(اس مضمون میں اتحاد امت کے بجائے امت کے رشتے پر بات کی گئی ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ اتحاد امت کا کام اس وقت انجام پاتا ہے جب سب لوگ اس کے لیے راضی ہوجائیں، لیکن امت کے رشتے کو محسوس کرنے کی ذمے داری ہر فرد پر ہر حال میں عائد ہوتی ہے۔ اتحاد امت ایک اجتماعی فیصلہ ہے، جب کہ امت کے رشتے کی فکر ایک انفرادی فکر ہے جو امت کے ہر فرد میں ہونی چاہیے۔ افراد میں امت کے رشتے کا احساس جتنا بڑھے گا،امت میں اتحاد کی راہیں اتنی ہی زیادہ ہم وار ہوں گی۔)
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا [آل عمران: 103]
(سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں تقسیم نہ ہوجاؤ)
قرآن مجید میں سورہ آل عمران کے ایک مقام پر مسلم امت کو بحیثیت امت مختلف ضروری ہدایات دی گئی ہیں۔ اس مقام پر ایک نہایت اہم دو نکاتی ہدایت یہ ہے کہ افرادِ امت کا دین سے بہت مضبوط رشتہ ہونا چاہیے اور امت سے ان کی گہری وابستگی ہونی چاہیے۔ یہ طاقت کے دو بہت اہم سرچشمے ہیں۔ ایک اللہ کا دین اور دوسرا امت کا رشتہ۔اس مضمون میں امت کے رشتے کی اہمیت کو بیان کیا جائے گا۔
ملک عزیز میں مسلم امت کی طاقت ور پوزیشن ہو، اسے تحفظ حاصل ہو اور وہ ترقی کی راہوں پر سفر جاری رکھے۔ اسی صورت میں وہ عزت کی زندگی گزار سکے گی، صحیح خطوط پر ملک کی تعمیر میں حصہ لے سکے گی اور اپنے نصب العین کے تقاضے پورے کرسکے گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کا مسلم امت سے مضبوط رشتہ قائم رہے۔ امت سے مضبوط رشتے کے احساس کے بغیر وہ امت کی تقویت و ترقی کے کسی منصوبے میں بھر پور حصّہ نہیں لے سکیں گے۔ امت کی تقویت و ترقی کا ہر منصوبہ اخلاص و ایثار اور دیگر مفادات سے بلند ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔
اگر ایک مسلمان کی دل چسپی اور فکر مندی امت کے بجائے اپنی ذات،خاندان یا امت کے کسی خاص گروہ، جماعت یا ادارے تک محدود ہوجائے تو وہ امت کے لیے سنجیدہ اور حساس نہیں ہوگا۔ پھر ہوگا یہ کہ اسے صرف اپنے محدود دائرے کی فکر رہے گی۔ اپنا دائرہ محفوظ دیکھ کر وہ مطمئن ہوجائے گا چاہے باقی پوری امت شدید خطرات سے دوچار ہو۔ بلکہ بسا اوقات تو خود اپنے ہاتھوں امت کونقصان سے دوچار کرکے اپنے دائرے کو فائدہ پہنچانے میں بھی اسے کوئی باک نہیں ہوگا۔
اللہ تعالی نے اسلام کی بنیاد پر تشکیل پانے والی امت کو برپا کیا، اسے ایک خاص مشن تفویض کیا، امت کے بنیادی اوصاف متعین کیے اور ایسے بہت سے انتظامات کیے جن سے افرادِ امت میں امت سے وابستگی کا احساس تازہ اور توانا رہے۔ اس کے بعد امت کے افراد کا امتحان ہے کہ وہ ان انتظامات سے فائدہ اٹھاکر امت کا مضبوط حصہ بنتے ہیں یا مختلف خرابیوں کا شکار ہوکر امت سے رشتہ کم زور کرلیتے ہیں۔
علامہ اقبال نے جوابِ شکوہ کی صورت میں امت کی جن خرابیوں کا شکوہ کیا، ان میں سے ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ امت کے اندر وحدت نہیں رہی، جب کہ وحدت کے طاقت ور اسباب موجود ہیں:
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں
اللہ کی طرف سے وحدت کے زبردست انتظامات کے باوجود ٹکڑوں میں بٹ جانا اور بے وقعت ٹکڑوں سے نسبت کوعظیم امت سے تعلق پر فوقیت دینا بڑی ناشکری اور ناسمجھی کی بات ہے۔
بہترین امت کی بہترین اساس
کلمہ توحید (لا الہ الا اللہ) اور کلمہ رسالت (محمد رسول اللہ ) کی بنیاد پر مسلم امت کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ یہ بنیاد نہایت اعلی اور بے انتہا مضبوط بنیاد ہے۔ اس پر قائم ہونے والا رشتہ ہر رشتے سے زیادہ اہم اور مضبوط ہونا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں مسلمانوں کے درمیان سب سے اہم تعلق امت کا تعلق ہونا چاہیے۔ یہی ایک رشتہ ہے جس کی حیثیت دینی رشتے کی ہے۔ اس رشتے کا وجود ہی دین سے ہے۔
دینی رشتے سے اونچا کوئی رشتہ نہیں
امت کے رشتے کی خوبی یہ ہے کہ وہ دین کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے۔ جیسے ہی لوگ اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں، وہ امت کے رشتے میں جڑجاتے ہیں۔ دین کی بنیاد پر قائم ہونے والے اس رشتے کو اللہ تعالی نے یوں بیان کیا: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ [الحجرات: 10](مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں)۔
ہم مسلک ہونے کا بھی ایک رشتہ ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد کسی ایک فقہی یا کلامی مسلک کے اجتہادی منہج اور رایوں سے اتفاق ہوتا ہے۔ یہ رشتہ قابل قدر ہے، لیکن یہ اتنا اہم اور مقدس نہیں ہے کہ اسے امت والے رشتے پر فوقیت حاصل ہوجائے۔کیوں کہ اس کی بنیاد علمائے مسلک کے اجتہادات ہیں۔
ہم مشرب ہونے کا رشتہ بھی قابلِ قدر ہے۔ اس رشتے کو انسان اپنے ذوق کی بنیاد پر اختیار کرتا ہے۔ یہ رشتہ بھی امت کے رشتے کے برابر نہیں ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اس کی بنیاد کچھ ہم خیال علما کے تجربات، خیالات اور طریقہ فکر سے ہم آہنگی ہوتی ہے۔
کسی شیخ سے عقیدت کا رشتہ بھی قائم ہوسکتا ہے۔ لیکن وہ اس شیخ سے خوش عقیدگی کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اسے بھی امت والے رشتے کا مقام نہیں مل سکتا ہے۔کیوں کہ اس کی بنیاد شیخ کی ذات ہوتی ہے۔
امت والا رشتہ دین کی بنیاد پر قائم ہے۔ جب کہ امت کے اندر جو دوسرے مذہبی قسم کے رشتے وجود میں آتے ہیں، عام طور سے وہ دین کی بعض جزئیات یا بعض پہلوؤں کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں۔ اس لیے ان رشتوں کو اتنی ہی اہمیت دینی چاہیے جتنی اہم ان کی بنیاد ہے۔ جب ان رشتوں کو ان کی بنیاد سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے تو وہ زیادہ اہم ہوکر دینی رشتے کی اہمیت گھٹادیتے ہیں اور اس طرح جو رشتہ سب سے مضبوط ہونا چاہیے وہ بہت کم زور ہوجاتا ہے۔
ہم مسلک، ہم مشرب، ہم مکتب، ہم سلسلہ، ہم منہج، ہم جماعت، وغیرہ یہ سارے رشتے قابل قدر ہونے کے باوجود دینی رشتے کی جگہ نہیں لے سکتے۔
بعض رشتے محض انسیت و تعارف کے لیے ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہ اپنی حدوں سے آگے بڑھتے ہیں توان کا سیدھا تصادم دینی رشتے سے ہوتا ہے۔ پھر یا تو وہ شکست کھاکر پیچھے ہٹتے ہیں یا آگے بڑھ کر امت کے رشتے کو پسپا و شکستہ کر دیتے ہیں۔ گفتگو کرنے کے لیے زبان کا اشتراک ضروری ہے، اس لیے ہم زبان ہونے کا ایک تعلق فطری طور پر قائم ہوجاتا ہے۔ خاندان اور قوم کا رشتہ باہمی تعارف اور انسیت کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایک ملک یا علاقے کے لوگ جب غریب الوطنی میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو دل لگی کا احساس ہوتا ہے۔ غرض یہ رشتے ایک دوسرے سے قریب اور مانوس کرتے ہیں۔ تاہم ان رشتوں کو اس سے زیادہ اہمیت نہیں ملنی چاہیے۔ان رشتوں کی اہمیت بڑھانے کا سیدھا مطلب ملّی رشتے کی اہمیت کو گھٹانا ہوتا ہے۔ جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے۔
اسے امت کا رشتہ کم زور ہوجانے کا شاخسانہ ہی کہا جائے گا کہ عالم اسلام میں وطنیت کے نعرے نے بڑے فتنے کی شکل اختیار کرلی۔ بعض عرب ملکوں میں یہ آواز یں سنی جانے لگیں کہ بیت المقدس کا مسئلہ ہمارا اور ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں، صرف فلسطینیوں کا مسئلہ ہے۔علامہ یوسف قرضاوی نے اس کے رد میں کتاب لکھی جس کا نام رکھا القدس قضیۃ کل مسلم (بیت المقدس کا مسئلہ ہر مسلمان کا مسئلہ ہے)۔یہ بھی دیکھا گیا کہ دنیا کے کسی مقام پر مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اور وطنیت کے نشے میں چور کچھ لوگ اپنے ملک کے پر امن ہونے پر چین کی بانسری بجارہے ہیں۔حالیہ اسرائیل فلسطین جنگ نےبہت سے ملکوں میں پھیلی وطنی جاہلیت کو بے نقاب کردیا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کو جس قدر شدید چیلنج درپیش ہیں، ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ مسلمانوں کا دین اور امت سے بہت مضبوط رشتہ قائم ہوتا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ملکِ عزیز میں جتنے خطرے مسلمانوں کو درپیش ہیں ان سے زیادہ سنگین خطرے مسلمانوں کی وحدت کو درپیش ہیں۔ ہندوستان میں فسطائی طاقتوں کی اولین کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کے بیچ مسلکی اختلافات کو ہوا دی جائے۔ اس کے لیے حکومت کی سرپرستی میں مخصوص مسلک کی کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا۔ اس کوشش کے خاطر خواہ نتیجے سامنے نہ آنے کی وجہ سے انھوں نے نشانہ تبدیل کیا۔ اب ان کی کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان برادری کے معمولی فرق کو اتنا زیادہ ابھار دیا جائے کہ ملّی رشتہ پس پشت چلا جائے۔یہ بات تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ برادری کے رشتے کی کوئی دینی بنیاد نہیں ہے، جب کہ ملّی رشتے کی بنیاد دین ہے، جو بہت مضبوط اور مقدس بنیاد ہے۔ برادری کے تعلق کو ملّی رشتے پر ترجیح دینا سراسر گھاٹے کا سودا ہے اور دین کی کھلی ناقدری ہے۔ مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ دشمنانِ اسلام کی ایسی سازشوں پر گہری نگاہ رکھیں اور ایسی ہر کوشش کو متحد ہوکر پوری طرح ناکام کردیں۔
امت کے رشتے کی فکر کرتے رہیں
مسلمان ایک امت ہیں، تو اس امت کا رشتہ بہت مضبوط ہونا چاہیے اور اس میں کم زوری لانے والے تمام اسباب کا سد باب ہونا چاہیے۔ اس کے لیے قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ میں خصوصی ہدایات دی گئی ہیں۔ان ہدایات میں خاص طور سے مسلم امت کو ان خرابیوں سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے جو امت کے رشتے کو کم زور کرتی ہیں اور ان خوبیوں سے متصف ہونے کی ترغیب دی گئی ہے جو امت کے رشتے کو مضبوطی عطا کرتی ہیں۔ بطور مثال کچھ آیتیں اور کچھ حدیثیں یہاں پیش کی جاتی ہیں:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ. يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَی أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَی أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ. يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ . [الحجرات: 10 تا 12]
(مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ایمان لانے کے بعد فسق سے متصف ہونا بہت بری بات ہے، جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔)
المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَی دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ۔ (ترمذی)
(مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں، مومن وہ ہے جس کی طرف سے لوگ اپنی جان و مال کے معاملے میں بے خطر رہیں۔)
سِبَابُ المُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ۔(بخاری)
(مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے۔)
الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ، مَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ بِهَا كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔(مسلم)
(مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس پر ظلم نہیں کرتا ہے، اسے بے سہارا نہیں چھوڑتا ہے، جو اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے گا اللہ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو کسی مسلمان سے پریشانی دور کرے گا اللہ قیامت کے دن کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی اس سے دور کردے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔)
اس طرح کی آیتوں اور حدیثوں کو پڑھتے ہوئے یہ سوال ذہن میں آسکتا ہے کہ یہاں تو وہ بنیادی اخلاقی اوصاف بتائے گئے ہیں جنھیں ہر حال میں برتناضروری ہے، مسلمانوں کے ساتھ بھی اور غیر مسلموں کے ساتھ بھی۔ پھر صرف مسلمانوں کے ساتھ تعامل کے حوالے سے انھیں کیوں ذکر کیا گیا۔ لیکن اگر ان کا سیاق سامنے رہے تو یہ اشکال دور ہوجائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان اخلاقی اوصاف کو سب کے ساتھ برتنا چاہیے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں تربیت پانے والا شخص ہمیشہ ان اوصاف سے متصف رہے گا خواہ اس کا معاملہ کسی مسلمان کے ساتھ ہو یا غیر مسلم کے ساتھ۔ البتہ اوپر جن آیتوں اور حدیثوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ امت کے باہمی رشتے کی مضبوطی اور اس کی حفاظت کے حوالے سے ہیں۔ ان میں اس پر فوکس ہے کہ امت کا رشتہ بہت مضبوط ہوجائے اور کوئی اخلاقی خرابی اسے توڑنے میں کام یاب نہ ہو۔
دین پرتوجہ بڑھانے سے امت کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے
امت کا رشتہ مضبوط کرنے کا راستہ یہ ہے کہ امت کی اصل بنیاد یعنی دین پر زیادہ زور دیا جائے۔دین پر جتنا زیادہ ارتکاز ہوگا، امت والے رشتے میں بھی اتنی ہی زیادہ مضبوطی آئے گی۔ اگر کسی گروہی مسئلے پر زیادہ ارتکاز ہوگا تو اس خاص گروہی عصبیت کو زیادہ طاقت ملے گی۔
امت کے درمیان اس رجحان کو فروغ دینا چاہیے کہ دین کے لیے فکرمندی زیادہ ہو، اسی کے لیے کوششیں ہوں، غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے، مسلمانوں کو دین داری کی طرف بلایا جائے۔ دین کا دفاع کیا جائے۔ دین کی خوبیاں بیان کی جائیں۔ دین کے حق میں رائے عامہ بنائی جائے۔ اقامت دین کا خواب دکھایا جائے۔ اس خواب کی تکمیل کا شوق بڑھایا جائے۔ دور حاضر کی اسلامی تحریکات کا یہ بڑا کارنامہ ہے کہ انھوں نے تمام عصبیتوں سے اوپر اٹھ کر دین اور اقامت دین کو امت کے غور و فکر اور تگ و تاز کا مرکز بنانے کی کوشش کی۔
مشاہدے کی روشنی میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان جتنا زیادہ دین کا ذکر ہوگا اتنا ہی زیادہ ان کے اندر ایک امت ہونے کا احساس فروغ پائے گا۔ جب دین سے زیادہ دوسری نسبتوں کا ذکر ہوگا تو پھر فرقہ بندی کو بڑھاوا ملے گا۔
امت سے رشتہ مضبوط کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دین کے سرچشمے یعنی قرآن و سنت سے مسلمانوں کو جوڑا جائے۔ قرآن و سنت کو اصل مرجع بنانے کی تحریک چلائی جائے۔ قرآن و سنت کےحوالے سے زیادہ گفتگو کی جائے۔ دیگر کتابوں کو اساسِ دین کی حیثیت نہ دی جائے۔
قرآن مجید پڑھنے اور اس پر تدبر کرنے کی مہم چلائی جائے۔ قرآن کو ترجمے سے پڑھنے پر زور دیا جائے۔ ترجمہ کس کا پڑھا جائے؟ اس سلسلے میں کسی خاص ترجمے پر اصرار نہ کیا جائے۔
نماز امت کو جوڑنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اقامت صلاۃ کی تحریک چلائی جائے۔لوگوں کو نماز کی طرف بلایا جائے۔ نماز کس مسلک کے مطابق ادا کرنی ہے اسے نمازی کی صواب دید پر چھوڑ دیا جائے۔
ہر مسجد اللہ کا گھر ہے، ہر مسجد کا قبلہ خانہ کعبہ ہے، ہر مسجد اللہ کی عبادت کے لیے ہے۔ یہ متفق علیہ باتیں ہیں اور سب کو ایک امت بنانے والی ہیں۔ اگر مسجد کو کسی خاص مسلک سے منسوب کردیا جائے تو امت کا تصور منہدم ہوجاتا ہے اور مسلک امت سے زیادہ اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ پھر وہ مسجد امت کو متحد کرنے والی نہیں بلکہ تقسیم کرنے والی محسوس ہوتی ہے۔ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں َتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ [التوبة: 107]کی تعبیر اس پر صادق نہ آجائے۔ آپ خود سوچیں کہ جب کسی مسجد پر کسی خاص مسلک کی تختی لگی ہوئی ہو تواس مسجد سے دین اور امت والا رشتہ قائم ہوگا یا مسلک والا۔
ملّی رشتے کے عملی تقاضے
دین کی بنیاد پر قائم ہونے والا رشتہ بہت بلند اور پاکیزہ ہوتا ہے۔ اس رشتے کے بہت سے عملی تقاضے ہیں۔ جو ان تقاضوں کو پورا نہ کرے وہ اس رشتے کا سزاوار نہیں رہتا ہے۔ اس کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے ’مِنّا‘ (ہم میں سے) کی تعبیر اختیار کی اور مختلف مثالوں سے بتایا کہ اس نسبت کے عملی تقاضے کس طرح کے ہوتے ہیں اور انھیں پورا کرنا کتنا ضروری ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ کے کچھ ارشادات ملاحظہ فرمائیں:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الخُدُودَ، وَشَقَّ الجُيُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَی الجَاهِلِيَّةِ۔ (بخاری)
(جورخسار پیٹے،گریبان پھاڑے اور جاہلیت کے آوازے بلند کرے وہ ہم میں سے نہیں۔)
مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلاَحَ فَلَيْسَ مِنَّا۔ (بخاری)
(جو ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں۔)
مَنِ ادَّعَی مَا ليْسَ لَهُ فَلَيْسَ مِنَّا۔ (مسلم)
(جو ایسی چیز پر دعوی کرے جو اس کی نہیں وہ ہم میں سے نہیں۔)
مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا۔ (مسلم)
(جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔)
مَنْ انْتَهَبَ فَلَيْسَ مِنَّا۔ (ترمذی)
(جو لوٹ کھسوٹ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔)
مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا فَلَيْسَ مِنَّا۔(ابوداؤد)
(جو چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کی قدر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔)
مَنْ خَبَّبَ زَوْجَةَ امْرِئٍ، أَوْ مَمْلُوكَهُ فَلَيْسَ مِنَّا۔ (ابو داؤد)
(جو کسی کی بیوی یا اس کے غلام کو اس کے خلاف بھڑکائے وہ ہم میں سے نہیں۔)
لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَی عَصَبِيَّةٍ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَی عَصَبِيَّةٍ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَی عَصَبِيَّةٍ۔ (ابواداؤد، ضعيف عند الالباني)
(جو کسی عصبیت کی طرف بلائے وہ ہم میں سےنہیں، جو کسی عصبیت کی خاطر جنگ کرے وہ ہم میں سے نہیں اور جو کسی عصبیت کی حالت میں مرجائے وہ ہم میں سے نہیں۔)
یہ ارشادات اس رشتے کے عملی تقاضوں کی کچھ مثالیں ہیں۔ ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عمومی تصور قائم کیا جاسکتا ہے کہ دین کے تمام مطالبات کا اس رشتے سے گہرا تعلق ہے۔ دین کے مطالبات جس قدر پورے کیے جاتے ہیں،اس رشتے کا استحقاق اتنا ہی بڑھتا ہے اور دین کے مطالبات سے جس قدر غفلت برتی جائے اس رشتے کااستحقاق اتنا ہی کم ہوتا ہے۔ جو دین سے کچھ بھی دوری اختیار کرے گا وہ‘ لیس منّا ’ (وہ ہم میں سے نہیں) کا سزاوار ہوجائے گا۔
یاد رہے کہ یہ روایتیں اس لیے نہیں ہیں کہ ان کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف امت سے اخراج کے فیصلے کیے جائیں، بلکہ ان روایتوں کا مقصد یہ ہے کہ دین کے عملی تقاضوں سے غافل مسلمانوں کے دینی ضمیر کو اندر سے جھنجھوڑ کر اسےخواب غفلت سے بیدار کریں۔ یہ روایتیں اخراج کے لیے نہیں اصلاح کے لیے ہیں۔
امت کے رشتے کو سیراب کرتے رہیں
رشتہ کوئی بھی ہو،تازہ و توانا رہنے کے لیے اسے تازگی بخش غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کا بہترین انتظام موجود ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت ایک امت ہونے کا احساس بڑھاتی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی تلاوت دنیا بھرکے تمام مسلمان کرتے ہیں۔ قرآن کی تلاوت پوری امت کا شعار ہے۔
قرآن کا اسلوب ِکلام پوری امت کو ایک اکائی مان کر مخاطب کرنے والا ہے۔ قرآن مجید میں یا تو یا أیھا الناسکہہ کر انسانوں کی وحدت کو خطاب کیا گیاہے یا پھر یا أیھا الذین آمنوا کہہ کر مسلمانوں کی وحدت کو خطاب کیا گیاہے۔ امت کے اندر مسلمانوں کے کسی گروہ کو قرآن تسلیم نہیں کرتا ہے۔ قرآن مجید مسلمانوں کی تقسیم نہیں کرتا۔ وہ ایسی تعبیرات اختیار کرتا ہے جن سے اہل ایمان کے ایک امت ہونے کا پیغام ملتاہو۔جیسے قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [المؤمنون: 1] (ایمان والے بامراد ہوگئے)
قرآن مجید میں جو دعائیں سکھائی گئی ہیں وہ امت کے رشتے کو تازہ اور توانا کرنے والی ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ کو تلقین کی گئی:
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ [محمد: 19]
(پس اے نبیؐ، خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، اور معافی مانگو اپنے قصور کے لیے بھی اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ذکر کی گئی:
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ [إبراهيم: 41]
(پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اُس دن معاف کر دیجیو جب کہ حساب قائم ہوگا)
حضرت نوح علیہ السلام کی دعا ذکر کی گئی:
رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ [نوح: 28]
(میرے رب، مجھے اور میرے والدین کو اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے، اور سب مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرما دے)
اہل ایمان کی دعا ذکر کی گئی:
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ [الحشر: 10]
(اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکھ، اے ہمارے رب، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے)
قرآن مجید کی تعلیم یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی خاص دعاؤں میں تمام اہل ایمان کے لیے دعا کو شامل کرے۔ جب آپ تمام مسلمانوں کے لیے دعا کریں گے تو آپ کے دل میں تمام مسلمانوں سے رشتہ مضبوط ہوگا۔ جس طرح آپ مسلم امت کے لیے دعا کریں گے اسی طرح ان کے لیے فکرمند بھی ہوں گے، ان کو لاحق درد کو محسوس بھی کریں گے اور ان کے مسائل کے حل میں اپنی خدمات بھی پیش کریں گے۔درج ذیل روایت کی سند پر کلام کیا گیا ہے، لیکن اس کے متن سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ہے۔
مَنْ لَا يَهْتَمُّ بِأَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ (معجم صغیر طبرانی)
(جو شخص مسلمانوں کو درپیش حالات کے لیے فکر مند نہ ہو وہ ان میں سے نہیں ہے)
قرآن و سنت کی تعلیمات کے نتیجے میں ایسا ہی ذہن تیار ہونا چاہیے جو پوری امت کے لیے فکر مند ہو۔
امت کے اختلافات کو ان کے حجم میں رکھا جائے
اگرکرتے کے بٹن کے لیے بنائے گئے چھوٹے سے کاج کو چیر کر دامن کے چاک کے برابر کردیا جائے تو نہ کاج کا مقصد حاصل ہوگا اور نہ کرتا کسی کام کا رہ جائے گا۔ امت میں موجود بہت سے اختلافات کے بارے میں ہمارا رویہ یہی ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے اختلافات بڑی بڑی تقسیموں کا سبب بن جاتے ہیں۔ امت کی قبا تار تار ہوجاتی ہے۔
عام طور سے امت کے درمیان اختلافات اس درجے کے نہیں ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے امت کا شیرازہ ہی بکھیر دیاجائے اور امت کے اندر بے شمار گروہ اور عصبیتیں وجود میں آجائیں۔ امت میں اتفاق کی بنیادیں بہت طاقت ور ہیں اور اختلافات ان کے مقابلے میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ لیکن جب اتفاق کی چیزوں کو بہت چھوٹا کرکے اور اختلافی امور کو بہت بڑا کرکے دیکھا جائے تو امت فرقوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ امت کے رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اختلافات کو بڑھا چڑھاکر نہ پیش کیا جائے اور نہ ہی اختلافی امور میں غلو سے کام لیا جائے۔
اس حوالے سے دینی مدارس میں موجود ذہن سازی کے نظا م پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عام طور سے مدارس میں اپنے مسلک و منہج کو ذہنوں میں راسخ کرنے پر زیادہ زور ہوتا ہے۔ اختلافات کی تعلیم پر زیادہ زور ہوتا ہے۔ دیگر مسالک و مناہج کے رد و ابطال کی تعلیم دی جاتی اور اس کی مشق بھی کرائی جاتی ہے۔ اس کےنتیجے میں وہ اپنے مسلک کے مبلغ و محافظ بنتے ہیں۔ دیگر مسالک کو اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو بھی دیگر مسالک ومناہج کے سلسلے میں ان کے اندر ایک توحّش تو پیدا ہوہی جاتا ہے۔ اگر مسلک و منہج کی تعلیم کے ساتھ امت کی وحدت اور امت کے رشتے کی اہمیت کو بھی ذہنوں میں راسخ کرنے کا شعوری انتظام ہوجائے، تو امید ہے کہ مدارس سے فارغ ہونے والے علمائے کرام امت کا شعور رکھنے، امت کی فکر کرنے اور پوری امت کی رہ نمائی پر قدرت رکھنے والے ہوں گے۔ امت کی فکر علما میں عام ہوگی تو عوام میں بھی فروغ پائےگی۔
امت کے رشتے کو مضبوط رکھنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اس رشتے سے سچا اور بے لوث تعلق رکھا جائے۔ مشترک مجالس میں امت کے اتحاد کی بات تو سبھی کرلیتے ہیں، تاہم امت سے مخلصانہ رشتے کی علامت یہ ہے کہ اپنے خاص حلقوں اور مجلسوں میں بھی اتحادِ امت کی ضرورت پر زور دیا جائے۔
وُجود افراد کا مجازی ہے، ہستی قوم ہے حقیقی
فِدا ہو مِلّت پہ یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا
(علامہ اقبال)
مشمولہ: شمارہ جنوری 2024