حدیث کی تشریعی حیثیت-20

سوال  (کالج کی ایک امریکی مسلمان طالبہ کی جانب سے):

آپ کی پہلی کتاب (Struggling to Surrender) میں حدیث کے بارے میں آپ کی بحث میرے لیے بہت مددگار رہی۔ اس کتاب نے میرے اسلام قبول کرنے میں درپیش بہت سی الجھنوں کا ازالہ کردیا تھا۔ اس نے مجھے بعض ایسے سوالات پر غور کرنے پر مجبور کردیا جن کے بارے میں اگرچہ میں جانتی تھی، مگر ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ مجھے آپ کا یہ اسلوب بے حد پسند آیا کہ آپ براہِ راست جواب پیش کرنے کے بجائے سوالات اٹھاتے ہیں۔ یہ میرے جیسے لوگوں کو خود تحقیق پرآمادہ کرنے کی ایک اچھی تکنیک ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی محسوس کرتی ہوں کہ حدیث اور تفسیر کے حوالے سے آپ کے مخصوص نظریات ہیں، خاص طور پر اس تناظر میں کہ آپ نے انھیں اپنی پہلی اور دوسری کتاب میں واضح طور پر استعمال کیا ہے۔لیکن چوں کہ آپ نے ان مراجع پر بحث کی ، اور پھر ان کا مکمل جواز پیش کیے بغیر انھیں استعمال بھی کرلیا، اس لیے میرے لیے بعض امور پر آپ کی منطق پر عمل کرنا مشکل ہو گیا۔ مجھے لگا کہ آپ نے ایسی احادیث استعمال کی ہیں جو آپ کے نزدیک قرآن سے مطابقت رکھتی ہیں۔ مجھے یہ بات دل چسپ لگی کیوں کہ مجھے احساس ہے کہ میں اسے پوری طرح نہیں سمجھ سکتی۔ میرے سوالات آپ سے یہ ہیں: اگر کلاسیکی علوم حدیث کا معیار نہیں ہیں تو آپ کے پاس کسی حدیث کو موضوع قرار دینے کے لیے کیا بنیادیں ہیں؟ احادیث کے فیصلے میں عقل کا کیا کردار ہے؟ کیا ہم احادیث کا محاکمہ کرنے کے لیے عقل کا استعمال کرسکتے ہیں جب کہ عقل ثقافتی طور پر تعصبات کی حامل ہوتی ہے؟ (میں جانتی ہوں کہ آپ نے اپنی پہلی کتاب میں اس سوال کا جواب دیا تھا، لیکن مجھے اس جواب پر اب بھی اطمینان نہیں ہے۔)

میری کتاب Struggling to Surrender میں حدیث و آثار، روایتی علومِ حدیث اور خاص طور پر امام شافعیؒ کے نظریات کا دفاع ہے۔ میرے خیال میں بعض قارئین نے اس سے یکسر الٹا تاثر لے لیا ، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ میں نے ابتدا میں روایات سے مایوسی کا اظہار کیا تھا—یہی مایوسی میری تحقیق کا محرک بنی تھی—اور چوں کہ میں نے اس میدان میں جدید مغربی نتائج کو حتی الوسع عمدہ طریقے سے پیش کیا (اور اس پر نقد کیا)۔ میری پہلی کتاب پر مجھے جو تاثرات ملے، اس سے مجھ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ مغربی ناقدین کے نتائج کے حوالوں پر میرے پیش کردہ اعتراضات کے باوجود، بہت سے قارئین ان  مغربی ناقدین کے دلائل پر حیران تھے—جنھوں نے اس سے قبل کبھی ایسے دلائل نہ سنے تھے—اور در حقیقت وہ کسی حد تک ان سے قائل بھی ہوگئے تھے۔ بہت سے قارئین کا خیال تھا کہ حدیث کی روایتی درجہ بندی ناقص ہے، حالاں کہ ان میں سے بہت سے لوگ اس طرح کے احساسات کا اعتراف نہیں کریں گے—اور مغربی ناقدین کے جو نتائج میں نے بیان کیے ان سے ان کے شبہات کو مزید تقویت ملی۔

جن دنوں میں نے اپنی پہلی کتاب لکھی تھی تب میرے پاس روایات کو قبول یا رد کرنے کا کوئی ذاتی نظام نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ میں نے اسے پیش نہیں کیا۔ میں نے زیادہ تر صحیح احادیث کو قبول کیا، حالاں کہ میرا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اعمال و آثارکے تاریخی سیاق و سباق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ میں نے ان روایتوں میں بیان کردہ ثقافتی اور تاریخی خصوصیات کو دہرانے یا نبی ﷺکے روزمرہ کی بعض رسمی پہلوؤں کی تقلید کرنے کے بجائے ان سے عمومی اخلاقی و روحانی سبق حاصل کرنا ضروری سمجھا۔ اس کے بعد سے حدیث کے بارے میں میرے خیالات میں کسی حد تک تبدیلی آئی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ آئندہ بھی رائے کی ایسی تبدیلی جاری رہے گی، خاص طور پر اگر میں بنیادی مراجع کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کر سکوں۔ یہی وجہ ہے کہ روایات کے بارے میں میرے رویے کی مندرجہ ذیل وضاحت کوئی سفارش نہیں ہے بلکہ صرف اس بات کی صراحت ہے کہ میں سرِ دست ان سے کس طرح نمٹتا ہوں۔

جہاں تک تشریعی روایات کا تعلق ہے (جو مسلمانوں کے اعمال پر اثر انداز ہوتی ہیں) تو میں شافعیؒ دور کے فقہا کے خدشات کا ذکر کر سکتا ہوں جو ان سنتوں کو قبول کرنے سے ہچکچاتے تھے جن پر قرآن میں کوئی متن موجود نہیں ہے، کیوں کہ یہ غیر ضروری اعمال و عقائد کو دین میں شامل کرنے کا بہت آسان سبب بن سکتے تھے۔ دوسری طرف، اگر رسول اللہ ﷺ نے ایسی ہدایات دی ہیں جن کی طرف قرآن مجید میں اشارہ نہیں کیا گیا ہے—اور آپ ﷺ نے یقینی طور پر ایسا کیا ہے—تو میں اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہوں گا۔ لہٰذا میں نے ان مستند روایات کو درست قرار دینے کا ایک سمجھوتے والا موقف اختیار کیا ہے جو بظاہر قرآن سے متصادم نہیں ہیں۔ لہٰذا مجھے شادی شدہ زانی کے رجم پر اعتراض ہے کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ قرآن کی آیت (النور: 2)سے متعارض ہے اور دوسری طرف اس کے حق میں سب سے فیصلہ کن دلیل حضرت عمرؓ سے منسوب ‘‘آیت ِرجم کی روایت ‘‘ہے جس سے یہ نتیجہ مستلزم ٹھہرتا ہے کہ قرآن مجید نامکمل ہے، جو میرے نزدیک قرآن مجید کی آیت (الحجر:6)سے متعارض ہے۔ایک اور مثال لیجیے۔ اگرچہ قرآن مردوں کے سونا پہننے کے بارے میں خاموش ہے، تاہم میں ایسا  نہیں کرتا کیوں کہ صحیح روایات میں ایسا کرنا ممنوع ہے اور یہ امتناع قرآن مجید کی روح سے متصادم نہیں ہے۔

جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں صحیح تشریعی روایات کی صداقت کو تسلیم کرتا ہوں جو قرآن کی روح سے متعارض نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں ان کی صداقت کا حلف لیتا ہوں بلکہ یہ ہے کہ میں ان کی صداقت کی دلیل کو تسلیم کرتا ہوں۔ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ ان میں سے بہت سی روایات رسول اللہ ﷺ کے صحیح اسوے سے لی گئی ہیں، لیکن میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ یہ تمام روایات اسی قدر و قیمت کی حامل ہیں، پھر بھی میں ان کے استعمال کا جواز امام شافعیؒ اور کچھ حد تک فضل الرحمن کے ذریعے پیش کردہ دفاع کی بنیاد پر رکھتا ہوں۔ علمِ حدیث پر اپنی بے بضاعتی کے اعتراف کے ساتھ، اطاعت رسول ﷺ کے لیے قرآن کے احکام، سرِ دست حدیث کی روایتی درجہ بندی کو سب سے بہتر سمجھتے ہوئے، میرے نزدیک ان تشریعی روایات پر عمل کرنا امام شافعیؒ کے الفاظ میں ‘‘لغوی معنوں’’میں درست ہے۔فضل الرحمن کی طرح میرا بھی یہ احساس ہے کہ وہ مستند اقوال جو اگرچہ رسول اللہ ﷺ تک نہیں پہنچتے، بہرحال اہمیت کے حامل ہیں، کیوں کہ وہ اسلام کے اس فہم کی نمائندگی کرتے ہیں جو مسلمانوں کی پہلی چند نسلوں سے ملتا ہے۔ یہ مؤخر الذکر آثار و معلومات، جو ابتدائی مسلمانوں کے اعمال و وظائف کی آئینہ دار ہیں، اس تناظر میں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں کہ اس دور کے مسلمانوں میں اسلام کے فہم کو پیش کرنے کا وسیع رجحان پایا جاتا ہے۔ یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ پہلی صدی کے مسلمان ان رواجوں پر عمل پیرا نہیں تھے جن کی اشاعت آج کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کی بہت سی مسلم برادریوں میں عورتوں کا کردار درونِ خانہ محدود کیا جارہا ہے، حالاں کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے آخری مراحل اور چاروں خلفائے راشدین کے زمانے کے واقعات سے متعلق متعدد احادیث موجود ہیں جن میں غیر محرم مسلمان مرد و خواتین کی مجالس منعقد ہوا کرتی تھیں۔ اس طرح کی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ عورتوں کو عام طور پر الگ تھلگ رکھنے کا حکم نہیں دے سکتے تھے یا یہ کہ پہلی اسلامی صدی میں عام طور پر اس پر عمل نہیں کیا جاتا تھا۔

غیر تشریعی روایات کے بارے میں میری اپروچ—جن میں سیرت (سیرت نبویؐ یا تاریخی آثار)، مذہبی روایات اور ترہیب و ترغیب (خوف اور ترغیب دلانے والی روایات) شامل ہیں—تشریعی روایات کے مقابلے میں کم لگی بندھی ہے اور زیادہ محفوظ ہے۔ اس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ اول الذکر میں بہت سی خیالی اور مضحکہ خیز روایات موجود ہیں۔ تاہم غیر تشریعی روایات سے زیادہ محتاط رہنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میرا ماننا ہے کہ اس قسم کی غلط روایات اسلام کی شناخت کو زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہیں، کیوں کہ وہ سنکی قسم کے افراد اور اُن افراد کو جو کفر و ایمان کے بیچ جھول رہے ہیں، تشریعی روایات کے مقابلے میں اسلام کی حقانیت اور پیغمبر اسلام کی صداقت پر سوال اٹھانے کے لیے زیادہ سنگین بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ درحقیقت زیادہ تر امریکی مسلمان، جنھوں نے اسلام کے بارے میں اپنے شکوک و شبہات کا ذکر مجھ سے کیا ہے، اپنے ان شکوک کو غیر تشریعی روایات ہی سے جوڑتے ہیں۔

میں خاص طور پر الہیات سے متعلق روایات کے حوالے سے محتاط ہوں کیوں کہ موضوع احادیث سے دین کی بنیادوں کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے تاہم باطل الہیات کے نظریات سے ہونے والا نقصان اس سے بھی بدتر ہو سکتا ہے۔ کسی شخص کےعقیدے کو کوئی شے نقصان نہیں پہچا سکتی یا کسی کو تلاشِ حق سے کوئی شے باز نہیں رکھ سکتی سوائے بے بنیاد اور باطل نظریات کے۔ میں انسانی تجربے سے باہر حقائق کے اظہار میں انسانی کلام کی فطری حدود سے واقف ہوں، جن روایات میں خدا کی ذات کی نوعیت اور اس کے افعال کے حوالے سے بات کی گئی ہے وہ بے حد علامتی ہوسکتی ہیں، اس لیے انھیں لفظی معنوں میں نہیں لیا جانا چاہیے۔ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ ہر الہیاتی روایت رسمی منطق کے نقطہ نظر سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوگی یا خدا کے بارے میں دیگر تمام ظاہر اثبات و دلائل سے مطابقت رکھتی ہوگی۔ لیکن اگر کوئی الہیاتی روایت مجھے مکمل طور پر غیر منطقی یا اخلاقی طور پر قابل اعتراض لگتی ہے تو میں یہ امکان کھلا رکھتا ہوں کہ یہ غلط طریقے سے بیان کی گئی ہوگی—کیوں کہ الہیاتی امور کو سمجھنا اتنا سہل نہیں ہے—یا پھر یہ کہ یہ حدیث سرے سے نادرست بھی ہوسکتی ہے۔ ایسی روایت کی ایک مثال مسئلہ قدر کی مندرجہ ذیل وضاحت ہے جو میرے نزدیک قرآن مجید میں پیش کردہ ایک رحیم، عادل اور منصوبہ ساز خالق کے مرقع سے یکسر متعارض ہے:

‘‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خدا نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ پھر اس نے اپنے دائیں ہاتھ سے ان کی پیٹھ پر تھپتھپایا تو نسلِ آدم میں سے کچھ باہر آگئے۔ اللہ نے فرمایا: ‘‘میں نے انھیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور ان کے اعمال اہل ِجنت والے ہوں گے۔’’ پھر اللہ نے آدم کی پیٹھ پر ایک بار اور تھپتھپایا اور ان کی باقی نسل باہر آگئی۔ اللہ نے فرمایا: ‘‘میں نے انھیں دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے اور ان کے اعمال دوزخیوں کے اعمال ہوں گے۔’’ ایک صحابی نے عرض کیا: ‘‘یا رسول اللہ ﷺ تو پھر اعمال کی کیا حیثیت ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اسے اہل جنت کا طرز عمل عطا فرماتا ہے تاکہ وہ اہل جنت کے اعمال میں سے کسی ایک عمل پر مرے اور اس کے ذریعے وہ جنت میں داخل ہوجائے۔جب اللہ کسی بندے کو دوزخ کے لیے پیدا کرتا ہے تو اسے اہل دوزخ کا طرزِ عمل دیتا ہے تاکہ وہ دوزخ والوں کے اعمال میں سے کسی ایک پر مرے اور اس سے وہ دوزخ میں چلاجائے۔’’(موطا امام مالک، کیگن پال انٹرنیشنل، ص 380)

ایسے تاریخی پہلو بھی موجود ہیں جو الہیاتی روایات کے حوالے سے محتاط رہنے کی وکالت کرتے ہیں۔ ہمارے پاس پہلی اسلامی صدی سے تعلق رکھنے والی زیادہ مذہبی دستاویزات تو موجود نہیں ہیں، تاہم اس دور سے منسوب متعدد الہیاتی تحریریں باقی ہیں۔ جن تحریروں کو سب سے زیادہ توجہ حاصل ہوئی ان میں سیرت سالم بن ذکوان، خلیفہ عبدالملک کے نام ابن عباد کے دو مخطوطات، حسن بن محمد کی کتاب الارجاء، حسن بصری کا رسالة فی القدر، عمر بن عبد العزیز (عمر ثانی) کے قدریہ مخالف فرمان اور حسن بن محمد کے سوالات شامل ہیں۔ان مناظرانہ تحریروں کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں شاذ ہی احادیث رسول کا حوالہ دیا گیا ہے، حالاں کہ ان میں بھرپور قرآنی حوالے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ابن عباد کے پہلے مخطوطے، کتاب الارجاء، رسالة فی القدر اور سوالات حسن بن محمد میں کوئی روایتِ حدیث منقول نہیں ہے، اور سیرت سالم اور عمر بن عبدالعزیزؒ کی تحریر میں بالترتیب ایک اور دو حدیثیں منقول ہیں۔ ابن عباد کا دوسرا مخطوطہ اپنے آپ میں منفرد میں ہے جو ‘‘واضح طور پر حدیث سے بے نیازی کو ظاہر کرتا ہے۔’’ ان ابتدائی تصانیف میں بہت سے موضوعات پر بحث کی گئی ہے جن میں مسئلہ جبر و قدر، خدا کا علم اور اس کا زمان کے ساتھ تعلق، ایمان اور اعمال کے درمیان تعلق، مسئلہ خلق قرآن اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والے مسلمانوں کے ایمان کا درجہ وغیرہ  شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تحریروں میں بطورِ دلیل  بہت کم احادیث ہونے سے پتہ چلتا ہے—اگرچہ یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی—کہ بہت سی ایسی روایات جو براہ ِراست اپنے مندرجات پر اثر انداز ہوتی ہیں، پہلی اسلامی صدی کے کچھ عرصے بعد وجود میں آئی تھیں۔ 

مسلم مورخین اور فِرق و ملل کے تاریخ نویس یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ عظیم مذہبی تنازعات اس سیاسی خلفشار کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے جس نے اسلام کی پہلی صدی کو متاثر کیا تھا۔مسئلہ قدر پر تنازعہ اموی خلفاء کا دفاع کرنے والوں کے ان دعووں سے شروع ہوا کہ ان کی حکومت خدا کی طرف سے پہلے سے متعین تھی۔ اس کے بعد اس بحث نے مسئلہ قدر سے آگے بڑھ کر خدائی علم پر تنازعہ کی شکل اختیار کرلی۔ یہی بات خلق قرآن کے تنازعے کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ یہ دلیل دی گئی تھی کہ قرآن کی ابدیت ثابت کرتی ہے کہ قرآن مجید میں جن بہت سے واقعات کا ذکر ہے وہ پہلے سے طے شدہ تھے۔ایمان اور اعمال کے درمیان تعلق اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب مسلمانوں کے عقیدے کی حیثیت کے بارے میں اختلافات شہادتِ عثمانؓ کے بعد کے فتنے اور مخالفین بنو امیہ کے ان دعووں سے پیدا ہوئے کہ وہ بڑے گناہوں کے مرتکب تھے۔ اگر ان سیاسی تنازعات سے یہ بحثیں بھڑکی تھیں تو یہ دیگر خلفاء کے دور میں بھی جاری رہی ہوں گی۔ لیکن نکتہ پیدا ہوتا ہے، اگر رسول اللہ ﷺ نے ان موضوعات پر اتنی بار صراحت کی ہوتی جتنی کہ ان روایات کی تعداد سے معلوم ہوتی ہے، تو یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد اتنی جلدی یہ تنازعات پیدا نہ ہوتے، یا کم از کم اس کے فوراً بعد ہی ان کا سدباب کردیا جاتا۔ 

علوم حدیث میں عقل کے مقام پر مختصر تبصرہ کرنے سے پہلے میں سمجھتا ہوں کہ حدیث و آثار کے لٹریچر کے بارے میں اپنے موجودہ موقف کا اعادہ کردینا چاہیے۔ سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میں غیر صحیح روایات کو مکمل طور پر مسترد نہیں کرتا، کیوں کہ میرا ماننا ہے کہ ان میں اکثر  میں ایسی حکمتیں مضمر ہیں جو مسلم امت کے آغاز، نیز بعض اوقات خود رسول اللہ ﷺ تک جاتی ہیں، البتہ تقریباً تمام مسلمانوں کی طرح میں بھی مستند روایات کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔اگر کسی روایت کو صحیح قرار دیا جائے تو میں اس کی قرآن سے مطابقت پر غور کرتا ہوں۔ اگر ایسا لگے کہ یہ قرآن کے متن یا اس کی روح سے متعارض ہے تو میں خود کو اس کا پابند نہیں سمجھتا لیکن مجھے اس زمرے میں بہت کم روایات کا علم ہے۔ اگر کوئی صحیح تشریعی روایت مندرجہ بالا معیار پر پورا اترتی ہے تو میں اس روایت کے تاریخی سیاق و سباق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر عمل کرتا ہوں۔ میں غیر تشریعی روایات کے حوالے سے کسی حد تک زیادہ محتاط ہوں، جو میرے خیال میں کسی فرد کے تلاشِ حق  کے سفر کو بہت نقصان پہنچا سکتی ہیں اور جن میں بہت سی موضوع روایات شامل ہیں۔ ایسا معاملہ خاص طور پر الہیاتی روایات و آثار کے ساتھ ہے۔ اگر کسی غیر تشریعی روایت کو صحیح قرار دیا گیا ہے اور یہ قرآن سے واضح طور پر متعارض نہیں ہے، تاہم اس کے باوجود عقلی یا اخلاقی بنیادوں پر مشکوک معلوم ہوتی ہے، تب بھی میں خود کو اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں سمجھتا۔ میرا خیال ہے کہ سوال پوچھنے والے کی مراد ‘‘عقل’’ سے تنقیدی طرزِ فکر (critical thinking) ہے (یعنی وہ منضبط دانش ورانہ طریقِ نقد جس میں تحقیق اور تاریخی سیاق و سباق کا علم شامل ہوتا ہے اور اس پر نیت غیر جانب دارانہ محاکمے کی ہوتی ہے)۔ سب سے پہلی بات جس کا اعتراف کرنے کی ہمیں ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ قدیم محدثین اپنے مطالعہ کے میدان کو ایک سائنس کے طور پر دیکھتے تھے اور انھوں نے آثار و روایات کو ایک ایسی سخت تاریخی کسوٹی پر کس کر پرکھا تولا جو اپنے وقت سے کہیں آگے تھی۔ اس طرح، عقل نے ان کی تحقیق میں ایک لازمی کردار ادا کیا۔ اب جیسا کہ سوال پوچھنے والے کا کہنا ہے کہ ہمارا استدلال اکثر نامکمل ہوتا ہے اور نہ صرف ثقافتی بلکہ سماجی، سیاسی، مسلکی، نفسیاتی وغیرہ بہت سی جانب داریوں اور تعصبات کے تحت کام کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حدیث اور اس معاملے میں تمام اسلامی علوم کے تنقیدی مطالعے کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ کسی بھی سائنس میں—خاص طور پر اتنی پیچیدہ اور جس کے مراجع باہم اتنے متصادم ہوں جتنے کہ حدیث کے ہیں— کیا ہم ماضی یا حال کے کسی بھی محقق کے نتائج کو یونہی بغیر نقد کے قبول کرسکتے ہیں۔ چوں کہ علما کی کوئی نسل خطا سے مبرا نہیں ہے، اس لیے ماضی کے نتائج کا تنقیدی جائزہ لینے اور ان پر نظرثانی کرنے کی ذمہ داری سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واضح طور پر دیانت دار ماہرین کا فریضہ ہے، جب کہ ہم میں سے باقی لوگ ان کی مساعی اور دیانت داری پر اعتماد کرتے ہیں، لیکن جب ان کے نتائج ہماری عقل یا احساس ِحق کے خلاف ہونے لگیں، جن سے ہمیں یہ لگےکہ ان پر عمل کرنے سے صداقت اور خدا سے ہمارے تعلق سے کسی طرح کا سمجھوتا ہوگا، تو ہم ان سے یہ گزارش کرنے پر مجبور ہوں گے کہ وہ اپنا مقدمہ ثابت کریں۔ یہاں تقاضا انکسار اور دیانت داری کا ہے، کیوں کہ جب ہم ان کی وضاحتوں سے خود کو مطمئن نہیں پاتے تو ہمیں ان کی دلیل کی کم زوری اور ہماری اپنی علمی بے بضاعتی یا فکری استحکام کی کمی کی وجہ سے کم فہمی کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک عالم کی کم زور دلیل لازماً اس کے دعوے کا رد نہیں کرتی ہے، کیوں کہ کوئی دوسرا عالم اس کا بہتر دفاع کرسکتا ہے۔ لہذا میں حق کی تلاش کو ایک مستقل اور اجتماعی فعل کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اگرچہ تمام مسلمان اس کوشش کے لیے خودکو وقف کرنے کے وسائل اور صلاحیت نہیں رکھتے، تاہم امریکی مسلم برادری کے درمیان علم کی صورتِ حال ایسی ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے جو خود کو اس کام کے لیے وقف کرسکیں۔ ہمیں تحقیق کے جدید طریقوں میں تربیت یافتہ اور قدیم اسلامی علوم کے بہت سے انتہائی پرعزم محققین کی ضرورت ہے، تاکہ وہ مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ان نسلوں سے بات کرنے کے قابل ہوسکیں، جو خود کو مسجد کی گفتگو سے الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی کمیونٹی کے اندر رواداری، آزادانہ تحقیق و تفحص کا ذوق اور اظہار ِرائے کی آزادی کو فروغ دے کر ان کا استقبال کرنا ہوگا اور آگے کے مشکل کام کے لیے زمین بھی تیار کرنی ہوگی۔ اس کی ابتدا ہم اس بات سے کریں کہ ہم اپنے نوجوانوں کی بات بغور سنیں، خاص طور پر ان کے سوالات، مسائل اور مذہب اور کمیونٹی پرتحفظات کے حوالے سے ان کے خیالات جانیں، اور پھر سوچ سمجھ کر اور کھل کر ان پر تبادلہ خیال کریں۔ کیوں کہ اگر ہم کم از کم اتنا بھی کرنے میں ناکام رہے تو یہ بات طے ہے کہ امریکی مسلمانوں کی ایک اور نوجوان نسل کا بڑاحصہ مذہب بیزار ہو جائے گا۔ 

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223