ بدعہد ی سے اجتناب اور اگر معاہدہ ختم کرناضروری ہوجائے تو اس کی اطلاع فریق ثانی کو دے دینا۔
وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا (بنی اسرائیل: ۳۴)
’’عہد وفا کرو یقینا عہد کے متعلق باز پرس ہوگی۔‘‘
فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ (التوبہ:۷)
’’جب تک دوسرے فریق کے لوگ تمھارے ساتھ عہد پر قائم رہیں تم بھی قائم رہو، یقینا اللہ پرہیزگاروں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْکُمْ شَیْئًا وَّلَمْ یُظَاھِرُوْا عَلَیْکُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْٓا اِلَیْھِمْ عَھْدَھُمْ اِلٰی مُدَّتِھِمْ (التوبہ: ۴)
’’مشرکین میں جن لوگوں کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا پھر تمھارے ساتھ وفا کرنے میں کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کی مدد کی تو ان کے عہد کو معاہدے کی مدت تک پورا کرو۔‘‘
وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِّیْثَاق (الانفال: ۷۲)
’’اور اگر (دشمن کے علاقے میں رہنے والے مسلمان) تم سے مدد مانگیں تو مدد کرنا تمھارا فرض ہے مگر یہ مدد کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں دی جاسکتی جس سے تمھارا معاہدہ ہو۔‘‘
وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ اِلَیْھِمْ عَلٰی سَوَآئٍ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ (الانفال: ۵۸)
’’اور اگر تمھیں کسی قوم سے خیانت (بدعہدی ) کا اندیشہ ہو جائے تو ان کی طرف پھینک دو (ان کا عہد)برابری ملحوظ رکھ کر۔ یقیناً اللہ خائنو ں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
۲۔ عہد و پیمان میں نیت کی پاکیزگی ،مکروفریب سے اجتناب:
وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَیْمَانَکُمْ دَخَلًا م بَیْنَکُمْ (النحل: ۹۴)
’’اور اپنی قسموں کو اپنے درمیان مکر وفریب کا ذریعہ نہ بنا لو۔‘‘
یعنی دھوکہ دینے کی نیت سے معاہدہ نہ کرو کہ فریق ثانی تو تمھاری قسموں کی بنا پر تمھاری طرف سے مطمئن ہو جائے اور تمھارا ارادہ یہ ہو کہ موقع پا کر اس سے غدرکرو۔(ابن جریر، ج: ۱۴، ص: ۱۱۲)
۳۔ صلح پسندی:
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا (الانفال: ۶۱)
’’اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی مائل ہو جاؤ۔‘‘
۴۔ دنیا میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں سے اور غارت گری اور فساد برپاکرنے سے اجتناب:
تِلْکَ الدَّارُالْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ (القصص: ۸۳)
’’وہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کریں گے جو زمین میں اپنی برتری نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں، نیک انجام پرہیزگاروں کے لیے ہے۔‘‘
۵۔ کسی قوم کی دشمنی میں عدل کا دامن نہ چھوڑنا۔
وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدۃ:۸)
’’اور کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کروکہ یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔‘‘
۶۔ غیر دشمن طاقتوں سے دوستانہ برتاؤ:
لَایَنْھٰئکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ( الممتحنہ: ۸)
’’اللہ تم کو اس بات سے نہیں روکتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے، ان کے ساتھ تم نیک سلوک اور انصاف کرو، یقینا اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
۷۔ جو ظلم و زیادتی کی گئی اس کے بقدر ہی بدلہ لینا۔
وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃ مِّثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہٖ فَاُولٰٓئِکَ مَا عَلَیْھِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَاب اَلِیْم (الشوریٰ:۳۹ تا ۴۲)
’’اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تواس کا مقابلہ کرتے ہیں،برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے،پھر جو کوئی معاف کردے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے،اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا، اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جا سکتی، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاںکرتے ہیں،ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘
(الف) اسے اہلِ ایمان کی صفات میں شمار کیا ہے کہ وہ ظالموں اور جباّروں کے لیے نرم چارہ نہیں ہوتے۔ ان کی شرافت کا تقاضایہ ہے کہ جب غالب ہوںتو مغلوب کے قصور معاف کردیں ، لیکن جب کوئی طاقتور اپنی طاقت کے زعم میں ان پر دست درازی کرے تو اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔
(ب) بدلہ لینے کے سلسلے میں تین اصولی قاعدے ہیں جن کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔
(۱) بدلہ کی جائز حد یہ ہے کہ جتنی برائی کسی کی ساتھ کی گئی ہو اتنی ہی برائی وہ اس کے ساتھ کرلے۔ اس سے زیادہ برائی کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا۔
(۲) زیادتی کرنے والے سے بدلہ لے لینا اگرچہ جائز ہے، لیکن جہاں معاف کردینا اصلاح کا موجب ہو سکتا ہو وہاں اصلاح کی خاطر بدلہ لینے کے بجائے معاف کردینا زیادہ بہتر ہے۔
( ۳) کسی شخص کو دوسرے کے ظلم کا انتقام لیتے لیتے خود ظالم نہیں بن جانا چاہیے۔ایک برائی کے بدلہ میں اس سے بڑھ کر برائی کر گزرنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح گناہ کا بدلہ گناہ کی صورت میں لینا جائز نہیں ہے۔مثلاًزنا و عصمت دری ،چوری و ڈاکہ زنی(کے بدلے ایسی ہی حرکات)، کسی ظالم نے کسی کو قتل کردیا یا مارا پیٹا تو اس کے بجائے اس کے کسی رشتہ دار یا اس کی قوم کے فرد یا افرادکو قتل کردینا یا مارنا پیٹنا وغیرہ۔ (تفہیم القران ازمولانا مودودیؒ)
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْااِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (البقرہ۔۱۹۰)
’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
۸۔جنگ کی غایت
جنگ کا بدلہ جنگ اور تلوار کا جواب تلوار سے دیاجائے گا، لیکن اللہ کی راہ میں ،نہ کہ مادّی اغراض کے لئے نیز ان لوگوں پر ہاتھ نہیں اٹھے گا جو دینِ حق کی راہ میں مزاحمت نہیں کرتے، اور نہ لڑائی میں جاہلیت کے طریقے استعمال کئے جائیں گے۔ عورتوں اور بچوںاور بوڑھوں اور زخمیوں پر دست درازی کرنا ،دشمن کے مقتولوں کامُثلہ کرنا، کھیتوں اور مویشیوں کو خواہ مخواہ برباد کرنا اور دوسرے تمام وحشیانہ و ظالمانہ افعال’’حد سے گزرنے ـ‘‘ کی تعریف میں آتے ہیں اور حدیث میں ان سب کی ممانعت ہے ۔
وَ قٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فِاِنِ انْتَھَوْا فَلاَ عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ اَلشَّھْرُ الْحَرَامُ بِالشَّھْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاص فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ (البقرہ۱۹۳،۱۹۴)
’’تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے پھر اگر وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں ہے۔ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا۔ لہذا جوتم پر دست درازی کرے تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان رکھو کہ اللہ ان ہی لوگوں کے ساتھ ہے جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں۔‘‘
(الف) سوسائٹی کی وہ حالت جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی و فرمانروائی قائم ہو اور اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے، فتنے کی حالت ہے، اور اسلامی جنگ کا مطمحِ نظریہ ہے کہ اس فتنے کی جگہ ایسی حالت قائم ہو جس میں بندے صرف قانونِ الہٰی کے مطیع بن کر رہیں۔
(ب) باز آجانے سے مراد کافروں کا اپنے کفر و شرک سے باز آجانا نہیں، بلکہ فتنے سے بازآجاناہے۔ کافر،مشرک،دہریے ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھتا ہے رکھے، جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی نہ کرے ۔لیکن اسے یہ حق ہرگز نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کےبجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور خدا کے بندوں کو خدا کے سواکسی کا بندہ بنائے۔
(ج) اور یہ جو فرمایا کہ اگر وہ باز آجائیں تو’’ ظالموں کے سوا کسی پر دست د رازی روا نہیں‘‘ تو اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جب نظامِ حق قائم ہوجائے تو عام لوگوں کوتو معاف کردیا جائے گا لیکن ایسے لوگوں کو سزا دینے میں اہلِ حق بالکل حق بجانب ہونگے، جنھوں نے اپنے دورِ اقتدار میں نظامِ حق کا راستہ روکنے کے لئے ظلم و ستم کی حد کر دی ہو۔ چنانچہ جنگِ بدر کے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی مُعیط اور نضر بن حارث کا قتل اور فتح مکہ کے بعد نبیؐکا ۱۷ آدمیوں کو عفوِعام سے مستثنیٰ فرمانا اور پھر ان میں سے چار کو سزائے موت دینا اسی اجازت پر مبنی ہے۔
(تفہیم القران ازمولانا مودودیؒ)
حکومت کی جوابدہی
اسلامی نظام میں حکومت اور اس کے اختیارات اور اموال سب خالق (یعنی اللہ تعالیٰ) اور مخلوق (یعنی رعایا) کی امانت ہوتے ہیں جو خدا پرست و خدا ترس ،ایماندارو دیانتدار اور عادل افراد کے سپرد کئے جاتے ہیں۔ اس امانت میں کسی کو بھی من مانے طریقے سے تصرف کرنے کا حق نہیں ہے، اور جن افراد کے سپرد یہ امانت ہو وہ اس کے لئے جوابدہ ہیں، خدا کے حضور آخرت میں اور دنیا میں عوام کے سامنے۔ عوام کو کہیں بھی کسی بھی وقت ان کا احتساب کرنے کا حق ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْابِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا (النساء:۵۸)
’’اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تمہیں اچھی نصیحت کرتا ہے۔ یقینااللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
(جاری)
مشمولہ: شمارہ مئی 2015